- Hits: 64124
اورنگزیب یوسفزئی مئی 2020
سانحہِ کربلا، یا ایک دیومالائی داستان
اُمت مسلمہ کے بڑے فکری مغالطے
تلاشِ حقیقت ایک نہایت غیر جانبدار جِرح اور بے رحم استکشاف کا تقاضا کرتی ہے۔ اور اس انداز میں کی گئی تحقیق اگر نہایت متنازعہ مذہبی موضوعات پر کی جائے تو نتیجے میں سامنے آنے والے تحیر خیز اور ہوش رُبا انکشافات بہت سے قارئین کے پہاڑ جیسے مضبوط عقائد میں دراڑیں ڈال سکتے ہیں۔ نیزمذہبی جذبات کو سخت مجروح اور انگیخت بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ تحقیق کی ضرورت ہمیشہ متنازعہ اور مشتبہ حیثیت کے حامل امور کے ضمن میں ہی محسوس کی جاتی ہے۔ فلھٰذا التماس ہے کہ زیرِ نظر تحقیقی مقالے کو کسی بھی مسلکی، تعصبی، یا متہّمی انداز میں نہ لیا جائے۔ راقم السطور نہ سُنّی ہے اور نہ شیعی مسلک کا پیروکاراور نہ ہی کسی بھی انسانی گروہ سے برسرِ پیکار۔ کافر و مسلم اور ملحد و دہری جیسے القابات سے اِسے کوئی واسطہ ہے نہ سروکار ۔ احترامِ آدمیت اس کا مسلک ہے اور سچائی کی جستجو اس کا نصب العین۔ قرآن اس کی واحد انمول کتابِ ہدایت ہے۔ اوراسلامی تاریخ کو کھنگال کر اس کی ہنوز پوشیدہ سچائیاں کھوج نکالنا اِس کا میدانِ تخصّص ۔ دریں احوال، اس علمی فورم میں ہر مسلک سے متعلق وہ محترم دوست شریک ہو سکتے ہیں جوحاضر و موجود سے بیزار ہوں ، تاریخ کے گہرے پانیوں میں غوّاصی کے شوقین ہوں اور اصحابِ علم واسرار کی صفت سے موصوف ہونا ایک خوبی مانتے ہوں۔ یہاں کسی کی عزت و احترام میں کوئی فرق نہ آنے دیا جائے گا۔ کیونکہ علم اور علمی تحقیق کا نہ کوئی مسلک ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی انسان کی اکلوتی میراث ہے ۔ جو کُچھ بھی سپردِ قلم کیا گیا وہ مختلف تواریخ و ماخذات سے لیا گیا ہے۔ راقم کے ذہن سے کوئی اختراع نہیں کی گئی۔ واللہُ بکُلّ شیئی علیم۔
واقعہِ کربلا اُمتِ مسلمہ کے بڑے فکری مغالطوں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے، اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت یقین بھی کرتی ہے، کہ کربلا نامی مقام پر نبی پاک کے نواسے حضرت حسین کو اُن کے اہل و عیال سمیت اموی خلیفہ یزید کے ایما پر مسلح فوج نے گھیر لیا اور چند بچوں اور خواتین کے سوا سبھی کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ قبل ازیں حضرت حسین کو ملوکیتی خلیفہ ِ دوم ، یزید ابنِ معاویہ کے خلاف خروج کے لیے عراق کے شہر کوفے کی جانب عازمِ سفر ہو کر اہلِ کوفہ کی سربراہی کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ لیکن پھرپے در پے دھوکہ دے کر یزید کی فوج کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ مسلح حکومتی فوج نے آپ کو واپس بھی نہ پلٹنے دیا ۔ چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا، اور مذاکرات کے نتیجے میں آپ کو مدافعتی جنگ پر مجبور کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو بمعہ آپ کے متعدد رفقاء انتہائی بربریت کے ساتھ محرم 61 ہجری میں شہید کر دیا گیا۔
متعدد متعلقہ تحریروں میں اس اہم واقعےکے بیانات کی جزئیاتی تفاصیل میں جس قدر تضادات، ابہام ، تشکیک، دیومالائی حکایتیں ، خارقِ عادات حرکات و معجزاتی قصّے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں، اُن کی روشنی میں جو واحد منطقی نتیجہ اور ماحصل ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ یہ ہے، کہ یہ ایک ایسا من گھڑت واقعہ ہے جس پر کھُل کر خامہ فرسائی کرنے کی اجازت حاصل رہی ہے۔ اور ہر ہما شما نے اپنی ذہنی سطح کے مطابق اور اپنے اعتقادات کے زیرِ اثر جتنا بھی بڑھا چڑھا کر مبالغہ آمیزی کرنی چاہی، اُس میں کوئی دریغ نہیں کیا گیا۔ صرف ایک ہی مثال دینا کافی ہے۔ میدانِ کربلا میں جو لشکر حضرت حسین کی مختصرفیملی کے مقابل "جنگ" کرنے کے لیے بھیجا گیا، مختلف کُتب کے مختلف فاضل مصنفین نے اُس کی تعداد ڈھائی تین ہزار سے شروع کرتے ہوئے، اورعقل و شعور کی ہر حد کو پار کرتے ہوئے، 2 کروڑ تک بیان کی ہے۔ حالانکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی طاقتور سے طاقتور دشمن کے مقابلے میں کبھی اور کسی زمانے میں بھی، کسی بھی قوم یا سلطنت کی جانب سے، دو کروڑ کی تعداد میں کوئی فوج اکٹھی نہیں کی جا سکی۔
خارقِ عادات اور کرشماتی واقعات کی بھرمار اس انداز میں کی گئی ہے کہ حضرتِ حسین کا جسم تیروں سے جھلنی کر دیا گیا، ایک تیر حلقوم کے بھی پار ہو چکا، لیکن پھر بھی آپ کو شہید کرنے کے لیے انجامِ کار گردن کو ہی ڈرامائی انداز میں تن سے جدا کرنا پڑا۔ تب تک آپ اپنے ہر زخم کا خون چُلّو میں بھر کر آسمان کی جانب اُچھالتے رہے، اور وہ خون زمین کی جانب واپس نہ آیا۔ نہ جانے کہاں چلا گیا۔ دریا کے کنارے خیمہ زن تھے، چند فٹ زمین کھودنے پر پانی نکل آنا لازمی تھا، لیکن عورتوں اور بچوں سمیت پانی کے قحط کا شکار رہے۔ اکیلے بوڑَھے آدمی گھوڑے پر سوار جدہر بھی حملہ کرتے، دشمن کی فوج کے پرے کے پرے اُکھاڑ پھینکتے۔ ہر زخم لگنے پر آسمان کو دیکھتے، اللہ سے فریاد کرتے، اور دشمن کھڑا یہ منظر دیکھتا رہتا۔ پھر آپ کے گھوڑے نے جو معجزاتی کارہائے نمایاں دشمن کے خلاف انجام دیے، اُن کے ذکر سے بھی کتابیں بھر دی گئیں۔ یہاں تک بے تُکی چھوڑی گئی کہ وہ گھوڑا نبی پاک صلعم سے آپ کو ورثے میں حاصل ہوا تھا۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ ہر فاضل مصنف نے اپنے اپنے تصورات کو کام میں لاتے ہوئے اپنی تحریر میں اپنا ہی انفرادی رنگ بھر دیا اور بیانیے کا انداز یہ رہا گویا کہ ہر فاضل مصنف موقع پر موجود ہر واقعے کا چشمِ دید گواہ تھا اور ہر گفتگو کا ہر ڈائیلاگ بذات خود سُن رہا تھا اور تفصیل کے ساتھ نوٹ لے رہا تھا۔ یہ سب وہ کاروائی ہے جسے فقط عقل سے ماوراء اندھی مذہبی عقیدت کے تحت ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ فلھٰذا واقعہِ کربلا اپنے بیانیوں کی روشنی میں فکر و شعور کے معیار پر ایک حقیقت کے بجائے ایک فکشن کے طور پر لیے جانے کا متقاضی پایا جاتا ہے۔ درج بالا مواد مذکورہ طول طویل بیانیوں کی صرف ایک آدھ جھلک ہے جو صرف مثال کے طور پر سامنے لے آئی گئی ہے تاکہ یہ جان لیا جائے کہ مذہبی انتہا پسندی، خواہ کسی فرد، گروہ یا فرقے کی جانب سے ہو،ہمیشہ عقل و شعور کی حدود و قیود سے آزاد ہوا کرتی ہے۔
مقتلِ الحسین
لوط بن یحیٰ ابی مخنف وہ واحد شخصیت ہے جس نے پہلی مرتبہ داستانِ کربلا "مقتل الحسین" کے نام سے وضع کر کے اہلِ تشیع کے ہاتھوں میں تھمائی ہے۔ یہ ان کی سب سے متبرک کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسی کی داستانیں محرم میں تلاوت کی جاتی ہیں۔ مورخ ابنِ جریر طبری نے اسی کی داستانوں کو اپنی تاریخ کی زینت بنایا ہے۔
حافظ ابن حجر "لسان المیزان" اور حافظ ذہبی "میزان الاعتدال" میں لکھتے ہیں، یہ شخص مورخ ہے، مصنف ہے، اور اسے ابو حاتم وغیرہ نے متروک قرار دیا ہے۔ دارقطنی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں "یہ کچھ نہیں" [لا شئی]۔ ابنِ عدی کہتے ہیں کہ یہ تو ایک آگ پھیلانے والا شیعہ ہے اور شیعوں ہی کا مورخ ہے۔ عبدالرحمان ابن ابی حاتم کا بیان ہے کہ میرے والد ابو حاتم رازی فرماتے تھے ابو مخنف متروک ہے [الجرح و التعدیل ج۷، ص۱۸۲]۔
کچھ بیانات کے مطابق اس کی وفات ۱۷۰ ہجری کے لگ بھگ ہوئی۔ اور کچھ دیگر کے مطابق 157 میں فوت ہوا۔ کربلا کے جس واقعے کو یہ بڑی تفصیل اور وثوق سے بیان کرتا ہے اُس وقوعے کے وقت اس کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی۔
ہمارے ائمہِ جرح و تعدیل اپنی غیر جانبداری اور عرق ریزی کی بنا پر ایک خاصہ غیر متنازعہ پروفائل رکھتے ہیں اور بے شمار جھوٹی روایات اور کذاب و ضعیف راویان کی حقیقت کا پردہ انہی نے چاک کیا ہے۔ انہی کی تحقیق کی مدد سے ہم تاریخ کی وہ اغلاط چھانٹی کر کے الگ کرتے ہیں جن کے ماخذات روایات ہوتی ہیں، اوراس طرح اس کی تطہیر کر تے ہیں۔ ورنہ ہم اندھیرے ہی میں رہتے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں لوط بن یحییٰ ابی مخنف کس قبیل کی کرشماتی شخصیت تھی۔
لوط بن یحییٰ ابی مخنف
لوط بن یحییٰ ابی مخنف کی پیدائش کے بارے میں اختلافات ہیں، یعنی 689 عیسوی مساوی بہ 71 ہجری بھی کہا جاتا ہے اور 709 عیسوی بھی ۔ جو لگ بھگ ہجری سال 91 کے مساوی ہوتی ہے ۔ ویکی پیڈیا کے مطابق اس کی سنہِ وفات 156 ہجری [774/775 عیسوی] ہے۔ 85 سال کی عمر پائی۔ کوفہ میں آباد ازد قبیلہ سے تعلق تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس کے پڑ دادا کا نام مخنف ابن سُلیم تھا جو ازد قبیلے کے سردار تھے اور39 ہجری [مساوی بہ 657 عیسوی] میں صفین کی لڑائی میں حضرت علی کی فوج میں اپنے قبیلے کے کماندار تھے۔ لوط کے دادا محمد بن مخنف صفین کے موقع پر 17 سال کی عمر میں تھے اور اُن کی اس معرکے کی رپورٹیں، مبینہ طور پر، ابی مخنف نے ریکارڈ کر لی تھیں۔ اُس نے ابن العشعث کی زیرِکمان سنہ 700 میں بنو امیہ کے خلاف بھاری عراقی بغاوت کا مشاہدہ کیا اور 750 میں عباسیوں کے ہاتھوں امویوں کا تختہ اُلٹتے دیکھا۔ وہ تفسیرِ ابن عباس، یا تفسیرِ کلبی کے بدنامِ زمانہ وضّاع محمد ابن صائب الکلبی کا دوست تھا۔ اور اُسی کلبی کے بیٹے ہشام ابن الکلبی کے ذریعے ابی مخنف کی تحریروں کی جلدیں عوام تک پہنچائی گئیں۔ یہی ابی مخنف عراق کی سیاست و معاشرت کے بارے میں طبری کی تاریخ کے بڑے ماخذات میں سے ایک ہے۔ طبری کا دوسرا بڑا ماخذ مغازی محمد ابنِ اسحاق یسار ہے۔ یعنی طبری کے بارے میں ہمارے اساتذہ اور کئی دیگر سکالرز کی وہ تحریریں بے بنیاد ہیں جن میں کہا گیا کہ موصوف نے گھر بیٹھ کر کاغذ کے کسی ایک ٹکڑے، یعنی کسی بھی سابقہ تحریر کے بغیر اپنی تاریخ الامم و الملوک لکھ ماری [علامہ پرویز، ڈاکٹر شبیر احمد و دیگر]۔ عقلِ سلیم کی رُو سے ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ بلاذری اور طبری نے اپنی تحریروں میں اِس کے حوالہ جات بھی دیے ہیں۔ بعد ازاں کچھ نمایاں سکالروں نے جن میں الذھبی، یحییٰ ابن معین، دارقطنی اور ابو حاتم شامل ہیں ، اسے تنقید کی زد میں لیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کی تحریروں کا بڑا فوکس حضرت علی اور اُن کے بیٹے حسن اور حسین ہی رہے ہیں۔ اسی بنا پر دیگر سکالروں نے اسے خالص شیعی رحجانات کا حامل ثابت کیا ہے۔ امام یحییٰ ابن معین، ابو حاتم، ابن عدی اور حافظ ذھبی جیسے معتبر ائمہِ جرح و تعدیل اُسے نہایت ضعیف قرار دیتے ہیں۔ امام ابنِ عدی کا موقف ہے کہ وہ ایک انتہا پسند شیعہ تھا جو صرف اہلِ تشیع کے بارے میں تاریخ اور معلومات ریکارڈ کرتا تھا۔ اپنی تاریخ الاسلام میں حافظ ذھبی اس کا ذکر "رافضی" کے لقب سے کرتے ہیں۔
درجِ بالا شہادات کی بنا پر ابی مخنف کے عمومی بیانات ضعیف ہی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اور خاص کر حضرت حسین کی شہادت کے بارے میں لکھے گئے بیانیے تو ناقابلِ قبول قرار دیے گئے ہیں۔ اُس کی مشہور کتاب مقتل الحسین کے علاوہ اُس کی دیگر تحریروں میں الشوریٰ [حضرت عثمان کے انتخاب کے بارے میں کتاب[، کتاب الصفین [صفین کے معرکے کے بارے میں کتاب] اور کتاب مقتل الحسن وغیرہ شامل ہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے کام کی بنیاد محمد ابن قیس، حارث ابن عبداللہ ابن شریک الامیری، عبداللہ ابن عاصم اور ضحاک ابن عبداللہ، ابو جنب الکلبی وغیرہ کی چشمِ دید گواہی پر رکھی ہے۔
مُذکّرہ حُر بن عبد الرحمان
فلوریڈا سے ڈاکٹر شبیر نے اپنی مشہورکتاب حقیقتِ کربلا میں اندلس کے حر بن عبدالرحمان کی آثارِ قدیمہ سے برآمد ہونے والی ڈائری، مذکّرہ حُر بن عبدالرحمان، کے حوالے سے یہ روشنی ڈالی ہے کہ مقتل الحسین کے بیانیے کے برعکس حضرت حسین اپنی وفات کے وقت عراق کے گورنر کی حیثیت سے کوفہ کے قصرِ امارہ میں اپنے سرکاری فرائض ادا کرنے میں مصروف تھے۔ اُن کی امارت کا دور عراق جیسے فتنہ و فساد کے مرکز میں ایک مثالی امن و امان کا دور تھا۔ عوام الناس خوشحال تھے اور خوشیوں کے شادیانے بجاتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ دستاویزی ثبوت ایک ناقابلِ تردید شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ راقم کی بعد ازاں کی تحقیق کے مطابق یہ حُر بن عبدالرحمان الثقفی اُندلس کی اُموی حکومت کے ایک فوجی کماندار تھے جنہوں نے بعد ازاں اندلس کے اموی صوبے پر گورنر کی حیثیت سے 716 اور 718 کے درمیان حکومت کی تھی۔اس طرح حُر بن عبد الرحمان کی ڈائری وثاقت کی سند رکھتی ہے۔
تدفین کے بارے میں تاریخی حوالے
روایات کے مطابق حضرتِ حسین کا جسدِ مبارک بغیر سر کے ہی دفن کر دیا گیا [طبری ، اخبار الطّوال، ]۔ سر کو ابنِ زیاد کے ملاحظے کے لیے کوفہ بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں آپ کا سر اور بچے کھچے اہلِ بیت کو ابنِ زیاد کے معائنے کے بعد شام بھجوا دیا گیا۔ یزید ابنِ معاویہ کو مکافاتِ عمل سے بچانے کی ایک بھونڈی کوشش کی گئی۔ کہا گیا کہ یزید کو جب اِس حادثے کہ خبر ملی تو اُس کے آنسو نکل آئے، کیونکہ اُس نے "صرف بیعت لینے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہ دی تھی"۔ اُس نے کہا کہ اگر تم لوگ حسین کو قتل نہ کرتے تو میں تُم سے زیادہ خوش ہوتا ؟؟؟[ یعنی اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ خوش تو اب بھی تھا، صرف کہنے کا انداز یہ رکھا گیا کہ اگر قتل نہ کرتے تو "زیادہ" خوش ہوتا]۔ ابنِ سمیّہ [ابنِ زیاد] پر خدا کی لعنت ہو، اگر میں موجود ہوتا تو حسین کو معاف کر دیتا، خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اب یزید ابنِ معاویہ کے اسی تاریخی مکالمے کا تاریخ ہی سے تضاد ملاحظہ فرمائیے۔ طبری لکھتا ہے [ظاہر ہے کہ مقتل الحسین ہی کے حوالے سے] کہ پھر یزید نے حضرت حسین کے سر کی طرف اشارہ کر کے درباریوں سے کہا کہ ان کا یہ انجام اس لیے ہوا کہ یہ کہتے تھے کہ ان کے باپ علی میرے باپ سے، ان کی ماں فاطمہ میری ماں سے، ان کے جدّ رسول اللہ میرے جد سے بہتر اور وہ خود مجھ سے زیادہ خلافت کے مستحق تھے۔ سُو ان کے باپ اور میرے باپ نے خدا سے محاکمہ چاہا، اور دنیا کو معلوم ہے کہ خدا نے کس کے حق میں فیصلہ دیا۔ باقی، ان کی ماں، میری عمر کی قسم، میر ی ماں سے بہتر تھیں اور کوئی مسلمان جو خدا اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے ،کسی کو رسول اللہ کے برابر نہیں سمجھ سکتا۔ مگر افسوس انہوں نے "اللٰھُمّ مالکُ المُلک،،،، کا خدائی فرمان نہیں پڑھا تھا!!!
امام حسین کا مقبرہ بعد ازاں کربلا میں اُن کے مدفن پر تعمیر کیا گیا۔ 850 عیسوی میں عباسی خلیفہ المتوکل نے یہ مقبرہ منہدم کروا دیا تاکہ اہلِ تشیع کی زیارتوں کو روکا جا سکے۔ تاہم زیارات پھر بھی جاری رہیں۔ البتہ امام حسین کے سرِ مبارک کے بارے میں مختلف داستانیں تواریخ میں ثبت ہیں۔
حضرت حسین کی کربلا میں شہادت ہی کے ضمن میں آپ کے سرِ مبارک کی داستان بھی کسی دیومالائی حکایت سے کم نہیں پائی گئی۔ کہا گیا کہ حضرت حسین کے بیٹے علی نے عاشورہ سے چالیس دن بعد آپ کا سرِ مبارک شام سے واپس لا کر جسدِ خاکی کے ساتھ جوڑ دیا۔ اہلِ تشیّع اس چالیسویں دین کو اربعین کے نام سے مناتے ہیں۔ شیعی عقیدے کے مطابق ایک امام کو ایک امام ہی اپنے ہاتھوں سپردِ خاک کرتا ہے۔ حضرت حسین کا جسدِ خاکی اُن کے بیٹے علی زین العابدین کے ہاتھوں تدفین کے مراحل سے گذرا۔ لیکن تاریخ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کربلا کی لڑائی کے بعد یزید کی افواج نے حضرت حسین کا سر ایک نیزے پر بلند کیا۔ پھر یزید کے دربار میں پیش کیے جانے کے بعد یہ سر اموی مسجد کی اندرونی دیواروں میں سے ایک میں بنی محراب کے نیچے 200 سال تک مدفون رہا۔ جب عباسیوں نے امویوں کا تختہ پلٹ دیا تو انہوں نے حضرت حسین کے سر کو سرکاری تحویل میں ہی رہنے دیا۔ اُس ہی مقام پر سرِ مبارک کی زیارت جاری رہی۔ عباسی خلیفہ المقتدر [المتوفی 295/908] نے کئی بار کوشش کی کہ اس کی زیارت کو روکا جا سکے، لیکن ایسا نہ کر سکا۔ آخرِ کار اُس نے خفیہ طور پر آپ کے سر کو موجودہ اسرائیل کے قدیمی شہر عسقلان [Ashkelon] منتقل کر دیا۔ فاطمی خلیفہ العزیزباللٰہ نے 985 میں بغداد میں تخت نشین اپنے ہمعصر خلیفہ کے ذریعے اِس کا سُراغ لگایا۔ ایک عربی زبان کے مخطوطے کے مطابق ، جو ہیبرون [Hebron] کی ابراہیمی مسجد کے فاطمی منبر پر کندہ ہے، فاطمی وزیر بدر الجمالی نے خلیفہ المنتصر باللٰہ کے تحت فلسطین کو فتح کیا اور ہجری 448 میں حضرت حسین کے سر کو دریافت کیا۔ اُس نے اس کے مدفن کی جگہ پر ایک منبر، ایک مسجد اور مشہد تعمیر کروایا۔ اس یادگار تعمیر کو عسقلان کی شاندار ترین عمارت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ آپ کے سر کے اس مدفن کی کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی ، بلکہ آئندہ آنے والے حوادث سے بھی پُر ہے جن کے بیان کرنے کا یہاں کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ اس پورے واقعے میں بنیادی تضادات پہلے ہی واضح ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔
ہمارے زیرِ تحقیق موضوع پر ہمارے پختونخواہ کے ایک جوان العمر لیکن نابغہِ روزگار سکالر اور محقق جناب رشید یوسفزئی نے ایک نہایت معلومات افزا مقالہ تحریر کیا تھا جو اس وقت راقم الحروف کی نظروں کے سامنے ہے۔ اسے زیبِ داستان کے طور پر اس تحقیقی کام کے ساتھ شامل کرنا گویا اس کی توثیق و تصدیق کا باعث ہوگا اور شیعی لٹریچراور نامور شیعی سکالرز کے تناظر میں قارئین کو بہت سی قیمتی معلومات فراہم کرنے کا سبب ہوگا۔ تو آئیے ایک دلچسپ تحریر سے گذرنے کا فائدہ حاصل کرتے ہیں جسے زبان و بیان کی چند غلطیاں دور کرتے ہوئے یہاں من و عن درج کر دیا گیا ہے۔
یہ واضح رہے کہ رشید یوسفزئی کی درج ذیل تحریر میں حقیقی اسلام کے قاتل حضرت معاویہ، یزید ابنِ معاویہ ، شقی القلب حجاج بن یوسف و دیگر اموی حکمرانوں کے بارے میں جو خوش گمانیاں موجود ہیں، انہیں آسان ترین الفاظ میں روایتی عقیدت پر مبنی اُنہی خاص خوش فہمیوں کی ذیل میں لیا جا سکتا ہے جن کا اُمتِ مسلمہ بالعموم شکار پائی جاتی ہے۔ اور جن کا جدید ترین تحقیق کے مطابق حقیقتِ حال سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حصہ صرف مضمون میں ایک تنوع پیدا کرنے کے لیے جوں کا تُوں برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ عاجز حضرت معاویہ اور یزید ابنِ معاویہ کے بارے میں پائے جانے والے اس تاریخی مغالطے کی پول سندات کے ساتھ پوری طرح اپنے مقالہ بعنوان "امیر معاویہ بن ابی سفیان" میں کھول چکا ہے۔
واقعہ کربلا ایک دیومالائی داستان [از رشید یوسفزئی]
"حضرات، داستان کربلا تمام فرقہ ھاۓ شیعہ کی سنگ بنیاد ھے۔ کربلا نہ ھو تو تشیّع کا وجود فنا ھوگا۔ اسی تناظر میں راقم نے ایک ہلکے پھلکے انداز میں شیعہ ائمہ و مجتھد ین اور ان کے علمی کارناموں کے تعارف کیساتھ ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ قارئین کا تشیّع کے ساتھ ایک جامع اور ھمہ جہت تعارف ھو جاۓ اور بحث کربلاکی داستان پر منتج ھو۔ تاھم میرے طرز تحریر سے ناآشنا قارئین اور خصوصا میرے شیعہ دوستوں نے بحث کا الجھاؤ اور خلط مبحث وغیرہ جیسی شکایات کیں۔ لہذا وہ سلسلہ ترک کرکے اس بحث کوایک نشست میں سمیٹتا ھوں۔ عبارات ذیل کے سارے حوالے شیعہ منابع کے ھیں۔ میرا مذھبی مطالعہ صرف عربی،فارسی اور انگریزی تک محدود ھے وہ بھی منابع و ماخذ تک۔ مجھ سے اردو کی چٹخارے دار تحریروں کی توقع نہ رکھیں۔ میری ذاتی راۓ یہاں درج نہیں۔
ابو جعفر( ابو عبداللہ) محمد بن علی بن شھر آشوب بن ابی نصر بن ابی جیش المعروف بہ زین الدین،عزالدین،رشیدالدین شھر آشوب(المتوفی 2 ستمبر 1192) شیعہ متکلم،مبلغ، فقیہ،مجتھد مازندران میں پیدا ھوۓ اور زندگی کا اکثر حصہ حلب میں گزارا۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیعہ عالم تسلیم کئے گئے تھے۔ شیعوں کے علاوہ اھل سنت بھی شھرآشوب کی انتہائی تعظیم کرتے تھے۔ عباسی خلفاء ویسے بھی کانوں تک شیعہ تھے، لیکن خلیفہ مکتفی باللہ تو شھر آشوب کے باقاعدہ مرید تھے جس نے ان کو رشید الدین کا خطاب دیا۔ کمال یہ ھے کہ ھمعصر مخالفین میں زمحشری، غزالی اور خطیب الخوارزمی المکی تک سے اجازہ لیا۔ شیعہ علماء میں ان کے شیوخ میں الاحتجاج کے مصنف ابو منصور بن ابی طالب الطبرسی، مجمع البیان کے مصنف فضل بن حسن امین الدین الطبرسی، اورفارسی زبان میں شیعیوں کی اھم ترین تفسیر کےمصنف ابوالفتوح رازی جیسے اکابرین شیعیت شامل تھے۔ ابن شھرآشوب کے علم وفضل کا یہ مقام ھے کہ نجم الدین جعفر بن حسن المحقق الاول الحلی(علامہ جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطھر الحلی مشھور ترین عالم الگ ھے) جیسی شخصیت انکو اپنا شیخ بتانے پر فخر کرتے ھیں (اگر چہ ایک واسطہ پر)۔
ابن شھرآشوب کی معروف و مقبول کتاب تین جلدوں پر مشتمل ”مناقب آل ابی طالب“ ھے۔ اسی کتاب کے جلد سوم صفحہ ٢٢٩ پر حضرت لکھتے ھیں:
”شب معراج میں محمدﷺ نے ایک محل دیکھا جو سفید موتی سے بنا تھا اور انکو بتایا گیا کہ یہ حسین کیلیے بنا ھے۔ جیسے ہی محمدﷺ اس محل کیطرف گئے تو انہوں نے ایک سیب دیکھا۔ اسے ھاتھ میں لیااور دو حصوں میں کاٹا۔ اس سے ایک دوشیزہ نکلی جس کی انکھیں عقاب جیسی تھیں۔ یہ لڑکی حسین کے لیے تھی“ ۔ (شیعہ عالم و مورخ ابن رستم طبری کی ایک روایت کےمطابق،” تخلیق کائنات سے سات ھزار سال قبل محمدﷺ،علی،فاطمہ، حسن، حسین نور کی شبیہ میں عرش کے سامنے کھڑے تسبیح پڑھ رھے تھے۔ پھر ذات باری تعالی نےانکو نور کے ایک ستون میں تبدیل کرکے حضرت آدم علیہ السلام کی کمر میں منتقل کیا“)۔ امام حسین فطری پیدائشی مدت سے تین مھینے قبل پیدا ھوۓ اور انکی پیدائش کے حالات عیسی ابن مریم جیسے تھے۔ ص ٢٠٩۔۔٢٣٩۔ ایک ھزار فرشتے حسین کے پیدائش کا جشن منانے دنیا میں آۓ۔ ص٢٠٩۔ جبریل خدا کی طرف سے مبارکباد اور تعزیت ساتھ لےکے آیا۔ اور جبریل کی مٹھی میں کربلا کی خاک تھی۔ ایک فرشتہ مردود ہُوا تھا۔ پیدائش حسین کے صدقے میں اسے معافی ملی۔ اب وہی فرشتہ زائرین کربلا کو نوٹ کرنے پرمامور ھے۔ص٢٣٤ ۔
قرانی سورت کے حروف مقطعات ”کھیعص“ کا اصل مطلب ھے : ک=کربلا، ھ=ھلک العترہ، یا=یزید، ع=عطشہ، ص=صبرہ۔ ص٢٣٧۔
ایک دیومالائی داستان کے دیومالائی ھیرو کی دیومالائی شیعہ تمھید۔
واقعہ کربلا وقوع پذیر ھوا۔۔۔۔ جس طرح سیرت کا باقاعدہ کتابی آغاز ابن اسحاق سے ھوتا ھے، داستان کربلا کا ابو مخنف سے ہوتا ہے۔ واقعہ کربلا کی روایات کا تنہا راوی ابومخنف ھے۔ ابومخنف نہ ھوتا تو تاریخی کتب میں کربلا کے حوالے سے ایک لفظ نہ ھوتا۔
لوط بن یحیی بن سعید بن مخنف الازدی(المتوفی774) بروایت ابن الندیم کے الفھرست کے عرب خصوصا عراق کے حوالے سے 32 طویل کتاب نمامقالات کےمصنف ھیں۔ بطور راوی علماء جرح وتعدیل کا، مستشرقین اور انسائکلوپیڈیا اف اسلام کا متفقہ فیصلہ ھے کہ کذاب اور وضاع تھا۔
As a traditionist he is regarded as weak and unreliable. Encyclopedia of Islam.pp 140.
ابومخنف کی روایات من وعن طبری نےلیں۔ بلاذری نے صرف مجھول ”قالُوا“ کا اضافہ کرکے کچھ تلخیص کیساتھ انہی روایات کو لیا۔ کچھ واقعات ھشام بن محمد الکلبی نے اپنے شیخ ابومخنف سے روایت کئے۔ ابوحنیفہ دینوری، یعقوبی اور ابن عبدربہ نے انہی روایات کو بڑھایا۔
ابومخنف نے ساری داستان کو لکھنے کے بعد ایک مختصر جملہ میں ساری حقیقت کوسمیٹاھے، جسے طبری نے جلددوم صفحہ ٣٧٤ پرنقل کیا ھے:
”کربلا کا معرکہ ایک قیلولے سے کم وقت میں ختم ھوا“۔
بنو امیہ اور یزید رحمہ اللہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مظلوم ھیں۔ ایرانیوں نے علویت اور بعد میں حسینیت کے لبادے میں خالص عربی اسلام سے انتقام لیا اور لے رھے ھیں اور ایرانیت سے اسلام کے دفاع کے پہلے مجاھد خلیفہ خامس حضرت امیرمعاویہ ؓ اور انکے جانشین حضرت یزیدؒ اور ان کے بعد حجاج بن یوسف الثقفی تھے ورنہ آج خالص عربی اسلام اور واحدانیت پرستی کے بجاۓ (جیسےام الکتاب کی روایت کےمطابق) جعفرجعفی اور ابوالخطاب الاسدی اورمغیرہ بن سعید العجلی کی طرح علی اور امام باقر کو سجدے کرتے۔ عباسیوں نے شیعیت کی تلوار سے حکومت حاصل کی۔ شیعہ اھل قلم بن گئے اور تاریخ نے یزیدؒ اور حجاجؒ پر وہ بربریت کی جو چنگیزخان کے نیزوں، تلواروں سے ممکن نہ تھی۔ فلپ ھٹی جیسے موروخ نے لکھا
Ah, the historian of Banuu Ummiyah is yet to come!
افسوس بنو امیہ کا مورخ ابھی آنے کو ھے۔
ازالة الخَفاء(ھمارے علماء بھی اس کو خِفا کے زیر سے پڑھتے ھیں جبکہ یہ زبر سے ھے) میں بخاری کے سپہ سالارِ قسطنطنیہ والی حدیث کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ رح نے یزید کے صلاحیتوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ھے اس کےبعد مزید بحث کی گنجائش نہیں۔ شیعہ علماء نے شاہ صاب کو اس حدیث کے کےدفاع پر ناصبی کالقب دیا۔ جس سید الشباب اھل الجنہ والی روایات کوسر تک شیعہ اور کانوں تک شیعہ-اھلسنت رٹا لگاتے نہیں تھکتے اس پر مروان بن حکم رض کی جرح کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ تو جملہ ھاۓ معترضہ سمجھیں۔
آخر مستشرقین میں ولھازن اور لیمنز نے یزیدؒ پر شاھکار لکھے اور ان پر تاریخ کےبربریت کو طاقتور دلائل سے ثابت کیا۔ فرانسیسی محقق لیمنز [Lammens ]نے خلافت یزیدؒ پر [ Le Califat de Yazid ]لکھی۔عقیدت و تقلید کے غلاموں نے اس کے ترجمہ پر قدغن لگائی۔ صفحہ 169 پر لکھتےھیں:
The tragedy of Karbala instead of lasting for weeks consisted of only one action and was over in an hour.
کربلا کاالمیہ ھفتوں جاری رھنے کے بجاۓ ایک ایکشن پر مبنی تھا اور ایک گھنٹے میں ختم ھوا۔ بحث پھر ختم ھونے والی نہیں لہذا ایک اور قسط کی اجازت چاھتاھوں۔
واقعہ کربلا ایک دیومالائی داستان۔۔۔٢[بزبان رشید یوسفزئی – جاری ہے]
اھل تسنن کے صحاح ستہ کے متوازی اھل تشیع کی کتب اربعہ ھیں۔ پہلی محمد بن یعقوب کلینی کی الکافی ھے جو دوحصوں میں ھے: الاصول الکافی اور الفروع الکافی۔ اس میں تقریباً سولہ ھزار احادیث ھیں۔ کلینی کو اھل تشیع ” ثقة الاسلام“ کے نام سے ذکر کرتے ھیں۔ غالباً 939 عیسوی میں بغداد میں فوت ھوۓ۔ اصول کافی میں ایسی احادیث موجود ھیں جن کے نقل کرنے کی راقم جرات نہیں کرسکتا۔ تحریف قران کے قائل تھے۔
کتب اربعہ کی دوسری کتاب ”من لایحضرہ الفقیہ“(جس سے ھمارے مولانا شیرانی صاحب بہت متاثر ھیں) ابن بابویہ القمی المعروف با شیخ صدوق کی تصنیف ھے۔ بابویہ شاید تشیع کا سب سے بڑا مجتھد امام ھے۔ ایک ایرانی تاجر علی کے گھر میں پیدا ھوۓ۔ پہلے بھائی کا نام حسن دوسرے کا نام حسین تھا۔ برروایت مشھور ہے کہ والد نے امام غائب مھدی کے تیسرے وکیل ابوالقاسم الروح سے امام غائب سے تیسرے بیٹے کیلیے دعا کی جس کے جواب میں امام غائب نے محمد بابویہ کے پیدا ھونے کا حکم دیا۔ اسی دیومالائی طرز پیدائش کیوجہ سے وہ خود بھی فخر کرتاتھا اور بدیں وجہ شیعوں کے ھاں یہ رتبہ بھی پایا۔ 991 میں فوت ھوۓ (حافظے سے لکھ رھاھوں غلطی کا امکان ھے۔]
تیسری کتاب ”استبصار“ محمد طوسی کی ھے اور چوتھی کتاب ”تہذیب الاحکام“ بھی محمد طوسی کی ھے۔
ابن بابویہ کے شاگرد شیخ المفید تھے جنھوں شیعہ ائمہ کے اتباع کے حوالےسے مشھور کتاب ”کتاب الارشاد“ لکھی۔ اھلبیت کے معجزات اور الوھی طاقتوں کی دلچسپ داستان اس کتاب میں موجود ھیں۔
شیخ مفید کے دو شاگرد تھے جو علم و فضل اور ادب میں تمام علماء تشیع سے سبقت لےگئے: مشھور عربی شاعر شریف الرضی (متوفی1015) اور شریف المرتضی (متوفی1044)۔ دونوں بھائی سید زادے تھے۔ شریف رضی علیؓ ابن ابی طالب سے منصوب اقوال کے مجموعے نہج البلاغہ کے مٶلف ھیں۔ علماء جرح و تعدیل اور مستشرقین کے نزدیک نہج البلاغہ اور دیوان علی دونوں جعلی ھیں۔
آپ یا شیعہ حضرات لاکھ مبالغہ کہیں مگر شیعوں کے تمام فرقوں کے ہاں نہج البلاغہ کی اھمیت قران مجید سے (نعوذباللہ) بڑھ کر ھے کیونکہ بروایت کلینی قران مجید سترہ ھزار آیات سے چھ ھزار آیات پہ آگیا ھے جبکہ نہج البلاغہ تحریف سے پاک ھے۔
اسماعیلی فاطمی خلفاء ۔۔۔ اور ان کے اولاد ھونے کے مدعی موجودہ آغاخان ۔۔۔ اولاد فاطمہ ھونے کے دعویدار تھے اور اسلیے خلافت کے مدعی۔ عباسی خلفاء فاطمئین مصر کے اس دعوی کے سخت مخالف تھے اور فاطمئین کو ایک صابی یا مانوی دیصان یا بردیصان کی اولاد کہتے تھے۔ عربوں میں علم الانساب ایک باقاعدہ فن ھے۔ عباسی خلیفہ قادرباللہ نے بغداد میں فاطمئین کے اس دعوے کے تردید کیلیے علما اور ماھرین انساب کی ایک کونسل 1011 عیسوی میں بلائی۔ کونسل نے ایک قراداد پاس کی جوتاریخ میں ”محضر بغداد“ کے نام سے مشھورھے جس میں فاطمئین کے شجرہ نسب کو جعلی قرار دیا گیاھے۔ اس محضر پہ دستخط کرنے والوں میں سرفہرست شریف الرضی تھے!
راقم نے چند سال پہلے انسٹیٹیوٹ اف اسماعیلی سٹڈیز کے اربابان بست وکشاد اور کئی پاکستانی اسماعیلی واعظین سے یہ سوال کیا کہ اگر آپ نہج البلاغہ کو مقدس مانتے ھیں تو آپ کے امام کا شجرہ نسب جعلی ھوجاتا ھے۔ اگر آپ کے امام کا شجرہ نسب درست ھے اور شریف رضی نے غلط دستخط کیا ھے تو نہ شریف رضی ثقہ رھے نہ نہج البلاغہ مستند رھی!۔۔۔۔۔۔ تعجب کی بات ھے کہ تاریخ ابن خلدون میں شریف رضی کے اسماعیلی فاطمی خلیفہ کی تعریف میں اشعار بھی موجود ھیں۔۔۔۔۔۔۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ نہج البلاغہ یا اسماعیلی آئمہ میں سے ایک نے جعلی ھونا ھے! "
عزیزم رشید یوسفزئی کا نہایت علم افزا اور دلچسپ مقالہ یہاں اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قیمتی مقالے سے اصحابِ علم نے کافی حظ اُٹھایا ہوگا۔ یہاں راقم الحروف کی عرض صرف اتنی ہے کہ جب عنوان حضرتِ حسین سے متعلقہ واقعہ کربلا پر چل رہا ہو، تو کوئی اصول نہیں کہ بات کو پھیلا کر اموی خلافت کے جواز و عدم جواز سے متعلق اپنے ذاتی تصورات و جذبات کی جانب لے آیا جائے۔ یا آل ابو بکر وغیرہ کا ذکر درمیان میں لے آیا جائے۔ یہی تو ہمارا وہ خلافِ قاعدہ رویہ ہوتا ہے جس سے کسی بات کی تہ تک پہنچنے کا عمل سبوتاز کر دیا جاتا ہے۔ ہر موضوع جو اپنی ایک علیحدہ اور اہم حیثیت کا حامل ہو، نہایت گہری ریسرچ اور شواہد کا طلب گار ہو، اپنے علیحدہ اور انفرادی عنوان کے تحت ہی سامنے لایا جانا چاہیئے۔ ارتکاز توجہ اُسی موضوع پر رکھنا بہتر ہوتا ہے جو زیر بحث ہو ۔ اور موضوع کو اُسی ذریعے سے دیکھنا ہوگا جو باوثوق اور مستند ہو ۔مزید برآں ،جب واقعہ راوی کے بیان پر مبنی ہو تو اصول ایک ہی ہے ۔ وہ یہی ہے کہ راوی کے کوائف زیر تفتیش لائے جائیں۔ اس اصولی عمل میں اس کے اعتقادات اور فکری رحجانات بھی ضرور زیر تفتیش لائے جائیں گے، خواہ کسی کو بُرا لگے یا اچھا ۔
میرے ایک مخصوص مکتبِ فکر کے قارئین کی تالیفِ قلوب کے لیے مودبانہ گذارش ہے کہ بحث و تحقیق کےلیے ایسا متنازع موضوع ضرور چھیڑا گیا ہے جس پر صدیوں قبل سے مباحث کا سلسلہ اگرچہ جاری ہے لیکن پہاڑوں کی مانند مضبوط اور باہم متخالف مسالک کی پیروی میں کوئی صاحبِ ایمان بھی آج تک متزلزل نہیں ہوسکا۔ اکا دکّا اگر منحرف ہو کر دوسری جانب چلا بھی گیا تو اُس سے مسلک کی بنیادوں میں کوئی دراڑ واقعہ نہیں ہوئی۔ کیونکہ حقیقتِ احوال دراصل یہ رہی ہے کہ مذاہب یا مکاتبِ فکر ایک بار قائم ہو جانے پر اپنی اساس کو اس کی جگہ سے کبھی ہلنے نہیں دیا کرتے خواہ وہ اساس من گھڑت اور جھوٹی بنیادوں پر ہی کیوں نہ قائم کی گئی ہوں۔ فلھٰذا تحقیق و تفتیش اور اصحابِ فکر کے فیصلے اپنی جگہ، واقعہِ کربلا کی بنیادوں پر شیعی مذہب آج بھی اپنی جگہ پہاڑ کی طرح قائم و مضبوط ہے۔
حضرت حسن بن علی
حالات و واقعات کے تجزیے کی رُو سے جس نتیجے تک ہم پہنچتے ہیں وہ یہی ہے کہ واقعہِ کربلا تاریخی تحقیق کی رُو سے تمام تر من گھڑت ثابت ہو چکا ہے۔ حضرت امام حسین کی شہادت کوفے کے قصرِ امارت میں اس وقت واقع ہوئی جب وہ گورنرِ عراق کے منصبِ عالی پر فائز تھے [مذکرہ حُر بن عبدالرحمان اندلسی ]۔ یہ دستاویزی ثبوت اس بنیاد پر بھی وثاقت کا حامل ہے کہ قبلِ ازیں آپکے برادر اکبرحضرت امام حسن نے امیر معاویہ کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اُن کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا اور معاہدے کی شرائط کے مطابق عراق کے دارالحکومت کوفے کا خزانہ اُن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کچھ علاقوں کے محاصل وصول کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔ انہیں امیر معاویہ کا جانشین بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، اور دربارِ خلافت سے دیگر رقوم اور تحائف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس پُر امن بقائے باہمی کی فضا میں اُن کے چھوٹے بھائی جیسے عالی حسب و نسب کے حامل ، اُمت کی برگزیدہ شخصیت کا کوفے میں عراق کے گورنر کی حیثیت میں تعینات کیا جانا ایک فطری اور قرین العقل واقعہ باور ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے بذریعہ تحقیق ایک دستاویزی ثبوت بھی دریافت ہو چکا ہے۔ تحقیق کے مطابق حضرت حسین کو کوفے کے قصرِ امارت ہی میں گہری سازش کے تحت شہید کیا گیا۔ قاتلوں کے ناموں تک کا انکشاف ہو چکا ہے، جو راقم باوجود کوشش اپنے ذہن کے آرکائیوز سے باہر نہیں لا سکا۔اور ماخذ کتاب دستیاب نہ ہو سکی۔ البتہ حضرت حسن کی زہر خورانی سے واقع ہونے والی پُر اسرار موت سے یہ عمومی استنباط کیا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ کی پسِ پردہ منفی نوعیت کی مہلک سیاسی کاروائیاں جاری رہیں۔ اپنے جانشین کے طور پر اپنے فرزند کو نامزد کرنے کے لیے حضرت حسن کی ایک بیوی کے ذریعے اُن کا خاتمہ کروا دیا گیا۔ تواریخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت حسن متعدد شادیاں کرنے کے شوقین رہے۔ بعض حوالوں سے آپ نے 200 شادیاں کی اور چار موجودہ بیویوں کو طلاق دے کر اکٹھی ہی چار نئی شادیاں کر لیا کرتے تھے۔ اِسی نوعیت کی کھُلی اخلاقیات کے باعث آپ کو "مِطلق " [ mitlaq] کا لقب بھی دیا گیا، یعنی "طلاقیں دینے والا" [divorcer]۔ روایات کہتی ہیں کہ آپ نے300 لونڈیوں کا حرم بھی آباد رکھا۔ اُن ہی خواتین میں سے جُعدہ نامی ایک خاتون نے اُنہیں زہر کھلا دیا۔ اور اس طرح فرزند یزید کی ولی عہدی کا راستہ صاف کر لیا گیا۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ غالبا 1925 میں وہابی تحریک کے عروج کے زمانے میں آپ کا مقبرہ بھی دیگر مزارات کے ساتھ منہدم کر دیا گیا تھا۔
امیر معاویہ و یزید ابن معاویہ
پس جہاں تک فرضی وقوعہ کربلا کا تعلق ہے، یہ حضرت حسین کی وفات کے 90 یا 100 برس بعد تک کسی بھی تاریخ میں مندرج نہیں۔ یہ حقیقت اس کی وثاقت کے خلاف ایک بڑا اور ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ پھر یہ کہ اس کا واضع، خبرِ واحد، لوط بن یحییِ ابی مخنف ہے جو ائمہ جرح و تعدیل کی تحقیق کے مطابق کذاب، غیر ثقہ وغیرہ ہے۔۔۔۔۔ امام طبری نے لا محالہ اِسی کے حوالے سے یہ واقعہ اپنی اُم التواریخ میں درج کیا کیونکہ یہ اور کسی بھی ماخذ میں موجود نہیں پایا گیا۔ لیکن،،،،، کیا اس واقعے کے جھوٹ کو بنی امیہ کی اسلام دشمن خلافت کی داغدار تاریخ کو غلاظت سے صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے، جیسے کہ ہمارے پیارے فاضل رشید یوسفزئی نے روایتی عقیدت سے مجبور ہو کر کرنے کی کوشش کی ؟ ظاہر ہے کہ ایسا سوچنا بھی بلا جواز ہوگا۔
سوچنے کے لیے نکتہ بہت واضح ہے کہ حضرت معاویہ جنہوں نے ، جدید ترین تحقیقات کے مطابق، طاقتور گورنرِ شام کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے پہلے مروان اور اس کے دو قریبی ساتھیوں کی مدد سے حضرت عثمان کو قتل کروایا، اور پھر خود ہی اسے بنیاد بنوا کر شورشیں برپا کروائیں۔ پھر منتخب خلیفہ حضرت علی کے خلاف، دمشق میں اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے، اُن کے خلاف ایک بڑا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کے لیے ہر سامراجی حربہ استعمال کیا ، اور وہ تمام کوششیں کیں جو آپ کے قتل پر منتج ہوئیں۔ اور اس طرح خلافتِ راشدہِ اسلامیہ کو غصب کیا، اور اسلام دشمن بنو اموی سرداروں کی مدد سے اسلامی نظریے ہی کا بستر بوریہ لپیٹ دیا۔ پھر حضرت حسن کے قتل میں بھی ملوّث پائے گئے۔ وہ اور ان کا بیٹا یزید کیسے صرف کربلا کے واقعے کے جھوٹا ثابت ہو جانے سے نیک، صالح اور امیر المومنین ثابت ہو سکتے ہیں ؟
یزید ابنِ معاویہ تو وہ تاریخی شیطان ہے جس نے اپنے والد کے غیر مکمل مشن کی تکمیل کی۔ جس کے وحشی شامی لشکرِ جرار نے واقعہ حرہ کے نام سے سابقہ دارالحکومتِ خلافتِ راشدہ، یعنی مدینہ النبی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اور وہاں موجود قرآن کو اس کی تمام تر گہرائیوں سے جاننے والے ہر عالم و فاضل کو قتل کر دیا۔ خلافتِ راشدہ کے تمام ریکارڈ، آثار و باقیات کا نشان تک ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ حتیٰ کہ لشکر کو خواتین کی عصمت دری کی عام اجازت بھی دی۔ جس نے ایک ہنستے بستے سابقہ دارالحکومت کو ایک دھواں اُڑاتے، ویران، کلبہِ احزاں کی شکل میں پیچھے چھوڑا۔ اور اُمّتِ مسلمہ کو اس کے ابتدائی دور کی مکمل علمی و تاریخی وراثت سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا۔ یہی لشکر یہاں سے مکہ کو تاخت و تاراج کرنے نکلا یہاں تک کہ محاصرے کےدوران ہی یزید کی موت کی خبر آ گئی۔یہ افسوسناک حقیقت بھی عیاں ہے کہ ہمارے ایک بڑے مکتبِ فکر کے لوگ دوسرے مکتبِ فکر کی مخالفت میں تاریخ کے اس خونی باب پر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ نہ ہی اس کی برپا کی ہوئی قیامت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، نہ ہی اس کی تفصیل پر نوحہ اور تبصرہ ، اور نہ ہی اُمت کے مستقبل پر اس کے اب تک موجود تاریک اثرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جو ناقابلِ تلافی ہیں۔ ایک کھوکھلی عقیدت اور ڈھونگ کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے کہ حضرت معاویہ جیسے" جلیل القدر صحابی" اور اُن کے فرزند کے خلاف کوئی بات زبان سے نکل کر گناہ کا باعث بن جائے۔اور تمام بربادیوں اور سیاہ کاریوں کا الزام بے دریغ عجمیوں /فارسیوں/زر تشتیوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس قماش کی منافقت اور حقیقت سے چشم پوشی ہمارے اسلاف کا، اساتذہ کا اور ہمارا دین و ایمان بن چکی ہے۔ شاید اِس عاجز کے یہ الفاظ کچھ سخت اور ناگوار معلوم ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ سابقہ نسلیں تاریخ کی کڑی ریسرچ سے دُور بھاگتی رہی ہوں۔ فلھٰذا سازشی تحریروں کے باعث اس بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہی ہوں۔ لیکن حیقت یہی ہے کہ "عُذرِ گناہ ، بدتر از گُناہ است"۔ حقیقی اسلام کی بربادیوں کی تمام داستانوں کے پسِ منظر میں عربی اشرافیہ کا طاقتور حکمران طبقہ ہی کار فرما رہا ہے، اور آج تک کار فرما ہے۔
مدفنِ حضرت علی اور تاریخ
مقالے کے اواخر میں یہ انکشاف بھی کر دیا جائے تو قارئین کے لیے اپنا اپنا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ حضرت علی کے حقیقی مدفن کا معمہ بھی آج تک لا ینحل رہا ہے۔ تواریخ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ عباسی خلافت کے دوران بغداد پر فارس کے شیعہ دیلمی سرداران الموسوم بہ آل بنی بویہہ کی حکمرانی کے دور میں امیر الامراء عضد الدّولہ [المتوفی 373 ہجری] نے خواب میں بشارت دیکھ کر لاو لشکر سمیت سفر کیا اور حضرت علی کے مدفن کا مقام عرصہ دراز کے بعد بذریعہ قیاس و وجدان دریافت کیا۔ عضد الدولہ نے یہاں عمارت تعمیر کروائی جو اہلِ تشیع کے لیے مرجعِ خلائق بن گئی اور یہیں سے اہلِ تشیع کے مقدس شہر نجفِ اشرف کی بنیاد پڑی جو رفتہ رفتہ اہلِ تشیع کا روحانی مرکز بن گیا۔ جب کہ تاریخ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی بنیاد عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے 791 عیسوی میں یعنی 172 ہجری میں حضرت علی کے مدفن کی زیارت گاہ کے طور پر رکھی، جسے اس نے اس علاقے میں ہرن کا شکار کھیلتے ہوئے اتفاقا دریافت کر لیا تھا۔ یعنی یہ مدفن اُس وقت تک نا معلوم ہی تھا۔ تاریخِ اسلام سے لیے گئے ان دونوں حوالوں میں لگ بھگ دو سو سال کی دُوری پائی جاتی ہے۔ اور یہ نتیجہ نکالنا فی الحال ناممکن ہے کہ دونوں میں سے کِس حوالے کو مستند مانا جائے۔ مزید برآں کچھ اور دستاویزات بھی موجود ہیں جو اس شہر کا وجود قبل مسیح کے زمانے میں ظاہر کرتی ہیں جب اسے بانیقیہ [Baniqiyah] کے نام سے جانا جاتا تھا اور مبینہ طور پر حضرت ابراہیم میسوپوٹیمییا [Mesopotamia]سے عرب کی جانب اپنے ایک سفر کے دوران یہاں دو روز کے لیے قیام پذیر ہوئے تھے۔ الغرض، یہ وہ تاریخی حوالہ جات اور ان پر ہمارے مباحث ہیں جن کا ایک حصہ ا ب تک اسرار کے پردوں میں چھُپا ہوا ہے اور جن کے تجزیہ سے کسی بھی فریق کا دامن آلودگی و اشتباہات سے پاک نظر نہیں آتا۔ اور جن پر مغز ماری [brainstorming] کرنے سے ہم کافی حد تک درست سمت میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔ ۔ البتہ کیونکہ مسالک اور باہم تشتت و افتراق ختم نہیں کیےجا سکتے تو بس یہی مختصر سی عرض ہےکہ تلاشِ حقیقت کھُلے ذہن کے ساتھ جاری رہے اور محاذ آرائی سے صرفِ نظر کیا جائے۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہیئے کہ آنے والے وقت میں جب زمین اپنے تمام بوجھ اور اسرار باہر نکال پھینکے گی، اور انسانی علم و شعور ارتقاء کی ناقابلِ یقین بلندیوں تک پہنچ جائے گا، واقعہِ کربلا ، اس کے ذیلی موضوعات ، اور اس کی مانند دیگر تاریخی مغالطوں اور معمّوں کی گتھیاں بتدریج اپنی تمام تر تفصیلات کے ہمراہ مزید سُلجھتی جائیں گی۔ اور بالآخر کوئی بھی راز، راز نہ رہے گا۔ اِس دوران ایسے تمام تہذیبی اور تاریخی مغالطوں کی حالیہ کی جانے والی تحقیقی نشاندہی آنے والی نسلوں کےکام کو قدرے آسان ضرور کر دے گی۔
اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
- Hits: 3239
اورنگزیب یوسفزئی ستمبر ۲۰۱۶
قرآن کے" موضوعاتی" تراجم کے سلسلے کی قسط نمبر [۳۵]
Thematic Translation Series Installment No.35
انسان کی تخلیقی اور موروثی فطرت ۔ قرآن کی روشنی میں کتابِ ہستی کا سبق
The Nature Man is Born with – Lesson from the Book of Self
in the Light of Quran
قرآنِ حکیم کی موجودہ اردو تفاسیر و تراجم کو اگر ثواب کمانے کی عمومی مروجہ روش کے مطابق صرف پڑھ کر گذر جانے کی بجائے واقعی سمجھنے کی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سے مقامات پر آپ کو تضادات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آپ خود کو ایک بڑے مخمصے میں گرفتار پائیں گے کہ کیا درست مانا جائے اور کیا نہیں ۔بہت سے بیانات معاشرتی تناظر میں اپنی جگہ فٹ نہیں بیٹھیں گے۔ کئی مقامات پر علوم کی اکثر اصناف کی روشنی میں کھلا تضاد نظر آئیگا ۔ بہت سا مواد ایسا بھی ہوگا کہ قوانینِ فطرت اور انسانی نفس کے پیمانے پر آپ کے سر پر سے گذر جائیگا۔ اور بہت سی دیومالائی فسوں کاری ایسی بھی ہوگی کہ عقل، علم اور انسانی تجربات کی ضد قرار پائے گی اور صرف رعب اور احترام آپ کو چپ رہنے پر مجبور کر دے گا ۔ یہی صورتِ حال آپ عربی تفاسیر کے ہاں بھی پائیں گے جہاں سے ہم اپنی زبان میں مواد کی منتقلی کرتے ہیں ۔ بلکہ حقیقتِ حال یوں ہے کہ ہمارے اردو تراجم قرآن کی عبارات کی راست تفہیم سے نہیں بلکہ انہی عربی تفاسیر کی اتھارٹی کے تحت منقولی منطق اور اندھی تقلید کے انداز پر تیار کیے جاتے ہیں۔
قرآنی پیغام کی ہماری زبان میں منتقلی کے مروجہ طریقِ کارمیں پایا جانے والا یہ بنیادی سقم ہمارا "مقدس ورثہ" ہے۔ اس مقدس ورثے کے تسلسل اور دوام کا ذمہ دار اور نگہبان ہمارا ملّا ئیت کا روز افزوں طاقتور ہوتا پسماندہ اور متشدد گروہ ہے، جس کی معیشت اور اقتدار ہماری ذہنی ارتقاء کی انتہائی پسماندہ صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔ اس لیے کہ اسلامی معاشروں پر 1400 سال سے قابض چلے آ رہے عیاش، سرمایہ دار، ڈکٹیٹر حکمران یہی چاہتے ہیں۔ اور "ملّائیت مافیا" اِنہی گناہ گار اور مجرم قابضین کے ہاتھوں میں موجودسب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ لیکن
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذا ں لا الہ الا اللہ
اللہ کی کتاب صرف پڑھ کر گذر جانے کے لیے نہیں بلکہ اس کی ہدایات سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ صرف صبحِ صادق کے وقت تلاوت کر لینے سے تفہیم کا عمل پیدا نہیں ہوتا جب کہ قرآنی اصطلاح "قرآن الفجر" کا ایک گمراہ کُن ترجمہ کر کے ہمیں بتایا جاتا ہےکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنے سے فہم و ادراک میں اضافہ ہوتا ہے ۔ با ترجمہ پڑھنے والے بھی صرف روایتی تراجم کی بے سرو پا عبارت پڑھ کر گذر جاتے ہیں۔ تفہیم ہی پیدا نہ ہو تو عمل کیسے درست ہو سکتا ہے۔ جب کہ یہ کتاب تدبر ، تفکر اور تعقل کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ یہ بزبانِ خود ایک لازمی اور دائمی انسانی ضابطہِ کردار ہے۔
ہمارے درجِ بالا موضوع کے ضمن میں جو بات آپ کی توجہ کے لیے سامنے لائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن خود کو شکوک، تضادات اور ابہامات سے پاک کتاب قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی بھی دوسرے کی جانب سے آیا ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ۔ یعنی اس کے ارشاداتِ عالیہ میں کہیں بھی تضاد یا اختلاف نہیں پایا جا سکتا۔ لیکن سوال کیا گیا کہ کہ انسان کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں قرآن کے تراجم و تفاسیر میں متضاد بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اور ہم یہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ۔ اور ایسے مقامات پر ایسا کیا اسرار پوشیدہ ہے جو ہمارے فہم سے بالا تر ہے۔
تو آئیے دیکھیں کہ قرآنِ خالص انسانی فطرت اور اِس اشرف المخلوقات کی تخلیق و تشکیل کے بارے میں جو حقائق بیان کرتا ہے، جو ہمارے تراجم و تفاسیر کی رُو سے باہم متضاد و متخالف نظر آتے ہیں، وہ کیسے انتہائی ربط و تسلسل کے ساتھ نہ صرف باہم منطبق ہوتے ہیں بلکہ کیسی حکمتِ عالیہ اور حقیقت ابدی پر مبنی ہیں ۔ اس انکشافِ حقیقت کے لیے ہمیں،،،، ہیئتِ انسانی کی ترکیب کے عناصر ،،،یعنی فلسفہِ ہستی،،،یعنی اسرارِ ذاتِ انسانی،،،،کے وسیع علم پر قدرے روشنی ڈالنی ہوگی ۔ اس عاجز کو امید ہے کہ حقیقی طالبانِ علم اس سفر میں اُس کا پورا پورا ساتھ دیں گے۔
انسان کے کردار کی کجیاں اور کمزوریاں بزبانِ قرآن:
96/6-7: كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ ﴿٦﴾ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ ﴿٧﴾ ہرگز نہیں۔ انسان تو سرکشی کرتا ہے، اس لیے کہ وہ خود کو بے نیاز/خود مختار دیکھتا ہے۔
/28 : ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾ ۔ لیکن انسان کو کچھ کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔
14/34: إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ۔ بیشک انسان اندھا اور ناشکرا ہے۔
16/4: هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ – بہت کھلا ہوا جھگڑالو ہے۔
17/11: وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا۔ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ 17
/100: وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا ۔ اور انسان تنگ دل واقع ہوا ہے۔ 18
/54: ۔ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ۔ انسان اکثر معاملات میں حجت اور جھگڑا کرتا ہے۔
33/72: إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ۔ بیشک وہ ناپختہ اور لاعلمی کی حالت میں تھا ۔
70/18: وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ / جمع کرتا ہے پھر اسے گرہ باندھ کر رکھ لیتا ہے۔ 70/19: إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ۔ انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے۔
89/20: ۔ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ چاہتا ہے دنیا بھر کی دولت سمٹ کر اس کے پاس آ جائے۔
100/8: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ۔ اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح/شدت سے مبتلا ہے۔
لیکن یہ کیا کہ دوسری جانب اللہ تعالیٰ اس کے برعکس فرماتا ہے کہ :
"فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا ۔" ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ اللہ ہی کی فطرت، مزاج، نیچر ہے جس پر اُس نے انسان کی تخلیق کی ہے!!!!
تو کیا اوپر بیان کی ہوئی انسان کی کمزوریاں، اللہ کے مزاج کی کمزوریاں ہیں؟؟؟۔۔۔۔ نعوذُ باللہ۔۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔۔تو ان کمزوریوں کا ماخذ یا مخرج کیا ہے، اور اللہ کی وہ "فطرت" کیا ہے جو انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے؟ آگے آنے والی سطور میں ہم اس کا شافی و کافی جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلے ہم درجِ بالا عیوب کے تضاد میں موجود انسانی صفات کی حامل قرآنی آیات کو سامنے لے آتے ہیں ۔
انسان کی تشکیل و تخلیق کی تعریف میں آیات :
95/4: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِیم ۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔
17/70: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۔ اور ہم نے بنی آدم کو فضیلت اور بزرگی عطا کی، انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں، انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی کثیر مخلوقات پر فوقیت بخشی۔
23/14: ثم انشانہ خلق آخر ۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا۔
32/9: ثم سواہ و نفخَ فیہ من روحہ ۔ پھر اس نے اسے نک سک سے درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی ۔
اور اب لا محالہ ہم سبھی کے ذہن میں یہ سوال اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ آخریہ تضاد کیوں؟
۔۔۔ انسان کو خود اپنی فطرت پر بنایا ،
۔۔۔ انسان کو احسن تقویم پر تخلیق کیا،
۔۔۔ انسان کو عزت و تکریم کا حامل بنایا، تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی، خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں ،
۔۔۔ عام جاندار سے علیحدہ ایک چیزے دیگر بنایا اور پھر،،،،سب سے بڑا مقام یہ دیا کہ،،،،،،
۔۔۔ اُس میں خود اپنی "روح" پھونک دی !!!
اس کے بعد پھر اُس میں یہ تمام برائیاں کہاں سے آئیں جن کا بیان اوپر مختلف آیات کے ذریعے کیا گیا ؟؟؟ ان تضادات کا کیا قرین عقل اور علمی جواز ہے؟
انسان کے باطن میں دو مختلف عناصر
دراصل آیات -۱۱ ۹۱/۷ میں اللہ تعالیِ نے اس الجھن کو نہایت چابکدستی سے یہ فرما کر دور کر دیا ہے کہ ہم نے نفس انسانی کو دو مختلف و متضاد عناصر کا مجموعہ بنا کر تخلیق کیا ہے۔ملاحظہ فرماءیں:-
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
""اور انسانی نفس اور جس انداز سے اس کی تشکیل کی گئی ہے وہ اسطرح ہے کہ ان میں ذات کے انتشار اورتخریب کاعنصر اور پرہیزگاری کے ذریعے تحفظ کا عنصر دونوں ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ پس جس نے ذات کو تحفظ دے کر نشوونما دے لی وہ کامیاب ہوا، اور جس نے اس کی صلاحیتوں کو کچل دیا وہ برباد ہوا ""۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں عناصر میں سے ایک انسان کا مادی حیوانی پیکر ہے جو حیوانی جبلتوں کا تابع رہتا ہے ۔ دوسرا اس کا غیر مادی شعوری پیکر ہے جو اللہ تعالی کی روح یعنی صفاتِ عالیہ کا مخزن ہے اور اس لیے سیرت و کردار کی اعلی ترین اقدار کا حامل ہے ۔ اوپر بیان کی گئی تمام برائیاں اور نقائص انسان کے حیوانی وجود سے تعلق رکھتے ہیں اور بے شک جس انسان میں اس کی حیوانی خواہشات غالب رہتی ہیں وہ ان تمام نقائص کا مجموعہ ہی ہوا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اوپر بیان کی گئی تمام صفات انسان کے اعلی شعوری وجود سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ وہی ہیں جو انسان کی موت کے بعد اس کے غیر مادی وجود کے ساتھ آخری دورِ حیات، یعنی آخرت میں اس کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوں گی ۔ جو انسان اپنے شعوری وجود کی اقدار کو جتنا زیادہ زندہ رکھے گا اور انہیں مادی وجود کی جبلتوں پر غالب کر لے گا، وہ آخرت میں کامیابی اور سرخروئی کا مستحق ہوگا، کیونکہ ا س مادی زندگی میں ایسے طرزِ عمل کو اختیار کر لینے سے اس کی اندرونی ذات کی تکمیل ہوتی چلی جائیگی۔
دراصل انسان ایک حیوانی وجود اور ایک شعوری ذات ، یعنی دو عناصر کا ایک پُر حکمت امتزاج ہے ۔ حیوانی وجود جو تمام حیوانی جبلتوں کا تابع ہے ، دماغ سے حسیات کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے ۔ جب کہ اس کی شعوری ذات اُس شعورِ مطلق کی اپنی خصوصیات کا اظہار ہے جو اس کی ودیعت کردہ تمام صفات و اقدار کا خزینہ ہے، ایک غیر مادی وجود رکھتا ہے اور اپنے ذہنی یا شعوری جسم میں رہتا ہے جو غیر مرئی ہے۔ اسے ہی عرفِ عام میں روح، یا روحانی زندگی کہا جاتا ہے ۔
درحقیقت انسان کی تخلیق کا مرحلہ اپنی اہمیت میں تخلیق کے تمام موجود مراحل پر فوقیت رکھتاہے ۔ اس لیے کہ انسان کی تخلیق دراصل تخلیق کی دو انتہاؤں کا مرحلہ ہے۔ یعنی مادی زندگی کی تخلیق کا ایک انتہائی مرحلہ، جو ٹھوس مادی اور مرئی کیفیت رکھتا ہے، انسان کے حیوانی وجود تک پہنچ کر اپنی انتہاء کو حاصل کر لیتا ہے۔ اور شعوری مراحلِ تخلیق [degrees of Consciousness] کا اب تک کا انتہائی مرحلہ بھی انسان کے اندر موجود شعورِ ذات، یا خود آگاہی [self-consciousness] کے احساس کی صورت میں اپنی پختگی اور بلوغت کو پہنچ جاتا ہے کیونکہ خود آگہی دراصل اپنے خالق کی آگہی ہوتی ہے۔ یہ وہ اہم ترین مرحلہ ہے جہاں انسان کے مادی اور روحانی عناصر کا باہم مسلسل ٹکراو پایا جاتا ہے ، اور اس کشمکش کو قائم رکھنے کے لیے ہی مادی اور روحانی دونوں کیفیات ایک عظیم حکمت کے تحت ایک مخصوص سطح پر یکجا کر دی گئی ہیں ۔یہ وہ کشمکش ہے جو انسانی زندگی کو ایک امتحان گاہ کی شکل دیتی ہے، جس کے ذریعے شعورِ ذات کا ارتقاء بنیادی مقصد ہے تاکہ فائنل مرحلے میں ارتقاء یافتہ ذاتیں مزید ناقابلِ یقین ارتقاء کےشعوری یا روحانی سفر پر روانہ ہوجائیں اور بالآخراپنے خالق کے متعین کردہ مقصدِ تخلیق کو پورا کرتے ہوئے سامنے لے آئیں۔
یاد رہے کہ اسی مرحلے میں مادی وجود طبیعی موت کے ذریعے بتدریج نسلِ انسانی سے ختم کر دیا جاتا ہے اور خالص غیر مادی اور غیر مرئی شعوری ذات آئندہ کے آخری مرحلہِ حیات میں اپنی منتقلی اور نمود کا انتظار کرتی ہے۔ ۔ آنیوالہ مرحلہ وہ چھٹا مرحلہِ تخلیق ہوگا جہاں انسان اپنی ہیئت، اوصاف اور صلاحیتوں میں خود اپنے خالق کے قریب تر پہنچ جائیگا ، تسخیرِ کائنات کا کارنامہ انجام دے گا اور خالق کے آئیڈیل کی صورت میں خود کو بارز کرتا ہوا اپنی تخلیق کے مقصد اور نصب العین کو پورا کرے گا ۔ لیکن معدودے چند انسان ہوں گے جو اِس منصب و مقام کو حاصل کر سکیں گے۔
فلہذا انسان کے وہ تمام عیوب جو اوپر گنوائے گئے وہ اس کےمادی حیوانی وجود کی خصوصیات ہیں جن کا بالکل درست تعین کیا گیا ہے۔ اور بعد ازاں وہ تمام محاسن جو اس کے حق میں بیان کیے گئے وہ اس کی حقیقی زندگی، یعنی اس کی شعوری غیر مادی ذات کی خصوصیات ہیں جو اُسی طرح بالکل درستگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔یہاں کوئی ابہام یا تضاد نہیں پایا جاتا۔ یہ کتاب ہستی ہے، یعنی انسانی ذات کی تشکیل و ماہیت کا علم۔ کتاب ہستی کا بغور مطالعہ کیے بغیر قرآن کو کما حقہ سمجھا نہیں جا سکتا ۔ اسی لیے ہمارے وہ نام نہاد سکالرز حضرات جو مذہبی پیشوائیت کے ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کی تفہیم کے لیے حدیث و فقہ کی بیساکھیاں استعمال کرتے ہیں اس میں تضادات یا معجزات کے علاوہ کچھ بھی قرینِ عقل دریافت نہیں کر پاتے، اور پھر یہی مبہم مواد تبلیغ کے نام پر ایک بہت زیادہ دانشمند دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ یہ ہمارے وہی نادان روایتی سکالرز ہیں جن کی کم علمی ، محدود مطالعہ اور پست ذہنی سطح کے باعث آج دین ِ حق ایک انتہائی سائنٹیفک دنیا کے ہاتھوں مضحکہ آرائی، تمسخر اور استرداد کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ قرآن کے فہم میں دوسری انتہائی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ کتابِ تخلیق کے علم پر بھی مکمل دسترس حاصل ہو ۔ کتابِ ہستی یعنی اسرارِ ذات ،،،اور کتابِ تخلیق، یعنی خالق کے پورے تخلیقی پلان کا علم جدید سائنسز اور صحائف کی روشنی میں حاصل کیے بغیر قرآن فہمی کا میدان ایک آسان، ہموار اور کھلا ہوا راستہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مرحلہِ تخلیق کی موجودہ انسانی صورتِ حال میں ایک ہی مخلوق کے اندر دو مختلف اور متضاد ذاتیں ، یعنی مادی حیوانی ذات اور غیر مادی و غیر مرئی شعوری ذات، اپنی بالغ و خود مختار کیفیت میں کیوں اکٹھا کی گئیں اور ان کے پیچھے پوشیدہ مقصد کیا تھا اور کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے؟ یہ تخالف اور تضاد جو انسان کے اندر ایک دائمی کشمکش کا موجب ہے آخر کیا حکمت رکھتا ہے؟
دنیا انسانی زندگی کے لیےایک امتحان گاہ :
اگر آپ کے سامنے خالق کا پورا تخلیقی پلان موجود ہے ، جو اُسی کے فرمان کے مطابق چھ مراحل پر مشتمل ہے، تو جواب نہایت آسان ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطور میں اشارہ دے دیا گیا ہے، صحائف میں بیان کردہ الہامی فرمودات کے مطابق دنیاوی زندگی ایک امتحان گاہ ہے۔ اور امتحان وہیں ہو سکتا ہے جہاں متخالف اور متضاد قوتیں سامنے لاتے ہوئے ایک امتحانی کیفیت پیدا کی جائے اور اس امتحان میں ڈال کر انسان کی منفی اور مثبت صلاحیتوں او رمختلف النوع ترغیبات کے مقابلے میں نفسِ شعوری کی اصلاحی کوششوں کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ لیا جائے۔اور یہ دیکھا جائے کہ آیا شعوری اقدار اس کے عمومی کردار پر غلبہ پا لیتی ہیں، یا حیوانی جبلتیں زور مارتی ہوئی ، اعلی شعوری اقدار کو شکست دے دیتی ہیں۔ نیز ایک کڑے احتساب کے بعد، تمام عیوب و محاسن کو ایک میزان کی کیفیت میں تولا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کونسا پلڑا ہلکا ہے اور کون سا بھاری۔ اور پھر ان نتائج کی روشنی میں حیاتِ آخرت میں انسان کے درجے کا تعین خالص اُس کے اپنے اعمال پر، جو اُس نے کامل خود مختاری کے ساتھ انجام دیے ہوں، کیا جا سکے۔
ذیل میں دیکھیے کہ ہمارا خالق و مالک اس کشمکش سے بھرپور امتحان گاہ کی تصدیق و تثبیت لفظ "بلاء" کے مختلف مشتقات کے استعمال کے ساتھ کن شاندار الفاظ اور کس اعلی ادبی پیرایے میں فرماتا ہے - وہ واضح طور پر فرماتا ہے کہ حیات و موت کا دائرہ یا گردش ڈیزائن ہی اس لیے کی گئی ہے کہ تمہیں ابتلاوں میں ڈال کر تمہاری ارتقائے ذات کو مہمیز کیا جائے تاکہ تم حیاتِ آخرت میں بلند درجات حاصل کر سکو ۔ اس تھیوری کے ثبوت کے لیے چند الہامی نصوص پیشِ خدمت ہیں :-
[۶۷/۲] الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"وہی تو ہے جس نے یہ زندگی، یعنی موت و حیات کا یہ سائیکل اس لیے تخلیق فرمایا کہ تم میں ہر ایک کوآزمائشوں سے گزارتے ہوئے، حسین اعمال کے ذریعے اپنی نشوونمائے ذات کے مواقع فراہم کیے جائیں۔"
2/155: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾
اور ہم تمہیں مختلف امور میں ضرور اس طرح آزمائیں گےکہ تمہیں خوف، بھوک لاحق کردیں اور مال و متاع ، جانوں اور کوششوں کے متوقع نتائج میں کمی کا شکار کردیں۔ اور اس صورت حال میں استقامت دکھانے والوں کو خوش خبریوں کی نوید دے دی جائے۔
5/48 : وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی قومی وحدت عطا کر دیتا لیکن وہ تمہیں وہ کچھ دیتا ہے کہ جس سے وہ تمہیں آزما کر ارتقائے ذات کے مواقع دیتا رہے۔
6/165: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ
اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر با اختیار جانشین بنایا اور تم میں بعض کو بعض پر برتری کے مقامات پر بلند کیا تاکہ اپنی اس عطا کی بنیاد پر تمہیں ابتلاوں میں ڈال کر ارتقائے ذات کے مواقع عطا کر دے۔
7/163: كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿١٦٣﴾
اور جس طرح کی فاسقانہ روش وہ اختیار کرتے ہیں اس کے ذریعے بھی ہم ان کی آزمائش کرتے ہیں۔
21/35: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿٣٥﴾
ہر نفس نے موت کا زائقہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں نیکی اور بدی کے ساتھ ایک بھٹی سے گذارتے ہوئے ارتقائے ذات کے مواقع دیتے ہیں کیونکہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔
47/31: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ
اور تمہیں ابتلاوں کے ذریعے ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہیں تاکہ ہمیں یہ علم ہو جائے کہ تم میں سے جدو جہد کرنے والے اور استقامت رکھنے والے کون ہیں۔ اور پھر ہم تمہارے حالات کی جانچ کریں۔
یعنی انسان نامی مخلوق اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ آزادی سے متصف فرما کر پیدا کی جس کے ذریعے ایک طرف تو حضرتِ انسان اشرف تخلیق اور خلیفہ کے درجے پر فائز ہوا، اور دوسری طرف فکر و عمل و فیصلےمیں خود مختار ہو کر پروگرامڈ جبلتوں کا تابعِ مہمل نہ رہا ۔ اسی لیے ہم اسے بیک وقت دو انتہاءوں کے درمیان عمل پذیر پاتے ہیں ۔ انتہائی شیطنیت اور انتہائی رحمت و موءدت ۔
خیر و شر کی جنگ دراصل شیطان اور رحمان کی جنگ نہیں بلکہ انہی دو مذکورہ عناصر کی آپس میں اپنے اپنے غلبے کے لیے جاری جنگ ہے ۔ جہاں حیوانی وجود کے طبیعی تقاضے غالب آ جائیں وہاں شر غالب آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب شعوری وجود کی اعلیٰ صفات و اقدار غالب آ جائیں تو خیر، امن و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔
دونوں عناصر کو اس ناچیز نے ایک "پُر حکمت" امتزاج یو ں کہا کہ یہی تو وہ امتحان ہے جو انسان کو جہدِ مسلسل پر اکساتا ہے اور اسے ارتقائے ذات کے مواقع فراہم کر کے اسے آئندہ برتر مرحلہِ زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ یعنی اس مادی دنیا کے آشوب اور طبعی وسائل کی ظالمانہ لوٹ مار کے اندھیروں میں جو بھی انسان قومی یا انفرادی طور پر اپنی شعوری ذات کی پرورش کر پاتا ہے اور بدی کی طاقتوں سے برسرِ پیکار رہ کر روحانی قوت کی افزائش کر لیتا ہے ، اس کے لیے اگلے برتر مرحلے میں صعود ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کی موجودہ زندگی کا سائیکل اسے یہ مواقع دیتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی موروثی صفات کی نمو دکر سکے۔
آخر کب تک ؟
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آخریہ جاری کشت و خون کے سلسلے کب تک؟ تو میرے عزیز بھائیو، ابھی انسانی کارواں کی آبلہ پائی کا اختتام دُور تک نظر نہیں آتا۔ انسانی تاریخ اور موجودہ برسرِ زمین حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ابھی خون کے اور بہت سے دریا پار کرنے ہوں گے۔ یاد کریں کہ جب محاکاتی انداز میں بات کی تشریح کرتے ہوئے ہمارے خالق نے ملائکہ کے ساتھ اپنے مکالمہ کو ذیل کے انداز میں پیش کیا تو وہ ذاتِ پاک ہمیں اپنی تخلیقی فارمولے کی کس حقیقت سے روشناس کرنا چاہتا تھا :-
آیتِ مبارکہ ۲/۳۰ : وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
"اور یاد کرو وہ وقت جب تمہارے پروردگار نے "کائناتی قوتوں" کو بتایا کہ میں زمین پر اپنا اختیار رکھنے والا جانشین پیدا کر رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا آپ وہاں ایک اختیار والی ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو وہاں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی ۔ جبکہ ہم تو صرف آپ کی حمد کے لیے ہمہ وقت وظائف ادا کرتے ہیں اور آپ کی کبریائی کے کام کرتے ہیں۔ پروردگار نے جواب دیا کہ درحقیقت اس خلیفہ کی تخلیق میں جو حکمت پوشیدہ ہے اس کا تم علم نہیں رکھتے ۔ وہ صرف میں ہی جانتا ہوں"۔
یہاں بات بالکل صاف ہو گئی کہ فساد اور خوں ریزی تو اس فارمولے کی حقیقت تھی ۔ البتہ اس کی حکمت خود خالق ہی کے ضمیر پر روشن تھی۔ اسی لیے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پس ثابت ہوا کہ انسان کی منزلِ مقصود ابھی بہت دور ، اور بہت سے خون کے دریاوں کے اُس پار واقع ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ :
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر"۔
توو ہی صورتِ حال ہمیں درپیش ہے۔ حضرتِ انسان ابھی اپنی ارتقائی منازل یعنی اپنی شعوری ذات کی تکمیل کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہے ۔ ابھی اس کے آئیڈیل نہایت کمتر سطح کی حیثیت کے حامل ہیں۔ یعنی ابھی تو صرف مادی وسائل اور طبیعی زندگی کے عیش، آرام اور فراوانی اس کا مقصودِ نظر ہے۔جس کی خاطر وہ فساد پیدا کرتا اور خون بہاتا ہے ۔ جب انسان بالآخر صفاتِ باری تعالیٰ کو اپنا آئیڈیل بنا لے گا اور اپنے اندرون سے ان صفاتِ عالیہ کی نمود و اظہار کی ابتدا کرے گا تو تبھی یہ دنیا اور انسانی زندگی امن و شانتی کی فصلِ بہار کا نظارہ کر سکے گی۔ اقبال نے اسی صورتِ حال کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی بصیرتِ قرآنی سے کیسا انکشافِ حقیقت فرمایا تھا جب کہا کہ :-
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ اذل تیرا نقش ہے نا تمام ابھی
امید واثق ہے کہ اس مختصر بیانیے میں ایک بہت ہی اہم قضیے پر تحقیق کرتے ہوئے قرآن کے بہت سے مفروضہ تضادات کو الہامی فرمودات کی روشنی میں غلط ثابت کرتے ہوئے دور کر دیا گیا ہے۔ اورپوری توقع کرتا ہوں کہ سمجھ کر پڑھنے والے ان سطور سے اطمینانِ قلب و ذہن کی دولت پا لینے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کریں گے۔
- Hits: 3165
اورنگزیب یوسفزئی ستمبر 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 34
Thematic Quranic Translation Series Installment No.34
قرآن میں "ما ملکت ایمانکم" سے کیا مراد ہے ؟ لونڈیاں اور غلام؟؟
What is meant in Quran by “Maa Malakat Ayimaanu-kum”? Slaves?
اس خاص قرآنی اصطلاح سے ہمارے قدماء و متاخرین اور ہم عصر سکالرز کو بالعموم "لونڈیاں" یعنی غلام عورتیں مراد لیتے دیکھا گیا تو ماں کا عظیم رتبہ رکھنے والی صنف کی اس ظالمانہ تذلیل پر دل غم سے بھر گیا ۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ تقریبا ہرسابقہ تحقیقی اور تحریری کام میں اس اصطلاح کو ۔۔۔۔" داہنے ہاتھ کی ملکیت"۔۔۔۔ کی تعریف سے متصف کیا گیا ۔ اور پھر اس مفروضہ "ملکیت" کی ذیل میں انسانوں کو لے آیا گیا ۔۔۔اور انہیں لونڈی اور غلام کہ کر پکارا جانے لگا۔ گویا کہ یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ نے بعض انسانوں کو بعض دیگر انسانوں کی ملکیت میں دے کر ایک پست کلاس کی انسانی نوع بھی بنا دی ہے تاکہ مالدار طبقات اس زر خرید نوعِ انسانی کے ساتھ بُری بھلی جو چاہیں کرتے رہا کریں ؟؟؟؟؟
مقامِ حیرت ہے کہ پھر بھی اس دین کے نام لیوا صریح منافقت سے کام لیتے ہوئےاسی قرآن سے تمام انسانوں کو واجب التکریم قرار دینے کی تعلیم پھیلاتے پھرتے ہیں اور قرآن سے حوالہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیِ نے فرمایا ہے کہ "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ" [۱۷/۷۰] ۔؟؟؟
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی کون سی نص سچی ہے اور کون سی نعوذ باللہ "جھوٹی "؟؟؟ آیا کہ انسانوں کو دیگر انسانوں کی "داہنے ہاتھ کی ملکیت" میں دے کر غلام اور لونڈیاں پیدا کی گئی ہیں،،،،،، یا پھر تمام انسان آزادی کے وصف کے ساتھ "واجب التکریم" پیدا کیے گئے ہیں ؟؟؟
اس سوال پرقارئین کے فیصلے کے عمل میں مدد فراہم کرنے کے لیے قرآن کی ایک اور نص بھی یہاں پیش کردی جاتی ہے جہاں واضح الفاظ میں "دین کا دور " اُس وقت کو کہا گیا ہے جب کسی انسان کی کسی دوسرے انسان پر کوئی ملکیت نہیں ہوگی۔ غور فرمائیے آیت ۸۲/۱۹:۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ﴿١٩﴾۔ یعنی ""تم کیا ادراک رکھتے ہو کہ دین کا دور کیا ہے ۔۔ جب صرف اللہ ہی کا حکم نافذ ہوگا تو اُس وقت کسی انسان کو کسی انسان پر کسی قسم کی کوئی ملکیت حاصل نہیں ہوگی، اور وہی دور دین کا دور ہوگا ۔""
قارئین، ہمارے خالق کے کلام کی اس نص صریح سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نہ تو دین کا دور تھا اور نہ ہی اللہ کا حکم نافذ تھا جب قرآن سے " ما ملکت ایمانکم" کی تعریف لونڈیوں اور غلاموں کی ملکیت کی صورت میں کی گئی۔ اور ایک بڑے ظلم اور باطل کو محض غاصب ملوکیت کی عیاشیوں کے لیے رواج دےدیا گیا ۔دین کا دور تو دراصل حضراتِ ابوبکر و عمر کی خلافتِ راشدہ کے ساتھ ہی ختم ہو چکا تھا۔ ان کے بعد کا دور تو صاحبِ جائداد اور صاحب اقتدار طبقہ کے مفادات کے تقاضوں کوپورا کرتا رہا ۔ لہذا قرآنی احکامات کی تفسیر جو فقہ اور حدیث کی روشنی میں کی گئی وہ عام طور پر منشاء اسلام کے خلاف معاشرہ کی طبقاتی اساس کو مضبوط کرتی رہی اور مترفین و مستکبرین کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہے۔
پھر یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ تراجم و تفاسیر میں اسی قیاسی اور قدیمی سازشی تعریف کی بنیاد پر داخلی سوچوں کے تحت اس سے متعلق اور منسلک قرآنی متون کے بارے میں طول طویل تشریحات پیش کی گئی ہیں۔ اسلامی فقہ کی طرف نظر ڈالی تو لونڈیوں اور غلاموں کے بارے میں اتنا زیادہ مواد لکھا گیا ہے اور ان کے حق میں ایسی قانون سازی کی گئی ہے کہ غلامی اور خاص طور پر لونڈیوں کے موضوع کو ایک مضبوط ادارہ بنا دیا گیا ہے ۔ اور آمرانہ مسلم حکومتوں کے طویل و عریض دورانیے میں انہی فقہی احکامات کی آڑ لے کر کھلے عام انسانوں کی خرید و فروخت کو جائز مانتے ہوئے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق اور قرآنی احکامات کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب خواص و عوام کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔
یعنی قرآن کی رُو سے غلام اور لونڈیوں کے من گھڑت جواز کو بنیاد بنا کر اسلام کی محسنِ انسانیت آئیڈیالوجی کو ایک انسانیت کُش دین بنا دیا گیا اور ملوکیت کے استحصالی اقدامات نے کرایے کے فقہا کے ذریعے غلامی کو ایک مسلمہ ادارہ بنانے کے لیے نہایت تفصیلی قانون سازی کروائی تاکہ مترفین اور مستکبرین کا وہ طبقہ جو تلوار کے زور پر تمام ذراِئع پیداوار کا مالک بن بیٹھا تھا، اپنی انسانیت سوز من مانیاں کر سکے۔ تو آئیے جس اصطلاح سے قرآن کو غلامی کی اجازت دینے کا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے، اُس کا ایک بے لاگ علمی، تاریخی اور معاشرتی تجزیہ کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اس اصطلاح سے غلامی کا جواز نکالنا صرف اور صرف ایک شیطانی عمل تھا ۔
عرض یہ ہے کہ جب مرکزی تھیم theme یعنی "ما ملکت ایمانکم" کی تعریف ہی کو معروضی مادی حقیقت پر پرکھا نہیں گیا تو اُس سے آگے بڑھ کر جو بھی سوچ یا موقف اختیار کیا جائیگا اور جس قدر بھی موضوع پر فقہی احکامات صادر کیے جائیں گے وہ سب کچھ لازما بے بنیاد یعنی غلط ہوگا ۔ لیکن ایسا آج کے دن تک اسلام کی تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا ۔ یعنی ثابت ہوا کہ آج کے جدید ترین علمی دور میں بھی مسلمان ڈیڑھ ہزار برس پرانی استخراجی منطق اختیار کیے رہنے پر مصر ہے اور اس دیرینہ بیماری پر قابو پانے میں ناکام رہاہے۔ ہمارے بیشتر تراجم و تفاسیر اسی انداز میں ہم تک پہنچے ہیں ۔ اسی لیے ہم ایک گمشدہ اور پسماندہ قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ہمارے بڑوں نے کبھی یہ تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اللہ تبارک و تعالیِ کیسے اور کیوں کچھ انسانوں کو کچھ دوسروں کی غلامی میں دے سکتا ہے، جب کہ وہ اپنے صحائف کے ذریعے انسان کی آزادی اور حُرمت کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔
پس اس معروضی صورتِ حال میں ہم ذیل میں اس اصطلاح یا ترکیب کے حامل تمام متون کا مبسوط تجزیہ کرتے ہوئے تمام متعلقہ آیات مبارکہ اور ان کے جدید ترین قرینِ عقل معانی پیش کریں گے جنہیں کسی بھی مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی سے گذارا جا سکے گا ۔ اور جن کے ذریعے غلاموں اور لونڈیوں کے دعوے دار اس فریب کار ملوکیتی اسلام کا، اور اس کی تکرار اور استمرار کے ذمہ داروں کا، جنازہ نکل جائے گا۔ حقیقی اسلام اپنی منزہ شکل میں تاریکیوں سے اُبھرتا ہر خاص و عام کو نظر آئیگا۔
دین کی حقیقت کو تلاش کرنے والے عزیز بھائیوں سے التماس ہے کہ یہ نہایت اہم پالیسی احکامات ہیں، ان کے تراجم کو ایک قیمتی حوالے کے طور پر محفوظ رکھیں۔یہ آئندہ زندگی میں آپ کے بہت کام آئیں گے۔ اب "ما ملکت ایمانکم" کے تمام قدیمی سازشی معانی کو غیر منطقی اور متروک قرار دیتے ہوئے، کہ جن سے عورت ذات کا ایک نہایت پست درجہ پیدا کرنے کا مذموم اور ہوس پرستانہ کام لیا گیا، اس ترکیب سے علم و دانش اور قرآنی سیاق و سباق کے مطابق انتہائی مستند تعریف یہ اخذ کی جاتی ہے :-
"وہ جو تمہاری قسم/حلف/عہد/ایگریمنٹ/کانٹریکٹ [ایمانکم] کے تحت تمہاری تحویل/نگرانی/سرپرستی/ماتحتی [ملکت] میں آتے ہوں،،،یا تمہارے لیے کام کرتے ہوں" ، یعنی مختصر اور جامع تعریف ہوگی :-
"کسی باہمی شرائط نامے کے تحت تمہاری ماتحتی/نگرانی/سرپرستی میں کام کرنے والے"۔
مادہ " ی م ن " بہت سے معانی رکھتا ہے مثلا
Ya-Miim-Nun = right side, right, right hand, oath, bless, lead to the right, be a cause of blessing, prosperous/fortunate/lucky..
اور یہاں سے ہی اس کا مشتق، الف پر زبر کے ساتھ، " ایمان" [Aymaan] اوتھ Oath ، یعنی قسم، حلف، عہد، کسی شرائط پر ایگریمنٹ، ایمپلائمنٹ کنٹریکٹ کے معنی دیتا ہے۔
نیز غور فرمائیں تو علم ہوگا کہ یہاں مرد اور عورت کی کوئی قید یا ذکر ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم سب یہاں سے عورت کا معنی اخذ کر لیتے ہیں،،،، بلکہ تمام "لونڈیاں " یا غلام عورتوں کا وجود ہی یہاں سے اخذ کیا جاتا ہے ؟؟؟؟ پھر اُن کے ساتھ "جائز زنا" کا مزے لے لے کر اور تفصیل کے ساتھ ذکر چھیڑ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان احکامات کو غلامی سے منسلک کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسلام میں غلامی اور لونڈیاں رکھنا ایک عمومی روٹین ہے اور اسی لیے اس ضمن میں ہدایات و احکامات جاری کیے گئے ہیں ۔ از حد شرم کا مقام ہے ۔
ایک اور تاویل اسی استخراجی منطق کے حق میں یہ دی جاتی ہے کہ غلامی کا ذکر تو قرآن میں ماضی کے صیغے کے ساتھ آتا ہے کیونکہ ماضی میں وہاں غلامی رائج تھی اوروہ سلسلہ اسلام تک آ پہنچا تھا ۔ اس لیے ان پرانے غلاموں کے تصفیے کے لیے احکامات بھیجے گئے اور انہیں "ما ملکت ایمانکم" کی ترکیب سے پکارا گیا ۔ یہ ایک بے کار اور لنگڑی منطق ہے اور صرف ایک معذرت خواہانہ تاویل کہلانے کی حقدار ہے۔ کیونکہ صدر اول کے بہت بعد بھی، یعنی دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک کا پورا اسلامی فقہ غلاموں کے استعمال اور ان کی خرید و فروخت اور انہیں ایک دوسرے کو تحفتا یا عاریتا استعمال کے لیے دیے جانے کے احکامات وضع کرتا نظر آتا ہے ۔ اور تمام ملوکیتی محلات میں بنو امیہ سے لے کر ہندوستان کے مغل شہنشاہوں تک ایک کثیر تعداد زرخرید لونڈیوں اور غلاموں کی پائی جاتی رہی ہے۔
پھر یہ کہ غلامی کا انسداد تو قرآن نے ایک ہی جملے سے اپنے ڈسپلن کے نفاذ کی ابتدا ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کر دیا تھا جب فرمایا [۸/۶۷]:
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾
"نبی کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی پائے جائیں یہاں تک کہ خواہ اُس نے زمین کے بڑے حصے کو اپنے زیرِ نگیں کر لیا ہو [يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ] ۔ یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگ دنیا کی آسائشوں کی خواہش رکھتے ہو اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی سلامتی چاہتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیِ غالب اور حکمت والا ہے۔ "
اِسرہ قیدیوں کو کہتے ہیں ۔ غلام دراصل قیدی ہی ہوا کرتے تھے کیونکہ اگر قید میں نہ رکھے جاتے تو راہِ فرار کیوں اختیار نہ کرتے؟
یہ بھی فرمایا کہ " [۴۷/۴] ءفَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا
""پس اپنے قیدیوں کو سختی سے جکڑ لو، بعد ازاں انہیں یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر یہاں تک کہ جنگِ خود اپنے ہتھیار اُتار دے۔""
لیکن ،،، پھر بھی بار بار "ما ملکت ایمانکم" کہ کر کس نوعِ انسانی کا ذکر کیا جاتا رہا ؟،،،،،، یہ شاید کسی نے بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ درحقیقت ، جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی، یہ ماتحت اور ملازم یعنی ورکر [worker] طبقہ تھا جس کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق نے فکر کی اور بار بار ان کے حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ اور اس ناچیز کی اس وضاحت کی بھرپور توثیق کے لیے،،،، اور اس اہم موضوع پر اتمامِ حجت کے لیے،،،، ملاحظہ فرمائیں ذیل کا فرمانِ الہی :- [آیت ۱۶/۷۱]
۱] وَاللَّـهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٧١﴾
"اور بیشک اللہ کے قانون نے سامانِ نشو و نما یا معاش کے معاملے میں تم میں سے بعض کو دیگر پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے ۔ پس جنہیں یہ فضیلت حاصل ہو اُن پر لازم ہے کہ اپنے حاصل کردہ سامانِ نشو و نما کو اُن لوگوں کی طرف لوٹا دیں [بِرَادِّي] جنہوں نے اس کے لیے اُن کی ماتحتی میں کام کیا ہے [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ] تاکہ سبھی رزق کے معاملے میں برابری کی بنیاد پر [مساوی درجہ پر ] آ جائیں۔ کیا اب اس کے بعد بھی تم اللہ کی نعمتوں کا صرف اپنے لیے ڈھیر لگا لو گے [يَجْحَدُونَ] ؟؟؟؟"
یہاں آجر اور اجیر، یعنی مالک اور نوکر کے درمیان امارت اور غربت کا فرق مٹانے کے لیے اللہ رب العزت نے کتنا بڑا انقلابی حکم لاگو کیا ہے کہ جس پر خلوصِ نیت سے عمل کرنے میں انسانیت کے تمام دکھ ، آلام و مصائب بآسانی دور کیے جا سکتے ہیں ۔ طبقاتی فرق اور طاقتور اور کمزور طبقات میں تفاوت دور کرنے کے لیے شاید اس سے زیادہ عظیم اور عملی اقدام کوئی اور سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔۔ ۔ یعنی وہ تمام کمائی یعنی فالتو منافع جو ورکروں کی محنت کی اساس پر کمایا جائے، انہی ورکروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ کہیئے کہ اب "لونڈی غلام" کی وکالت کرنے والے یہاں کیا کہیں گے ؟؟؟
حقیقت وہی ہے کہ اگر ہم اپنے قضیہِ کبری [main proposition]کے معانی کو آج کی جدلیاتی عقل کی کسوٹی سے گذار کر اس کی معروضی مادی حقیقت کو درست کر نے پر تیار نہیں ہیں ، تو یقین کیجیئے کہ معانی و بیان کے بہت سے نئے افق ہمارے لیے کھلنے سے انکار کر دیں گے۔ اور ہم عہدِ ملوکیت کی سازشوں کے آلہ کار بنے، یونہی اپنے دین کو خرافات سے آلودہ کرتے اور تمام دنیا کے آگے معذرت خواہانہ تاویلیں گھڑنے میں لگے رہیں گے کیونکہ غلامی کسی طور پر بھی انسانیت کی ہر قدر کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور دنیا کا کوئی بھی مذہب اور دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
وہ اگلا مرحلہ اس کے بعد ہی آئیگا کہ ہم "نکاح" ، "فحش"، "محصنات"، وغیرہ قرآنی اصطلاحات کے معنی سمجھ سکیں ۔ کیونکہ جب تک بنیادیں درست سمجھ نہیں آئینگی ان پر کسی بھی مزید سوچ کی عمارت درست تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ "عورت" اور "نکاح" اور "سیکس یعنی مباشرت" کا ہر جگہ مروج سازشی معنی از خود اختیار کر لینے کا جنون ہمیں چھوڑنا ہوگا ۔ یہ ہمارا غلیظ بدبو دار ورثہ ہے اور ہمارے اعتقادات کا حصہ ۔ اس لیے یہ خاصا مشکل کام ہوگا ۔
تاہم آئیے اب ترکیب،، " ما ملکت ایمانکم"،، کی حامل جملہ اہم ترین آیاتِ مبارکہ کا تحقیقی ترجمہ انتہائی قرین عقل علمی انداز میں سب کے ملاحظے کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے تاکہ اذہان میں اُٹھنے والے تمام سوالات کا شافی جواب دے دیا جائے اور مکمل شرحِ صدر کی صورتِ حال فراہم کر دی جائے ۔ اوپر ترجمہ کی گئی آیت کو ملا کر یہ کُل ۱۱ آیات ہیں جو اس موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اور اس طرح اتمامِ حجت کا فرض ادا کرتی ہیں۔
یاد رہے کہ سورۃ نساء عورتوں کے بارے میں نہیں بلکہ پسے ہوئے، فراموش شدہ، نچلے اور کمزور طبقات، یا غریب اور محروم عوام کی فلاح و بہبود کے احکامات لے کر نازل ہوئی ہے ۔ اس سورت میں خواتین کا ذکر بھی جہاں جہاں آتا ہے وہ اسی لیے کہ عورت کو بھی اُسی کمزور اور پسے ہوئے طبقے میں شامل رکھا گیا تھا، اور آج تک مسلم تہذیب میں ایسا ہی رائج الوقت ہے۔ تو آئیے فکر و تحقیق کی اُس منزل کی جانب قدم بقدم آگے بڑھتے ہیں۔
۲} آیت ۴/۳ : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
""اگر پھر بھی ایسا اندیشہ لاحق ہو جائے کہ تمہارے لوگ یتیم بچوں کے معاملے میں انصاف نہ کر پائیں تو اس کا حل یہ ہے کہ معاشرے کے اس مخصوص کمزور اور نظر انداز کیے گئے گروپ میں سے [مِّنَ النِّسَاءِ] جو بھی تمہاری طبع کو موزوں لگیں [یا تمہارے لیے موزوں سمجھے جائیں] تم ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار کو ایک سمجھوتے [agreement]کے ذریعے اپنی سرپرستی، کفالت یاتحویل میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ اس صورت میں بھی اگر اندیشہ ہو کہ سب سے برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک بچہ ہی سرپرستی میں لے لو؛ یا پھر اگر کوئی قبل ازیں ہی تمہاری سرپرستی ، ذمہ داری یا تحویل میں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] ہو تو وہی کافی ہے۔ یعنی کہ یہ امکان بھی پیشِ نظر رکھو کہ تم معاشی بوجھ میں زچ ہو کر نہ رہ جاو۔""
۳} آیت 4/24 : وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٢٤﴾
""کمزور عوام میں سے [مِنَ النِّسَاءِ]جو جماعتیں/گروپس/کمیونیٹیز کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی عمل کا ارتکاب نہ کر رہی ہوں [وَالْمُحْصَنَاتُ]، ان کو جبرا اپنے تسلط میں لانا منع کیا گیا ہے، سوائے ان کے جو ما قبل سے ہی کسی عہد و پیمان کے تحت تمہارے تسلط یا سرپرستی یا ماتحتی میں آ گئی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] ۔ یہ اللہ نے تم پر ایک قانون کے طور پر لاگو کر دیا ہے [كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ]۔ اور اس مخصوص صورتِ حالات کے علاوہ جو کچھ اور صورت اس معاملے کی ہو تو وہ تمہارے لیے جائز کر دی گئی ہے یعنی کہ اگر تم ان کی فلاح پر اپنے اموال خرچ کرتے ہوئے ایسی جماعتوں کو اپنی حفاطت کے حصار میں [محصنینَ] لانا چاہو، نہ کہ خون بہانے والے بن کر [غَيْرَ مُسَافِحِينَ ]۔ پھر تم ایسے لوگوں یا قوموں کے الحاق سے جو کچھ بھی فوائد حاصل کرو [اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ] تو انہیں اس کا پورا معاوضہ اور ان کے حقوق ایک فرض سمجھتے ہوئے ادا کرو [فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ]۔ اور اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس فریضہ کو پورا کرنے کے بعد کچھ اور بھی علیحدہ سے تمہارے درمیان رضامندی سے طے پا جائے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ تعالی تمہاری تمام کاروائیوں اور نیتوں کا علم رکھتا ہے اور نہایت دانش کا مالک ہے۔ ""
وضاحتی نوٹ:
درجِ بالا آیت ۴/۲۴ کے ضمن میں دراصل بات آیت ۴/۲۲ سے شروع ہوجاتی ہے جہاں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ : وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ ""تم اپنے کمزور عوام [النِّسَاء] کا وہ سب کچھ اپنے قبضہ و اختیار میں مت لےلینا [وَلَا تَنكِحُوا ]جو تمہارے آباء یعنی پچھلوں نے اپنے قبضہ و اختیار میں لے لیا تھا [مَا نَكَحَ ] ۔ ما سوا اس کے جو پہلے گذر چکا"""۔ اب یہاں واردات کچھ اس طرح کی گئی کہ سیکس کے متوالوں نے "نکاح" کا ایک ہی معنی پڑھ رکھا تھا ،،،،، یعنی شادی ۔اور نساء کا بھی ایک ہی معنی،،،،یعنی عورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے جھٹ ترجمہ کر دیا گیا : "اُن عورتوں سے نکاح [یعنی شادی یا جنسی عمل] مت کرو جن سے تمہارے باپ دادوں نے نکاح [شادی یا جنسی عمل] کر لیا ہو "۔۔۔۔۔ یہاں غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ لفظ نکاح کے ایک گہرے لغوی مطالعے نے ثابت کر دیا ہے کہ "نکاح" شادی کے معنوں میں صرف وہیں لیا جا سکتا ہے جہاں اس کے ذیل میں کوئی اور لفظ بھی استعمال کیا گیا ہو جو شادی کےمعنی کی جانب راہنمائی کرتا ہو۔ ۔۔۔۔۔ صرف لفظ "نکاح" جہاں بغیر کسی اضافی یا ذیلی لفظ یا لاحقے یا ترکیب کے لکھا پایا جائے گا وہاں اس کے معنی خود بخود مرد اور عورت کے درمیان شادی کا رشتہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ بلکہ وہاں اس کے دیگر معانی کا اطلاق ہوگا ۔ دیگر معانی میں "کسی پر تسلط کر لینا،،،کسی کو مغلوب کر لینا،،،کسی کو اپنے قبضے، تحویل وغیرہ میں لے لینا، کسی سے اتفاق رائے پر مبنی کوئی اشتراکِ عمل کر لینا [agreement] وغیرہ، وغیرہ" شامل ہیں، جو متن کے سیاق و سباق کے مطابق قابلِ اطلاق ہوں گے۔ اس لسانی قاعدے/قانون کی جانب یہ مستند اشارہ بات کو سمجھنے والوں کے لیے فکر و خیال کے کئی در کھول دیتا ہے اور ذہن میں اُٹھنے والے بہت سے سوالات کے جواب پیش کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہمارے قدیمی تراجم سے ہمارے اسلاف کی عقل و فکر کا فقدان ملاحظہ فرمائیے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ نئی نسل کے جوان لوگ اپنے بوڑھے باپ دادا کی استعمال شدہ یا منکوحہ خواتین کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں ،،،، اور وہ بھی اس شدو مد کے ساتھ کہ اللہ تبارک و تعالیِ کو اپنی کتاب میں اس امر کو تصریحا ممنوع قرار دینا پڑے ؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔یہ قرآن کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا گیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ حساب لگائیے کہ باپ دادا کی منکوحہ خواتین عمر اور ضعیفی کے کس درجہ پر ہوں گی، اور وہ کون فاتر العقل جوا ن مرد ہوں گے جو اپنی ہم عمرخواتین کو چھوڑ کر اُن ضعیف عورتوں سے نکاح کرنا چاہیں گے جو در حقیقت اُ ن کی ماوں، نانیوں، دادیوں وغیرہ کے منصب پر سرفراز ہوں گی؟؟ پھر اگر کوئی سکالر یہ فضول تاویل دے کہ" عربوں میں ایسا ہوتا تھا"، تو اُس کی عقل پر فاتحہ پڑھنے کو دل چاہے گا۔۔۔۔میرے عزیز بھائیو، قرآن عربوں کے لیے نازل نہیں ہوا تھا، بلکہ جملہ انسانیت اور کُل اقوامِ عالم کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ [وضاحت تمام شد]۔
۴} آیت ۴/۲۵: وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٥﴾
""اور پھر تم میں سے جن علاقوں کی قیادت مادی ذرائع کی فراوانی یا قوت [طولا] میں اتنی استطاعت نہ رکھتے ہوں کہ مضبوطی اور قوت رکھنے والی یا ناقابلِ دسترس مومن جماعتوں [الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ ]کے ساتھ کوئی اشتراکِ کار یا الحاق و بالا دستی کا سمجھوتا کر پائیں، تو پھر وہ تمہاری ما قبل سے زیر سرپرستی موجود جماعتوں/قوموں [مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم ] میں سے ہی نوجوان اور بہادر مومن گروپوں کے ساتھ الحاق یا شراکتِ کارکر لیں۔ اللہ تمہارے عہد و پیمان سے بخوبی با خبر رہتا ہے۔ تم سب ایک دوسرے کے قریبی ساتھی ہو۔ پس اشتراکِ عمل کے عہد نامے [فانكِحُوهُنَّ ] ان جماعتوں کے معتبر لوگوں کی اجازت سے کرو اور ان کے حقوق قانونی طریقے سے ادا کرو اس طرح کہ وہ اخلاقی اور قانونی طور مضبوط رہیں، خون نہ بہائیں اور نہ ہی خفیہ سازشیں کرنے والی ہوں۔ پھر جب وہ اس اشتراک کے نتیجے میں طاقتور اور محفوظ ہو چکی ہوں، اور پھر کسی قسم کی زیادتیوں کا ارتکاب کریں تو ان پر دیگر مضبوط اورتحفظ کی حامل جماعتوں کی نسبت نصف سزا لاگو ہوگی۔ یہ ترجیحی سلوک تم میں سے ان کے لیے ہے جو نا مساعد اور مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہوں ۔ لیکن اگر ان حالات میں بھی تم استقامت سے کام لیتے ہوئے اپنے کردار مضبوط رکھو گے تو یہ تمہارے لیے خیر کا باعث ہوگا کیونکہ اللہ تعالی مشکلات میں سامان تحفظ اور نشوونما دینے والا ہے۔ ""
۵} آیت ۲۳/۶: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾
""اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رازوں/خفیہ پالیسیوں کی حفاظت کرتے یعنی انہیں چھپائے رکھتے ہیں ۔ سوائے اپنے قریبی ساتھیوں سے یا ان سے جو ان کے ماتحت کام کرتے ہوں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ]۔پس اس انداز میں کام کرنے پر وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں ۔""
۶} آیت ۲۴/۳۱ : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿النور: ٣١﴾
"اور تمام امن و ایمان کی ذمہ دار جماعتوں/ٹیموں کو ہدایت دے دو کہ وہ اپنی انٹیلیجنس اور اپنی سوچوں[ أَبْصَارِهِنَّ] کو کنٹرول میں رکھیں، اور اپنے رازوں/ خفیہ پالیسیوں کی حفاظت کیا کریں۔ اور اپنی ترقی اور شان وعظمت کی پالیسیوں [ زِينَتَهُنَّ] کو عام مت کریں سوائے اُس جزء کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی عقلی خطاوں کو [ بِخُمُرِهِنَّ] ضرور بیان کرکے [وَلْيَضْرِبْنَ ] احتساب کے لیے سامنے لائیں ۔ اور اپنی بہتری اور عروج کی پالیسی اور اقدا مات [ زِينَتَهُنَّ] کو سوائے اپنے ڈائریکٹ ذمہ دارافسروں [لِبُعُولَتِهِنَّ ] کے اور کسی پر ظاہر نہ کریں [ لَا يُبْدِينَ ]۔ ایسے پالیسی معاملات کو نہ تو اپنے بڑوں پر اور نہ ہی اپنے افسروں کے بڑوں پر اور نہ ہی اپنے چھوٹوں پر، نہ ہی اپنے سربراہوں کے دیگرماتحتوں پر،نہ ہی اپنے ساتھی افسران پر اور نہ ہی ان کے جونیروں پر اورنہ ہی اپنی ساتھی جماعتوں پر، اور نہ ہی اپنے عوام پر یا اپنے ماتحت کام کرنے والوں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ] پر اور نہ دیگرمردوں یا طفلانہ مزاج رکھنے والوں میں سےاُن "تابعین" یا احکام بجا لانے والوں پر جو خلوت کے حساس اور کمزورمواقع پرموجود ہونے کا حق نہیں رکھتے، اور نہ ہی کھولیں چھوٹے ماتحت طبقے [ لَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ] پر تاکہ وہ کبھی نہ جان پائیں کہ ان کی ترقیاتی سوچوں میں کیا چھپا ہوا ہے۔ اور اے امن و ایمان کے ذمہ دارو تم سب مجموعی طور پر حکومتِ الہیہ کی خیر خواہی کی جانب پلٹ جاو تاکہ تم سب فلاح پا جاو۔
7} آیت ۲۴/۳۳: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّـهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٣﴾
""نیز وہ لوگ جو کسی کنٹریکٹ کے تحت کوئی کام حاصل نہ کر پائے ہوں ، تو وہ ضبطِ نفس سے کام لیں یہاں تک کہ اللہ تعالیِ اپنے فضل سے انہیں احتیاج سے آزاد کر دے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو تمہاری ملازمت سے آزاد ہونا چاہیں تو تم انہیں فراغت کا پروانہ دے دو اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس اقدام میں ان کی بہتری ہو۔ اور ان کی مدد کے لیے اللہ کے اُس مال میں سے کچھ دے دو جو اس ذاتِ پاک نےتمہیں عطا کیا ہے۔ اپنی دنیاوی اغراض کے لیے اپنے نوجوان نسل یا کمیونٹی کو جبر و استحصال کا استعمال کرتے ہوئے بغاوت پر آمادہ نہ کیا کرو ۔اگر وہ اپنے کیریر کے معاملے میں تحفظ اور مضبوطی حاصل کرنے کا ارادہ کریں تو ان کی مدد کرو۔ پھر جن پر جبر کیا جائیگا تو حکومتِ الہیہ کا فرض ہے کہ جبر و استحصال کا شکار ہونے والوں کو سامان ِ حفاظت اور مرحمت عطا کرے۔""
8} آیت ۸ ۲۴/۵: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾
""اے امن و ایمان کے قیام کے ذمہ دارو، یہ ضروری ہے کہ وہ جو تمہاری سرپرستی اور ماتحتی میں کام کرتے ہوں [الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] اور خود تمہارے ساتھیوں میں سے وہ بھی جو ابھی سنجیدگی و تدبر کے درجے تک نہ پہنچے ہوں ، تین مواقع پر تم سے رخصت کی اجازت لے لیا کریں۔ اس سے قبل کہ تمہاری صبح کے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کا وقت شروع ہو جائے،،،،،، اُن میٹنگز کے دوران جن میں تم اپنی ترقی، پیش قدمی و غلبے کے مقصد سے اپنا لائحہ عمل تشکیل دے رہے ہو،اور تمہاری شام کی ڈیوٹیوں کی ادائیگی کے بعد۔ یہ تینوں اوقات تمہارے لیے نازک، حساس اورخلوت کے مواقع ہوتے ہیں۔ ان تین مواقع کے علاوہ تم پر اور ان پر آپس میں ملنے جلنے میں کوئی برائی نہیں ۔ کیونکہ تم میں سے بہت سے تمہارے لیے اور تمہارے دوسرے ساتھیوں کے لیے نگرانی و نگہبانی کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں ۔ اللہ تم پر اس طرح اپنی ہدایات کھول کر واضح کر دیتا ہے، کیونکہ اللہ تمہارے تمام حالات کو جاننے والا بھی ہے اور دانش و تدبر کا مالک بھی ہے۔""
۹} آیت الروم ۲۸: ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿الروم: ٢٨﴾
""اور وہ تمہیں تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے ۔ یہ بتاو کہ کیا تمہارے ماتحت ملازمین [مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم]تمہیں دیے گئے ہمارے رزق میں اس طور پر شریک کیے گئے ہیں کہ تم اور وہ سب اس ضمن میں برابری کی بنیاد پر آ گئے ہوں ؟؟؟۔۔۔۔ اور کیا تم ان کے لیے بھی اس طرح خوف یا اندیشہ محسوس کرتے ہو جیسا کہ خود اپنی ذات کے لیے کیا کرتے ہو؟؟؟۔۔۔۔ یہ ہے وہ انداز جس سے ہم اپنے احکامات اُس قوم پر واضح کرتے ہیں جو عقلوں سے کام لیتی ہے ۔""
10} آیت۳۳/۵۰: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٠﴾
""اے سربراہ مملکت الٰہیہ [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ] ہم نے آپ کے ان ساتھیوں/لوگوں [أَزْوَاجَكَ] کو جن کے معاوضے /اجرتیں [أُجُورَهُنَّ ] آپ نے مقرر کردیے ہیں، آپ کے مشن پر کام کرنےکے لیے [لَكَ ] دیگر پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد قرار دے دیا ہے [أَحْلَلْنَا] اور انہیں بھی جنہیں اللہ نے مالِ غنیمت کے توسط سے آپ کی ذمہ داری بنایا ہے [أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] اور وہ آپ کی زیرِ سرپرستی ونگرانی ہیں [مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ نیز وہ خواتین جو آپ کی چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد ہیں جنہوں نے آپ کی معیت میں ہجرت اختیار کی ہے ، اور ہر وہ مومن خاتون جو نبی کے مشن کے لیے رضاکارانہ خود کو پیش کرتی ہو، تو اگر نبی بطورِ سربراہِ مملکت ارادہ فرمائے تو انہیں قاعدے /قانون/ کنٹریکٹ/ ایگریمنٹ کے مطابق فرائض ادا کرنے کے لیے طلب کر سکتا ہے [أَن يَسْتَنكِحَهَا ]۔ اس معاملے میں اختیار و فیصلہ کا حق صرف آپ کا ہے دیگر ذمہ داروں [الْمُؤْمِنِينَ] کا نہیں۔ جہاں تک دیگر ذمہ داران کا تعلق ہے تو اُن کی جماعتوں/ساتھیوں کے ضمن میں اُن پر جو بھی فرائض ہم نے عائد کیے ہیں وہ بتا دیے گئے ہیں تاکہ تمامتر معاملات کی ذمہ داری کا بار آپ پر ہی نہ آ جائے۔ اللہ کا قانون سب کو تحفظ اور نشوو نمائے ذات کے اسباب مہیا کرتا ہے۔""
11} آیت ۳۳/۵۴: لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ﴿٥٢﴾
""بعدازاں یا علاوہ ازیں خواتین [النِّسَاءُ ] آپ کے مشن کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کی جاسکتیں [لَّا يَحِلُّ ]۔ نہ ہی آپ ان کے موجودہ گروپس کو نئے لوگوں [أَزْوَاجٍ ]سے تبدیل کریں خواہ ان کی خوبیاں آپ کوپسند ہی کیوں نہ آئیں ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو ما قبل سے آپ کے زیر سرپرستی و نگرانی میں آ چکی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ اللہ کا قانون ہر شے کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔""
موضوع کا اختتام کرتے ہوئے یہ امر قارئین کے لیے واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم عصر محققین میں سے صرف لاہور کے ڈاکٹر قمر زمان نے اس ضمن میں ایک جدید قرینِ عقل ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کا اعتراف کرنا ضروری ہے، اور جسے اُن کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس عاجز کی ذاتی رائے میں موصوف کے اکثر تراجم نہ صرف غیر واضح بلکہ زبان و بیان کے سنگین ابہامات سے پُر ہوتے ہیں اور اپنا مافی الضمیر اور ضروری تناظر سامنے لانے اور سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ موصوف کچھ عرصہ قبل دہریت اور مادیت کی لائن اختیار کر چکے ہیں اور اس ضمن میں و ہ اپنا آزادیِ رائے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن اس ذاتی رائے کے اظہار سے یہ مراد نہیں کہ موصوف کواس اہم موضوع پر قدیمی جمود کو توڑنے اور جدید تحقیق کی سمت کوشش کرنے پر واجب کریڈٹ نہ دیا جائے۔
اس مقالے میں شامل تمام اہم قرآنی الفاظ کے معانی کی پوری وسعت دنیا کی اہم ترین لغات سے تحقیق کے بعد شامل ِ حال کر دی گئی ہے۔ تحقیق کرنے والے قارئین انہیں ذیل میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
Tha-Kh-Nun ث خ ن : یثخن: = to be thick, become coarse, stiff, subdue thoroughly, have a regular fighting, cause much slaughter, have a triumphant war, to render/inflict, to be made heavy with something or prone. athkhana - to do something great, make much slaughter, overcome, battle strenuously.
Nun-Kaf-Ha ن ک ح ؛ نکح= to tie, make a knot, contract, to marry, marriage.
Ha-Sad-Nun ح ص ن ؛ حصن؛ = To be guarded, be inaccessible/unapproachable, be chaste, be strongly fortified, difficult to access, be preserved, be protected (against attack), abstain from what is not lawful nor decorous, preserve or guard a thing in places inaccessible/unapproachable, make or render a thing inaccessible or unapproachable or difficult to access, make/render a thing unattainable by reason of its height, to fortify oneself.
Tay-Waw-Lam ط و ل ؛ طولا؛ = to be long, continue for a long time, be lasting, be protracted. taulu - plenty of wealth, sufficiency of personal social and material means, power. tuulun - height. tawiilun - long. tatawala - to spread, be lengthened/prolonged.
Fa-Ta-Ya ؛ ف ت ی؛ فتی ؛ فتیات؛ = to be young, full-grown, brave, generous, manly qualities, bold, courageous, fine fellow, gallant, young comrade, young slave, servant.
afta - to advise, give an opinion/instruction, decision, judgement or decision in a matter of law, give a formal legal decree, announce of inform a legal order, issue a (divine) decree or sacred law, explain the meaning, pronounce, furnish explanation.
Ayn-Nun-Ta ع ن ت ؛ عنت ؛ = to meet with difficulty, fall into distress, be overburdened, commit a crime, be spoiled, constrain anyone to do a thing, cause anyone to perish, beat harshly. a'nata - to bring anyone into difficulty, beat roughly, cause annoyance, confuse. anatun - sin/crime/mistake/difficulty.
Gh-Dad-Dad غ ض ض؛ غضض؛ یغضضن؛ = lowered, contracted, lessened, restrain
ب ص ر = Ba-Sad-Ra = Becoming perceptive, mental perception, having belief or knowledge, understanding, intelligence or skill, knowing, giving light, shining, illuminated, making manifest, evident and/or apparent.
To behold/perceive/see/observe/watch.
Zay-Ya-Nun ز ی ن ؛ زینہ؛ زینتکم؛ = To adorn, deck. Adorn, grace, honor [said of an action, quality, or saying]. Embellished, dressed, or trimmed it [relating to language]. Adorned [ex. The earth, or land, became adorned with or by it's herbage], ornamented, decorated, decked, bedecked, garnished, embellished, beautified, or graced him/it. Of language it is said: "It was embellished, dressed up, or trimmed". Of action it is said: "It was embellished, dressed up"; i.e. commended to a person by another man. A grace, a beauty, a comely quality, a physical/intellectual adornment, an honour or a credit, and anything that is the pride or glory of a person or a thing. Rank, Station, Dignity.
Kha-Miim-Ra خ م ر ؛ خمر : = cover/conceal/veil, becoming changed/altered from a former state/condition, mixed/mingled/incorporated/blended, intoxication/wine/grapes, make-up, any intoxicating thing that clouds/obscures the intellect, come upon secretly/unexpectedly, crowding of people, odour of perfume, women's head cover, man's turban, a covering, something fermented/matured.
ج ي ب: = Jiim-Ya-Ba = to cut out a collar of a shirt, opening at the neck and bosom of a shirt, an opening in a shirt (e.g. where the head goes through or the sleeve), pocket (derived because Arabs often carry things within the bosom of a shirt), bosom, heart, place of entrance for a land/country, hollowed.
ب ع ل Ba-Ayn-Lam = Husband, took a husband or became a wife: People intermarrying with a people; Playful toying between man and wife; Resistance
Obedience to the husband
Lord, master, owner or possessor, Head, chief, ruler or person in authority
Someone whom it is a necessary duty to obey;
Lacking strength, power or ability; Elevated land; Confounded or perplexed
Baal (pre-Islamic deity, 37:125)?
Alif-Kha-Waw اخوان؛ اخوات؛ اخی؛ اخت : = Male person having the same parents as another or a male only having one parent in common; person of the same descent/land/creed/faith with others; brother; friend; companion; match; fellow of a pair; kinsman; intimately acquainted.Signifying the relation of a brother - brotherhood/fraternity. Act in a brotherly manner. An associate/fellow. Sister, female friend. When it does not relate to birth, it means conformity/similarity and combination/agreement or unison in action.
Ha-Lam-Miim ; ح ل م ؛ حلم = To dream, have a vision. Attain to puberty. Experience an emission of seminal fluid (whether awake or in sleep), dream of copulation in sleep. To be forbearing or clement, to forgive and conceal offences, to be moderate/gentle/deliberate/leisurely in manner, patient.
Alif-Dhal-Nun =اذن؛ استاذن؛ یستاذن he gave ear or listened to it, being pleased, grant leave, to allow, permit/ordered, be informed, advised, جانے کی اجازت مانگنا: notification/announcement/proclamation, ear, appetite/longing/yearning. Yasta'dhinuu (imp. 3rd. p. m. plu.): They ask leave.
ظہر؛ ظہیرۃ Za-ha-Ra = to appear, become distinct/clear/open/manifest, come out, ascend/mount, get the better of, know, distinguish, be obvious, go forth, enter the noon, neglect, have the upper hand over, wound on the back.
الفجر: break open/cut/divide lengthwise/dawn, sunrise, daybreak.، پھاڑ کر کھول دینا/کاٹ دینا/ لمبائی میں تقسیم کر دینا/صبحِ صادق/سورج کا طلوع ہونا/دن کا نمودار ہونا
= Tha-Waw-Ba ثوب؛ ثیاب: = لائحہ عمل/ پالیسیActions, Conduct, raiment, garments, morals, behaviour, heart, dependents, followers, robes, clothes, pure/good hearted, of good character. to return, turn back to, to restore/recover, to repent, to collect/gather.
to call/summon (repeatedly), rise (dust), to flow, become abundant.
something returned (recompence, reward, compensation), to repay.
a thing which veils/covers/protects, a distinct body or company of people.
mathabatan - place of return, place to which a visit entitles one to thawab/reward, assembly/congregation for people who were dispersed/separated previously, place of alighting, abode, house, tent.
- Hits: 2277
اورنگزیب یوسفزئی اگست 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر33
Thematic Translation Series Installment No.33
قرآن میں حضرت لوط اور ان کی "ہم جنس پرست"قرار دی جانے والی قوم کا واقعہ
The episode of Lut and his “assumed” sodomist community in Quran
کافی عرصے سے اِس ناچیز سے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے بارے میں قرآنی آیات کے تراجم میں ایک اجتماعی ہم جنس پرستی کا الزام اور اُس کی پاداش میں اُس قوم کی اللہ کے ہاتھوں براہِ راست فوری تباہی کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ اذہان میں قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا، فلہذا اس ضمن میں متعلقہ آیات کا جدید ترین قرینِ عقل Rational ترجمہ کر دیا جائے تاکہ یہ دیرینہ مغالطہ بھی دور ہو کر قرآن کے اس تاریخی حوالے کی قابلِ فہم اور مستند صورتِ حال سامنے آ جائے۔
تو بات کچھ اس طرح ہے کہ قدیم اور ہم عصر تراجم تو سبھی ایک ہی ڈگر پر چلتے نظر آتے ہیں ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اُس خاص ڈگر کو اندھی تقلید کا راستہ کہا جاتا ہے، جو قدیمی یونانی عقلیت پر مبنی استخراجی سوچ پر مبنی ہوا کرتا ہے۔ یہ استخراجی منطق قیاس پر مبنی قضیہِ کُبری سے، بغیر اُس کی معروضی مادی حقیقت کو تجربے و تفتیش کی بھٹی سے گذارے، داخلی سوچ کے تحت نتائج اخذ کرتے رہنے کی بیماری کا شکار پائی جاتی ہے۔ عرب ملوکیت کے غاصبانہ قبضے کے بعد اسلام عمومی طور پر ، اور اس دین کا ماخذ قرآن خصوصی طور پر ایک بڑے اور منظم بگاڑ کی زد میں لائے گئے تھے تاکہ سامراجی موروثی حکومتوں کے غیر اسلامی قبضے کی پردہ پوشی کی جائے ، ان کی انسانیت سوز سیاست کو جواز بخشا جائے اور ان کے ظالمانہ طرزِ حکومت کو قائم رکھنے کے لیے دینِ اسلام کے اصلاحی اور فلاحی نظریے اور فلسفےکو غیر منطقی اور دیومالائی بھول بھلیوں میں گم کر دیا جائے۔بقایا تمام قرآنی موضوعات کے ساتھ ساتھ قرآن کے یہ عبرت آموز تاریخی حوالہ جات بھی اُسی مبہم اور لایعنی طرزِ تشریح کے حوالے کر دیے گئے جس کے پیچھے ایک بڑا مذموم مقصد کار فرما تھا۔ یہ مقصد کچھ اور نہیں بلکہ دینِ حق کی اصل روح کو زمین کے نیچے گہرائیوں میں دفن کر دینا تھا۔
راقم اب تک ایسے کافی تاریخی قضیے دیو مالائی بھول بھلیوں کی تاریکیوں سے نکال کر عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حقیقی قرآنی روح کی روشنی میں اُجاگر کر چکا ہے۔ ان میں حضرت موسی کے سفر، حضرت خضر سے ملاقات، ذی القرنین، یاجوج و ماجوج، اصحابِ کہف، طوفانِ نوح ، ابابیلوں کے ذریعے پتھروں کی بارش، وغیرہ، وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا موجودہ سوالات کے تناظر میں ہمارے آج کے اس موضوع پر تمام میسر تحریروں کا احاطہ کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ آج تک صرف لاہور کے ڈاکٹر قمر زمان صاحب کے ترجمے میں روایت شکنی سے کام لیا گیا ہے اور ایک زمینی حقائق پر مبنی عقلی ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ کہ اس ناچیز کی رائے میں محترم موصوف کا عمومی بیانیہ ابہام سے پُر اور آسان فہم وضاحت سے اکثر عاری پایا جاتا ہے، اور دیگر موضوعات پر اُن کے کام کے بارے میں بنیادی اختلافات اور اعتراضات کی گنجائش موجود ہے،لیکن انہیں یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہیئے کہ زیرِ بحث نکتے پر ایک اندھی تقلید کا شکنجہ توڑنے میں انہوں نے پہل کی اور آگے کا راستہ صاف کرنے کی کوشش فرمائی۔
دریں احوال، جناب لوط علیہ السلام کا واقعہ کہیں بھی اُس علت کا ذکر نہیں کرتا جسے لواطت یا ہم جنس پرستی یا مردوں کے درمیان غیر فطری جنسی تعلق کے اظہاریوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی کا عمل بوجوہ انسانوں کے درمیان ایک مخصوص اقلیتی پیمانے میں اذل سے پایا جاتا ہے ۔ یہ امر علم البشریات Anthropology اور قدیمی تواریخ میں تحقیق سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ نیز آج کی ہماری جدید دنیا میں یہ بات اور بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ رحجان نہ صرف موجود ہے، بلکہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور کئی ممالک میں قانونی تحفظ بھی حاصل کر چکا ہے ۔ فلہذا اگر قومِ لوط ہم جنس پرستی کرتی تھی تو قرآن بھلا کیوں کہے گا کہ قومِ لوط وہ کام کرتی تھی جسے اقوامِ عالم میں اور کسی قوم نے نہ کیا تھا؟
اس حقیقت کے ہمراہ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی سنت یا قانون یا طرزِعمل کیونکہ کسی معاملے میں بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا، لہذا قومِ لوط کو ایک عمل کی پاداش میں تباہ کر دینا، اور بعد ازاں آنے والی یا سابقہ تمام قوموں کو اُسی عمل کے ارتکاب میں کھلی چھوٹ دے دینا ایک سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔ اسلام کے ظہور سے کافی قبل قدیم یونانیوں اور اہلِ روم کی اشرافیہ میں ہم جنس پرستی ایک خاصی قابلِ قبول روٹین کی حیثیت رکھتی تھی۔ صرف ایک رومن شہنشاہ ٹائی بیریس کے محل کے تہ خانوں میں چار چار سو غلام مرد اِسی غیر فطری جنسی تسکین و تلذذکے لیے قید رکھے جاتے تھے۔ بعد میں آنے والے، یعنی متاخرین، تو اُس عمل کے ارتکاب میں تمام حدود کو پھلانگ کر اُسے قانونی شکل دے چکے ہیں اور علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر اب ہم جنس پرست آپس میں شادیاں بھی رچا رہے ہیں۔ ان قدماء اور متاخرین میں سے کسی پر بھی قومِ لوط سے منسوب پتھروں کی بارش سے برباد کر دینے والا عذاب نہ ٹُوٹا۔ پس یہ زمینی حقائق ہمیں روایتی ترجمے کو درست ماننے سے احتراز کی طرف لے جاتے ہیں۔
ویسے بھی کسی قضیہ کُبری [major proposition] کو جب تک فطرت، نفسِ انسانی، معاشرتی پیراڈائم، تاریخی تقابل اور مختلف علوم کی روشنی میں تفتیش سے گذار کر اس کی معروضی مادی حقیقت کو سامنے نہیں لایا جاتا، اُس کے بارے میں کوئی بھی توضیح یا تشریح یا ترجمے کا عمل کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
ہم جنس پرستی کے اسباب کی دو عمومی بنیادیں تشخیصں کی گئی ہیں۔ ایک تو جینیاتی اور ہارمونی عدم توازن ۔ اور دوسرے ماحولیاتی اثرات کے سبب جسمانی تلذذ کا ایک غلط یاگمراہ شدہ جنسی رحجان[sexual perversion]۔ اس موضوع پر اب وسیع ریسرچ موجود ہے جو علمِ سائیکالوجی اور طب کے پلیٹ فارم سے اس رحجان کے اسباب و عواقب کی پوری وضاحت کرتی ہے۔قارئین بآسانی اس کام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارا نکتہِ ارتکاز کیونکہ اس موضوع کی تحقیق نہیں بلکہ متعلقہ قرار دیے جانے والے قرآنی تراجم کی صحت کو پرکھنا یادرستگی کرنا ہے ، فلہذا پسِ منظر پر محیط اس تمہید کے بعد اب پیشِ خدمت ہے جدید ترین قرینِ عقل عصری ترجمہ :-
الاعراف : ۷/۸۰ سے ۷/۸۴ تک
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٨٠﴾ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ﴿٨١﴾وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴿٨٢﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ﴿٨٣﴾ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ ﴿٨٤
"اور یاد کرو لوط کو جب اس نے اپنی قوم کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ تم اُس درجے پر زیادتی اور حد سے تجاوز پر اُتر آتے ہو [أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ] جس سطح پر دنیا میں یا دیگر اقوام میں کوئی بھی تم سے آگے نہیں ہے ۔کیونکہ تم اپنی نفسانی خواہشات [ شَهْوَةً ] کی تسکین کرنے [ الرِّجَالَ ] پر بغیر کوئی کمزوری [ النِّسَاءِ] ظاہر کیے، یعنی دیدہ دلیری کے ساتھ پیچھے پڑ جاتے ہو، مُصِر ہوجاتے ہو [لَتَأْتُونَ ] ۔ اس طرح تم ایک زیادتی کا ارتکاب کرنے والی قوم بن چکےہو ۔ اس پر اُن کی قوم کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا کہ انہیں اور ان کی جماعت کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیرت و کردار کو پاک صاف کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ پس ہم نے انہیں اور اُن کے اپنے لوگوں کو [أَهْلَهُ] کامیاب کر دیا سوائے ان کی قوم کے اس طبقے کے جو پستیوں میں گر کر پیچھے رہ گئے تھے [امْرَأَتَهُ ۔ الْغَابِرِينَ ]۔ پھر ہم نے ان لوگوں پر تیرہ بختیوں کی بارش کر دی۔ پس دیکھو/غور کرو ، کہ مجرم لوگوں کا کیا انجام ہوا ۔"
مشکل الفاظ جن کا روایتی تراجم میں جان بوجھ کر غلط ترجمہ کیا گیا:
تاتون الفاحشۃ: زیادتی کی طرف، حد سے تجاوز کی طرف آنا
تاتون الرجال: تسکین /آسائش/تسلی/آرام و اطمینان کی طرف آنا
Alif-Taa-Waw آتو : (e.g. of "atawoo") = to come, to bring, come to pass, come upon, do, commit, arrive, pursue, put forth, show, increase, produce, pay, reach, happen, overtake, draw near, go, hit, meet, join, be engaged or occupied, perpetrate (e.g. crime), undertake. ۔ آنا، لانا، ہوجانا، ملنا، کرنا، پہنچ جانا، پیچھے لگ جانا، سامنےلے آنا، دکھانا، وغیرہ۔
[الرِّجَالَ ۔ رجال ۔ rajjala ] : بہت وسیع المعانی لفظ ہے ۔ یہاں معنی ہے تسکین، تسلی کرنا، طلب کو پورا کر کے آرام و اطمینان حاصل کرنا [لین کی لغات] ۔
rajjala - to comfort anyone, comb the hair, grant a respite.
[شہوۃ : ش و ی ] : خواہشات،طلب، نہایت شوق اور بے تابی سے چاہنا ۔ لالچ، طمع، کسی علت کا پورا کرنا، وغیرہ
Shiin-ha-Ya ش ہ ی = to long or desire eagerly, made it to be good/sweet/pleasant or the like, loved it or wished for it, desired eagerly/intensely, yearning of the soul for a thing; appetite, lust, gratification of venereal lust, greedy, voracious, was or became like him, resembling him, jested or joked with him, associated with smiting action of the (evil) eye i.e. he vied with him in smithing with the evil eye.
النساء: [ن س و؛ ن س ی ؛] کمزوری؛ کمزور عوام، کمزور طبقات، نظر انداز کیے ہوئے، پسِ پشت ڈالے ہوئے عوام۔
]امْرَأَتَهُ : [ عرفِ عام میں "اُس کی عورت"، لیکن استعارے میں "اُس کی قوم" یا "قوم کا ایک کمزور کردار رکھنے والا حصہ"۔
[مطر] : یا تو برکتوں اور رحمتوں کی برسات،،،،،، اور یا ،،،، سزاوں اور بدبختیوں کی بھرمار ۔ دونوں استعارے درست ہیں۔سیاق و سباق کے مطابق معنی دیتے ہیں۔ یہ اوپر سے برسنے والی کسی بھی چیز کا استعارہ ہے۔
پھر سوال کیا گیا کہ وہاں "رجال" – Rajjala کا معنی آپ نے بدل دیا ۔ اب ذیل کی آیت میں "الذکران" آیا ہے [أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٥﴾ ۔ اس کا معنی تو حتمی طور پر "مرد" ہوتا ہے یعنی "ذکر - Zakar "۔ "تم تو مردوں کی طرف آتے ہو" ۔ ۔ ۔ ۔یہاں آپ کیسے متبادل معنی لائیں گے اور "مردوں پر شہوت سے آنا" کو کس طرح کوئی اور رنگ دیں گے؟۔۔۔۔۔۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں "شہوت" یا "خواہش" کا ذکر تک نہیں ہے ۔ پھر بھی حضرت صاحبان سابقین کی مانند "تحریف" کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن پھر بھی عرض کیا کہ میں پورا سیاق و سباق زیرِ غور لاوں گا اور ہم اور آپ دیکھ لیں گے کہ کیا معنی یہاں عبارت کے تسلسل میں موزوں بیٹھتا ہے ۔" ذکران" کا مادہ تو بہرحال ۔ ذ ک ر ۔ ہی ہے جس کے معانی کافی وسعت کے حامل ہیں۔ قرآن بھی ذکر ہے اور یادداشت و نصیحت وغیرہ بھی مادہ "ذ ک ر" ہی سے مشتق ہیں۔ ہمیں ضرور اس کا قرین عقل معنی حاصل ہو جائیگا ۔ تو آئیے جدید ترین اور گہرا تناظر رکھنے والا معانی اپنے سیاق و سباق میں نہایت مناسبت سے فٹ بیٹھتا دیکھ لیتے ہیں۔
الشعراء: ۲۶/۱۶۲ سے ۲۶/۱۶۶
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿١٦٢﴾ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٦٣﴾ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٤﴾ أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٥﴾ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ ﴿١٦٦
"بیشک میں ہوں جو تمہارے لیے امانت [وحی- پیغام] کا حامل پیغامبر ہوں۔ پس اللہ کے قوانین کی پرہیز گاری اختیار کرو اور جو کچھ میں تمہیں بتاتا ہوں اس کی اطاعت کرو ۔ میں تم سے اس کے بدلے میں کوئی اجر طلب نہیں کرتا کیونکہ درحقیقت میرا اجر صرف تمام قوموں کے پروردگار کے ذمہ ہے۔ کیا پھر بھی تم دوسری قوموں سے [مِنَ الْعَالَمِينَ] نصیحت/سبق لینے پر اُتر آوگے [أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ] اور وہ کچھ ہوا میں اُڑا دو گے/پھینک دو گے [ blow up--تذرون] جو تمہارے اپنے لوگوں/ساتھیوں میں سے [مِّنْ أَزْوَاجِكُم ] ،یعنی تمہارے ہم قوم لوط کے ذریعے،تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے پیش کیا ہے۔ یعنی تمہارا کردار تو ایک حد سے گذر جانے والی قوم کا کردار ہے "۔
مشکل الفاظ جن کا روایتی تراجم میں غلط ترجمہ کیا گیا:
[َتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ] : تم سبق/نصیحت لینے کی طرف آتے ہو
"ذکر" یہاں مرد یا نر نہیں ہے ۔ لین کی لغات کے مطابق مرد/آدمی/نر کی جمع "ذکران " نہیں بلکہ " ذکور" ہے۔ Male/man/masculine (dhakar, dual - dhakarain, plural - dhukur).
[مِنَ الْعَالَمِينَ] : دیگر اقوامِ عالم سے
[مِّنْ أَزْوَاجِكُم ] : اپنے ہی ساتھیوں/لوگوں میں سے
یہاں تک بات کلیر ہو جاتی، لیکن پھر یہ بھی سوال کیا گیا کہ حضرت لوط پر جو پیغام بر بھیجے گئے اور ان کو لینے کے لیے قوم لوط وہاں آ پہنچے، اور حضرت لوط نے ان مہمانوں کے بدلے میں اپنی قوم کے لوگوں کو اپنی بیٹیاں پیش کر دیں ،،،،،،، اس کے متعلق بھی جو آیات قرآن میں موجود ہیں ان کا بھی عقل و دانش پر مبنی ترجمہ کر دیا جائے۔ یہ آیات سورۃ ھود کی ۷۴ سے ۸۲ تک کی آیات ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ جدید عقلی ترجمہ تو پیش خدمت کر ہی رہا ہوں ۔ لیکن صاحبانِ دانش سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لیے ذرا کسی فرصت کے لمحے میں خود اپنے آپ کو حضرت لوط کی جگہ پر فرض کریں اور سوچیں کہ کیا کوئی بھی حضرت لوط جیسے نبی کی حکمت اور الہامی دانش رکھنے والا ایسا کام کر سکتا ہے کہ اغلام بازوں کو سیکس کرنے کے لیے اپنی "بیٹیاں" پیش کر دے؟؟؟ ۔۔۔۔۔چلیں نبی کی بات ہی نہ کریں ۔ ذرا سوچیں کہ کوئی بھی فرزانہ انسان ایک اغلام باز ہجوم کو ایک قبیح جنسی علت سے بچانے کےلیے کیسے اپنی اولاد پیش کر سکتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ذیلی سوالات یہ بھی ہیں کہ،،،،،
کیا پسند اور مرضی کی شادی اور نکاح پڑھائے بغیر کوئی اپنی بیٹیاں کسی ہجوم کو پیش کر سکتا ہے ؟؟؟
حضرت لوط کے پاس کتنی بیٹیاں تھیں، اور وہ ہجوم میں سے کِس کِس کو وہ بیٹیاں پیش کر سکتے تھے؟ ؟؟
کیا وہ بیٹیاں پوری قوم کی ضرورت پوری کر سکتی تھیں؟؟؟
یا کیا چند بیٹیوں کو ہی ایک بدکردارقوم کے ہجوم کے آگے اجتماعی ریپ کے لیے پیش کیا جا سکتا تھا ؟؟؟ ۔۔۔۔
نیز کیا اُس قوم میں ما قبل ہی سے عورتیں موجود نہیں تھیں کہ حضرت لوط انہیں اپنی بیٹیاں پیش کرتے؟؟؟ ۔۔
اگر نہیں تھیں تو پھر وہ سب بغیر عورتوں کے پیدا کیسے ہو گئے تھے؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عاجز تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ علم، عقل و دانش کی توہین پر مبنی یہ روایتی تراجم ڈیڑھ ہزار سال تک اس قوم میں قبولیت کا درجہ کیسے پاتے رہے ؟؟؟ ایسی فاش جہالت کی تاریکیاں کیسے آج کے دن تک مسلط ہیں؟؟؟ ۔۔۔ اور وہ لوگ کس قابلِ رحم روگ میں مبتلا ہیں جو آج کے زمانے میں بھی انہی بوگس تراجم کا اتباع اور دفاع کر رہے ہیں؟؟؟
اب پیش خدمت ہے سورہ ھود سے متعلقہ آیات کا قابلِ فہم ترجمہ :-
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ ﴿٧٥﴾ يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ﴿٧٦﴾ وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ﴿٧٧﴾ وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ﴿٧٨﴾ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ﴿٧٩﴾ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ ﴿٨٠﴾ قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ ﴿٨١﴾ فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢﴾
"پھر جب ابراہیم پر سے رعب و خوف کی کیفیت دور ہو گئی اور انہیں خوشخبری بھی وصول ہو گئی تو انہوں نے ہم سے قومِ لوط کے معاملے میں بحث شروع کر دی۔ کیونکہ درحقیقت وہ بہت ہی معاف کرنے والے، نرم دل اور اللہ سے ہمہ وقت رجوع کرنے والے تھے۔ انہیں کہا گیا کہ اے ابراہیم اس موضوع سے اعراض برتو ۔ کیونکہ اس پر تو کہ اللہ کا حکم صادر ہو چکا ہے اور اُن پر وہ سزا لاگو ہونے والی ہے جو واپس نہیں کی جا سکے گی۔اور جب ہمارے پیغام رساں لوط کے پاس پہنچے تو وہ اُن کی آمد کا مقصد جاننے پر بہت گھبرایا اور بے حساب پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ اسی دوران اس کی قوم کے لوگ ہجوم کرتے ہوئے اس کے پاس آئے کیونکہ وہ پہلے ہی سے ایسی مذموم حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ لوط نے کہا اے قوم، یہ میری تعلیمات [هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي]تمہارے سامنے ہیں جو تمہارے لیے ایک پاکیزہ تر کردار پیش کرتی ہیں۔ پس اللہ کے قانون کی پرہیز گاری کرو اور میرے مصائب و مشکلات میں[فِي ضَيْفِي ] میں مجھے رسوا نہ کرو [وَلَا تُخْزُونِ] ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی ہدایت یافتہ بندہ نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہی ہو کہ تمہاری تعلیمات [ِ بَنَاتِک]میں ہمارے لیے کوئی سچائی یا حقیقت نہیں ہے۔ تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ لوط نے کہا کہ کاش ایسا ہوتا کہ میرے پاس تمہارے معاملے میں کوئی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔ اس پران پیغام بروں نے کہا اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ پس تم اپنے لوگوں کے ساتھ رات گذرے یہاں سے روانہ ہو جاو ۔ تم میں سے کوئی ادھر اُدھر کسی رکاوٹ میں اُلجھ کر نہ رہ جائے سوائے تمہارے کمزور ساتھیوں کے [إِلَّا امْرَأَتَكَ ] ۔ دراصل ان پر بھی وہی کچھ گذرنے والا ہے جو ان دوسروں پر گذرنا ہے۔ ان کے انجام کا وقت [مَوْعِدَهُمُ] شروع ہونے والا [الصُّبْحُ ۚ]ہے ۔ اور اس انجام کا وقوع پذیر ہونا [الصُّبْحُ ۚ] اب بہت قریب ہے ۔ پس جب ہمارا حکم پورا ہوا تو ہمارے قانون نے اس قوم کے تمام بالا دستوں کو ان کے حقیر و پست طبقات میں تبدیل کر دیا ۔ [جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا] ۔ اس سے قبل ہی ہم اُن پر اتمام حجت کے لیے الہامی صحیفے سے عقلی دلائل [حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ] کی بارش کر چکے تھے[أَمْطَرْنَا]، یعنی فراوانی سے اپنی تعلیمات پہنچا چکے تھے۔"
یہاں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔"ان کے بالا دست طبقات کو پست کر دیا گیا"[ جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا] ۔ یعنی اس فقرے سے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ اُن پر کوئی پتھروں کی طلسمانی یا معجزاتی بارش وغیرہ نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ وہ طبعی قوانین کے تحت زندہ بھی رہے اور الہامی "ضابطہِ کردار " کی شدید خلاف ورزیوں کے نتیجے میں آنے والے مکافاتِ عمل کے باعث ان کے بدکردار معاشرے میں انقلاب وقوع پذیر ہوا اور ان کا معاشرہ اُلٹ پلٹ کر دیا گیا۔ طاقتور قابض طبقات جو تمام تر برائیوں کے لیے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں پست کر دیے گئے اور کمزور طبقات کو اوپر لا کر حکمرانی عطا کر دی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی ہماری تمام تر تفاسیر و تراجم کا اس موضوع پر تحریر کردہ تمام کا تمام غیر عقلی، قدیمی صحائف کی تشریحات سےچوری شدہ اور من گھڑت متن اللہ تعالیِ نے صرف ایک ہی جملے سے رد اور کالعدم قرار دے دیا ۔
امید کرتا ہوں کہ قرآنی تراجم کے سلسلے کی یہ الجھن بھی آج علمی ، شعوری، معاشرتی اور تاریخی تناظر میں سلجھا دی گئی ہے۔اللہ کی سنت کیونکہ تبدیل نہیں ہوتی اس لیے اگر ہم جنس پرستی کے جرم میں قومِ لوط پر پتھروں کی بارش برسا کر انہیں صفحہِ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا، تو قدیم یونانیوں اور رومنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جانا لازم تھا ۔ اس سے بھی بڑھ کر آج کے زمانے میں دیدہ دلیری سے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے والی کئی قوموں کے حق میں بھی اب تک یہی بربادی مقدر ہو چکی ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور سب سے قبل مملکتِ برطانیہ کے کھنڈرات یا آثار و باقیات موڈرن دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنے سامنے کھڑے ہوتے کیونکہ سب سے قبل ہم جنس پرستی برطانیہ ہی کی پارلیمنٹ میں قانون پاس کر کے جائز قرار دی گئی تھی۔ فلہذا قومِ لوط سے متعلقہ تراجم میں بھی وہی فاش غلطی ہمارے سامنے آجاتی ہے جو تورات و انجیل کی انسانی تفاسیر سے بغیر تحقیق مواد اُٹھائے جانے اور سیدھا سیدھا نقل کر دینےکے نتیجے میں بہت سے دیگر موضوعات کے تراجم میں بھی ہمارے سامنے آتی رہی ہے۔ اور ہمارے اسلاف اور اساتذہ اس بارے میں تحقیقی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ عقلِ سلیم کو خیر باد کہتے ۔ ۔ ۔ اپنی سہل انگاری کا مظاہرہ کرتے۔ ۔ ۔اور استقرائی عقلیت سے اعراض برتنے کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔
اصحابِ علم دوستوں کی رائے کا منتظر رہوں گا۔
اب خاص الفاظ کے وہ مستند معانی دیے گئے ہیں جو روایتی تراجم میں مجرمانہ طور پر چھپا لیے گئے تھے:
ض ي ف = Dad-Ya-Fa = Inclined, approached, drew near to setting (said of the sun). Menstruation (said of a woman). Become a guest, refuge of someone. Become correlative to something. Correlation, or reciprocal correlation, so that one cannot be conceived in the mind without the other. Beign collected, joined, added together.
Ran, hastened, fled, sped, turned away.
Beset by distress of mind. Hardship, difficulty, or distress.
Asking, or calling, for an aid.
Kh-Zay-Ya تخزون : خ ز ی = To be or become abased/vile/despicable/abject, fall into trial or affliction and evil, manifest foul actions or qualities, to be confounded or perplexed by reason of disgrace, moved or affected with shame.
= Lam-Fa-Fa يَلْتَفِتْ: ل ف ف = To roll up, fold, wrap, involve, conjoin, be entangled (trees), be heaped, joined thick/dense and luxuriant/abundant.
ha-Ra-Ayn : ہ ر ع : یہرعون : = to walk with quick & trembling gait, run or rush, flow quickly, hurry, hasten.
Ba-Nun-Ya = بنت : بنات : ب ن ی Building, framing or constructing
Kind of plank used in the construction (e.g. of ships)
Becoming large, fattened or fat (like food enlarges a man)
Rearing, bringing up, educating
Form or mode of constructing a word
Natural constitution
Of or relating to a son or daughter
Branches of a road/tree
A builder/architect
A building
Bending over a bowstring while shooting
Ribs, bones of the breast or shoulder blades and the four legs
A thief/robber, wayfarer/traveler, warrior, rich man, certain beast of prey
A skin for water or milk made of hide
Raised high (applied to a palace/pavilion)
Sad-Ba-Ha صبح : ص ب ح = to visit or greet in the morning. subhun/sabahun/isbaahun - the morning. misbaahun (pl. masaabih) - lamp. sabbah (vb. 2) - to come to, come upon, greet, drink in the morning. asbaha - to enter upon the time of the morning, appear, begin to do, to be, become, happen. musbih - one who does anything in or enters upon the morning.
- Hits: 2752
اورنگزیب یوسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر32
Thematic Translation Series Installment No.32
لفظ "نساء/النساء" قرآن میں کس صنف یا نوع یا طبقےکی نشاندہی کرتا ہے
تمام قدیمی قرآنی تفاسیر و تراجم میں آپ کو لفظ "نساء یا النساء" کا ترجمہ ہر مقام پر اور ہر سیاق و سباق میں ایک واحد لفظ "عورت "کی جمع،،،،،،، یعنی " عورتیں"،،،، ہی کی شکل میں نظر آئیگا۔ایک عربی لفظ کے ہر مقام پر ایک ہی معنی لینے کی اس قدیمی اور سوچی سمجھی سازش کے باعث ہمیں کچھ اس قسم کی انتہائی گمراہ کُن قرآنی تعبیرات ورثے میں ملی ہیں کہ جن کی بیشتر جزئیات ہمیں قرآن کے حقیقی پیغام اور فلسفے سے بہت دُور لے جاتی ہیں۔ابہام پیدا کرتی ہیں اور اذہان میں سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تعبیرات عورت ذات پر مرد کی حاکمیت مسلط کرتے ہوئے اور اس کی عزت و حرمت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے مسلمان امت اور اسلام کی کردار کشی کا باعث بنتی ہیں ۔ اور دیگر اقوام کو ہمارے دین کی تذلیل کرنے اور اس کا مضحکہ اُڑانے کا بھرپور موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
ہمارے وہ سکالرز جو دیگر ادیان کے داعیوں کے ساتھ بحث مباحثے میں شریک ہوتے ہیں وہ صرف ایک معذرت خواہانہ [apologetic] رویہ ہی اختیار کرنے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مروجہ دینی فہم کو عقل، جدید علوم اور تجربے کی رُو سے[empirically] درست قرار نہیں دے پاتے اور ایک مدافعانہ [defensive] تبادلہِ خیالات تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ شاید آپ یہ بات جانتے ہوں کہ اس کمی، کجی،یا کمزوری کے باعث تمام مسلم سکالرز کو مغربی دنیا میں اب Muslim apologists کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس عمومی تذلیل کے باوجود یہ لوگ آج کی جدلیاتی عقلیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے الہامی صحیفے کی بنیادی معروضی حقیقتوں کو ایک کڑی جانچ سے گذارنے اور ان کی اساسی فلاسفی کو دریافت کرنے کی کوشش کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اور غلط بنیادوں پر کیے گئے لغو استنباطات کو تبلیغ کے نام نہاد فریضے کے طور پر ایک انتہائی دانشمند دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظِ "نساء" قرآنی سیاق و سباق میں زیادہ تر ایک معاشرتی طبقاتی پیراڈائم میں استعمال کیا گیا ہے اور قرآن کے انتہائی گہرے اصلاحی اسلوب میں معاشرے کے کمزور گروہ یعنی محکوم عوام کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ "نساء" کے اس بڑے قرآنی موضوع پر ایک لسانی دھوکے کا ارتکاب بھی اُسی ملوکیتی سازش کا ایک حصہ ہے جو ایک بڑے پیمانے پر قرآنی تعبیرات کو مسخ کر نے کے لیے ابتدائی اموی دور ہی سے ایک گہری منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار لائی گئی ،،،، تاکہ ملوکیتی ظلم، جبر ، استحصال اور عیاشیوں کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اور تاکہ نظر انداز کیے گئے بے بس عوامی طبقات [نساء} کے اپنے وطن کی زمین اور وسائل پر مسلمہ حقوق لُوٹے جاتے رہیں۔ اس مذموم مقصد کو بار آور کرنے کے لیے یہاں تعبیرات کے عمل میں وہی فرسودہ اور دور از کار کلیہ استعمال کیا گیا جو اپنی بنیاد ۔۔۔ "ایک عربی لفظ کا ایک ہی مطلب پرست معنی ،،،، اور دیگر زبانوں میں ترجمے کے لیے ایک ہی واحد مرادف"۔۔۔ کے باطل اصول پر رکھتا ہے ۔ یہ مرادف بھی اُسی ایک انتہائی عامیانہ لفظی معانی پر مبنی ہوتا ہے جو ایک خاص مذموم مقصد کے لیے چن لیا گیا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت کسی ماہر لسانیات سے مخفی نہیں ہے کہ عربی زبان وسیع المعانی ہے اور ہر لفظ معانی کی وسعت رکھنے کے باعث ایک سے زیادہ مرادفات رکھتا ہے جو سب ہی اپنے مادے کی نسبت سے باہم منسلک اور عموما، ما سوا چند استثنائی حالتوں کے، قریب المعانی ہوتے ہیں ۔اس وسعت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے ان تمام مرادفات میں سے اُس خاص ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ ہی کوعقل و علم اور قرآنی پیغام کی مجموعی روشنی میں منتخب کرنا ہوتا ہے جو معانی کا مکمل احاطہ کرتےہوئے اپنے سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جائیں اور نہ صرف عالمی سچائی پر مبنی ہوں، بلکہ طبقاتی پیراڈائم پر جانچنے کے عمل میں بھی کسی ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے مفادات میں نہ جا رہے ہوں۔
نیز ایسا بھی ممکن نہ سمجھا جائے کہ ہر مترجم یا مفسر جیسا چاہے ، الفاظ کی وسعتِ معانی کے باعث، اپنی من مرضی کا معانی چن لے اور اپنی حسبِ منشاء ترجمہ تیار کرتا رہے۔ ایسا ہر خواہش پرستانہ ترجمہ عقل و علم و منطق اور یونیورسل سچائیوں کے پیمانے پر رد کر دیا جائیگا ۔ علاوہ ازیں قرآنی متن کے اعلیِ ترین ادبی معیار کی رعایت سے الفاظ کی ایک کثیر تعداد کو محاورے، ضرب الامثال اور تشبیہات و استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے جو ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام قدیم تراجم و تفاسیر میں ، جو ملوکیتی اسلام پر اپنی بنیاد رکھتی ہیں، جان بوجھ کر کلی طور پر نظر انداز کی گئی ہے۔اسی لیے سابقہ تمام کام استقرائی منطق کے کسی معیار پر پورا نہیں اُترتا، اور امت میں پھیلی ہوئی عمومی گمراہی اور مسلمان کے ذہنی ارتقاء میں پسماندگی کا سبب ہے۔
تو آئیے پسِ منظر کے اس مختصر بیان کے بعد حقیقی قرآنی تعبیرات کے قریب تر پہنچنے کے لیے یہاں لفظ " نساء" کے معانی کی تحقیق کر لیتے ہیں۔ بعد ازاں چند خاص متعلقہ آیات کے مستند تراجم بھی زیر غور لے آتے ہیں جن کے ذریعے بگاڑ دیے گئے مفاہیم کو ان کی سچی اور قرین عقل روشنی میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
لفظ نساء مختلف مستند لغات کی روشنی میں :-
[النِّسَاءُ]: مصدر: تنسئۃ ۔ نسیء۔ نساء ۔ نسُوء۔ منساۃ ۔ ن س ی/ن س و : lowly people/rubble/a forlorn thing insignificant/ completely forgotten/womanly/effeminate/to render ignominious/render backward/postponement/delay –oblivion, forgotten, counted for nothing, who is despised.
نچلے طبقے کے لوگ/بے حیثیت/نظرانداز کیے جانے والے/پسماندہ/کمزور/ گمنام۔ النسیُ: بھلائی ہوچیز، حقیر چیز جو کسی شمار میں نہ آئے ۔ [غریب عوام] ۔ اس فعل میں دونوں مادوں میں اشتراکِ معنی ہے یعنی overlap پایا جاتا ہے۔عرق النسا: ایک بیماری جو کمزوری پیدا کر دیتی ہے۔
لین کی لغت میں دونوں مادے ۔۔ ن س و۔۔ اور ۔۔ ن س ی۔۔ اکٹھے مندرج ہیں اور ان کی تعریف میں لفظ " عورتیں" نہیں دیا گیا۔دیکھیں سپلیمنٹ صفحہ ۳۰۳۳ --- تناساہ : اس نے ظاہر کیا کہ وہ اُسے بھول چکا ہے؛ وہ اسے بھول گیا؛ اس نے نظر انداز کر دیا؛ ذہن سے نکال دیا ۔ پھر یہاں عرق النساء کی تشریح کی گئی ہے [Sciatic nerve] ۔
لغات القرآن کے مطابق مجازی معنوں میں یہ لفظ قوم کے اس طبقے کے لیے استعمال ہوا ہے جو جوہرِ مردانگی سے عاری ہو (اس کی تفصیل کے لیے دیکھے عنوان ذ ب ح ۔۔ اور ۔۔ ب ن و ۔[یہاں بھی مراد کمزور عوام ہی باور ہوتا ہے]۔
دیگر لغات میں دونوں مادوں کی الگ الگ تعریف اس طرح کی گئی ہے :-
ن س و : النسوۃ، النساء، النسوان ۔ یہ سب الفاظ المراءۃ کی غیر لفظی جمع ہیں۔ یعنی المراۃ کے معنی ہیں ایک عورت ، اور النساء (وغیرہ)کے معنی ہیں بہت سی عورتیں۔ ان کا واحد ان کے مادوں سے نہیں آتا ۔دوسری جانب لسان العرب میں اس کی بھی جمع نسوۃ بتائی گئی ہے۔ سیبویہ کے حوالے سے کہا گیا : نساء، نسوی، نسوۃ، نُسیۃ ، اور نُسیات ۔
ن س ی : نسی کے معنی یہاں نظر انداز کرنے کے ہیں ۔ (5/104)۔ نسی یہاں نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے مفہوم میں ہے (5/97)۔ انسا: موخر کر دینا، پیچھے ہٹا دینا ۔
متعلقہ آیات سے غلط اور صحیح تراجم کی وضاحت
نساء کے مختلف الجہت لفظی اور استعاراتی معانی کی وضاحت کے بعد اب چند آیاتِ کریمات کی وساطت سے ، اور سیاق و سباق کی مناسبت سے اس لفظ کے معانی کے استعمالات کا احاطہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ اپنے حقیقی رنگ میں سامنے آ کر اپنے چھپا دیئے گئے طبقاتی پیرا ڈائم کو واضح کر دے۔ ۔ سب سے قبل حضرت موسی کے مشن کے پس منظر میں اس لفظ کے استعمال کے لیے دیکھ لیتے ہیں آیت ۲/۴۹ :-
2/49 : وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٤٩﴾
مروجہ غیر عقلی اور سازشی ترجمہ:-
"یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزما ئش تھی"۔]مودودی]
ظاہر ہے کہ کسی بھی قوم کے مردوں کو ذبح کیا جاتا رہے تو وہ قوم ہی افزائش نسل نہ ہونے کے باعث ایک دو نسلوں کے بعد صفحہِ ہستی سے ناپید ہو جائیگی۔ کیونکہ سلسہِ تولید قوم کے مردوں کے بغیر آگے نہیں چل سکتا۔ دوئم یہ کہ پھر محنت و مشقت کے حامل وہ مردانہ فرائض کیا عورتوں سے ادا کروائے جائیں گے جن کی استعداد صرف مردوں میں ہی پائی جاتی ہے؟ فلہذا یہ روایتی ترجمہ عقل و علم کی کسوٹی کے مطابق لغو ہے۔ نہ یہاں ابناءکم کی ترکیب "لڑکوں" کے لیے آئی ہے اور نہ ہی نساوکم سے یہاں "لڑکیاں یا عورتیں" مراد ہو سکتی ہے۔
عقلیت پر مبنی جدید تحقیقاتی ترجمہ:-
"یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے نجات دی تھی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا رکھتے تھے۔ وہ تمہارے مردانگی کے حامل سپوتوں [أَبْنَاءَكُمْ ] کوبے کار کر دیتے تھے اور تمہارے کمزور لوگوں [نساوکم] کو زندگی میں بڑھاوا دیتے تھے۔ اور اس طریقِ کار کے باعث تمہارے آقاوں کی جانب سے تمہارے لیے بڑی مشکل کا سامنا تھا"۔ [نوٹ فرما لیجیئے کہ یہاں سیاق و سباق اور عقلیت کے مطابق "نساء" سے مراد عورتیں نہیں بلکہ معاشرے کا کمزور طبقہ ہے، یعنی وہ جو جوہرِ مردانگی سے محروم تھے]۔
اب "عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں" کی تعبیر رکھنے والی مشہور آیت ۲/۲۲۳ کی تحقیق کر لیتے ہیں:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
روایتی غیر عقلی ترجمہ جو اسلام کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے :-
"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اُس سے ملنا ہے اور اے نبی جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مزدہ سنا دو"۔ [مودودی]
عورتوں کو ذلیل کرنے کی سازش کا اندازہ لگائیں کہ کھیتی یعنی زمین سے تشبیہ دے کر عورت ذات کو اپنے اختیار کی رعایت سے مجہولِ محض بنا کر پیروں کے نیچے کچل دینے اور ان کے جسموں میں جیسے چاہے" ہل چلانے "کے حقوق مردوں کے لیے محفوظ کرا لیے گئے۔ اور قرآنی ارشاداتِ عالیہ کو، اپنی مرضی کے تابع تفسیر کرتے ہوئے، صنف نازک کے لیے انتہائی گھٹیا اور ذو معنی فقروں سے لیس کر دیا گیا۔ ہمارے مقدس اماموں نے اس آیت سے کیا کیا استنباط کیا اور اپنی ہوس رانی کے لیے کس کس جنسی کج روی کو جائز قرار دیا اس کا بیان بھی شرمناک ہے۔
جدید قرینِ عقل ترجمہ جہاں "نساء" کے معنی پر غور مطلوب ہے :-
تمہارے معاشرے کے پسماندہ کمزور طبقات [نِسَاؤُكُمْ]تمہارا اپناسرمایہ اور اثاثہ [حَرْثٌ] ہیں ۔ پس اپنے اس اثاثے کے ساتھ جیسے بھی تم چاہو قربت کا تعلق رکھو۔ اورا ن اپنے لوگوں کو مضبوط اور باعزت بنیادیں فراہم کرو/زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھاو [وَقَدِّمُوا]۔اور اس طرح اللہ کے قانون کی پرہیزگاری کرو اور یہ یاد رکھو کہ تم سب کو اس کے سامنے پیش ہوکر جوابدہی کرنا ہے۔اور ایسا کرنے والے امن و ایمان کے ذمہ داروں کو خوشیوں کی نوید دو۔
Ha-Ra-Thaa = To till and sow, cultivate, cut a thing, acquire (goods), to collect wealth, seek sustenance, work or labour, plough, study a thing thoroughly, to examine/look into/scrutinize/investigate, call a thing to mind.
Harth has the meanings; Gain, acquisition, reward (gain), recompense (gain), seed-produce, what is grown/raised by means of seed/date-stones/planting. A wife or road that is much trodden.
Alif-Taa-Waw (e.g. of "atawoo") = to come, to bring, come to pass, come upon, do, commit, arrive, pursue, put forth, show, increase, produce, pay, reach, happen, overtake, draw near, go, hit, meet, join, be engaged or occupied, perpetrate (e.g. crime), undertake.
آیت ۲/۱۸۷ :-
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾
اب روایتی تراجم میں دیکھیں کہ کس طرح زبردستی عورت اور سیکس کا بھرپور انجکشن لگا کر قرآن کی صحت کو داغدار کیا گیا ہے اور دین اللہ کی رسوائیوں کا کتنا شدید سامان کیا گیا ہے :-
"تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگذر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے اُسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپید ہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے ۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے۔ توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے۔ " [مودودی]
دیکھیے کیسے کہیں عورت بےچاری کو کھیتی بنا دیا اور کہیں لباس ،،،اور بالآخر ایک "لطف " حاصل کرنے والی تابع مہمل بنا کر ہی چھوڑا، جسے مرد جیسے جی چاہے اور جب چاہےاستعمال کریں ۔ لغویت کی انتہاء یہ ہے کہ "جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو"،،،،،،، گویا بیویوں کو مسجدوں میں بھی قریب ہی رکھا ہوا ہے تاکہ اعتکاف میں بھی جی چاہنے پر مباشرت کی جا سکے؟؟؟ یہ کسی مفسر و مترجم نے نہ سوچا کہ اگر ایک بناوٹی یا ملاوٹی تعبیر کرنے کا مشن پورا کیا جا رہا ہے تو کم از کم اس میں طفلانہ حماقتوں کا عنصر تو پیدا نہ ہونے دیا جائے ۔ ویسے بھی ملا کے ملوکیتی اسلام میں یہ اِن "مومنوں" ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ دن بھر فاقہ کشی کرنے کے بعد بھی راتوں کو جنسی ہوس تازہ رہے ، یعنی دن کو ایک "فریضہ" ادا کیا جائے اور رات کو "دوسرا فریضہ" بھی ادا کیا جاتا رہے۔نیز اعتکاف کے دوران بھی جنسی حظ کی خواہش غالب رہے۔
اور اب دیکھیے لفظ "نسا ء" کا قرآن کے حقیقی علم و حکمت کے تناظر میں وہ ترجمہ جسے اہلِ علم و دانش کی کسی بھی جماعت یا قوم کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے اور دینِ اسلام کی سرفرازی کا موجب ہے :-
"جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کی جانب [إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ] بدزبانی اور توہین کا انداز اختیار کرو [الرَّفَثُ]، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم ان اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو [تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ] یعنی ان کے حقوق غصب کرتے آئے ہو۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو [بَاشِرُوهُنَّ] اور اُن کی مشقتوں کے ماحصل سے اتنا ہی حاصل کرنے کی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز طور پر مقرر کر دیا ہے ۔ سابقہ صورتِ حال کے پیش نظر تمہارے لیے ضروری ہے کہ علم حاصل کرو [وَكُلُوا] اور اس کے مطابق وہ طور طریقہ/مشرب اختیار کرو [وَاشْرَبُوا] جو تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح [الْفَجْرِ] میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر، یعنی نیکی اور بدی [الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام [الصِّيَامَ] ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک [إِلَى اللَّيْلِ ] پھیلا دو۔ مزید برآں، جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی [الْمَسَاجِد]کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے [عَاكِفُونَ ]کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔"
"عورتوں کے ساتھ چار شادیاں"
اب آئیے "چار شادیوں" والی آیت کا بھی علمی تجزیہ و تحلیل کر لیتے ہیں تاکہ دینِ اسلام پر زبردستی لگوایا گیا تعدد ازواج [Polygamy] کا سیاہ داغ دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔آیت ۳/۴ پیشِ خدمت ہے۔
4/3 : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
روایتی مسخ شدہ ترجمہ:
"اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔ " [مودودی]
اسی ترجمے سے چار شادیوں کا جواز گھڑا جاتا ہے جو علم و عقل و دانش کی صریح توہین ہے۔ غور فرمائیے کہ بات یتیموں کے ساتھ انصاف کے سلوک کی ضرورت کی ہو رہی ہے۔ اور یتیم وہ چھوٹے نابالغ بچے ہوتے ہیں جن کا باپ، جو ولی اور سرپرست ہوتا ہے، مر گیا ہو۔ اور ان یتیموں میں مذکر اور مونث دونوں اصناف شامل ہوتی ہیں ۔ لیکن یہاں ان سب حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے، اچانک کہیں سے جوان بالغ عورتیں پیدا کر لی گئیں اور ان کے ساتھ چار چار تک شادیاں بھی جائز قرار دے دی گئیں۔ کیا آپ اس منطق کا کوئی سر یا پیر تلاش کر سکیں گے؟ کیا جوان بالغ عورتیں یتیموں میں شامل ہوتی ہیں؟ اگر یتیم بچیوں کو جوان سمجھتے ہوئے ان سے شادیاں کر کے انہیں سرپرستی میں بھی لے لیا گیا، تو پھر آخر چھوٹے مذکر بچوں کا کیا حل نکالا گیا ؟ آسمانی دانش کی کتاب قرآن حکیم کو یہ کن فضولیات کا نشانہ بنا دیا گیا؟ اور ہم کیسی اندھی مقلد قوم ہیں کہ چودہ سو سال میں کسی نے اس دھوکے اور فریب پر اعتراض کی ایک انگلی بھی نہ اُٹھائی ۔
جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ :
"اور جب تمہیں یہ خوف دامن گیر ہو جائے کہ تمہارے معاشرے میں یتیموں کے معاملے میں انصاف کا سلوک نہیں ہو رہا تو پھر تم ایسا کرو کہ اس کمزور طبقے [مِّنَ النِّسَاءِ] میں سے جو بھی تمہیں اپنے لیے مناسب معلوم ہوں ان کو اپنی کفالت/سرپرستی میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ ایسا تم ان میں سے دو یا تین یا چار کے ساتھ بھی کر سکتے ہو۔ لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ ان سب کے ساتھ برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک ہی کو کفالت میں لو ۔ یا پھر انہی کی سرپرستی کرتے رہو جو ما قبل سے ہی تمہاری زیر ِکفالت/ماتحتی/سرپرستی میں ہوں۔اس طریقے میں زیادہ قریب تر امکان ہے کہ تم عیال داری میں زیرِ بار نہ ہو جاو۔ "
"مرد عورتوں پر حاکم یا داروغہ"
آئیے ایک اور انتہائی متنازع ترجمے کا شکار ہونے والی آیت پر بھی علمی اور عقلی روشنی ڈال لیتے ہیں تاکہ مردوں کی عورتوں پر فوقیت کا دیرینہ سوال حل کر لیا جائے اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے سرخرو ہونے کا موقع مل سکے۔
4/34 : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ﴿٣٤﴾
روایتی سازشی ترجمہ:
"مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاو، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو،،،، پھر اگر توہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔ " [مودودی]
اس روایتی ترجمے کا مطلوب و مقصود یہ جتلانا ہے کہ مرد اس لیے عورت سے بالاتر ہیں کہ وہ معاش کما کر لاتے ہیں اور عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ فلہذا عورت کو مرد کا فرمانبردار ہونا چاہیئے۔ اور اس مقصد کے لیے مرد اگر عورت کے ساتھ مار پیٹ بھی کرے تو وہ جائز ہے۔ یعنی عورت کیونکہ مرد کی دستِ نگر ہے اس لیے مرد سے کمتر ہے ۔ ملوکیتی اسلام کے تحت اسی ذہنیت کو ترقی دی گئی اور آج تمام مسلم امت اسی ذلالت کا شکار ہے۔
جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ
"""طاقتور/با اختیار لوگ ، یعنی معاشرے کے سربرآواردہ اور اقتدار کے حامل لوگ [الرِّجَالُ]، معاشرے کی کمزورجماعتوں یعنی عوام [عَلَى النِّسَاءِ]کو استحکام دینے کے پابند ہیں اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون نے انسانی معاشروں میں بعض لوگوں کو بعض پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اپنے ذاتی اور قومی اموال میں سے انفاق کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ پس معاشرے کی صالح جماعتیں [فَالصَّالِحَاتُ]، وفادار و اطاعت شعارجماعتیں، اس پیش پا افتادہ قومی مقصدکی حفاظت کرتی ہیں جسکو اللہ کے قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ البتہ ان میں سے وہ طبقات جن کی سرکشی کا اندیشہ ہوانہیں نصیحت کرو، انہیں ان کی مجالس میں[الْمَضَاجِعِ] سوچنے کے لیے چھوڑ دو اور انہیں وضاحت سے معاملات کی تشریح کر دو [اضْرِبُوهُنَّ]۔ پھر اگر تمہاری اطاعت اختیار کر لیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ بیشک اللہ کا قانون بلند و بالا اثرات کا حامل ہے۔ """
اور آخر میں ادائیگی فرائض یعنی پیرویِ احکامِ الہی کے ضمن میں لفظ "نسا" کا استعمال بھی دیکھ لیتے ہیں :-
4/43 : : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٤٣﴾ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴿٤٤﴾
""اےاہلِ امن و ایمان، جب تمہاری عقل ناپختہ اور ابہام [confusion] کا شکا ر ہو تو اپنے فرائض کی ادائیگی کے نزدیک مت جاو جب تک کہ اس قابل نہ ہو جاو کہ جو کچھ کہو اس کا شعور و ادراک رکھ سکو۔ اور اگر احکاماتِ الہی کے علم سے بالکل دُور اور اس ضمن میں بالکل اجنبی ہوتو بھی ان فرائض کے نزدیک اس وقت تک نہ جاو جب تک کہ تم اپنے ذہنوں کو سابقہ خیالات سے پاک صاف نہ کر لو ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو اس راستے/مرحلے کو عبور کرچکے ہوں۔ نیز اگر تم ایمان و ایقان کے معاملے میں کسی بھی پیچیدگی کا شکار ہو [ مَّرْضَىٰ] یا ابھی تربیتی سفر کے درمیانی مرحلے میں ہو[عَلَىٰ سَفَرٍ]، یا اگر تم میں سے کوئی بھی بہت پست شعوری سطح سے اُٹھ کر اوپر آیا ہو [مِّنَ الْغَائِطِ]، یا کسی خاص شعوری/نفسیاتی کمزوری یا بھول نے تمہیں متاثر کیا ہوا ہو [لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] اور اس ضمن میں تمہیں وحیِ الٰہی کی ہدایت میسر نہ آئی ہو [فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً]، تو پھر بھی تم اپنا مطلوب و مقصود [فَتَيَمَّمُوا] بلند اور پاک رکھو [صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ پھر اس کی روشنی میں از سرِ نو اپنے افکار اور اپنے وسائل کا جائزہ لو / یااحاطہ کرو(فَامْسَحُوا )""۔
ختم شد ۔
- Hits: 2126
اورنگزیب یوسسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۳۱
Thematic Translation Series Installment No.31
نبی کریم کو مزید نئی بیویوں کی پیشکش
Offer of More New Wives to the Holy Messenger
آئیے سورۃ تحریم کی کچھ آیات کے ضمن میں دین میں ایک اور بڑی تحریف کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سورۃ تحریم کی آیات نمبر ۱ سے ۵ تک کا عقلی و علمی ترجمہ کرنے کے لیے سوال کیا گیا ہے کیونکہ عمومی روایتی ترجمہ تو یہاں ۔۔ نبی تو نبی۔۔ ، خود اللہ تعالیِ کی ذاتِ عالی کو جنسی ترغیب دینے کا مرتکب قرار دے رہا ہے۔نبی کو شوہر گزیدہ اور خالص کنواری عورتوں کی پیش کش کی جارہی ہے ۔ بالفاظِ دیگر، دین اسلام کے کوڈ آف ایتھکس کی، انسانی بلند کرداری کے اوصاف کی, اور نبی کی مثالی شخصیت کی کُوٹ کوُٹ کر تضحیک و تذلیل کی جا رہی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں عمومی روایتی ترجمہ :-
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١﴾ قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿٣﴾ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾ عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا ﴿٥﴾
"اے نبی، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ [کیا اس لیے کہ] تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولی ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے۔ [اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ] نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اُس بیوی نے [کسی اور پر] وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبی کو اس [افشائے راز] کی اطلاع دے دی، تو نبی نے اس پر کسی حد تک [اُس بیوی کو] خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگذر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے [افشائے راز کی] یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی؟ نبی نے کہا، "مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب با خبر ہے"۔اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو [تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے] کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا ولی ہے اور اس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، با ایمان، اطاعت گذار، توبہ گذار، عبادت گذار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ "۔ [از مولانا مودودی]
ملاھظہ فرمائیں،،،، بے ربط اور غیر متعلق جملے،،،،،،جوڑوں کی تخلیق کے خدائی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نبی کریم پر تعدد ازواج کا الزام،،،،، ، نبی کے انتہائی پرائیویٹ گھریلو معاملات کی تشہیر،،،،،،، نبی کی بیویوں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو امت کی مائیں قرار دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ طلاق کی دھمکی دینا،،،،،،، بیویوں کے خلاف ایسا محاذ قائم کرنا جس میں وہ ایک طرف ہوں اور ان کے خلاف اللہ، جبریل نامی فرشتوں کا سردار، اور دیگر تمام مومنین دوسری جانب،،،،،، اور آخر میں نبی کو "شوہر دیدہ اور کنواری" نئی بیویوں کی پیش کش ؟؟؟؟؟؟ استغفراللہ علی ذلک ۔
کیا یہی ہے ہمارے دین کی اساس جس کی ہمیں سبق آموز تعلیم و تلقین کی جا رہی ہے؟ آپ اتفاق کریں گے کہ ترجمہ بیہودہ اور لغویات سے بھرا پڑا ہے اور اسے دنیا کی کسی بھی دانشمند قوم کے سامنے تحلیل و تحقیق کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ ایسی عبارت تو تمام دنیا سے چھپا لیے جانے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مسلمانوں کے اللہ اور نبی کریم کا ایسا " لاجواب کردار" پیش کرنے پر مضحکہ نہ اُڑایا جائے۔ کیا واقعی نبی کریم Polygamist تھے ؟ اور کیا واقعی اللہ تعالی نے انہیں مزید نئی بیویوں کی پیش کش کی تھی ؟ کیا واقعی دین اسلام کی بنیاد جنس پرستی پر رکھی گئی ہے ؟
پس سوال کے جواب میں اب پیش خدمت ہے جدید ترین کاوش، اس یقین کے ساتھ کہ یہ اوپر اُٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب بھی دیتی ہے اور اسے علم و عقل و الہامی ہدایت کی ہر کسوٹی پر جانچا جا سکتا ہے اور جدید دنیا کے سامنے پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔
سورۃ تحریم سے آیات ۱ سے ۵ کا قرین عقل ترجمہ : [۶۶/۱-۵]
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١﴾ قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾
"اے نبی تم ایسے امور/فیصلوں سے کیوں خود کو منع کر لیتے ہو جنہیں اللہ تعالیِ نے تمہارے لیے جائز قرار دیا ہے صرف اس بنا پر کہ تم اپنے ساتھیوں کی خوشی اور رضامندی چاہتے ہو۔ بیشک اللہ تعالی مغفرت، تحفظ اور رحمتیں عطا کرنے والا ہے، لیکن اللہ نے تم پر تمہارے عہد و پیمان کا پورا کرنا بھی فرض قرار دیا ہوا ہے ۔ اوراللہ ہی تمہارا ولی نعمت اور سرپرست ہے کیونکہ وہ ان سب معاملات کا علم اور ان کی حکمت کو جاننے والا ہے۔"
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿٣﴾
"اور جب نبی نے اپنی کسی ساتھی جماعت کو راز کی بات بتا کر اعتماد میں لیا تھا اور بعد ا زاں جب اس پارٹی نے اس راز کی خبر کھول دی، تو اللہ نے اس کی اس حرکت کونبی پر ظاہر کر دیا اور نبی نے اس میں سے کچھ کے بارے میں انہیں خبر دار کر دیا اور کچھ سے درگذر کیا ۔ پس جب اس جماعت کو اس افشائے راز سے آگاہ کیا گیا تو وہ اُلٹا یہ سوال کرنے لگی کہ آپ کو یہ کس نے بتایا۔ اس پر نبی نے فرمایا کہ مجھے اُس سب کچھ جاننے والے باخبر نے سب بتادیا ہے۔ "
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾
"اور کہا کہ اگر تم دونوں پارٹیاں اس خطا پر اللہ سے توبہ کر لیتے ہو تو اس سے ثابت ہوجائیگا کہ تمہارے دل بہتری کی جانب جھکاو رکھتے ہیں ۔ لیکن اگر تم نے اس ضمن میں نبی کی منشاء پر غالب آنے کی کوشش کی توجان لو کہ درحقیقت وہ اللہ کی ذات پاک ہے جو نبی کا آقا و مددگار ہے اور اسی طرح قرآن اور صالح مومنین بھی اور یہی نہیں بلکہ مخصوص مقتدر قوتیں بھی اس کی حمایتی اور مددگار ہیں۔"
عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا ﴿٥﴾
"اگر وہ تمہیں خود سے علیحدہ کر دے/اپنی سرپرستی سے نکال باہر کرے،،، تو بعید نہیں کہ اس کا رب تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر قسم کے ساتھی/جماعتیں مہیا کر دے جو سر تسلیم خم کرنے والی ہوں، امن و ایمان قائم کرنے والی ہوں، اطاعت کے جذبے سے سرشار ہوں، توبہ کرنے والی ہوں، تابع فرمان ہوں، جاں نثار ہوں، پاک کردار کی مالک ہوں، اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سبقت لے جانے والی ہوں۔"
اللہ تعالیِ شاہد ہے کہ اس کے مقدس کلام پر لگے ہوئے ایک اور افترا کوآج اس عاجز نے علمی تحقیق کے ذریعے باطل ثابت کر دیا۔ اب کچھ متعلقہ الفاظ کے مستند معانی توٹ فرما لیں :-
Siin-Ra-Ra س ر ر: اسر = glad/delight/happiness/joy/rejoice. sarra - to speak secretly, divulge a secret, manifest a secret. secret, heart, conscience, marriage, origin, choice part, mystery, in private, to conceal/reveal/manifest. sarir - couch/throne.
Sad-Gh-Ya ص غ ت : = to incline, lean, bend, bow, pay attention, give ear, hearken, listen.
Za-ha-Ra ظ ہ ر = to appear, become distinct/clear/open/manifest, come out, ascend/mount, get the better of, know, distinguish, be obvious, go forth, enter the noon, neglect, have the upper hand over, wound on the back.
zahara - to help/back/support in the sense of collaboration.
zihar - was a practice of the pre-Islamic days of the Arabs by which the wife was kept in suspense, sometimes for the whole of her life having neither the position of a wife nor that of a divorced woman free to marry elsewhere. The word zihar is derived from zahr meaning back.
سائحات : siyahat - travel/journey/tour. saihun - devotee, wandering, one who fasts, one who holds himself back from doing or saying or thinking evil.
Ba-Kaf-Ra =ب ک ر ؛ ابکارات: Beginning of the day, first part of the day, early morning, between daybreak and sunrise
Possessing the quality of applying oneself early, or in hastening
Performing something at the commencement of it, or doing something early
Before it's time, preceding or took precedence
- Hits: 8049
Books and Articles IN URDU
by Aurangzaib Yousufzai with LINKS
. Quran Fahmi ka Makhmasa - قرآن فہمی کا دیرینہ مخمصہ
http://ebooks.rahnuma.org/1497214661-Aurangzaib.Yousufzai_Quran-Fahmi-ka-Makhmasa-UR.pdf.html
. Quran Fahmi aur Arabi Zuban - قرآن فہمی اور عربی زبان
http://ebooks.rahnuma.org/1497214663-Aurangzaib.Yousufzai_Quran-fahmi-aur-Arabi-Zuban-UR.pdf.html
. Quran ki Tafseer Navisi - قرآنی کی تفسیر نویسی
http://ebooks.rahnuma.org/1497214664-Aurangzaib.Yousufzai_Quran-ki-Tafseer-Naweesi-UR.pdf.html
. Quran Kya Kehta He – Collection of 35 Thematic Translation Installments in one volume - قرآن کیا کہتا ہے – 35 موضوعاتی تراجم
http://ebooks.rahnuma.org/1497214665-Aurangzaib.Yousufzai_Quran-kia-Kahta-hay-UR.pdf.html
. Qurani Tarjume ki aarr men Deen-Allah ki Maadiyat Saazi
قرآنی ترجمے کی آڑ میں دین اللہ کی مادیت سازی
. Tafseer Navisi ki La-Ya’niat تفسیر نویسی کی لا یعنیت
. Tehqiq-e-Namaaz o Salaat تحقیقِ نماز و صلاۃ
http://ebooks.rahnuma.org/1497214668-Aurangzaib.Yousufzai_Tehqeeq_Namaz_o_salaat-UR.pdf.html
. Tehqiq-e-Hayaat-e-Aakhirat تحقیقِ حیاتِ آخرت
http://ebooks.rahnuma.org/1497214669-Aurangzaib.Yousufzai_Tehqiq-e-Hayat-e-Aakhirat-UR.pdf.html
. Tehqiq-e-Maqaam-e-Ka’bah aur Ziaarat-e-Hajj تحقیقِ مقام کعبہ اور زیارتِ حج
. Tehqiq-e-Tafseer Navisi تحقیقِ تفسیر نویسی
http://ebooks.rahnuma.org/1513538670-Aurangzaib.Yousufzai_Tehqiq-e-Tafseer_Navisi-UR.pdf.html
. Tehqiq-e-Mas’ala-e-ZAKAAT تحقیقِ مسئلہِ زکاۃ
http://ebooks.rahnuma.org/1497214672-Aurangzaib.Yousufzai_Tehqiq-e-masla-e-Zakaat-UR.pdf.html
. A Purely Quranic Discussion on the Ritual of Fasting
روزے کی عبادت پر ایک قرآنی بحث
. Aurangzaib Yousufzai & Idara-e-Tulu-e-Islam (2 parts)
اورنگزیب یوسفزئی اور ادارۃ طلوعِ اسلام – 2 عدد مضامین
. Article Fitna-tul-Kubra فتنۃ الکبریٰ
http://ebooks.rahnuma.org/1497214646-Aurangzaib.Yousufzai_Article%20Fitna_tul_Kubra.pdf.html
. Article in Reply to Eng. Farooqi
بلاغ القرآن میں انجینیئر فاروقی کے تبصرے کا جواب - 1
. Article in Reply to Eng. Farooqi 2
بلاغ القرآن میں انجینیئر فاروقی کے تبصرے کا جواب - 2
. Article in Reply to Eng. Farooqi 3
بلاغ القرآن میں انجینیئر فاروقی کے تبصرے کا جواب - 3
. Article on Salaat-e-Moaqat (full) - صلوٰۃِ موقت پر مکمل وضاحتی مضمون
. Critique on Article by Abdul Karim Asri عبدالکریم اثری صاحب کی تحریر کا رد
. Rebuttal of anti-Quranist Book by Mr. Zafar Iqbal
ظفر اقبال صاحب [جھنگ] کی قرآن دشمنی پر مبنی کتاب کا رد
. Article on Khaatam-un-Nabiyyeen - خاتم النبیین پر ایک تجزیاتی مضمون
http://ebooks.rahnuma.org/1497214656-Aurangzaib.Yousufzai_Khatam-un-Nabiyeen-UR.pdf.html
. Muzaakira on Salaat with Mr. Ismat Abu Saleem
جناب عصمت ابوسلیم کی بلاغ القرآن میں تحریر کا جواب
. Muzaakira with Captain Siddiq on Quranic Understanding
جناب کیپٹن صدیق [کراچی] کے صلوٰۃ پر مبنی مضمون کا جواب
. Research into the Issue of Interest/RIBAA - تحقیق مسئلہِ ربا {قرآنی سُود }
https://ebooks.i360.pk/tehqeeq-masla-riba-qurani-sood-by-aurangzaib-yousufzai/
- Hits: 2416
اورنگزیب یوسسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۳۰
Thematic Translation Series Installment No.30
حجاب [جلباب]
کیا قرآن میں عورتوں کے پردے کا اور نبی کریم کی بہت سی بیویوں اور بیٹیوں کا ذکر کیا گیا ہے،،،، یا یہ بھی سابقہ تفاسیر و تراجم میں کیا گیا ایک سوچا سمجھا انحراف ہے؟
Does Quran speak of Hijaab (Veil) for women and of the Holy Messenger’s multiple wives and his daughters, or is that another deliberate distortion by early Translators and Interpretors?:
پردے [حجاب]کے بارے میں آیت مبارکہ ۳۳/۵۹ :
اس ضمن میں سوال یہ کیا گیا کہ اگر کسی بھائی کے پاس اس آیت کا ترجمہ ہے تو مہربانی کر کے ہمارے علم میں لائے ؟؟؟؟
آیت مبارکہ ۳۳/۵۹:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٩﴾
ظاہر ہے کہ سوالی بھائی کو مروجہ تراجم قرین عقل معلوم نہیں ہوئے، اس لیے وہ کوئی دیگر اور بہتر ترجمہ دیکھنا چاہتے ہیں جو عقل و علم و عمومی فہم سے مطابقت کا حامل ہو ۔ ایسا ترجمہ ضرور پیش کر دیا جائیگا جو مطلوبہ کسوٹی پر پورا اُترتا ہو .......لیکن اس سے قبل روایتی ترجمہ درج ذیل کر دیا جاتا ہے اور اُس کے نقائص اور لایعنیت پر ایک مختصر بحث بھی کر لی جاتی ہے تاکہ جدید ترین عقلی ترجمہ کی قبولیت کے لیے راہ ہموار ہو جائے ۔ تو پیش ہے روایتی ملوکیتی ترجمہ :-
"اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ [باہر نکلا کریں تو] اپنے [مونہوں] پر چادر لٹکا [گھونگھٹ نکال] لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت [و امتیاز] ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے"۔[جالندھری]
اس روایتی ترجمے کا لغو پن ظاہر ہے کہ بات کو سمجھانے کے لیے اپنی جانب سے بریکٹوں میں کئی اضافے کیے گئے ہیں تو تب فقروں میں ربط و ضبط پیدا ہو سکا ہے، ورنہ ترجمے سے تو ایک مہمل اور لایعنی عبارت وجود میں آتی ہے۔ ۔۔مثلا اضافے یہ ہیں : ۔۔ "باہر نکلا کریں تو"۔۔۔ کا اضافہ ۔ "مونہوں"۔۔ کا اضافہ،،، اور ۔۔ "گھونگھٹ نکالنے"۔۔ کا اضافہ ، وغیرہ۔ ان اضافوں یعنی تحریف کو باہر نکال دیں تو ایک نامکمل اور لایعنی روایتی ترجمہ یوں سامنے آتا ہے :
۔۔"اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ اپنے پر چادر لٹکا لیا کریں"۔۔۔۔؟؟؟
ظاہر ہے کہ اس لاحاصل ترجمے میں نہ زمان و مکان کا ذکر ہے اور نہ موقع محل کا ۔ نہ ہی جسم کے چھپانے و الے حصوں کا،،،، ۔ یہ موقع محل اور دیگر تفصیل خود اپنی جانب سے اضافے کرتے ہوئے شرمناک انداز میں گھڑے گئے ہیں جس کا واضح مقصد عورت پر شٹل کاک برقعہ یا اسی قسم کی کوئی اور پردے کی شکل لاگو کر نا تھا تاکہ وہ معاشرے میں خود کو ایک مجرم کی صورت محسوس کرے ۔ نہ ہی آیت کا سیاق و سباق اس لایعنی فقرے سے مطابقت رکھتا ہے جسے انسانی عقل و دانش کی موت قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔ بدقسمتی سے ہمیں ورثے میں یہی لغویات ملی ہیں اور ہماری غالب اکثریت اسی لاحاصل منطق کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتی ہے کیونکہ مسلمان کہلانے والی قوم چند طاقتور اور سرمایہ دار حکمران خاندانوں کی بدترین استحصالی ذہنیت کے باعث ارتقائی سطح پر باقی دنیا سے بہت پیچھے کردی گئی ہے۔ اور ایک منصوبہ بندی کے تحت شدید ذہنی درماندگی اور معاشی و معاشرتی پسماندگی کا شکار بنا دی گئی ہے۔ نیز اس کے نتیجے میں پیدا ہو جانے والے احساس کمتری نے ضد، تعصب اور تشدد کے رحجانات پیدا کرتے ہوئے مسلم معاشرے کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔
اور اگر یہاں پردے ہی کا ذکر مراد ہے جیسا کہ قدیمی تفاسیر و تراجم ہمیں باور کراتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی اور بھی صھیفے میں انسانوں کی کسی بھی اور قوم کو اللہ تعالی نے عورتوں کو پردہ کرانے کا حکم دیا ہے؟؟؟؟ اگر یہ پردہ ہی ہے تو اللہ کا قانون تو کسی بھی قوم یا انسان کے لیے استثناء نہیں رکھتا ، اور پردے کے احکامات ہر نبی کو تمام صحائف میں دیے جانے ضروری تھے ۔ ۔۔۔آپ خود ہی تحقیق کریں گے تو ثابت ہو جائے گا کہ اس قماش کی کوئی بندش کسی بھی آسمانی صحیفے میں عورت ذات پر لاگو نہیں کی گئی کیونکہ یہ آزادی اور احترامِ انسانیت کی خلاف ورزی ہے۔ ہندو، سکھ، بودھ، مشرق بعید کی اقوام، افریقی اور قدیمی امریکی اقوام، عیسائی، پارسی اور یہودی، غرضیکہ کے مسلمان کہلانے والوں کے سوا کسی بھی قوم کےصحیفوں میں ایسی کسی پابندی کا کوئی ذکر نہیں ۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کہ صبح سے شام تک ایک ماہ کے صوم [روزے] کا قانون بھی کسی قوم کے صحیفے میں موجود نہیں ہے، سوائے اس مظلوم مسلمان قوم کے صحیفے کے، جہاں یہ بدمعاش حکمرانوں اور مذہبی پیشوائیت [مولوی] کی ملی بھگت سے ملاوٹ کے ذریعے داخل کیا گیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ قدیم غیر قرآنی عربی معاشرت بھی رہی ہو جہاں تعدد ازواج اور عورت کو مستور رکھنے کا رواج غا لب تھا، کیونکہ مرد عورت پر حاکم تھا۔ اسلام تو دونوں اصناف کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔
پھر یہ بھی غور کریں مونہوں پر" گھونگھٹ" لگا دیکھ کر تعارف و شناخت کیسے ممکن ہوگی کہ یہ کون عورتیں ہیں کیونکہ اس حلیے میں تو ہر قوم و نسل و مذہب کی عورت مستور ہو سکتی ہے، مخصوص مقاصد کے لیے بھی ۔ شناخت کے لیے تو شکل و صورت ہی ایک قطعی معیار ہے ورنہ لباس کے ذریعےبہروپ بھر لینا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ۔ پھر یہ کہ مدینے کی مملکت الہیہ میں کس کی جرات تھی کہ پیغمبر کی بیویوں، بیٹیوں اور مسلم خواتین کو تنگ کرے؟؟؟ غالب اکثریت انصار کی تھی جنہوں نے اپنی فیملیاں اور گھر بار اخوت اور جذبہ ایمانی کی اساس پر مہاجرین کے ساتھ شیئر کیے تھے ۔نیز عربوں میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی کہ دشمنی کے باعث راہ چلتی عورتوں کا پیچھا کیا جائے یا ان کو تنگ کیا جائے۔ یہ حرکت تو ہمیشہ مردانگی سے بعید خیال کی جاتی رہی ہے۔ کھلے عام مبارزت کی دعوت دے کر مردوں کی مانند زندگی یا موت کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد آیت کا سیاق و سباق آتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں ہیئت اجتماعیہ اور نظم و نسق کے پس منظر میں ہدایات دی جا رہی ہیں۔ آیت نمبر ۵۷ اور ۵۸ میں اللہ و رسول کا مشترکہ ذکر دراصل حکومت الِہیہ ہی کا ذکر ہے، جیسا کہ ہر دیگرجگہ بھی اسی معنی میں لیا گیا ہے ۔ آئیے دیکھ لیتے ہیں :-
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿٥٧﴾ وَالَّذِينَ
يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾
یہاں کہا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔"درحقیقت جو لوگ حکومت الِہیہ کو مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں دھتکار ڈال دی ہوتی ہے اور ان کے لیے ذلت و پستی کا عذاب تیار کر دیا ہوتا ہے۔ یعنی ۔۔جو لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر امن و ایمان کے نفاذ کے ذمہ دار لوگوں اور جماعتوں کی راہ میں مشکلات پیدا کرتے ہیں، جب کہ وہ اس کے مستحق بھی نہیں ہوتے، تو دراصل ایسے لوگوں نے ایک دھوکے/فریب کا اور ایک واضح اور کھلی برائی کا بار اُٹھا لیا ہوتا ہے ۔ "
تو ثابت ہوا کہ حکومتی نظم و نسق اور دین کی سر بلندی کے اقدامات اور متعلقہ میکانزم کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے اور ہماری متعلقہ آیت مبارکہ بھی، جس کا قرین عقل ترجمہ مطلوب ہے، اسی موضوع سے مطابقت رکھتی ہے نہ کہ نبی کی بیویوں اور بیٹیوں سے اور اُن کے پردے سے ۔۔۔۔۔ استغفراللہ؟ یہ امر ہرگز فراموش مت کریں کہ اگر ہم نبی پاک کی بہت سی نام نہاد بیویوں کے بارے میں دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائیوں کو تسلیم کر لیتے ہیں، تو دنیا و آخرت میں خود ہی اللہ کی لعنت کے مستحق ہو جاتے ہیں، کیونکہ مردوں کا تعدد ازواج [Polygamy] ایک جرم ہے، ممنوع ہے، عورت پر ایک ظلم عظیم ہے۔ انسانوں کا جوڑ ا [Pair] بھی دیگر زندہ اور جامد حیات کی مانند ، اللہ تعالیِ کے قانون تخلیق کے مطابق، ایک جمع ایک سے ہی بنتا ہے،،، اور باہم مل کر حیات کے یونٹ کی تکمیل کرتا ہے،،،،، ایک جمع چار سے نہیں۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جمع دو سے ہی زندگی کا حسن و توازن بگڑ جایا کرتا ہے۔ نبی کریم پر تعدد ازواج کا الزام لگانا نہ صرف ایک بہتان عظیم ہے بلکہ اللہ کے مقرر کردہ فلسفہ حیات کی ضد اور خلاف ورزی ہے۔ نبی کریم پر یہ تہمت تھوپنا روایات گھڑنے والے یہودی علماء کا کام تھا اور اموی ملوکیت اپنی عیاشیاں برقرار رکھنے کے لیے اس فعل شنیع کی اجازت دینے کی مجرم تھی۔ اور ہم سب عقل کو خیر باد کہتے ہوئے اس پر اندھا اعتقاد رکھنے کے مجرم ہیں۔ حالانکہ قرآن کے دیگر حوالوں سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ازواج کا معنی ساتھی، ساتھی جماعتیں، مختلف اقسام کے لوگ وغیرہ بھی ہوتا ہے، جیسا کہ "کنتم ازواجا ثلاثۃ" [۵۶/۷] میں واضح کر دیا گیا ہے۔
"بناتک" کا مرکب اضافی بھی یہاں استعارہ ہے اور استعاراتی معنی کا طالب۔ اگر یہاں نبی کی حقیقی بیٹیوں ہی کا ذکر ہوتا تو کم از کم بھی یہ تو بتایا جاتا کہ کتنی عمر کو پہنچ کر ان بیٹیوں کو اپنے اوپر چادر ڈال لینی چاہیئے؟ یہاں عمومی لفظی معنی میں تو ایک سال، د و سال، چار سال کی عمر کی بیٹی بھی چادر اوڑھ لینے اور گھونگٹ ڈال لینے کی مکلف نظر آتی ہے اور انسانی بصارت و بصیرت کے لیے ایک مضحکہ خیز منظر پیدا کرنے کا سامان کیا جاتا ہے۔ کیا یہ قرین عقل ہے؟؟؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنات یہاں ابنائے قوم کی جماعتوں کو کہا گیا ہے اس لیے کہ جماعت کے لیے قرآن میں ہمیشہ مونث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ پھر بھی اگراس کے علاوہ کوئی اور مناسب تر صورت نکلتی ہو تو قارئین ضرور توجہ دلائیں۔
اور اب اس بحث کے نتیجے میں ملاحظہ فرمائیں سیاق و سباق کے مطابق ایک قرین عقل ترجمہ جو آج کی جدلیاتی عقلیت، علوم اور مثالی اسلامی معاشرت کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے :-
ایک انتہائی قرین عقل [Most Rational] ترجمہ
"""اے نبی تاکید کر دو اپنے ساتھیوں کے لیے [لِّأَزْوَاجِكَ]، ، اپنی جانشین جماعتوں کے لیے [بَنَاتِكَ] اور امن و ایمان کے ذمہ دار عوامی نمائندوں کے لیے [نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ] کہ وہ سب اپنے اپنے حلقہ اختیار و اقتدار میں [جَلَابِيبِهِنَّ] خود کو عاجزی اور انکساری کا استعمال کرتے ہوئے اتنا کمتر کر لیں کہ بآسانی رسائی کے قابل ہو جائیں [يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ] ۔ یہ اس مقصد کے پیش نظر زیادہ مناسب رویہ یہ ہے[أَدْنَىٰ] کہ وہ عمومی سطح پر اپنی اصل حیثیت و کردار میں متعارف ہو جائیں [يُعْرَفْنَ] تاکہ ان کی راہ میں پریشانیاں اور سختیاں نہ پیدا کی جائیں [فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ]۔ اللہ کا قانون انہیں تحفظ دینے والا اور اسباب نشوونما عطا کرنے والا ہے۔"""
اب سیاق و سباق کی شرط پوری کرنے کے لیے آگے آنے والی آیت بھی دیکھ لیتے ہیں ۔
لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾
"اگر پھر بھی منافق لوگ اور وہ جن کے ذہنوں میں پراگندگی کا مرض ہےاور وہ جو شہر میں فتنہ پروری کرنا چاہتے ہیں، اپنی حرکات بند نہیں کرتے تو ہم ضرور آپ کو ان کے خلاف اُٹھا دیں گے اور پھر وہ آپ کے قرب و جوار میں زیادہ دیر نہ ٹہر سکیں گے۔ "
اس ما بعد آنیوالی آیت سے بھی قرآن کا زیر بحث موضوع بالکل واضح ہے۔ یہاں حکومتی نظم و نسق میں رخنہ اندازی کرنے والوں کا عمومی ذکر اور ان کی اجتماعی تنذیر کی گئی ہے ۔محض خواتین کے خلاف کسی بداخلاقی یا توہین آمیز رویے کو یہاں داخل کرنا صرف بدنیتی پر مبنی ہوگا۔ مزید برآں خواتین کے اسلام کے دشمنوں سے کسی ممکنہ تحفظ کے لیے صرف چادر اوڑھ لینا یا کوئی پردے کی شکل استعمال کر لینا ایک انتہائی احمقانہ اقدام ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
البتہ یہ پوری کوشش کی گئی ہے کہ پردے سے متعلق قرار دی جانیوالی آیت ۳۳/۵۹ کا یہ جدید ترین ترجمہ سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جائے کیونکہ زیر بحث قرآنی موضوع میں کسی پہلو سے بھی عورتوں، بیویوں اور بیٹیوں کے من گھڑت ذکر کی،،، اور شٹل کاک برقعے کی قسم کے کسی پردے کی،،،،،، کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔۔۔۔۔۔ اوریہ ترجمہ کسی ایک لفظ کے بیرون سے اضافے کے بغیر اپنے معانی میں خود مکتفی اورمکمل ہے ۔ نیز یہ قرآن کے الفاظ کا وہ خالص اور حقیقی ترجمہ ہے جسےبغیر کسی تشریح اور بلا کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے دانش مند دنیا کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہی اللہ کے کلام کے ترجمے کے عمل کا واحد معیارہونا چاہیئے۔ اسی معیار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ خود بھی کوشش کریں تو شاید اس سے بھی بہتر اور ادبی لحاظ سے زیادہ خوبصورت ترجمہ کر سکیں۔
والسلام،،،،،
فوری حوالے کی سہولت کے لیےمستند لغات سے متعلقہ الفاظ کے معانی:
Dal-Nun-Waw (Dal-Nun-Alif) د ن و = To be near, come near or low, let down, be akin to. قریب ہونا، قریب آنا یا نیچے آجانا، کمتر عاجز ہو جانا کر دینا، جھک جانا، وغیرہ
Danaa (prf. 3rd. p.m. sing.): He drew near.
Yudniina (imp. 3rd. p.f. plu.): They should let down, draw lower.
Daanin (act. pic. m. sing.): Near at hand; bending (so) low (as to be within easy reach to pluck).
Adnaa (elative.): Nearest; worse; lower; best; more fit; more proper; more likely; more probable; nearer; near; less; fewer.
Dunyaa: This world.
Jiim-Lam-Ba-Ba ج ل ب ب = Woman's outer wrapping garment, that which envelopes the whole body, wide garment for a woman; Dominion or Sovereignty or Rule with which a person is invested. وہ حلقہ اقتدار و اختیار یا حکومت جو کسی کو تفویض کیا جاتا ہے ۔
jalabib (pl. of jilbab) 33:59 ## http://ejtaal.net/aa/#q=JLBB
بنت: daughter or any female descendent; بیٹی یا کوئی بھی مونث جانشین یا اگلی نسل؛ وارث جماعت ۔
- Hits: 2487
اورنگزیب یوسفزئی فروری 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
Thematic Translation Series Installment No.29
کیا "ربا" اور "الربا" سُود کا ایک معتبر ہم معنی لفظ ہے، جیسا کہ تفاسیر اور تراجم میں ظاہر کیا گیا ہے،،،،
یا قرآن کے حقیقی معانی کی ایک اور کھلی تحریف؟؟؟
IS THE QURANIC TERM “RIBA” OR “AL-RIBA” AUTHENTICALLY SYNONYMOUS WITH INTEREST/USURY AS STIPULATED IN OUR TAFASEER AND TRANSLATIONS - - - OR IS THAT ANOTHER MANIFEST DISTORTION OF GENUINE QURANIC ASSERTIONS?
قرآن حکیم کے ابہام و التباس سے پُر قدیمی تراجم کی درستگی کے جاری مشن کی یہ ایک اور کوشش ہے۔ پیشِ نظرمقصد قرآنی احکامات کی ایک منزّہ اور قرینِ عقل منطقی (Rational and Logical) صورت دنیا کے سامنے لے آنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی بدعنوان اموی اور عباسی ڈکٹیٹروں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قرآن کی بوگس تفاسیر سرکاری طور پر تیار کرائی گئیں اور ان کے ذریعے قرآن کے متن کو منظّم انداز میں سوچی سمجھی شکل میں تبدیل کر کے اس کے مفاہیم کو ابہام اور فضولیات سے بھر دیا گیا۔ یہ عظیم سازش جلد ہی اسلامی فلسفے (Islamic Doctrine) کو انتہائی طاقتور اور تباہ کن اثرات کا نشانہ بنانے والی تھی۔ کیونکہ انہی وضع کردہ تفاسیر کے بطن سے دھوکے پر مبنی غیر معیاری تعبیرات و تراجم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جس نے اسلام کی ایک سراسرجھوٹی اور غیر منطقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔ اس طرح ایک قیامت برپا کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو نفرت، جنونیت پسندی، تشدد اور تمسخر کا استعارہ بنا دیا گیا۔ عظیم فلاسفر علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کا نوحہ پڑھتے ہوئے اپنی تحقیق کی اِن الفاظ میں عکاسی کی :-
جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآن نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہِ مومن کا دین
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
اقبال کے سنہری الفاظ میں اُس سرمایہ داری نظام کے واپس لوٹ آنے کی خبر بھی دے دی گئی جس کے خلاف "الربا" کے عنوان سے اللہ تعالیٰ کی تنبیہات ہمارے اس مضمون میں زیرِ بحث لائی گئی ہیں،،، اور پیرانِ حرم کی اصطلاح کے ذریعے عرب بادشاہت کی پوری نشاندہی بھی کر دی گئی جو اس قیامت کے برپا کرنےکے ذمہ دار تھے۔
کیونکہ آج بھی بے شمار ایسے تراجم ہمارے سامنے موجود ہیں جن کے مبہم انداز کی وجہ سے متکلم کے مافی الضمیر کا ہمیں کوئی ادراک نہیں ہو پاتا، فلھٰذا ِس تحریر کے ذریعے اِن صفحات پر یہ تحقیق شدہ دریافت ایک کھلے اعلان کے ذریعے پیش کی جا رہی ہے کہ ۔ ۔ ۔۔"سُود"۔ ۔ ۔ ایک علیحدہ سے زیرِ بحث لایا گیا قرآنی موضوع ہی نہیں ہے!!!۔بلکہ قدیمی فنکاروں نے یہاں بھی اپنی ہنرمندی سے کام لیتے ہوئے ایک وسیع المعانی قرآنی لفظ "ربا" کو ایک محدود معنی دے کر اس کی وسعت کو صرف سُود کے ایک چھوٹے سے شعبے کے ساتھ جوڑ دینے کی فنکاری دکھائی ہے۔ جبکہ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ "سُود" سے متعلق مانی جانے والی آیات میں ہمارا مالک و خالق دراصل ہمیں دولت کے بڑے ارتکاز اور اس سے پیدا ہونے والے سرمایہ داری نظام کے عظیم فساد سے محفوظ رکھنے کے لیے احکامات عطا فرما تا ہے،،،،اور وہاں کہیں بھی سُود کا ذکر ہی نہیں کرتا۔
مختصرا"،،،،،،، ، ، قرآنِ حکیم میں "ربا" ۔۔۔۔۔اپنے مکمل سیاق و سباق میں، سرمایے یا اموال میں حاصل ہونے والا عمومی یا تجارتی منافع، بڑھوتری، یا اضافے کو کہا گیا ہے ۔ ۔۔۔۔۔یہی اس کے مادے کا بنیادی معنی ہے ۔۔۔ نیز جہاں یہی لفظ معرف باللام کے ساتھ "الربا" کی شکل میں آتا ہے وہاں اس کی تعریف "وہ خاص ممنوعہ شرحِ منافع، بڑھوتری، یا اضافہ ہے جس سے سرمایے میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے، وہ دوگنا چوگنا ہو جائے"۔ اوریہی امر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اس فرمان کے ذریعہ حتمی طور پر واضح بھی کر دیا ہے :- "لا تاکلوا "الربا" اضعافا مضاعفۃ" (3/130)۔ وہ ناجائز منافع مت لو جس سے سرمایے میں دوگنا، چوگنا اضافہ ہوتا ہو،،،،،،،، یعنی جو کہ دولت کے ارتکاز کا موجب بن جائے۔۔۔۔۔۔ پس، خود اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے مطابق، الربا کی تعریف میں "سُود" نہیں آتا ۔ یہاں بھی ملوکیتی تفاسیر کے زیرِ اثر قرآن کے معانی میں کھلی تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔۔۔ جب کہ،،،،،،یہ قرآنی موضوع نہ قرض سے ڈیل کرتا ہے اور نہ سُود سے، جیسا کہ آپ متعلقہ آیات کے مستند عقلی اور منطقی تراجم کے ذریعے دیکھ ہی لیں گے!
"قرآنی سود" کے اہم موضوع پر ایک جدید ترین، خالص عقلی اور علمی تحقیق اصحابِ علم کی خدمت میں پیش ہے۔ کیونکہ یہ عاجز اپنے موضوعاتی تراجم کے ذریعے ایک قطعی نیا اور ازحد ترقی یافتہ قرآنی دور متعارف کرانے کے لیے ایک مشنری جدوجہد میں برسرِکار ہے، اس لیے اس موضوع پر بھی آپ ایک انقلابی پیش رفت اپنے سامنے پائیں گے،،،،، جو قرآن کو اس کے خالص اور پاک معانی میں پیش کرتی ہوئی عقل و دانش اور الہامی حکمت کے کئی نئے دریچے آپ کے سامنے کھول دے گی ۔ معانی کی وہ گہرائی اور وسعت جو آپ کو چونکا دے گی اور مجبور کرے گی کہ آپ خود بھی ایک تحقیقی عمل سے گذریں اور اِس ترجمے کو تفتیش و تدقیق کے مراحل سے گذاریں اور اس کی حقانیت کے بارے میں جہاں کہیں بھی سقم پایا جائے، سوالات کریں۔ مقصد ایک باہمی اتفاق رائے کے ذریعے اللہ رب العزت کے فرمان کی ایک نہایت مستند اور معتبر شکل دنیا کے سامنے لانا ہے ، جو ایک داغدار ماضی کی تمام آلائشوں سے پاک ہو،،، اور صدقِ بسیط کی روشنی سے اس دانشمند دنیا کی آنکھیں منو ر کر دے۔ آخری الہامی صحیفے قرآن کی لازوال حکمت ایک جگمگاتےسورج کی مانند ظاہر ہو اور دنیا کو اپنی تسلیم و اطاعت پر مجبور کر دے۔
آئیے متعلقہ آیات کے تحقیقی معانی سے قبل ہم ۔ربا ۔ کے مادے کا مستند معانی ملاحظہ کر لیتے ہیں جو یہ ثابت کر دیتا ہے کہ یہاں سے "سُود " مشتق کیا ہی نہیں جا سکتا :-
1) پہلے مادے کو دیکھ لیں : ر ب و ؛ ربوٰ : وہ بڑھ گیا/اس میں اضافہ کر دیا گیا ؛ زیادتی، بڑھوتری؛ ایک اضافہ جو حق سےزیادہ وصول کیا گیا؛ جو بڑھ کر لمبا ہو گیا/نشوونما پا کر بڑھ گیا/ بڑا / پھولا ہوا / سطح میں بڑھا ہوا،،، بلندی پر چڑھنا،،، پھیلنا/پھولنا، سانس کا پھول جانا،،، ہانپنا۔ : ربیۃ Rabiyatun : ہمیشہ بڑھنے والا، سخت /سنجیدہ کیفیت والا؛،،،، اربا : زیادہ کثرت والا؛ زیادہ بڑھا ہوا ۔
2) پھر اس کے مصدر کو دیکھ لیں : اس کا مصدر (infinitive) ،،، "تربیت"،،، ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تربیت کے معانی میں پڑھانا، لکھانا، سکھانا، کھلانا، نشوونما دینا، عقل و خرد میں بڑھانا/اضافہ کرنا، پرورش کرنا وغیرہ تو آتا ہے،،،، رَبِیّتہ: Rabiyyata-hu: میں نے اسے پالا، پرورش کی، بڑا کیا،،،،جیسے کہ ایک بچے کو؛ ،،،، میں نے کھلایا، نشوونما دی ؛ یا کسی بھی چیز کو جو بڑھتی پھیلتی ہو، یا جس میں اضافہ ہوتا ہو، جیسے کہ انسانی بچہ : ربّیتُ : Rabbayitu: میں نے پالا، بیج بویا، پودے یا درخت۔ اور ربَی : زمین کے متعلق کہا جاتا ہے، معنی وہی ہے کہ اس نے پودے اور جڑی بوٹیاں پروان چڑھائیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈال کر سوچیے کہ یہاں ،،، سُود لینا یا سُود دینا،،، کہاں سے آ سکتا ہے؟؟؟
3) انگلش لفظ INTEREST (سُود) کے اصل عربی مرادف کی بھی تلاش کی گئی۔ یہ بھی دیکھ لیں :
کیمبرج انگلش-عربک ڈکشنری : “ = Interest (noun)فائدہ"
; the extra money that you must pay to a bank if you borrow money, or that you receive from the bank if you keep your money there: - فائدة . ۔۔۔۔ ذرا دیکھیں کیا یہاں کہیں بھی ربا کا ذکر ہے؟؟؟
4) بہت سی مستند عربی لغات میں بھی دیکھیں:
بشمول المنجد اور لسان العرب۔ آپ وہاں Interest یعنی "سود" کا عربی مرادف لفظ ،،،"فائدہ"،،، پائیں گے۔
5) ربا کے فعل کے صیغے کا استعمال بھی دیکھیں :
قرآن میں اس صیغے میں الفاظ یربو اور یربی آئے ہیں۔ اور یہ جہاں بھی استعمال کیے گئے ہیں، "سود" کے معنی میں استعمال نہیں کیے گئے۔۔۔۔ نہ ہی کیے جا سکتے تھے۔۔۔۔ذیل میں آنے والے تراجم میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں ملاحظہ فرمائیں۔
یعنی اس کا معنی کہیں سے بھی "سود" نہیں لیا جا سکتا ،،،،،البتہ اسے سود لینے کا عمل ایک ذیلی معنی کے طور پر ، اور وہ بھی صرف ہماری تفاسیر میں کی گئی جعلسازی کے سبب، ناجائز طور پر بروئے کار لے آیا جاتا ہے ۔ کیونکہ،،، جیسا آپ نے ملاحظہ فرما لیا، ،،، سُود اس کے مادے سے قطعا" مشتق نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس لفظ کا فعل کے صیغے میں تمام تر استعمال کسی نہ کسی جہت سے تو "سود" کا معنی ضرور دیتا!!!!!۔۔۔۔لیکن ابھی تمام متعلقہ تراجم میں آپ دیکھیں گے کہ ایسا کسی بھی متعلقہ سیاق و سباق میں وقوع پذیر نہیں ہوتا ۔
مثال کے طور پر دیکھیں کہ درجِ ذیل ایک ہی آیتِ مبارکہ کا مستند عقلی ترجمہ " ربا" کا مطلب سُود لینے کے تصور کو جڑ بنیاد ہی سے ختم کر دیتا ہے :
٭ آیت : 30/39 : وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
لیکن اس آیت کا عقلی ترجمہ دیکھنے سے قبل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ تجزیہ کریں کہ اس مخصوص آیت کے معنی کے ساتھ ماضی کے تراجم میں کیا لایعنی کھلواڑ کی گئی ہے۔ اس لیے آئیے ہم اس سابقہ ریکارڈپر عمومی آگاہی حاصل کرنے کے لیے ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
قدیمی تراجم: (آیت 30/39)
1) مشہور لغت کے سکالر امام راغب تو بالکل ہی مبہم ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :- ،،،،،،،، " اور تم جو چیز (عطیہ) زیادہ لینے کے لیے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی۔"
2) علامہ اسد : "اور (یاد رکھو) جو کچھ تم "سود" میں دے دیتے ہو تاکہ یہ (دوسرے) لوگوں کے اموال کے ذریعے بڑھ جائے، یہ (تمہیں) کوئی بڑھوتی اللہ کی نگاہ میں نہ دے گا؛ جب کہ وہ سب جو تم خیرات میں دے دیتے ہو، اللہ کی رضا جوئی کے لیے، (وہ تمہاری بخشش کر دے گا)؛ کیونکہ یہ وہی ہیں (جو اس کی رضا چاہتے ہیں) جن کا اجر کئی گنا بڑھ جائیگا"۔
3) قرآن کے نہایت قابلِ احترام جدید سکالر ، علامہ پرویز لغات القرآن میں آیت 30/ 39 کا ایک قدرے ترقی یافتہ ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :-
"جو کچھ تم لوگوں کو ان کے واجبات سے زیادہ دو اور اس سے غرض یہ ہو کہ اس میں بڑھوتی ہو تو نظامِ خداوندی میں اس میں بڑھوتی نہیں ہو سکتی۔ اس کی تفسیر (74/6) میں یہ کہ کرکر دی کہ "لا تمنن تستکثر" کسی پر اس مقصد کے لیے احسان نہ کر کہ تجھے اُس سے زیادہ واپس ملے۔ "
تبصرہ :-
ملاحظہ فرمائیے کہ ،،،،،نمبر 1) میں "ربا" کو،،،،،"عطیہ زیادہ وصول کرنے کے لیے دینا" کہا گیا۔۔۔۔۔۔نمبر 2) میں "ربا" کا ترجمہ "سود" (Usury) کیا گیا،،،،،اور نمبر 3) میں ،،،،،"واجبات سے زیادہ" ،،،، کہا گیا۔ ۔۔۔ ۔ ۔اور یہ ربط اور یکسانیت کا فقدان واضح انداز میں ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی درج بالا مترجم ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتا، اور نہ ہی اس لفظ کا کوئی متفقہ اور باوثوق ترجمہ سامنے لا سکا ہے۔ اگر واقعی "ربا" کا معنی "سود" ہی تھا تو کیوں یہ وسیع طور پر قبول کیا جانے والا معنی دو مشہور و معروف سکالرز آیت کے متعلقہ سیاق و سباق میں فٹ نہیں کر سکے؟؟؟ ۔۔ دونوں جگہ "ربا" کو ،،،سُود ،،، نہیں کہا جا سکا۔۔ ۔ ۔ ۔اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ مضمون آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ہمیں تو اس سوال کا جواب کسی سکالر کے ہاں نظر نہیں آتا!
البتہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کر ہی لیا، آیت کا معنی ان تینوں ہی تراجم میں قرین عقل نہیں پایا گیا ، کیونکہ اس آیت کا پیغام اور دیا جانے والا تصور سب کے ہاں جدا جدا اور بالکل ہی وضاحت اور فہم سے خالی پایا گیا،،اور اس طرح سَر کے اوپر سے ہی گذر گیا!!!۔۔۔ پڑھنے والے کو یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ،،،،،،، آخر۔۔یہاں خطاب کس سے ہے؟۔۔۔کن لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے؟۔۔۔۔"عطیات" سے امام راغب کی کیا مراد ہے؟؟؟ ۔۔۔۔کون سُود کس کو دے رہا ہے؟؟؟ (علامہ اسد)۔۔۔۔۔۔ کِن لوگوں کے۔۔ کون سے۔۔" واجبات " کا ذکر کیا جا رہا ہے؟،،،،،آخر" واجبات سے زیادہ" سے کیا مراد ہے؟،،،،، اور،،،،،"نظامِ خداوندی میں بڑھوتی" سے کیا مراد ہے؟ (علامہ پرویز) ۔
دوسرے یہ کہ۔۔۔ "اور تم جو چیز (عطیہ) زیادہ لینے کے لیے دو تاکہ۔؟؟؟۔۔" (امام راغب)،،،،یہ سراسر ایک مبہم فقرہ ہے، جس کے سر پیر کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ یعنی کون سی چیز؟،،، کتنی؟،،، کس کو دو؟،،دینے والا کون ہے؟ ،،،،،اور کیا زیادہ لینے کے لیے دو؟؟؟۔۔۔۔ کچھ بھی واضح نہیں ہے!البتہ یہاں ایک بات بالکل واضح ہے کہ ربا ۔۔اور۔۔اضعاف۔۔ہم معنی الفاظ ہیں۔ دونوں کا معنی بڑھوتری، افزائش، وغیرہ ہے۔
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔۔(3)
اور اب جدید ترین عقلی اور منطقی ترجمہ: (جہاں سے آپ کو مکمل آگاہی حاصل ہوگی کہ خطاب کس سے ہے، اموال الناس کیا ہے، کون سی افزائش زیرِ بحث لائی گئی ہے اور قرآن کا نہایت واضح اور روشن بیان کیا پیغام دے رہا ہے)۔
"اور جو کچھ بھی اضافی رقوم (ربا) تم اس مقصد کے لیے لگا دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے اموال، یعنی سرکاری خزانے(أَمْوَالِ النَّاسِ ۔ public exchequer) میں اضافے/بڑھوتری کا باعث بنیں (لِّيَرْبُوَ )، تو جان لو کہ اللہ کے نزدیک وہ بالکل اضافہ/ بڑھوتری نہیں پاتا (فَلَا يَرْبُو )۔ لیکن جو کچھ بھی رقوم کی مدیں تم اُس "اموال الناس" میں سے اللہ کے احکام کی بجا آوری کے لیے (تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ) سامانِ پرورش و نشوو نما کی مد میں (مِّن زَكَاةٍ) عام کر دیتے ہو، تو بس وہی سب کچھ ہے جو خزانوں میں اضافے اور بڑھوتری کا ماخذ و منبع و ذریعہ ہے (الْمُضْعِفُونَ )۔ "
جیسا کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں، یہاں انتہائی وضاحت سے اور راست انداز میں اہلِ حکومت و اتھارٹی کو سرزنش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بجائے اضافی آمدنیاں خزانے میں اضافہ کی جانب لگا دینے کے، یہی رقوم انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کر دی جائیں تو اللہ کے نزدیک تب ہی خزانے میں افزائش ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہاں ایک بہت ہی خاص امر نوٹ فرمائیں کہ اصطلاح "اموال الناس" کا ترجمہ کسی بھی مترجم نے آج تک درست نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ آیت ہمیشہ سمجھ سے بالا، اور وضاحت اور تفہیم کی محتاج رہی ہے ۔ بات بالکل سیدھی ہے ۔ کیونکہ:-
- زکاۃ کا بھی یہاں ساتھ ہی حکم دیا جا رہا ہے،،،جو صرف حکومتِ وقت ہی کا فریضہ بنتا ہے، اس لیے یہاں خطاب ہی حکومتِ وقت سے ہے ،
- اور اموال الناس یہاں سرکاری خزانہ ہی ہو سکتا ہے، کچھ بھی اور نہیں ، کیونکہ ہر مہربان اور خیر خواہ حکومت میں سرکاری خزانہ ہی عوامی خزانہ ، یعنی "اموال الناس" ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
اور یہی معنی اس آیت کا قرین عقل ترجمہ کر سکتا ہے۔ کوئی بھی اور معنی لینا آپ کو عقلی اور با معنی ترجمے سے بہت دُور لے جاتا ہے، جیسا کہ آپ تراجم کے تمام قدیمی انبار کھنگال کر دیکھ سکتے ہیں!!!۔اور یہی حقیقت درجِ بالا تین پیش کردہ تراجم آپ کے سامنے لاتے ہیں،،،، جہاں آیت کا مافی الضمیر قطعی طور پر واضح نہیں ہو پاتا۔
اب دیکھ لیں کہ لفظ "ربا" اور لفظ "یربو" کہیں سے بھی سود کا معنی نہیں دیتے !!! غالبا" اس ضمن میں ا ب کسی بھی مزید سند کی ضرورت درپیش نہیں ہے. لیکن آئیے، اتمامِ حجت کے لیے اس کے بعداب "سود" سے متعلق سمجھی جانے والی تمام آیات کا قدیمی ترجمہ،،،اور اس کے ساتھ ساتھ،،،، جدید ترین عقلی ترجمہ،،،، دونوں چیک کر لیتے ہیں تاکہ موازنے سے یہ امر حتمی طور پر ثابت ہو جائے کہ "ربا"۔۔ یا ۔۔ "الربا" کا ترجمہ "سُود" کی حیثیت سے لینا کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ قرآن کو مسخ کر نے کی ملوکیتی سازش کا ہی ایک حصہ ہے ۔
تمام متعلقہ آیات : قدیمی تراجم:
٭ آیت: 2/276: یمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ
قدیمی ترجمہ:
اس ضمن میں امام راغب لکھتے ہیں : ( یمحق اللہ الربا و یربی الصدقات 2/276) ۔۔۔" اللہ سود کو بے برکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔"ََ؟؟؟؟۔۔۔۔۔
تبصرہ :- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امام راغب آیت 30/39 میں "ربا" کو "زیادہ عطیہ" کہ رہے ہیں تو یہاں کیسے اسے ہی "سُود" کہ سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔نیز جب آپ ،،یہاں ربا کو "سود" کہ رہے ہیں،،، تو اُسی کے فعل"یربی" سے مراد آپ ،،،وہ بڑھاتا ہے ،،،، کیسے لے سکتے ہیں ؟ ۔۔۔جب کہ آپ کے ہی استعمال کیے گئے ربا کے معنی کے مطابق اسےفعل واحد، غائب، مضارع کے صیغے کے مطابق "وہ سُود لیتا ہے" کہنا چاہیئے !!! ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوستو، دیکھ لیا آپ نے ؟؟؟۔ ایک جگہ تو "ربا" اُسی ایک فقرے میں سُود ہے اور چند ہی الفاظ کے بعد "بڑھوتری" ہے۔۔۔۔۔۔۔اسے کہتے ہیں ڈبل سٹینڈرڈ ۔ ۔ ۔ وہ بھی ایک ہی چھوٹے سے فقرے میں ؟؟۔ ۔ ۔ ۔ امام راغب کے موقف کے مطابق تو یہاں ترجمہ ، عقل پر "قل ہو اللہ" پڑھتے ہوئے، ،،، کچھ اس طرح ہونا چاہیئے تھا:- -- "اللہ سود کو بے برکت کرتا ہے اور خیرات پر سُود لیتا ہے"؟؟؟۔ ۔ ۔ تو ثابت ہوا کہ جہاں آپ کے خود اختیار کردہ غلط معنی سے ایک "پاگل خانہ" کھلتا نظر آئے، وہاں آپ اُسی معنی کو فورا" ہی بغیر کسی خلش کے یکسر تبدیل بھی کر لیتے ہیں ؟- - - واہ جناب، واہ !!!
بہر حال ، اب دیکھیے اس فقرے کا قرینِ عقل ترجمہ کچھ یوں سامنے آتا ہے :-
"اللہ تعالیٰ اموال میں ناجائزاور بے تحاشا اضافوں(الربا) کو ختم کرنے(یمحق) کا حکم دیتا ہے اور اس کے برعکس محصولات کی آمدنی (الصدقات) میں اضافہ کرنے (یربی) کی تدبیر کرتا ہے"۔۔۔۔۔۔ ۔ (یاد رہے کہ صدقات ، تمام عمومی تصورات کے برعکس، دراصل حکومت کو حاصل ہونے والے ٹیکس/محاصل کی آمدنی کو کہا جاتا ہے) ۔
جاری ہے،،،،،،(4)
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔(4)
٭ آیت 3/130 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :- - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً !!!
ما قبل کے تراجم:
اُستادِ محترم علامہ پرویز: "سود مت کھاؤ ۔ تم سمجھتے ہو کہ اس سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس سے قومی سرمایہ میں کمی ہوتی ہے (دیکھیے عنوان ض-ع-ف)"۔
جالندہری : "اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ " ۔
تبصرہ :- یہاں آپ دیکھیں گے کہ جہاں تک کہ اصطلاح ۔۔" أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً " کی تعبیر کی گئی ہے درج بالا دونوں تراجم باہم متضاد و متخالف ہیں ۔ کس کو درست مانا جائے؟۔۔ یہ ایک ا لگ سوال ہے ۔۔۔ البتہ "الربا" کو دونوں حضرات نے "سود" کہا جو متعلقہ مادے کے بنیادی معانی کی رُو سے مستند تعبیر نہیں ہے ۔اس لیے کہ یہ نہ تو اس کا مستند معنی ہے اور نہ ہی یہاں کسی قرض کے لینے/دینے کا پسِ منظر بیان کیا گیا جس کے تناظر میں اسے سُود کہا جا سکے !!!
جبکہ اس آیت کا قرینِ عقل ، اور تمام اقسام کی تجارتوں پر محیط، ترجمہ کچھ اس طرح باور ہوتا ہے : -
"اے ایمان والو، تم ایسا ناحق اضافہ/منافع (الربا) مت حاصل کیا کرو جو مالوں میں دوگنا، چوگنا اضافہ کرتا ہو ۔" - - - - یاد رہے کہ "اضعافا" مضاعفۃ" کی اصطلاح متعلقہ سیاق و سباق میں ضعف، یعنی کمزوری یا کمی کا معنی نہیں دیتی۔ یہ امر آیت 30/39 کے ترجمے میں لفظ "مضعفون" کے تحت ملاحظہ فرما لیں، جہاں سے ثابت ہے کہ اسکا معنی بڑھنا ہے۔ نیز مزید ثبوت کے لیے دیکھیے آیت 2/261 : وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ ۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے کئی گنا اضافہ عطا کرتا ہے ۔
یعنی "الربا" وہ خاص بڑھوتری/اضافہ/منافع ہے جو اموال کو ملٹی پلائی کر دے ۔ یعنی ان میں بے حد و حساب اضافہ کر کے دولت کا ارتکاز پیدا کر دے، جسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔یہاں کسی قرضے کا ،،، یا اس پر لاگو ہونے والے کسی "سود" کا،،،، ذکر ہی نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یا قانون معیشت اور تجارت کے ہر شعبے کا احاطہ کر رہا ہے۔
٭ آیت مبارکہ 2/275 : الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ
قدیمی ترجمہ:
جالندہری : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اُٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کےلحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سَودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔
تبصرہ: انتہائی محرف شدہ ، غیر معیاری اور عامیانہ ترجمہ ہے ۔ جگہ جگہ اپنی جانب سے بریکٹوں میں الفاظ اس لیے بڑھا دیے گئے ہیں کہ ترجمہ کی بے ربطی کو بہتر کیا جا سکے،،، جب کہ اللہ کے کلام میں تحریف یا اضافہ ایک جرم ہے ۔ یہاں بھی "سُود" کو بے جا اور بغیر جواز داخل کر دیا گیا ہے، تاکہ ایک غلط العام کو مستقل حیثیت دے کر قرآن کو مسخ کرنے کی کوشش جاری رکھی جا سکے ۔ یعنی وہی الربا، ،،،یعنی بلا حدود منافع،،،صرف سُود ہی کھانے والے کے لیے مخصوص کر لیا گیا ہے ،،،اور سارا نزلہ اُسی پر گرا دیا گیا ہے۔ اور اس طرح عمومی ناجائز منافع کو صرف سُود کی شکل دے کر، اور جزوی طور پر صرف ایک سُودی کاروبار پر لاگو کر کے،،،، باقی تمام تجارتوں میں لیا جانے والا ناجائز اور بلا حدود منافع نظر انداز کر دیا گیا ہے!!!۔۔ نیز ترجمہ کا بازاری پن دیکھیں کہ ہر جگہ "یاکلون" کو لینے اور حاصل کرنے کے حقیقی معانی کی بجائے "کھانا" کہا جا رہا ہے، گویا کہ سُود یا منافع مال یا روپیہ نہیں جو کمایا یا "حاصل کیا" جا رہا ہے،،،بلکہ کھانے کی کوئی ڈش ہے جسے "کھایا" جا رہا ہے !!!
قرینِ عقل ، مستند علمی ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :-
"جو لوگ ناجائز/بلا حدود، دگنا چوگنا منافع (الربا) حاصل کرتے ہیں اُن کامقام اُس شخص کی مانند ہو جاتا ہے جس کی عقل کو اللہ کے احکامات سے سرکشی (الشَّيْطَانُ )کے اثرات نے (من المس) خبط کر لیا ہو۔ یہ خبط اس طرح سامنے آ جاتا ہے(ذلک) کہ ایسے اشخاص یہ کہنے لگ جاتے ہیں (بانھم قالوا) کہ تجارت (البیع) بھی بلا حدود منافع (الربا) کمانے ہی کی مثل یا اس ہی کی دوسری شکل ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی تجارت (البیع) کو تو جائز قرار دیتا ہے لیکن اُس کے ذریعے ناجائز یا بلا حدود منافع حاصل کرنے (الربا) کو حرام قرار دیتا ہے"۔
امیدِ واثق ہے کہ بات بالکل واضح ہو گئی ہوگی۔
جاری ہے،،،،،،،،(5)
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔( اختتامیہ)
٭ آیت 2/278: یا ایہا الذین آمنو اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾
قدیمی تراجم:
جالندہری: مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔اگر ایسا نہ کروگے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کر لوگے (اور سود چھوڑ دوگے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمیارا نقصان۔
علامہ پرویز: اے جماعتِ مومنین اللہ کے قانون کی نگہداشت کرو اور جو کچھ حصہ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اس سے ثابت ہوگا کہ تم سچے ایمان والے ہو۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو حکومتِ الٰہیہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار رہو۔ اگر تم سود چھوڑ دو اور صرف اپنے اصل سرمایے پر دعویٰ رکھو تو یہ خود تمہارے لیے اور تمہارے قرض دار کے لیے بہتر ہوگا۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہوگی ۔ (ایکسپوزیشن آف دی ہولی قرآن)
تبصرہ :- اگرچہ استادِ محترم کا ترجمہ دیگر کی نسبت ترقی یافتہ ہے لیکن یہاں بھی آپ ۔۔الربا۔۔ کا معنی سود ہی نوٹ فرمائیں گے جو بنیادی طور پر قدیم سے چلی آرہی ملاوٹ پر مبنی ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ سود کے معنی کا جواز دینے کے لیے یہاں مترجم نے خودکو مجبور پایا ہے کہ اپنے ہاں سے "قرض داری" کی اختراع پیدا کرے ۔ حالانکہ آیتِ مبارکہ میں کہیں بھی کسی قرض یا قرض داری کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ کیا ہم اسے بھی ملاوٹ یا تحریف کہنے پر مجبور نہیں ہیں؟؟؟
قرین عقل، مستند ترجمہ:-
"اے اہلِ امن و ایمان ،تم سب اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرو اور اگر تم مومنین ہو تو " وہ ناجائز منافع خوری" جو مال کو دگنا چوگنا کر دے (الرِّبَا) اگر اب بھی جاری ہو (مَا بَقِيَ ) تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکو (ذَرُوا )۔ بہر حال اگر تم ایسا نہ کروگے تو پھر حکومتِ الٰہیہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دو۔ لیکن اگر تم اس روش سے باز آ جاؤ تو تمہارا حق صرف تمہاری سرمایہ کاری کی زیادہ سے زیادہ مروجہ قیمت /ویلیو/قدر (رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ) پر ہے ۔ اس طرح نہ تو تم ظلم کا ارتکاب کرتے ہو، اور نہ ہی تم پر کوئی ظلم کرتا ہے"۔ ( کیونکہ اصطلاح راس المال کے معنی سے بہت سے قارئین ناواقف ہوں گے اس لیے یہاں وضاحت کے لیے عرض کر دیا جائے،،،،،،، کہ راس المال آپ کے روپے کی وہ قیمت ہوتی ہے جس سے کوئی بھی جنس، جسے تبادلے کا ایک بنیادی معیار مقرر کر دیا جائے، زیادہ سے زیادہ خریدی جا سکتی ہو ۔ ایسا تبادلے کا معیار سونا بھی مقرر کیا جا سکتا ہے، پٹرول بھی، اور گندم وغیرہ بھی)
٭ آیت 4/161 : وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ
قدیمی تراجم :-
جالندہری: اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے۔
علامہ اسد:- اور وہ سُود لیتے تھے جب کہ یہ ان پر منع کیا گیا تھا، اور وہ لوگوں کے اموال ناجائز کھا جاتے تھے۔
علامہ پرویز: ان کی غلط روش میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سود لیتے تھے جو کہ منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے اموال ناجائز حربے استعمال کرتے ہوئے کھا جاتے تھے۔
قرینِ عقل اور مستند ترجمہ:- (جو تمام اقسام کی تجارت اور خدمات کا احاطہ کرتاہے)
۔۔۔اور وہ ناجائز منافع خوری کے ذریعے بھی اپنی دولت دوگنا چوگنا (الربا) کر لیا کرتے تھے جبکہ انہیں اس سے روکا گیا تھا،،،، اور اس طرح وہ باطل حربےاستعمال کر کے لوگوں کےمال بٹور لیا کرتے تھے۔
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔۔ اختتامیہ
قارئینِ کرام، یہاں تک ہم نے زیادہ تر متعلقہ آیات کا احاطہ کر لیا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ بات دراصل بالکل صاف ہے۔ عہدِ ملوکیت میں زمام کار کیونکہ مطلق العنان سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں آ چکی تھی اور اپنے ناجائز قبضے کا جواز دینے کے لیے قرآن کے معانی کو بڑے پیمانے پر کرپٹ کیا جا رہا تھا، اسی لیے قرآن کے اس خاص تھیم کو بھی گستاخ ہاتھوں کے ذریعے دست بُرد کا نشانہ بنایا گیا۔ معیشت کے میدان میں ناجائز لُوٹ مار کرنے والوں کو بچانے کے لیے کرپٹ تجارتی طریق کار کی تمام شاخوں کو تحفظ دیتے ہوئے، قرآنی احکام کا رُخ صرف ایک شعبے، یعنی سودی تجارت کی جانب بلا جواز موڑ دیا گیا۔ حالانکہ سُود کا سوال تو وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں کسی قرض کے لین دین کا ذکر یا سیاق و سباق ہو۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ ربا کے تمام احکامات کسی بھی قرض کے لین دین سے متعلق نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تمام تجارتی کاروائیوں میں ناجائز طریق ہائے کار استعمال کر کے دولت میں بے تحاشا اضافے کو منع کیا جا رہا ہے۔
ضمنی طور پر یہ بھی ریکارڈ میں لے آیا جائے کہ قرض کے موضوع کو البتہ اللہ تعالیٰ نے، نظر انداز نہ کرتے ہوئے، آیت 2/282 میں ایک سُود سے بالکل علیحدہ عنوان کے طور پر "دَین" کہ کر واضح فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کے معنی کا ایک گہرا مطالعہ یہ ثابت کر دے گا کہ یہاں صرف قرض کے لین دین کو ایک ضابطے یا قاعدے کے تحت لایا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ قرض کے معاملے کو خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اُس کی تمام مقرر کردہ شرائط کے ساتھ تحریر کی قید میں لازمی طور پر لے آیا جائے اور دو معتبرشہادتیں بھی شامل کر لی جائیں۔ نوٹ کرنے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں خاص قرض کے موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی کسی سُود کا ذکر نہیں کیا گیا۔
دنیا اپنی معلوم تاریخ کے دورانیے میں تقریبا" اذل سے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہی ہے، جو ہر قسم کے ظالمانہ استحصال اور سلب و نہب سے عبارت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اُس ذاتِ پاک کے رسول ہمیشہ اسی ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے خلاف بھیجے جاتے رہے ہیں۔ سود بذاتِ خود بھی اُسی ظالمانہ سرمایہ داری نظام کا صرف ایک کَل پُرزہ (Tool) ہوا کرتا ہے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جہاں بھی بڑی بڑی رقوم کا ارتکاز ہو گا وہاں سے ہی ہمیشہ ہر قسم کا مالیاتی استحصال کیا جائے گا۔ قرضے بھی جاری ہوں گے اور سوُد کے ذریعےبھی پیسہ کمایا جائیگا۔ قرآن اپنی دُور رَس حکمت کے ذریعے ان بڑی رقوم کے ارتکاز کے بنیادی سبب کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تاکہ سرمایہ داری کا قیام ہی ممکن نہ ہو سکے،،،،،، اور روپیہ اتنا طاقتور ہونے ہی نہ پائے کہ مارکیٹوں کو اور انسانوں کو اپنی حریصانہ دَست برد کی زد میں لے آئے۔ یہ بھی ذکر کر دیا جائے کہ اِسی ظالمانہ نظام کے تحت بڑی رقوم کا ارتکاز بے شمار دیگر کل پرزے پیدا کرتا ہے جن میں بنکنگ کا نظام، بڑی صنعتی کارپوریشنیں ، بڑی اجارہ دارانہ تجارتیں، سٹاک مارکیٹیں، کرنسی ، اجناس اور دھاتوں کی قیمتوں پر سٹہ بازیوں (Speculation) کی مارکیٹیں ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اللہ کے ربا کے حوالے سے احکامات سرمایہ داری نظام کو بحیثیت مجموعی زد میں لاتے ہیں اور اس نظام کے فروغ کی حوصلہ شکنی کرنے کا مقصد رکھتے ہیں ۔اور اسی لیے وسیع پیمانے پر ظالمانہ سرمایہ داری نظام کو اس کے تمام شعبوں اور شکلوں کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں۔یہاں اسی لیے دولت کے ارتکاز کو حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ سرمایہ دار استحصالی قوت حاصل نہ کرنے پائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے برعکس مسلمان کی تنگ نظری کے باعث ہمارے سکالرز کی فرسودہ سوچ یہ رہی ہے،،،کہ صرف ایک سُود کو پکڑ لیا ہے اور سرمایہ داری نظام کے دیگر تمام کَل پُرزوں کو حلال و جائز قرار دے کر مطمئن ہو گئے ہیں کہ اللہ کے احکامات کی فرماں برداری کی جارہی ہے۔
پس قرآن میں لفظ "ربا " یا " الربا" سے مراد سود (Interest or Usury) لینا کوئی لغوی اور شعوری جواز نہیں رکھتا۔ تفاسیر اور تفاسیری تراجم کے ذریعے ہمیں اور دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک مذموم کو شش کی گئی ہے۔ قرآن تو اس موضوع پر دراصل انسانیت کی فلاح کے ضمن میں ہمیں ہماری مجموعی تجارتی لین دین میں ہر قسم کی بدعنوانی اور دولت کی پاگلانہ حرص و طمع سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ہے، تاکہ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز عوام کے لیے سلب و نہب کا باعث نہ بنے۔اس ضمن میں آیت 9/34-35 میں باری تعالیٰ کا فرمان بڑا واضح، حتمی اور عبرت آموز ہے :- وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ -----"جو لوگ سونا اور چاندی، یعنی مال و دولت کے خزانےذخیرہ کرتے رہتے ہیں (اکتناز-ارتکاز) اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر تے انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔ اُس دن کی بشارت دے دو جب یہی ذخیرہ کی ہوئی دولت جہنم کی آگ میں گرم کی جائیگی اور ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پُشتیں اس سے داغی جائیں گی۔ اور کہا جائیگا کہ یہ ہیں وہ خزانے جو تم اپنی ذات کے لیے ذخیرہ کرتے تھے، اب ان کا ذائقہ چکھو"۔(علامہ اسد)۔
والسلام۔
- Hits: 2242
اورنگزیب یوسفزئی فروری 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 28
Thematic Translation Series Instalment No.28
قرآن ایک ضابطہِ سیرت و کردار ، یا "ہدایتِ دسترخوانی"؟؟؟
Quran a Mode of Conduct or
a Guide to Eating???
یہ تحقیقی مضمون قرآن کے انتہائی اہم اور نظریاتی مواد رکھنے والے متون میں کی گئی ملاوٹ اور بگاڑ کی نشاندہی کے مقصد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ قرآن کے فرمودات سے گوشت خوری کی اشیاء کی تخصیص اخذ کرنے ، اور (پنجے والے اور بغیر پنجے والے) جانوروں کےگوشت اور چربی کی تلاش کرنے والے ہمارے روایت پرست ساتھیوں کی ذہنی حالت کو بلوغت کی جانب ترقی دی جا سکے۔ اس لیےیہاں نہ ذاتیات کا کوئی دخل سمجھا جائے اور نہ ہی کسی کے عقائد پر بے جا حملہ ۔ یہ صرف قدیمی ،فرسودہ اور سازشی قرآنی تراجم کی،،،، جدید ترین علوم اور عقل و منطق کی رُو سے،،،، تصحیح کرنے کا ایک مشن ہے ۔ اور ان تراجم کو قرآن کے حقیقی اور خالص پیغام سے ہم آہنگ کرنے کی ایک جاری کوشش کا حصہ ہے،،،،،، کیونکہ اس عاجز کا مشن یہی ہے کہ آج تک مروج چلے آ رہے طفلانہ اور غیر منطقی تراجم ، اور ان کے ذریعے پھیلایا گیا بگاڑ درست کرنے کی کوشش ہر حال میں زندگی کے ایک نصب العین کی مانند جاری رکھی جائے۔ تاکہ قرآن کا پیغام جب باہر کی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو ہر کسوٹی پر بے رحمی سے پرکھنے کے باوجود اُس کی حقانیت ، استناد، اور انسانی برادری کے لیے رحمت و منفعت کسی بھی شک و شبہ سے بالا رہے۔ کوئی بڑے سے بڑا دانشور، فلاسفر اور سائنٹسٹ تضحیک اُڑانے کی جرات نہ کر سکے۔
زیرِ تحقیق آیت درج ذیل ہے، جسے ہمارے جانور کھانے کے شوقین ساتھی اپنے موقف کے حق میں نہایت زور شور کے ساتھ پیش کرتے ہیں:-
6/145 : قل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تمام روایتی اور ترقی یافتہ تراجم کا متن تقریبا باہم متشابہ اور متماثل ہی ہے۔ دیکھیں :-
"اے محمد ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الّا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز ان میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقینا تمہارا رب درگذر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے"۔
بحث :
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ ترجمہ قرینِ عقل ہے، یا سہل پسندی اور سازش سے کام لیا گیا ،،،،اور نہایت عامیانہ اور بازاری معانی اختیار کرتے ہوئے قرآن کے عظیم نظریاتی ڈسپلن کے مشن کو مسخ کرنے، یا اس کا مذاق اُڑانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے روایت پرست بے عقل تو یہ کہتے ہیں کہ یہاں تو "طاعم" بھی ہے اور فعل "طَعَمَ" بھی موجود ہے، تو اب کھانے کے علاوہ اور کیا سوچا جا سکتا ہے ؟
یہاں ان تمام سطحی تراجم میں کہا یہ گیا کہ،،،،، "کہ دو کہ جو کچھ بھی مجھے وحی کیا گیا ہے،،،اس میں مَیں،،،کسی کھانے والے پر ،،،،،کوئی چیز جو وہ کھاتا ہےحرام نہیں پاتا سوائے۔۔۔"۔ ۔۔۔۔۔ گویا عقل کو رخصت کرتے ہوئے یہ فرض کر لیا گیا کہ وحی ِ الٰہی سیرت و کردار کا ضابطہ نہیں،،،،بلکہ ان حضرات کے لیے کھانے پینے کا ضابطہ لے کر نازل ہوا کرتی تھی ؟؟؟ ۔۔۔یعنی وحیِ الٰہی کی وقعت و منزلت کو ذاتی دست برد کی زد میں لاتے ہوئے، اس کے ضابطہِ ہدایت کو، اس کے بلند و بالا اصول و قواعد کو، روحانی زندگی کی نہایت ارفع و اعلیٰ اقدار کو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو، انسانی فلاح و بہبود و نشوونما کے ایک مربوط نظام کو ، ،،،،سبھی کچھ کو ایک،،،، " ضابطہِ ہدایتِ دسترخوانی" ،،،، کے درجے پر گرا دیا گیا۔
بالفرضِ محال، اگر یہاں کھانے ہی کا ذکر ہے تو غو ر فرمائیے کہ پہلی ہی دو چیزیں وہ ہیں جو اذل ہی سے معدودے چند غربت و فلاکت کے مارے ہوئے غیر مہذب جنگلیوں کی استثنائی حالت کے علاوہ تمام عالم میں اور کوئی نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی مردار اور خون۔(یاد رہے کہ وہ چند بھوک کے مارے جنگلی تو یہ دونوں اشیاء آج بھی کھاتے ہیں)۔ اب خود ہی سوچیے کہ جن اشیاء کو ساری مہذب و متمدن دنیا میں کبھی بھی از خود درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا ہو،،،،، جو پہلی نظر سے دیکھنے پر ہی نفرت ، کراہت اور امتلاء پیدا کرتی ہیں،،،، انہیں ایک اجتماعی ہدایت کے ضابطے میں کس لیے فوکس میں لا کر ممنوع کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے؟؟؟؟۔۔۔ وہ بھی اسلام کی ابتدا کے زمانے کے انسانی معاشرے میں جہاں ایسی کوئی بھی خوراک ہرگز مستعمل نہیں تھی ؟۔۔۔۔۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ رسولِ پاک کو وحی بھی عرب کے ایک خوشحال تجارتی معاشرے میں نازل ہوئی تھی جہاں تہذیب و تمدن سے آشنائی میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی تھی۔ شہر مکہ ایک بین الاقوامی تجارتی رُوٹ پر واقع ہونے کے باعث مختلف اقوام و مذاہب پر مشتمل افراد کی آبادی تھی۔جہاں اہلِ کتاب کثیر تعداد میں موجود تھے اور ان سے اجتماعی اور انفرادی میل جول interaction مستقل بنیادوں پر جاری تھا۔ کوئی فاتر العقل ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ وہاں لوگ مردار کھاتے اور خون پیتے تھے،،، اور اس لیے انہیں اس قبیح عادت سے واضح اور حتمی انداز سے منع کیا گیا؟؟؟۔ ۔۔۔۔۔ اور "لحم خنزیر" سے اگر خنزیر نامی جانور کا گوشت ہی مراد لے لیا جائے، جیسا کہ ہمارے یہ بے مغز مترجم زور دیتے ہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ لیا جائے گا کہ خنزیر نامی جانور کے " گوشت کے علاوہ" دیگر اعضاء کا کھانا جائز ہے ۔۔ ۔ ۔ یعنی اس کی چربی، مغز، غدود، ہڈیوں کا شوربہ، سری پائے، وغیرہ ، وغیرہ !!!! ۔۔۔۔آخر یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ،،،،، اگر کوئی جانور ہی ممنوع کرنا تھا، تو اس کے جسمانی اجزاء میں سے صرف ایک ، یعنی گوشت ہی کا ذکر کیوں کیا گیا؟؟؟؟
پھر یہ کہ "اھل لغیر اللہ بہ" سے مراد "کسی جانور کا ذبیحہ" آخر کس دلیل یا لغت کی مدد سے فرض کر لیا گیا؟ " اُھِلَّ " آواز بلند کرنے کو کہا جاتا ہے،،،،کوئی بھی اعلان کھلے عام کرنے کو،،،،اور یہاں در حقیقت ایک دینی اور نظریاتی جدوجہد کے عین درمیان غیر اللہ کے نام کو بلند کرنے سے منع کیا جا رہا ہے،،،،، یعنی ہر اُس عمل اور سوچ سے جو اللہ کے سوا کسی اور نظریہ پر مبنی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔ اور یہ حضرات یہاں گوشت خوری کی علّت سے مجبور ہو کر، اپنی اَوندھی کھوپریوں کے استعمال سے، کسی ذبیحہ کا ذکر لے آتے ہیں ۔ تحریف کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔۔۔۔آخر کیوں؟؟؟؟۔ دراصل "عورت اور گوشت خوری " کیونکہ مَردوں کے غلبے والے انسانی معاشرے میں عیاشی کے تصور سے جڑے دو ایسے شوق ہیں جو موروثی طور پر نسلوں میں منتقل ہوتے چلے آئے ہیں ،پس نہایت ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے قرآن کے احکامات میں ملاوٹ کرنے کی کاروائی میں ، یہ دونوں پُر کشش علّتیں ہر مقام پر داخلِ متن کرنے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔ یہاں گوشت خوری کو زبردستی مقدم بنایا جا رہا ہے.۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دیگر مقامات پر النساء،،،، ازواج،،،، المراۃ،،،،، الزانیۃ ،،،،، المشرکۃ،،،،، مومنات،،،،، محصنات،،،،، ما ملکت ایمانکم،،،،، اہل ِ بیت،،،، ، وغیرہ سب ہی اصطلاحات کو ایک ہی لکڑی سے ہانک کر بالجبر"عورت " بنا دیا گیا ہے۔دراصل قرآن کے مقصد اور مشن میں ہوس کاری کو داخل کر دینا بنو امیہ کی ملوکیتی سازش کا ایک بڑا حصہ تھا۔
تو آپ نے دیکھ لیا کہ روایتی ترجمہ، لفظ "طعام" کے استعمال کے باوجود بھی کس قدر لغو اور غیر منطقی ہے!!! لفظ طعام تو ویسے بھی " کھانے" کے ماخوذ کردہ معنی کے علاوہ دیگر بنیادی معانی کا حامل ہے۔ خود ہی مشاہدہ فرما لیں :-
ط ع م: طعم: مصدر – تطعیم : inoculation, vaccination, grafting; rejuvenation, regeneration by taking in new elements, to inlay or equip (with ivory, wood, etc....)
ھو رجل لا یطعم ؛ He is a man who will not become well disciplined, in whom that which should improve him will not produce an effect,,,and who will not become intelligent.
یعنی انجکشن کے ذریعے جسم میں کچھ داخل کر دینا؛ کچھ چیز اندر پلانٹ یا نصب کر دینا، حیاتِ نو اس طرح عطا ہو جانا کہ کچھ نئے عناصر کا حصول ہو گیا ہو، اور ان کے ذریعے سنوار دیا گیا ہو یا آرائش و زیبائش کر دی گئی ہو ۔ "ھو رجل لا یطعّم" سے مراد وہ آدمی ہے جو کبھی ضابطے کے نیچے آ کر منظم نہیں ہوتا، جس میں وہ تعلیم جو اس کو ترقی عطا کرے ، کوئی اثر نہیں پیدا کرتی،،،جو علم و دانش والا نہیں بن پاتا۔
کیونکہ ہمارے روایت پرستوں کے پاس ہر قرآنی لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے،،،وہ جو انتہائی عامیانہ اور بازاری مفہوم دیتا ہو،،، اور "طعام " سے بھی یہ بے چارے صرف "کھانا" ہی اخذ کرنے کے قابل ہیں،،،،،اس لیے آئیے ان کے گوشت خوری کے جنون اور ہوس کو خیر باد کہتے ہوئے،،،، اب ایک جدید ترین علمی و عقلی ترجمے کا مطالعہ کر لیتے ہیں، جس کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا ۔ آیتِ مبارکہ یہ ہے :-
6/145: قل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ:
"اے نبی انہیں بتا دو کہ جو کچھ میری جانب وحی کیا گیا ہے اس کی رُو سے میں کسی بھی حصولِ علم و دانش کرنے والے (طاعم)کے لیے اس علم و تربیت و قابلیت میں جو وہ حاصل کرتا ہے (یطعموہ)کچھ بھی ممنوع نہیں پاتا سوائے اس کے جو اس کی قوتِ عاقلہ کو زائل کر دینے والا ہو (المیتتہ- - مفرداتِ راغب)، یااس کو ایک بہت ہی غیر شائستہ اور غیر مہذب رویہ کا حامل بنا دے (دما "مسفوحا")، یا وہ کسی مکار اور بدطینت انسان (خنزیر) کے ساتھ قربت کا تعلق استوارکرے (لحم)، کیونکہ یہ ایک ایسی ناپاک اور غیر اخلاقی روش (رجس او فسق)ہے جس کے ذریعےغیر الٰہی نظریات کی آواز بلند ہوتی ہے ۔ البتہ جس سے ایسا کچھ اضطراری حالت میں سرزد ہو جائے، بغاوت اور سرکشی کی بنا پر نہ ہو، تو بیشک آپ کا پروردگار ایسی صورت میں سامانِ تحفظ اور رحمت عطا فرما دیتا ہے۔
کھانے پینے کے شوقین حضرات نے قرآن کو اپنے اس شوق میں ملوث کرنے کے لیے بہت زور لگایا، اور اس کوشش میں ایک اور قرآنی متن پیش کیا گیا : ۔۔۔۔ 5/75: "کانا یاکلان الطعام"،،،، ۔ فرمائش کی گئی کہ اس کا ادبی اور استعاراتی ترجمہ کیسے کریں گے۔ یہاں سے تو "اکل" اور "طعام" کو صرف "کھانا" ہی ثابت کیا جا سکے گا۔ بہر حال ثابت نہیں کیا جا سکا،،،،،، کیونکہ یہی فقرہ بازاری زبان کی جگہ علمی و ادبی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا جائیگا ،،،اور لغات اور زبان دانی کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا :- "وہ دونوں علم و دانش حاصل کیا کرتے تھے "!۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ کہنا تو از حد حماقت پر مبنی ہے کہ وہ "کھانا کھایا کرتے تھے"، ،،،،کیونکہ ہر انسان یا بشر کھانا کھانے کے لیے طبعی طور پر اذل سے اپنی جبلی ضرورت کے تحت مجبور ہے۔ اُس کی حیوانی زندگی اس عمل سے جڑی ہے۔
درست اور مستند ترجمہ آپ کے گوش گذار کر دیا گیا ہے ۔ اب جو چاہے قرآنی احکامات کے باطن سے زبردستی کھانے پینے کا معنی اخذ کرتا پھرے کہ آج یہی ہماری حیوانی زندگی کا،،،،، خود ہمارا ہی متعین کردہ،،،،، نصب العین ہے،،،، اور جو چاہے اس الہامی ماخذ سے تحصیلِ علم کی اعلیٰ اقدار کی وہ ہدایت حاصل کرلے جنہیں قرآن میں درحقیقت ہماری روحانی یا شعوری ذات کے ارتقاء کے لیے مقصود و مطلوب قرار دیا گیا ہے۔یہ اس لیے کہ انسان کی شعوری ذات کا ارتقاء اُس کے حصول ِ علم اور مسلسل افزائشِ علم سے ہی ہوتا ہے۔ یہی شعوری ارتقاء ہم سب انسانوں کی آخرت کا سامان ہے۔ لیکن ہر ساتھی اپنی تعلیم بقدر اپنے ظرف کے حاصل کیاکرتا ہے، نیز بقدر اپنی توفیق کے، اور اپنی شعوری سطح کے۔ اس حقیقت کا اثبات بہر حال اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ ہر انسان سوچ و فکر میں دوسرے کی مثل نہیں ہوتا کیونکہ ہر انسان کی ارتقائی سطح مختلف و منفرد اور اُسی کی ذات کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔اسی لیے یہ عاجز کبھی اپنی تحریر کے ساتھ اتفاقِ رائے پر اصرار نہیں کرتا۔
قرآن البتہ ایک کھانے پینے کا ضابطہ نہیں بلکہ خالق کے اپنے الفاظ میں ایک " دائمی ضابطہِ کردار" (Hudan۔ ھدی")ہے جس کی تعلیم انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے رہن سہن، بود و باش اور خورد و نوش کا خود اپنی راست سوچ کی مدد سے، اپنی مرضی اور اختیار اور اپنے علم و تجربےکی رُو سے فیصلہ کر سکے ۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی کھانے کو حلال اور حرام قرار نہیں دیتا ۔ جہاں کہیں "خمر" کا ذکر آیا ہے ، جسے تراجم میں شراب بنا دیا گیا ہے، وہاں بھی اس کا مطلب کوئی ڈرنک نہیں ہے۔ بلکہ طاقت، اقتدار یا مال و دولت کا نشہ ہے۔ قرآن میں کھانے پینے کی احکامات کا آنا یوں بھی غیر منطقی ہے کیونکہ انسان جب سے اس زمین پر پیدا ہوا ہے، کسی تلقین یا ہدایت کے بغیر کھا اور پی رہا ہے کیونکہ یہ اس کے طبعی جسم کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کے لیے اسے کسی کی تاکید یا ہدایت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔وہ نقصان دہ چیزیں خود ہی ترک کر دیتا ہے۔ صدیوں کا تجربہ اور روز افزوں افزائش پذیر علم اُس کی راہنمائی کرتا ہے۔
اب درج بالا مضمون کے بعد اس کے ذیل میں آنے والی آیت کا ترجمہ بھی ضروری ہو جاتا ہے، ورنہ فورا کہا جائیگا کہ اس کا بھی ترجمہ کریں کیونکہ یہاں تو باقاعدہ نام لے کر گائے اور بھیڑ بکریاں اور ان کی "چربی" کے کھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں بھی جانور کھانے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
6/146: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿١٤٦﴾
تمام جدید و قدیم روایتی تراجم:
"اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو اُن کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی۔ اور یہ جو کچھ ہم کہ رہےہیں، بالکل سچ کہ رہے ہیں۔
بحث :-
یہودیوں کے بارے میں ذکر ہے ،،،اور فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی "سرکشی کی سزا" ہم نے یہ دی کہ ۔۔۔۔۔ان پر "ناخنوں والے جانور" ۔۔۔۔اور "گائے اور بکری کی چربی"۔۔۔ حرام کر دی !!!! ۔۔ اچھا، پھر یہ ہوا کہ " کچھ چربی" حرام کر دی،،،،،، اور "کچھ چربی" حلال بھی کر دی ؟؟؟؟ ۔۔ آفرین ہے صاحب،،، کیا سزا ہے ! غیر مشروط داد دینی پڑتی ہے ہمارے ان زیرکوں اور مدبروں کی "ذہنی صلاحیتوں کی"!!!۔۔۔۔ کیا یہ کسی بھی عقل و دانش کے یا کسی بھی علم و ادب و لسانیات کے معیار پر "سزا" کہلا سکتی ہے ؟؟؟۔۔۔ یقینی طور پر ،،، نہیں۔ ۔۔۔ یہ تو عقل و دانش کی موت ضرور کہلا سکتی ہے! ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا ناخنوں والے جانوروں کی لسٹ بنا لی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ اس میں نہ تو بکری، بھیڑ، دنبہ وغیرہ آتا ہے اور نہ ہی گائے بھینس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی دونوں قسم کے جانور عموما" کھائے جاتے ہیں !۔۔۔۔۔ تو پھر سزا کیا ہوئی؟؟؟ اگر مقصد گوشت خوری بند کرنا تھا،،،تو وہ تو ہرگز بھی بند نہ کی جا سکی!!!۔۔ اگر کچھ آپ کی عقل میں آتا ہے تو اس عاجز کے علم میں بھی اضافہ کریں !۔۔۔میری ناقص عقل میں تو یہ سزا نہیں ،،،،ایک مذاق،،،، ہے ۔ آپ اتفاق کریں گے کہ ،،،،،ترجمہ کرنے والوں نے مسلمان کا ، قرآن کا ، اور خود اپنا مذاق بنایا ہے ۔ اور ایسے ترجمے کو بند آنکھوں سے ماننے والوں، اور اسے آگے بڑھانے والوں نے بھی اپنا ہی مذاق بنایا ہے ۔سوال وہی دیرینہ ہے کہ کیا یہ بے سر و پیر ترجمہ آپ باہر کی دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟؟؟ ۔۔اور اگر کرتے ہیں تو کیا دانشمند اور بال کی کھال نکالنے والی دنیا کو اس کی وجہ سے آپ کی تضحیک اُڑانے سے باز رکھ سکتے ہیں؟؟؟
آپ اتفاق کریں گے کہ یہ کسی سزا کا ضابطہ نہیں بلکہ کسی قصائی کو ذبح کے فن کی باریکیاں سکھائی جا رہی ہیں۔ "پیٹھ سے لگی ہوئی چربی"،،،،"آنتوں سے لگی ہوئی چربی"،،،،،"ہڈی سے لگی رہ جانے والی چربی"؟؟؟ کسی عطائی یا سنیاسی کے جنسی طاقت کے نسخوں میں ہی ایسی نادر و نایاب چیزوں کا دستیاب کرنا اور استعمال اتنی باریک تفصیل سے بتایا جا سکتا ہے !!! اس ناچیز کی رائے میں تو اللہ کی کتاب سے اس پست سطح اور اس انداز کا استنباط کرنا ، اس کی حرمت و وقعت پر اور اس کے بلند مقام پر حملے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔ ایسے تراجم کرنے والوں کی طفلانہ ذہنیت پر استغفار پڑھنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لیے عفو اور رحمت طلب کی جانی چاہیئے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل پر دراصل کیا کیا چیز سرکشی کی سزا کے طور پر حرام یا ممنوع کر دی گئی تھی۔
جدیدترین قرینِ عقل ترجمہ :-
6/146: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿١٤٦﴾
"اور اہلِ یہود پر ہم نے ہر وہ چیز ممنوع کر دی تھی جو "ذی ظفر" تھی ،،،، یعنی جو فائدے، ملکیت، غلبے یا فتح کے حصول کی حامل (ذی ظفر) تھی۔(یعنی بالفاظِ دیگر، مکمل سکوت، عاجزی اور انکساری اور سادگی کی روش نافذ کر دی گئی تھی) ۔ اور مال و اسباب کی فراوانی (و البَقَرِ) پر اور مشکلات کے بغیر حاصل کیے گئے مالِ غنیمت اور بڑے ریوڑوں (و الغنم) کی نسبت سے ہم نے ان پر ان دونوں املاک پر بے جا غرور، اکڑ اور تکبر کرنا (شحومھما) بھی حرام کر دیا تھا ،،،سوائے اُس ضروری تقاضے کے جو ان دونوں املاک کے منظرِ عام پر ظاہر ہونے سے پیدا ہو جا یا کرتا ہے(ما حملت ظہورھما) ،،،،، یا ان میں بڑھوتری اور اضافہ کے وقوع پذیر ہونے (الحوایا) کے دوران سامنے آجاتا ہے ، یا جو بھی دیگر انداز یا طریقہ کار اس بارے میں کسی فیصلے، ارادے کے ساتھ (بعظم) باہم اشتراک سے طے کر لیا گیا ہو (اختلط)۔ یہ تھا جو ہم نے ان کی سرکشی اور نافرمانی کے بدلے میں اُن پر نافذ کیا۔ اور ہم لازمی طور پر اپنی وعید کو پورا کرتے ہیں۔"
اور اب تمام مستند معانی ملاحظہ فرما لیں تاکہ اِس جانب سے کسی ذاتی ملاوٹ کا شائبہ بھی باقی نہ رہے۔نہ ہی قرآنی الفاظ سے ایک انچ بھی اِدھر یا اُدھر ہونے کا شبہ باقی رہے۔
Za-Fa-Raظفر: = to claw or scratch with a nail. zafira - gain possession, attain, overcome/victorious/succeed. zufur/thufur - claws/talon/nails/clutch. azfara - give victory.
Ba-Qaf-Ra بقر؛ البقر : =Slit, ripped, split cut or divided lengthwise, Opening, laying open, widening; Revealing (e.g. story, or an animal's insides)
Inquiring to the utmost after sciences or knowledge
Being astonished, amazed, stupefied at seeing something or confounded, confused, perplexed, tired or fatigued, weary or jaded
Ox, bull and cow (bovine genus) both domesticated and wild
A species of grape that is large, black and round and a species of plum in Palestine; Owner or possessor of oxen/bulls/cows; A strong staff/stick (e.g. for driving herds);
A sedition, discord or dissention that severs society, corrupts religion and separates men, or something wide spreading/reaching and great
Abundance of wealth/commodities
Gh-Nun-Miim غنم؛ الغنم: = obtained, got, took (usually in reference to spoils or booties); acquisition without difficulties, succeed without trouble, regaining, sheep or goats collected together, numerous flock.
Shiin-Ha-Miim شحم؛ شحوم: = to live or feed with fat, fats/salts/pulp, fleshy part.بے جا غرور، جھوٹی شان، اکڑ، اکڑفوں، تکبر، ہیکڑی، دھاندھلی shuhum n.m. (pl. of shahm) 6:146,, LL, V4, p: 237, 238 ## http://ejtaal.net/aa/#q=shHM
Za-ha-Ra ظہر: = to appear, become distinct/clear/open/manifest, come out, ascend/mount, get the better of, know, distinguish, be obvious, go forth, enter the noon, neglect, have the upper hand over, wound on the back.
zahara - to help/back/support in the sense of collaboration.
Ha-Waw-Ya (Ha-Alif-Ya) حوی؛ حوایا: = To be or become dark green or dark red or brown or black and dried up by reason of oldness. To collect/bring/draw/gather a thing together, grasp a thing, get or gain possession of a thing, take possession of a thing, hold a thing within ones grasp or possession, possess a thing, comprise or comprehend or contain something, to turn a thing around, to wind a thing, assume a round or circular form, to coil, to make a small watering trough or tank for ones camels, to have or assume a roundness or circularity [or the state of being coiled].
ahwa n.m. comp. 87:5; hawaya n.f. pl. 6:146: Lane's Lexicon, Volume 2, page: 314, 315 ## http://ejtaal.net/aa/#q=7wy
Kh-Lam-Tay خلط؛ اختلط: = To mix/intermingle/incorporate/blend, put together with another thing, confuse/confound/disorder, to perplex or disturb, to have intercourse (i.e. a man with his wife, or with a woman), to penetrate into [ TA - khalthu ash-shaybu (the arrow penetrated into him) ], to infect or pervade, associate/converse, become intimate with, enter into a confederacy/league/compact/covenant, good natured/disposition.
Ayn-Zay-Miim عظم: = to resolve, determine, decide, propose, carry out a resolution, set one's heart upon, fixed determination.
- Hits: 2572
اورنگزیب یوسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر27
Thematic Translation Series Installment No.27
قصہ حضرت نوح اور اُنکی کشتی کا، طوفانِ نوح کے تناظر میں
The Myth of Noah’s Ark and The Great Deluge
حضرت یونس علیہ السلام کی مِشنری ( Missionary) جدوجہد کی کہانی،،،، حضرت ِ موسیٰ کے تربیتی سفروں کی سرگذشت، ،،،ذی القرنین نامی بادشاہ (The Two Horned One) کے احوال ،،،، یاجوج و ماجوج (Gog and Magog) کے بیانیے ،،،،اور غار میں سونے والے اصحابِ کہف و الرقیم (The Seven Sleepers) کی تاریخ کے تناظر میں خالص کردار سازی کے سبق پر مبنی قرآنی حقائق کو ملوکیتی سازش کے تحت جس طرح توڑ مروڑ کر دیومالائی انداز (Mythology) میں پیش کیا گیا ہے، اُ سی قسم کی ایک اور قدیمی تمثیل ۔۔۔ حضرت نوح کا معجزاتی قصہ ۔۔۔ بھی ہے, جسے ہماری بد دیانت و بے ضمیر مذہبی پیشوائیت ،عوام کی معصوم اکثریت کو گمراہ اور ذہنی پسماندگی میں مبتلا رکھنے کے لیے اُسی قدیمی طلسماتی انداز میں قائم و دائم رکھتی چلی آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ مذہبی پیشوائیت نے دنیا میں اذل سے قائم استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے ایک اہم کل پرزے (یعنی tool, instrument) کا رول ادا کرنا اپنے ذمہ لے رکھا ہے جس کے ذریعے عوام کے اذہان پر اُن کا اختیار و اقتدار مسلط رہتا ہے۔
اِس قصہ میں بھی ایک مفروضہ طوفانِ عظیم کی تحیر خیز داستان گھڑ کر بیان کی گئی ہے جس کی زد میں لا کر پوری نسلِ انسانی کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نسلِ انسانی اس قدر بدکردار اورگمراہ ہو گئی تھی، اور خالق کے قبضہِ قدرت سے اس قدر باہر نکل چکی تھی، کہ خالق نے اس کا فنا کیا جانا ضروری سمجھا ۔ حیاتِ ارضی کی تخلیق کا عمل از سرِ نو شروع کرنے کے لیے حضرت نوح کے خاندان اور ان کے مومن ساتھیوں کی ایک مختصر سی جماعت، اور زمین پر موجود تمام چرند ، پرند اور وحشی جانوروں کی نسلوں سے "دو دو جوڑے" ، ایک بڑی کشتی پر محفوظ کر لیے گئے تھے جو حضرت نوح نے طوفان کےآنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تحت خود اپنے ہاتھوں بنائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔! معاذ اللہ !!! گویا کہ اللہ کا یہ جلیل القدر نبی ایک انتہائی شعور یافتہ نظریاتی دانشور، عظیم مصلح اور انسانوں کا لیڈر اور جرنیل نہیں، بلکہ ایک لکڑی کا کام کرنے والا کشتی ساز تھا ؟؟؟ ۔۔۔۔ اور گویا کہ اللہ کے رسول/نبی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تحت سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں سے نبرد آزما ہو کر ایک مثالی انسانی معاشرہ تشکیل نہیں دیتے تھے، بلکہ اُس کے برعکس کشتیاں یا بحری جہاز بنا کر راہِ فرار اختیار کرتے تھے اور دنیا بھر سے جانوروں اور چرند پرند کی تمام نسلوں کے سیمپل (specimen) اکٹھے کرتے پھرتے تھے، کیونکہ اللہ نے اُن کو فنا کے گھاٹ اُتار دینا تھا؟؟؟۔۔۔۔ اور عقل و دانش نے اپنی موت آپ مر جانا تھا !!!
اور پھر اِس متوارث چلی آ رہی غیر منطقی کہانی میں یہ امر بھی قابلِ غور تھا کہ اگر تمام بنی نوع انسان کو بدکرداری اور گمراہی کی بنا پر فنا کے گھاٹ اُتارنا ہی مقصود تھا،،،، تو ، ذرا سوچیں ، کہ بے چارے غریب جانوروں اور چرند پرند کی معصوم نسلوں کا کیا قصور تھا کہ اُن کا فنا کیا جانا بھی ضروری سمجھا گیا ؟؟؟؟ کیا عقل و خرد کو فارغ کرتے ہوئے، انسانوں کے ساتھ ساتھ اُن سب حیوانات کو بھی ، ، "گمراہ ، نا فرمان اور بدکردار" ٹھہرا دیا گیا تھا؟؟؟ ۔۔۔یا پھر ہمارے مفسرین کسی گھمبیر ذہنی یا نفسیاتی خلل کا شکار تھے ؟؟؟۔۔۔۔قصہ مختصر ، ،،،،پسماندہ اسلامی معاشرے کو یہ باور کرایا گیا کہ سیلابِ عظیم کے اُتر جانے کے بعد کشتی کے ذریعے بچ جانے والے حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے کرّہ ارض پر انسانی اور حیوانی حیاتِ نو کا عمل ایک بار پھر سےجاری کیا گیا!!!! یا کم از کم بھی،،،، یہ وادیِ دجلہ و فرات میں برپا ہونے والا ایک بڑا سیلابِ ضرور تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُس علاقے میں آباد قوموں کو صفحہِ ہستی سے نابود کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ سائنس، تواریخ ، بشریات (Anthropology) اور آثاریات (Archaeology) کے علوم میں بھرپور تحقیقات کے بعد بھی اس واقعہ کی کوئی توجیہ ، توثیق، ثبوت، آثار، نشانی سامنے نہیں آ سکی۔پَس یہ سارا افسانہ (Myth) من گھڑت اختراع ثابت ہو چکا ہے۔
ہمارے مذہبی ورثے میں ہمیں حاصل ہونے والی تمام قدیم و جدید تفاسیر میں یہی، یا اس سے ملتا جُلتا ،منطق سے عاری بیانیہ (narration)آپ کو نظر آئیگا ، جو ایک نہایت قرینِ عقل اسلای ڈاکٹرائن (Doctrine) کے خلاف ایک ہمہ گیر ، ہمہ جہت اور مربوط منصوبہ بندی کی کھلی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ "مقدس کتابوں" میں آپ کو اس سے بھی آگے بڑھ کر اُن جانوروں کی ""تفاصیل " بھی ملیں گی جو حضرت نوح کی کشتی میں پناہ گزین کر لیے گئے تھے ۔ نہایت باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ہمارے "قابل متقدمین" نے اُس مفروضہ غیر موجود کشتی کا طول و عرض اور گہرائی تک ماپنے کی "انتہائی محققانہ" کاوشیں کی ہیں، جن کی تفاصیل مختلف تفاسیر، روایات اور قصص میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے اِن قابل سابقین کی تمام "گپ بازیاں" اُسی سرکاری سطح کی منصوبہ بندی کے تحت، ہمیشہ اِسی قسم کی احمقانہ قیاس آرائیوں پر محمول رہی ہیں،،، مثلا" جیسے کہ جنت میں حوضِ کوثر کا مفروضہ، جس کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی پر تخیل کی بے تُکی پرواز سے کام لیتے ہوئے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔اور جیسے جبرئیل نامی مفروضہ فرشتے کے وجود کا طول و عرض اور اُس کے پروں کا سائز نہایت شرح و بسط کے ساتھ ماپا گیا، گویا کہ وہ ایک ماڈل کی مانند سامنے کھڑا ہو۔ ۔ ۔ اور جیسے کہ پہاڑ سے اچانک نکل آنے والی تخیلاتی اونٹنی کے اعضاء کی پیمائش تک پیش کر دی گئی۔۔۔۔ حد اور بَس یہ کہ جانوروں کے فُضلے کو نبٹانے کے لیے اُس بڑی کشتی میں کہاں کہاں کھڑکیاں فٹ کی گئی تھیں، اور اُس کے کتنے طبق بنائے گئے تھے، اور کس کس طبق میں کون کون سی نوع کو رکھا گیا تھا،،،،یہ تمام قیاس آرائیاں گھر بیٹھ کر اور عقل کو بالائے طاق رکھ کر ، تخیل کی اُسی بے تُکی پرواز کے ذریعے تفصیل کے ساتھ گھڑی گئیں جو ہمارے اِن سابقہ اماموں (مولویوں) اور ان کی مذہبی تحریروں کا تخصّص اور طُرہِ امتیازہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ ان تمام دیومالائی کہانیوں کا ماخذ وہ عیسائی اور یہودی مذہبی لٹریچر ہے جسے ہمارے یہی مسلمان سکالرز نہایت شدت سے محرف یا کرپٹ قرار دے کر مسترد کرتے آئے ہیں ۔ قدیم اور جدید بائبل کی یہ وہی بظاہر مسترد کی گئی ، ناقابلِ توجہ قرار دی گئی، تفاسیر ہیں جو من و عن مستعار لے کر، یا سرقہ بالجبر کرتے ہوئے، قرآن کی تفاسیر میں مندرج کر دی گئی ہیں اور اس ضمن میں علم و دانش، ادبی اصول و اخلاقیات اور ضمیر کی خلش کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں انہی تفاسیر اور تشریحات کی اندھی تقلید میں جو بھی اُردو یا انگریزی تراجم آج تک منظرِ عام پر لائے گئے ہیں ان میں بھی عقل و علم و فطری قوانین کی توہین کرتے ہوئے، تحقیقی عمل سے جان بچاتے ہوئے، مکّھی پر مکّھی مارنے کا محاورہ سچا ثابت کر دیا گیا ہے۔ اور یہی گھسی پٹی احمقانہ تفصیلات کسی بھی وثاقت یا سند یا علمی تحقیق کے بغیر من و عن درج کر دی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں آپ انگلش تراجم میں دیکھ سکتے ہیں :- ------ علامہ اسد، اے جے آربری، پکتھال، احمد علی، شاکر، یوسف علی، وحیدالدین خان، صحیح انٹرنیشنل، وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز اردو تراجم میں بھی ایک نظر ضرور ان مترجمین کی کاوشوں پر ڈال لیں تو بہتر ہوگا :- ---- مثلا"،،،،ابو الاعلیٰ مودودی، احمد رضا خان، جالندہری، طاہر القادری، محمد جونا گڑھی، محمد حسین نجفی، اور خود ہمارے اپنے قرآنی سوچ رکھنے والےاساتذہِ کرام ، وغیرہ ، وغیرہ۔
ان سب ہی سکالروں نے ایک مفروضہ سیلابِ عظیم کا نظریہ گھڑا، یا سابقین کی اندھی تقلید کی،،، اور عقل استعمال کیے بغیر ایک عدد عظیم الجثہ کشتی حضرت نوح کے ہاتھوں تعمیر کروائی، اور تمام ارضی جانوروں اور پرندوں کے دو دو جوڑے اُس کشتی میں جمع کروا دیے۔ کسی بھی محترم مترجم نے یہ سوچنے کی زحمت ہرگز گوارا نہ کی کہ ڈھائی ہزار سے تین ہزار پانچ سو قبل مسیح کی تہذیب میں تمام کرّہ ارض سے ہر نسل کا جانور پکڑ کر لانا کیسے ممکن ہوا ؟؟؟ ۔۔کیونکہ جانوروں کی نسلوں کی تعداد تو دسیوں لاکھ(Millions) میں ہے ۔اور وہ تمام بر اعظموں کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے بقول، حضرت نوح کے مومن ساتھیوں کی تعداد ہی قلیل تھی ۔ پَس وہ پوری دنیا میں پھیل کر جانور کیسے جمع کر سکتے تھے؟؟؟؟۔۔۔۔ وہ کیسی کشتی تھی جس میں اتنی بڑی تعداد کو رکھ لیا گیا ؟؟؟۔۔۔ پھر ان کی خوراک کے مختلف النوع ذخائر بھی اِسی کشتی میں بھرے گئے۔ ۔۔۔جو خدا معلوم کیسےحاصل کیے گئے؟ ۔۔۔۔۔ کیا واقعی یہ کوئی کشتی تھی،،،،یا دراصل یہ بڑی کشتی یا بحری جہاز کسی بڑی آبادی، بستی یا معاشرے کا استعارہ تھا اور اُسے اسی ضمن میں "فُلک"سے تعبیر کیا گیا تھا ؟ ۔۔۔۔ کیا متعلقہ قرآنی نصوص میں کہیں بھی اشارتاّ" یا کنایتا" کسی ۔۔ " جانور"۔۔۔ کا، یا "دو دوکے جوڑے" کا ۔۔۔ذکر کیا گیا ؟؟؟ ۔۔۔ یقینا" ہرگز نہیں۔۔۔ دو جوڑوں کا اگر ذکر کیا گیا ہوتا ، تو کم از کم اُس کے لیے الفاظ "زوجان"، "اثنان" یا "اثنتان" کا استعمال کیا جاتا !!! اثنین نہیں !!!۔۔۔اور۔۔۔۔کیا کوہِ جودی پر، جہاں یہ کشتی مبینہ طور پر سیلابِ عظیم میں جا کر ٹھہری ، طوفان سے قبل ہی پا پیادہ سفر کر کے پناہ لے لینا ممکن نہ تھا ؟؟؟ ، بغیر کشتی تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس کیے؟ ۔۔۔آخر کشتی ہی کیوں؟؟؟۔۔۔ جبکہ یہ واضح ہے کہ یہ مفروضہ کوہِ جودی ، جہاں کشتی کا لنگر انداز ہونا بیان کیا جاتا ہے، اُسی خطے میں واقع بتایا جاتا ہے جہاں حضرت نوح کی قوم سکونت پذیر تھی اور اُس کی بلندیوں پر یوں ہی چڑھ جانا کوئی لاحاصل مہم نہ تھی !!!! ۔۔ پھر اِس غیر منطقی کہانی میں ہمارے سامنے مسئلہ یہ بھی ہے کہ قرآن تو کسی "کوہ" یا "جبلِ جودی" کا ذکر ہی نہیں کرتا ؟؟؟ وہ تو صرف "الجودی" کہتا ہے جس کا معنی کوئی پہاڑ نہیں بلکہ کچھ اور ہے؟ ۔۔۔۔ اور پھر آخر قرآن کے کس لفظ سے ایک سیلابِ عظیم کا معنی گھڑا گیا ؟؟؟،،،،،، کیونکہ وہاں تو ہمیں صرف ایک ترکیب، یعنی ۔۔۔۔"فار التنّور"۔۔۔ مندرج نظر آتی ہے ؟؟؟ اور جس کا معنی کسی بھی پیرایے میں "سیلابِ عظیم" نہیں لیا جا سکتا ؟؟؟ نیز آیت 29/14 میں ایک لفظ "طوفان" ضرور استعمال کیا گیا ہے،،،،جس سے آیت کے سیاق و سباق میں ایک گھیر لینے والی، شدّت رکھنے والی ابتلاء یا زوال کی صورتِ حال مراد لی گئی ہے ! لفظ طوفان کا مادہ ۔۔۔ط و ف ۔۔۔ہے جس سے طافَ، طائف، طواف، وغیرہ مشتق ہوتے ہیں جن سے مراد، چلنا، گھومنا، گھیراؤ کرنا، گول چکر لگانا، احاطہ کرنا، نگرانی کرنا وغیرہ لیے جاتے ہیں۔
البتہ کیونکہ آیات کے تناظر میں ماء ،،، الماء ،،،، مائکِ ،،،جیسے الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں سے "پانی" کا استنباط کر لینا نہایت آسان کام ہے ( کیونکہ ہمارے مذہبی سکالروں یعنی ا ماموں اور مولویوں کے پاس ہر قرآنی لفظ کا ایک ہی آسان اور عامیانہ معنی ہوا کرتا ہے)،،،،، اس لیے یہاں " ماء " کے معنی کی پوری وسعت قارئین کے گوش گذار کر دی جاتی ہے تاکہ ذہن کشادگی پائے اور آگے آنیوالا علمی و عقلی ترجمہ بآسانی سندِ ِ قبولیت حاصل کر لے:-؎
ماء۔۔۔الماء
"""" مادہ م و ہ ۔ pl. میاہ؛ ma ماء , water; liquid, fluid; juice کالماء الجاری: fluently, smoothly, like clockwork; ماء الشباب: freshness of youth, prime of youth; ماء عذب: fresh water, potable water, ماء الوجہ: alwajh: honor, decency, modesty, self-respect; اراق ماء وجحہ:: to sacrifice one’s honor, abase; to dishonor, disgrace ۔ سیال شے، جوس، پانی، مائع؛ موہ الحق: حق پر باطل کا پردہ ڈالنا ۔ حقائق پر پردہ ڈالنا۔ تموّہ: ملمع ہو جانا ، خوش نما بن جانا۔ ماء الوجہ: چہرہ کی رونق، آب و تاب۔عزت، وقار، شائستگی، ماءُ الشباب: جوانی کی بہار، تروتازگی، رونق؛ (قاموس الوحید وغیرہ)۔۔۔۔۔۔ نیز وحیِ الٰہی کو یا احکاماتِ الٰہیہ کو بھی استعاراتی انداز میں بھی "ماء یا الماء" کہا گیا ہے جیسے کہ آیت 8/11 میں جہاں یہی "آسمان سے نازل ہونے والا ماء" کردار کی پاکیزگی، شیطان کے خوف سے نجات، دلوں میں ربط اور ثابت قدمی پیدا کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: "وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾ پَس یاد رہے کہ ماء کا ایک مستند معنی بلندیوں سے اُترنے والی وحی یا احکاماتِ الٰہیہ بھی ہیں۔ نیز یہ کہ ہر جگہ لفظی یا استعاراتی یا محاوراتی معنی سیاق و سباق کی مطابقت اور معانی کی موزونیت کی رُو سے استعمال ہوتا ہے۔ """"
کیونکہ اِس کہانی کا جھوٹ تمام جدید متعلقہ علوم سے ثابت ہے، اس لیے آئیے اب قرآن کی نصوصِ صحیحہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ دیو مالائی کہانی بھی ملوکیت کے بانیوں کی بدنیتی اور سازشی سوچ کے بطن سے اُبھری ،اور قرآن کی تفاسیر اور تراجم میں اُس کی حقیقی تعبیرات کو مسخ کرنے کے مقصد کے تحت شامل کروائی گئی تھی ۔ قرآنی متن کی حقیقت تو ہمیشہ بہت گہری اور دُور رسَ ہوا کرتی ہے کیونکہ یہ اِس پوری کائنات کے خالق و مالک۔۔۔ یعنی ایک انتہائے شعور، یا، شعورِ مطلق کی مالک ذات۔۔۔ کا اعلیٰ ترین شعوری اقدار پر مبنی کلام ہے۔جس میں طفلانہ کہانیوں، توہم پرستیوں اور مبہم قیاس آرائیوں کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ حقیقت کیا تھی؟؟؟۔۔۔ وہ ایک علمی ، عقلی ، اور جدید ترین ، مستندشعوری ترجمے سے آپ کے سامنے آشکار کر دی جائیگی۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے حضرت نوح سے متعلقہ آیات سے صرف وہی جزئیات حوالہ زد کی گئی ہیں جہاں معانی میں کرپشن کر تے ہوئےواقعات کو دیومالائی رنگ دے دیا گیا ہے ۔
آیات 7/59 سے لے کر 7/64 تک :-
ان تمام آیات میں حضرت نوح کے مشن کا ذکر ہے ۔ لیکن ہمارے زیرِ نظر صرف آیت 7/ 64 ہے جو ہمارے زیرِ نظر موضوع سے متعلق ہے :-
فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ ﴿٦٤﴾
"پس انہوں نے نوح کے پیغام کو جھٹلا دیا۔ اس لیے ہم نے اُسے اور جو اس کی قائم کردہ جماعت یامعاشرے میں (فِي الْفُلْكِ) اس کے ہمراہی تھے، انہیں بچا لیا /کامیاب کر دیا۔ اور جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا انہیں ذلت کی پستیوں میں غرق کر دیا(وَأَغْرَقْنَا)۔ بیشک وہ عقل کی اندھی قوم تھی "۔
(یاد رہے کہ "فُلک" اور "سفینہ" ایک متحرک ، گامزن، زندگی سے بھرپور – Vibrant-- اور ایک مرکز کے گرد حرکت کرتا ہوا۔۔۔ revolving around a center۔۔۔۔ آبادی یا معاشرے کا استعارہ ہے ۔حضرت یونس کے ضمن میں بھی فُلک اور فلک المشحون کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ ان کا عامیانہ معنی جہاز یا کشتی ہے اور ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں کو صرف عامیانہ اور بازاری زبان سے ہی غرض ہوتی ہے)
آیات 11/25 سے لے کر 11/48 :-
ان تمام آیات میں بھی حضرت نوح کی مشن کی تفصیلات مندرج ہیں۔ لیکن ہمارے زیر نظر کشتی اور طوفان کا معاملہ ہے ۔ اس لیے ہم آیات 11/36 سے اپنا تحقیقی ترجمہ شروع کرتے ہیں۔
وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿٣٨﴾ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٣٩﴾
""اور نوح کو وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔ اس لیے تم ان کے طرزِ عمل پر مایوس نہ ہو۔ بلکہ ہماری ہدایات کے مطابق(وَوَحْيِنَا) ہمارے مقاصد کی تکمیل کا ساتھ دینے والا(بِأَعْيُنِنَا) ایک خاص معاشرہ /جماعت تشکیل دو (وَاصْنَعِ الْفُلْكَ) اور حق کا ساتھ نہ دینے والوں کے بارے میں اب ہم سے کوئی بات نہ کرو۔ وہ لازمی طور پر پستیوں میں غرق ہو جائیں گے (مُّغْرَقُونَ)۔ اور وہ خاص معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہو گئے، اور اس دوران ان کی قوم کے بڑوں میں سے جس نے بھی اُن کی کوششوں کو دیکھا، اس نے اُن کا تمسخر اُڑایا ۔ اس پر حضرت نوح کہتے تھے کہ اگر تم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہو تو جواب میں ہم بھی اُسی طرح تمہارا تمسخر اُڑائیں گے جس طرح آج تم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہو۔ اور تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و خوار کر دے، ،،،ایسا عذاب جو اُس پر ہمیشہ قائم رہنے والا ہو۔ "
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠﴾ وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٤١﴾ وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ
" یہ سلسلہ جاری رہا، یہانتک کہ ہمارا حکم صادر ہو گیا (جَاءَ أَمْرُنَا) اور بھٹی اُبلنی شروع ہو گئی (وَفَارَ التَّنُّورُ) ۔ یعنی فیصلے کا وقت آ گیا ۔ ہم نے ہدایت دی کہ اس منفرد کمیونٹی میں اپنے تمام قابلِ تعریف ساتھیوں (كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ) کو شامل کرو، اور اپنی قوم کے اُن لوگوں کو چھوڑ کر جن پر تباہی کا حکم آ چکا ہے ، باقی سب کو بھی شامل کرو جو ایمان لا چکے ہیں۔ اگرچہ کہ اُس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ قلیل تعداد میں تھے۔ پس اُس نے سب سے کہا کہ اللہ کی اُن صفات کو ساتھ لیتے ہوئے(بِسْمِ اللَّـهِ) اِس معاشرے/جماعت میں داخل ہو جاؤ(ارْكَبُوا فِيهَا) جن کی اساس پر یہ چل رہا ہے اور مضبوطی سے قائم ہے(مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا )۔بیشک میرا رب تحفظ دینے اور سامان پرورش عطا کرنے والا ہے۔ پس وہ معاشرہ/جماعت اُن لوگوں کے ساتھ ایسے ہنگامہ خیز تصادم کی کیفیت میں (فِي مَوْجٍ )چلتی رہی (تَجْرِي)جیسے پہاڑوں کا سامنا کیا جاتا ہے(كَالْجِبَالِ)۔"
وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾ قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ ﴿٤٣﴾ وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٤٤﴾
" دریں اثنا، نوح نے اپنےاُس بیٹے کو پکارا جو اُن سے علیحدگی کی کیفیت میں تھا (فِي مَعْزِلٍ) اور کہا اے میرے بیٹے ہماری جماعت کے ساتھ آ جاؤ اور انکار کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔ اُس نے کہا میں کسی بڑے طاقتور کی(جَبَلٍ) پناہ میں چلا جاؤں گا (سَآوِي) جو مجھے احکاماتِ الٰہیہ کی حدود یا زَد میں آنے سے (من الماء) بچا لے گا(يَعْصِمُنِي)۔ نوح نے کہا کہ اب اللہ کی منشاء سے کوئی بچانے والا نہیں ہے سوائے اُس کے جس پر اللہ خود ہی رحم فرمائے۔ پھر وہ پریشان کُن تصادم کی صورت حال(الْمَوْجُ) اُن کے درمیان رکاوٹ بن گئی (حَالَ بَيْنَهُمَا)، جس کے نتیجے میں وہ بھی پستی میں غرق ہو جانے والوں میں شامل ہو گیا۔ پھر حکم دیا گیا کہ اے زمین تو اپنی تروتازگی اور رونقیں (مَاءَكِ)ختم کر دے (ابْلَعِي) اور اے آسمان تو اپنی نعمتیں چھین لے (أَقْلِعِي) اور اس طرح وہاں بہاروں اور رونقوں کا قحط پڑ گیا (وَغِيضَ الْمَاءُ)۔ اور حکمِ الٰہی صادر کر دیا گیا۔ نوح کی جماعت/معاشرہ ایک شاندار سطح پر (عَلَى الْجُودِيِّ) مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گیا (وَاسْتَوَتْ)۔ اور ظلم و زیادتیاں کرنے والی قوم پر ایک محروم کرنے والا فیصلہ نافذ کر دیا گیا (وَقِيلَ بُعْدًا)۔ "
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ(48)
"پھر نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کے اے رب میرا بیٹا تو میری قوم میں سے تھا، اور تیرا وعدہ تو سچا ئی پر مبنی ہوتا ہے، اور تو سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اے نوح ، درحقیقت تیرا بیٹا تیری قوم میں سے نہیں تھا۔ بیشک ا ُس کی روش غیر صالح تھی۔ پس تو مجھ سے وہ سوال نہ کر جس کے بارے میں تُو علم نہیں رکھتا۔ میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ تو لا علموں میں خود کو شامل نہ کر۔نوح نہ کہا کہ اے میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں تاکہ تجھ سے ایسا سوال نہ کروں جس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔اور اگر تُو مجھے تحفظ نہ دے گا اور مجھ پر رحم نہ کرے گا تو میں خسارے میں رہوں گا۔ کہا کہ اے نوح ہمارے جانب سے سلامتی کے ساتھ آگے بڑھ (اهْبِطْ) اور ہماری برکات ہیں تیرے لیے اور جو اُس قوم میں سے تیرے ساتھ ہیں اُن کے لیے ۔ اور اُس قوم کو بھی ہم سامانِ زندگی دیں گے (سَنُمَتِّعُهُمْ) لیکن بعد ازاں وہ ہماری جانب سے اپنی کرتوت کے نتیجے میں درد ناک سزا بھی جھیلے گی (يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ)۔"
"""" نوٹ فرمائیے کہ یہاں آیت 11/48 سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نوح کی نافرمان قوم کسی پانی کے طوفان میں ڈوب کر ناپید نہیں ہو گئی تھی ۔ بلکہ زندہ تھی لیکن پستیوں اور ذلتوں کا عذاب جھیلنے کے لیے بھٹّی تیار ہو چکی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اِسی معاشی و معاشرتی زوال کی شکل میں آیا کرتا ہے ۔ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی صورت میں نہیں۔""""
آیات 23/23 سے لے کر 23/31 :-
یہ تمام آیات بھی حضرت نوح سے متعلق ہیں۔ لیکن ہمارا موضوعِ بحث آیت 27 سے اپنا آغاز کرتا ہے ۔
فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ ﴿٣٠﴾
"پس ہم نے اس کی جانب وحی کے ذریعے ہدایت بھیجی کہ وہ ہمارے منشور کے مطابق اور ہماری ہدایت کے ساتھ ایک مخصوص جماعت/معاشرے کی تشکیل کرے (اصْنَعِ الْفُلْكَ)۔ پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا یعنی بھٹی اُبلنے لگی (وَفَارَ التَّنُّورُ)، تو ہم نے کہا کہ تمام قابلِ تعریف ساتھیوں کو اُس معاشرے میں باہم منسلک کر دے (فَاسْلُكْ)، اور اپنی قوم سے بھی اُن کے سوا باقی سب کو جن کے خلاف فیصلہ صادر ہو چکا (سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ)۔ اور یہ کہ جنہوں نے ناانصافیوں کا ارتکاب کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے کوئی التجا یا خواہش نہ کر (وَلَا تُخَاطِبْنِي)۔ اور پھر جب تم اور تمہارے ساتھی اُس مخصوص معاشرے میں مضبوطی سے قائم ہو جائیں (اسْتَوَيْتَ)، تو انہیں بتاؤکہ وہ اللہ تمام حمد و ثنا کے لائق ہے جس نےہمیں ظالموں کی قوم سے بچا لیا۔ اور کہو کہ اے پروردگار ہم پر برکات کا نزول فرما کہ تُو سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے۔ بیشک اس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں کیونکہ ہم انسان کو ضرور ابتلاؤں سے گذارا کرتے ہیں (لَمُبْتَلِينَ)"۔
آیات 26/105 سے لے کر 26/121 :-
یہ سب آیات بھی حضرت نوح کے مشن سے ہی متعلق ہیں۔ البتہ ہمارا موضوع آیت 116 سے شروع ہوتا ہے۔
قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ ﴿١١٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ ﴿١١٧﴾ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿١١٩﴾ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ ﴿١٢٠﴾ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٢١﴾
"وہ کہنے لگے کہ اے نوح اگر تم اپنے مشن کا خاتمہ نہیں کرتے تو تمہیں رجم کر دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا اے رب میری قوم تکذیب کرنے والوں کی قوم ہے۔ پس اب تُو میرے اور ان کے درمیان ہماری فتح کے دروازے کھول دے اور مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لے/کامیاب کر دے۔ پس ہم نے اسے اور ساتھیوں کو ایک بھرپور آباد معاشرے کی شکل میں (فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ) کامیاب کر دیا۔ پھر اس کے بعد ہم نے باقی بچنے والوں کو پستیوں اور ذلتوں میں غرق کر دیا۔ بے شک اس واقعے میں بڑی نشانی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثریت امن و سلامتی پھیلانے والوں میں سے نہیں تھی"۔
آیات 29/14-15 :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ﴿١٤﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٥﴾
یہ آیت دوستوں کے توجہ دلانے پر شاملِ تحقیق کی گئی ہے تاکہ حضرت نوح کی عمر کے تعین کا مسئلہ بھی حل کر دیا جائے۔ کیونکہ سائنسی اور طبیعیاتی حقائق کے مطابق تین ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ انسانوں کی عمر ہرگز ہزاروں سال پر محیط نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے اس ضمن میں متعلقہ الفاظ کے متبادل لیکن مستند معانی تلاش کرنے کی جدو جہد کی گئی ہے تاکہ ایک قرین عقل اور قابلِ قبول حقیقت سامنے آ سکے۔ اور قدیمی دیومالائی تفاسیر و تراجم کا بطلان کیا جا سکے ۔ تو آئیے آیاتِ مذکورہ کا جدید ترین تحقیقی ترجمہ دیکھ لیتے ہیں :-
"اور ہم نےنوح کو اُس کی قوم میں رسول متعین کر دیا تھا ۔ پَس وہ کسی جھوٹ یا دھوکے بازی کا راستہ اختیار کیے بغیر(إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا)ایک معلوم و متعین سالوں کے دورانیے تک (أَلْفَ سَنَةٍ) اُن کے درمیان مقیم رہا (فَلَبِثَ فِيهِمْ) ۔ پھر ایک گھیرلینے والی اور شدید زوال کی کیفیت (الطُّوفَانُ)نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا (فَأَخَذَهُمُ)کیونکہ وہ انسانوں کی حق تلفیوں کے جرم کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر ہم نے حضرت نوح اور اُن کی ہم سفر جماعت (وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ) کو بچا لیا اور اُس جماعت/کمیونٹی کو اقوام کے لیے ایک سبق آموز نشانی بنا دیا۔"
آیت 29/14 میں استعمال کیے گئے مخصوص الفاظ کے مستند معانی جو اس ترجمے کے لیے استعمال کیے گئے، ڈبل چیک کے لیے ذیل میں ساتھ ہی دیے جا رہے ہیں:-
الف : A certain rounded number that is well known.؛ ایک مخصوص عددی تعداد جو معلوم و متعین ہو ۔ ایک ہزار، مانوس ہونا، عادی ہونا، سوشل ہونا، پسند/منظور کرنا/ دوستی، انسیت، وابستگی، وغیرہ،،،،،،(Lane’s Lexican)۔
خمس؛ خ م س : خمسین؛ پانچ گنا کر دینا؛ پانچ سے ضرب دینا؛ پانچ حصوں میں تقسیم کر نا۔ پلاٹ کرنا؛ سازش کرنا؛ ہوائی قلعے بنانا؛ دن میں خواب دیکھنا؛ جھوٹے دعوے کرنا۔ عقل کو ماؤف کرنا۔ اندازوں سے بھی بلند؛ مکر و فریب۔ ;to use deceit; to make a false pretense;(Hava, p.177; Qamoos al-Waheed, p.373; Hans to make a deceit, to make a false pretense; Hans Wehr;
عام : عاماّ: ع و م : تیرنا؛ وہ راستہ جو تیرتے ہوئے اختیار کیا جائے؛ کوئی راستہ/طریقہ/روش اختیار کرنا۔ ایک سال یا سال کا گذرنا۔ عام کو سنہ یعنی سال کے معنی میں بھی اس لیے لیتے ہیں کیونکہ سورج سال کے دوران اپنے لیے ایک مخصوص راستے کو اختیار کرتے ہوئے گذرتا ہے۔
طوف: طاف؛ طائف؛ مطاف؛ طواف؛ طوفان؛ to go about, walk about, ride about, travel about, move about, wander about, run around, circumambulate, to make rounds, circle, compass, to familiarize, acquaint//////////////طاف علیہ طائف : tragedy befell him ؛ کسی جانب جانا، چلنا، سواری کرنا، سفر کرنا، تلاش کرنا، ارد گرد بھاگنا، گرد گھومنا، گول چکر لگانا، احاطہ کرنا، واقفیت پیدا کرنا، طوفان: ایک گھیر لینے والی، شدت رکھنے والی آفت ۔۔ سیلاب یا پانی کے طوفان کے لیے ترکیب استعمال کرنی ہوگی: طوفان الماء: وہ پانی جو ہر چیز پر پھیل جائے، گھیر لے، احاطہ کر لے، غرق کر دے ۔ طوفان الظلام: رات کے اندھیرے کی شدت۔
اور اب پورے مضمون میں بریکٹوں میں دیے ہوئے مشکل الفاظ کے مستند معانی:
Fa-Lam-Kaf = become round, anything circular, persist/persevere, ship, Ark, the place of the revolving of the stars, the celestial sphere, vault of heaven, firmament, surrounding spheres, sky, revolvement, circling, circuit, going to and fro, in a state of commotion, whirl of a spindle, one who goes round. AND Pieces of Land, or of sand, having a circular form, and elevated above what is around them, with ruggedness and evenness;
[الْفُلْكِ] : زمین کا وسیع قطعہ یا میدان، زمین کے قطعے جو دائرے میں ہوں اور بلند سطح کے حامل ہوں؛ کشتی ، بحری جہاز۔
Gh-Ra-Qaf غ ر ق := sank, drowned, went downwards and disappeared, became without need, drew the bow to the full, outstripped, engrossed, a man overwhelmed by trials, single draught, ornamented, obligatory, suddenly/violently, to come near to any one.ڈوب گیا، زوال کا شکار ہو گیا، غائب ہو گیا، ضرورتوں سے بے نیاز ہوگیا، پیچھے رہ گیا، محویت کا عالم، مشکلات کا غالب آ جانا، قحط پڑ جانا، مرصع چیز، مجبوری، اجانک سے یا شدت سے کچھ ہو جانا، کسی کے نزدیک آ جانا ۔
Ra-Kaf-Ba : ر ک ب := to ride, embark, mount, be carried, go on board of a ship, voyage on (the sea), walk on (a road), commit (a fault). rakbun - caravan. rukban (pl. of rakib) - one who rides, mounted. rikab - camels. rakub - use of a beast for riding. mutarakibun - laying in heaps, ridden on one another, close growing, cluster over clustered, layer upon layer. tarkabunna - to pass on, rise, ascend. سوار ہو جانا، چڑھ جانا، لے جانا، جہاز پر چڑھنا، سمندر کا سفر، سڑک پر چلنا، غلطی کا ارتکاب کرنا، کاروان، اونٹ، جانور کا سواری کے لیے استعمال، تہہ در تہہ آگے گذار دینا، بلند ہو جانا۔
Fa-Waw-Ra ف ا ر ؛ ف و ر: = to boil, boil over, gush forth, run, do in haste, rush, come in a headlong manner, be raised, be in a fit of passion, be in a hurry, come instantly, come immediately, fall of a sudden, make a sudden rush. ابل کر باہر گر جانا، باہر پھوٹ پڑنا، دوڑنا، جلد بازی کرنا، سیدھے رُخ پر اندر داخل ہونا۔اوپر اُٹھایا جانا، جذبات کا شکار ہو جانا، فوری آ جانا، اچانک گر جانا، وغیرہ۔
= Ta-Nun-Ra (tannur) ت ن ر := Spring; ground; face of the earth. Highest part of the earth; place where the water of a valley collects; a circular earthen oven, furnace, fire-place. Shining of dawn. چشمہ، زمین، زمین کی سطح، زمین کا بلند ترین حصہ، وادی کا وہ حصہ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہو؛ ایک گول شکل کا تندور، بھٹی، انگیٹھی، آگ جلانے کی جگہ ۔
Ba-Lam-Ayn ب ل ع : ابلع: =swallow (without chewing), gulp, voracious or great eater
Grayness. Hole of perforation in the midst of a house, into which rainwater or just water descends۔ A well cased with stones or baked bricks.
Qaf-Lam-Ayn ق ل ع : اقلع = to remove, extract, abate, pluck, snatch of, drive away, dismiss, take off, swallow, cease, wrap, collect, refrain, withdraw, abandon, leave off. aqla'a (vb. 4) - to abate and stop, have no trace.
Gh-Ya-Dad غ ی ض : = became scanty or little in quantity, decreased, diminished, became deficient, fell short; sank into the earth, disappeared in the earth, went away into the earth or enters or collects, place where water sinks [applied to water]; an abortive fetus (not completely formed, less than seven months old)
Jiim-Waw-Dal ج و د : جودی: = To be good or goodly, approvable or excellent, to be egregious, to be liberal/bountiful/munificent/generous, affected or overcome with longing desire, to be feetful/swift (said of a horse). اچھائی پر ہونا، قابلِ تعریف ہونا، شاندار ہونا، کھلے دماغ والا، با افراط، سخی، خواہشات کا غلبہ ہو جانا، وغیرہ۔
Nun-Jiim-Waw ن ج و : = to be saved, delivered, rescued, escape, go free. najaa/najwan - to whisper (a secret), confide.
Shiin-Ha-Nun ش ح ن : = to fill/load/furnish. [الْمَشْحُونِ] : لوڈ کیا ہوا، چارج کیا ہوا، بھرا ہوا ۔ ایک بھری ہوئِ آبادی یا شہر، بھرا ہوا جہاز یا گھر، یا کمرہ، وغیرہ۔
ha-Ba-Tay ہ ب ط: ہبط:= to go forth, descend, cause to come down, descend from a high state to a low one, move from one place to another, enter into, change in condition, come forth from, become low, degraded. آگے بڑھنا، نیچے اُترنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا، داخل ہونا، حالت کا تبدیل ہونا۔ وغیرہ
Siin-Waw-Ya س و ی : استویٰ : = to be worth, equivalent to. sawwa - to level, complete, arrange, make uniform, even, congruous, consistent in parts, fashion in a suitable manner, make adapted to the exigencies or requirements, perfect a thing, put a thing into a right or good state. istawa - to establish, become firm or firmly settled, turn to a thing, to direct one's attention to a thing, mount. ala sawain - on terms of equality, i.e. in such a manner that each party should know that it is free of its obligations, at par. sawiyyun -even, right, sound in mind and body. sawiyyan - being in sound health.
sawwa (vb. 2) to proportion, fashion, perfect, level, equal, fill the space. sawa - midst. مضبوطی سے قائم، آباد ہو جانا، ایک سطح پر آ جانا، مکمل ہو جانا، باقاعدگی اختیار کر لینا، حالات کے مطابق تبدیل ہو جانا/کر لینا۔ کسی چیز کو درست حالت میں لے آنا۔
Miim-Waw-Jiim م و ج: موج: = To be in a state of commotion, to be agitated, tumultuous, conflict or dash, to be in a confused and disturbed state, perplexed or amazed, move backwards and forwards, move from side to side. افرا تفری، جوش و خروش، تصادم، اور الجھے ہوئے پریشان کُن حالات = Ba-Ayn-Dal ب ع د : بعد : = becoming distant, remote, far off, aloof or far away, removed, retired, withdrew to a distance, alienated, estranged, wide separation, great distance. Possessing judgment and prudence, penetrating, effective judgment, depth or far reaching judgment. Go or going a great length or far in hostility.
- Hits: 2089
اورنگزیب یوسفزئی جنوری 2016
قرآن کے سلسلہ وار"موضوعاتی" تراجم کی قسط نمبر(26 )
Thematic Translation Series, Installment No.26
اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ کس انداز میں ابلاغ کرتے ہیں
Allah’s Mode of Communication with Man
ایک اور غلط العام
کیونکہ اس خاص موضوع پر آج تک ہر خاص و عام اسی مغالطے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ہدایت عطا کرنے کے لیے تین مختلف طریقے استعمال فرماتا ہے، اور کیونکہ تمام تراجم اور تفاسیر میں ان تین طریقوں ہی کا بیان ہے، اور اس انداز میں ہے کہ عام انسان کے سَر کے اوپر سے گذر جاتا ہے،اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس موضوع کو بھی تحقیقی معیار پر پرکھا جائے اور بات کو سیدھا اور صاف کر کے پیش کر دیا جائے تاکہ یہ قدیمی الجھن بھی عقل، دانش اور منطق کی رُو سے ہمیشہ کے لیے حل ہو کر قرآن کی ایک اصولی اور دانشمند تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دے ۔ زیرِ تحقیق آیت یہ ہے :-
آیتِ مبارکہ 42/51:
َومَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾
عمومی تراجم:
مودودی: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برُو بات کرے ، اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے، وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے۔
احمد رضا خان: اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر ، یا یوں کہ وہ بشر "پردہِ عظمت کے اُدھر ہو" ، یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے، بیشک وہ بلندی و حکمت والا ہے۔
جالندہری: اور کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القا کرے۔ بے شک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے۔
علامہ اسد: اور یہ موقع نہیں دیا گیا فانی انسان کو کہ اللہ اس سے بات کرے سوائے اس کے کہ اچانک وجدان کے ذریعے،،،، یا (ایک آواز کے ذریعے جو کسی بھی قسم کی ہو) پردے کے پیچھے سے،،،، یا ایک پیغامبر کے ذریعے جو وحی کرے، اس کی اجازت سے، جو کچھ کہ اُس کی مرضی ہو؛ درحقیقت وہ نہایت بلند اور حکمت والا ہے۔
علامہ پرویز: قانونِ فطرت جو کائنات پر لاگو ہے انسانی معاشرے کو وحی کے ذریعے بھیجا جاتا ہے ، جو کہ انبیاء پر نازل ہوتی ہے، ہر فرد پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ تین (3) طریقوں سے ابلاغ فرماتا ہے۔ ان میں سے دو طریقے انبیاء کے لیے مخصوص ہیں، اور تیسرا طریقہ عام انسان کے لیے۔ وہ انبیاء سے رابطہ اس طرح کرتا ہے کہ یا تو وحی کا متن ان کے دلوں میں اُتار دیتا ہے؛ یا کچھ مرتبہ اسے ان کے کانوں میں ڈال دیتا ہے، پردے کے پیچھے سے (جیسے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا – 2/253، 4/164) ۔یہ دونوں طریقے نبیوں تک محدود ہیں۔ جہاں تک عام انسانوں کا تعلق ہے، ان تک ایک رسول بھیجا جاتا ہے۔ یہ رسول انہیں وہ الہامی وحی پہنچاتا ہے جو اسے اللہ کے حکم سے پہنچتی ہے۔ (ایک نبی کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی اللہ سے راست رابطہ نہیں رکھ سکتا )۔ یہ انتظام اللہ نے کیا ہے جو نہایت عالیٰ مرتبت ہے اور جو تمام فیصلے دانش کی بنیاد پر کرتا ہے۔
۔ ۔ ۔
دیکھ لیجیے کہ تمام فرسودہ ،،،،اور ترقی یافتہ ،،،، تراجم تین ہی طریقوں پر زور دیتے ہیں، اور پھر یہ تین طریقے عام انسان پر واضح بھی نہیں ہو پاتے ۔ لے دے کر حضرت موسیٰ کی جانب اشارہ دے دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے "پردے کے پیچھے" سے کلام فرمایا کرتا تھا ؟؟؟؟؟؟۔ اور اسی طریقے کو وحی کے علاوہ ایک اور طریقہ فرض کر لیا جاتا ہے۔
فرسودہ روایتی تراجم تو تیسرے طریقے کو اُسی دیو مالائی انداز میں لیتے ہیں جو کہ اُسی قسم کے تمام تراجم کی خصوصیت ہے۔ یعنی وہ تیسرے طریقے میں ایک دیومالائی شخصیت ۔ ۔ ۔ ۔یعنی فرشتے۔ ۔ ۔ ۔کا بھیجا جانا ظاہر کرتے ہیں، جو اللہ کے ایک پیغام بر کی حیثیت سے پیغام کو پہنچانے کے لیے آیا کرتا تھا۔ یعنی ان کے مطابق خالقِ کائنات جیسی عظیم و برتر ہستی کو جو ہمہ وقت انسان کی رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے، انسان تک پیغام پہنچانے کے لیے ایک ہرکارے کی ضرورت محسوس ہوا کرتی تھی۔ یعنی وہی قدیم تصور کہ اللہ تعالیٰ "بلندیوں" پر کہیں اپنے دربار میں رونق افروز ہے جہاں ہر قسم کا شاہی سٹاف اس کے رُو برُو حاضر ہے اور اس کے احکام بجا لاتا ہے۔ وہیں سے کچھ ہرکارے یا قاصد اس کے پیغامات انسانوں تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ جنہیں فرشتے کہا جاتا ہے۔ پھر ان فرشتے نامی مخلوق کی ہیئت کذائی بیان کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں ۔ اور عقلی تجزیے، علمی تحلیل، سائنسی علوم اور عملِ تخلیق کے ثابت شدہ طریقِ کار سب کا مذاق اُ ڑایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ خود اپنی ذات کا مذاق بنا دیا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
البتہ ترقی یافتہ تراجم جن میں استادِ محترم علامہ پرویز کا ترجمہ شامل ہے، پہلے دو طریقوں کو انبیاء سے روابط رکھنے کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔ اور تیسرے طریقے کو عام انسانوں کے لیے مختص کرتے ہیں۔ انہی پہلے دو طریقوں میں سے دوسرا طریقہ "پردے کے پیچھے سے" ،،،خود بزبانِ خالقِ کائنات،،، وہ "کلام" ۔۔۔ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے مخاطب ہو کر کرتا ہے۔ پہلا طریقہ انبیاء کو وحی کرنے کا ہے۔ ۔۔۔ اور تیسرا طریقہ بھی انبیاء کو وحی کر کے اُن کے ذریعے عام انسانوں کو ہدایت بھیجنے کا ہے ۔ ۔۔۔ یعنی یہاں دو طریقے وحی کے ہی ہیں، بلا واسطہ اور بالواسطہ ،،،،البتہ ایک علیحدہ طریقہ، یعنی تیسرا طریقہ، "پردے کے پیچھے سے کلام" کا باور کیا گیا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ یہاں اس امر پر یقین کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ۔۔ ۔ ۔ ۔گویا اللہ تعالیٰ کوئی انسان ہے اور انسان ہی کی مانند زبان ، یعنی جسم، بھی رکھتا ہے!!! (فرقہِ تجسیمیہ کے عقیدے کی مانند)، اور پھر اسی زبان سے کسی مخصوص انسان سے بات، یعنی کلامِ بھی فرماتا ہے! ۔۔۔۔یعنی اُس ذاتِ پاک کی کوئی آواز بھی ہے!۔۔۔۔۔۔ اور پھر یہ مخصوص طریقہ صرف پوری نسلِ انسانی میں صرف ایک ہی انسان کے ساتھ مخصوص ہے --- ایک خاص پیغمبر کے ساتھ۔۔۔۔جن کا نامِ نامی، حضرت موسیٰ ہے ؟؟؟ ۔۔۔یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ استثناء صرف حضرت موسیٰ کے ساتھ ہی کیوں ؟ ؟؟ ۔۔۔۔ کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی ، یا اس میں کوئی راز پنہاں تھا؟؟؟ ۔۔۔کیا اس استثناء کا کوئی جواز،،، یا ،،،ہمارے اس سوال کا کسی بھی علامہ کے پاس کوئی جواب ہے ؟ ۔۔۔۔۔ غالبا" نہیں ۔
واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نہ جسم رکھتا ہے، نہ زبان، نہ مادی وجود اور نہ ہی کسی مقام میں موجودگی سے مخصوص ہے ۔ اس لیے نہ تو کلام کرتا ہے اور نہ ہی کہیں قیام پذیر ہے جہاں سے کسی مقام پر موجود انسان سے بات کرے۔وہ تو ایک غیر مرئی، غیر مادی، پوری کائنات میں سرایت کیا ہوا، ایک شعورِ مطلق ہے جس نے یہ کارخانہِ تخلیق ایک خاص مقصد اور پلان کے تحت تخلیق کر دیا ہے ، اور جس کا ہر مرحلہ خود کار انداز میں عمل کی منزلوں سے گذرتا، اپنی معراج کی جانب سفر پر رواں دواں ہے۔ اور وہ ذاتِ باری تعالیٰ تمام مخلوقات، بالخصوص تمام نسلِ انسانی کے ہادی کے منصبِ عظیم پر فائز ہے۔
ہمارا پہلا اور بہت ہی آسان جواب کا مستحق سوال یہ ہے،،،،کہ ،،،،، کیا بذاتِ خود "وحی" کی واردات۔۔۔۔"پردے کے پیچھے" سے ہی واقع نہیں ہوتی؟ ؟؟ ۔۔۔یعنی کیا اللہ تعالیٰ وحی کرتے وقت "من وراء حجاب" نہیں ہوتا؟ ؟؟ اگر اس کا آپ کے ذہن میں وہی آسان سا جواب ہے، جو اس ناچیز کے ذہن میں بھی ہے، تو پھر تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے میں ہی حل ہو جانا چاہیئے ! ۔۔۔۔۔جی ہاں ! وحی کا عمل خود ہی پردے کے پیچھے سے ہو رہا ہے۔
پیارے دوستو، کیا یہ سمجھنا کچھ مشکل ہے کہ "وحی" تو بذاتِ خود ۔۔۔"پردے کے پیچھے سے" ہونے والے رابطے کو کہا گیا ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ اسی ذریعے سے اللہ تعالیٰ سامنے آئے بغیر،،،،، اور کلام کیے بغیر،،،، اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے؟؟؟ دراصل "وحی کے ذریعے رابطہ" ،،، اور ،،، "پردے کے پیچھے سے بولنا"،،،دو الگ الگ طریقے نہیں ہو سکتے!!!
اس طرح آپ سمجھ گئے ہوں گے، کہ اللہ تعالیٰ کا واحد انسانی رابطے کا طریقہ "وحی" ہی ہے ، خواہ براہ راست کسی ایک کے ذہن پر نازل ہو یا مجموعی طور پر انسانوں کے لیے پیغام اس کے مبعوث کیے ہوئےرسول کو وحی کے ذریعے ارسال کیا جائے۔
۔ پس آیت کا حسبِ حال ترجمہ اس طرح ہے :-
َومَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾
"اور کسی بشرکے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے سوائے وحی کے انداز میں،،،، یا ،،،یوں سمجھو،،،، کہ پردے کے پیچھے رہتے ہوئے،،،، یا پھر وہ انسانوں کے درمیان اپنے رسول بھیج دیتا ہے اور پھر انہیں بھی اپنے اُن احکامات کی وحی کر دیتا ہے جو اُس کی مشیت ہوتی ہے۔ بیشک وہ بلند مقام اورحکمت والا ہے ۔ ""
ہمارے اساتذہ نے اس سادے سے واحد طریقہ رکھنے والے کلیے کو ، ،،،خواہ مخواہ مشکل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،،،، انوکھے تراجم کی موشگافیوں سے تین (3) عدد مختلف النوع طریقوں میں پھیلا دیا ہے اور ہمارے لیے ورثے میں الجھنیں اور تفہیم کی بحثیں چھوڑ دی ہیں ۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ ایک عقلی و منطقی ترجمے نے، جو قرآن کے دیگر مواقع کے مندرجات سے تصدیق شدہ ہے، مسئلے کو کس آسانی سے حل کر دیا ہے ۔
۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے "کلام" کرنے کے ضمن میں ہمیں یہ آیت حوالے میں پیش کی جاتی ہے اور اصرار کیا جاتا ہے کہ نہیں صاحب،،،اللہ تعالیٰ تو "کلام" کرتا ہے:-
آیت 4/164: وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا۔
حالانکہ قرآن ہمیں واضح طور پر مطلع فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو بھی اللہ تعالیٰ وحی ہی فرماتا تھا، جس کا ثبوت متعدد آیات میں اس طرح مندرج ہے ۔۔۔۔" و اوحینا الی موسیٰ"۔۔۔۔ دیکھیے آیات 7/11، 7/16، 10/87، 20/77، 26/52، 26/6 2، 28/ 7 ۔ بات بالکل صاف ہو جائیگی۔ ان تمام آیات کی روشنی میں ہمیں تو " کلیم اللہ " والی تھیوری من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ ان تمام آیات کے بعد کون علامہ یہ اتھارٹی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بجائے خود ایسا فیصلہ کرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ سے "اپنی زبان" کے ساتھ "کلام" فرماتا تھا؟؟؟؟۔۔۔۔ اس لیے درج بالا آیت کا اِن بہت سے حوالوں کی روشنی میں قرینِ عقل ترجمہ کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کمزور دلیل کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ۔۔"ڈبل سٹینڈرڈ"۔۔ نہیں رکھتا :-
ترجمہ : "اور اللہ نے موسیٰ کو بھی اپنی بات کہنے کے لیے مخاطب کیا"۔ اللہ کا کلام کرنا زبان سے بول کر کہنا نہیں ہوتا۔ وحی بھی کلام کرنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ نیز "پردے کے پیچھے سے" کلام کرنا بھی دراصل وحی ہی کے ذریعے اپنی بات کہنا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی مراد ہے۔ وحی دراصل اللہ کا "کلام" ہی ہوتا ہے اور یہ کلام بول کر نہیں بلکہ قلب پر ، یا کہ لیں کہ ذہن پر وارد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن بھی تو اللہ کا کلام ہی ہے، لیکن اللہ کے زبان سے بولے بغیر رسول پر نازل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح " لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ" سے مراد یہ نہیں کہ "اللہ کی زبان سے بولا ہوا تبدیل نہیں ہوتا"،،،،بلکہ یہ ہے کہ اللہ کا " وحی کیا ہوا کلام" تبدیل نہیں ہوتا۔۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کے انسانوں یا انبیاء سے مخاطب ہونے کے ضمن میں لفظ ،،،،"کلام"،،، یا ،،،"یکلم"،،، یا کلمات اللہ، "زبان سے بولے ہوئے الفاظ" نہیں ہو سکتے۔
نیز آیت: 2/ 253 میں جو کہا گیا کہ "مِنھُم مَن کلم اللہ" تو اس سے "تبعیض" مراد لینا ، یا چند نبیوں کے لیے "استثناء" لینا،،،ا وپر دیے ہوئے ہمارے متعدد حوالوں کی روشنی میں ایک غلطی ہوگی۔ یہاں "مِن تبعیضیہ" نہیں بلکہ۔۔۔ "مِن بیانیہ ہے"۔ معنی یہ نہیں کہ ان میں سے کچھ سے اللہ نے کلام کیا،،،، بلکہ یہ ہے کہ ان سب سے اللہ تعالیٰ مخاطب ہوئے۔ یعنی کہا جا رہا ہے کہ "یہ سب وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا"۔ یہ نہیں کہ ان میں سے کچھ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا ۔ اوپر کے متعدد حوالوں سے (اوحینا الیٰ موسیٰ) یہ آخری استنباط غلط ثابت ہوتا ہے۔
امیدِ واثق ہے کہ یہ ناچیز بات کو سمجھانے میں کامیاب رہا ہے ۔ رفقاء کی رائے کا منتظر ہوں۔
- Hits: 2953
اورنگزیب یوسفزئی نومبر 2015
قرآن کے سلسلہ وار "موضوعاتی"تراجم کی قسط نمبر (25)
Thematic Translation Series Installment No.25
AL-ZINA AND FOHOSH
حصہ اول FIRST PART- : "الزنا" -AL-ZINA
قرآنی لفظ "الزّنا" کا قدیمی روایتی ترجمہ اور تشریح غلط ہے
ERRONEOUS TRANSLATION/INTERPRETATION OF THE QURANIC TERM “AL-ZINA”
اس قرآنی موضوع پر کلیدی آیتِ مبارکہ کچھ اس طرح بیان فرمائی گئی ہے:-
24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ۔
اس آیت کا حسبِ روایت ،عقل و دانش کی توہین پر مبنی ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے :-
"زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ،،،اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک، اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔"
A fornicator does not/may not marry except a fornicatoress or a female polytheist,,,,and nobody marries/may marry a fornicatoress except a fornicator or a polytheist. And it is forbidden for the Believers.
آیت 24/3 کےاس غیر منطقی اور بے ربط قدیمی ترجمے پرانتہائی غور و خوض اور علمی تحقیق کے بعد یہ نئی حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں"الزانی اورالزانیہ" کی اصطلاحات در حقیقت قرآن کے ایک اہم "نظریاتی " موضوع کو ، اور "نظریے سے انحراف "،،،، یا ،،،،،"نظریہ میں ملاوٹ اور بگاڑ" کرنے کے عمل کو بیان کرتی ہیں،،،، بدکاری یا جنسی اختلاط نام کے کسی ایسےانسانی عمل کو نہیں، جسے خطا یا معصیت سمجھا جاتا ہے،،، یا جسے انتہا پسندی سے کام لیتے ہوئے ایک "گناہِ کبیرہ" یا ایک "گالی" بنا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔! لیکن اُسی غارت گر ملوکیتی دست بُرد کی وجہ سے ، جس نے قرآن کی شکل کومکمل طور پر بگاڑ دیا تھا، اِ ن اصطلاحات کو بالعموم صرف بطور ایک،،،،، "اخلاقی جرم اور ایک گناہِ کبیرہ" ،،،،،، کے طور پر لےلیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر مستزاد یہ کہ،،،، پھر عقل کو خیر باد کہتے ہوئے اٗسی اخلاقی جرم و گناہ کو شرک جیسے سنگین نظریاتی انحراف کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اُس کے مساوی لے آیا جاتا ہے اور اُس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے! ۔۔۔۔۔خود ہی سوچیے کہ کیا ایک خطا یا گناہ یا معصیت کا ارتکاب ایک اللہ کے ماننے والے بندے کو ایک مکمل غیر الٰہی ضابطہِ حیات کی پیروی (شرک) کا مجرم بنا سکتا ہے؟؟؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا،،،کیونکہ شرک سے مراد اپنی زندگی میں اپنے خالق کی بلا شرکتِ غیرے بالا دستی و حکمرانی کو ترک کرتے ہوئے کسی بھی انسانی فلسفے یا نظریہِ حیات کو اختیار کر لینا ہوتا ہے۔ فلہذا صرف ایک وقتی جرم و گناہ کیسے انسان کو مشرک کی ذیل میں لا سکتا ہے ؟؟؟؟۔۔۔ ہم تو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں،،،، کیونکہ ہم سب ہی کسی نہ کسی وقتی تقاضے کے تحت کوئی نہ کوئی جرم و گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک انتہائی کرپٹ اور خود غرضانہ اور خالص مادّی نقطہ نظر رکھنے والے معاشرے میں زندہ ہیں ۔ انسان ویسے بھی خطا کا پُتلا ہے۔ ۔ ۔انسان فرشتہ نہیں ہے! کیونکہ اُس کے مادی حیوانی وجود کے جبلّی تقاضے بے انتہا طاقتور ہیں، جنہیں پورا کیے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ ا ور ہم سب پھر بھی اپنی خطاؤں اور کمزوریوں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی کو دل کی گہرائیوں سے سپریم اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ نظریاتی طور پر مشرک نہیں ہیں۔
تحقیق کی منزلوں کی جانب آگے بڑھتے ہوئے یہاں یہ بات واضح کر دی جائے تو بہتر ہوگا کہ ہمیں درجِ بالا الفاظ کے ترجمے پر قطعا" کوئی اختلاف نہ ہوگا بشرطیکہ اس قدیمی ترجمے کو پورے فقرے کے سیاق و سباق پر عقلی بنیاد پر منطبق کیا جا سکے، اور بات بے وقوفانہ ابہامات کے مرحلے سے نکل کر کچھ سمجھ میں آ جائے۔ لیکن موجودہ بحث کے ذریعے آپ دیکھیں گے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ہم اس ترجمے کو مسترد کرنے پر مجبور ہیں۔قرآن ِ حکیم ایک ابہامات اور تشکیک سے پاک کتاب ہے ۔ اور ہمیں یہ حقیقت ایک جدید اور دانشمند بیرونی دنیا کے سامنے لانا اور ثابت کرنا ہے۔
پس ہمیں یہاں دو اہم نکات کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ "زنا" کا حقیقی مادہ کیا ہے، اور تمام متعلقہ آیاتِ مبارکہ میں اُس کا حقیقی معنی "جنسی اختلاط" کی بجائے دراصل کیا لینا چاہیئے کہ اُس کا شرک کے ساتھ کیا گیا موازنہ منطقی بن جائے۔۔۔ یہ اس کے مادے کو یکسر بدل دینے سے ہی ممکن ہو سکے گا!!!۔۔۔۔۔ دوسرے یہ کہ موجودہ روایتی معنی تو شرک کے مساوی اور ہمسر قرار ہی نہیں دیا جا سکتا، ،،،،اس لیے دونوں مساوی قرار دیے گئے الفاظ کے معانی پر بحث کی جانی چاہیئے تاکہ درست صورتِ احوال سامنے آ جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور، یعنی تیسرا بڑا دھوکا جس کا ہماری امت کو اذل سے سامنا ہے، یہ بھی ہے کہ الزانیہ سے عورت مراد لے کر صنفِ نازک کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ تانیث کی "ۃ" عربی زبان میں صرف مونث کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتی، بلکہ ہر "جماعت" کا ذکر کرتے ہوئے بھی اسے اکثر تانیث کی "ۃ" کے ساتھ مونث کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات بخوبی جانتے ہوئے بھی کہ "الزانیۃ" زانی جماعت یا گروپ کو بھی کہا جاسکتا ہے، عورت ذات کو حقیر اور مطعون کرنے کے شیطانی رحجان کے باعث اس لفظ کو جماعت کی بجائے صنفِ نازک کی جانب موڑ دیا گیا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر مقام پر "ازواج" کو بیویاں،،،،اور "النساء" کو عورتیں بنا دیا گیا ۔ خواہ اس کی وجہ سے رسولِ پاک کی سیرت و کردار پر اور تمام تر انسانی مساوات کے قرآنی فلسفے پر قیامت گذر گئی۔
"الزانی اورالزانیہ" وہ اصطلاحات ہیں جن کے قرآنی استعمال پر ، خالص سیاق و سباق کی روشنی میں، جدید علمی تحقیق کے ذریعے غور کیا گیا تو نتیجے میں ان کے ایک قطعی نئے اور چونکا دینے والے غیر روایتی معنی کا انکشاف ہوا۔ اور اِس جدید انکشاف کے باعث یہ قرآنی اصطلاح ایک کافی متنازعہ موضوع کی شکل اختیار کر گئی ۔ زیرِ نظر تحریر میں ، میرے ہمسفر علمی ساتھیوں کے اصرار پر، اسی انکشاف کو زیرِ بحث لایا گیا ہے تاکہ اس قرآنی موضوع کو بھی راست انداز میں علم و عقل و دانش کی بنیاد پر سب کے سامنے پیش کر دیا جائے ، جو کہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔ مقصد پیشِ نظر یہی ہے کہ قدیم زمانے سے چلی آرہی غلط فہمیاں دور ہوں، تاکہ قرآنِ حکیم کا حقیقی اور منزّہ چہرہ دنیا کے سامنے لائے جانے کا ہمارا دیرینہ مشن ،مختصر اور آسانی سے قابلِ مطالعہ اقساط میں، بروئے کار لایا جاتا رہے ۔
اس اصطلاح کا روایتی یا قدیمی معانی تو آج تک ،،،،"بدکاری" یا " ناجائز جنسی اختلاط"،،،، ہی سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اور یہی وہ معنی ہے جو آپ کو بلا استثناء ہر ترجمے، تفسیر یا تشریح میں نظر آئیگا ۔۔۔۔ نیز تمام لغات بھی اس کے معنی میں یہی ، یا اس سے ملتا جلتا معانی پیش کرتی نظر آتی ہیں ۔ لیکن کیونکہ یہ قدیمی معنی قرآن کی نصوص کی بامعنی اور قرینِ عقل ترجمانی کرنے میں ناکام رہا ہے، اور سیاق و سباق کے ساتھ مطلوبہ ربط، تسلسل، تناسب اور ہم آہنگی پیش نہیں کر سکا ہے،،،، اس لیے یہ جائزہ لینے کے لیے تحقیق کی گئی کہ کیا واقعی اس اصطلاح کے اصل مادے کا یہاں "زنٰی" کی شکل میں درست تعین کیا گیا ہے یا یہ ایک غلط اور سازشی اقدام تھا؟۔ ۔ ۔ ۔۔ اور کیا واقعی اس مادے سے مشتق کیے جانے والے الفاظ اور اُ ن کے معانی اللہ تعالیٰ کے کلام کے بیانی تسلسل اور باہمی ربط کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر ہم آہنگ ہوتے بھی ہیں یا نہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر یہ کہ یہ مادہ اور اس کا معنی قرآنی عبارتوں کے حقیقی پیغام کو ایک غیر عقلی اور غیر منطقی بہروپ دینے کے لیے جان بوجھ کر استعمال تو نہیں کیا گیا ہے ؟۔ ۔ ۔۔ اور کیا یہ بھی اُسی ملوکیتی سازش کا حصہ تو نہیں ہے جس کے مقاصد میں قرآن کے تمام معانی کو بگاڑ کر غیر منطقی بنا دینا شامل تھا؟؟؟
اگرچہ ذیل میں وہ تمام آیات بمعہ ترجمہ دے دی گئی ہیں جن میں یہ اصطلاح اپنے مختلف مشتقات کے ہمراہ استعمال میں لائی گئی ہے، ۔ لیکن سب سے قبل آپ کے سامنے وہ آیت ِ مبارکہ پیش کر دی گئی ہے جو اس اصطلاح کے قدیمی روایتی معانی کو ، اُس کے من گھڑت مادے(زنٰی) کے ہمراہ، بکمال و اطمینان، نہایت قطعیت کے ساتھ مسترد کر دیتی ہے ۔ اور یہی استرداد آپ کی تحقیق کی سمت کو بدل کر آپ کو ایک عدد نئے مادے کی جانب توجہ دینے پر مجبور کرتاہے ۔ یہاں آپ کو بتا بھی دیا جاتا ہے کہ یہ نیا دریافت شدہ مادہ دراصل "زان" ہے ("زنٰی " نہیں) ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی وثاقت کا ثبوت خود قرآنِ حکیم کی آیات کے ذہن میں اُتر جانے والے جدیدہم آہنگ اور مربوط ترجمے سے ہم پر پوری طرح آشکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ قرآنی عبارت کے ربط اور تسلسل کو واضح کرتا اور قدیمی روایتی تراجم کو قطعی بے ربط اور لا یعنی ثابت کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ کیسے ؟؟؟ ۔۔۔۔یہ آپ ذیل کی علمی بحث کے ذریعےسے آسانی کے ساتھ جان لیں گے اور اس کو تسلیم کرنے میں آپ کو کوئی مشکل درپیش نہ ہوگی، انشاءاللہ۔
یہاں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ نیا انکشاف شدہ مادہ ، ،،یعنی "زان" ،،،، کہیں باہر سے لا کر قرآن پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، بلکہ زیرِ نظر آیت میں یہ لفظ موجود ہے، جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اور اس جرم کے ارتکاب کے لیے اسے ایک دیگر مادہ ،،،"زنٰی"،،،، کے ساتھ بڑی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے خلط ملط کر دیا گیا ہے،،، اور دونوں کو کچھ اس طرح باہم منسلک اور ضم کر دیا گیا ہے ، کہ معانی کو ایک غیر متعلق عامیانہ معنی اورجھوٹا رنگ دے دیا جائے ۔ حالانکہ "زان" اپنے آپ میں ایک الگ مادہ ہے ، اور زنا سے متعلق آیات میں دراصل یہی مادہ اپنے محاوراتی اسلوب میں استعمال ہوا ہے ۔نیز تمام استعمال شدہ مشتقات اسی سے مشتق ہوئے معلوم ہوتے ہیں، مادے "زنٰی" سے نہیں۔۔۔۔۔اور یہ بات ان دونوں مادوں کے بنیادی معانی کا فرق دیکھنےسے آ پ پر پوری طرح واضح ہو جائیگی ۔ ملاحظہ فرمائیں :-
زان : ایک زہریلا نقصان دہ پودا جو گندم کے ساتھ اُگ جاتا ہے؛ ایک ایسا دانہ، تلخ ذائقہ رکھنے والا، جو گندم کے ساتھ مکس ہو کر یا ملاوٹ پیدا کر کے اسکا ذائقہ/کوالٹی بگاڑ دیتا ہے۔ اسی سے ،،،،الزانی (معرف باللام) : ایک مخصوص ملاوٹ اور بگاڑ پیدا کرنے والا؛ قرآنی نظریے میں ملاوٹ کر کے اس کی اصل و اساس کو بگاڑ دینے والا۔
Z a n : A noxious weed, that grows among wheat; (app. Darnel-grass; the “lolium temulentum of Linn.; so in the present day;) a certain grain, the bitter grain, that mingles with wheat, and gives a bad quality to it.
لینز لکسیکن، صفحہ 1213
لسان العرب صفحہ 1801
یہی وہ مادہ ہے جس کا با محاورہ استعمال (یعنی معرف باللام – "الزنا") آپ کو نظریے میں ملاوٹ کر کے اس کا اصل بگاڑ دینے کا ادبی و علمی معنی دیتا ہے۔اور "زنا" کے سیاق و سباق میں اسی مادے کا استعمال کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ "زنٰی " کا نہیں۔
زنٰی : کسی چیز پر چڑھنا/سوار ہو جانا؛ ناجائزجنسی اختلاط یعنی بدکاری
Zay-Nun-Ya = to mount, the mounting upon a thing, to commit fornication/adultery, fornicator/adulterer.
اب آئیے پہلے دیکھتے ہیں تین من گھڑت روایتی تراجم بمعہ دو عدد ترقی یافتہ تراجم:-
24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
روایتی تراجم
1) ابوالاعلیٰ مودودی: زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ،،،اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک، اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔
2) جالندہری: بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا، اور یہ (یعنی بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے۔
3) احمد رضا خان: بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے، اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام ہے۔
ترقی یافتہ تراجم
1) علامہ اسد : بدکار مردصرف بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کرتا ہے، جو کہ ایسی عورت ہوتی ہے جو (اپنی جنسی شہوت کو) اللہ کے احکام کے برابر جگہ دیتی ہے۔ اور ایک بدکار عورت کے ساتھ بدکاری صرف ایک بدکار مرد ہی کرتا ہے ، جو کہ ایک ایسا مرد ہے جو اپنی شہوت کو اللہ کے برابر جگہ دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے یہ حرام قرار دیا گیا ہے۔
2) علامہ پرویز : زنا (ناجائز جنسی اختلاط) ایک عام جرم نہیں ہے۔ اگر آپ اس کا غور سے تجزیہ کریں، تو صرف وہی عورت جو ایسے جنسی اختلاط پر راضی ہوگی وہ ایسی عورت ہوگی جو اپنے جنسی تقدس کو ایک مستقل قدر نہیں سمجھتی، یا وہ جو (اللہ کے قانون کی بجائے) اپنے جنسی جذبات کے تقاضے کی غلام ہو جاتی ہے اور ایسے ہر تقاضے پر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ اسی کی مانند صرف وہ مرد جو ایسے جنسی اختلاط پر راضی ہوگا وہ ہوگا جو اپنے جذبات کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور انسانی اور حیوانی زندگیوں کے فرق کو نہیں سمجھتا (اس طرح زنا کا جبھی ارتکاب ہوتا ہے جب مرد اور عورت ایک جیسی خواہشات کے دباؤ میں آ جائیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی پاک رہنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ایسا عمل وقوع پذیر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کی سزا دونوں کے لیے ایک ہے ۔ مومنوں کے لیے ایسا تعلق ممنوع ہے۔ (Exposition of Holy Quran by G.A. Pervaiz, published by Tolu-e-Islam)
بحث :
پہلے تین روایتی تراجم میں "الزنا" کو بدکاری کے معنی میں لیا گیا اور "نکاح" کو شادی کے معنوں میں ۔
کہا گیا کہ،،،،،،،"بدکار" مرد یا "زانی" کسی کے ساتھ شادی نہیں کرتا سوائے بدکار عورت یا زانیہ کے ۔ یا پھر مشرک کے ۔ اور یہی بات بدکار عورت یا زانیہ کے بارے میں کہی گئی ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ بیان کسی بھی انسانی تجربے یا عقل کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔غالبا" بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں نارمل زندگی میں ایسا کوئی قانون یا عملی دستور نظر نہیں آتا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے؟ ؟؟؟ آئیے دیکھتے ہیں :-
1) ایسے بے شمار بدکار مرد آپ کو مختلف طبقاتی گروہوں میں مشاہدے کی بنا پر مل جائیں گے جن کے گھروں میں نہایت عفت مآب خواتین بطور بیویاں موجود ہیں۔ بلکہ اکثریت تو آج ایسے ہی مردوں پر مشتمل ہے، جو گھر سے باہر اسی شغل میں یا اس کے مواقع کی تلاش میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔
2) ایسی کئی جنسی ایڈونچر کی شوقین عورتیں بھی موجود ہیں جن کے شوہر پاکباز ہیں اور اپنی بیوی کے علاوہ کسی بھی اور عورت کی طرف منہ اُٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ ۔جب کہ بیویوں نے کوئی نہ کوئی مستقل دوست رکھا ہوا ہوتاہے ۔ اگرچہ ہمارےمعاشرے میں عورت کی محکوم اور پابند حیثیت کی وجہ سے ایسی مثالیں مقابلتا" کافی کم ہیں۔
3) بدکار ترین مرد بھی اپنی بیوی بنانے کے لیے کبھی بدکار عورت کو منتخب نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ نیک اور عفت مآب عورت ہی تلاش کرتا ہے۔
4) کوئی عورت، خواہ کیسا بھی مزاج رکھتی ہو، کبھی اپنا شوہر کسی دیگر عورت کے ساتھ شیئر کرنے پر بخوشی آمادہ نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ عورت کی نفسیات ہی کے خلاف ہے ۔ اس لیے کوئی عورت کبھی جانتے بوجھتے کسی بدکار مرد سے شادی نہیں کرتی۔
تو روایتی ترجمے کی رُو سے یہاں اللہ تعالیٰ کا بیان غلط ثابت ہو جاتا ہے ، نعوذ باللہ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بیان غلط نہیں بلکہ روایتی ترجمہ لغو اور لایعنی ہے۔ حقائق پر پورا نہیں اُترتا ۔ ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق ہے ۔ نہ یہاں "الزانی" اور "الزانیہ" کا ترجمہ درست ہے، نہ ہی " زان" کا۔۔۔۔۔ اور نہ ہی "نکاح" کا۔
اور پھر دیکھیں کہ :-
5) بھلا زانی اور مشرک میں ایسی کیا قدرِ مشترک ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے باہم مرادف قرار دیا ہے؟؟؟ کیونکہ
6) ایک زانی، یعنی جس نے ناجائزجنسی اختلاط کیا ہو، نظریاتی طور پر موحد بھی ہو سکتا ہے ،،،،،، اور ایک مشرک انسان جنسی معاملے میں بالکل پاک باز بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ زانی ضرور ہی مشرک ہو،،،،،،، اور مشرک بھی بالکل ضروری نہیں کہ لازمی اور ہمیشہ، ہر حال میں زانی بھی ہو ۔
کیونکہ :-
زنا ، یا جنسی فعل، ایک انسان کے حیوانی وجود کا ایک جبلی تقاضا ہے،،،،،،، جب کہ موحد یا مشرک ہونا،،،،اس کے شعوری وجود کا ایک نظریاتی تقاضہ ہے ۔ دونوں افعال میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے ۔ دونوں کا میدانِ عمل ہی علیحدہ علیحدہ ہے ۔ یعنی ایک تو انسان کا حیوانی عمل ہے جس کا مرادف یا مساوی اس کا کوئی اور حیوانی عمل ہی ہو سکتا ہے ۔ ۔۔۔اور دوسرا انسان کا نظریاتی تقاضا اور سوچ ہے جو اُس کے شعوری وجود سے متعلق ہے ۔اور اُس کا موازنہ کسی اور ایسے ہی تقاضے سے کیا جا سکتا ہے جو اس کی نظریاتی "سوچ" ہی سے تعلق رکھتا ہو،،،،کسی جسمانی جبلی تقاضے سے نہیں کیا جا سکتا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس یہاں سے بھی مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مادہ "زنٰی" کا یہاں اطلاق ہی نہیں ہونا چاہیئے،،،،،، کیونکہ اس سے جو فعل مراد لیا جاتا ہے اس کا شرک یا مشرک پر اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔کیونکہ شرک ایک جبلی عمل نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی سوچ اور تصور ہے۔ ۔۔۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ موحد اور مشرک دونوں ہی اپنی حیوانی سطح پر جبلی تقاضے کے دباؤ کے باعث جنسی اختلاط کا ارتکاب کر بھی سکتے ہیں اورایسا کوئی موقع دستیاب ہونے پر اِس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے زنا سے بالکل پاک بھی رہ سکتے ہیں ۔
تو ثابت ہوا کہ مادے" زنٰی" کا، اور اس کے معنی یعنی جنسی اختلاط کا یہاں بھی شرک کے مرادف میں اطلاق قرینِ عقل نہیں ہے۔
دیگر دو عدد ترقی یافتہ تراجم (علامہ اسد) اور (علامہ پرویز) میں زنا کو تو بدکاری ہی کے معانی میں لیا گیا، لیکن "نکاح" کو شادی نہیں بلکہ "جنسی فعل" ہی کے معنی میں لے لیا گیا ۔ یعنی یہاں ایک ہی معنی رکھنے والے دو الفاظ فرض کر لیے گئے، یعنی زنا بھی جنسی فعل اور نکاح بھی جنسی فعل ،،،،،،اور دونوں ہی کا مطلب جنسی فعل لے لینے سے ایک غیر مناسب اور بلا جواز تکرار پیدا کر دی گئی۔ الہامی تحریر کا بلند درجہ اور اسلوب ہی بگاڑ دیا گیا؟؟؟؟ ۔۔۔۔یعنی کہا گیا کہ،،،،زانی یا زانیہ "نکاح" بمعنی "شادی" نہیں کرتے بلکہ "نکاح بمعنی جنسی اختلاط" کرتے ہیں؟؟؟ پَس یہ کہنا کہ "زانی" جنسی اختلاط کرتے ہیں، ایک بے معنی بات ہو گئی، کیونکہ خود لفظ "زانی" جنسی اختلاط ہی کو بیان کر رہا ہے۔ ان دونوں تراجم میں ایسا کیوں کیا گیا،،،،،،،یہ تو ہمیں پتہ نہیں!!!! البتہ نکاح سے مراد "جنسی اختلاط" کہاں سے اور کس ماخذ سے لیا گیا؟؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نکاح کا معنی "coitus"(جنسی عمل) تو لغات کی رُو سے ثابت ہی نہیں ہے۔ ۔۔۔۔نکاح کے معنی تو "لین" کی لغت میں اس طرح دیے گئے ہیں:-
ن ک ح : باندھنا، گرہ باندھنا، منسلک ہونا، تعلق بنا لینا، معاہدہ کرنا، شادی کا معاہدہ کرنا، شادی؛ کسی کو اپنی تحویل/قبضے/سرپرستی میں لینا۔بارش کے پانی کا زمین میں جذب ہو جانا۔ (یہاں ، یا کہیں اور، جنسی اختلاط کے عمل کا کوئی ذکر نہیں)
پس یہاں بھی ابہام ہی پایا جاتا ہے! نیز ان دونوں محترم حضرات نے بھی یہاں مشرک اور زانی کے درمیان قدرِ مشترک والا معاملہ کلیر نہیں کیا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو مساوی یا مرادف قرار دیا؟؟؟؟ ۔۔۔۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں میں کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں پائی جاتی ۔ جیسا کہ اوپر دلائل پیش کئے گئے، ،،،،موحد اور مشرک میں سے کسی ایک کو بھی نہ تو لازمی طور پر زنا سے ہمیشہ کے لیے پاک قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس کے برعکس لازمی طور پر زنا کا ارتکاب کرنے والا فرض کیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔دونوں میں سے کوئی بھی کبھی بھی حیوانی جبلی تقاضے کے آگے شکست کھا سکتا ہے۔ اور اس طرح ضروری نہیں کہ زانی ہمیشہ صرف مشرک ہی ہو ۔ "زانی" موحد بھی ہو سکتا ہے اور مشرک بھی ۔
"جنسی شہوت کو اللہ کے برابر درجہ دینا" (علامہ اسد)، یا ،،،،"اللہ کے قانون کی بجائے اپنے جنسی تقاضے کا غلام ہو جانا " (علامہ پرویز) کی قسم کے مبالغہ انگیز اور انتہا پسند انہ بیانات میں یہ بات بالکل بھلا دی گئی ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا قانون ہی تو جنسی تقاضے کا پیدا کرنے والا بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود ہی دونوں اصناف میں اس قدر باہمی روحانی کشش رکھ دی ہے کہ ایک کی ذات کی تکمیل دوسرے کی قربت سے مشروط ہے ۔ یہی روحانی کشش بعد ازاں ، عمر کے ایک خاص دور میں، جسمانی جنسی قربت کی شکل میں منتج ہوتی ہے ۔کیونکہ انسانی کی حیوانی جبلتوں کا تقاضا جنسی عمل کے ذریعے تولید کرنابھی ہے۔۔۔ جو پھراللہ ہی کا قانون ہے ۔۔۔۔۔ ایک کلّی انسانی ذات کے دونوں جزء ، جو ایک "بڑی خاص حکمت" کے تحت مصنوعی طور پر ایک دوسرے سے الگ کیے گئے ہیں،،،،ایک دوسرے سے جسمانی طور پر مل جانے سے ایک نئی انسانی زندگی وجود میں آتی ہے اور اِسی عمل کے نتیجے میں حیات کے اِس تسلسل سے نسلِ انسانی کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لیے کسی ایک وقت میں جنسی تقاضے سے مغلوب ہوجانے والا مرد اور عورت اُسی اللہ کے قانون ہی کو پورا کر رہا ہے اور اُس کی غلطی یہ تو ہو سکتی ہے کہ،،،،،، وہ اسے اخلاقی اور سماجی حدود و قیود کو توڑتے ہوئے پورا کرے۔لیکن یہ غلطی شرک کے مساوی نہیں کہلا سکتی، ،،،، کیونکہ شرک ایسا غیر الہامی نظریہ ہوتاہے جو تسلسل کے ساتھ پوری زندگی کو محیط ہو ۔ زنا کا ارتکاب کرنے والا اس حرکت سے صرف ایک غلطی، یا حدود فراموشی کر رہا ہے۔ اپنا الہامی نظریہ حیات کسی دوسرے انسانی نظریے کے ساتھ تبدیل کر کے شرک جیسے نظریاتی جرم کا ارتکاب نہیں کر رہا۔ لہٰذا، اس انداز کی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے سے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ ہم اللہ کی دی ہوئی ہر اخلاقی قدر و قانون کو توڑنے والے کو مشرک کہنے لگیں گے اور فتوے بازی شروع کر دیں گے۔ پھر تو ہر جھوٹا، چور، کاہل، بے ادب، ظالم، بد زبان، قسمیں کھانے والا، وغیرہ،،،،،، غلطی، گناہ یا جرم کرنے والا نہیں کہلائے گا،،،،، بلکہ سیدھا سیدھا اسلام سے خارج ہو کر مشرک کہلانے لگے گا ۔ جو کہ ایک مضحکہ خیز اور متشدد رحجان کہلائے گا۔ انسانی نفسیات کا علم تو آج نہایت وسیع ہو چکا ہے ۔ اس کا سیر حاصل اور ترقی یافتہ مطالعہ کیے بغیر آپ "کتابِ ہستی " کو کیسے مکمل طور پرجان سکتے ہیں ،،،، اور کیسے انسان کے ایک روحانی اور جبلی تقاضے کو ایک "گالی" کا درجہ دیتے ہوئے، اس پر شرک جیسے بڑے انحراف کا فتویٰ لگا سکتے ہیں؟؟؟ صاف گوئی پر معذرت چاہتا ہوں۔
تو آئیے، اس انتہائی عقلی اور منطقی بحث کے بعد، جس کی رُو سے تمام قدیمی تراجم غیر منطقی ٹھہرتے ہیں ، اب اسی آیتِ مبارکہ کا جدید ترین قرین عقل ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے ۔
آیت 24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿٣﴾
"دین یا نظریے میں ملاوٹ کا ارتکاب کرنے والا (الزانی) کسی کے ساتھ اپنا قریبی تعلق نہیں جوڑے گا ، یا وابستہ نہیں ہوگا (لَا يَنكِحُ ) سوائے ایسے گروہ یا جماعت کے ساتھ جو یہی کام کررہی ہو (الزانیہ)، یا پھرکسی مشرک جماعت (أَوْ مُشْرِكَةً) کے ساتھ ۔ اور اسی طرح ملاوٹ کرتے ہوئے نظریہ کو بگاڑنے والی جماعت (والزانیہ) یا ایک مشرک جماعت کے ساتھ کوئی بھی انسان قریبی تعلق یا وابستگی قائم نہیں کرے گا (لَا يَنكِحُهَا) سوائے نظریے کو خراب کرنے والا یا ایک شرک کرنے والا ۔ جب کہ ایسا کرنا امن وایمان کے ذمہ داروں کے لیے ممنوع قراردے دیا گیا ہے۔ "
اور اب مادے "زان" کے اسی انتہائی ربط پیدا کرنے والے، ابہامات کو دُور کرنے والے، اور سیاق و سباق کے ساتھ تسلسل قائم کرنے والے معانی کو دیگر متعلقہ آیات کے ساتھ بھی منطبق کر لیتے ہیں تاکہ سارا موضوع ہی شفاف شیشے کی مانند واضح ہوکر سامنے آ جائے۔ آپ اتفاق کریں گے کہ درجِ بالا بحث کے بعد اب ان بقایا آیات کے قدیمی کالعدم تراجم کو دہرانے کی،،،،، اور ان کے کالعدم ہوجانے کی بحث کی،،،، ضرورت باقی نہیں رہی ۔
قرآنِ کریم کی "زنا" سے متعلقہ دیگر آیات کا جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ جس میں آپ کو سیاق و سباق سے ربط، مکمل ہم آہنگی اور عقلی اور منطقی جواز کی فراوانی نظر آئیگی :
آیت 24/2: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۔
"نظریاتی ملاوٹ اور بگاڑ کا باعث بننے والی جماعت کو (الزانیۃ) اور ایسے فرد کو(الزانی)، دونوں میں ہر ایک کو سَو (100)یا سینکڑوں بندشوں (مائۃ جلدۃ) میں جکڑ دیا جائے(فاجلدوا) ۔ اگر تم اللہ پر اور حیاتِ آخرت کے نظریہ پر یقین و ایمان رکھتے ہو تو ان کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رعایت نہ پیدا ہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظریہِ حیات (فی دین اللہ) کا معاملہ ہے، ۔ مزید برآں اُن کی اس سزا پر امن کے ذمہ داران کا ایک گروہ بطور شاہد موجود ہو۔"
آیت 25/68: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾
"اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسری طاقت یا اتھارٹی کو نہیں پکارتے، نہ ہی کسی ایسی جان کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں (يَقْتُلُونَ النَّفْسَ) جو اللہ تعالی نے ممنوع/محترم قرار دی ہے، سوائے اس کے کہ جہاں وہ ایسا کرنے میں حق پر ہوں، اور نہ ہی دین اللہ میں ملاوٹ کرکے اس کی اصل و اساس کو بگاڑتے ہیں(وَلَا يَزْنُونَ ۚ ) ۔ البتہ جو بھی ایسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے وہ سزا کے طور پر اپنے ارتقائے نفس کی راہ مسدود دیکھے گا(يَلْقَ أَثَامًا )۔ "
آیت 60/12 : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ۔
"اے نبی، اگر/جب آپ کے پاس ایسی مومن جماعتیں حاضر ہوں جو آپ کی بیعت ان شرائط پر کرنا چاہیں کہ وہ
۔ اللہ کی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کریں گی (لَّا يُشْرِكْنَ)
۔ سرقہ/چوری کا ارتکاب نہ کریں گی
۔ دین/نظریے میں بگاڑ/ملاوٹ پیدا نہیں کریں گی (وَلَا يَزْنِينَ)
۔ اپنی اولادوں کو پست و ذلیل نہیں چھوڑیں گی (وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ)
۔ کسی پر سامنے یا پیٹھ پیچھے بہتان نہیں دھریں گی
۔ اور عمومی معاملات میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی
تو آپ انہیں بیعت کر لیا کریں اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے امان و تحفظ طلب کیا کریں۔ "
آیت 17/32: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ
"اور دین/نظریے میں ملاوٹ/بگاڑ پیدا کرنے کے قریب بھی مت جاؤ (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى )، کیونکہ یہ ایک صریح زیادتی/ حدود فراموشی (فاحشۃ)ہے اور بدی کا راستہ ہے (وَسَاءَ سَبِيلًا )۔ اور نہ ہی کسی ایسی جان کی تحقیر و تذلیل کرو (تَقْتُلُوا النَّفْسَ )جسے اللہ تعالیٰ نے محترم/ممنوع قرار دیا ہے، سوائے اس کے جو حق اور جواز کے ساتھ کیا جائے۔"
حصہ دوم: - SECOND PART
فحش
FOHOSH – OBSCENITY
قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ "فحش" سامنے آتا ہے، ہمارے نام نہاد "پاک باز علماء"نے اسے صرف ایک ہی معنی میں لیا ہے،،،یعنی جنسی فعل کا ارتکاب ۔ سیکس SEX !!! جب کہ اس کے معانی کافی وسعت رکھتے ہیں جیسے کہ آپ نیچے دیکھ لیں گے۔ اور جیسے کہ آپ نے درج بالا متن سے بھی معلوم کیا، لفظ "زنا" کو بھی ، اس کا مادہ تبدیل کرتے ہوئے ، وہی سیکس SEX سے عبارت کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ دین اسلام کے اجارہ داروں نے دین کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی اصل و اساس ہی سیکس SEX پر رکھ دی ہے۔ دنیا میں بھی 11 بیویاں ، جمع مالِ غنیمت میں لونڈیاں، جمع نکاحِ متع اور نکاحِ مسیار، اور طلاقیں دے دے کر مزید نئی شادیاں بھی،،،،،، اور آخرت میں بھی انعامات کی نوعیت میں سیکس ورکرز Sex Workers کی شکل میں لا تعداد حوریں ۔ پھر ہر ایک نفس کو 100 مردوں کے مساوی قوتِ رجولیت !!! اللہ، اللہ ۔
تو آئیے دیکھیں کہ ان شیطانی اجارہ داروں کی تعبیرات کے برعکس، ہمارے پیارے خالقِ کائنات کے انتہائی پاک اور مہذب کلام کی حقیقی تعبیر کیا ہے :-
فحش، فواحش، فاحشہ: حد سے بڑھ جانا، زیادتی کرنا، غیر مہذب، بھاری زیادتی، بدکرداری، بے حد وحساب جس کی پیمائش نہ کی جا سکے، ناگوار، بُرا، بد، نفرت انگیز، فحش ، بدنما، ممنوعہ حد کراس کرنا، بے حیائی، بے شرمی، جنسی شہوت کا میلان، جنسی اختلاط، وغیرہ۔
Fa-Ha-Shin = became excesssive/immoderate/enormous/ exorbitant/overmuch/beyond measure, foul/bad/evil/unseemly/ indecency/abominable, lewd/gross/obscene, committing excess which is forbidden, transgress the bounds/limits, avaricious, adultery/fornication.
اس موضوع پر بھی ہمارے پاس ایک کلیدی آیتِ مبارکہ موجود ہے جس کا جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ Rational Translation تمام قدیمی دھوکے اور فریب کو صاف کرتا ہوا، قرآنِ حکیم کی ایک پاک اور منزّہ صورت ہمارے سامنے لے آئیگا۔ نیز یہ ترجمہ اس موضوع کی تمام متعلقہ آیات کے درست تراجم کی راہ بھی ہموار کر دے گا ۔
یہ آیت اس لیے چنی گئی ہے کہ ہمارے مرکزی موضوع "زنا" سے جوڑی جاتی ہے اور انتہائی احمقانہ "دانش" کے ساتھ یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ " زنا" کی سزا کے لیے چار عدد گواہان ضروری ہیں،،،،،جب کہ اس لفظ کا یہاں "زنا" سے کوئی تعلق ثابت ہی نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک احمق ترین انسان بھی یہ ادراک و شعور رکھتا ہے کہ جنسی اختلاط کا عمل انتہائی خلوت میں سر انجام پاتا ہے اور اس پر چار شاہدین کا موجود ہونا بھی تقریبا" ناممکنات میں سے ہوتا ہے ۔ دراصل فاحشۃ کا لفظ صرف زنا کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ کھلی بے حیائی کی باتوں یا حرکتوں کو یا ایک بدکردار، غیر مہذب اور لچر عمومی رویے کا وسیع معنی رکھتا ہے۔ یہ ایسا عمومی رویہ ہوتا ہے جس پر مرتکب کے ملنے جلنے والوں یا اسے دیکھنے والوں میں سے چار شہادتیں آسانی سے بہم پہنچائی جا سکتی ہیں ۔ مثلا" صنفِ مخالف سے اشارہ بازی کرنا،،،پبلک میں دعوتِ گناہ دینا،،،، جسم کے پوشیدہ حصوں کی نمائش کرنا،،،،لوگوں کی موجودگی میں فحش کلامی کرنا جس سے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں، اور ان سب حرکات سے بڑھ کر،،،،، دین کے کسی بھی معاملے میں زیادتی اور حدود فراموشی سے کام لینا،،، وغیرہ، وغیرہ۔
فحش کو زنا کی ذیل میں لانا اور اس جرم پر چار شہادتوں کی شرط لاگو کرنے کا عمومی مقصد ہمارے ان "پاکباز اور متقی" علماء کے نزدیک کیا تھا؟؟؟ ہماری ناقص عقل میں تو یہی آ سکتا ہے کہ یہ حضرات چاہتے تھے کہ وہ خود اور ان کے مربی بادشاہانِ وقت ،جتنا چاہیں فعلِ زنا کا ارتکاب کرتے رہیں اور ان پر گرفت کرنا اس لیے ناممکن رہے کہ چار گواہ کہاں سے لائے جائیں گے !!!! بعد ازاں اس قرآنی تحریف اور فقہی تاویل کا فائدہ دیگر بدکرداروں کو بھی مل گیا !!! پس مقام عبرت ہے عقل و شعور رکھنے والوں کے لیے! دیکھیے پہلے اِن مذہب کے ٹھیکیداروں کا لغو ترجمہ:-
آیت 4/15: وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿١٥﴾ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔
مودودی : تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
جالندھری : مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دےیا خدا ان کے لیے کوئی اور سبیل پیدا کرے۔ اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نیکو کار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
احمد رضا خان : اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا لے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔ اور تم میں جو مرد عورت ایسا کریں ان کو ایذا دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نیک ہو جائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
(غور فرمائیں اس کھلے تضاد پر کہ حصہ اول میں دی گئی آیت 24/2 میں زانی اور زانیہ کی سزا سو (100) جلدہ مقرر کی جا رہی ہے، اور یہاں موت تک گھروں میں بند کر دینا ۔۔۔ نیز وہاں کسی گواہی کا ذکر بھی نہیں، اور یہاں چار افراد کی گواہی بھی ہے۔ یہ تضاد کسی بھی مترجم و مفسر کو نظر ہی نہیں آیا۔ )
اور اب دو ترقی یافتہ تراجم :
علامہ اسد : اور تمہاری اُن عورتوں کے لیے جو غیر اخلاقی روش کا گناہ کریں، اُن پر اپنے میں سے چار ایسے لاؤ جنہوں نے ان کا گناہ دیکھا ہو،،،اور اگر وہ شہادت دیں تو محدود کر دو گناہ گار عورتوں کو ان کے گھروں میں یہاں تک کہ موت انہیں لے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے (توبہ کے ذریعے)۔ اور سزا دو دونوں پارٹیوں کو۔ لیکن اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں، تو انہیں چھوڑ دو، کیونکہ، اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحمت نچھاور کرنے والا ہے۔
علامہ پرویز : اگر تمہاری عورتوں میں سے کسی سے ایسی بے حیائی کی حرکت سرزد ہو(جو زنا کی طرف لے جانے کا موجب ہو سکتی ہے) تو ان کے خلاف اپنے میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ اس کی شہادت دیں (اور جرم ثابت ہو جائے) تو ان عورتوں کو باہر آنے جانے سے روک دو تا آنکہ انہیں موت آ جائے یا خدا کا قانون اُن کے لیے ایسی صورت پیدا کردے جس سے وہ اس قسم کی حرکات سے رک جائیں۔ مثلا" اگر وہ شادی شدہ نہیں تو ان کی شادی ہو جائے (زنا کی سزا کا ذکر 24/2 میں ہے اور تہمت لگانے کا 24/4 میں) ۔ اور اگر دو مرد اس قسم کی حرکت کے مرتکب ہوں توانہیں (مناسب) سزا دو۔ لیکن اگر وہ اپنے کئے پر نادم ہو کر اس سے باز آجائیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کرو۔ اللہ کے قانون میں معافی کی گنجائش بھی ہے (جو اکثر حالات میں جرم کی روک تھام کا موجب بن کر باعث) رحمت بن جاتی ہے۔ (مفہوم القرآن)۔
بحث :
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پہلے تین روایتی تراجم میں تو فحش حرکات کو سیدھا سیدھا "زنا" ہی فرض کر لیا گیا، ،،،،،،حالانکہ وہاں ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا، کیونکہ کسی مرد کا ذکر ہی نہیں تھا ۔ کہا یہ گیا تھا کہ " تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ مرد کے بغیر جنسی فعل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، اس لیے اگر یہ جنسی فعل ہوتا تو صرف عورتوں کا ذکر نہ ہوتا، بلکہ عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکرِ خیر ہونا لازمی تھا ۔ اور دونوں کو سزا دی جاتی ۔۔۔۔،،،،، اور پھر وہی دیرینہ سوال؟؟؟ کہ اس انتہائی پرائیویٹ عمل کی شہادت میں چار گواہ کہاں سے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟ ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب کسی بھی "بزرجمہر" یا "الہامی دانش" کے حامل علامہ کے پاس نہیں ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ یہ کوئی اور ہی عمل ہے۔ اور پھر یہ کہ "اللذان" کو کوئی مرد و عورت کہ رہا ہے، کوئی دو مرد اور کوئی مجموعی انداز میں مرد کی پوری صنف!
دیگر دو ترقی یافتہ تراجم میں البتہ فحش حرکات کو فحش حرکات تک ہی محدود رکھا گیا ۔ بہت بڑی "پیش رفت" کی گئی !۔۔۔۔۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی انتہا پسندی کا وہی عالم ہے کہ صرف فحش حرکات کی بنا پر "موت تک قیدِ تنہائی" جیسی سنگین ترین سزا بآسانی لاگو کر دی گئی ؟؟؟؟ کیا کوئی بھی قرینِ عقل انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اِس جرم کی سزا اس قدر وحشیانہ اور ظالمانہ بھی ہو سکتی ہے؟؟؟ اور پھر یکدم اس انتہائی سزا سے واپس نیچے آتے ہوئے، متبادل میں یہ بھی کہ دیا گیا کہ،،،،،، شاید اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل نکال دے،،،،،جیسے کہ "اگر وہ شادی شدہ نہیں، تو ان کی شادی کر ا دی جائے"(اُستاد علامہ پرویز)۔ ۔۔۔۔۔؟ خدا کے واسطے! آخر کیا وجہ تھی کہ یہ "نرم" سزا پہلے ہی مرحلے میں کیوں نہ تجویز کر دی گئی؟؟؟ ۔۔۔۔پہلے تو آپ نے انہیں تنہائی میں مر جانے کی "انتہائی سزا" دے ڈالی!!! ۔ ۔ ۔تو اس کے بعد آپ کی یہ فرضی نرم "سبیل" کیسے نکلے گی اور کیسے لاگو ہوگی؟؟؟ ۔۔۔۔۔اور کون جیالا "مردِ مومن" ایک موت تک قید کی سزا یافتہ مجرمہ عورت سے جو "زنا" کی جانب دعوت دینے کی مجرم ہے، شادی کرنے کی قربانی دے گا؟؟،،،،،، اور پھر ساری زندگی دونوں معاشرے کی طعن و تشنیع بخوشی سنتے اور برداشت کرتے رہینگے؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا یہاں ایک بات بھی قرینِ عقل ثابت ہوتی ہے؟ قارئین خود ہی فیصلہ فرمائیں۔
حالانکہ معاملہ بہت ہی آسان اور سادہ تھا، اور ہمارے عظیم خالق نے اپنے انتہائی اعلیٰ ادبی اسلوب میں اسے یوں سلجھا دیا تھا :-
آیت 4/15: وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿١٥﴾ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔
"تمہاری خواتین میں سے جو بے حیائی پر یا حدود فراموشی پر مبنی حرکات (الْفَاحِشَةَ )کرتی ہوئی سامنے آئیں (يَأْتِينَ) تو ان پر اپنے لوگوں میں سے چار عدد کی گواہی حاصل کرو ۔ اگر وہ شہادت دے دیں تو انہیں اس جرم کے سدباب سے متعلقہ اداروں میں محبوس کر دو (امسکوھن فی "البیوت") تاکہ یہ مخصوص ذلت آمیز زندگی(الْمَوْتُ) ان کی کمیاں اور کمزوریاں دور کر کے ان کا کردار مضبوط کر دے (يَتَوَفَّاهُنَّ )، یا حکومتِ الٰہیہ اُن کی بہتری کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے ۔ اور تم میں سے ایسے دو مرد (الّلذان) جو باہم بے حیائی کی حرکتیں کرتے سامنے آئیں (یاتیٰنہا) تو انہیں تکلیف دہ سزا دو۔ پھر اگر اپنی روش سے واپس آ جائیں اور اصلاح پکڑ لیں تو ان سے اعراض برتو، کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی جانب واپس رجوع کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے۔ "
اہم الفاظ کے معانی :
بیت ؛ البیت : بلند اور قابلِ احترام فیملی/خاندان Nobility ؛ محترم ادارہ؛ جیسے البیت المال ۔ وہ ادارہ جو مالیات پر اتھارٹی رکھتا ہے۔وغیرہ ، وغیرہ۔ گھر؛ وہ جگہ جہاں رات گذاری جائے؛ رات کی سوچ بچار۔
موت؛ الموت : مرنا، گذر جانا، ایک برباد اور محروم زندگی؛ حسیات سے محرومی؛ دانش سے محرومی؛ ساکت، خاموش، بے حرکت ہو جانا؛ سونا، بے روح ہونا، تکلیف کے احساس میں کمی ہو جانا، زمین کا خشک ہو جانا، رُک جانا، تھک کر ختم ہو جانا؛ غریب ہونا؛ ذلیل ، کمین، قابلِ نفرت، واہیات ہو جانا؛ غیر تابعدار اور سرکش ہو جانا؛ نیچ، حقیر، مؤدب ہو جانا؛ لچکدار، نرم، ڈھیلا، آرام دہ ہو جانا، جذبے یا زندگی سےخالی ہو جانا۔
Miim-Waw-Ta = To die, to pass away from the earthly life, to be destitute or deprived of life, deprived of sensation, deprived of the intellectual faculty, to be still/quiet/motionless, to be calm/still, to sleep, lifeless, to be assuaged, dried up by the earth, to cease, wear out/be worn out, to be poor/reduced to poverty, abject/base/despicable/vile, disobedient or rebellious, lowly/humble/submissive, to be soft/loose/flabby/relaxed, lack spirit or life.
وفیٰ؛ توفیٰ : آخر تک پہنچ جانا؛ کسی کے وعدے کا پورا کرنا؛ کسی بھی مصروفیت کی تکمیل کر دینا؛ قرض ادا کر دینا؛ وعدے کی تکمیل کرنا؛ مرنا؛ مکمل ادائیگی، یا ادائیگی کی تکمیل کرنا؛ کسی کو بھر دینا، کمی کمزوری، محرومی کو پورا کر دینا۔
Waw-Fa-Ya = to reach the end, keep ones promise, fulfil ones engagement, pay a debt, perform a promise. tawaffa - to die. wafaat - death. To pay in full, to fulfill.
آخر میں ایک ضروری وضاحتی نوٹ:
درج بالا تحقیق میں ایک خاص موضوع پر قرآنِ حکیم کی ایک حقیقی اور منزّہ صورت دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس سلسلے میں استعمال شدہ الفاظ اور ان کا متعین کردہ مادہ زیرِ بحث لا کر درحقیقت ماضی کے سازشی التباس کے پردے چاک کرنے کی مخلصانہ سعی کی گئی ہے۔ اس کاوش سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ خدا نخواستہ فعل زنا کے نہایت سنجیدہ تخریبی پہلو کی اہمیت کوکم کرنے کی کوئی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔۔۔۔ فعلِ زنا دراصل اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ "جوڑے – pair" کے تخلیقی اصول سے انحراف ہے۔ ایک ذرے سے لے کر انسانی حیات تک ہر تخلیق جوڑوں یعنی Pairs میں ہی پیدا کی گئی ہے اور جوڑے سے مراد ہمیشہ دو اصناف کا ایک ایک واحد یونٹ ہی ہوتا ہے۔ یعنی ایک جمع ایک مل کر ہی ایک جوڑا کہلاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک جمع دو،،،،یا پھر ایک جمع تین یا چار ،،،،کو ایک جوڑا کہا جا سکے۔ حیاتِ انسانی میں بھی عورت اور مرد کی ایک جمع ایک اکائی مل کر ہی جوڑا بنتا ہے اور اس طرح انسانی ذات اپنی تکمیل کا حصول کر لیتی ہے۔ یہ رفاقت ایک اہم اور سنجیدہ ، پوری عمر پر محیط، باہم جڑی ہوئی زندگی گذارنے کے لیے ایک قانونی معاہدے کے تحت ہی عمل میں آنی چاہیئے۔جسمانی لذت کا حصول اس کا ہدف نہیں بلکہ اس کا انعام ہے، اور انسانی نسل کا تسلسل اس کا مطلوب و مقصود ہے ۔ بصورت دیگر، آزاد سیکس، اور متعدد پارٹنرز، جس کا ہدف جسمانی لذت ہو، زندگی کا توازن بگاڑ کر انسانی ذات کے انحطاط کا باعث بھی بنتا ہے اور انسان معاشرے کی حدود کو توڑ کر دنیا میں بھی مجرم بنتا ہے، اپنے ضمیر کے سامنے بھی، اور اپنے خالق کی عدالت میں بھی۔ استادِ محترم علامہ پرویز نے آزاد جنسی فعل کے مہلک اثرات پر بڑی بصیرت افروز تحریریں سپردِ قلم کی ہیں جن کا مطالعہ آپ کو بلا حدود و قیود جنسی ملاپ کے قوموں اور تہذیبوں پر مرتب ہونے والے خوفناک نتائج و عواقب سے پوری طرح آگاہ کر دے گا۔ اس ناچیز کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ وہاں اگر کوئی پہلو تشنہ رہ گیا تھا، تو وہ کمی اس ناچیز نے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ ما حصل یہی ہے کہ جس طرح دیگر گناہ و معصیت اور حدود فراموشی "اثم" یعنی انسانی ذات کے "انحطاط" کا باعث ہوتی ہے، وہاں زنا کی حدود فراموشی بھی انسانی ذات کے توازن کو بگاڑ کر اسے ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار کر دیتی ہے۔البتہ قرآن کے متن میں جہاں اس لفظ کو دانستہ زان کی اصطلاح پر مسلط - "Super-impose" کر دیا گیا تھا، جس سے متعلقہ ترجمہ غیر عقلی اور غیر منطقی شکل اختیار کر چکا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُس بگاڑ کو دور کر دیا گیا ہے۔ فاضل دوستوں کی رائے کا منتظر رہوں گا۔
- Hits: 3168
اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2015
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر24
Thematic Translation Series Installment No.24
اقم الصلوٰۃ کے مجوزہ اوقات
THE PRESCRIBED TIMINGS TO ESTABLISH THE DIVINE DISCIPLINE
قرآنِ حکیم کی جدید تحقیق میں دلچسپی لینے والے اذہان کے لیےاقامت الصلاۃ کے اوقات سے متعلق
چند نہایت اہم آیات کے روایتی تراجم پر بحث و دلائل اور انکا جدید ترین عقلی /شعوری ترجمہ :
حصہ اول
آیت 17/78 -79:
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿٧٨﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾
پہلے ملاحظہ فرمائیں روایتی ترجمہ ۔
ابو الاعلیٰ مودودی :
"نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو، کیونکہ قرآن ِ فجر مشہود ہوتا ہے۔"
علامہ اسد :
Be constant in (thy)prayer from the time when the sun has passed its zenith till the darkness of night, and (be ever mindful of its ) recitation at dawn; for, behold, the recitation (of prayer) at dawn is indeed witnessed (by all that is holy).
بحث:
یہاں ناقابلِ تاویل و تردید انداز میں اقمِ الصلوٰۃ کا مقصد،،،،، "لِدلوک الشمس" ،،،،،قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی "دلوک الشمس کے لیے" ۔ فرمایا ہے کہ دلوک الشمس "کے لیے" اقم الصلوٰۃ کا عمل کرو۔۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ "دلوک الشمس" کوئی بڑا مقصد ہے جس کے لیے "اقم الصلوٰۃ" کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کے احکامات کی پیروی کا ضابطہ یا نظام قائم کرو ،،،اس لیے کہ،،،،دلوک الشمس ،،،، کے مقصد کا حصول کیا جائے۔ پس واضح ہے کہ یہاں دلوک الشمس کوئی بھی وقت یا زمانہ نہیں ہو سکتا بلکہ ایک مقصد ہے۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ ایک مقصد ہے، تو یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں "شمس" سورج کے لیے نہیں بلکہ استعارے کے طور پر "شان یا عروج"(glory) کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ "سورج" کا حصول تو کوئی منطقی مقصد نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی یہاں صلوٰۃ کا معنی "نماز" ہو سکتا ہے، کہ نماز "پڑھنے" سے سورج کا حصول تو ہمیشہ سے ہی سیدھا سیدھا"وہم و خیال و قیاس و گمان است" والا معاملہ ثابت ہو چکا ہے۔ دلوک الشمس ایک مرکبِ اضافی ہے، یعنی "شمس کا دلوک" ۔ شمس یعنی شان یا عروج کا "دلک یا دلوک" سے مراد ،،،،،شان یا عروج کے حصول کے مقصد کا سختی سے تقاضا کرنا یا اس پر سختی سے زور دینا ہے۔
"الٰی غسق اللیل" سے مراد ہے کہ درجِ بالا مقصد وہاں تک حاصل کرنا ہے جہاں تک اندھیرا معدوم ہو جائے کیونکہ غسق "معدوم کر دینے" کا مستند معانی بھی رکھتا ہے ،،،،،اور،،،،
"قرآن الفجر" یعنی صبح کی روشنی کو،،، "قرآن" ،،،یعنی کھینچ کر سامنے لے آیا جائے ۔ قرآن کا معنی ،،،،سامنے لے آنا، نمودار کرنا بھی ہے۔(to bring forth, to draw forth, to cast forth)۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام روایتی و جدید مفسرین و مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت یہی زور دیا ہے کہ یہاں یا تو۔ ۔ ۔ ۔ "سورج کے زوال کے وقت" نماز پڑھو کہا گیا ہے،،،،،یا یہ کہ ،،،،،الصلوٰۃ کا نظام سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ ، یعنی پورے دن کے دوران، قائم کرو ۔ "لِ دلوک الشمس" کا ابتدائی "ل" سب نے ہی نہایت مجرمانہ طور پر نظر انداز کیا، جس سے مراد۔ ۔ ۔ "کے لیے" ، "کی خاطر" ۔ ۔ ۔وغیرہ ہوتا ہے۔ پس یہاں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ "نماز سورج کے زوال کےوقت" پڑھو،،،،، یا "نظامِ صلوٰۃ سورج کے زوال یا حرکت کے ساتھ" قائم کرو۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ اس طرح "لِ" کو صریحا" نظر انداز کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ "نماز سورج کے زوال کے لیے" پڑھو،،،،یا ،،،،"نظام صلوٰۃ سورج کے زوال کے لیے، یا سورج کی چال یا حرکت کے لیے" قائم کرو۔۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ بے ربط اور بے معنی ہو کر قرین عقل ہی نہیں رہتا۔ پس لازم ہے کہ "الشمس" کا لفظی نہیں بلکہ استعاراتی معنی لیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس کام کو "ابتدائے شب " کے دوران بھی کرو ۔ حالانکہ یہاں لفظ "الیٰ" غسق اللیل ہے۔۔۔۔ "غسق اللیل واقع ہو جانے تک"۔ یعنی یہاں بھی اپنی ذاتی فہم یا مرضی ، یا پھر اندھی تقلید، استعمال کی گئی اور زبان دانی کے اصولوں کو خاک میں ملایا گیا۔
پھر یہ بھی لکھا گیا کہ "قرآن" کو "فجر" کے وقت پڑھا کرو (قرآن الفجر)،،،،، کیونکہ زیادہ سمجھ میں آتا ہے ۔ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ جسے صبح کے وقت پڑھنے کی فرصت ہی حاصل نہیں، اسے قرآن سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا، ،،، یا کم سمجھ میں آئیگا ؟؟؟ یعنی قرآن کا صرف "صبح " کے ساتھ ہی ایک احمقانہ تال میل بنا دیا گیا ۔ یوں قرآنِ حکیم کا دن یا رات کے بقایا اوقات میں پڑھنا بے کار و لا حاصل بنا دیا گیا، اور عقل کی فاتحہ پڑھ لی گئی۔ حالانکہ یہاں پھر ایک عدد مرکبِ اضافی ہے ۔ یعنی "الفجر کا قرآن"۔۔۔۔پو پھٹنے کی روشنی کا، ،،یا،،،دن کی روشنی کا ،،،کھینچ کر سامنے لے آنا۔ یہاں "دن یا صبح کے طلوع کا پڑھنا یا مطالعہ" ،،،،،یا "دن یا صبح کا قرآن"،،،، کیسے قرین عقل ہو سکتا ہے؟؟؟؟ قرآن نہ تو دن کا ہوتا ہے نہ ہی صبح کا ! یہ تو ایک ہمہ وقتی استفادے کا ضابطہِ کردار یا ہدایت نامہ ہے۔
پھر یہ بھی کہ "فتھجد بہ" سے نمازِ تہجد خواہ مخواہ اخذ کر لی گئی اور ایک توہم پرست امت پر بالجبرمنڈھ دی گئی۔ جبکہ یہاں سابقہ جملے کی مطابقت میں جہالت کے اندھیروں (اللیل) ہی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اِن کے ہوتے ہوئے نہایت ہوشیار اور خبردار رہو، جاگتے رہو۔ بھلا سارے دن کی انقلابی مہمات کے بعد تھکے ہوئے انسان کو ، جو نہ جانے کتنی رات گئے سویا ہے، اگر آدھی رات کے بعد پھر ایک بار کسی نماز کے لیے اُٹھا لیا جائے، تو اگلے دن وہ بے چارہ کس محنت یا نئی مہم کے قابل رہ سکتا ہے؟ رات کی نیند لینا تو انسانی زندگی کا فطری تقاضا ہے، اور خرچ کی گئی توانائیوں کو بحال کرتا ہے۔ اور پھر ، خدا کےلیے، یہاں وہ کون سا لفظ ہے جو کسی نماز یا عبادت پر محمول کیا جا سکے؟
تو آئیے عہدِ ملوکیت کی ان طفلانہ ،،،یا،،،، خواہش پرستانہ لغویات کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے ، اب خالص علمی تحقیق کے ذریعے ایک ایسا قرینِ عقل ترجمہ کر لیا جائے جو کسی بھی اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہوئے قرآن کے حقیقی مقصد سے مطابقت بھی رکھے، اور اس کی سچی اور پاک صورت بھی دنیا کے سامنے لے آئے۔
جدید تحقیقی اور قرین عقل ترجمہ – اردو
اللہ کے احکامات کی پیروی کے ڈسپلن کو (أَقِمِ الصَّلَاةَ ) مضبوطی کے ساتھ قائم کرو ، اس لیے کہ عروج و شان کے حصول کا مقصد حاصل کرسکو (لِدُلُوكِ الشَّمْسِ) یہاں تک کہ جہالت کے اندھیرے مکمل طور پر معدوم ہو جائیں(إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ )، اور صبحِ صادق کی روشنی کو کھینچ کر سامنے لے آیا جائے(وَقُرْآنَ الْفَجْر)۔ بے شک اندھیروں کے تسلط میں صبح کی روشنی کا سامنے لے آنا ایک بڑا نمایاں کارنامہ ہوتا ہے(كَانَ مَشْهُودًا )۔ اور جب تک جہالت کا یہ اندھیرا موجود ہے، تو اس کے معاملے میں لگاتار ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے (فَتَهَجَّدْ بِهِ) ۔ یہ تمہارے لیے ایک اضافی ذمہ داری ہے (نَافِلَةً لَّكَ )۔ تاکہ ایسا ممکن ہو جائے کہ تمہارا رب تمہیں عروج عطا کر کے ایک بلند اور قابلِ تعریف منصب (مَقَامًا مَّحْمُودًا) پر فائز فرمادے ۔
ترجمہ – انگلش
Establish firmly the submission to Divine Commandments (الصلوٰۃ) for the pursuit (لدلوک) of Glory (عروج ۔ الشمس) up to the point of total disappearance (obscuring) of darkness (غسق اللیل) and up to the drawing forth (قرآن) of the light of Dawn (الفجر). Indeed the bringing forth of the Dawn(قرآن الفجر) is always a prominently manifest phenomenon (مشھودا). And while the darkness of ignorance persists (وَمِنَ اللَّيْلِ), you must,in its midst, always remain awake and vigilant (فَتَهَجَّدْ بِهِ); it’s an additional obligation for you; so that your Lord may glorify and raise you to a highly praised status/position (مَقَامًا مَّحْمُودًا).
خاص الفاظ کے مستند معانی
دلک: دلوک: Pressing hard, urging, to discipine, try, to prove, to render, teach, to familiarize, to habituate, the act of rubbing, pressing or squeezing, eat, consume, decline, decline after midday, of the sun, the sun becomes high.، کسی مقصد کے لیے سختی سے عمل کرنا/تقاضا کرنا/منضبط کرنا/کوشش/ثابت کرنا/چھوڑ دینا/سکھانا، تعلیم دینا، مانوس کرنا، عادت ڈال دینا، رگڑنے، مَلنے کا عمل، دبانا یا بھینچنا، کھانا، استعمال/خرچ کر دینا/زوال، دوپہر کے بعد زوال، سورج کا، (سورج کا) بلند ہو جانا۔
الشمس:روشن اور با صلاحیت ہو جانا، عروج اور شان والا ہونا۔ دھوپ میں بیٹھ جانا، سورج، سونا، ماخذ، چشمہ۔ to be bright, be glorious, be sunny. shams – sun, gold, source, spring.
غسق: Ice cold darkness, watery, thick purulent matter that flows or drips, dark/murky/cold fluid; sunset and nightfall, darkness/shed tears/to become obscure.، سورج کا غروب ہونا/رات کا آ جانا، اندھیرا/آنسو بہانا/معدوم ہو جانا
اللیل: رات؛ اندھیرا / night, darkness of night, darkness.
قرآن الفجر: قرآن: to recite, to read, to compile, to collect, study, explanation, investigation, collected together, draw it, to draw forth, to bring forth; to cast forth.، پڑھنا، تکمیل کرنا، مطالعہ کرنا، بیان، واضح کرنا، تفتیش کرنا، جمع کر کے اکٹھا کرنا، کھینچ کر حاصل کر لینا، سامنے لے آنا، کھینچ کر سامنے لانا، سامنے رکھ دینا۔
الفجر: break open/cut/divide lengthwise/dawn, sunrise, daybreak.، پھاڑ کر کھول دینا/کاٹ دینا/ لمبائی میں تقسیم کر دینا/صبحِ صادق/سورج کا طلوع ہونا/دن کا نمودار ہونا
تھجد: ھجد؛ ھ ج د : to sleep watch, to remain awake
نفل : give spoil, gift, voluntary gift, a deed beyond what is obligatory.اضافی ذمہ داری،
اقم الصلاۃ - حصہ دوم
اقم الصلوٰۃ ہی کے بارے ایک اور نہایت اہم آیت ہے جسے قرآنی ساتھیوں کے مطالبے پرزیر تحقیق لایا گیا ہے۔ تمام زندہ شعور کے مالک محترم بھائیوں کے لیے اس کے پرانے معنی پر بحث اور اس کا حقیقی قرآنی پیغام کے شایانِ شان اور انتہائی قرینِ عقل ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
آیت: 11/114:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ ﴿١١٤﴾
پہلے روایتی تراجم :
ابوالاعلیٰ مودودی
"اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، در حقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔
علامہ اسد
And be constant in praying at the begining and the end of the day, as well as during the early watches of the night: for, verily, good deeds drive away evil deeds: this is a reminder to all who bear (God) in mind.
ایک مروجہ قرآنی ترجمہ:
علامہ پرویز
اپنے پروگرام کی تکمیل کے لیے تمہیں چاہیئے کہ صلاۃ کے اجتماعات کا انتظام دن کے پھوٹنے پر اور دن کے اختتام پر کرو اور رات کے ابتدائی حصے میں۔تمہارے اچھے کاموں سے پیدا ہونے والے نتائج تمہاری خطا کاریوں کے غلط اثرات کو مٹا دیں گے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ (From: Exposition of the Holy Quran by Tulu-e-Islam Trust)
بحث : (یہاں یہ یاد رہے کہ بحث صرف مروجہ تراجم کو غلط ثابت کرنے کا مقصد رکھتی ہے۔ جدید عقلی ترجمہ جو اواخر میں پیش کیا جا رہا ہے، اپنی تفہیم خود ہی کرتا ہے، کسی بھی بحث کی ضرورت کے بغیر – یہی کلامِ الٰہی کا سب سے بڑا وصف ہے، بشرطیکہ ترجمہ علم اور بصیرت کی روشنی میں کیا گیا ہو)
یہاں فرمایا گیا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو "طرفی النھار"،،،،، یعنی ،،،،"النھار کی دونوں اطراف" ،،،،،۔ اب یہاں یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ "النھار" کیا معنی دیتا ہے،،،،اور "طرف" کس قدر وسیع المعانی جہات رکھتا ہے ! نہایت ہی عامیانہ، بلکہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ "بازاری" اور "گھٹیا" ترجمہ ،،،،"دن کے دونوں سِرے" ،،، کر کے معاملہ نبٹا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ خوفِ خدا اور نہ ہی قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی اسلوب کی جانب ذرہ برابر بھی توجہ دی گئی ، نہ ہی عقل و شعور کا استعمال کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔آفرین ہے امت کے اماموں کی اس ذہنی پسماندگی پر ! آخر "دن" کے دو" اطراف " ہی کیوں؟ ۔ ۔ ۔ سارے دن کے لیےاس قیام کا آرڈر کیوں نہ دیا گیا؟۔ ۔ ۔کوئی معقول وجہ؟؟؟ ۔ ۔ ۔کوئی نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسے ایک پوجا کی رسم مان لیا گیا۔ تو پھر آخر منطقی اور قابلِ فہم طریقے سے "دن کے ابتدا اور انتہاء" کا ذکر کرنے کی بجائے دن کے"اطراف" ہی کیوں کہا گیا؟ بلکہ علامہ پرویز نے ہی کچھ پیش رفت کی اور اپنے ترجمے میں "طرفی" کے معانی میں "دن کے ابتدا اور انتہاء" کا ذکر کیا ۔ کیونکہ بات کہنے کا یہی ایک معقول طریقہ تھا۔ لیکن بات پھر بھی بن نہ سکی کیوں کہ "طرف" کا عربی لفظ ۔ ۔"ابتدا اور انتہاء" ۔ ۔ کا معانی نہیں دیتا ۔
نیزیہ مسئلہ پھر بھی موجود رہا کہ دن کے صرف دونوں اطراف ہی میں، یا دونوں حصوں میں، آخر کیا خاص بات تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔اور پھر یہ دونوں اطراف، وقت کی چند گھڑیوں میں ہی گذر کر تمام ہو جاتے ہیں ۔ کوئی بھی کوشش وقت کی ان چند مختصر گھڑیوں میں کی جائے ، یا کوئی بھی بڑی مہم چلائی جائے،،،، تو کیا نتائج پید ا کرے گی؟ ۔ ۔ ۔یہ تو ایک چھوٹا سا پارٹ ٹائم جاب ہو گیا؟۔ ۔ ۔ چند منٹ کے لیے۔ ۔ ۔ یعنی دن کی ابتدا بھی چند منٹ تک رہتی ہے،،،،اور انتہاء بھی چند منٹ بعد رات کی تاریکی بن جاتی ہے۔!!! صرف اتنی سی دیر کے لیے ہی "اقم الصلوٰۃ " کا عمل کیا جائے ؟؟؟ اور عقل و شعور کو گھاس چرنے چھوڑ دیا جائے!!!!
اور پھر "صلوٰۃ کے قیام" کو تو "طرف" کے اس ترجمے کے باعث وہی قدیمی فرسودہ ۔ ۔ ۔ "نماز کا پڑھنا " ۔ ۔ ۔ قرار دینا ہی پڑا ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام انسانی فلاح و شعوری ارتقاء کا عظیم فلسفہ ، نماز کے "پڑھنے"،،، اور پڑھنا بھی کہا ں کا ،،،،،،،،صرف اُٹھک بیٹھک پر ہی ٹرخا دیا گیا ہے،،،،، کیونکہ اکثریت کہاں جانتی ہے کہ نماز میں کیا پڑھا ، یا کیا کہا جا رہا ہے ،،،،،،،، اور یہ سب کچھ اِس حقیقتِ ثابتہ کے باوجود کہ یہ بے سُود و بے نتیجہ نماز لگ بھگ چودہ سو سال سے پڑھی جارہی ہے، اور 35 ہجری میں ملوکیت کے آغاز سے آج کے دن تک مسلم دنیا میں وہی کشت و خون، وہی طبقاتی امتیاز، وہی فرعونیت اور استحصالی سیاست، اور وہی غربت، افلاس ، جہالت، تنگ نظری، اور انسانوں پر ہمیشہ سے اپنوں اور غیروں کی غلامی مسلط ہے۔ جب کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ " اقامت الصلوٰۃ" تو وہ عظیم الشان الہامی ڈسپلن ہے جو خلافتِ راشدہ (حضرت عثمان تک) کے بعد کبھی آج کے دن تک نافذ ہی نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس کے کچھ خوشگوار اور مثبت اثرات ملّت کے منجمد اور دقیانوسی ذہنوں پر کہیں نہ کہیں تو ضرور ظاہر ہوتے !!!
اور سوچیں کہ دن میں "دو نمازیں" ۔ ۔ ۔ ایک صبح یعنی فجر اور ایک شام، یعنی مغرب۔۔۔ اگر بالفرضِ محال مان بھی لیا جائے، تو پھر صرف دو ہی نمازوں کا ایک جزوی آرڈر کیوں دیا گیا ؟۔ ۔ ۔ ۔ اگر نمازیں پانچ تھیں، تو ان کے لیے ایک جامع ، مربوط اور مکمل آرڈر کیوں صادر نہ فرمایا گیا؟۔ ۔ ۔ اور پھر آخر نمازوں کا آرڈر توڑ توڑ کر کیوں دیا جا رہا ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔کیوں کہ دوسری جگہ سے پھر ایک بار "فجر کی نماز" اور رات میں ایک اور بھی نماز ، یعنی "عشاء کی نماز " کا بھی استنباط کیا جا رہا ہے؟ (قبلِ صلاۃ الفجر،،،،،بعدصلاۃ العشاء)۔ ۔ ۔ ۔اور پھر ایک اور جگہ ایک مزید"صلاۃ الوسطیٰ" یعنی وسطی نماز۔ یا ،،،، "ظہر (اور کبھی عصر) کی نماز"،،،، مراد لی جا رہی ہے ۔ اگر یہ نماز ہی ہے، اور توڑ توڑ کر پانچ نمازوں کی جانب اشارہ ہے، تو پھر بھی آخر کیا امر مانع تھا کہ وضاحت سے اور صراحت کے ساتھ ایک بار ، اور متعدد بار بھی، پانچوں نمازوں کو انتہائی حتمی شکل میں روشنی میں لایا جاتا ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابہام اور کنفیوزن پیدا کرنے میں کیا حکمت پنہاں تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پَس صاف ظاہر ہے کہ ابہامات کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں، نہ ہی اُس ذاتِ پاک کا کلام ہے، بلکہ ہمارے ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے وہ امام ہیں جو ملوکیت کے دو نمبری اسلام کو دوام بخشنے کے لیے عقل اور منطق سے عاری تراجم اور گھٹیا تاویلات کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم رکھنے پر مجبور ہیں !!! اللہ ہی سمجھے۔
"النھار" ملامت، استرداد اور سختیوں کے تسلط کو کہا جاتا ہے ۔ بیشک نہار دن بھی ہوتا ہے، لیکن یہ لفظ اپنے محاوراتی اور استعاراتی معانی بھی رکھتا ہے جو ایک ادبِ عالی پر مبنی تحریر کے لازمی اوصاف ہوتے ہیں۔ "طرف" کو علمی اور ادبی اسلوب میں "دشمن کی صفوں کی انتہائی حدود" کو، اور ان پر " حملے" کو ، نیز سائڈ اور پہلو کو بھی کہا جاتا ہے۔
پھر "زلفا من اللیل" کا ۔ ۔ ۔" کچھ رات گذرنے پر"۔ ۔ ۔ ۔"یا ابتدائے شب" ۔ ۔ ۔کی شکل میں نہایت آسانی سے ترجمہ کر دیا گیا۔ یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی گئی کہ "زلفا" قریب آنے ، قربت، نزدیک ، اور نزدیکی اپروچ کرنے کو کہا گیا ہے اور کئی آیات اس معنی پر شاہد ہیں جن کا حوالہ نیچے مستند تراجم میں دے دیا گیا ہے۔ اور ویسے بھی "ابتدائے شب" تو ا ِن کے اپنے کیے ہوئے "طرفی النہار" کے ترجمے میں بھی، "انتہائے دن" کی رُو سے پہلے ہی سے موجود ہے ۔ کیونکہ انتہائے دن خود بخود" ابتدائے شب " ہوجاتا ہے - گو چند منٹ بعد ہی سہی۔ ۔ تو پھر کیوں ایک ہی فقرے میں دوبارہ وہی "ابتدائے شب"؟ ۔ ۔ ۔ اور رہ گئی "اللیل"، تو خواہ لیل ہو یا اللیل، ان کوتاہ نظروں کو صرف ایک ہی معنی سکھایا گیا ہے۔ ۔۔ ۔ وہی نہایت عامیانہ اور بازاری ۔۔۔۔۔ یعنی "رات" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔محاورے، استعارے، تشبیہ، یا ضرب المثل سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ۔ قرآن کے ایک ادبِ عالی کا شہ پارہ ہونے سے انہیں کوئی مطلب یا تعلق نہیں ! خدا غارت کرے ان قرآن کو غارت کرنےوالوں کو،،،،، یا پھر اپنا جذبہِ رحم حرکت میں لے آئے۔
حالیہ زمانے میں آنے والے قرآنی علماء نے، جن میں محترم استاد جناب علامہ پرویز شامل ہیں، اگرچہ اہم پیش رفت کرتے ہوئے لفظ صلوٰۃ کی تعبیر تو درست انداز میں کر دی۔ لیکن درست سمت میں تحقیق مکمل نہ کرتے ہوئے، بقایا کام کافی ادھورا چھوڑ دیا ۔ لیکن شاید یہ وقت کا تقاضا بھی تھا ۔ تکمیل اور بہتری ارتقاء کے سفر کے ساتھ ساتھ ہی اپنی انتہاء تک پہنچتی ہے، اور اس سے قبل ہر نسل کے ساتھ ساتھ بتدریج آگے بڑھتی رہتی ہے۔ کیونکہ ہم اُن کے شاگرد ہیں اور انہی کی عطا کردہ لائن کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس لیے ، بہر حال، اِس ارتقائی کاروائی کو جاری رکھنا ہمارا اور آنے والی نسلوں میں سے دانشوروں کا اور محققین کا فرضِ منصبی ہے۔کیونکہ بگاڑنے والے اتنی زیادہ ابتری اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں، اور اصلاح کا کام اتنی تاخیر سے شروع ہوا ہے، کہ ایک دو نسلوں کے لیے اس کی تکمیل ممکن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس کے لیے وقت تو درکار ہے،،،،بہت سا وقت،،،،، شاید آنیوالی ان گنت نسلیں !!!
تو پھر اس عہدِ ملوکیت کی دھوکے بازی اور لغویات کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے، آئیے اس آیتِ مبارکہ کا اس کائنات کے عظیم و برتر خالق کے شایانِ شان، جو خود اس شاندار عبارت کا متکلم ہے، ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جدید ترین تحقیقی اردو ترجمہ:
ملامت ، تردید اور سختیوں کےاِس بہتے ہوئے دھارے کے دونوں کناروں یا اطراف پر پیش قدمی کرتے ہوئے (طرفیِ النھار) اللہ کے احکامات کی اطاعت کے ضابطے کو مضبوطی سے قائم کردو (اقم الصلوٰۃ) اور اسےجہا لت کے اندھیروں کی تمام حدود کے قریب تر لے جاؤ (زلفا" من اللیل)، کیونکہ یہی وہ خوبصورت اور منفعت بخش اصول واحکامات ہیں (الحسنات) جو تمام انسانی کمزوریوں اور برائیوں (السیئات) کو رفع کر دیتے ہیں۔ یہی زندہ شعور رکھنے والے ذمہ داران کے لیے ہدایت/نصیحت/یاد دہانی ہے۔
انگلش ترجمہ:
While attacking both edges/sides of the current rapidly flowing stream of repulsion, reproach and chiding , establish firmly the Discipline embodying the pursuit of Divine Commandments, and take this mission up to close proximity of the darkness of ignorance; because this is the handsome and benificient Discipline which alleviates all human evils and weaknesses of character. For the mindful responsible people, it is but an advice and admonition.
متعلقہ الفاظ کے مستند معانی
ط ر ف = Tay-Ra-Fa = attack the extremity of the enemy's lines, chose a thing, extremity, edge, lateral/adjacent/outward part, side, border, end, newly acquired, proximity, fringes.
leaders/thinkers/scholars, best of the fruits.
Look from outer angle of eye, twinkle in eye, putting eyelids in motion, looking, glance, blinking, raise/open eyes, hurt the eye and make it water.
descend from an ancient family, noble man in respect of ancestry. دشمن کی آخری لائنوں پر حملہ کرنا، کسی چیز کو چننا، انتہاء،کنارہ، ملحقہ/کسی چیز کی اطراف/بیرونی حصہ، بارڈر، آخری سرا، کسی چیز کا نیا حصول، قربت، آخری حصے۔ قائدین/مفکرین/علماء، بیترین فروٹ/نتائج۔ آنکھ کے خارجی زاویے سے دیکھنا، آنکھ کا جگمگانہ، پلکوں کو حرکت میں لانا، نظر، نظر جھپکنا، اُٹھانا/آنکھیں کھولنا، آنکھ کو نقصان پہنچا لینا جس سے پانی رسنے لگے۔ کسی قدیمی فیملی کے وارث ہونا، نسلی طور پر اعلیٰ خاندان سے تعلق۔
ن ه ر = Nuun-ha-Ra = to cause stream to flow, repulse, reproach, flow abundantly, drive back, brow beat, chide, do in the day time, day, daytime, daylight hours (from dawn to dusk).ملامت، استرداد، ندی کا بہاؤ جاری کرنا، فراوانی سے بہنا، واپس مڑنا، تنگ کرنا، دن کے وقت کرنا، دن، دن کا وقت، دن کی روشنی کا وقت ۔
ز ل ف = Zay-Lam-Fa = draw near/close, advance, nearness/closeness/proximity.قربت، قریب لے آنا، پیش قدمی کرنا، نزدیک ہو جانا، نزدیکی ۔
Azlafnaa (prf. 3rd. p. f. plu. IV): We brought near, caused to draw near
Uzlifat (pp. 3rd p.f. sing. IV): It is brought near
Zulafan (n. acc.): Early hours
Zulfatan (n. acc.): Night
Zulfaa (v.n.): Approach; near
zalafa vb. (1)
zulfa n.f. (pl. zulaf) - 11:114, 34:37, 38:25, 38:40, 39:3
zulfah n.f. (adv.) - 67:27
اقم الصلاۃ – حصہ سوم -
یہاں اُسی اقم الصلاۃ کے مشن کو " وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ" کی اصطلاح سے بیان کیا گیا ہے۔
لیجیئے، وہی ہوا جس کا اندیشہ ہم قرآنیوں کو ہمیشہ درپیش رہتا ہے ۔
اقم الصلاۃ کا انتہائی قرین عقل ترجمہ ہمارے "خیر خواہوں" میں سے چند ایک کو پسند نہیں آیا ۔ ۔ ۔ ۔ اُسے کالعدم تو قرار نہ دے سکے، نہ ہی انشاءاللہ دے سکیں گے ۔ مگر بھرمار کر دی دیگر ہم معنی آیات کی،،،، اِس چیلنج کے ساتھ کہ ان کا بھی ترجمہ جدید علمی و ادبی انداز میں کر کے دکھائیے تو آپ کو صحیح مانیں گے ۔ (راز کی بات یہ ہے کہ صحیح تو یہ پھر بھی نہ مانیں گے)
کچھ آیات درج ذیل ہیں ۔ حسب ِ توفیق، قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی اسلوب کی مکمل ترجمانی کرتے ہوئے ترجمے کی کوشش کی ہے، اس لیے کہ ،،،،،،" شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات" ۔
سمجھنے کی بات یہاں دراصل یہ ہے کہ یہاں " مذہبیت" (religiosity) اور "نظریے"(Ideology/Idealism) کا نزاع ہے ۔ وہی تاریخی نزاع جسے حکیم الامت ، علامہ اقبال نے اسلامی فقہ کی تشکیل پر روشنی ڈالتے ہوئے ثقیل الفاظ میں استخراج (Deduction) اور استقراء (Induction) کے نام سے نشان زد کیا تھا۔ ہم یہاں ایک الہامی نظریہِ حیات کو اس کی عظیم آفاقی و انسانی اقدار کے ہمراہ پیش کر رہے ہیں ۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارے "کرم فرما" اُسی الہامی نظریے کو مسخ کرتے ہوئے، یعنی اُسکا لفظی، عامیانہ اور بازاری ترجمہ کرتے ہوئے، اُسے ایک محدود مذہبی قالب میں ڈھال رہے ہیں ۔ وہ قالب جو صرف پرستش ، زبانی حمد و ثناء ، زبانی عقائد و ایمان ،اور لا یعنی رسومات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور جہاں آپ کا عمومی سیرت و کردار اور معاشرے میں آپ کی عملی کارکردگی ایک غیر اہم یا ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
تو آئیے پہلے روایتی تراجم پر بحث کر لیتے ہیں، پھر چیلنج کو قبول کرتے ہوئے علمی و ادبی نظریاتی ترجمے پیش کر دیتے ہیں، جو "مذہبی" تراجم کے بالکل برعکس ہیں ۔ درج ذیل آیات پیش کی گئی ہیں۔
50/39-40 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿٤٠﴾ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ :
ابو الاعلیٰ مودودی:
پس اے نبی، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے۔ اور رات کے وقت پھر اُس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔ اور سنو جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے) قریب ہی سے پکارے گا۔
علامہ اسد :
“Hence, bear thou with patience whatever they
may say, and extol thy Sustainer’s limitless glory and praise before the rising of the sun and before its setting; and in the night, too, extol His glory, and at every prayer’s end. And (always) listen for the day when He who issues the call (of death) shall call (thee) from close-by.”
علامہ پرویز :
"بہر حال جو کچھ وہ تمہارے خلاف بولتے ہیں، تمہیں اس سے ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیئے۔ اپنے پروگرام پر مضبوطی سے قائم رہو۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تمہارے رب کا نظامِ ربوبیت تمام تعریفوں کے قابل ہے، تمہیں ہمیشہ سخت محنت سے کام لینا ہے (تاکہ اسے عملی طور پر قائم کیا جائے) صبح سے شام تک، رات کی تاریکی میں اور صبح ِ کاذب کے گھنٹوں کے دوران۔ (اس کے بعد دشمنوں سے ٹکراؤ ہوگا)۔ وہ دن آ جائے گا جب ایک قریبی مقام سے منادی کرنے والا جنگ کے لیے اعلان کرے گا (یعنی دشمن حملے کے لیے شہرِ مدینہ کے نواح میں پہنچ جائے گا)۔
بحث :
پہلے دونوں تراجم کہتے ہیں کہ رب کی تعریف کی تسبیح پھیرو ۔ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے ؟؟؟؟ اور پھر تیسرے ٹائم، یعنی رات کے وقت پھر تسبیح پھیرو۔ اور پھر بار بار، جب بھی سجدوں کی حرکات سے فارغ ہو جاؤ تو تسبیح پھیرنے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔ خواہ گھر میں فاقے پڑ رہے ہوں، خواہ دشمن کی فوجیں چڑھ دوڑی ہوں، اور خواہ اپنے شہروں اور گلی کوچوں میں دہشت گردی اور جرائم کا راج ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا کوئی بھی گھریلو یا قومی معاشرتی، سیاسی یا اقتصادی مسئلہ درپیش ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔بس تسبیح پھیرتے رہو ۔اور سجدے کرتے رہو۔۔۔۔ اور اس "خاص آسمانی عمل " کا دورانیہ ہر مرتبہ کتنے منٹ یا کتنے گھنٹے پر محیط ہونا چاہیئے، یہ امر ہمارے ان عدیم المثال مدبرین نے، جنہیں ہم ملتِ بیضا کے بزرگ اور اکابرین کہتے ہیں، پوشیدہ رکھا ہے،،،،،کسی خاص مصلحت کے تحت!!!
گویا کہ تسبیح میں کوئی ایسا منتر پوشیدہ ہے کہ ساری ترقی اور مرفع الحالی، اور تمام مسائل کا حل بس باری باری سجدے اور تسبیح پھیرنے سے خود کار طریقے سے سامنے آ جائیگا۔ خدا کے اِن حیوان نما بندوں (کا لانعام)کو ، جن میں ایسے ایسے عالی مرتبت نام شامل ہیں کہ نکتہ چینی کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، علم و ادراک ہی نہیں کہ بیٹھ بیٹھ کر ان کا جوڑ جوڑ کام کرنے سے فارغ ہو جائیگا ۔ کھانا ہضم ہونے سے انکار کر دے گا ۔ ٹانگیں چلنے سے رہ جائیں گی ۔ کسی کام کے نہیں رہ جائیں گے۔ معذوروں والی زندگی ہو گی جو خیرات اور صدقات پر کاٹنی پڑے گی۔ یعنی وہی جو آج مسلمان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ غیروں کی غلامی، اور اُن کےقرضوں،خیراتوں ،،، اور اُنہی کی محنت سے پیدا کی گئی ایجادات اور پروڈکٹس پر گذارا ۔
خدا کے واسطے،،،،،،،، تسبیح کا مادہ ۔ ۔ ۔س ب ح۔ ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے۔ کبھی عربی لغات اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ اس کے معانی کیا ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو گونگا، بہرا، اندھا پیدا کیا ہوتا، تو چلو کچھ رعایت بھی ہوتی ۔ عقل و شعور کی دولت تو اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز عطا کی ہے ۔ آخر آپ نے اپنی حصے کی یہ گراں بہا متاع کہاں، کس کے ہاتھ اور کن سستے داموں بیچ ڈالی ؟؟ یا اپنے سابقہ اور موجودہ ملوکیتی حکمرانوں کے پاس گروی رکھ دی تاکہ تسبیح کرنے کے وظیفے ملتے رہیں؟ ؟؟۔ ۔۔۔۔۔۔ کسی مشن کے لیے۔۔ "تمام تر قوت و وسائل کے ساتھ بر سرِ کار یا مصروف رہنے "۔۔ کے معنی کو آپ نے ایک انتہائی سُستی، کاہلی اور نا اہلی پر مبنی کام سے تعبیر کر ڈالا ؟؟؟ کبھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ،،،، کیا نبی پاک نے اپنا عظیم انسانی مشن تسبیحیں پڑھ پڑھ کر اور سجدے کر کر کے کامیابیوں سے ہمکنار کیا تھا ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیسرے ترجمے میں البتہ، اللہ کا شکر ہے کہ استادِ محترم پرویز صاحب نے اس "تسبیح" کی علّت کا خانہ خراب کیا اور کم از کم اس کا درست علمی ترجمہ "سخت محنت" کر کے اسلامی دنیا کو ایک نئی روشنی دکھائی۔ البتہ دن اور رات وغیرہ کے "اوقات کا تعین" کرنے والے معاملے میں وہ پھر اُسی پرستش و پوجا کے معاملات کی طرف اشارہ دے گئے کہ جن کے ضمن میں ہی مخصوص اوقات کا تعین کرنے کی حاجت محسوس ہوا کرتی ہے۔ اس لیے کہ کسی آفاقی آئیڈیولوجی کا پھیلاؤ اور نفاذ تو ایک ہمہ وقتی فریضہ ہوتا ہے نہ کہ مخصوص اوقات کا پابند!۔۔۔۔ یعنی یہاں اوقات کا تعین کسی صورت میں بھی لاگو ہوتا ہی نہیں،،،،،جب تک کہ کچھ پوجا پاٹ یا حمد و ثنا کی ۔ ۔ ۔ ۔ تسبیح پھیرنے یا پھر نماز پڑھنے کی مانند ۔ ۔ ۔ ۔رسومات نہ ادا کی جا رہی ہوں ! ۔۔۔۔۔۔۔تو اب آئیے ایک ترقی یافتہ علمی اور ادبی ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔"گر قبولِ افتد۔۔۔۔۔۔"۔
جدید ترین علمی و ادبی ترجمہ:
50/39-40 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿٤٠﴾ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ :
"پس جو کچھ کہ وہ لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں تم اُس پر استقامت سے کام لو اور اپنے پروردگار کی عظمت و شان کو پھیلا دینے کے مقصود کو ساتھ لیے(بِحَمْدِ رَبِّكَ) اپنے اقتدار کا سورج طلوع ہونے سے قبل (قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ) بھی پورے وسائل کے ساتھ مصروفِ کار رہو(وَسَبِّحْ )،،، اور اس سےقبل بھی کہ اُس مقصد کے دورہو جانے کا اندیشہ پیدا ہوتا نظر آئے(الغروب)۔ اور جہالت و سرکشی کی تاریکیوں کے دوران(وَمِنَ اللَّيْلِ) اسی مقصد کے لیے مصروفِ کار رہو اور مکمل اطاعت حاصل کر لینے کے بعد کے زمانے میں بھی۔ اور تم اپنی سماعتیں اُس آنے والے دور پر لگائے رکھو جب ایک منادی کرنے والاکسی قریبی مقام سے ایک خاص اعلان کرے گا۔"
ایک اور آیتِ مبارکہ بھی بھیجی گئی ہے، جو اسی سے مماثلت رکھتی ہے ۔ اسے بھی زیادہ رد و قدح کیے بغیر اُسی علمی و ادبی انداز میں ترجمہ کر دیتے ہیں جو قرآنِ عالی شان کا خاصہ ہے ۔
20/130 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ:
"پس جو کچھ کہ وہ لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں تم اُس پر استقامت سے کام لو اور جب تک تمہارے اقتدار کا سورج بلند نہ ہوجائے (قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ)اورقبل اس کے کہ وہ پھر سے رخصت ہونے یا ڈوبنےلگے ،اپنے پروردگار کی عظمت و شان کو پھیلادینےکے مقصد کو ساتھ لیے(بحمدِ ربک)مصروفِ کار (سبّح) ہو جاؤ۔ نیز جہالت کےاندھیروں کو روکنے کے لیے بھی(آناءِ اللیل) مصروفِ کار رہو(سبّح) اور ملامت ، تردید اور سختیوں کےاِس بہتے ہوئے دھارے کے انتہائی کناروں یا اطراف پر حملہ کرو (طرفیِ النھار) تاکہ تمہارے مقاصد کی تکمیل تمہیں اطمینان کی دولت عطا کردے۔"
الفاظ کے مستند تراجم
Siin-Ba-Ha =س ب ح : سبح: : to swim, roll onwards, perform a daily course, float, the act of swimming, occupy oneself in: the accomplishment of his needful affairs or seeking the means of subsistence, business/occupation, those who are floating, went/travel far, being quick/swift. To praise/glorify/hallow/magnify, sing/celebrate praise, holy, declaring God to be far removed or free for every imperfection/impurity
Ghayn-Ra-Ba : غ ر ب: غرب: = went/passed away, depart/retire/remove/disappear, become remote/distant/absent/hidden/black, withdraw, western, foreign/strange, exceed, abundance, sharpness, (maghrib = sunset), black, raven-black, setting place of the sun, the west.
Qaf-Ba-Lam = ق ب ل : قبل: to accept/admit/receive/agree, meet anyone, to face/encounter someone/something, advance/approach, before, correspond, counteract/compare/requite/compensate, the front part (12:26), accept with approval, show favour.
- Hits: 2863
اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2015
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر23
Thematic Translation Series, Installment No.23
یاجوج و ماجوج – GOG AND MAGOG
قرآنِ حکیم کے ہمیں آج تک مسخ شدہ غلط تراجم ہی ورثے میں ملے ہیں، خواہ وہ ورثہ قدیمی ہو یا حالیہ زمانے کا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساڑھے چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود بھی ہمارا نظریہ حیات الجھاووں سے بھرا ہوا ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ زیر تفتیش و تحقیق لایا جا رہا ہے۔ تفاسیر کے ناقابلِ مطالعہ بلند پہاڑ موجود چلے آ رہے ہیں ،اس کے باوجود بھی ہر شہر کے ہر تیسرے چوتھے محلے میں ایک عدد مفسر بیٹھا نہایت خلوصِ نیت سے ایک اورنئی اور سابقہ تمام کتابوں سے منفرد تفسیر لکھنے میں مشغول ہے۔سوالات، بحث و مباحث اور ایک دوسرے کی نفی، تردید یا تنقید کا سلسلہ دشنام طرازی تک، حتیٰ کہ تکفیری نعرہ بازی کی حد تک جا پہنچتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس عالیشان الہامی صحیفے سے علم و دانش کے موتی اس طرح چن کر ہماری زبان میں سامنے لے آئے کہ اس کا حقیقی بلند و بالا پیغام ہم سب کے لیے آسان فہم ہو جائے، یہ پیغام طلسماتی اوردیومالائی افسانوں سے پاک ہو جائے، عقلی علمی اور سائنسی معیارات پر پورا اتر پائے، اور اس میں کلامِ الٰہی کے اپنے متبرک و مقدس الفاظ کے ہمراہ کسی ایک بھی انسانی لفظ یا خیال کی ملاوٹ نہ پائی جائے ۔ دراصل سخت محنت اور تحقیقی مہمات ہمارے آج کے مزاج کا حصہ ہی نہیں۔
جدید علمی اور عقلی تراجم کے اس سلسلے میں درجِ بالا معیار اپناتے ہوئے یہی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے کہ "مفہوم" کے نام پر ڈیڑھ ہزار سال سے چلا آرہا التباس و اشتباہ، اور حک و اضافے کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اور قرآن اپنے اعلیٰ ادبی اسلوب کے عین مطابق دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔انتہائی سختی اور قطعیت کے ساتھ صرف متکلم کی ذاتِ عالی شان کے خالص اپنے ہی الفاظ کے اردو ترجمے کے ساتھ۔
اس ضمن میں یہ اہم نکتہ آپ کے گوش گزار کر دیا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا کہ ہمارے کچھ "دانشور" ساتھی، ہمارے بزرگوں کی زبان سے سنی سنائی منطق کی تقلید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ "قرآن کا تو ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کا تو صرف مفہوم دوسری زبانوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے"!!!! یا یہ کہ قرآن کا ترجمہ کرنا سب سے بڑی حماقت (یا ایسا ہی کچھ) ہے"۔!!! عقل کو استعمال میں لائے بغیر اس قسم کے فتاویٰ کا شوق رکھنے والے ساتھیوں کے سامنےیہ دلیل لائی جائے کہ وہ خود بھی قرآن کو "اردو زبان" ہی میں پڑھ کر سمجھتے ہیں ۔ اس لیے وہ کیسے یہ احمقانہ بیان جاری کر سکتے ہیں؟؟؟ تو اُ ن کے پاس ہٹ دھرمی کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا ۔۔ ۔ ۔ حد تو یہ ہے کہ ہر تفسیر، خواہ نئی ہو یا قدیم، عموما"
پہلے ترجمہ ہی کرتی ہے، اور پھر اس کی تفسیر کے نام پر اس کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ یعنی ترجمہ ایک لازمی امر ہے ۔ اب یہ سوال کہ اگر ترجمہ کر دیا جاتا ہے، تو پھر ہر ایک طالع آزما کو تفسیر یا تشریح یا مفہوم لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہایت اہم سوال ہے ! جواب اس اہم سوال کا نہایت آسان ہے ۔ کیونکہ ترجمہ کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں ہوتی، اور ترجمہ غیر مربوط، غیر نمائندہ ، اور غیر علمی و غیر عقلی ہوتا ہے، اس لیے پھر ایسے ترجمے کا جواز بھی پیش کرنا پڑتا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس جواز کے لیے اپنے خیالات اور اپنے ذاتی فہم کےمطابق، اور اپنی پست شعوری سطح کے مطابق، اُ سی بے ربط، عامیانہ اور دیومالائی انداز میں تشریح فرما دی جاتی ہے جو اپنی اصل میں بمعنی "تاویلات" کے ہوتی ہے۔اور یہ تشریح یا تفسیر معاملے کو قرین عقل بنانے کی بجائے مزید گنجلک کر دیتی ہے۔
آفاقی حقیقت تو یہ ہے کہ کلامِ الٰہی "للناس" یعنی تمام انسانیت کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ ضروری ہے کہ اس کا بعینہی ترجمہ، بغیر کسی تشریح و تفسیرو توضیح غیر عربی زبان بولنے والوں کے لیے ، اُن کی تمام زبانوں میں کر دیا جائے، تاکہ بجائے ایک چھوٹی سے عرب قوم کے، تمام انسانیت اس سر چشمے سے فیض و ہدایت حاصل کرے۔ اسی لیے قرآن ِ کریم 100 فیصد ترجمے کے لائق بنایا گیا ہے ۔ اسے ترجمے کے ناقابل تصور کرنا ایک یاوہ گوئی اور فضولیات کے علاوہ کچھ نہیں، جسے کوئی قرآنی سند حاصل نہیں ہے ۔ ایسی یاوہ گوئی وہی کر سکتے ہیں جن میں راست اور ہر لحاظ سے خود تشریحی اور خود مکتفی ترجمہ کرنے کی اہلیت ہی نہ ہو ،،،،،یا اُن کا مقصد ہی قرآن کے حقیقی معانی کو بگاڑ کر پیش کرنا ہو، جس کے لیے اپنے ذاتی خیالات اور نیت و ارادوں کا شامل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور یہی وہ بے ایمانی سے بھرپور کام ہے جسے تفسیروں یا مفاہیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب قرآنی اصطلاح یاجوج و ماجوج ہی کی مثال ملاحظہ فرمالیں کہ بجائے اس کے کہ حقیقی علمی ترجمہ درج بالا معیارات سے مطابق رکھنے والا ہو، لیکن اس کے برعکس ہمیں آج تک ایک ایسا لایعنی اور غیر مربوط ترجمہ پڑھایا جاتا رہا ہے جس میں میتھولاجی یعنی قدیمی دیو مالا پوری طرح کارفرما ہے۔ اور "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" والا معاملہ درپیش ہے ۔ پہلے کچھ مروجہ تراجم آپ کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں جو اپنی رُوداد خود اپنی زبانی پیش کر رہے ہیں ۔ قرآن میں یہ اصطلاحات صرف دو مقامات پر مندرج ہیں اور تصریف الآیات کے قیمتی اصول کے مطابق ایک مقام دوسرے کی خود ہی تشریح و توضیح کر دیتا ہے ۔ دیکھیے روایاتی تراجم کی چند مثالیں :-
سورۃ الانبیاء: 21/95-96:
وحرام علیٰ قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون(95) حتیٰ اذا فُتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون(96)۔
مولانا مودودی: اور ممکن نہیں ہے کہ جس ہستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے۔ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے۔
فتح محمد جالندہری: اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کر دیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے۔ یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہوں۔
احمد علی: اور جن بستیوں کو ہم فنا کر چکے ہیں ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئیں۔ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔
محمد جونا گڑھی: اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔
علامہ اسد: پس یہ ناقابلِ تردید طور پر سچ ہے کہ کوئی معاشرہ جسے ہم نے کبھی تباہ کیا ہو کہ وہ (ایسے لوگ ہیں جو) کبھی واپس نہیں آئیں گے (اپنی گناہ آلود راہوں سے) ۔ اُس وقت تک جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں (دنیا پر) اور وہ ہجوم کرکے (دنیا کے) ہر کونے سے نکل پڑیں۔
علامہ پرویز : اس کے برعکس جن قوموں کی صلاحیتیں نشوونما پانے سے رُک جاتی ہیں، وہ تباہ ہو کر زندگی کی شادابیوں سے محروم رہ جاتی ہیں اور پھر لوٹ کر (مرفہ الحالی کی طرف) نہیں آ سکتیں۔ ۔ البتہ اس کی ایک شکل یوں ہو جاتی ہے کہ جب قوت و شوکت کی مالک تیز خرام قومیں اپنے ملکوں سے نکل کر ان پس ماندہ اقوام کے ملکوں میں ڈیرے ڈال دیں، تو کچھ عرصہ کے بعد بطور رد عمل ان کمزور قوموں میں زندگی کی حرارت ابھر آتی ہے اور وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے مصروفِ تگ و تاز ہو جاتی ہیں ۔ اس سے انہیں دوبارہ زندگی مل جاتی ہے۔
درج بالا تراجم میں آپ دیکھیں گے کہ صرف آخری ترجمہ بقلم استاد علامہ پرویز ہی کافی درجے میں معقولیت کا حامل ہے، لیکن پھر بھی ان کے ذاتی فہم پر مبنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ذاتی فہم کو شامل کرنے کی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔۔باقی تو سب الّا ماشاءاللہ ہی ہیں ۔ سَروں کے اوپر سے گذر جانے والے ہیں ۔یہ آسانی سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ خود مترجمین کو ترجمہ کرتے وقت یہ مکمل ادراک تھا کہ ان کے ترجمے عقل کے کسی بھی معیار پر پورے نہیں اُترتے، کیونکہ مکمل طور پر بے معنی ہیں۔ پھر بھی ان حضرات نے ان میں کوئی قرینِ عقل معنی پیدا کرنے کے لیے مطلوبہ تحقیق یا محنت کرنا گوارا نہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون یاجوج و ماجوج؟ ۔ ۔ ۔ ۔آخر کہاں پائے جاتے ہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس پنجرے میں قید ہیں جہاں سے "کھول" دیے جائیں گے؟۔ ۔ ۔۔ اور پھر اس خیالی مخلوق کے بلندیوں سے اُ تر کر حملہ آور ہونے سے کیسے "ہلاک کی گئی" قومیں دوبارہ زندگی پا جائیں گی؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسی بہت سی خیالی قومیں موجود ہیں، جو ہر پستی میں گر جانے والی قوم کے ساتھ ایسا کریں گی؟؟؟؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یوروپین اقوام نے تو، سبھی جانتے ہیں، کہ کرہ ارض کی تمام پستیاں اور بلندیاں دریافت کر لی ہیں اور اس قماش کی کوئی پنجروں میں بند قوم کسی بھی "بلندی" پر ان کے مشاہدہ میں نہیں آئی، جہاں سے یہ ا ُتر کر کبھی حملہ آور ہوگی!۔ ۔ ۔ نیز اگر یہ قوت و شوکت کی مالک قوموں کے حملوں کا ذکر ہے (اُستادعلامہ پرویز)، تو آج تک تو ایسی قوموں کے غلام بنائے ہوئے لوگوں میں کوئی بھی حرارت اُبھرتے ہوئے نہیں دیکھی گئی ۔یوروپین قوموں کی غلامی تین صدیوں سے مسلط ہے۔ اور کسی بھی حیاتِ نو کی بجائے یہ غلام قومیں آزاد ہوجانے کے باوجود معاشی اور عسکری اور تہذیبی غلام ہیں اور مسلسل ذلتوں کے تاریک غار میں گرتی جا رہی ہیں۔ منگول قوم کے حملوں کو بھی لگ بھگ آٹھ صدیاں بیت چکی ہیں، اور ان کے تاخت و تاراج کرنے کے بعد دوبارہ اُٹھ کھڑا ہونا تو کجا، خلافتِ اسلامیہ کا شیرازہ بالکل ہی بکھر گیا ۔ طوائف الملوکی کے باعث جگہ جگہ خود مختار مملکتیں اُبھر آئیں جو آپس میں دست و گریباں رہیں ۔ سلجوقیوں کی غلامی، ممالیک سلاطین کی غلامی، ، عثمانی ترکوں کی غلامی، سلطنتِ ایران کی از سرِ نو حکمرانی اور خودمختاری، کابل و سمرقند اور ہندوستان میں الگ خودمختار مستبد حکومتیں اور پھر مآ لِ کار،،،،، یوروپین اقوام کی طویل غلامی، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
اور اب ملاحظہ فرمائیں سیاق و سباق کے مطابق حقیقی علمی ترجمہ جس میں وضاحت و تشریح کےنام پر ایک بھی غیر قرآنی لفظ یا خیال پیش نہیں کیا گیا، لیکن جو سارا معاملہ ایک طبعی قانون کی شکل میں آسانی سے بیان کر رہا ہے :-
وحرام علیٰ قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون(95) حتیٰ اذا فُتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون(96)۔
اور ممنوع ہو جاتا ہے ایسی بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا یعنی پستی میں گرا دیا ہو(اھلکناھا) کہ وہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آ سکے(یرجعون )، جب تک کہ ایسا نہ ہوجائے کہ ان کے تمام فسادی لوگوں [یاجوج و ماجوج] پر فتح پا لی گئی ہو (فُتحت) اور انہیں تمام اونچے مقامات و مناصب (حدب )سے اُکھاڑ کر ٹکڑے کر کے پھینک دیا جائے(ینسلون )۔
اب اس جدید ترین ترجمے کو تمام سابقہ تراجم سے موازنہ کر کے چیک کر لیا جائے ۔ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں ۔
براہِ کرم چیک کریں : مودودی، صحیح انٹرنیشنل، پکتھال، یوسف علی، شاکر، محمد سرور، محسن خان، آربری، جالندھری، علامہ اسد، علامہ پرویز۔ سب کے ہاں آپکو سمجھ میں نہ آنے والا،،،،، دیو مالائی،،،،، یا غیر منطقی ،،،،،،یا خود ساختہ مفہوم کا حامل ،،،،،ترجمہ نظر آئیگا جو یاجوج ماجوج کا معنی نہیں جانتا۔ حالانکہ وہ قرآن میں ہی سورۃ کہف میں بآسانی سمجھا دیا گیا ہے ۔ مزید بر آں ، بلا استثناء سب کے ہاں "فتحت" کا معنی "کھول دینا" ہی فرض کر لیا گیا ہے جب کہ اس کا معنی فتح پانا، تسخیر کر لینا، شکست دے کر زیرِ نگوں کر لینا وغیرہ بھی ہے جو تمام لغات میں مندرج ہے اور قرآن سے بھی ثابت ہے، اور اس جگہ نہایت قرینِ عقل تعبیربھی دے رہا ہے۔ لیکن ہماری روایت ہے کہ ہمارے پاس ہر عربی لفظ کا ایک ہی معنی موجود ہے، وہ جو ہمیں ہمارے دو نمبر کےملوکیتی اسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ اُس سے آگے ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔
دیکھیں سورۃ کہف (18/94):
"قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ۔"
"اے ذی القرنین، درحقیقت یاجوج و ماجوج زمین میں فساد پیدا کرنے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔"
یہاں اللہ تعالیٰ خود ہی واضح فرما رہے ہیں کہ "یاجوج و ماجوج" محاورہ ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے والے طاقتور طبقات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں اس کے یاجوج ماجوج موجود ہوتے ہیں۔ اور وہ بڑے بلند مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں وہاں سے بزور کھینچ کر باہر لا پھینکنا ہوتا ہے۔ تب ہی قوم دوبارہ ترقی اور مرفع الحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
مکمل آیت اس طرح پیش کی گئی ہے : ۔ قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ فھل نجعلُ لک خرجا علٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدا (94)۔ قال ما مکّنّی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوّۃ اجعل بینکم و بینھم ردما (95)۔
ترجمہ: " انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں فساد پیدا کرنے والے گروہ ہیں جنہوں نے ہماری زمین کے امن کو برباد کردیا ہے۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ہمیں ان سے الگ کرنے کےلیے کوئی روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ بہت بھرپور ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں تمہارے اور اُ ن کے درمیان جو معاملہ ہے اُس کا سد باب کر دیتا ہوں ۔
لیکن بلا استثناء تمام قدیم و جدید مفسرین نے اسے ایک منفرد قوم سمجھ کر اس کے مادے سے عجیب و غریب مطالب اخذ کیے ہیں اور اس اصطلاح کوکسی بڑی اور خاص خیالی قوم سے منسوب کر کے معاملے کو ابہامات سے بھر دیا ہے۔ سب نے ہی بائبل (تورات) کی کتب "حزقی ایل" اور "کتابِ مکاشفات" سے لے گئے اسی اصطلاح کے، قیاسات پر مبنی، ہزاروں سال قدیم اور حیرت اور استعجاب سے بھرپور دیومالائی معانی کو بغیر سوچے سمجھے درست مان کرقرآن میں بھی استعمال کر لیا ہے۔ اور خود اپنی عقل کواستعمال کرنے کی بجائے گھاس چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ اِ ن سبھی نے ہمیشہ سے موقف بھی یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ انجیل و تورات تو محرف کتابیں ہیں! کوئی پوچھے کہ بھائی صاحب، پھر کیوں آپ نے اندھوں کی مانند ان محرف کتابوں کے کیے ہوئے تراجم سے یاجوج و ماجوج کی قیاسی تعبیر مستعار لے کر من و عن قرآن پر تھوپ دی ہے ؟؟؟ یعنی تضادات سے کھیلنا ہمارے اِ ن پسماندہ لکھاریوں کی فطرتِ ثانیہ ہے ۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یاجوج و ماجوج کی تفسیریں ایسی گھڑی گئی ہیں کہ خود ساختہ تاویلات سے بیسیوں صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس " ماورائی قوم" کی تعریف و تعبیر قلمبند کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے ہیں ۔ حالانکہ ہم اور یہ سبھی مفسرین بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن کے ترجمے میں خود سے، یا اِدھر اُدھر کے قیاسات کی مدد سے، ایک لفظ کا اضافہ کرنا بھی ناقابلِ معافی جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔ پس ہمارے اس قماش کے تراجم تو ہیں ہی "سبحان اللہ" ، لیکن ہماری جملہ موروثی تفاسیر تو اس جرم و گناہ کی زندہ اور بھاری بوجھل " وارداتیں" کہلانے کی مستحق باور ہوتی ہیں۔
فاعتبرو یا اولی الابصار!!!!
براہِ کرم مطالعہ فرمائیے : قرآن کے سلسلہ وار "موضوعا تی" تراجم کی قسط نمبر (22) – حضرت موسیٰ کا تربیتی سفر، حضرت خضر کی ہمراہی، ذو القرنین کےکارنامے ۔ سورۃ الکہف سے ماخوذ (آیات 60 سے 99)"۔ لنک : ebooks.i360.pk ۔
خاص الفاظ کے مستند معانی :
ن س ل : نسل: ینسل: ینسلون: پیدا کرنا، پرورش کرنا، باپ (بچے)
فعل: نوچ کر اکھاڑ لینا، باہر نکال دینا، ریشہ ریشہ کر کے علیحدہ کر دینا، چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دینا، مذمت/ملامت/لعنت کرنا، گرہ کھولنا
ح د ب: حدب: نمایاں طور پر ابھرا ہوا، بلند کیا گیا، اونچے مقام پر فائز، نشوونما یا ترقی یا پرورش یافتہ۔ بڑھ کر بلندی حاصل کیا ہوا۔
N s l : نسل : to beget, procreate, sire, father (children)
Verb: to pluck out; to pluck, to ravel out, unravel(to open a knot), to fall out, to separate into fibers, to shred, undo, to fall out; to imprecate (offensive words).
H d b : حدب : noun: protuberant; raised high, elevated, grown up; grown high.
- Hits: 2556
اورنگزیب یوسفزئی جون 2015
قرآن کےسلسلہ وار "موضوعاتی" تراجم کی قسط نمبر (22)
حضرت موسیٰ کا تربیتی سفر، حضرت خضر کی ہمراہی، ذو القرنین کے کارنامے
سورۃ الکہف سے ماخوذ(آیات 60 سے 99)
قرآنِ کریم کے موضوعاتی تراجم کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان تراجم کی اساس اور کسوٹی عقلیت پر مبنی جدید ترین علوم ، اور انسان کے شعوری ارتقاء کی موجودہ بلند ترین سطح کو ٹھہرایا گیا ہے۔ عہدِ ملوکیت کے تحت ،ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا مقصد رکھنے والی قرآنِ حکیم کی وضع کردہ قدیم و جدید تفاسیر۔۔۔۔۔۔جو حقیقی دین اللہ کی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کی منہ بولتی تصویروں کا روپ پیش کرتی ہیں۔۔۔۔۔ اور ان تفاسیر کے تابع تیار کردہ وہ تمام تراجم ----جو اسلام کے ماتھے پر داغِ تذلیل سجانے کا سامان رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ان میں ملاوٹ کردہ توہمات، اسرار و افسانے اور دیگر تمام غیر منطقی عناصر کی مکمل تطہیر کی سمت میں خالص غیر جانب دارانہ اور مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات کے اُس مجموعی آفاقی پیغام سے، جو کہ فقط ایک اعلیٰ انسانی قدروں پر مبنی سیرت و کردار کی تعمیر کا نقیب ہے، ایک حقیقی مطابقت قائم رکھنے کو راس المال ٹھہرایا گیا ہے۔ کیونکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بند عامیانہ لفظی تراجم کرنے کی سدا سے رائج بدعت نے قرآن کے ادبِ عالی پر مبنی متون کی شکل و صورت ایک ایسے وسیع پیمانے پر بگاڑ دی ہے کہ اسے تعلیم یافتہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیشہ معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے،،، اور اس کے جواز کے لیے متعدد غیر عقلی تاویلات پیش کرنا پڑتی ہیں،،، اس لیے اس قدیم زمانے سے رائج سازشانہ غیر علمی معیار و غیر ادبی طریقِ کار کے استعمال کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
اس مرتبہ تین یکے بعد دیگرے وارد ہونے والے اہم موضوعات پر ارتکاز کیا گیا ہے جن کے آج تک دستیاب تمام تراجم و تشریحات زمینی حقائق پر پورے نہیں اُترتے اور اس سبب سے وہ قرآن میں واقع "ناقابلِ فہم" مضامین میں شامل کیے جاتے ہیں ۔ وہ موضوعات درجِ ذیل ہیں :-
اولا"، "حضرتِ موسیٰ کی ایک سفری مہم کی روداد"، ،،،
ثانیا"، اسی سفر کے دوران "ایک برگزیدہ شخصیت کی معیت ، اور اس معیت میں پیش آنے والے کچھ واقعات کے ذریعے حصولِ علم"،،،،
اور ثالثاّ"، "ایک افسانوی تاریخی شخصیت، ذی القرنین" کے کچھ کارنامے، جن کی ذیل میں یاجوج و ماجوج کا حوالہ بھی سامنے آتا ہے۔
عمومی دستیاب تراجم میں محیر العقول واقعات کا ذکر
دستیاب روایتی تفاسیر و تراجم بلا استثناء حضرت موسیٰ کے کسی بے مقصد اور ناقابلِ فہم زمینی سفر کا بیان رقم کرتے ہیں ۔ایک نامعلوم نوجوان کا ساتھ۔ کسی غیر معلوم مقام پر دو دریاؤں یا سمندروں کے ملاپ کا ذکر(مجمع البحرین) ۔ سفر کے دوران کسی "مچھلی"(حوت) کا کہیں پیچھے بھول آنا ۔ یہ سوچنا کہ مچھلی کو بھول جانے کے عمل کا ارتکاب شیطان نےکروایا تھا۔ "ناشتہ " طلب کرنا۔ اسی مچھلی کا پانی میں واپس لوٹ جانا، گویا کہ وہ زندہ ہو گئی ہو۔ حضرت موسیٰ کا ناقابلِ فہم انداز میں یہ کہنا کہ یہی تو ہم چاہتے تھے؟ بعد ازاں اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کا راہ میں ہمسفر ہو جانا۔ اس بندے کو ایک افسانوی کردار، حضرتِ خضر علیہ السلام قرار دیا جانا۔ پھر اسی کردار کے ہاتھوں چند غیر معمولی اعمال کا بلا جوازسرانجام پانا ۔ حضرت موسیٰ کا احتجاج کرنا اور حضرتِ خضر کا بار بار انہیں ساتھ چھوڑ دینے کا انتباہ کرنا ۔ بالآخر دونوں حضرات کا جدا ہو جانےکا فیصلہ کرلینا اور حضرت خضر کا اپنے انہی خاص اعمال کی تاویل پیش کرنا ۔ اس کے فورا ہی بعد ایک دیگر موضوع کے تحت ذو القرنین اور اس کے کردار اور کارناموں کا ذکر ۔ذو القرنین کا "سورج کے غروب ہونے کے مقام" تک سفر۔ اسی طرح اس کا "سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک" پہنچ جانے کا ذکر۔ کسی مفسد قوم ، یاجوج و ماجوج، کا ذو القرنین کی مدد سے سدّ باب۔ ایک مفروضہ ، پگھلی ہوئی دھات پر مبنی، دو پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی، رکاوٹی دیوار کی احمقانہ تیاری کا اجمالی ذکر۔
عیسائی ماخذات اور تاریخی پسِ منظر
سورۃ کہف ہی میں واقع "اصحابِ کہف" کے واقعہ کی مانند ۔۔۔۔۔۔جو کسی غار میں "سونے والوں " کی عیسائیت کے لٹریچر سے درآمد شدہ معجزاتی کہانی کی وضاحت کرتاہے، (سورۃ کے اس حصے کا قرینِ عقل، ادبی و علمی ترجمہ، تراجم کے اس سلسلے کی قسط نمبر 21 کے تحت جاری کر دیا گیا ہے جس کا انٹرنیٹ پر لنک یہ ہے :- http://ebooks.rahnuma.org/cgi-bin/shbkpage.pl?bkid=1431171397 ) ۔۔۔۔۔۔ "ذو القرنین" کا واقع بھی اپنا ماخذ عیسائیت کے مذہبی لٹریچر ہی میں رکھتا ہے ۔ یاجوج و ماجوج کا بائبل میں مندرج حوالہ (Gog and Magog) بھی اسی ذو القرنین کی کہانی سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی ماخذ سے مشتق ، ذوالقرنین کے بارے میں تاریخی تناظر کے ساتھ بہت سی عیسائی روایاتی کہانیاں ، کچھ نہ کچھ اختلافِ متن کے ساتھ نبیِ پاک ﷺ کی اسلامی تحریک کی جدوجہد کے دوران مشہورِ عام تھیں ۔ جس انداز میں حضور ﷺکے علم کا امتحان لینے کے لیے یہود و نصاریٰ نے اصحابِ کہف کے بارے میں بحیثیتِ نبی آپ کی معلومات کو جانچنے کی کوشش کی تھی، اسی کی مانند وہ ذو القرنین کے بارے میں پھیلی ہوئی مذہبی کہانیوں پر بھی حضور کے علم کو آزمانا چاہتے تھے اور سوالات کیا کرتے تھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس ضمن میں باخبر کرنے کے لیے چند موٹے موٹے حقائق سے آگاہ کر دیا جو بعد ازاں اہلِ کتاب کے سامنے بیان کر کے ان کی تسلی و تشفی کر دی گئی ۔ بیشتر مسلم مفسرین و مورخین نے بھی، ایک قرینِ عقل ترجمہ کرنے کی بجائے، انہی عیسائی مذہبی کہانیوں سے متاثر ہو کرقرآن میں ذو القرنین کے ذکر کو یونانی فاتح سکندر اعظم سے منسوب قرار دے دیا ۔ لیکن اسے سکندر اعظم قرار دینے میں سب سے بڑی قباحت یہ پیش آتی رہی کہ قرآن ِ حکیم میں ذو القرنین کو خدائے واحد کا ماننے والا ایک صالح بندہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جب کہ سکندر یونانی تو حتمی طور پر دیوتاؤں پر ایمان رکھتا تھا ۔ اسی عدم تطابق کے پیش نظر کچھ مسلم مفسرین نے مسئلے کا حل یہ دریافت یا ایجاد کیا کہ یہ ذکر سکندر یونانی سے متعلق باور نہ کیا جائے، بلکہ اسے قدیم ایرانی شہنشاہ سائرسِ اعظم کی جانب اشارہ قرار دے دیا جائے۔ یہ وہ سائرسِ اعظم ہے جس کی رحم دلی کے باوصف یہودی قوم کو یروشلم سے Nebuchadnezzar II of Babylon) ) شاہ نبوکد نضار، یا "بو نصر"کے ہاتھوں ملی چھٹی صدی قبل مسیح کی عظیم تاریخی جلا وطنی (Jewish Diaspora) کے عذاب سے نجات حاصل ہوئی تھی، اور جس نے انہیں عرا ق (بابل) سے یروشلم لوٹ جانے کے لیے آزادی اور آسانیاں فراہم کی تھیں۔ بہر حال قرآن میں بیان کردہ یہ واقعہ، کسی نہایت با وسائل اور صاحبِ ایمان بادشاہ ، جس کا نام قرآن نے مروجہ روایات کے عین مطابق"ذو القرنین" ہی درج کیا ہے، کے علاوہ کسی بھی دیگر کردار کی جانب کوئی راہنمائی نہیں کرتا۔ عمومی طور پر ذو القرنین کو قدیم عیسائی لٹریچر میں "دو سینگوں والا"(The Two-horned One) کہا جاتا ہے، جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ بادشاہ ایسا تاج سر پر پہنتا تھا جس میں دو سینگ بنے ہوئے تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت موسیٰ کے سفر کے دوران ساتھ دینے والے نوجوان کا نام عیسائی لٹریچر میں Joshua یعنی "یوشع بن نون" بتا یا گیا ہے ۔ یہ وہ مسلّمہ تاریخی کردار ہے جو حضرت موسیٰ کا نائب تھا اور آپ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کا لیڈر اور سپہ سالار بنا ۔
استعاراتی تراجم کی کوششیں
ہم یہاں روایتی تراجم کو تو زیر بحث لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے کیوں کہ اُن تراجم کی رُو سےتو قرآن کا مافی الضمیر آج کے دن تک روشن نہیں ہو پایا ۔جبکہ قرآن رمز و ایمائیت سے بھرپور ایک ایسا اختصار نویسی کا شاہکار ہے جو اپنے اختصار کے پردے میں بھی الہامی حکمت اور معنی و بیان کے مفصل اور بے حد و نہایت خزانوں سے بھرا پڑا ہے۔روایتی لفظی تراجم کا انداز تو بدنیتی پر مبنی نادانی، کم فہمی اور کوتاہ اندیشی کاایک کھیل ہے جو کبھی وہم و گمان میں بھی قرآنی حکمت کے خزانوں تک پہنچ جانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ یوں بھی آج کے مصروف دور میں تحریروں کے سلسلے میں طوا لت سے گریز کرنا ایک بہتر روش سمجھی جاتی ہے ۔
تاہم عہدِ جدید کے کچھ مترجمین کی کوششوں پر کچھ نہ کچھ روشنی ڈالنا نہایت اہم سمجھا گیا ہے ۔ ان فاضل مترجمین نے زیرِ بحث عربی متون کا مفہوم اور ربط و تسلسل اپنے حیطہِ فہم و ادراک میں نہ آ سکنے کے باعث ان کا استعاراتی یا مجازی مفہوم متعارف کرانے کی اپنی اپنی کوششیں کی ہیں۔ لاہور کے ایک حال ہی میں مرحوم ہو جانے والے نامور عالمِ قرآن کے نظریات سے متاثر ہونے والے انہی کے شاگردوں میں سے ایک گروپ نے ،انہی کوششوں کے تحت ، حضرت موسیٰ کے ذکر کو "حضرت موسیٰ کی قوم" کےذکر سے تعبیر کیا ہے ۔ اسی مفروضہ تھیوری کی تطبیق میں اُن کے سفر کو ،،، "اُن کی یہودی تہذیب کا عصری سفر"،،، تعبیر کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ جو بتدریج عیسائی تہذیب کے منصہِ شہود پر آجانے کے زمانے کی جانب طے کیا گیا۔ مچھلی (حوت) کی بھی تمثیلی و استعاراتی تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضرت خضر باور کیے جانے والے بزرگ سے ملاقات کوموسوی تہذیب کا غالب طور پر عیسائی تہذیب سے، بلکہ بعض مواقع پر حضرت محمدﷺ سے ملاپ یا ملاقات تصور کیا گیا ۔ بالآخر ذو القرنین کے ایک یکسر مختلف موضوع کو اسی کہانی کے تسلسل سے بلا جواز جوڑتے ہوئے، اُس کی شخصیت کو بھی ، دُور از کار قیاس آرائیاں کرتے ہوئے،حضرت محمدﷺ کی شخصیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی حضرت محمد کے دور میں پہنچ جانے پر سابقہ دونوں مذہبی گروپس کو، یعنی یہودی و عیسائی تہذیبوں کو، سورۃ کہف کے اس متن کے حوالے سے، ایک طول طویل عصری سفر کے تناظر میں اسلامی تہذیب میں مدغم کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نوعیت کی علامتی یا تمثیلی تعبیرات کی رُو سے، مذکورہ موقر عالمِ قرآن کے نظریات کی مطابقت میں لاہور کے اس ذیلی مکتب نے "ذو القرنین" کا معنی دو قرنوں، یا دو زمانوں اور تہذیبوں کو ملانے والا ، یعنی رسالتمآب ﷺ کی شخصیت کو قرار دیا ہے۔
اس نوعیت کا جوڑ توڑ ایجاد و اختراع کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر حضرتِ خضر اور ذوالقرنین ، دونوں مجازی شخصیات سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد، یا صرف حضرت محمدﷺ بذاتِ خود ہی ہوتے، تو پھر آپ رسالتمآب کا اپنے ہی بارے میں مذکور ان تاریخی واقعات سے لاعلم ہونا،،،، اور اللہ تعالیٰ کا اُنہیں پہلی بار اس موضوع پر معلومات بہم پہنچانا،،،،، کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے ؟؟؟ نیز، انہیں خود ذو القرنین ہوتے ہوئے بھی، ذو القرنین ہی کے بارے میں ایک غائب کے صیغے میں (as a third person) اسے ایک غیر شخصیت مانتے ہوئے، لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے کچھ معلومات سے آراستہ کیوں کیا جاتا؟؟؟ یعنی خودماضی کے واقعے کے ایک کردار (ذو القرنین) کو قدیمی صحیفے سے نکال کر موجودہ زمانے میں موجود ایک شخصیت کی شکل میں بارز کرنا ،،،،،،اور اُس شخصیت کو اُسی کی ذات کے بارے میں ماضی کی کچھ کہانیاں سنانا،،،،، تاکہ وہ سوالات کرنے والوں کو جواب دے سکے،،،،، اس سارے طریق کار میں عقل و خرد کا دخل کہاں سے پایا جائے گا؟ ؟؟ یہ بھی بڑا سوال ان فاضل مترجمین کے اذہان میں نہ اُبھرا کہ قرآن میں خود حضور ﷺ سے، سوالات کے جواب میں، یہ کیوں نہ کہلوایا گیا کہ "وہ ذو القرنین تو خود میں ہی ہوں" اور یہ "میرا ہی ذکر ہے" ؟؟؟؟ ظاہر ہے کہ حقیقتِ حال ایسی ہرگز نہ تھی۔اور فقط اندھیرے میں بلا جواز ایک بے تُکا تیر چلایا گیا ۔
قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ کے اس امکانی تحصیل علم کے تجرباتی سفر کو،،،، خواہ مخواہ پوری یہودی تہذیب کا "عصری سفر" ،،،،قرار دینے کی آخر ضرورت کیا تھی، جبکہ حضرت موسیٰ نے توقرآن کی رُو سے واقعی خود کو علم و عرفان کے سفروں کی بھٹی سے گذارا، اور ایک بیش قیمت تجربات و کار ہائے نمایاں سے بھرپور زندگی بسر کی ۔ اور اس کا حتمی ثبوت خود قرآن نے بزبانِ متکلم حضرت موسیٰ سے یہ کہ کر پیش کر دیا کہ :
(20/40) وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴿٤٠﴾ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي
"ہم نے تمہیں بہت سے امتحانوں کی بھٹی سے گذارا۔ بعد ازاں تم نے زندگی کے بہت سے برس مَدیَن کےخطے کے لوگوں کے درمیان بھی بسر کیے ۔ اِِن تمام تربیاتی مہمات کے بعد ہی ، اے موسیٰ، تم ہمارے پیمانے پر پورے اُترے ۔ پس پھر ہم نے تمہیں خاص اپنی خدمات کے لیے چن لیا "۔
راقم الحروف تو ، درجِ بالا قرآنی سند کی روشنی میں، صرف اسی ایک تجزیے تک پہنچ سکتا ہے کہ یہ فاضل مترجمین قرآن کی مجموعی تعلیم کے تناظر کو سامنے نہ رکھ سکنے کے باعث اُس کے متون کا ایک قرار واقعی اور مکمل نمائندگی کرنے والا ترجمہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ ۔۔لہٰذا اُن کی اس کمزوری نے، انہیں ایک انتہائی دور از کار مجازی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اور اس تحقیقی کام کے دوران وہ اپنے اس انداز کے خلاف موجود قرآنی ثبوتوں اور حقائق کا خاطر خواہ احاطہ نہ کر سکے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ ایک مجازی یا استعاراتی ترجمے کو بھی ہر حال میں قرآن کے الفاظ سے ایک انتہائی اصولی سختی کے ساتھ وابستہ و پیوستہ رہنا ضروری ہے۔
ایک اور تمثیلی بیانیہ حضرت موسیٰ کے سفر کو ان کی قبل از نبوت، روحانی یا "باطنی" تعلیم و تربیت کا سفر قرار دیتا ہے، جہاں انہیں ایک مرشدِ کامل کی ضرورت پڑنے پر حضرتِ خضر علیہ السلام سے ملا دیا جاتا ہے۔ پھر جو بھی حوادث وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ سب ان کی روحانی تربیت کے ضمن میں مختلف مراحل تصور کیے جاتے ہیں ۔ کشتی میں سوراخ کر دیا جانا دراصل شاگرد کے دل میں اپنے استاد کی عظمت کا اُتر جانا ہے ۔ ظالم حاکم جو کشتیاں ضبط کر لیتا ہے ، دراصل شیطان ہے جو روحانیت کا سفر میں رکاوٹ (hinderer) بن جاتا ہے۔ گرتی ہوئی دیوار، جسے سہارا دے کر قائم کر دیا جاتا ہے، اس دیوار کے نیچے خزانہ "معرفت" کا خزانہ ہے ۔ دو یتیم بچے "طریقت" اور "شریعت" کا علم ہیں ۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بھی ایک خاصی مجہول الحال اور صوفیانہ رحجانات کی عکاس، تخیل کی بے تکی بلند پروازی ہے ۔
تاہم ان تمام جدید تعبیرات میں سب سے نمایاں قباحت یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام اِن مترجمین حضرات کےذاتی نظریات ہی باور کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ یہ نظریات صرف اُن مترجم حضرات کے مباحث میں،،،، یا تراجم کے تابع جن تفسیرات کا عموما" ذاتی تصورات و ذاتی فہم کی بنیاد پر اضافہ کیاجاتا ہے، اُن میں بیان کیے گئے ہیں ۔۔۔۔اور قرآنی الفاظ سے کوئی مس یا ربط ہرگزنہیں رکھتے ۔ ایسی کوششیں کرنے والے سب لوگ فقط قرآنی الفاظ کے معانی کی رُو سے ، یا اُن الفاظ کے کسی اعلیٰ و ارفع خالص ادبی ترجمے کی رُو سے، اپنے ان ذاتی نظریات کی وثاقت بالکل بھی ثابت نہیں کر پائے ۔۔۔۔۔ یعنی مذکورہ تمام استنباطات قرآن کی حاکمیت کو بروئے کار لائے بغیر، ،،،،اُس کے اپنے متن کےالفاظ کے عقلی، علمی و ادبی تراجم کی رُو سے نہیں، ،،،بلکہ صرف ذاتی تصرف کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں۔ ۔۔اس لیے نہ تو قرینِ عقل ہیں اور نہ ہی کوئی سند رکھتے ہیں ۔
جدید عقلی و علمی (Rational) ترجمے کی مہم:
تو آئیے اب اس واقعے کا ، قرآن کے عظیم (Classical) ادبی اسلوبِ بیان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، عقلی اور منطقی نچوڑ پر مبنی تحقیقی ترجمہ سامنے لانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ہر حال میں قرآن کی حاکمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اُس ہی کے الفاظ کے ساتھ من و عن پیوستہ رہتے ہوئے، ایسے قرین عقل معانی تلاش کرنے کی سعی کی گئی ہے جو الہامی عبارت کا ایک روشن اور واضح ما فی الضمیر سامنے لا سکیں۔۔سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ سکیں۔۔۔ نیز قرآن کے مجموعی پیغام کے ساتھ مطابقت ثابت کردیں ۔بات کو سمجھانے کے لیے ذاتی خیالات یا تصورات کے اظہار یا استعمال کی یہاں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی، بلکہ حسبِ سابق اس عمومی طور پر رائج ، لیکن اللہ کی جانب سےممنوعہ رحجان کی مکمل نفی اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔(اس ضمن میں دیکھیے راقم کاحالیہ مضمون "تحقیقِ تفاسیرِ قرآنی - تفسیر نویسی ایک فن یا حدود فراموشی کا جرم"۔ انٹرنیٹ پر لنک یہ ہے : http://ebooks.rahnuma.org/cgi-bin/shbkpage.pl?bkid=1431171384
یہ ترجمہ قرآن کےایک جزء کو اس کے خالص حقیقی معانی میں آشکار کرنے کی ایک جدید اور ترقی یافتہ کوشش ضرور ہے، لیکن اسے "حرفِ آخر" یا "قولِ فیصل" وغیرہ،،، یا اسی قماش کی کوئی دیگر چیز، ہرگز قرار نہیں دیا گیا ۔بلکہ اس کے برعکس ، قرآنی تراجم میں خالص علمی تحقیق کرنے والے فاضلین کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ اپنی قیمتی آراء سے آگاہ فرمائیں۔ کوئی بھی واضح غلطی نظر آئے تو باوثوق سند کے ساتھ تصحیح فرمائیں۔ کسی بھی سہو و خطا کی تمامتر ذمہ داری بلا جھجھک قبول کرتا ہوں۔
کھوکھلی تنقید اور لا یعنی اعتراضات و سوالات کی بجائے، بہتر ہوگا کہ زیرِ نظر کاوش سے بڑھ کر کی گئی کوئی تحقیقی کاوش، یعنی زیرِ بحث قرآنی متن کا اُردو زبان میں ایک اِس سےبھی برتر اور ارفع طریق پر نمائندگی کرنے والا کوئی ترجمہ پیش کرنے کی علمی کوشش کی جائے۔۔۔۔ کہ یہی ایک تعمیری رویہ ہے۔پس یہ عاجز کسی بھی علمی راہنمائی کے لیے از حد شکر گذار ہو گا۔
یہاں یہ یاد رہے کہ قصہِ "ذو القرنین" ایک علیحدہ حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کا کوئی واقعاتی تعلق اس سے فوری ما قبل میں مذکورسابقہ "سفرِ موسیٰ" کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ہاں یہ البتہ واضح ہے کہ قرآن کےمجموعی پیغام کے ضمن میں دونوں قصے ایک ہی سیاق و سباق رکھتے ہیں۔ قرآن میں اِس مخصوص مقام پر ذو القرنین کا یہ قصہ تو صرف اُس معروف کہانی کے چند حقائق کی درستگی اور اثبات کے لیے مندرج کیا گیا ہے جو ما قبل ہی سے رائج العام تھی اور جس کے بارے میں حضور کے علم کو پرکھنے کے لیے سوالات کیے جاتے تھے ۔ ورنہ یہ دونوں علیحدہ اور منفرد واقعات ہیں ۔ بہر حال، دونوں کا سبق ایک ہی ہے یعنی اللہ کے راستے میں جدو جہد اور اس کے نیک نتائج ۔ ۔۔ بنا بریں، ہمارے دورِ جدید کے مذکورہ بالا عقلی مترجمین کی جانب سے دونوں واقعات میں اشتراک پیدا کرنے اور ان کی باہم جڑی ہوئی تشریحات پیش کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ۔ البتہ اِس درجِ ذیل ترجمے کی کاوش میں ذو القرنین کےمتعلق بیان کردہ واقعات کا اس کےموضوع کی مناسبت سے قرآنی تعلیمات کے سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جانے والا معانی پیش کرنے کی پوری سعی کی گئی ہے ۔ اس ترجمے میں جس بھی اہم لفظ کے معانی پر اختلاف محسوس ہو، مضمون کے اواخر میں دیے گئے اُس لفظ کے مستند معانی کی پوری وسعت ملاحظہ فرما لیں۔
تمہید
سورۃ الکہف مجموعی طور پر ایمان نہ لانے والوں اور بد فطرت انسانوں کے لیےان کی بداعمالی کی بنیاد پر عذاب کی وارننگ اور صالح فطرت ، اللہ کی راہ میں جدو جہد کرنے والوں کے لیے اجر کی بشارتوں کی بات کرتی ہے – اس میں شامل اصحابِ کہف کا پہلا واقعہ بھی خیر و شر کی کشمکش کا قدیمی واقعہ تھا جس میں آخری فتح اور انعام اللہ کا پیغام بلند کرنے والوں کے لیے مختض کیا گیا ہے ۔ اسی ضمن میں یہاں بھی اللہ کے کچھ دیگر با اختیار بندوں کی شر کے خلاف اور خیرِ عمومی پر مبنی سبق آموز مہمات کا ذکر ہے ،جن میں ایک قدیمی تاریخ سے تعلق رکھنے والی شخصیت، ذو القرنین کے کارناموں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ شَر کا سدّ باب ، مغرور اور شیطانی اعمال کے مرتکبین کی سزاؤں کا ذکر، اور غلط کار معاشروں کے زوال پذیر ہوجانے کی وعید کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اسی ضمن میں حضرت موسیٰ کی ایک مہم کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ جو اسطرح بیان کی گئی ہے :-
ترجمہ:
آیات 18/59 سے 18/61
و تلک القریٰ اھلکناھم لما ظلموا و جعلنا لمھلکھم موعدا (59) و اذ قال موسیٰ لفتاہ لا ابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین او امضی حقبا (60) فلمّا بلغا مجمع بینھما نسیا حوتھما فاتّخذ سبیلہ فی البحرِ سَرَبا (61)
اور یہ وہ انسانی آبادیاں تھیں جنہیں عدل و انصاف کا خون کرنے (لما ظلموا) کی بنا پر ہمارے قوانین نے زوال کا شکار (اھلکناھم)کر دیا کیونکہ اِن قوانین کے مطابق ان کے زوال کا وقت مقرر و متعین ہو گیا تھا۔ پھر اسی ضمن میں یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنے نوجوان نائب سے یہ کہا تھا کہ میں اپنی جدوجہد سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا(ابرح) جب تک کہ اُس مرحلے تک نہ پہنچ جاؤں(ابلغ)کہ قوم کے دو دھڑوں میں واقع افتراق و تقسیم (البحرین )کو ایک جماعت یا وحدت کی شکل میں(مجمع) نہ لے آؤں۔ یا بصورتِ دیگر اس کام کی تکمیل کے لیے پوری توجہ کے ساتھ ، رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے(حقبا) آگے بڑھتا رہوں(امضی) ۔ پس ان کوششوں کے نتیجے میں آخرِ کار جب دونوں گروہ اپنے درمیان(بینھما) ایک اتحاد کے قیام کی منزل (مجمع) تک پہنچ گئے(بلغا) تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ دراصل دونوں فریق اپنے نصب العین یا تعلیمات و ہدایات (حوتھما) کو فراموش کر چکے تھے ۔ لیکن بعدازاں، حضرت موسیٰ کی کوشش اور جدو جہد کے نتیجے میں، ان ہی تعلیمات نے افتراق و انتشار والے ان معاملات میں اپنا راستہ بنا کر بہ عجلت تمام(سَرَبا) اپنے قدم جما لیے۔
آیات 18/62 سے 18/64 تک :
فلَمّا جاوزا قالَ لفتاہ آتنا غداءنا لقد لقینا من سفرِنا ھذا نصبا (62) قالَ ارایتَ اذ اوینا الی الصخرۃِ فانّی نسیتُ الحوتَ و ما انسانیہُ الّا الشیطانُ ان اذکُرہُ ۔ و اتّخذَ سبیلہ فی البحرِ عجبا (63) قال ذٰلک ما کنّا نبغِ ۔ فارتدّا علیٰ آثارھِما قَصََصا (64)
اس کے بعد جب موسیٰ اور ان کا نائب اِس مرحلے سے گذر گئے(جاوزا )، تو موسیٰ نے نوجوان ساتھی سے کہا کہ اب ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل (غداءنا) ہمارے سامنے لاؤ ۔کیونکہ ہم اب اپنے اس سفر کے حوالے سے(من سفرِنا ھذا) اپنا نصب العین اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ساتھی نےیاد کروایا کہ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا تھا کہ جب ہم نے اپنے اس مشن کی تکمیل کی خاطر سختی ا ور ثابت قدمی کے رویے کو اپنی ڈھال اور پناہ بنایا تھا (اوینا الی الصخرۃِ) تو اس وقت میں بھی وقتی طور پر اس نصب العین (الحوتَ) کو بھول گیا تھا ۔ اور ان خدائی تعلیمات کو سوائے سرکشی اور جارحیت کے جذبات کے(الشیطانُ) اور کون بھلا سکتا ہے تاکہ وہ پیشِ نظر ہی نہ رکھے جا سکیں(ان اذکُرہُ)۔ تاہم اُن الہامی تعلیمات نے تفریق و انتشار کے اس بحران میں بھی حیران کن انداز میں قوم کے درمیان اپنا راستہ پکڑ لیا ، یعنی اپنے قدم جما لیے ۔ اس پر موسیٰ نے اطمینان ظاہر کیا کہ یہ تو بعینہی وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، یا جو ہمارا مشن و مقصد تھا(ما کنّا نبغِ) ۔ بعد ازاں وہ دونوں اپنے سابقہ راستے کی جانب واپس لوٹے ۔
آیات 18/65 سے 18/70 تک :
فوجدا عبدا من عبادنا آتیناہ رحمۃ من عندنا و علّمناہ من لّدنّا علما (65) قالَ لہُ موسیٰ ھل اتّبعک علٰ ان تعلمنِ مما علّمتَ رشدا (66) قالَ انّکَ لَن تستطیع معی صبرا (67) و کیف تصبرُ علیٰ ما لم تحط بہ خبرا (68) قالَ ستجدُنی ان شاء اللٰہ صابرا و لا اعصی لَکَ امرا (69) قال فانِ اتّبعتنی فلا تسالنی عن شیء حتّی اُحدث لکَ منہُ ذکرا (70)
پھر ایسا ہوا کہ انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک ایسا برگزیدہ بندہ مل گیا جسے ہمارے جانب سے وسائل و اسباب کی فراوانی(رحمۃ) عطا ہوئی تھی اور جسے ہم نے بذاتِ خود علم و فضل سے آراستہ فرمایا تھا(من لّدنّا علما )۔ موسیٰ نے یہ امر جان کر اس بزرگ سے درخواست کی کہ کیا ہم اس سفر میں آپ کا اتباع کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے حصول کردہ علم سے رشد و ہدایت پا سکیں۔ اس بزرگ نے موسٰی سے کہا کہ آپ اس کی استطاعت نہیں رکھتے، ( یا نہیں رکھ سکیں گے،) کہ میرے اقدامات پر صبر و ضبط سے کام لے کر خاموش رہ سکیں۔ اور یوں بھی آپ ایسے امور میں کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جن کی وجوہات و تاویلات آپ کے علم و فہم کے احاطے سے باہر ہوں! موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر اللہ کی مشیت ہوئی تو آپ مجھے صبر و استقامت والا پائیں گے، اور میں کسی بھی معاملے میں آپ کی سرتابی نہ کروں گا۔ ان بزرگ نے جواب دیا کہ اگر آپ میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہیں تو میری شرط یہ ہے کہ آپ میرے کسی بھی اقدامات پر قبل از وقت استفسار نہ کریں، جب تک کہ میں اس بارے میں آپ کو خود ہی آگاہ نہ کر دوں۔
آیات 18/71 سے 18/76 تک:
فانطلقا حتیٰ اذا رکبا فی السفینۃِ خرقھا ۔ قالِ اخرقتھا لتغرِقَ اھلھا لقد جئتَ شیئا اِمرا (71)۔ قالَ الَم اَقُل انک لن تستطیعَ معِیَ صبرا (72) ۔ قال لا تؤاخذنی بما نسیتُ و لا تُرھقنی من امرِی عسرا (73)۔ فانطلقا حتّٰی اذا لقیا غلاما فقتلہُ قال اقتلتَ نفسا زکیۃ بغیر نفس لقد جئتَ شیئا نکرا (74)۔ قالٰ الم اقُل لکَ انکَ لن تستطیع معی صبرا (75)۔ قالَ ان سالتُک عن شَیء بعدھا فلا صاحبنی۔ قد بلغت من لّدُنّی عذرا (76)۔
پس انہوں نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ راہ میں انہوں نے ایک بستی (السفینۃِ ) پر چڑھائی کی )رکبا( اور پھر وہاں کے لوگوں اتنا پریشان اور دِق کیا کہ وہ کوئی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے(اخرقتھا) ۔ حضرت موسیٰ اس پر خاموش نہ رہ سکے اور احتجاج کیا کہ آپ نے انہیں بے کار کیوں کر دیا کہ ان لوگوں کا معاشی طور پر بیڑا ہی غرق ہو جائے(تغرق) ۔یہ تو آپ نےبڑا غلط کام کر دیا۔ بزرگ ہستی نے جواب دیا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری ہمراہی میں صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکوگے؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میری بھول پر گرفت نہ کریں اور اس پر مجھے مشکل میں نہ ڈالیں۔ تب وہ آگے روانہ ہوئے، یہاں تک وہاں ایک بدکردار نوجوان(غلاما )سے ملاقات ہوئی۔ بزرگ نے اُس کی ایسی تذلیل و تحقیر کی کہ اس کی کوئی اہمیت یا قدر و قیمت باقی نہ رہے (فقتلہُ )۔ موسیٰ نے کہا کہ آپنے بغیر کسی قصور کے ایک جان کو ذلیل و حقیر کر دیا ۔ یہ آپ نے ایک ممنوعہ کام کیا ہے۔ بزرگ نے پھر کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم صبر و ضبط کی استطاعت نہیں رکھ سکو گے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ اب اگر میں اس کے بعد کوئی سوال کروں تو آپ بیشک میری مصاحبت سے انکار کر دیں۔ اب میری جانب سے عذر کی انتہا ہو چکی ہے۔
آیات 18/77 سے 18/82 تک:-
فانطلقا حتّیٰ اذا اتیا اھل قریۃ استطعما اھلھا فابوا ان یضیفوھما فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقضّ فاقامہ۔ قال لو شئت لاتّخذتَ علیہ اجرا (77)۔ قال ھذا فراقُ بینی و بینک۔ سانبّئکَ بتاویلِ ما لم تستطع علیہ صبرا (78)۔ امّا السفینۃُ فکانت لمساکین یعملونٰ فی البحر، فاردتُّ ان اعیبھا و کان وراءھم ملک یا خذ کلّ سفینۃ غصبا (79) و اما الغلامُ فکان ابواہ مؤمنین فخشینا ان یرھقھما طغیانا و کفرا (80)۔ فاردنا ان یبد لھما ربّھما خیرا منہ زکاۃ و اقرب رحما(81) و اما الجدارُ فکانَ لغلامینِ یتیمینِ فی المدینۃِ و کانَ تحتہ کنز لّھما و کان ابوھما صالحا فارادَ ربّکَ ان یبلغا اشدّ ھما و یستخرجا کنزھما رحمۃ من ربکَ۔ و ما فعلتہ عن امری۔ ذٰلکَ تاویلُ ما لم تسطع علیہِ صبرا (82) ۔
پھر وہ دونوں آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں جا پہنچے جہاں دونوں نے مل کر اہالیانِ شہر کو تعلیم دینے کا اہتمام کیا (استطعما )۔ لیکن انہوں ان کی پذیرائی کرنےسے انکار کر دیا۔ بعد ازاں انہوں نے وہاں ایک قابل اور اہلیت کی حامل جماعت(جدارا) دیکھی، لیکن ان کی قوت ختم ہوا چاہتی تھی(ینقضّ )۔ پس ان بزرگ نے ان لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر مضبوط و مستحکم کر دیا(فاقامہ )۔ اس پر پھر حضرت موسیٰ نے سوال کر دیا کہ اگرآپ چاہتے تو اس بڑے کام کی انجام دہی پر کوئی مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ تم میں اور مجھ میں یہی فرق ہے ۔ اور اب میں تمہیں ضرور بتاؤں گا کہ جن امور پر تم صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکے ان کے پسِ پردہ کیا حکمت پنہاں تھی۔ جہاں تک اُس خاص بستی کا معاملہ تھا، تو وہ ایک غریبوں کی بستی تھی جو اپنی زمین کے ٹکڑے پر (فی البحر)محنت کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ ان کی زمین کو وقتی طور پر غیر پیداواری یعنی بے کار بنا دوں (اعیبھا )، کیونکہ ان کے پیچھے ایک ایسا بادشاہ لگا ہوا تھا جو آباد بستیوں/زمینوں کو غصب کر کے قبضے میں لے لیتا تھا۔ جہاں تک برے کردار کے نوجوان (الغلامُ ) کا تعلق ہے تو اس کے والدین اصحابِ امن وایمان تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ان دونوں کے ساتھ حدود فراموشی اور کفر کا سلوک کرتا۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ ان کی اولاد نشوونما میں زیادہ برتراور صلہ رحمی میں زیادہ بہتر ہوجائے۔ اور جہاں تک بستی کے مضبوط کردار والوں کی جماعت کا تعلق ہے، تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں(لغلامینِ یتیمینِ) کی سرپرستی کے لیےکام کر رہے تھے اور ان کی تحویل میں ان دونوں کے لیے علم و حکمت کا ایک خزانہ جمع کیا ہوا رکھا تھا کیونکہ ان کا مرحوم والد ایک مصلحِ قوم تھا ۔ اس لیے تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی پختہ عمر کو پہنچ جائیں اور اس ہدایت کے خزانے کو برسرِ عام لے آئیں جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے عطا کردہ ارتقاء و نشوونما کے وسائل و اسباب تھے۔ نیز یہ بھی جان لو کہ میں نے یہ سارے اقدامات اپنی مرضی یا خواہش سے نہیں کیے۔ پس یہ ہے مآلِ کار ان سب واقعات کا جن کے بارے میں تمہیں صبر و ضبط کی استطاعت نہیں تھی۔
آیات 18/83 سے 18/88 تک :-
و یسالونک عن ذی القرنین۔ قُل ساتلو علیکم منہ ذکرا (83)انا مکّنّا لہ فی الارضِ و آتیناہ من کل شیء سببا (84)۔ فاتبع سببا (85)۔ حتّیٰ اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغربُ فی عین حمئۃ و وجدَ عندھا قوما۔ قلنا یا ذا القرنین اما ان تعذبَ و اما ان تتّخذ فیھم حسنا (86)۔ قالَ اما من ظلم فسوف نعذّبہ ثمّ یردّ الیٰ ربہ فیُعذبہ عذابا نکرا (87)۔ و اما من آمنَ و عملَ صالحا فلہ جزاء الحسنیٰ۔ و سنقولُ لہ من امرنا یسرا (88)۔
اور یہ لوگ آپ سے ذی القرنین کی تاریخی شخصیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ انہیں کہ دیں کہ اس کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کے حقائق مَیں تمہاری راہنمائی کے لیے ضرور بیان کر وں گا۔ انہیں بتا دو کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھی جسے ہم نے اقتدار و اختیار عطا کیا تھا اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام اسباب و ذرائع مہیا کر دیے تھے۔ پس وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مہم جوئی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک قوم موجود تھی جس کی بداعمالیوں کے باعث ان کا عروج و خوشحالی کا سورج غروب(مغرب الشمس) ہو کرتنزل کے تاریک گڑھے (عین حمئۃ )میں گر چکا تھا۔ ہم نے اسے یہ اختیار عطا کیا کہ وہ چاہے تو انہیں ان کی غلط کاریوں پر سزا دے اور چاہے تو ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ اِس اختیار پر اُس نے یہ اعلان کیا کہ اِن میں سے جس نے عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے(ظلم) اپنی قوم کو اس زوال کا شکار کیا ہے اسے ہم ضرور سزا دیں گے ۔ اور بعد ازاں جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹے گا تو وہ بھی انہیں بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ البتہ ان میں سے جو اللہ کی برتری پر ایمان لے آیا اور اصلاحی روش پر عمل پیرا ہو گیا تو اس کا اجر خوبصورت ہوگا۔ یعنی ہم اس کے لیے اپنے ارادے و خواہش سے آسانیاں/فراوانیاں پیدا کر دیں گے۔
آیات 18/89 سے 18/95 تک:-
ثمّ اتبع سببا (89)۔ حتیٰ اذا بلغ مطلع الشمسِ وجدھا تطلُعُ علیٰ قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا (90) کذلک و قد احطنا بما لدیہ خبرا (91) ثم اتبع سببا (92)۔ حتیٰ اذا بلغ بین السّدّین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفقھون قولا (93)۔ قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ فھل نجعلُ لک خرجا علٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدا (94)۔ قال ما مکّنّی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوّۃ اجعل بینکم و بینھم ردما (95)۔
بعد ازاں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم تک جا پہنچا جن پر عروج کا سورج طلوع (مطلع الشمسِ) ہو رہا تھا ۔لیکن اس ایک مثبت امر کے سوا (دونھا )ہم نے انہیں ابھی تک کوئی دیگر سامانِ تحفظ اور بردباری کا شعور (سترا )مہیا نہیں کیا تھا۔ پھر اسی طرح ہوا ، یعنی انہیں ضروری تربیت و راہنمائی فراہم کر دی گئی(کذلک)۔ جو کچھ بھی اصلاحی اور انسانی خیر کے کام وہ کرتا رہا، ہم اسکے تمام احوال سے باخبر رہے۔ وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مصروفِ کار رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقدس مشن کی راہ میں موجود دو بڑی رکاوٹوں یعنی دو فسادی قوموں کے درمیان جا پہنچا(بلغ بین السّدّین) ۔ ان دونوں کے علاوہ اس نے وہاں ایک ایسی قوم بھی دیکھی جو کسی سمجھ بُوجھ یا علم و تربیت کی حامل نہ تھی یعنی مکمل طور پر پسماندہ تھی ۔ انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں ہمارے درمیان مفسدین کے گروہ ہیں جو زمین کے امن کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان ایک روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ کثیر ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں ان کے اور تمہارے معاملے کا سد باب کر دیتا ہوں ۔
آیات 18/96 سے 18/97 تک:-
آتونی زُبرَ الحدید۔ حتیٰ اذا ساویٰ بین الصدفینِ قال انفخو۔ حتیٰ اذا جعلہ نارا قال آتونی افرغ علیہ قطرا (96)۔ فما اسطاعوا ان یظھروہ و ما استطاعو لہ نقبا (97)۔
پھراس نے حکم دیا کہ میرے پاس خدائی حدود و احکامات پر مبنی صحیفہ ، یعنی کتاب اللہ لاؤ (زُبرَ الحدید) ۔ پھر اس نے انہیں کتاب اللہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے نظم و قوت میں اتنا بڑھا دیا کہ دونوں متخالف محاذوں(الصدفینِ) کے مابین برابری پیدا ہو گئی (ساویٰ)۔ تو اس نے کہا کہ اب اپنی کامیابی پر اطمینان کا سانس لو ۔ تربیت جاری رہی یہاں تک کہ اُس نے اِس قوم کو علم و عمل کا ایک روشن و درخشاں نمونہ (نارا )بنا دیا۔ اس مرحلے پر اس نے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں انہیں نصیحت کر کے اس بات سے روک دوں (افرغ علیہ) کہ وہ دوبارہ قطرہ قطرہ ہو کر یعنی اپنی وحدت پارا پارا کر تے ہوئے کمزور ہو جائیں(قطرا) ۔ پس اس کے بعد اُن مفسد وں کے گروہ میں اِس قوم کا مقابلہ کرنے، یا اِس پر غالب آنے کی استطاعت نہ رہی اور نہ ہی وہ اِس کی قوت کو توڑنے کی استطاعت پیدا کر سکے۔
آیات 18/99 سے 18/100
قال ھذا رحمۃ من ربی۔ فاذا جاء وعدُ ربی جعلہ دکّاء ۔ و کان وعد ربی حقّا۔ و ترکنا بعضھم یومئذ یموجُ فی بعض و نفخ فی الصورِ فجمعناھم جمعا (99)۔ و عرضنا جھنم یومئذ للکافرین عرضا (100)
ذو القرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ جب بھی بعد ازاں میرے پروردگار کا مقرر کر دہ وقت آپہنچا تو وہ یہ سب فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ کیونکہ میرے پروردگار کا وعید کردہ ہمیشہ حقیقت بن جایا کرتا ہے۔ اور مستقبل میں جس دور میں بھی وہ وقت آپہنچا تو صورتِ حال یہ ہوگی کہ ہم نے انسانوں کو ایک وحشت کے عالم میں ایک دوسرے کے بارے میں چیخ و پکار کرنے کے لیے(یموج) چھوڑ دیا ہوگا۔ آخری فیصلے کے صادر ہونے کا نقارہ بجا دیا گیا ہوگا ۔ اور ہم نے سب کو اپنی عدالت میں حاضر کر لیا ہوگا۔ اور وقت کے اُس مرحلے پر جہنم کی زندگی اُن انسانوں کے سامنے پیش کر دی گئی ہوگی جو ہمارے اقتدار و اختیار کا اور ہماری ہدایت و راہنمائی کا انکار کرنے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب بغیر کسی رکاوٹ، ایک مسلسل اور رواں ترجمہ
اور یہ وہ انسانی بستیاں تھیں جنہیں عدل و انصاف کا خون کرنے کی بنا پر ہمارے قوانین نے زوال کا شکار کر دیا کیونکہ اِن قوانین کے مطابق ان کے زوال کا وقت مقرر و متعین ہو گیا تھا۔ پھر اسی ضمن میں یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنے نوجوان نائب سے یہ کہا تھا کہ میں اپنی جدوجہد سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اُس مرحلے تک نہ پہنچ جاؤں کہ قوم کے دو دھڑوں میں واقع افتراق و تقسیم کو ایک جماعت یا وحدت کی شکل میں نہ لے آؤں۔ یا بصورتِ دیگر اس کام کی تکمیل کے لیے پوری توجہ کے ساتھ ، رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئےآگے بڑھتا رہوں۔ پس آخرِ کار جب دونوں گروہ اپنے درمیان ایک اتحاد کے قیام کی منزل تک پہنچ گئے تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ دراصل دونوں فریق اپنے نصب العین یا تعلیمات و ہدایات کو فراموش کر چکے تھے ۔ لیکن بعدازاں ،حضرت موسیٰ کی کوشش اور جدو جہد کے نتیجے میں،ان ہی تعلیمات نے افتراق و انتشار والے ان معاملات میں اپنا راستہ بنا کر بہ عجلت تمام اپنے قدم جما لیے۔
اس کے بعد جب موسیٰ اور ان کا نائب اِس مرحلے سے گذر گئے، تو موسیٰ نے ساتھی سے کہا کہ اب ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل ہمارے سامنے لاؤ ۔کیونکہ ہم اب اپنے اس سفر کے حوالے سے اپنا نصب العین اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ساتھی نے یاد دلایا کہ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا تھا کہ جب ہم نے اپنے اس مشن کی تکمیل کی خاطر سختی اور ثابت قدمی کے رویے کو اپنی ڈھال اور پناہ بنا لیا تھا تو اس وقت میں بھی وقتی طور پر اپنی خدائی تعلیمات کو بھول گیا تھا ۔ اور ان تعلیمات کو سوائے سرکشی اور جارحیت کے جذبات کے اور کون بھلا سکتا ہے، تاکہ وہ پیشِ نظر رکھے ہی نہ جا سکیں ۔ تاہم اُن الہامی تعلیمات نے تفریق و انتشار کےبحران میں حیران کن انداز میں قوم کے درمیان اپنے قدم جما لیے۔ اس پر موسیٰ نے کہا کہ یہ تو بعینہی وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، یا جو ہمارا مشن تھا ۔ بعد ازاں وہ دونوں اپنے سابقہ راستے کی جانب واپس لوٹے ۔
پھر ایسا ہوا کہ انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک ایسا برگزیدہ بندہ مل گیا جسے ہمارے جانب سے وسائل و اسباب کی فراوانی عطا ہوئی تھی اور جسے ہم نے بذاتِ خود علم و فضل سے آراستہ فرمایا تھا۔ موسیٰ نے یہ امر جان کر اس بزرگ سے درخواست کی کہ کیا ہم اس سفر میں آپ کا اتباع کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے حصول کردہ علم سے رشد و ہدایت پا سکیں۔ اس بزرگ نے موسٰی سے کہا کہ آپ اس کی استطاعت نہیں رکھتے کہ میرے اقدامات پر صبر و ضبط سے کام لے کر خاموش رہ سکیں۔ اور یوں بھی آپ ایسے امور میں کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جن کی وجوہات و تاویلات آپ کے علم و فہم کے احاطے سے باہر ہوں! موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر اللہ کی مشیت ہوئی تو آپ مجھے صبر و استقامت والا پائیں گے، اور میں کسی بھی معاملے میں آپ کی سرتابی نہ کروں گا۔ ان بزرگ نے جواب دیا کہ اگر آپ میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہیں تو میری شرط یہ ہے کہ آپ میرے کسی بھی اقدامات پر قبل از وقت استفسار نہ کریں، جب تک کہ میں اس بارے میں آپ کو خود ہی آگاہ نہ کر دوں۔
پس انہوں نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ راہ میں انہوں نے ایک بستی پر چڑھائی کی اور پھر وہاں کے لوگوں اتنا پریشان کیا کہ وہ کوئی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے۔ حضرت موسیٰ اس پر خاموش نہ رہ سکے اور احتجاج کیا کہ آپ نے انہیں بے کار کیوں کر دیا کہ ان لوگوں کا معاشی طور پر بیڑا ہی غرق ہو جائے ۔یہ تو آپ نےبڑا غلط کام کر دیا۔ بزرگ ہستی نے جواب دیا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری ہمراہی میں صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکوگے؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میری بھول پر گرفت نہ کریں اور اس پر مجھے مشکل میں نہ ڈالیں۔ تب وہ آگے روانہ ہوئے، یہاں تک وہاں ایک بدکردار نوجوان سے سامنا ہوا۔ بزرگ نے اس کی ایسی تذلیل و تحقیر کی کہ اس کی کوئی اہمیت یا قدر و قیمت باقی نہ رہے ۔ موسیٰ نے کہا کہ آپنے بغیر کسی قصور کے ایک جان کو ذلیل و حقیر کر دیا ۔ یہ آپ نے ایک ممنوعہ کام کیا ہے۔ بزرگ نے پھر کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم صبر و ضبط کی استطاعت نہیں رکھ سکو گے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ اب اگر میں اس کے بعد کوئی سوال کروں تو آپ بیشک میری مصاحبت سے انکار کر دیں۔ اب میری جانب سے عذر کی انتہا ہو چکی ہے۔
پھر وہ دونوں آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک بستی میں جا پہنچے جہاں دونوں نے مل کر اہالیانِ شہر کو تعلیم دینے کا اہتمام کیا ۔ لیکن انہوں ان کی پذیرائی کرنےسے انکار کر دیا۔ بعد ازاں انہوں نے وہاں ایک قابل اور اہلیت کی حامل جماعت دیکھی، لیکن ان کی قوت ختم ہوا چاہتی تھی۔ پس ان بزرگ نے ان لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر مضبوط و مستحکم کر دیا۔ اس پر پھر حضرت موسیٰ نے سوال کر دیا کہ اگرآپ چاہتے تو اس بڑے کام کی انجام دہی پر کوئی مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ تم میں اور مجھ میں یہی فرق ہے ۔ اور اب میں تمہیں ضرور بتاؤں گا کہ جن امور پر تم صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکے ان کے پسِ پردہ کیا حکمت پنہاں تھی۔ جہاں تک اُس خاص بستی کا معاملہ تھا، تو وہ ایک غریبوں کی بستی تھی جو اپنی زمین کے ٹکڑے پر محنت کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ ان کی زمین کو وقتی طور پر غیر پیداواری بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک ایسا بادشاہ لگا ہوا تھا جو آبادبستیوں/زمینوں کو غصب کر کے قبضے میں لے لیتا تھا۔ جہاں تک برے کردار کے نوجوان کا تعلق ہے تو اس کے والدین اصحابِ امن وایمان تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ان دونوں کے ساتھ حدود فراموشی اور کفر کا سلوک کرتا۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ ان کی اولاد نشوونما میں زیادہ برتراور صلہ رحمی میں زیادہ بہتر ہوجائے۔ اور جہاں تک بستی کے مضبوط کردار والوں کی جماعت کا تعلق ہے، تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کی تحویل میں ان دونوں کے لیے علم و حکمت کا ایک خزانہ جمع کیا ہوا رکھا تھا کیونکہ ان کا مرحوم والد ایک مصلحِ قوم تھا ۔ اس لیے تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی پختہ عمر کو پہنچ جائیں اور اس ہدایت کے خزانے کو برسرِ عام لے آئیں جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے عطا کردہ ارتقاء و نشوونما کے وسائل و اسباب تھے۔ نیز یہ بھی جان لو کہ میں نے یہ سارے اقدامات اپنی مرضی یا خواہش سے نہیں کیے۔ پس یہ ہے مآلِ کار ان سب واقعات کا جن کے بارے میں تمہیں صبر و ضبط کی استطاعت نہیں تھی۔
اور یہ لوگ آپ سے ذی القرنین کی تاریخی شخصیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ انہیں کہ دیں کہ اس کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کے حقائق مَیں تمہاری راہنمائی کے لیے ضرور بیان کر وں گا۔ انہیں بتا دو کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھی جسے ہم نے اقتدار و اختیار عطا کیا تھا اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام اسباب و ذرائع مہیا کر دیے تھے۔ پس وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مہم جوئی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک قوم موجود تھی جس کی بداعمالیوں کے باعث ان کا عروج و خوشحالی کا سورج غروب ہو کرتنزل کے تاریک گڑھے میں گر چکا تھا۔ ہم نے اسے یہ اختیار عطا کیا کہ وہ چاہے تو انہیں ان کی غلط کاریوں پر سزا دے اور چاہے تو ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ اِس اختیار پر اُس نے یہ اعلان کیا کہ اِن میں سے جس نے عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے اپنی قوم کو اس زوال کا شکار کیا ہے تو اسے ہم ضرور سزا دیں گے ۔ اور بعد ازاں جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹے گا تو وہ بھی انہیں بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ البتہ ان میں سے جو اللہ کی برتری پر ایمان لے آیا اور اصلاحی روش پر عمل پیرا ہو گیا تو اس کا اجر خوبصورت ہوگا۔ یعنی ہم اس کے لیے اپنے ارادے و خواہش سے آسانیاں/فراوانیاں پیدا کر دیں گے۔
بعد ازاں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم تک جا پہنچا جن پر عروج کا سورج طلوع ہو رہا تھا ۔لیکن اس ایک مثبت امر کے سوا ہم نے انہیں ابھی تک کوئی دیگر سامانِ حفاظت اور بردباری کا شعور مہیا نہیں کیا تھا۔ پھر اسی طرح ہوا ، یعنی انہیں ضروری تربیت و راہنمائی فراہم کر دی گئی۔ جو کچھ بھی اصلاحی اور انسانی خیر کے کام وہ کرتا رہا، ہم اسکے تمام احوال سے باخبر رہے۔ وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مصروفِ کار رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقدس مشن کی راہ میں موجود دو بڑی رکاوٹوں یعنی دو فسادی قوموں کے درمیان جا پہنچا۔ ان دونوں کے علاوہ اس نے وہاں ایک ایسی قوم بھی دیکھی جو کسی سمجھ بُوجھ یا علم و تربیت کی حامل نہ تھی یعنی مکمل طور پر پسماندہ تھی ۔ انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں دو فسادی اقوام، یاجوج و ماجوج ہیں جو زمین کے امن کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان ایک روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ کثیر ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں ان کے اور تمہارے درمیان ایک مضبوط دیوار قائم کر دیتا ہوں ۔
پھراس نے حکم دیا کہ میرے پاس خدائی حدود و احکامات پر مبنی صحیفہ ، یعنی کتاب اللہ لاؤ ۔ پھر اس نے انہیں کتاب اللہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے نظم و قوت میں اتنا بڑھا دیا کہ دونوں متخالف محاذوں کے مابین برابری پیدا ہو گئی ۔ تو اس نے کہا کہ اب اپنی کامیابی پر آزادی و اطمینان کا سانس لو ۔ تربیت جاری رہی یہاں تک کہ اُس نے اِس قوم کو علم و عمل کا ایک روشن و درخشاں نمونہ بنا دیا۔ اس مرحلے پر اس نے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں انہیں نصیحت کر کے اس بات سے روک دوں کہ وہ دوبارہ قطرہ قطرہ ہو کر یعنی اپنی وحدت پارا پارا کر تے ہوئے کمزور ہو جائیں۔ پس اس کے بعد اُن مفسد قوموں میں اِس قوم کا مقابلہ کرنے، یا اِس پر غالب آنے کی استطاعت نہ رہی اور نہ ہی وہ اِس کی قوت کو توڑنے کی استطاعت پیدا کر سکے۔
ذو القرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ جب بھی بعد ازاں میرے پروردگار کا مقرر کر دہ وقت آپہنچا تو وہ یہ سب کچھ فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ کیونکہ اُس کا وعید کردہ ہمیشہ حقیقت بن جایا کرتا ہے۔ اور مستقبل میں جس دور میں بھی وہ وقت آپہنچا تو صورتِ حال یہ ہوگی کہ ہم نے انسانوں کو ایک وحشت کے عالم میں ایک دوسرے کے بارے میں چیخ و پکار کرنے کے لیےچھوڑ دیا ہوگا۔ آخری فیصلے کے صادر ہونے کا نقارہ بجا دیا گیا ہوگا ۔ اور ہم نے سب کو اپنی عدالت میں حاضر کر لیا ہوگا۔ اور وقت کے اُس مرحلے پر جہنم اُن انسانوں کے سامنے پیش کر دی گئی ہوگی جو ہمارے اقتدار و اختیار کا اور ہماری ہدایت و راہنمائی کا انکار کرنے والے تھے۔
بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے معانی جو کم از کم 10 عدد مستند لغات سے اخذ کیے گئے ہیں
(لما ظلموا) : ظلم: حق تلفی، عدل و انصاف کا خون؛ میرٹ کا خون؛ زیادتی؛ اندھیرا؛ گمنامی؛ سایہ، تحفظ؛ غلط کاری، بدسلوکی، نقصان پہنچانا، طاقت سے کچل دینا، استحصال، بدعملی، زخمی کرنا،
(اھلکناھم): ہلک: مر جانا، برباد ہو جانا، ضائع ہو جانا، گم ہو جانا، بگڑ جانا
(ابرح): ب ر ح: چھوڑ کر چلے جانا؛ روانہ ہو جانا؛ ہتھیار ڈال دینا، کسی کام سے رک جانا،ترک کر دینا، تنگ ہو جانا، مشکل یا مصیبت میں پڑ جانا۔
(ابلغ): بلغ: پہنچنا، حاصل کرنا، آ جانا، کسی راستے کے آخری مقام تک چلا جانا، خواہش کی تکمیل تک پہنچنا۔ اطلاعات، اعلانات یا خبریں لانا، دینا، پہنچانا، وغیرہ، وغیرہ۔
(البحرین ): بحر: زمین کا ایک وسیع ٹکڑا، جو آباد ہو؛ ایسا شہر جس میں پانی کا کوئی ذخیرہ ہو؛ کاٹ دینا، تقسیم کر دینا، ٹکڑے کر دینا، انتشار، تفریق کو وسیع کر دینا، پانی کا کوئی بھی بڑا منبع یا ذخیرہ۔
(مجمع) : جمع: جمع کرنا، اجتماع، جلسہ، سلسلہ قائم کرنا، اتحاد و اتفاق میں لے آنا، یکسانیت پیدا کرنا، تعین کرنا، فیصلہ کر دینا، کسی بات یا رائے پر اتحاد و رضامندی کر دینا۔
(حقبا) : حقب: روکنے یا رکنے میں مشکل ہونا؛ موخر ہو جانا یا روک لیا جانا، گمراہ ہو جانا، غیر منظم ہو جانا، جبر کے تحت آ جانا، وغیرہ۔
(امضی) : مضٰی: آگے بڑھنا، گذرنا، جانا، دور چلے جانا، مسلسل آگے بڑھتے رہنا، عمل درآمد کرنا، ادائیگی کرنا، کسی چیز کی تکمیل حاصل کرنا؛ کاٹنا یا داخل ہو جانا، کسی کام میں بڑھ جانا، دوسروں سے آگے گذر جانا۔
(حوتھما) : ح و ت؛ ح ا ت : کسی مرکز کے گرد اُڑنا، تیرنا، یا گھومنا ؛ کسی مقصد کے لیے جدوجہد یا کوشش کر کے کسی انسان کی سوچ بدل دینا۔ کسی انسان کو کسی نظریے سے موڑ لینے کی تعلیم دینا، کوشش کرنا؛ کسی کو مسحور کر لینا، کشش کی جانب کھینچ لینا ۔ ایسی تعلیمات، ایسا مقصد یا نصب العین جس کی طرف انسانوں کو موڑا جائے۔ الحوت: قرآن کے تناظر میں قرآن کی وہ الہامی تعلیمات یا احکامات جو انسان کی توجہات کا مرکز ہیں ۔
(سَرَبا") : نظری دھوکا؛ سراب؛ آزادی سے آنا جانا، بہنا، بھاگنا، تیزی دکھانا ۔
(جاوزا): تجاوز کرنا؛ آگے گذر جانا۔ آگے بڑھ جانا۔کسی بھی مرحلے سے آگے نکل جانا۔
(غداءنا) : غداء: دُور کا وقت؛ آنے والا وقت؛ توشہِ آخرت؛ کل کا یا آئندہ کا پروگرام؛ فیڈ بیک؛ لائحہ عمل؛ آئندہ کا/کل کا /مستقبل کا لائحہ عمل/ایجنڈا؛ خوراک، ناشتہ۔
(اوینا الی الصخرۃِ): صخرۃ : چٹان؛ چٹان کی سختی؛ سخت گیری؛ پہاڑی؛ گھاٹی؛ پتھر؛ ثابت قدم ہو نا ، وغیرہ۔
(الشیطانُ) : شطن: سرکشی؛ سرکشی کے جذبات؛ حدود فراموشی؛
(رحمۃ): رحم، ترس، معافی، محبت، نرمی، احسان، تمام اسباب و وسائل جو اچھائی کے کام آئیں؛ رشتہ داری، شکمِ مادر، وغیرہ۔
(من لّدنّا علما ): اللہ کی جانب سے براہ راست تعلیم جو انبیاء و رسل کے لیے مخصوص ہے۔
(السفینۃِ ): سفن: مجسمہ بنانا، تراش کر شکل دینا، پتھر یا چٹان کو کوئی صورت دینا؛ کشتی، جہاز، چھلکا، کاٹتے ہوئے ، راستہ بناتے ہوئے چلنا۔ مجازی معنی: ایک تراشا ہوا، ترقی دیا گیا ، تہذیب یافتہ انسانی معاشرہ یا بستی ۔
)رکبا( : اوپر چڑھنا، سواری کرنا، شروعات کرنا، لے جائے جانا، جہاز ہر چڑھنا، سفر پر نکلنا، سڑک پر واک کرنا، غلطی کا ارتکاب کرنا، قافلہ، سوار ہو جانا، سوار، ڈھیر کی صورت میں ڈال دینا، ایک دوسرے پر چڑھا دینا، تہ در تہ۔
(اخرقتھا) : خرق: پار نکل جانا، سوراخ کر دینا، پریشان اور دِق ہو جانا یہاں تک کی حرکت کی سکت نہ رہے؛ عقل و شعور میں کمی یا نقص ہو جانا؛ آزاد خیال، فراوانی اور سخاوت والا ہو جانا؛ کسی نفع ، اچھائی یا خوشحالی سے محروم کر دینا۔
(لتغرِقَ): غرق: ڈوب جانا؛ معاشی طور پر تباہ ہو جانا، وغیرہ۔
(غلاما ): غلم: شہوت کا شکار، جذباتی طور پر ہیجان میں مبتلا، جارحانہ، کنفیوزڈ اور غیر یقینی کیفیت؛ نوجوان؛ جوان آدمی؛ لڑکا ۔
(فقتلہُ ): قتل : مار ڈالنا، لڑنا، جنگ کرنا، مشکلات میں ڈالنا، لعنت پھٹکار کرنا؛ تفتیش کرنا، تربیت دینا، بہت سخت محنت کا کام کرنا۔ مجاز: غیر اخلاقی خواہشات کو مارنا؛ جنسی خواہشات کو مارنا، طاقت کو کم یا کمزور کرنا ؛ تذلیل و تحقیر سے ایسا کر دینا کہ کوئی اس کی بات پر دھیان ہی نہ دے۔
(استطعما) : استطعم: طعام، یا تعلیم و تربیت کا انتظام کر دینا ۔ طعم: کھلانا، نشو نما کرنا وغیرہ ۔ علمی نشو نما کرنا ۔ پکا ہوا پھل۔ انسان میں ایک قابل تعریف صفت جیسے قابلیت، دور اندیشی، فیصلے کی اہلیت۔
(جدارا) : جدر: احاطہ بنانا، احاطے کی دیوار تعمیر کرنا۔ سامنے آجانا یا پھیل جانا۔ موزوں، قابل اور اہل ہو جانا- کسی چیز کو اونچا اٹھانا – کچھ مضبوطی سے بنانا اورطاقتور کرنا اور اسے بلند اٹھانا- کسی چیز کو ازسرِ نو بنانا ، اس کے معدوم ہو جانے کے بعد۔
(اعیبھا) : عیب ڈال دینا، نقص ڈال دینا، خراب و بے کار کر دینا۔
(مغرب الشمس): ترقی و خوشحالی کا زوال
(حمئۃ):نحوست؛ منحوس نظر، سیاہی ،سیاہ کیچڑ، کسی سے غصہ ہو جانا، وغیرہ
(عین):آنکھ میں تکلیف، آنسوؤں کا بہنا، جاسوسی کرنا، دیکھنا، سوراخ، گڑہا، درخت کا تنا، پانی کا چشمہ، سردار، خوبصورت، وغیرہ
(مطلع الشمسِ): عروج، ترقی، خوشحالی
(دونھا ): اس کے بغیر، اس کے علاوہ
(سترا ): پردہ ڈالنا، چھپانا، کپڑے لپیٹ لینا- اچھا چال چلن، حفاظت، اسبابِ حفاظت، کسی کا خود کو چھپانا، سامنے روک لگانا، معذرت کرنا، بہانہ کرنا، ایک حفاظتی چار دیواری۔
(زبر الحدید): حدید: حد: ایک حد مقرر کرنا، تعین کرنا، سزا دینا، پیچھے پھینک دینا، دھار تیز کرنا۔ روکنا، بچانا، پرہیز کرنا، ایک چیز کا دوسری سے الگ تعین کرنا، پابند کرنا، منع کرنا یا ممنوع قرار دینا- پسپا کرنا، واپس بھیج دینا، خطرہ دور کر دینا۔ وغیرہ وغیرہ۔
(زبر): لکھی ہوئی چیز؛ داؤد کی کتاب؛ محمد، داؤد اور موسیٰ کے صحائف ۔ چیک کرنا، روکنا، منع کرنا، مہارت سے اور مضبوطی سے لکھنا- پڑھنا، تلاوت کرنا- بڑا ہو جانا، ہمت والا اور بہادر بن جانا۔ لوہے کے ٹکڑے؛ پشت کا بالائی حصہ، طاقتور اور جسیم؛ سیاہ کیچڑ، وغیرہ
(الصدفینِ) : صدف: پہاڑ کی ڈھلوان سائڈ، رکاوٹ، حد بندی، واپس مڑجانا، ایک جانب نکل جانا،
(ساوی): تناسب ، کاملیت، سطح، برابری، کمی کو پورا کرنا، خلا کو بھرنا۔
(نارا ): آگ، شعلے، گرمی، روشنی، چمک، جگمگاہٹ، اکساہٹ، جنگ پر اکسانا۔
(افرغ علیہ): فرغ : کسی چیز کا مکمل کرنا، کسی چیز سے روکنا، غیر مصروف ہونا، کسی کام سے آزاد ہونا، خالی ہونا، جگہ کا خالی ہونا، وغیرہ۔
(قطرا) : ق ط ر : ٹپک جانا، مائع بن کر رس جانا، جوانب، علاقے، ایکطرف، پگھلا ہوا تانبہ، پگھلے ہوئے مواد کی سطح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- Hits: 2610
اورنگزیب یوسفزئی اپریل 2015
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر (2۱)
اصحابِ کہف و اصحابِ رقیم
سورۃ الکہف سے ماخوذ
قرآن کے موضوعاتی تراجم کے جاری سلسلے کی یہ ایک اور کوشش ہے جس کی اساس عقلیت پر مبنی جدید ترین علوم اور انسان کے شعوری ارتقاء کی موجودہ بلند ترین سطح پر رکھی گئی ہے ۔ قرآن میں ملاوٹ کردہ اسرار و افسانے کے عنصر کی تطہیر کی کوشش کی گئی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات کے مجموعی پیغام سے،جو ایک اعلیٰ انسانی قدروں پر مبنی سیرت و کردار کی تعمیرکا نقیب ہے، مطابقت قائم رکھنے کو راس المال ٹھہرایا گیا ہے۔ اس مرتبہ موضوع "اصحاب الکہف اور الرقیم" کا وہ واقعہ ہے جو قرآنِ کریم کی سورۃ الکہف میں مرقوم ہے، اور جسے کرشماتی رنگ دینے کی سازش کی گئی ہے۔
افسانوی تراجم و تفاسیر میں مذکور بے بنیاد محیر العقول واقعات:
نوجوان مجاہدین کی جماعت کا کسی نامعلوم غار میں پناہ لینا۔ کسی خزانے کا ہمراہ ہونا۔ سینکڑوں سال خوابیدہ رہنا۔ سورج کا انہیں پریشان کیے بغیر "دائیں بائیں سے" گذر جانا، سونے کے دوران اللہ کا اُن کے پہلو بدلتے رہنا، "کتے" کا بھی سینکڑوں سال چوکیداری کرنا، لوگوں کا "کتے کے خوف سے" ڈر کر بھاگ جانا، بالآخر حالات بدل جانےپر بیدار ہوجانا۔ قدیمی"سکے" دے کر ساتھی کو "کھانا" لانے کے لیے بھیجنا ۔ شہر کے لوگوں کا ان کی یاد میں مسجد یعنی عبادت گاہ تعمیر کرنا، وغیرہ ۔
عیسائیت کا پسِ منظر:
سات (7)سونے والوں کی یہ دیومالائی رنگ میں رنگی ہوئی کہانی دراصل اپنا ماخذ عیسائی مذہبی کہانیوں میں رکھتی ہے جواُس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب عیسائی مذہب ابھی سرکاری طور پر قبولیتِ عام کا درجہ حاصل نہ کر پایا تھا اور عیسائیت کے پیروکاروں اور مبلغین کو رومن سلطنت کے جبر و استبداد کا سامنا تھا۔ اپنی نوعیت کے پیش نظر یہ کہانی اُن کے ہاں معجزات میں بھی شامل کی جاتی ہے اور قریب ترین روایات کے مطابق یہ رومن شہنشاہ ڈیسیس (Decius)کے عہد میں سن 250 عیسوی میں شہر ایفی سس (Ephesus)کے پرجوش اور صالح عیسائی (یعنی مومن) نوجوانوں کے ایک گروپ کی جدو جہد کی کہانی ہے۔ زیادہ تر بنیادی ماخذات شامی (Syrian) اصل و بنیاد رکھتے ہیں ۔ عیسائی سینٹ، گریگری (Gregory of Tours) نے اس کہانی کو اپنی چھٹی صدی میں مرتب کیے مجموعہِ معجزات کے ذریعے پوری عیسائی دنیا میں مقبول عام کیا ۔ بعد ازاں آنے والے عیسائی مذہبی لکھاریوں نے بوجوہ اس واقعے میں مزید افسانوی رنگ کا اضافہ کیا ۔ نیز اس وقوعے کا مقام اور اس کی تفصیلات میں بلا روک ٹوک ترمیمات کی گئیں اور ہر مرتبہ کچھ مزید مبالغہ آرائیوں سے کام لیا گیا۔ قرآن میں اسی کہانی کی بگاڑی ہوئی افسانوی شکل کو ملاوٹ سے پاک اور وضاحت سے بیان اس لیے کیا گیا کہ ہمارے رسولِ کریمﷺ کی اس کے متماثل مشنری جدوجہد میں یہ ایک ہمت افزا اور سبق آموز واقع کے طور پر سامنے لایا جائے۔
مسلم مفسرین کی ملاوٹ:
لیکن وائے افسوس ، قرآن کے مفسرین نے بھی اُسی غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس مثالی واقعے کی تمام عقلی اور دینی جواز و بنیادکو پھر ایک بار افسانوی اور معجزاتی لبادے میں لپیٹ کر ایک غیر عقلی اور فوق الفطرت روپ عطا کر دیا ۔ حالانکہ قرآن سے زیادہ خوش اسلوب اور روشن اندازِ بیان اور کس کا ہو سکتا تھا، اگر صرف اُس کے پیش کردہ عربیِ معلّیٰ کے بلند ادبی و علمی درجے کو پیش نظر رکھ کر تفہیم کی جاتی اور،،،،،یا پھر،،،، ، نیتوں میں فتور نہ ہوتا ۔
جدید عقلی و علمی ترجمے کی مہم:
تو آئیے اب اس واقعے کا ، قرآن کے عظیم ادبی استعاراتی اسلوبِ بیان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، عقلی اور منطقی نچوڑ پر مبنی تحقیقی ترجمہ سامنے لانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں اب تک کی گئی اُن معدودے چندہم عصروں کی جدید عقلی کاوشوں کو بھی زیرِ مطالعہ لایا گیا ہے جنہوں نے مسخ کردہ افسانوی تراجم سے گریز کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ البتہ نہ تو قرآنی متن کا مافی الضمیر کامل طور پر واضح کر سکے اور نہ ہی ایک مکمل ذہنی اور روحانی آسودگی پیدا کرنے والا ، سیاق و سباق سے مربوط ،آسان فہم ترجمہ پیش کر سکے۔ البتہ اُن کی ایک نئی جہت میں کاوشوں اور جذبوں کو قابلِ قدر گردانا جائیگا ۔ نیز جو بھی مواد اس سلسلے میں دستیاب ہو سکتا تھا اُس سے ، ایک کڑے خالص عقلی و علمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ،بلحاظِ صحت و درستگی، استفادہ حاصل کیا گیا ہے ۔
یہ ترجمہ قرآن کےایک جزء کو اس کے خالص حقیقی معانی میں آشکار کرنے کی ایک جدید اور ترقی یافتہ کوشش ضرور ہے، لیکن اسے "حرفِ آخر" یا "قولِ فیصل" وغیرہ، یا اسی قماش کی کوئی دیگر چیز، ہرگز قرار نہیں دیا گیا ۔ قرآنی تراجم میں خالص علمی تحقیق کرنے والے فاضلین کو دعوتِ عام ہے کہ اپنی قیمتی آراء سے آگاہ فرمائیں۔ کوئی بھی واضح غلطی نظر آئے تو باوثوق سند کے ساتھ تصحیح فرمائیں۔ انتہائی شکر گذار رہوں گا۔ کسی بھی سہو و خطا کی تمامتر ذمہ داری بلا جھجھک قبول کرتا ہوں۔
قرآنی سیاق و سباق:
سب سے قبل واقعے کا پسِ منظر جو آیات 1 سے 8 تک محیط ہے ، قرآن کی خصوصیت کے باوصف نفسِ مضمون سے جڑا ہے اور وجہِ تحریر سے آگاہ کر رہا ہے:-
18/1-3 : الحمد للہ الذی انزل علیٰ عبدہ الکتاب و لم یجعل لہ عوجا (1) قیما لینذر باسا شدیدا من لدنہ و و یبشر المومنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجرا حسنا (2) ماکثین فیہ ابدا (3)۔
ترجمہ: تعریف ہے اللہ کے لیے جس نے اپنے بندے پر ایک مخزونہِ علم نازل کیا جس کے ذریعے وہ اپنے بندے کےراستے میں کوئی مشکل، الجھاؤ یا کجی باقی نہیں چھوڑتا ۔ یہ استحکام بخشنے والا علم اس لیے ہے کہ پیش آگاہ کیا جائے ُ اس شدید عذاب کے بارے میں جو اللہ کی جانب سے آنے والا ہے اور اُن ایمان لانے والوں کو بشارت دی جائےجو اصلاحی اعمال سرانجام دیتے ہیں کہ ان کے لیے خوبصورت اجر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اسی کیفیت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
18/4-8: و ینذر الذین قالو اتخذ اللٰہ ولدا (4)۔ ما لھم بہ من علم و لا لآبائھم۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم۔ ان یقولون الا کذبا (5)۔ فلعلک باخع نفسک علیٰ اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا (6)۔ انّا جعلنا ما علی الارض زینت لھا لنبلوھم ایھم احسن عملا (7)۔ ا انّا لجاعلون ما علیھا صعیدا جرزا (8)۔
اور پیش آگاہ کیا جاتا ہے اُس خاص گروہ کو جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا یا جانشین ٹھہرایا ہے۔دراصل وہ اور ان کے اکابرین سب علم وآگہی سے محروم ہیں۔ یہ ایک بڑا غلط کلمہ ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتا ہے۔ یہ سب جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔ تو اے نبی ، اگر وہ لوگ اس کلام پر ایمان نہیں لاتےتم کیوں تاسف کے ساتھ ان کی باقیات و روایات پر اپنی ذات کو پریشان کرتے ہو۔ دیکھو کہ ہم نے زمین پر جو کچھ بھی اس قسم کا منفی اور مثبت تشکیل کیا ہے وہ سب اس زمین کو انسانی زندگی کے مخصوص لوازمات سے مزین کرنے کے مقصد سے کیا ہے تاکہ ہم انسانوں میں سے ہر ایک کو ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہوئےحسین اعمال کے پیمانے پر آزما لیں ۔ اور جو کچھ بھی یہاں وجود رکھتا ہے اسے ہم بالآخرضرور ایک بڑے بلند پیمانے کی تباہی کے ذریعے فنا کے گھاٹ اتار دیں گے۔
18/9: ام حسبت ان اصحاب الکھف و الرقیم کانو من آیاتنا عجبا (9)۔
اگر تم نےبھی مذکورہ بالا گروہ کی مانند یہ قیاس کیا ہے کہ سابقہ زمانے میں ہجرت کر کے اللہ کی تعلیمات میں پناہ لینے والوں (اصحاب الکھف) اور ان کے مقابلے میں معاشرے میں صاحبِ اقتدار اور بلندحیثیت والوں (الرقیم) کے مابین کشمکش کی قدیمی کہانی ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب انگیز یا حیران کن نشانی تھی ، توایسا نہیں ہے(9) ۔
18/10-12: اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالو ربّنا آتنا من لدنک رحمۃ و ھیّی لنا من امرنا رشدا (10)۔ فضربنا علیٰ آذانھم فی الکھف سنین عددا (11)۔ ثمّ بعثناھم لنعلم ایُّ الحزبین احصیٰ لما لبثوا امدا (12)۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب اُن بہادروں نے اللہ کی تعلیمات کی جانب پناہ لی تو انہوں نے بھی یہی آرزو کی تھی کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی جانب سے ہماری ذات کی نشوونما کا سامان عطا فرما (رحمۃ) اور ہمیں ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے دانش و ہدایت فراہم کر دے(10)۔ اس پر ہم نے کئی سال تک ان کی سماعتوں کو اپنی تعلیمات کے بیان و حصول کے لیے کھول دیا ، وقف کر دیا(11)۔ بعد ازاں ہم نے انہیں ان کی تبلیغی مہم پر مامور کر دیا (بعثناھم )، تاکہ ہمیں اس امر کا علم ہو جائےکہ دونوں متخالف جماعتوں میں سے کس کس نے وہ فہم اپنے ذہن سے سمجھ اور محفوظ کر لیا ہے (احصیٰ)جس کے لیے وہ سب ایک طویل مدت تک کشمکش سے گذرے تھے (12)۔
18/13-115 : نحن نقصُُّ علیک نباھم بالحق۔ انّھم فتیۃ آمنو بربھم و زدناھم ھدی (13)۔ وربطنا علیٰ قلوبھم اذ قاموا فقالو ربنا ربّ السّماواتِ و الاَرضِ لن ندعو من دونہ الٰھا ۔ لقد قلنا اذا شططا (14)۔ ھٰؤلاءِ قومنا اتخذو من دونہ آلھۃ۔ لو لا یاتون علیھم بسلطان مبین۔ فمن اظلمُ ممّن افتریٰ علی اللٰہ کذبا (15)۔
ہم تمہیں ان لوگوں کی وہ خبر سنا رہے ہیں جو اصل حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ فی الحقیقت ایک دلیر نوجوانوں کا گروہ تھا جو اپنے پروردگار کی ذاتِ عالی پر ایمان لا چکا تھا اور ہم نے ان کے سیرت و کردار کو بلند کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے ان کی ہمتوں کو اس وقت مزید باندھ دیا جب وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے(قَامُوا ) اور اعلان کر دیا کہ ہمارا پروردگار ہی اس کائنات کا پالنے والا ہے ۔ اور کہا کہ ہم اس کے علاوہ کسی اور کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ہم نے اس کے برعکس کہا تو یہ بڑی غلط کاری اور حدود فراموشی ہوگی(14)۔ انہوں نے افسوس کیا کہ دیکھو یہ ہماری قوم ہے جس نے اللہ کو مانناچھوڑ کر دوسروں کو خدا بنا لیا اگرچہ کہ یہ اپنے اس موقف پر کوئی واضح دلیل نہیں لا سکتے۔ پس کون اُن انسانوں سے زیادہ ظالم ہو گا جو اللہ پرجھوٹے بہتان باندھتے ہیں(15)۔
18/16: و اِذ اعتزلتموھم و ما یعبدون الا اللٰہ فآووا الی الکھفِ ینشر لکم ربکم من رحمتہ و یُھیّی لکم من امرکم مرفقا (16)۔
اور اے قوم اگر تم ان سے اور جن کی یہ اللہ کے ماسوا تابعداری کرتے ہیں، ترک تعلق کرلو تو آؤ اللہ کی تعلیمات کی پناہ حاصل کر لو۔ تمہارا پروردگار اپنی رحمت سے تم میں وسعت ، کثرت اور فراوانی پیدا فرما دے گا اور تمہارے مشن میں تمہیں مدد اور رفاقت مہیا کر دے گا۔ (16)
18/17: و تری الشمس اذا طلعت تزاورُ عن کھفھم ذات الیمینِ و اذا غربت تقرضھم ذات الشمالِ و ھم فی فجوۃ منہ۔ ذلک من آیاتِ اللٰہ۔ من یھدِ اللٰہ فھو المھتد۔ و من یضلل فلن تجد لہ ولیّا مرشدا (17)
اور اے نبی تُو دیکھتا ہے کہ اقتدار کا سورج (الشَّمْسَ )جب بھی کبھی بلند(طَلَعَت ) ہوا ، تو دراصل اُن نوجوانوں کی حاصل کردہ انہی الہامی تعلیمات (كَهْفِهِمْ ) سے آراستہ ہونے پر (تَّزَاوَرُ )یمن و سعادت کا حامل (ذَاتَ الْيَمِينِ ) ہو جاتا ہے۔ اور اگر ڈوب جاتا ہے(غَرَبَت ) تو اس لیے کہ اُنہی تعلیمات سے قطع تعلق ہو کر(تَّقْرِضُهُمْ ) ناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت ہو جاتا ہے (ذَاتَ الشِّمَالِ)۔ اور ایسی صورتِ حال میں وہ صالحین (وَهُمْ) اُس سے علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکے دور ہو چکے ہوتے ہیں(فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ)۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی کارفرمائیوں کی واضح نشانیاں ہیں ۔ یعنی فی الحقیقت جسے اللہ کی تعلیمات ہدایت عطا کر دیں پس وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ۔ اور جسے اس کی تعلیمات سے دوری گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی سمجھانے والا دوست نہیں رہتا۔ (17)
18/18: و تحسبھم ایقاظا و ھم رقود۔ و نقلبھم ذات الیمین و ذات الشمال۔ و کلبھم باسط ذراعیہ بالوصید۔ لو اطلعت علیھم لولّیت منھم فرارا و لملئت منھم رعبا (18)۔
پھر اگر تم یہ خیال کرو گے کہ یہ لوگ یا تو بے کار کر دیے گئے یا مار ڈالے گئے(أَيْقَاظًا )، تو ایسا نہیں ہے، بلکہ ان پر ایک قسم کے خاموش انتظار کی کیفیت (رُقُودٌ)طاری رہی۔ اور دریں اثناء اُن کی قوم میں ہمارا قانون یمن و سعادت (ذَاتَ الْيَمِينِ) اور بدبختی اور ذلالت (ذَاتَ الشِّمَالِ )کی حامل تبدیلیاں پیدا کرتا رہا(نُقَلِّبُهُمْ )۔ اور اس دوران اُن دلیر نوجوانوں کے جذبوں کی شدت اور سخت کوشی پر مبنی جدوجہد (كَلْبُهُم) وسعت پذیر رہی (بَاسِطٌ ) اور ان کا مشن دونوں جانب اپنے بازومضبوطی کے ساتھ دراز کرتا رہا (ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ )۔ اگر تم اس وقت کہیں اُن نوجوانوں کا سامنا کرتے ، تو ان کے رعب و جلال کے مارے(رُعْبًا ) اُن سے رُخ موڑ کر(لوَلَّيْتَ مِنْهُمْ ) راہِ فرار اختیار کرتے ۔ (18)
18/19-20: و کذلک بعثناھم لیتساءلوا بینھم ۔ ۔ قال قائل منھم کم لبثتم ۔۔ قالو لبثنا یوما او بعض یوم۔۔قالو ربکم اعلم بما لبثتم فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایّھا ازکیٰ طعاما، فلیا تکم برزق منہ و لیتلطّف و لا یشعرن بکم احدا (19)۔ انّھم ان یظہروا علیکم یرجموکم او یعیدوکم فی ملتھم و لن تفلحو اذا ابدا (20)۔
پھر اسی صورتِ حال کے درمیان ہم نے انہیں اس بات پر مائل کیا کہ وہ اپنے مابین فیصلہ کن بحث مباحثہ کر یں ۔ اس سلسلے میں ان میں سے ایک بولنے والے نے یہ بھی سوال اٗٹھایا کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدوجہد کی کیفیت میں گذار دیا۔ انہوں نے غیر یقینی طور پر کہا کہ ہم نے ایک خاص زمانی دور یا ایسے دور کا کچھ حصہ گذار ا ہوگا۔ تب کچھ نے کہا کہ اس بات کو اپنے رب پر ہی چھوڑدو کہ وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدو جہد کے میدان میں گذار دیا ۔ لیکن اب ایسا کرو کہ تم اپنی اس جماعت میں سے کسی ایک پختہ باشعور جوان کو(بِوَرِقِكُمْ) شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ وہاں موجود صورتِ حال کا جائزہ لے کر(فَلْيَنظُرْ) حالات کا ایک بہترین اور سیر حاصل مطالعہ و ادراک حاصل کرے (أَزْكَىٰ طَعَامًا) اور پھر اسے تمہارے استفادے کے لیے(بِرِزْقٍ) پیش کردے ۔ لیکن اس مہم میں ایسی نرم خوئی اور باریک بینی سے کام لے(وَلْيَتَلَطَّفْ ) کہ وہاں کوئی تم میں سے کسی کے بارےمیں جانکاری حاصل نہ کر پائے (19)۔اس لیے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں گے تو تمہیں سختیوں کا ہدف بنائیں گے۔ یا جبراَ تمہیں اپنے راستے کی جانب لوٹا لیں گے ۔ اور اس صورت میں تم کبھی کامیابی حاصل نہ کر سکو گے۔ (20)
18/21: و کذلک اعثرنا علیھم لیعلموا انَّ وعد اللٰہ حقُّ و انَّ السّاعۃ لا ریب فیھا اذ یتنازعون بینھم امرھم، فقالوا ابنُوا علیھم بنیانا۔ ربھم اعلم بھم۔ قال الّذین غلبوا علیٰ امرھم لنتّخذنّ علیھم مسجدا (21)۔
پھر اس طرح ہوا کہ ہم نے ان کی قوم کو ان کے کارناموں کے بارے میں با خبر بھی کر دیا تاکہ وہ سب یہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ فیصلے کی گھڑی کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب وہ آپس میں اپنے ان معاملات پر بحث مباحثہ کر رہے تھے،،، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان دلیر نوجوانوں کے اعزاز میں ایک عمارت بنائی جائے۔ انکا پروردگار ہی خوب جانتا ہے جو ان پر گذری ہے۔ پھر ان لوگوں نے جن کی رائے ان کے معاملات میں غالب آ گئی ، کہا کہ ہم تو ان کی تعلیمات کے نفاذ و اتباع کے لیے ایک مرکزِ اطاعت (مَّسْجِدًا) ضرور بنائیں گے۔(21)
18/22: سیقولون ثلاثۃ رابعھم کلبھم و یقولون خمسۃ سادسھم کلبھم رجما بالغیب۔ و یقولون سبعۃ و ثامنھم کلبھم۔۔ قل ربی اعلم بعدّتہم ما یعلمھم الا قلیل۔ ۔ فلا تمار فیھم الّا مراء ظاھرا و لا تستفت فیھم منھم احدا (22)۔
لوگ تو یہ چہ مے گوئیاں ضرور کرتے رہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ وہ صرف خیالی نشانہ بازی کرتے ہوئے(رجما بالغیب) کہیں گے۔اور یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ تم انہیں بتا دو کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرا رب ہی صحیح جانتا ہے کہ ان کی تعداد کیا تھی کیونکہ کم ہی ایسے لوگ گذرےہیں جنہیں اُن لوگوں کے بارے میں درست علم ہوگا۔ پس تم اس معاملے میں لوگوں سے بغیر کسی واضح دلیل کے بحث نہ کرو اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بھی ان صالح لوگوں کے بارے میں استفسار کرو ۔ (22)۔
18/23-24: و لا تقولن لشیء انّی فاعل ذلک غدا (23)۔ الّا ان یشاء اللٰہ ۔ و اذکر ربک اذا نسیت و قل عسیٰ ان یھدین ربّی لاقرب من ھذا رشدا (24)۔
نیز تمہارے لیے اس واقعے میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی بھی بڑی مہم کے بارے میں یہ پیش گوئی نہ کرنا کہ کل میں یہ کام ضرورکر لوں گا(23)۔ بغیر یہ کہے کہ اگر یہ اللہ کی مشیت ہوئی تو ۔ اور اگر تم ایسے معاملات میں کبھی صحیح راستہ بھولنے لگ جاؤ تو اپنے پروردگار کی صفاتِ عالی کو پیشِ نظر رکھ لیا کرو اور کہا کرو، اے کاش ایسا ہو کہ میرا رب مجھے وہ راہنمائی عطا کر دے جو سیدھے راستے سے قریب ترین ہو۔ (24) ۔
18/25-27: و لبثو فی کھفھم ثلاث مائۃ سنین وازدادوا تسعا (25)۔ قل اللٰہ اعلمُ بما لبثُوا ۔ لہ غیب السماواتِ و الارض۔ ابصر بہ واسمع ۔ ما لھم من دونہ من ولیّ و لا یشرک فی حکمہ احدا (26)۔ واتلُ ما اُوحی الیک من کتابِ ربّک ۔ لا مبدّل لکلماتہ و لن تجد من دونہ ملتحدا(27)۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ (كَهْفِهِمْ )میں تین سو سال یا اس سے بھی نو سال اوپر قیام پذیر رہے(25)۔ تم انہیں کہ دو کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی دیر قیام پذیر رہے۔ کائنات کی تمام پوشیدہ چیزوں کا علم اس ہی کے پاس ہے۔ وہ یہ سب دیکھتا اور سنتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس اُس کے علاوہ کوئی دوست و سرپرست نہیں ہے ۔ اور وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنی اتھارٹی یعنی اختیار و اقتدارمیں کسی کو شریک نہیں کرتا(26)۔ اور پڑھ کر سنا دو جو کچھ کہ تمہاری طرف تمہارے رب کی کتاب میں وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے کلمات یا قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اور تم اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں پاؤگے ۔ (27)
اب پیش ہے رواں ترجمہ، تسلسل میں کسی دخل اندازی کے بغیر :-
"" تعریف ہے اللہ کے لیے جس نے اپنے بندے پر ایک مخزونہِ علم نازل کیا جس کے ذریعے وہ اپنے بندے کےراستے میں کوئی مشکل، الجھاؤ یا کجی باقی نہیں چھوڑتا ۔ یہ استحکام بخشنے والاعلم اس لیے ہے کہ پیش آگاہ کیا جائے ُ اس شدید عذاب کے بارے میں جو اللہ کی جانب سے آنے والا ہے اور ان ایمان لانے والوں کو بشارت دی جائےجو اصلاحی یا تعمیری کام سرانجام دیتے ہیں کہ ان کے لیے خوبصورت اجر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اسی کیفیت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور پیش آگاہ کیا جاتا ہے اُس خاص گروہ کو جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا یا جانشین ٹھہرایا ہے۔دراصل وہ اور ان کے اکابرین سب علم وآگہی سے محروم ہیں۔ یہ ایک بڑا غلط کلمہ ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتا ہے۔ یہ سب جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔ تو اے نبی ، اگر وہ لوگ اس کلام پر ایمان نہیں لاتےتم کیوں تاسف کے ساتھ ان کی باقیات و روایات پر اپنی ذات کو پریشان کرتے ہو۔ دیکھو کہ ہم نے زمین پر جو کچھ بھی اس قسم کا منفی اور مثبت تشکیل کیا ہے وہ سب اس زمین کو انسانی زندگی کے مخصوص لوازمات سے مزین کرنے کے مقصد سے کیا ہے تاکہ ہم انسانوں میں سے ہر ایک کو ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہوئےحسین اعمال کے پیمانے پر آزما لیں ۔ اور جو کچھ بھی یہاں وجود رکھتا ہے اسے ہم بالآخرضرور ایک بڑے بلند پیمانے کی تباہی کے ذریعے فنا کے گھاٹ اتار دیں گے۔
اگر تم بھی مذکورہ بالا گروہ کی مانند یہ قیاس کرتے ہو کہ سابقہ زمانے میں ہجرت کر کے اللہ کی تعلیمات میں پناہ لینے والوں اور ان کے مقابلے میں معاشرے میں صاحبِ اقتدار اور بڑی حیثیت والے لوگوں کی کشمکش کی قدیمی کہانی ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب انگیز یا حیران کن نشانی تھی، تو ایسا نہیں ہے۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب ان بہادروں نے اللہ کی تعلیمات کی جانب پناہ لی تو انہوں نے بھی یہی درخواست کی تھی کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی جانب سے ہماری ذات کی نشوونما کا سامان عطا فرما اور ہمیں ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے دانش و ہدایت فراہم کر دے۔ اس پر ہم نے کئی سال تک ان کی سماعتوں کو اپنی تعلیمات کے بیان و حصول کے لیے کھول دیا/وقف کر دیا ۔ بعد ازاں ہم نے انہیں ان کی تبلیغی مہم پر تعینات کر دیا ، تاکہ ہمیں اس امر کا علم ہو جائےکہ دونوں متخالف جماعتوں میں سے کس کس نے وہ فہم اپنے ذہن سے سمجھ اور محفوظ کر لیا ہے جس کے لیے وہ سب ایک طویل مدت تک کشمکش سے گذرے تھے ۔
ہم تمہیں ان لوگوں کی وہ کہانی سنا رہے ہیں جو اصل میں مبنی بر حقیقت ہے۔ وہ فی الحقیقت ایک دلیر نوجوانوں کا گروہ تھا جو اپنے پروردگار کی ذاتِ عالی پر ایمان لا چکا تھا اور ہم نے ان کے سیرت و کردار کو بلند کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے ان کی ہمتوں کو باندھ دیا جب وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہوئےاور اعلان کر دیا کہ ہمارا پروردگار ہی اس کائنات کا پالنے والا ہے ۔ اور کہا کہ ہم اس کے علاوہ کسی اور کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ہم نے اس کے برعکس کہا تو یہ بڑی غلط کاری اور حدود فراموشی ہوگی۔ انہوں نے افسوس کیا کہ دیکھو یہ ہماری قوم ہے جس نے اللہ کو مانناچھوڑ کر دوسروں کو خدا بنا لیا اگرچہ کہ یہ اپنے اس موقف پر کوئی واضح دلیل نہیں لا سکتے۔ پس کون اُن انسانوں سے زیادہ ظالم ہو گا جو اللہ پرجھوٹے بہتان باندھتے ہیں۔
اور اے قوم اگر تم ان سے اور جن کی یہ اللہ کے ماسوا تابعداری کرتے ہیں، لا تعلق ہوتے ہو تو آؤ اللہ کی تعلیمات کی پناہ حاصل کر لو۔ تمہارا پروردگار اپنی رحمت سے تم میں وسعت ، کثرت اور فراوانی پیدا فرما دے گا اور تمہارے مشن میں تمہیں مدد اور رفاقت مہیا کر دے گا۔
اور اے نبی تُو دیکھتا ہے کہ اقتدار کا سورج جب بھی کبھی بلندہوا ، تو دراصل اُن نوجوانوں کی حاصل کردہ انہی الہامی تعلیمات سے آراستہ ہونے پر یمن و سعادت کا حامل ہو جاتا ہے۔ اور اگر ڈوب جاتا ہےتو اس لیے کہ اُنہی تعلیمات سے قطع تعلق ہو کرناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت ہو جاتا ہے ۔ اور ایسی صورتِ حال میں وہ صالحین اُس سے علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی کارفرمائیوں کی واضح نشانیاں ہیں ۔ یعنی فی الحقیقت جسے اللہ کی عطا کردہ تعلیم ہدایت عطا کر تی ہے پس وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ۔ اور جسے اس کی تعلیمات سے دوری گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی سمجھانے والا دوست نہیں رہتا۔
پھر تم یہ خیال کرو گے کہ یہ لوگ یا تو بے کار کر دیے گئے یا مار ڈالے گئے۔ جبکہ ایسا نہیں، بلکہ ان پر ایک قسم کے خاموش انتظار کی کیفیت طاری رہی۔ اور ہم دریں اثناء ان کی قوم میں یمن و سعادت اور بدبختی اور ذلالت کے ادوار تبدیل کرتے رہے۔ تاہم ان کے جذبوں کی شدت اور سخت کوشی پر مبنی جدوجہد وسعت پذیر رہی اور ان کا مشن دونوں جانب اپنے بازومضبوطی کے ساتھ دراز کرتا رہا۔ اگر تم اس وقت کہیں اُن نوجوانوں کا سامنا کرتے ، تو ان کے رعب و جلال کے مارے اُن سے رُخ موڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ۔
پھر اسی صورتِ حال کے درمیان ہم نے انہیں مائل کیا/ اکسایا کہ وہ اپنے مابین فیصلہ کن بحث مباحثہ کر یں ۔ اس سلسلے میں ان میں سے ایک بولنے والے نے پوچھا کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدوجہد کی کیفیت میں گذار دیا۔ انہوں نے غیر یقینی طور پر کہا کہ ہم نے ایک خاص زمانی دور یا ایسے دور کا کچھ حصہ گذار ا ہوگا۔ تب کچھ نے کہا کہ اس بات کو اپنے رب پر ہی چھوڑدو کہ وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدو جہد کے میدان میں گذار دیا ۔ لیکن اب ایسا کرو کہ تم اپنی اس جماعت میں سے کسی ایک پختہ باشعور جوان کو شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ وہاں موجود صورتِ حال کا جائزہ لے کر حالات کا سیر حاصل مطالعہ و ادراک حاصل کرے پھر اسے تمہارے استفادے کے لیے پیش کردے ۔ لیکن اس مہم میں ایسی نرم خوئی اور باریک بینی سے کام لے کہ وہاں کوئی تم میں سے کسی کے بارےمیں جانکاری حاصل نہ کر پائے ۔س لیے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں گے تو تمہیں لعن طعن کا ہدف بنائیں گے۔ یا جبراَ تمہیں اپنے راستے کی جانب لوٹا لیں گے ۔ اور اس صورت میں تم کبھی کامیابی حاصل نہ کر سکو گے۔
پھر اس طرح ہوا کہ ہم نے ان کی قوم کو ان کے بارے میں با خبر بھی کر دیا تاکہ وہ سب یہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ فیصلے کی گھڑی کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب وہ اپنے مابین ان معاملات پر بحث مباحثہ کر رہے تھے،،، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان دلیر نوجوانوں کے اعزاز میں ایک عمارت بنائی جائے۔ انکا پروردگار ہی خوب جانتا ہے جو ان پر گذری ہے۔ پھر کچھ دوسروں نے جن کی رائے ان کے معاملات میں غالب رہی ، کہا کہ ہم تو ان کی تعلیمات کے نفاذ و اتباع کے لیے ایک مرکزِ اطاعت ضرور بنائیں گے۔
لوگ تو یہ چہ مے گوئیاں ضرور کرتے رہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ وہ صرف خیالی نشانہ بازی کرتے ہوئے کہیں گے۔اور یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ تم انہیں بتا دو کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرا رب ہی صحیح جانتا ہے کہ ان کی تعداد کیا تھی کیونکہ کم ہی ایسے لوگ گذرےہیں جنہیں اُن لوگوں کے بارے میں درست علم ہوگا۔ پس تم اس معاملے میں لوگوں سے بغیر کسی واضح دلیل کے بحث نہ کرو اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بھی ان صالح لوگوں کے بارے میں استفسار کرو ۔
نیز تمہارے لیے اس واقعے میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی بھی بڑی مہم کے بارے میں یہ پیش گوئی نہ کرنا کہ کل میں یہ کام ضرورکر لوں گا۔ بغیر یہ کہے کہ اگر یہ اللہ کی مشیت ہوئی تو ۔ اور اگر تم ایسے معاملات میں کبھی صحیح راستہ بھولنے لگ جاؤ تو اپنے پروردگار کی صفاتِ عالی کو پیشِ نظر رکھ لیا کرو اور کہا کرو، اے کاش ایسا ہو کہ میرا رب مجھے وہ راہنمائی عطا کر دے جو سیدھے راستے سے قریب ترین ہو۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ میں تین سو سال یا اس سے بھی نو سال اوپر قیام پذیر رہے۔ تم انہیں بتا دو کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی دیر قیام پذیر رہے۔ کائنات کی تمام پوشیدہ چیزوں کا علم اس ہی کے پاس ہے۔ وہ یہ سب دیکھتا اور سنتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس اُس کے علاوہ کوئی دوست و سرپرست نہیں ہے ۔ اور وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنی اتھارٹی یعنی اختیار و اقتدارمیں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور پڑھ کر سنا دو جو کچھ کہ تمہاری طرف تمہارے رب کی کتاب میں وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے کلمات یا قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اور تم اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں پاؤگے ۔""
. . . . . .
آخر میں بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے مستند معانی، جو 10 عدد لغات میں تحقیق کی مدد سے حاصل کیے گئے ہیں :-
(اصحاب الکھف) : کہف : پناہ ، پناہ گاہ، غار، آسرے کی جگہ، چھپنے کی جگہ، ہجرت کر کے آباد ہونے کا مقام، بچنے، محفوظ ہو جانے کا مقام؛ ایک مددگار شخص ۔
الکہف: ایک خاص پناہ گاہ؛ اللہ کی عطا کردہ پناہ گاہ؛ اللہ کی تعلیمات کے تحفظ و پناہ میں آجانا۔
(الرقیم): رقم: لکھا ہوا، لکھا گیا، کتاب، تحریر، کندہ کیا ہوا کتبہ، عقل و شعور (intelligence)، ستاروں سے سجا ہوا آسمان- - الرقیم : وقت کی ایلیٹ کلاس، صاھبِ اقتدار و اختیار طبقہ۔
(رحمۃ): سامان نشو و نما، رحمت، حفاظت کرنا، مدد کرنا، فائدہ پہنچانا، محبت، نرمی، ترس کرنا، معاف کر دینا، نسبی تعلق، رشتہ داری، عورت کا رحم،وغیرہ۔
(بعثناھم): بعث: جو کچھ بھی بھیجا گیا؛ اکسانا، مائل کرنا، ابھارنا، حرکت میں لانا، تقاضا کرنا، جگانا، اٹھانا، کسی کام پر مامور، تعینات کرنا، وغیرہ۔
(احصیٰ):گننا، اندازہ لگانا، حساب لگانا، احاطہ کرنا، انکار کرنا، ایک چھوٹا پتھر کسی کو مارنا، یادداشت میں محفوظ کر لینا، کسی امر کو اچھی طرح سمجھ لینا، وغیرہ۔
(الشَّمْسَ ): سورج؛ سورج اقتدار کا استعارہ ہے ۔یہاں یہ اسی استعارہ میں استعمال ہوا ہے۔
(طَلَعَت ): طلع: طلوع ہونا، ابھر کر آنا، بلند ہونا، آگے نکل جانا، گذر جانا، وغیرہ
(كَهْفِهِمْ ): ان کی وہ تعلیمات جس کی انہوں نے پناہ و تحفظ حاصل کیا ۔
(تَّزَاوَرُ ): کسی کی جانب مائل ہونا، کسی کی جانب سے رخ بدلنا، مڑ جانا، ایک جانب ہو جانا، چھوٹ بولنا، ملنا، ملاقات کرنا۔
(ذَاتَ الْيَمِينِ): وہ جو یمن و سعادت کا حامل ہو؛ وہ جو راست کردار کا مالک ہو ؛ وہ جو سیدھی جانب چلنے والا ہو۔
(غَرَبَت ): غرب: ڈوب جانا، زوال ہو جانا۔ مغرب کی سمت۔
(تَّقْرِضُهُمْ ) : ق ر ض : علیحہدہ ہو جانا، دوسری جانب مڑ جانا، قطع تعلق کرنا، چھوڑ کر گذر جانا، خلاف ہو جانا۔
(ذَاتَ الشِّمَالِ): ناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت کا حامل ۔بائیں جانب کا رحجان رکھنے والا۔بد قسمتی۔ غیر مبارک۔
(فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ): علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکےاُس سے دور ہو جانا۔ ۔فجوۃ: علیحدگی، وسیع فاصلہ، کشادہ جگہ، طاقت/اقتدار میں نزول، کمی، زوال۔
(أَيْقَاظًا): و ق ظ : وقظ: سخت مار مارنا ؛ کھڑے ہونے یا اُٹھنے کے قابل نہ چھوڑنا؛ مار ڈالنا؛ ہمت، حوصلہ توڑ دینا؛ منجمد، محفوظ کر دینا۔
(رُقُودٌ): ر ق د: رقد: غنودگی، نیند، ساکت/خاموش رہنا، نظر انداز کرنا، قبر، مردہ ہونا۔
(نُقَلِّبُهُمْ ): قلب: تبدیلی کا عمل؛ بدل جانا، واپس ہونا، پچھتاوا اور غم کرنا، مکمل تبدیلی لانا، سمت یا رُخ کی تبدیلی، حالات کی تبدیلی۔
(كَلْبُهُم): ک ل ب: کتا، وحشی جانور، جنون کا شکار ہو جانا، انتہائی سخت اور شدید جذبے کا حامل ہو جانا، غصے میں اُٹھ کھڑا ہونا، سرکشی، غیض و غضب، ضد، تشدد، سخت کوشی، پیاس کی بیماری، پاگل پن، لالچ، وغیرہ۔
(بَاسِطٌ ): بسط: پھیلانا ۔ پھیلا ہوا ۔ دراز کیا ہوا۔
(ذِرَاعَيْهِ): ذرع: ۔ ۔ زراعی: وسیع پیمانے پر پھیلانا، طاقت، پیمانہ، طول، اگلے پیر، دونوں بازو، ذرائع، قابلیت/اہلیت، حدود۔
(بِالْوَصِيدِ ): وصد: تیز، مضبوط، اپنی جگہ قائم رہنا، کھڑے ہونا، وسائل کا اکٹھا کرنا، مخزن، سٹور تعمیر کرنا۔
(بِوَرِقِكُمْ) : ورق : کاغذ کا شیٹ، کتاب کا کاغذ، دستاویز، پتے، جوبن اور تازگی، خوبصورتی، چاندی، چاندی کا سکہ، جوان اپنے شباب پر، ایک جماعت کے جوان لوگ۔
(فَلْيَنظُرْ) : نظر : وہ دیکھے، تجزیہ کرے، مطالعہ کرے، ادراک و معرفت حاصل کرے۔
(أَزْكَىٰ طَعَامًا): حالات کا ایک بہترین اور سیر حاصل مطالعہ و ادراک ؛
طعام: کھانا، حاصل کرنا، انجکشن لگوانا، علم دینا، علم سے آراستہ کر دینا۔
ازکی: زکو؛ زکیٰ: بھرپور علم، طاقت، نشوونما رکھنے والا۔ ترقی یافتہ، خوشحال، بھرپور، خالص، سچائی، فراوانی، درست حالت میں ہونا، ٹیکس کے واجبات۔
(بِرِزْقٍ): ر ز ق : پیش کردیا، فراہم کر دیا، عطا، کیا، انعام، تحفہ، حصہ، مہیا کرنا، بہم پہنچانا، گذر اوقات کے ذرائع عطا کرنا۔
(وَلْيَتَلَطَّفْ )؛ ل ط ف : نرم روی، لطیف انداز، شائستگی، شانداری، مہربانی، عمدگی، باریک بینی، تکلیف میں خیال کرنا/آرام دینا۔ تحفہ دینا، نرمی، نزاکت۔
(رجما بالغیب):
رجم: قیاس آرائیاں کرنا؛ غلط اندازے لگانا؛ پتھر مارنا؛ لعنت ملامت کرنا، باہر نکال دینا، لعن طعن کرنا، زمین کو پیروں سے کچلنا۔
(غیب ): غائب، نظروں سے دُور، چھپا ہوا، تصور اور حسیات سے دور، غیر مرئی، جھوٹی شکایتیں لگانا۔
- Hits: 2284
Translation 19: Kaaba, Baitullah, Masjid Al-Haraam
تحقیق: کیا واقعی کعبہ بیت اللہ ہے؟ کیا مسجد الحرام کا معنی کعبہ ہے؟
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 19
Fully Expanded Version of Translation 13
قسط نمبر 13 اور 18 سے پیوستہ
استفسارات کے جواب میں مزید آیات کا علمی اور عقلی ترجمہ، جو روایتی بے ربط اور غیر شعوری تراجم کو کالعدم قرار دیتا ہے۔
آیات : 5/94 - 97
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّـهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّـهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴿٩٥﴾أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿٩٦﴾ جَعَلَ اللَّـهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٩٧﴾
اے اہلِ ایمان، اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور ان قیدیوں کے معاملے میں آزمائش میں ڈالے گا جو تمہاری فوجی طاقت کے ذریعےتمہارے قبضےمیں آتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ یہ خوب جان لے کہ کون آنے والے نتائج کے حوالے سے اللہ کا خوف رکھتا ہے۔ پس اس کے بعد جو بھی حدود سے تجاوز کرے گا اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ﴿٩٤﴾
اے اہلِ ایمان، گرفتار شدگان [الصَّيْدَ ]کے ساتھ ظلم وبے رحمی کا سلوک کرتے ہوئے انہیں ذلیل و حقیر نہ کرو [تَقْتُلُوا ]جب کہ تم پر ایسا کرنے کی ممانعت [حُرُمٌ ]بھی ہے ۔ پھر بھی اگر کوئی تم میں سے ارادتاْ ان کے ساتھ اس زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی سزا اسی کے مطابق ہے جس قدر کہ اس نے قیدی کو آرام و سہولیات سے محروم کیا ہے[قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ] ۔ اس سزا کا فیصلہ تم میں سے دو اصحابِ عدل کریں گے ۔ یہ وہ ہدایت ہے جو نہایت بلند مقام [الْكَعْبَةِ ]کی حامل ہے ۔ بصورتِ دیگر اس کا کفارہ مساکین کے لیے معاش کے اسباب مہیا کرنا ہے، یا اس کا مساوی بدل [عَدْلُ ذَٰلِكَ] پرہیزگاری کے ایک کڑے تربیتی نظام سے گذرنا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی اس روش کے برے نتیجے کا ذائقہ چکھے ۔ اللہ تعالیٰ نے وہ سب معاف کر دیا ہے جو کچھ ماضی میں گذر چکا ہے ۔ لیکن جو اب بھی اس کا اعادہ کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا ۔ یاد رہے کہ اللہ غلبہ رکھنے والا ہے اور انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ ﴿٩٥﴾
تمہارے لیے ایسا قیدی رکھنا جائز ہے جو کوئی مال و دولت کی کثرت والا بڑا/مشہور آدمی ہو(صَيْدُ الْبَحْرِ) اور جس کے وسائل تمہارے لیے اور تمہارے لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے اسباب مہیا کریں ۔ اور پرہیزگار، نیک طینت و نیک سیرت قیدی(صَيْدُ الْبَرِّ) رکھنا تمہارے لیے ممنوع ہے جب تک کہ تمہیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔ پس ان معاملات میں اللہ کے احکامات کی پرہیز گاری کرو جس کے پاس تم نے جمع ہو کر پیش ہونا ہے۔﴿٩٦﴾
بڑے بلند مقام کا حامل(الْكَعْبَةَ) بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے محترم مرکزِ ہدایت کو(الْبَيْتَ الْحَرَامَ )، جو انسانوں کو ایک ہمہ گیر استحکام عطا کرتا ہے، خواہ وہ معاہدوں کی رو سے عائد شدہ پابندیوں کی صورتِ حال یا کیفیت [الشَّهْرَ الْحَرَامَ]میں ہو، حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں [الْهَدْيَ] کی پیروی میں ہو ، یا تم پر عائد دیگر ذمہ داریوں [الْقَلَائِدَ] کی بطریق احسن ادائیگی میں۔ ﴿٩٧﴾
صَيْدُ الْبَحْرِ: ب ح ر:Ba-Ha-Ra
Slit, cut, divide lengthwise, split, enlarge or make wide man of great wealth, abundance and generosity; ocean, sea, a large expanse of water, a great river, etc.
صیدالبر: ب ر ر= Ba-Ra-Ra =
Being pious, kind, good, gentle, affectionate, beneficent, just, righteous, virtuous, honest, true, veracious, sweet of speech, merciful
Sinlessly performing something
Recompensing, rewarding for obedience, accepting and/or approving
Driving or calling sheep/goats
Verifying or proving an oath true
One who overcomes, overcoming someone with good actions or speech
Overcoming an adversary or overcoming by evil
Talking too much, confused clamor, noise, crying out, talking in anger or confusion, talking unprofitably
Ampleness, largeness or extensiveness
Land or elevated ground open to view, out of doors or exposed to view
Wheat, grain/s of wheat or coarsely ground flour
Obedience
Good, sweet or pleasant word expression or saying
Of, belonging to or relating to the land and or the desert/waste
External, outward, apparent or public
A truly and honestly executed sale
صید : captured, caught, trapped, usually in game hunting ؛ پکڑا، گرفتار کیا ہوا ، قیدی۔
الْكَعْبَةَ: بڑے بلند مقام کا حامل۔
الْبَيْتَ الْحَرَامَ: قابلِ احترام نظریاتی مرکزِ
الشَّهْرَ الْحَرَامَ: ممنوعہ/پابندیوں کی صورتِ حال/کیفیت
الْهَدْيَ:
الْقَلَائِدَ:
آیات : 9/19، 28
آیت: 9/19
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ اللذین اٰمنو و ھاجروا و جاھدُوا فی سبیل اللٰہ باموالھم و انفُسھم، اعظمُ درجۃ عند اللٰہ۔ و اُولٰئک ھم الفآئزون۔(20)
کیا دلائل کے ساتھ اتمامِ حجت چاہنے والوں [الحاج ]کی علمی پیاس کو سیراب [سقایۃ ]کرنے ، اور واجب الاحترام مرکزِ اطاعت و عبودیت [المسجد الحرام ]میں فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اسے آباد رکھنے [عمارۃ] کےعمل کو تم اُن لوگوں کے عمل کی مانند بنا نے کی کوشش کرتے ہو[اجعلتم] جنہوں نے اللہ پر ایمان اور دورِ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عملی جہاد کیا؟؟؟ نہیں، وہ اللہ کے نزدیک مساوی نہیں ٹھہرتے ۔ یہ حق کے ساتھ ناحق کرنا ہے اس لیے یاد رہے کہ اللہ کا قانون حق تلفی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔درحقیقت جو لوگ اللہ کی راہنمائی پر ایمان لائے ، اور اس کی خاطر ہجرت کا دکھ برداشت کیا، اور اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہدکی، انہی کا درجہ اللہ کے نزدیک عظیم تر ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب و کامران ہوئے۔
بریکٹوں میں دیے ہوئے مشکل الفاظ کے مستند معانی :
سقایۃ : پانی دینے کا یا آبپاشی کا نظام، اس نظام کا آفس، وہ مقام یا مرکز جہاں سے پیاس کو سیراب کیا جائے، وہ برتن جس میں کچھ پینے کو دیا جائے، {استعارہ} سقاک اللہ = اللہ تجھے خوب سیراب کر دے ۔ کسی کمی کو فراوانی دے کر سیراب کر دینا۔
[حاج ] حج: وہ اس پر دلائل سے غالب آیا؛ دلائل دینا، حجت کرنا، الزام کو دلیل سے ثابت کرنا، ثبوت، شہادت یا گواہی۔
ایسا کرنے والا = حاج ۔
[عمارۃ]: ع م ر : پھلنا پھولنا، خوشحال ہونا، ترقی کرنا، آبادی کرنا، لوگوں سے بھرنا، آباد کرنا، تہذیب یافتہ ہونا، فراوانی کا مالک ہونا، زندگی سے بھرپور ہونا، ترقی کا باعث بننا، خوشحال کرنا، تعمیر کرنا، جوڑ کر فٹ کرنا، بنانا، بحال کرنا، جینے دینا، محفوظ کرنا
آیت: 9/28:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٢٨﴾
اے اہلِ ایمان دراصل یہ مشرکین روحانی پاکیزگی کے حامل نہیں ہیں۔ فلہذا بہتر ہوگا کہ وہ اپنے اس ثابت شدہ طریقِ کار اور رویہ (عَامِهِمْ هَـٰذَا) کے مظاہرے کے بعدواجب الاحترام مرکزِ حکومتِ الٰہیہ(الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ) کے قریبی تعلق میں(يَقْرَبُوا) نہ آنے دیے جائیں ۔ اگر اس صورت حال کی وجہ سے تمہیں لوگوں کی کمیابی (َعيْلَةً)کا اندیشہ ہو، تو اللہ اپنے فضل سے اور اپنی مشیت سے تمہیں ایسی احتیاجات سے مستغنیٰ فرما دے گا۔ بے شک وہ سب جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
O people of faith, these polytheists are indeed not the bearer of spiritual purity; it will therefore be better if, after this show of their proven ill-conduct, they are not allowed a close contact with the respected Center of Command/Submission. And if you fear shortage of numbers thereby, Allah will bless you with abundance by His Grace. Indeed Allah is all-knowing, all-wise.
(عَامِهِمْ هَـٰذَا) : ان کا ثابت شدہ رویہ/کردار- ع و م : عام : تیرنا؛ ایک خاص رویہ، طریقِ کار/راستہ/کردار اختیار کر لینا۔ اس کو سنہ یعنی سال کے معنی میں بھی اسی لیے لیتے ہیں کیونکہ سورج سال کے دوران اپنے ایک مخصوص راستے کو اختیار کرتے ہوئے گذرتا ہے۔
(َعيْلَةً): Destitution; ؛to bcome in want ؛ ویرانہ؛ لوگوں کی کمیابی؛ بھلا دیا جانا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھائی منظور صاحب کے سوالات کے جواب میں ،،،جن کے ذریعے وہ کعبہ، بیت اللہ اور حج کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
ان کے سوالات اس طرح ہیں :
۱] "رب ھذا البیت" ؟؟؟؟ کیا یہ کعبے کی جانب واضح اشارہ نہیں؟؟؟ اس کے ضمن میں سورۃ قریش کا ترجمہ پیش کیا جا چکا ہے جہاں " ھذا البیت " کے معانی کی تشریح کر دی گئی ہے۔ اس کا اشارہ کعبے کی جانب نہیں ۔ حضرت ابراہیم کے وطن میں قائم شدہ کسی مرکز کی جانب اشارہ ہے۔
۲] "ھذا البلد الامین"؟؟؟؟ کیا اس سے مراد مکہ اور کعبہ نہیں؟؟؟ اس ضمن میں سورۃ التین کا ترجمہ کیا جا چکا ہے، ذیل میں [۲] پرموجود ہے۔ یہاں بھی روایتی کعبے کی جانب اشارہ نہیں ۔ بلکہ حضرت ابراہیم کے وطن کی جانب اشارہ ہے۔
۳] ۱۷/۱ : "من مسجد الحرام الی مسجد الاقصٰی "؟؟؟؟؟ کیا یہاںمسجد الحرام سے مراد کعبہ نہیں؟اس ضمن میں سورۃ اسریٰ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ ذیل میں [۳] پرموجود ہے۔یہاں بھی مسجد الحرام سے مراد روایتی کعبہ نہیں ۔
۴] "واد غیر ذی زرع،،،،،،،عند بیتک المحرم،،" ؟؟ کیا یہاں بھی مکہ اور کعبہ مراد نہیں؟؟؟ اس ضمن میں ترجمہ سورۃ ابراہیم کے عنوان کے تحت ذیل میں [۴] پرموجود ہے۔ یہاں کہیں بھی کعبہ یا مکہ یا اس کے تقدس یا مرکزی مقام ہونےکی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے ۔
۵] ایک بہت اہم آیت، جس سے کعبے کی توثیق کا حتمی ثبوت ملتا ہے : اجعلتم ثقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام، کمن آمن باللہ و الیوم الآخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے آپ کیا کہیں گے ؟
نہیں ،یہاں سے بھی یہ توثیق نہیں ہوتی ۔ ترجمہ نمبر ۵] پر ملاحظہ فرمائیں ۔
۶] پھر مکہ میں کعبے کا حج کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
لفظ "حج" کے معانی و مفہوم کی تشریح کافی و شافی طور پر ان تراجم کی سیریز میں "قسط نمبر 18" کے ساتھ کی جا چکی ہے ۔ جہاں مستند طور پر ثابت کر دیا گیا ہےکہ حج سے مراد مغفرت کے لیے یا بین الاقوامی اجتماع کے لیے زیارت یا بڑا اجتماع نہیں ہے ۔ بلکہ دینِ الٰہی کی تفہیم و تسلیم کے لیے کسی بھی قریبی نظریاتی مرکز میں بحث و مباحثہ ، یا اتمام حجت ہے ۔ اگر ہم مسلمان اندھی تقلید کے خوگراور بغیر تحقیق کیے بڑے بڑے کام کرنے کے عادی ہیں تو حج کی موجودہ شکل اختیار کرنے میں خود ہماری ہی غلطی ہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔ "صوم و حج" کے عنوان کے تحت قسط نمبر 8 اور حج کے عنوان کے تحت قسط نمبر 18 طلب فرمائیں۔
*******************
اب درج بالا پوائنٹ نمبر ۲ سے وضاحتیں پیش ِ خدمت ہیں۔
۲] سورۃ التین:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿٣﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ ﴿٧﴾ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
۹۵/۱ – ۹۵/۳ : وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے کی [وَطُورِ سِينِينَ ]جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی [الْبَلَدِ الْأَمِينِ ]جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے،
۹۵/۴: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔ ۹۵/۵: ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔ لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔
۹۵/۶: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔
۹۵/۷: فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ نظامِ زندگی [ضابطہِ کردار] کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟
۹۵/۸: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
اور اب رواں ترجمہ :
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے، کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔
لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔ اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ ضابطہِ کردار کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟ تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند ترجمہ:
[وَطُورِ سِينِينَ ]: طور : گرد گھومنا، قریب جانا، وقت یا ایک خاص وقت؛ متعدد مرتبہ؛ تعداد/پیمانہ/حد/پہلو/شکل و صورت/حلیہ/طور طریقہ/ تہذیب و آداب/قسم/طبقہ/مرحلہ/درجہ؛ سینا پہاڑ، زیتون کا پہاڑ؛ بہت سے دوسرے پہاڑ، وہ پہاڑ جہاں درخت پیدا ہوتے ہوں؛ خود کو انسانوں سے علیحدہ کر لینا، اجنبی، آخری حد، دو انتہاوں کا سامنا۔
سینین: س ن و: سنا : شان و شوکت، رحمتیں اور انعامات، ناموری ۔ بعض اسے سیناء سے ملاتے ہیں جو صحرائے سینائی میں ایک پہاڑ ہے ۔ مگر جس کی کوئی ٹھوس توجیہ یا لسانی بنیاد نہیں ہے ۔
[الْبَلَدِ الْأَمِينِ ] : البلد : زمین کا ایک خطہ، حدود مقرر کردہ قطعہِ اراضی، آبادی کا علاقہ، آباد شہر۔
البلد الامین = وہ خطہِ زمین جسے مامون و محفوظ کر لیا گیا ہو۔
**********************************
۳] سورۃ اسراء
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کی کیفیت میں [لَيْلًا ]اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی [ أَسْرَىٰ ] ، ایک ممنوع کیے گئے مقام اطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ] سے، بہت دور کے ایک دوسرے مرکزِاطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو [حَوْلَهُ ] ہم نے ما قبل ہی سے ذریعہِ فیض و برکات ، یعنی سازگار بنا دیا تھا [بَارَكْنَا] ، تاکہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھائیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
اور اب رواں ترجمہ:
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کے درمیان اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی ، ایک ممنوع کیے گئے مقامِ اطاعت و عبودیت سے، دُور کے اُس مرکزِ اطاعت و عبودیت کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو ہم نے ما قبل ہی سے اس کے مشن کے لیے ذریعہِ فیض و برکات یعنی مکمل سازگار بنا دیا تھا ۔ اور یہ اس مقصد کے تحت کہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھا دیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
بریکٹ شدہ الفاظ کے مستند تراجم:
[لَيْلًا ]: تاریک رات مین، ایک شب و روز میں ، سورج کے غروب ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک؛ the civil day from sunset to sunset ، اندھیروں میں۔
[أَسْرَىٰ ] : بلند ترین مقام، چوٹی، پانی کا نشمہ، ندی، قوم کا سربراہ، رات کا سفر : سفر؛ رخصت ہونا، کسی کو رات کےسفر کے لیے کہنا؛ بلند مقام کی طرف لوٹنا یا ہجرت کر جانا؛ travel during night, to depart, ; to make anyone to travel by nation, repair to an upland; highest point; summit; rivulet; fountain,; stream; chief of the
[الْمَسْجِدِ] : س ج د: برتری، اتھارٹی تسلیم کر لینا؛ جھک جانا، خود کو حقیر کرنا؛ تعظیم دینا، اطاعت کرنا، انکساری/عاجزی کرنا، سلوٹ کرنا؛ احکامات کے سامنے جھک جانا؛ [مفرداتِ راغب: اصل معنی فروتنی اور عاجزی ہیں]
مسجد: سجد سے اسم ظرف اور اسم مفعول : وہ جگہ یا مرکز جہاں جھکنا، اطاعت کرنا ہے ، یا وہ احکامات جن کے سامنے جھکنا اور جن کی اطاعت کرنا ہے ۔
[ الْحَرَامِ ]: [یہ لفظ متضاد معانی پر محیط ہے یعنی حرام اور ممنوع بھی اور محترم یا قابلِ احترام بھی ۔ استعمال سیاق و سباق کے مطابق ہوگا۔]ممنوعہ، جرم، غیر قانونی، ناقابلِ خلاف ورزی، ، لعنتی، انکار کرنا، پابندیوں والا ؛ محترم، مقدس ،حرمت والا، ۔
[الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]: ق ص و : دور دراز، فاصلے پر، دور چلے جانا، انتہا۔ اقصیٰ : زیادہ دور، زیادہ فاصلے پر
[حَوْلَهُ ] : اس کا ماحول، اس کے اطراف و جوانب ؛ اس کے گردا گرد۔
[بَارَكْنَا] : ہم نے برکت دی، سازگار، محکم، مضبوط بنادیا۔
*******************************
4] سورۃ ابراہیم : ۱4/۳۵--
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین [الْبَلَدَ] کو امن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں [بَنِيَّ] یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات [الْأَصْنَامَ ]سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں [أَن نَّعْبُدَ َ] ۔
آیت: ۱۴/۳۶
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارگکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
آیت : ۱۴/۳۷
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد [مِن ذُرِّيَّتِي] کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز [بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ]کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں [بِوَادٍ] بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے [غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں [لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ]۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات [أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے [وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ] تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں [يَشْكُرُونَ ]۔
آیت: ۱۴/۳۸
رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔
آیت: ۱۴/۳۹
﴿٣٨﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٩﴾
اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا
ہے ۔
آیت: ۱۴/۴۰
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾
اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
آیت: ۱۴/۴۱
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو احتساب کی سٹیج قائم ہونے کے مرحلے میں [يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] تحفظ عطا فرما دے [اغْفِرْ ]۔
اب رواں ترجمہ:
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین کوامن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں ۔
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارتکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں ۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں ۔
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا ہے ۔اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو اُس مرحلے میں بھی تحفظ عطا فرما دے جب تیرےاحتساب کی سٹیج قائم ہوگی۔
اور اب بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے مستند تراجم، جن کے لیے دو عدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے ۔
[الْبَلَدَ] : خطہِ زمین ، ایسا علاقہ جو حدود کے اندر واقع ہو ، ایک آباد علاقہ، ایک شہر۔
[بَنِيَّ] : baniyya :بیٹے، اولاد، جانشین : جمع کا صیغہ ہے ۔ اسی کا واحد ہے : banayya : میرا بیٹا
[الْأَصْنَامَ ]: الراغب: وہ تمام چیزیں جو انسان کو خدا کی طرف سے موڑ دیں؛ ہر چیز جو انسان کی توجہ کو دوسری جانب منعطف کر دے؛ جس کی بھی اللہ کے علاوہ اطاعت کی جائے؛ نیز پتھر یا لکڑی کی کوئی بھی صورت جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہو۔
[أَن نَّعْبُدَ َ] ۔کہ ہم اطاعت و فرماں برداری نہ کریں۔
[مِن ذُرِّيَّتِي] : میری اولاد ؛ میری نسل ؛ یا میری اولاد میں سے۔
[بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ] : تیرا قابلِ احترام نظریاتی مرکز ؛ تیرے احکامات کی تعمیل کا مرکز؛ تیرا محترم ادارہ؛ مرکزِ حکومتِ الٰہیہ۔
[بِوَادٍ] : واد؛ ودی؛ ودیان: طریقہ، مذہب، اسلوب، طرز ، سوچ، وادی، دریا کی وادی یا گذرگاہ، نشیب، کیمپ؛ [ الراغب: فلاں فی واد غیر وادیک = فلاں کا مسلک تجھ سے جداگانہ ہے - قاموس الوحید: ھما من واد واحد = وہ دونوں ایک ہی اصل سے یا طریقے یا مسلک سے ہیں]
[غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] : بیج نہ ڈالا گیا، فصل نہ بوئی گئی، جہاں زمین تیار نہ کی گئی، بیج ڈالنے اور فصل اگانے کے لیے۔
[لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ] : تاکہ وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کریں ۔
[أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]: لوگوں کے رحجاناتِ قلب، میلانِ طبع، سوچ و فکر۔
[وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ]: ثمرات: صرف پھل نہیں بلکہ خوشگوار نتائج، اجر، ثواب، انعامات
[يَشْكُرُونَ ]۔ ان کی کوششیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ شکر : کوششوں کے بھرپور نتائج پیدا ہونا۔
[يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] : وہ وقت، دور یا سٹیج جب انسانوں کے اعمال پر احتساب کی کاروائی عمل میں لائی جائیگی ۔اور سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا ۔ [استعاراتی اسلوب]
[اغْفِرْ ]۔ غ ف ر : تحفظ اور بچاو کے اسباب عطا کرنا ۔
***************
- Hits: 2447
اورنگزیب یوسفزئی جولائی 2015
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر (20)
سورۃ القدر
بسلسلہ قرآنی مباحثِ رمضان
رمضان ہی کے ضمن میں سورۃ القدر کا جدید ترین علمی/ادبی/منطقی ترجمہ، خالص قرآنی مقصود کے سیاق و سباق میں، بہت سے ساتھیوں کی با اصرار فرمائش پر، پیش خدمت ہے ۔
روایتوں سے ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ لیلۃ القدر رمضان کے مہینے میں آخری عشرہ کے دوران کسی طاق رات میں واقع ہوتی ہے اور اُس رات کی عبادت تمام عمر کے ارتکاب شدہ گناہ و جرائم سے انسان کو پاک کر دیتی ہے۔ افسوس کہ قرآنِ پاک کی نصوصِ صریحہ کے مطابق رمضان کا مہینہ بھی ایک ڈھونگ، کھانے پینے کا روزہ رکھنا بھی ایک ڈھونگ اور نجات کا ایک رات کا فارمولا ، یا شارٹ کٹ، بھی ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
متعلقہ لٹریچر طلب فرما کر صدیوں پرانے ملوکیت کے نافذ کردہ اس بڑے دھوکے سے نجات حاصل کریں ۔
In RAMADHAN’s perspective, the Chapter Al-Qadr, with its latest academic/literary/logical translation, in the context of great Quranic goals, is presented upon insistant demand by friends.
Islamic Traditions hold it that the “Night of Virtues” occurs during one of the odd nights in the last 10 days of the Month of Ramadhan; and that worship during that night can fetch Salvation from the life-long sins and crimes, and the sinner gets cleansed. Unfortunately, according to Quran’s precise testimony, the ‘Month of Ramadhan”, the “Fasting” during the month and the formula/short-cut of “Salvation within one night”, are nothing but a clear deception. Please call for the relevant literature and be free from the clutches of this big sacred Scam of the Arab Malookiat.
سورۃ القدر
انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (1) و ما ادراک ما لیلۃ القدر(2) لیلۃ القدر خیر من الفِ شہر(3) تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر (4) سلام (قف) ھی حتیٰ مطلع الفجر (5)۔
ترجمہ:
درحقیقت ہم نے اس قرآن کو ایک ایسے تاریک دور(لیلۃ) میں نازل کیا ہے(انزلناہ) جہاں کوئی اخلاقی قدر/قانون/پیمانہ/کسوٹی/معیار (قدر) اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تھا ۔لیکن آپ کو ابھی اس امر کی آگہی نہیں (ما ادراک) کہ اقدار کی تاریکی کا دور کس اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دراصل، اقدار کی تاریکی کا دور برائیوں کی تمام معلوم و معروف (الفِ) صورتِ حالات (شہر) کے باوجود اس لیے بہتر و برتر (خیر) باور کیا جاتاہے کیونکہ اس کے دوران خاص مقتدر قوتوں (الملائکۃ )اور مضبوط الہامی اقدار کی حامل ایک مخصوص ذات/نفس (الروح) کاپروردگار کی منشاء کے مطابق نزول ہوتا ہے جو تمام امور و معاملات میں امن و تحفظ و سلامتی (سلام) کا نقیب ہوتا ہے۔ اور سلامتی کا یہ عمل(ھی) جاری رہتا ہے تاکہ/یہاں تک کہ (حتٰی) ہدایت کی روشنی پھوٹ کر اس تاریک دور کو روشن کر دے(مطلع الفجر) ۔
Indeed we have presented this Quran in a Dark Time Zone where no moral value/principle/yardstick/criterion/standard was in existence. But you are not aware as to what great importance this Dark Era possessed. In fact, the Era of Darkness of Values is to be taken as a blessing in spite of the prevalent well known state of infamous depravity; because in its wake, descend Divine Powers and an august human Self with their Nourisher’s permission, heralding the message of peace and security in all the human affairs. And this enforcement of peaceful conditions continues till the divine guidance enlightens the earth with its blessings.
بغیر رکاوٹ، رواں ترجمہ:
درحقیقت ہم نے اس قرآن کو ایک ایسے تاریک دورمیں نازل کیا ہےجہاں کوئی اخلاقی قدر/قانون/پیمانہ/کسوٹی/ معیار اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تھا ۔لیکن آپ کو ابھی اس امر کی آگہی نہیں کہ اقدار کی تاریکی کا دور کس اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ دراصل، اقدار کی تاریکی کا دور برائیوں کی تمام معلوم و معروف صورتِ حالات کے باوجود اس لیے بہتر باور کیا جاتاہے کیونکہ اس کے دوران خاص مقتدر قوتوں اور مضبوط الہامی اقدار کی حامل ایک مخصوص ذات/نفس کاپروردگار کی منشاء کے مطابق نزول ہوتا ہے جو تمام امور و معاملات میں امن و تحفظ و سلامتی کا نقیب ہوتا ہے۔ اور سلامتی کا یہ عمل جاری رہتا ہے تاکہ/یہاں تک کہ، الہامی ہدایت کی روشنی پھوٹ کر اس تاریک دور کو روشن کر دے۔
ترجمے کی وثاقت کے ثبوت میں مستند عربی لغات سے معانی کی تفصیلات :
Lailun لیل/Lailatunلیلۃ :
Both mean night, but according to Marzuqi the word Lailun is used as opposed to Nahar and the word Lailatun (لیلۃ) is used as opposed to Yaum. Lailatun possesses a wider and more extensive meaning than Lailun; just as the word Yaum has a wider sense than Nahar.
Shiin-ha-Ra شہر=
Make it notable/known/manifest/public/infamous (in a bad or good sense), hire/contract for a month, stay a month, month old, month, new moon, moon, full moon, any evil thing that exposes its author to disgrace, a vice/fault or the like, big & bulky, reputable/eminent.
Alif-Lam-Faالف :
Become a thousand. A certain rounded number that is well known.
Alif-Lam-Fa الف= he kept or clave to it, he frequented it, resorted to it habitually, he became familiar with it or accustomed/habituated, became sociable/companionable/friendly with him, liked/approved/amicable, protect/safeguard, covenant/obligation involving responsibility for safety. to unite or bring together, state of union/alliance/agreement, to cause union or companionship, to collect/connect/join/conjoin. Become a thousand. A certain rounded number that is well known.
iilaaf: Unity; Compact; Alliance; Covenant for the purpose of trade; Obligation involving responsibility for safety and protection; Attachment.
Miim-Lam-Kaf م ل ک
= to rule/command/reign, be capable, to control, power/authority, king, kingdom.
Lam-Alif-Kaf ل ا ک
= To send, to send a message, to send anyone towards.
malak n.m (pl. malaikah), see also malak (Miim-Lam-Kaf)
To send a message, send anyone towards. Mal’akatun ملئکۃ: Message mission. Malakun ملک Angel. According to Raghib and Abu Hassan its root is Mim, Lam, Kaf, Malaka ملک: plu. Mala’ikatun ملائکۃ: To have power or dominion over, be capable of, able to do, rule over, give a support, control. All the six variation of the root indicate the meaning of power and strength, courage, intensity and hardness (Raazi).
- Hits: 2834
Translation 18 – HAJJ
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر81
The Islamic Ritual of Pilgrimage
in its Exclusive, Comprehensive and fully Expanded version.
اسلامی رسمِ پرستش" حج" کا اہم موضوع۔
اپنے ایک انفرادی، تفصیلی اور تمام تر وسعت کےحامل نئے ایڈیشن میں
تعارف
یہاں قارئین کی خصوصی توجہ کے لیے ابتدا ہی میں "حج" کے ضمن میں مستعمل چند ایک وہ خاص قرآنی الفاظ و اصطلاحات درج کر دی گئی ہیں جن کے روایتی تراجم میں دیے گئے غلط معانی عوام الناس میں گمراہی پھیلانے کا موجب ہیں,,,,, اور"حج" نامی اس زیارتی پرستش کے ڈھونگ کو دوام بخشتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس ڈھونگ کی وساطت سے حجاز و نجد کی عرب قوم عقائد کی ماری ہوئی مسلم قوم کی جیبوں سے ، اپنے گھروں میں بیٹھے، اپنی سال بھر کی روزی روٹی بافراط برآمد کروا لیتے ہیں۔ جبکہ ہر حج کے لیے جانے والامسلمان اس زیارت پر خرچ کیے ہوئے اپنے لاکھوں روپوں کے صرفے کے بدلے میں صرف پتھروں کی پوجا کرتا ، دربدر پھر کر دھکے کھاتا , ایک یا دو عدد معصوم جانوروں کا خون بہاتا اور اپنے ساتھ ایک زعم ِ باطل واپس لے آتا ہے کہ (شاید) پتھروں کے دور سے تعلق رکھنے والی چند رسومات پوری کرنے سے اس کے تمام گناہوں کا کفارہ ادا ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ ۔اہلِ شعور سے سوال یہ ہے کہ ،،،،،،،،،کیا کسی مقام کی زیارت کر لینے سے آپ کے ارتکاب کردہ جرائم معاف ہو سکتے ہیں؟ یا،،،،،،کیا اللہ تعالیٰ ایک پتھر کے بنے ننگے اور خالی کیوبیکل میں رہائش پذیر ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ہر جگہ موجود نہیں ہے؟ ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب نہیں ہے؟ تو اس کے ہاں حاضری دینے کے لیے ایک مخصوص مقام پر جانے کا کیا جواز ہے؟ ،،،،،،،،اور،،،،،،کیا جو مسلمان اتنی حیثیت ہی نہیں رکھتا کہ اس زیارت کے مصارف برداشت کر سکے، اور مسلمان کی قطعی اکثریت اس ہی کلاس سے متعلق ہے، تو وہ کس جواز سے مغفرت اور برکات کے اس موقعے سے محروم رکھا گیا ہے جو امراء کو میسر ہے؟ ،،،،،،،،،،،یقیناٗ ان سوالات کا تسلی بخش جواب کسی مذہبی پیشوا کے پاس نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ تحریر حج کی رسم کے جواز و عدم جواز پر،،،، اور کعبہ کی تاریخی حیثیت کی تحقیق پر،،،، ایک مبسوط مقالہ نہیں ہے ۔ بلکہ صرف اُن قرآنی متون کو اُن کی حقیقی روشنی میں لانے کی کوشش ہے جن کی باطلانہ تشریح کا ارتکاب کر کے ، مذموم مقاصد کے تحت، اسلامی تاریخ کے ایک خاص اہم ابتدائی دور میں، ایک پتھر پرستی ،،،،،اور،،،،،، قربانی کے نام پر مخلوقِ خدا کا خون بہانےکی باطل رسوم کا اجراء کیا گیا ہے ۔ نام نہاد حج کے اس تمام عمل میں انسانی کردار کی تعمیر کے ضمن میں قطعاؑ کوئی راہنمائی یا پیش رفت نہیں پائی جاتی جبکہ یہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا نقطہِ ماسکہ ہے۔ حج کی مروجہ رسم تو اس کے برعکس ایک نفسا نفسی، انتہائی خود غرضی اور بے حسی، وحشیانہ اور بالجبر سبقت لے جانے کا مقابلہ، طاقتور کا کمزور پر تشدد، امیر کا شاہانہ تزک و حشم اور غریب کی کسمپرسی اور بے شعور اندھی تقلید کا ایک بے مثال نظارہ ہے۔یقیناَ مثبت درجے کی استثنیات ہر جگہ اور ہر موقع پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
وہ چند خاص الفاظ و اصطلاحات جن کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا، یہ ہیں:-
حج، ، بیت، البیت، البیت الحرام ، مَقامِ ابراھیم، مصلّیٰ، قواعدمن البیت، کعبہ، المسجد الحرام ، قبلہ، صفا، مروۃ، شعائر اللہ، بکّہ، ۔
تمہید
قبل ازیں حج کے موضوع پر مبنی تمام مرکزی قرآنی آیات ،"صوم و حج" کے مشترکہ عنوان کے تحت، خالص علمی اور شعوری تراجم کے اس سلسلے کی قسط نمبر 8 میں، سورۃ البقرۃ کے حوالے سے، دقیق عملِ تحقیق سے گذرتے ہوئے ترجمہ کر دی گئی تھیں ۔ سورۃ البقرۃ میں ان دونوں موضوعات سے متعلق آیات کا باہم اختلاط اس اشتراک کی بڑی وجہ تھی۔ بعد ازاں تحقیق پسند دوستوں کی ایک جماعت نے چند دیگر آیات کی طرف توجہ مبذول کرائی جو حج (کعبہ) اور صیام ہی کے موضوع سے متعلق تھیں ۔ چنانچہ ایک اضافی (Supplement) ، بنام " قسط نمبر 16" کے ذریعے ان کی بھی تشریح کر دی گئی تھی۔
فی الوقت، از سرِ نو ، لاہور سے دوستوں نے حج ہی کے ضمن میں کچھ مزیدآیات کے حوالے ارسال کیے ہیں جن میں کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات مذکور ہیں جن کا حج کے مرکز کے ساتھ ایک تعلق بنتا ہے، اور جن کے حقیقی معانی سیاق و سباق کے مطابق تحقیق کے توسط سے مطلوب ہیں ۔ ان دوستوں کا موقف یہ ہے کہ جب تک ان مخصوص اصطلاحات کے معانی بھی عملِِ تحقیق کی رُو سے واضح نہیں ہو جاتے، حج کے مروجہ فریضے، جو پتھروں کی پوجا اور معصوم جانوروں کو ذبح کرنےپر مبنی ہے، کے بطلان سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔ یہ اس لیے کہ ان اصطلاحات کے روایتی معانی ایک خاص ، پتھروں سے تعمیر شدہ ،مربع شکل کی عمارت یا مقام ہی کی جانب بار بار اشارہ کر رہے ہیں اور اس مقام کا تقدس متعدد بار زیرِ تذکرہ لا کر ایک مقامِ حج، یعنی ایک مذہبی زیارت گاہ ہی کی حیثیت کو نمایاں کیا جا رہا ہے ۔
لہذا یہ تمام آیات ذیل میں درج کی جا رہی ہیں اور ان کا قرآن کے بلند اسلوبِ بیان کے مطابق خالص علمی و ادبی معیار سے مزین ترجمےکی کوشش کی گئی ہے، جو سیاق و سباق اور تصریف الآیات کےاصولوں سے مکمل مطابقت کا حامل ہوگا۔ نیز دس عدد معروف و مسلمہ عربی لغات کی تحقیق سےلیے گئے معانی سے سند یافتہ ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ احباب کے لیے شرحِ صدر کا موجب ثابت ہوگا ۔
کیونکہ اس مضمون کا تعلق ہمارے ما قبل تشریح کردہ حج کے تصور پر کیے گئے کام سے جڑا ہوا ہے اس لیے سابقہ تراجم کی فہرست سے حج کے موضوع پر مبنی مواد کو جہاں تک ممکن ہو سکا علیحدہ کر کے، جو قبل ازیں صوم کے مضمون کیساتھ شریک تھا، اسی تحریر میں شامل کر دیا گیا ہے( یہ اب اسی تحریر کے اواخر میں مندرج ہے) تاکہ یہی تحریر ، جو خالص علمی اور شعوری تراجم کے سلسلے کی قسط نمبر 18 کے نام سے موسوم ہے، اب انفرادی طور پر حج سے متعلقہ تراجم پر ایک مبسوط اور مکمل تحریر کی شکل اختیار کر جائے اور ساتھیوں اور اساتذہ کی جانچ پڑتال کے لیے پیش کر دی جائے ۔
اس سلسلے میں اتمامِ حجت کی خاطر اس ابتدائیے میں ہی عرض گذار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی مقام یا عمارت یا دن یا مہینہ یا فرد و بشرکو مقدس و متبرک قرار دینا ، یا ایسا سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا قرار دیا ہے، اس ہی کے عطا کردہ نظریہ حیات کے اصل الاصول کے خلاف ہے ۔ کیونکہ ایسی کسی بھی قرار داد سے،،،،،،، وہ مقام، وہ دن یا مہینہ ،یا وہ فرد و بشر، ،،،،،،،انجامِ کار،،،، پوجا اورسجود و برکات کا مرکز بن کر ،شرک پھیلانے کا باعث ہو جاتا ہے، جیسا کہ ہم موجودہ مفروضہ خانہ کعبہ کے ساتھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ صدقِ بسیط تو بس یہی ہے کہ مقدس و متبرک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ِعالی ہے کیونکہ خالق و ہادی ہونے کی جہت سے وہی تمام انسانیت کا "قبلہ" و "کعبہ" ہے،،،،،، ، اور بعد ازاں اس درجے کا حامل صرف اس کا عطا کردہ حکمت و دانش سے معمورکلام، قرآنِ عالی شان ہے جو منبع و مرجعِ احکاماتِ الٰہیہ ہے(المسجد الحرام)۔اس کے علاوہ بھی اگر کوئی مقام ، یا چیز، مقدس و متبرک ہو سکتی ہے تو وہ مرکزِ ہدایتِ الٰہی (البیت، یا بیت اللہ ، یا البیت الحرام ،یا البیت المقدس) یا مرکزِ حکومتِ الٰہیہ (المسجد الحرام)کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی، جہاں اور جس علاقہ میں بھی یہ واقعی قائم ہو گیا ہو،،،،،، کیونکہ،،،،، ایسا کوئی بھی مرکز ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے لیے، ساری دنیا کے وسیع رقبےاور تمام انسانیت کے عظیم پھیلاؤ کےتناظر میں، کوئی بھی واحد مخصوص مقام ما قبل سے متعین یا مقرر شدہ نہیں ہو سکتا ۔ با کردار انسانوں کی ایک جماعت، انسانوں کے مختلف قوموں پر تقسیم شدہ کسی بھی معاشرے میں قبولیت حاصل کرتے ہوئے، ایسا ایک مرکز، یا کئی مراکز، خلوصِ نیت اور عزمِ صمیم سے کام لیتے ہوئے، کہیں بھی قائم کر سکتی ہے۔
اس ضمن میں تفہیم کی آسانی کے لیے سب سے بہتر باور کرتا ہوں کہ اولا" تمام قرآنی اصطلاحات ،جو ہمارے دوستوں کے ذہنوں میں انتشار و خلفشار کا باعث بن رہی ہیں ، جن میں سے کچھ تحریر کی ابتدا میں بھی درج کی گئی ہیں، انہیں ان آیات میں سے چن کر یہاں درج کیا جائے ،اور آیات کے علمی و ادبی تراجم سے قبل ،ان اصطلاحات کو مستند لغات کی مدد سے متشرح کر دیا جائے ۔ ثانیا"، جب اس طریقِ کار کے استعمال سےان اصطلاحات کے حقیقی معانی و مفہوماذہان میں اچھی طرح بیٹھ چکے ہوں گے، تو متعلقہ آیات کے بعد ازاں آنیوالے تراجم بآسانی تفہیم کی منازل طے کرتے چلےجائیں ۔
تو آئیے اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔
متنازعہ الفاظ و اصطلاحات اور ان کا مستند ترجمہ و تشریح:
(الحج) : حج: حجت تمام کرنا؛ دلائل کے ساتھ جھگڑنا، کسی مقدمے کی پیروی کرنا، شہادت، گواہی ثبوت پیش کرنا، الزام لگانا، کسی کام کا قصد کرنا، عزت و احترام دینا، (مذہبیت کے اثرات کے تحت معانی :کسی قابل احترام چیز، جگہ یا شخصیت کی طرف جانا)۔ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔ دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت ، اتمامِ حجت۔ حج کے اصل معانی پر مکمل شرحِ صدر کے لیے ملاحظہ فرمائیں یہ آیاتِ مبارکہ: 2/139، 3/61، 3/65، 3/66 جہاں یہ لفظ فعل کے صیغے میں استعمال کیا گیا ہے۔کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔
(الْبَيْتَ) : یہ "باتَ"( baata )سے مشتق ہے جس کا بنیادی معنی ہے رات گزارنا، اور کسی چیز کے بارے میں اور اس کے آخری نتیجے کے بارے میں سوچ و فکر کرنا؛ نیز ذہن میں کچھ سوچ و فکر رکھنا اور اسے چھپا لینا ۔(دیکھیے "بیوت النبی" کے تحقیقی معانی – سورۃ احزاب:53، تراجم کی قسط نمبر1)۔ اس کے دیگر معانی میں شب خون مارنا بھی آتا ہے ۔"بیت" اور "البیت" کے معانی میں خاص سوچ و فکر و پلاننگ، سوچ و فکر کا مرکز، خاص نظریاتی مرکز، قرآن کے تناظر میں الہامی فکری مرکز یا ادارہ ؛ رات گزارنے کی مخصوص جگہ یعنی گھر ، ایک قبر، ایک خاص گھرانا، اشرافیہ، نیز مذہبی اثرات کے نتیجے میں یہ حضرت نوح کی کشتی کو، مساجد یا پرستش گاہوں کو، کعبہ یا یروشلم کو بھی کہا جاتا ہے۔
by/in/at night (excluding sleep), entered upon or passed the night
tent, house, home; Thinking about something and its end result
Concealed or conceived something in the mind
A structure of clay or any structure signifying a habitation, an abode or dwelling.
Buildings, uninhabited houses, shops, ruins, bazaars, places where the entering is allowed by the owners. Ark of Noah, Mosques, places of worship, Kaabeh or Jerusalem
A grave, Household or family, Nobility, Sudden attack in the night or a surprise attack in the night, Remaining through the night (e.g. bread or water that stays out and becomes stale)
(مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ) : یہ "مفروضہ کعبہ" کے احاطےمیں ایک مخصوص جگہ کا نام رکھ دیا گیا ہے جہاں موجود ایک پیر کے نشان کو حضرت ابراہیم کے پیر کا پرنٹ کہا جاتا ہے ۔ اب اسے جہالت کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس امر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی کہ "مقام" کا لفظ اپنے پہلے میم پر زبر کے ساتھ لکھا گیا ہے، پیش کے ساتھ نہیں ۔ اور یہ ثابت ہے کہ زبر کے ساتھ مقام کا معانی ،،،،کوئی جگہ نہیں،،،،،، بلکہ،،،،،، درجہ، مرتبہ، منصب ہے۔ کیا ایک پیر کا نشان حضرت ابراہیم کا منصب یا مرتبہ قرار دیا جا سکتا ہے، یا پھر یہ توہینِ رسالت کا ارتکاب ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن تو یہاں حضرت ابراہیم کو عطا کردہ بلند منصب، یعنی "انسانیت کا امام"، کی جانب اشارہ کر رہا ہے، اور ہمارے روایتی تراجم میں ،عوام الناس کی ایک قطعی اکثریت کو دھوکا دے کر، ایک "خاص جگہ" کو متبرک و مقدس قرار دیا جا رہا ہے تاکہ اللہ کو چھوڑ کر اس جگہ کی پرستش کی جائے۔
(مُصَلًّى) : صلوٰۃ کا معنی کیونکہ اتباع و پیرویِ قوانینِ الٰہی ہے اس لیے ہر وہ ماخذ و منبع جہاں سے اتباعِ نظام الٰہی کے سوتے پھوٹتے ہوں، مصلیٰ بھی کہلاتی ہے ۔
(بَيْتِيَ ) : اوپر کی سطور میں "بیت" کے معانی کی تشریح کی جا چکی ہے۔
(هَـٰذَا بَلَدًا) : یہ خطہِ زمین ۔ حضرت ابراہیم کی دعا کا حصہ ہے اور اشارہ اُس سرزمین کی جانب ہے جہاں حضرت کا وطن تھا اور جہاں آپ نے پہلا مرکزِ ہدایت قائم فرمایا تھا ۔ یہاں سے مکہ کا شہر مراد لینا نہایت دور از کار استنباط ہوگا اور ارادتاّ ایک مفروضے کو تقویت بخشنے کی نیت رکھتا ہوگا۔
(الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ) : اُ سی مرکزِ فکر وہدایت کے "قواعد و ضوابط " (Rules and Regulations)جس کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ یہاں قواعد سے مراد دیواریں اور ان کی تعمیر لینا پھرایک مفروضے کے تانے بانے بُننے کے مترادف اورایک سازشانہ ذہن کی کارفرمائی ہوگا۔
(وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا) : مناسک کو حج کی رسومات اور ان کا ادا کرنا باور کرایا جاتا ہے، جو پھر حج کے اُسی مفروضے کو تقویت بخشنے کا مقصد رکھتا ہے ۔ دیکھیے مستند معانی ،،،،"منسک"؛ "نسک" : اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، اللہ سے وابستگی کی زندگی گزارنا، پرہیزگار یعنی باکردار ہونا۔ purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious۔: وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا "اور ہمیں ہماری ذات کی پاکیزگی/ہماری کردار سازی کی جانب راہنمائی عطا فرما دے"۔
(قِبْلَةً تَرْضَاهَا ) : وہ مقصدِ پیشِ نظر جسکا حصول تجھے مطمئن کر دے: قِبْلَةً : مقصدِ پیشِ نظر، نصب العین۔
(الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ): یہ ایک ذو معانی اصطلاح ہے جو مختلف مقامات پر مختلف معانی رکھتی ہے۔ اسے حج ہی کے مفروضے کے تحت موجودہ خانہ کعبہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن میں بہت سے مقامات پر اس معانی کا اطلاق ناممکن ثابت ہوتا ہے۔ لہذا ایک درست اور سیاق و سباق کے عین مطابق ترجمے کے لیے اس کے تمام لغوی و استعاراتی معانی کو زیرِ تحقیق لانا ایک لازمی امر ہے۔ غور فرمائیے ۔
[الْمَسْجِدِ] : س ج د: برتری، اتھارٹی تسلیم کر لینا؛ جھک جانا، خود کو حقیر کرنا؛ تعظیم دینا، اطاعت کرنا، انکساری/عاجزی کرنا، سلوٹ کرنا؛ احکامات کے سامنے جھک جانا؛ [مفرداتِ راغب: اصل معنی فروتنی اور عاجزی ہیں] ؛ تابع ہونا، فرماں برداری، اطاعت میں مکمل عاجزی و خود سپردگی۔ To bow down, prostration, he was or became lowly, humble or submissive, paid respect, salute, honor or magnify, bend or incline, submit to one’s will.
مسجد: مساجد: س ج د سے اسمِ ظرف اور اسمِ مفعول : ہر وہ جگہ جہاں جھکنے، تابع ہونے، برتری یا اتھارٹی تسلیم کرنے، تعظیم دینے، اطاعت کرنے کا عمل بجا لایا جاتا ہے ۔ یا ہر وہ منبع و ماخذ یا وہ احکامات جن کی برتری تسلیم کی جائے، جن کے سامنے جھکا جائے، جن کی تعظیم دی جائے، جن کے تابع ہوا جائے اور جن کی فرماں برداری کی جائے۔
المسجد اور المساجد(معرفہ)،،،،: وہ خاص مرجعِ تعظیم و اتباع و فرماں برداری جہاں اللہ تعالیٰ کی حکومت یا مرکزِ ہدایت قائم ہو ۔ اس ضمن میں قرآن بھی استعارتاؑ المسجد کے معنی میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ ہی سب سے بڑا مرکز و منبع و مرجعِ اتھارٹی و اطاعت ہے۔ نیز احکامات الٰہی بھی "المسجد" کی اسی تعریف میں آتے ہیں۔قرآن بھی انہی واجب التعمیل احکامات پر مشتمل ہے۔
[ الْحَرَامِ ]: [یہ لفظ متضاد معانی پر محیط ہے یعنی حرام اور ممنوع اور پابندیوں کا حامل بھی اور محترم یا قابلِ احترام اورواجب الاطاعت ِو تقلیدبھی ۔ استعمال سیاق و سباق کے مطابق ہوگا۔]ممنوعہ، جرم، غیر قانونی، ناقابلِ خلاف ورزی، ، لعنتی، انکار کرنا، پابندیوں والا ؛ محترم، مقدس ،حرمت والا۔
اسی کے مطابق المسجد الحرام کے ایک اور معانی وہ شرائط واحکامات بھی ہوں گے جن کی تعمیل یا پابندی کسی معاہدے کے تحت لازمی ہوگی، کیونکہ یہی اصطلاح قرآن میں سیاق و سباق کے مطابق ان معانی میں بھی لائی گئی ہے۔
[الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ] : ق ص و : دور دراز، فاصلے پر، دور چلے جانا، انتہا۔ اقصیٰ : زیادہ دور، زیادہ فاصلے پر؛ وہ مرکزِ اطاعتِ الٰہی جو دُور کے فاصلے پر قائم ہے۔
(الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ) : الصفا: ص ف و : کسی بھی ملاوٹ سے پاک، ہوا یا ماحول کا بادلوں سے صاف ہونا اور محبت، زندگی، شعور اور دل کا پاک ہونا، کسی بھی چیز کا صاف شفاف، خالص، بہترین، پسندیدہ جزء، صاف، واضح، سچا، مخلص؛ شناخت کرنا، خاص طور پر چننا، ترجیح دینا، زندگی کا سکون، آرام؛ اجر کے طور پر حاصل شدہ خلوص اور پاکیزگی ۔
free from admixture, became cloudless (said of air/atmosphere, but also said of love/life/mind/heart), clear/pure/best/choice/favoured part/potion, clear/clarify, true/sincere, distinguish particularly/specially, select/elect/prefer, serenity of life, comfort, reciprocal sincerity/purity.
المروۃ: مروہ : اس کے مادے کا تعین حتمی نہیں ۔ پھر بھی قیاس یہی ہے کہ یہ "م ر ء" یا "م ری" یا "روء" "روی" میں سے کوئی ہو سکتاہے۔اس کے معانی میں مروّت ، مہربانی اور خو شگواری کا پہلو نمایاں ہو گا۔ دیگر ممکنہ مادہ م۔ ر۔ و ہو سکتا ہے جس سے "المرو" کا معنی ایک خوشبو دار پودا، چقماق پتھر، سخت، بنجر زمین اور ایسا پتھر جس پر جانور ذبح کیا جائے وغیرہ لیا جاتا ہے۔ بہرحال صفاء و مروہ جن دو پتھروں کو کہا جاتا ہے ان کا اپنے نہایت حقیر حجم کے ساتھ پہاڑ یا پہاڑی کہلانا ،،،،، اور پہاڑ کا اللہ کے شعائر میں سے ہونا عقل و شعور کی رُو سے خارج از امکان ہے۔
(شَعَائِرِ اللَّـهِ) : شعائر کسی کے عمومی متعین رویےکو کہتے ہیں جس سے کسی کو پہچانا جائے؛ characteristic practices” " ... یعنی شعائر کسی کے رجحانات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی مادہ سے شعر اور شاعر، شعور ، مشعر وغیرہ مشتق ہیں ۔اسی کے مطابق یہاں معنی ہوگا اللہ تعالیٰ کا طریقِ کار، اس کی صفاتِ عالیہ یا خصوصیات۔
(حَجَّ الْبَيْتَ) : اللہ کے مرکزِ فکر و ہدایت کا قصد کرنا ، کسی بھی مرکزِ فکر و ہدایت کا، تاکہ وہاں دلیل و حجت کے بعد اطاعت کے مرحلے تک پہنچا جائے۔
(أَوِ اعْتَمَرَ) : اعتمر؛ عمرہ، ع م ر: رہائش اختیار کرنا، زندگی گذارنا، لوٹ آنا، آباد کرنا، خدمت کرکے نام بلند کرنا، توجہ دینا، عزت دینا، محبت اور شفقت دینا ، زندہ رہنا، عمر، لمبی زندگی وغیرہ۔ (مذہبی معانی: چھوٹا حج، حج جس میں بہت کم رسومات ادا کرنی ہوں، کسی مقدس زیارت پر جانا وغیرہ) ۔۔۔۔to inhabit, dwell, mend,، repair/revive, tend, build, promote, cultivate, make habitable, to make better, to develop, populate, to serve/uphold/observe/regard, to visit, to colonize, aimed at it, frequently visit, a visit in which is the cultivation of love/affection, repairing to an inhabited place.
perform a sacred visitation, minor pilgrimmage, pilgrimmage with fewer rites.
to remain alive (save life), to live, life, age, long-life, old-age.
(طواف) : طوف؛ طائف؛ ارد گرد گھومنا، چوکیداری کرنا، گشت لگانا، پہرے داری کرنا، خدمت گزاری کرنا، کوتوال، جماعت، گروہ، طوفان، پانی کا ریلہ، وغیرہact of going/walking, going/walking around or otherwise, to go or wander about, circuited/compassed, journeyed, came to him, come upon, visitation, visit, approach, drew near, to go round or round about often, encompass,
"the men/people/locusts filled the land like the TWF/flood/deluge", overpowering/overwhelming rain/water that covers,
a servant that serves one with gentleness and carefulness,
a detached/distinct part/portion, a piece or bit, a party/division/sect,
a sort of raisins of which the bunches are composed of closely-compacted berries, a garment in which one goes round or circuits, a place of going round or round about.
(مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ ): حضرت ابراھیم کا طریقہ، راستہ، نظریہ، سیرت و کردار، طور طریقہ۔
(بِبَكَّةَ): بکۃ؛ مقابلہ کرنے، کچل دینے، تباہ کر دینے، برتری حاصل کرنے اور مزاحمت کرنے کی قوت ؛ ازدھام اور بھیڑ ہونا، وغیرہ - pounding or crushing: (on) the neck) (daqqul-&unuqa), distinguishing/ranking above others (farraqah) (kharaqahu), jostling, pressing or crowding(crowds:zahm), any crowding (or crowds), competition. (izdihaam) heaping/piling together/amassing (taraakib), super-imposition of things on top of other things (taraakim), a man/male having or the trying to have sex with a female, denial or rejection a thing or person's dignity, to humiliate, cancellation/dissolution/breaking, being in need or being stout, muscular or rough from activity, name of a place.
(الْبَيْتَ الْحَرَامَ): ایک خاص محترم نظریاتی ادارہ/فکری مرکز؛ الہامی فکر و ہدایت کا قابلِ احترام مرکز،،،،کہیں بھی قائم کیا گیا ہو – مقام اہم نہیں۔
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
(مثابۃ): ث و ب : واپسی لوٹنا، بحال کرنا/برآمد کر لینا، پچھتانا، جمع کرنا، طلب کرنا، بہنا، وافر ہو جانا، جو ڈھانک لے، تحفظ دے۔ مثابۃ: واپس آنے کی جگہ، لوگوں کی جمع ہونے کی جگہ جو منتشر ہو گئے ھے؛ مسکن، گھر، کپڑے، اخلاقی اصول، رویہ، دل، پیروکار،خالص دل رکھنے والا، اچھا کردار۔
= Tha-Waw-Ba = to return, turn back to, to restore/recover, to repent, to collect/gather.
to call/summon (repeatedly), rise (dust), to flow, become abundant.
something returned (recompence, reward, compensation), to repay.
a thing which veils/covers/protects, a distinct body or company of people.
mathabatan - place of return, place to which a visit entitles one to thawab/reward, assembly/congregation for people who were dispersed/separated previously, place of alighting, abode, house, tent.
raiments, garments, morals, behaviour, heart, dependents, followers, robes, clothes, pure/good hearted, of good character.
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نکتے تک شرحِ صدر ہو جانے کے بعد اب رفقاء کی جانب سے دیے گئے آیات کے حوالہ جات کا ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ قرآن عربی زبان کا ایک ادبی شہ پارہ ہےاپنے اسلوبِ عالی کی جہت سے استعارات، ضرب الامثال، تشبیہات، محاورات سے مزین تحریر ہے۔اس اردو ترجمے میں کوشش کی گئی ہے کہ قرآن کے اسی اسلوب عالی کی بقدر توفیق پیروی کی جا سکے۔ لفظی معانی لینے کے رائج الوقت غیر علمی اور غیر مستند رحجان کی نفی کی گئی ہے ۔
آیاتِ مبارکہ: 2/125-128: البقرۃ
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥﴾ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿١٢٦﴾وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٢٨﴾
(نوٹ فرمائیے کہ سیاق و سباق (2/122) کے مطابق یہاں مخاطب قومِ بنی اسرائیل ہے جس سے یہ ثابت ہے کہ یہ ان ہی کے قدیمی علاقے کے کسی مرکز کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم نے وہاں قائم کیا تھا ۔لہذا شہر مکہ کے موجودہ نام نہاد کعبے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔)
"اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے اپنے اس قائم شدہ مرکزِ فکر و ہدایت (الْبَيْتَ) کو عامۃ الناس کی ہدایت و منفعت کے لیے بار بار رجوع کرنے کا مقام(مَثَابَةً) اور جائے امن بنا دیا تھا، اور یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ابراھیم کے مقام و منصب کی پیروی (مُصَلًّى)کو اپنے مقصود کی حیثیت سے مضبوطی سے پکڑ لیں۔ نیز ہم نے ابراھیم و اسماعیل سے یہ وعدہ بھی لے لیا تھا کہ وہ میرے اس مرکزِ فکر کو اس کی نگہبانی کرنے والوں(لِلطَّائِفِينَ )، یہاں بیٹھ کر اس کا نظم و ضبط قائم رکھنے والوں(الْعَاكِفِينَ) ، اس کے اصولوں کے سامنے جھک جانے (الرُّكَّعِ)اور مکمل اطاعت و فرماں برداری (السُّجُود)کے لیے مختص کر کے غیر الٰہی نظریات و عناصر سے پاک(طَهِّرَا) رکھیں گے﴿١٢٥﴾۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ابراھیم نے عرض کی کہ اے رب اس خطہِ زمین کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اس کے اہالیان کو خوشگوار نتائج (الثَّمَرَاتِ )سے بہرہ ور فرما دے، خصوصاٗ ان میں سے ان لوگوں کو جو اللہ پر اور آخرت کے آنیوالے مرحلہِ زندگی کے نظریے پر یقین رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرمائی تھی اورفرمایا تھا کہ ان میں سے جس نے بھی اس نظریے سے انکار کی روش اپنائی تو ان کو تو میں صرف قلیل پیمانے پر نوازوں گا اور بعد ازاں ایسے لوگوں کو آگ کے عذاب کی جانب دھکیل دوں گا، جو کہ ایک نہایت برا انجام ہے﴿١٢٦﴾۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جب ابراھیم اور اسماعیل اس الہامی مرکزِ فکر و ہدایت کے اصول و قواعد (الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ) ترتیب دے کر انہیں نمایاں مقام (يَرْفَعُ )دے رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری تھی کہ اے ہمارے رب ہماری یہ کاوشیں قبول فرما۔ بیشک تو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے﴿١٢٧﴾۔اے ہمارے رب ہمیں اپنے قوانین کے آگے جھکنے والا بنا اور ہماری نسل میں سے بھی اپنے آگے جھکنے والی قوم پیدا کر دے ۔ نیز ہمیں ہماری ذات کی پاکیزگی /کردار سازی( مَنَاسِكَنَا)کے اصول بتا دے اور ہماری جانب خصوصی توجہ فرما۔ بیشک تو توجہ فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے﴿١٢٨﴾۔"
آیاتِ مبارکہ: 2/144-150: البقرۃ
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ﴿١٤٤﴾ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٥﴾
"ہم نے دیکھ لیا ہے کہ تیری توجہ (وَجْهِكَ )کا رخ علم و آگہی کے لیے کائنات کی وسعتوں کی جانب (فِي السَّمَاءِ)مرتکزہے۔اس لیےہم تجھے ضرور اُس گوہرِ مقصود (قِبْلَةً)کی جانب راہنمائی عطا کرینگے جو تیری تلاش و جستجو کو مطمئن کر دے گا(تَرْضَاهَا) ۔ پس اس کے لیےضروری ہے کہ تُو اب اپنا تمام تر ارتکاز اللہ تعالیٰ کے واجب التعمیل احکامات(الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ )کی جانب موڑ لے۔ اور تم سب جہاں بھی موجود ہو اپنی توجہات کو اسی جانب موڑ لو ۔ نیز وہ دیگر لوگ بھی جنہیں اللہ کے احکامات (الْكِتَابَ) دیے گئے ہیں وہ سب یہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے رب کی جانب سے نازل کردہ سچائی ہے اور یہ بھی کہ جس روش پر وہ چل رہے ہیں، اللہ اس سے لا علم نہیں ہے﴿١٤٤﴾۔ لیکن ان اہلِ کتاب کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ اگرچہ تُو ان کے سامنے ہر واضح نشانی یا دلیل پیش کرے تو بھی وہ تیرے نصب العین کا اتباع نہ کریں گے ، کیونکہ تُو اُن کے نصب العین کی متابعت نہیں کرتا۔ خود ان کے اپنے درمیان بھی نصب العین یا مقصدِ حیات کے بارے میں باہم اختلافات موجود ہیں، اور ایسا ہوا کہ تُو حقیقی علم کے حصول کے بعد بھی ان کے باطل خیالات کا لحاظ رکھنے لگ جائے، تو اس صورت میں تُو بھی حق کو جھٹلانے والوں میں شامل ہو سکتا ہے﴿١٤٥﴾۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٤٦﴾ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٤٨﴾ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٩﴾ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٠﴾
حقیقتاہم نے جن لوگوں کو الہامی صحیفہ عطا فرمایا ہے وہ اسے اتنی ہی اچھی طرح جانتے ہیں جتنے مکمل طریق پر وہ اپنی آل اولاد کو جانتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا ایک گروہ علم رکھتے ہوئے بھی صدقِ بسیط کو جان بوجھ کر پوشیدہ رکھتا ہے﴿١٤٦﴾۔دراصل سچائ صرف تیرے رب کی جانب سے آتی ہے، پس اس کے معاملے میں تم لوگ کبھی شک و شبہ نہ کرنا﴿١٤٧﴾۔ ہر ایک کی توجہات کا رخ موڑنے والا وہی ہے، یعنی یہ اسی کی ہدایت سے ہوتاہے ۔ پس اس مقصد کے لیے خیر کے کاموں میں سبقت حاصل کرو۔ اس طریقے سے تم جہاں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ تم سب کی کاوشوں کا پورا پورا ساتھ دے گا۔ کیونکہ درحقیقت یہ اللہ ہی ہے جس نے ہر کام کا اور اس کے نتائج کا پیمانہ، قانون، طریقہ کار مقرر و متعین کر دیا ہے﴿١٤٨﴾۔ سو تم جس بھی حالت میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پیش قدمی کرو، اپنا ارتکاز اللہ کے واجب التعمیل احکامات (الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ )پر رکھو، کیونکہ یہی تمہارے رب کی جانب سے آئی ہوئی سچائی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے غافل نہیں ہوتا کہ تمہاری روش کس کے تابع چل رہی ہے﴿١٤٩﴾۔ اور تم جس بھی کام کے لیے پیش قدمی کرو، اللہ کے واجب التعمیل احکامات (الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)کی جانب توجہ قائم رکھو، اور تم جس بھی پوزیشن میں ہو اپنی توجہ ادھر سے مت موڑو، تاکہ تمہارا کردار تمام انسانوں کے لیے دلیل و حجت بن جائے، سوائے انکے جو اُن میں سے ظالم ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں سے خائف مت ہونا۔ خوف صرف میرے احکامات کی خلاف ورزی سے ہو۔ یاد رہے کہ یہ روش اختیار کرنی اس لیے ضروری ہے تاکہ میں تم پر اپنی عنایات تمام کر دوں اور تم ہدایت یافتہ باکردار انسان بن جاؤ﴿١٥٠﴾۔ "
2/158: البقرۃ
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾
"بیشک اپنی ذات میں خالص اور پاک ہونا(الصَّفَا) اور مہربانی و مروت(الْمَرْوَةَ) اللہ تعالیٰ کی صفات و خصوصیات میں سے ہیں۔ اس لیے جو بھی اللہ کے مرکزِ فکر و ہدایت میں حجت کا قصد کرے (حَجَّ الْبَيْتَ) یا اس کے تحت زندگی گذارنے کا بندوبست (اعْتَمَرَ)کر لے تو اس کے لیے کوئی مشکل نہیں رہتی کہ ان دونوں صفات کو اختیار کر کے ان کی نگہداشت و نگہبانی کرے، کیونکہ جس نے بھی کسی عملِ خیر میں حصہ ڈالا(تَطَوَّعَ خَيْرًا) تو وہ جان لے کہ اللہ اس کا علم بھی رکھتا ہے اور ایسی کوششوں کا ثمر بھی عطا کرتا(شَاكِرٌ) ہے۔"
2/217: البقرۃ
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾
"یہ لوگ تم سے معاہدوں کی پابندیوں کی کیفیت/شرائط (الشَّهْرِ الْحَرَامِ )کے بارے میں پوچھتے ہیں، اور اس کے دوران جنگ کرنے کے بارے میں بھی ۔ انہیں بتاؤ کہ ان پابندیوں کے دوران جنگ کرنا بہت غلط کام ہے۔ بلکہ اللہ کے راستے سے ہٹ جانا اور اس سے انکارکے مترادف ہے۔ نیز اللہ کے واجب التعمیل احکامات(وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) کا بھی انکار ہے اور اللہ کے احکامات کے دائرے سے اہلِ تسلیم و رضا (أَهْلِهِ) کا خارج ہوجانا اللہ کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے ۔ نیز کسی بھی امر میں جماعت میں انتشار یا بے اتفاقی (الْفِتْنَةُ)پیدا ہونا قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اگرچہ وہ لوگ تم سے محاذ آرائی اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک کہ تمہیں تمہارے دین سے ممکنہ طور پر برگشتہ نہ کر دیں ، لیکن تم میں سے جو بھی اپنا دین چھوڑ دے گا اور کفر کی حالت میں مر جائیگا، تو وہ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اپنے اعمال ضائع کر دے گا ۔ ایسے لوگ آگ کی مانند جلانے والے عذاب کےمستحق ہوتے ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہینگے۔"
٭3/95-97: آلِ عمران
قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٥﴾ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧﴾
٭(یہ آیات بھی بنی اسرائیل ہی کی تاریخ ہی کا ذکر کر رہی ہیں اور اس تاریخ کو کوئی تعلق نہ مکہ سے ہے اور نہ ہی عرب قوم سے ۔ رسول سے کہا جا رہا ہے کہ انہیں یاد کراؤ کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا تھا۔ اس ذاتِ پاک پر جھوٹ کی افترا مت لگاؤ (3/94)۔ حضرت ابراہیم تمہاری مانند مشرک نہ تھے۔ تم انہی کا بتایا ہوا سیدھا راستہ اختیار کرو (3/95)۔۔۔۔۔۔۔)
"کہدو کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ لہذا تم سب ابراھیم کے اختیار کردہ سیدھے راستے کا اتباع کرو کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ درحقیقت وہ پہلا ادارہ/مرکز (بَيْتٍ )جو انسانوں کی منفعت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا (وُضِعَ لِلنَّاسِ)، جو لازمی طور پر مزاحمت کرنے اور کچل دینے کی قوت رکھتا تھا (لَلَّذِي بِبَكَّةَ )، نشوونما اور استحکام دینے والا اور تمام انسانیت کیلیے ضابطہِ کردار تھا، اس کی تشکیل میں ابراھیم کے بلند مرتبے و منصب (مَّقَامُ )کی واضح نشانیاں تھیں۔ اس لیے جو بھی اس کے دائرہ اثر میں داخل ہوا تھا، امن کے سائے میں آ گیا تھا۔ پس اللہ کے قرب کی خاطر تمام انسانوں پر فرض کیا گیا تھا کہ ان میں سے جس کو بھی ایسا موقع میسر آجائے تو وہ الہامی مرکزِ فکر و ِ ہدایت (حِجُّ الْبَيْتِ) کا قصد ضرور کرے ۔ پس جس نے اس حکم کا انکار کیا تھا تو جان لے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کیونکہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔"
3/183: آلِ عمران
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٨٣﴾
"یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ اللہ نےہم سے عہد کیا تھا کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پرایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس سوختنی قربانی لے کر نہ آئے ۔ ان سے کہو کہ تمہارے پاس مجھ سے قبل رسول آ چکے ہیں، کھلی نشانیوں کے ساتھ اور ان چیزوں کے ساتھ جو تم نے مطالبے کیے تھے، پھر تم کیوں ان سے جھگڑتے رہے ہو اگر تم سچے تھے ۔ "
(قارئین کے لیےنوٹ: یہ سوختنی قربانی کا مطالبہ اُن لوگوں کا تھا، اور جھوٹ پر مبنی تھا ۔ اس لیے یہاں سے قربانی کی رسم کے جواز کا کوئی اثبات نہیں ہوتا۔قربانی کا لفظ ان معنوں میں قرآن میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔اس کا مادہ ق ر ب ہے۔ اور "قربان" اللہ کا قرب حاصل کرنےوالے عمل کو کہا گیا ہے۔)
5/2: المائدہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
"اس لیے، اے ایمان لانےوالو، تم خود کو اللہ کے بتائے ہوئے شعائر یعنی طور طریق ، صفات و خصوصیات کی پیروی سے آزاد نہ کیاکرو۔ نہ ہی معاہدوں کی رو سے عائد شدہ پابندیوں کی صورتِ حال یا کیفیت [الشَّهْرَ الْحَرَامَ]سے بری الذمہ ہو جایا کرو ۔ نہ ہی حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں [الْهَدْيَ] کو نظر انداز کرو۔ نہ ہی خود پر عائد دیگر ذمہ داریوں سے[الْقَلَائِدَ] احتراز کرو، اور نہ ہی اپنے واجب الاحترام مرکز کے ان ذمہ داروں [آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ] سے غافل ہو جاءو جو اپنے نشوونما دینے والے کے فضل اور رضامندی کے لیے جدو جہد کر رہے ہوں۔ البتہ جب تم کسی بھی معاہدے کی پابندیوں سے آزاد ہو جاءو [حَلَلْتُمْ] تو پھر ضرور اپنی طاقت و اقتدار قائم کرنے میں [فَاصْطَادُوا] لگ جاءو۔ لیکن اس صورت میں بھی ایک قوم کی وہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں واجب التعمیل احکامات ِ الٰہی[الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ] کی بجا آوری اور نفاذسے روک رکھا تھا ،تمہیں اس جرم پر مجبور نہ کردے کہ تم حدود سے تجاوز پر اُتر آو [أَن تَعْتَدُوا] ۔ بس یہ امرپیشِ نظر رہے کہ ہمیشہ کشادِ قلب اور کردار سازی کے مدعے [الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ] پر اشتراکِ عمل کرو اور گناہ اور حدود فراموشی پر دستِ تعاون دراز مت کرو۔ اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری کے جذبے سے وابستہ رہو۔ یہ حقیقت سامنے رہے کہ اللہ کا قانون گرفت کرنے میں بہت ہی سخت ہے ۔"
8/34-35: الانفال
وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾ وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴿٣٥﴾
"اللہ کیوں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا کیونکہ یہ احکاماتِ الٰہی (الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)کی بجا آوری میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور یہ ہرگز اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے۔ دراصل اللہ کے دوست تو وہی ہو سکتے ہیں جو اس کے احکامات کی تعمیل یعنی پرہیزگاری(الْمُتَّقُونَ) کرتے ہیں۔ لیکن اِن کی اکثریت اس حقیقت کا علم نہیں رکھتی۔ الہامی مرکزِ فکر و ہدایت میں(عِندَ الْبَيْتِ) آ کر ان کا بولنا اور شکایت و فریاد کرنا(صَلَاتُهُمْ) سوائے لا یعنی چیخ و پکار کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پس ، انہیں بتا دو کہ تم اپنے تکفیری موقف کا عذاب ضرور چکھو گے۔"
9/7: التوبۃ
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿٧﴾
"مشرکین کے حق میں کیا گیا کوئی عہد نامہ کیسے حکومتِ الٰہیہ کو منظور ہو سکتا ہے، سوائے ایسے عہد نامے کے جوتم نے ان لوگوں کے ساتھ قرآن (المسجد الحرام) کے مطابق یا احکاماتِ الٰہیہ کی رُو سے یا پھر قابلِ احترام مرکزِ اطاعت میں کیا ہو۔ اس لیے جو اقدام/پالیسی تمہارے لیے استقامت کا ذریعہ بنے، ان لوگوں کے ساتھ اسی پالیسی پر قائم رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔ "
14/35-37: ابراہیم
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
"اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین [الْبَلَدَ] کو امن کا گہوارہ بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں [بَنِيَّ] یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات [الْأَصْنَامَ ]سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں [أَن نَّعْبُدَ َ] "۔(35)
(یہاں "اس خطہِ زمین" سے مکہ مراد لینا انتہائی دور از کار اور بلا جواز ہے کیونکہ ایسا کوئی موہوم اشارہ بھی موجود نہیں ہے ۔ یہ حضرت ابراھیم کے وطن کا ذکر ہے)
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
"اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارتکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔ "
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
"اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد [مِن ذُرِّيَّتِي] کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز [بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ]کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں [بِوَادٍ] بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے [غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں [لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ]۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات [أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے [وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ] تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں [يَشْكُرُونَ ]۔"
22/25-34: سورۃ الحج
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥﴾ وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿٢٨﴾ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴿٣٠﴾ حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴿٣١﴾ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
"وہ لوگ جنہوں نے انکار کی روش اپنائی اور اللہ کے اس راستے سے (عَن سَبِيلِ اللَّـهِ )اور واجب التعمیل احکاماتِ الٰہی کی بجا آوری (وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) کے اس فریضے سے روکتے ہیں جو ہم نے انسانوں کے فائدے کے لیے پیش کیا ہے، اور جو اس مشن کے نظم و ضبط سنبھالنےکے ذمہ داروں (الْعَاكِفُ فِيهِ)اور یہاں تعلیم کی شروعات کرنے والوں سب کے لیے مساوی اہمیت کا حامل ہے، سو وہ جان لیں کہ جوبھی اس معاملے میں ناحق طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے(بِظُلْمٍ ) کج روی اختیار کرے گا، یعنی صحیح راستے سے ہٹنے کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے﴿٢٥﴾۔"
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾
"اور یاد کرو جب ہم نے ابراھیم کے لیے مرکزِ فکر و ہدایت کے قیام (مَكَانَ الْبَيْتِ) کا تعین کر دیا تھا تاکہ میری ذات کے ساتھ یعنی میری اتھارٹی و وحدانیت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور میرے مرکزِ فکر و ہدایت (بَيْتِيَ )کو اس کی نگرانی/نگہبانی کرنے، اس کو صحیح شکل میں قائم رکھنے اور اس کے سامنے جھکنے اور عاجزی کرنے والوں کے لیے غیر الٰہی نظریات سے پاک رکھا جائے۔"
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾
"اور حکم دیا تھا کہ انسانوں کے درمیان حجیت کا [بِالْحَجِّ ]اعلانِ عام کر دو۔ وہ سب تمہارے پاس ہر دور دراز کے مقام سے [مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] دلیری کے ساتھ [رِجَالًا]آئیں اور ہر ایک اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے [وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ] ،"
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿٢٨﴾
"تاکہ اس نظریہِ حیات میں وہ اپنے لیے منفعت کا بذاتِ خود مشاہدہ کرلیں اور تحصیلِ علم و تربیت کے ایک دورانیئے [فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] میں اللہ کی صفات عالی کو ذہن نشین کرتے رہیں تاکہ اس کی روشنی میں ان تعلیمات پر حاوی آ جائیں [عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم ] جس نے انہیں جانوروں کی مانند غیر یقینی اور مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] اختیار کرنے پر لگا دیا تھا۔ پس وہ اسی علم کی روشنی سے استفادہ کریں اور جو اس سے محروم اور بدحال ہیں انہیں بھی مستفید کریں ۔"
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾
"پھر اس کے بعد اپنی ذہنی الائشوں سے پاکیزگی [تَفَثَهُمْ]کا کام تکمیل تک پہنچائیں [لْيَقْضُوا ]، اپنے اوپر واجب کیے ہوئے عہد کو پورا کریں [وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ] اور حکومتِ الٰہیہ کے محترم و متقدم مرکز (ِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) کی نگہبانی اور حفاظت [وَلْيَطَّوَّفُوا]کا فریضہ انجام دیں ۔"
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴿٣٠﴾
"اس کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ ممنوعات [حُرُمَاتِ اللَّـهِ]کی تعظیم کا رویہ اختیار کرے گا تو وہ اللہ کے نزدیک اس کے حق میں خیر کا باعث ہوگا۔ نیز تمہارے لیے اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتیں اور عطیات [الْأَنْعَامُ] حلال کر دیے گئے ہیں ماسوا ان مخصوص امور کے جن کی پیروی/اتباع کرنے کے لیے تم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یعنی جن کا تمہیں پابند کیا گیا ہے۔ پس پرستش اور عقیدت کےمراکز بنانے [الْأَوْثَانِ ] کی برائی سے اجتناب کرو اور اجتناب کرتے رہو ایسی زبان بولنے سے جو جھوٹ سے پُر ہو ۔"
سورہ الحج : ۳۲ سے ۳۸
ذَٰلِكَ۔۔۔۔۔۔ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾
"اور جو لوگ اللہ کے ہدایت کردہ راستے یا طور طریق کی عظمت کو بلند کریں گے، وہ اسے تقویتِ قلوب کا ذریعہ پائیں گے۔"
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾
"اسی راستے میں تم سب کے لیے ایک معینہ مدت تک منفعت ہے۔پھر اس ہدایت کا مستقل مرکز و منبع اللہ کا محترم و متقدم مرکزِ ہدایت [الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]ہے۔"
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
"نیز ہم ہر قوم کے لیے پاکیزگیِ ذات کے ذرائع/طریقے/اصول [مَنسَكًا ]پیش کر دیے ہیں تاکہ وہ اللہ کی صفاتِ عالی کو ذہن نشین کریں [لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ] اور اس کی روشنی میں جانوروں کی مانند غیر یقینی یعنی مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] پر حاوی آ جائیں جس کی انہیں تربیت دی گئی تھی[مَا رَزَقَهُم]،یعنی جو کچھ انہوں نے سابقہ زندگی میں سیکھا تھا۔ اور وہ یہ سمجھ لیں کہ تمہارا اللہ ہی اصل حاکم ہے۔ اس لیے اسی کی ہدایات پر سرِ تسلیم خم کر دیں۔ جو اس معاملے میں عاجزانہ اور تابعدارانہ روش رکھتے ہوں ان کو فوری نتائج کی خوشخبری دے دو۔ "
22/40-41: الحج
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾
"۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بستیوں سے ناحق نکال دیے گئے تھےصرف اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا پروردگار ہے ۔عمومی طور پر تو انسانوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی انسانوں کی ایک جماعت کا دوسری جماعت کے ذریعے دفاع نہ فرماتا تو ،،،،،محبت بھرے اصرار،منت و التجا سے روک لینا(صَوَامِعُ )، ،،،،،وفاداری اور وابستگی کےعہد و پیمان کرنا(بِيَعٌ)،،،،، ستائش/رحمت/تحسین و آفرین (صَلَوَاتٌ) کرنا، اور،،،،،،تعظیم/فرماں برداری/عاجزی/انکساری (مَسَاجِدُ) کا شعار اختیار کرنا جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کی عظیم عمارت منہدم کر دی جاتی جن کے رواج و پیروی میں کثرت سے اللہ کی صفات کو پیش نظر رکھا جا تا ہے۔ پس اللہ ان کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کے مقاصد کی تکمیل میں مدد گار ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ طاقتور اور مقتدر ہے ۔ مذکورہ لوگ تو وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین پر تقرر/قیام عطا کر دیا تو یہ احکامِ الٰہی کی اطاعت و پیروی کا نظام قائم کریں گے، عوام کوسامانِ پرورش و نشوونما فراہم کریں گے، اچھائی کا حکم دیں گے اور برائیوں کو ممنوع کردیں گے۔ اور اس نظام میں تمام امور کی نگرانی اللہ کےا حکامات کے مطابق ہوگی۔"
الفتح: 48/25:
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾
"یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کی روش اپنائی تھی، تمہیں احکاماتِ الٰہی(الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ )کی پیروی سے روکا، اور حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں (َالْهَدْيَ) کو اپنی صحیح جگہ تک پھیل جانے سے روکا تھا۔کیونکہ وہاں ایسے مومن مرد و خواتین تھے جنہیں تم نہیں جانتے تھے،اس لیے اندیشہ تھا کہ نادانستگی میں وہ تمہارے ہاتھوں نقصان اٹھا کر تمہیں ندامت کا شکار بنادیتے۔ اللہ تعالی تو لازمی طور پر ہر ایک کو جو بھی ایسا چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمالیتا ہے، لیکن اگر یہ لوگ دوسروں سےعلیحدہ کیے جاسکتے تو ان میں سے باقی جو کفر کرنے والے رہ جاتے انہیں ہم نے ضرور دردناک عذاب میں مبتلا کیا ہوتا۔ ۔"
--- --- --- --- --- --- --- ---
موضوع کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ذیل میں" حج" سے متعلق وہ آیات مندرج ہیں جن کا تراجم کی قسط نمبر 8 میں قبل ازیں ترجمہ ہو چکا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ بعد ازاں تحقیقی مقاصد کے لیے بریکٹ زدہ الفاظ کے مستند معانی بھی دے دیے گئے ہیں۔
2/189 : البقرۃ
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾
"وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِهَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔"
2/196-200: البقرۃ
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾
"نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ گئے ہوں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات الٰہی کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔"
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾
"اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے تحقیق و حجت کرنے [الْحَجُّ] کا طریقہ کار بہت معروف ہے [أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ] اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے حجت و تحقیق خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت/بحث و تحقیق کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ اختیار کرو۔ "
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾
"اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے [َعرَفَاتٍ] تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو [أَفَضْتُم] تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں (عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ )اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں رہےتھے۔ "
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٩٩﴾
"بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو پھیلا دو(أَفِيضُوا ) ایسے کہ جس کیفیت میں انسان پھیلے ہوئے، زمین پرآزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں ۔ اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔"
فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾
"پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف /مشاہیرکو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔ اس لیے کہ تم لوگوں میں ایسے بھی انسان موجودہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی تمام مال و متاع حاصل ہو جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔"
سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّـهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ
"اللہ اور رسول کی جانب سے تمام انسانیت کے لیے، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع (يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَر) پر یہ اعلان عام کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔"
اور اب بریکٹ زدہ الفاظ کے مستند معانی:-
[الْأَهِلَّةِ]: پکار، اعلانات؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے دین اللہ سے متعلق مخصوص اصولوں کی بلند آواز میں تشہیر۔
[مَوَاقِيتُ]: واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔
[الْبُيُوتَ]: معرف باللام؛ اشراف، اعلیٰ خاندان/حکمران خاندان/ادارے،عبادت گاہیں؛ عمومی معنی بیت کی جمع،وغیرہ-
[ظُهُورِهَا]: بیک ڈور سے یعنی چور دروازے سے-
[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ]: مقدس، محترم، واجب التعمیل/پابندی والے احکاماتِ /معاہدے-
[الشَّهْرُ الْحَرَامُ]: پابندیوں لاگو ہونے کی معلوم کیفیت یا حالات یا شرائط-
[لِلَّـهِ] : اللہ کی منشاء پوری کرنے کے لیے-
[وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ]: حج: حجت تمام کرنا؛ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔
[الْعُمْرَةَ]: عمرہ: زندگی/عمر گذارنا؛ العمرۃ: ایک خاص نظریےکی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارنا ۔
[فَفِدْيَةٌ]: بدل /تلافی -
[ صِيَامٍ ] : پرہیز /اجتناب /بچنے/رکنےکا نظام وتربیت ۔
[صَدَقَةٍ ]: اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھانا ۔
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[ نُسُكٍ]: اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious.
[الْحَجُّ]: دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت
[أَشْهُرٌ ]: بہت معروف طریق کار ، best known, apparent, conspicuous, manifest, notorious
[َعرَفَاتٍ] : پہچاننا، تسلیم کرنا، اقرار کرنا، سوسائٹی کا رسم و رواج، شائستہ، صحیح، اعتراف، رکنے کی جگہ۔
[أَفَیضْو] : بھر جانا، بھر کر باہر گرنا، کھل جانا، واپس آنا، انڈیلنا، پھیلانا، آزادی سے بہنا، بھیڑ کیساتھ ایک سے دوسری جگہ جانا۔
ختم شد
- Hits: 2213
اورنگزیب یوسفزئی مئی 2014
تحقیق: کیا واقعی کعبہ بیت اللہ ہے؟ کیا مسجد الحرام کا معنی کعبہ ہے؟
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 13
بھائی منظور صاحب کے سوالات کے جواب میں ،،،جن کے ذریعے وہ کعبہ، بیت اللہ اور حج کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
ان کے سوالات اس طرح ہیں :
۱] "رب ھذا البیت" ؟؟؟؟ کیا یہ کعبے کی جانب واضح اشارہ نہیں؟؟؟ اس کے ضمن میں سورۃ قریش کا ترجمہ پیش کیا جا چکا ہے جہاں " ھذا البیت " کے معانی کی تشریح کر دی گئی ہے۔ اس کا اشارہ کعبے کی جانب نہیں ۔
۲] "ھذا البلد الامین"؟؟؟؟ کیا اس سے مراد مکہ اور کعبہ نہیں؟؟؟ اس ضمن میں سورۃ التین کا ترجمہ کیا جا چکا ہے، ذیل میں [۲] پرموجود ہے۔ یہاں بھی روایتی کعبے کی جانب اشارہ نہیں ۔
۳] ۱۷/۱ : "من مسجد الحرام الی مسجد الاقصٰی "؟؟؟؟؟ کیا یہاںمسجد الحرام سے مراد کعبہ نہیں؟اس ضمن میں سورۃ اسریٰ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ ذیل میں [۳] پرموجود ہے۔یہاں بھی مسجد الحرام سے مراد روایتی کعبہ نہیں ۔
۴] "واد غیر ذی زرع،،،،،،،عند بیتک المحرم،،" ؟؟ کیا یہاں بھی مکہ اور کعبہ مراد نہیں؟؟؟ اس ضمن میں ترجمہ سورۃ ابراہیم کے عنوان کے تحت ذیل میں [۴] پرموجود ہے۔ یہاں کہیں بھی کعبہ یا مکہ یا اس کے تقدس یا مرکزی مقام ہونےکی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے ۔
۵] ایک بہت اہم آیت، جس سے کعبے کی توثیق کا حتمی ثبوت ملتا ہے : اجعلتم ثقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام، کمن آمن باللہ و الیوم الآخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے آپ کیا کہیں گے ؟
نہیں ،یہاں سے بھی یہ توثیق نہیں ہوتی ۔ ترجمہ نمبر ۵] پر ملاحظہ فرمائیں ۔
۶] پھر مکہ میں کعبے کا حج کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
لفظ "حج" کے معانی و مفہوم کی تشریح کافی و شافی طور پر ان تراجم کی سیریز میں "صوم و حج" کے عنوان کے ساتھ کی جا چکی ہے ۔ جہاں مستند طور پر ثابت کر دیا گیا ہےکہ حج سے مراد مغفرت کے لیے یا بین الاقوامی اجتماع کے لیے زیارت یا بڑا اجتماع نہیں ہے ۔ بلکہ دینِ الٰہی کی تفہیم و تسلیم کے لیے کسی بھی قریبی نظریاتی مرکز میں بحث و مباحثہ ، یا اتمام حجت ہے ۔ اگر ہم مسلمان اندھی تقلید کے خوگراور بغیر تحقیق کیے بڑے بڑے کام کرنے کے عادی ہیں تو حج کی موجودہ شکل اختیار کرنے میں خود ہماری ہی غلطی ہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔ "صوم و حج" کے عنوان کے تحت متعلقہ آیات کے تراجم طلب فرمائیں۔
*******************
اب درج بالا پوائنٹ نمبر ۲ سے وضاحتیں پیش ِ خدمت ہیں۔
۲] سورۃ التین:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿٣﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ ﴿٧﴾ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
۹۵/۱ – ۹۵/۳ : وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے کی [وَطُورِ سِينِينَ ]جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی [الْبَلَدِ الْأَمِينِ ]جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے،
۹۵/۴: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔ ۹۵/۵: ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔ لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔
۹۵/۶: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔
۹۵/۷: فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ نظامِ زندگی [ضابطہِ کردار] کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟
۹۵/۸: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
اور اب رواں ترجمہ :
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے، کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔
لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔ اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ ضابطہِ کردار کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟ تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند ترجمہ:
[وَطُورِ سِينِينَ ]: طور : گرد گھومنا، قریب جانا، وقت یا ایک خاص وقت؛ متعدد مرتبہ؛ تعداد/پیمانہ/حد/پہلو/شکل و صورت/حلیہ/طور طریقہ/ تہذیب و آداب/قسم/طبقہ/مرحلہ/درجہ؛ سینا پہاڑ، زیتون کا پہاڑ؛ بہت سے دوسرے پہاڑ، وہ پہاڑ جہاں درخت پیدا ہوتے ہوں؛ خود کو انسانوں سے علیحدہ کر لینا، اجنبی، آخری حد، دو انتہاوں کا سامنا۔
سینین: س ن و: سنا : شان و شوکت، رحمتیں اور انعامات، ناموری ۔ بعض اسے سیناء سے ملاتے ہیں جو صحرائے سینائی میں ایک پہاڑ ہے ۔ مگر جس کی کوئی ٹھوس توجیہ یا لسانی بنیاد نہیں ہے ۔
[الْبَلَدِ الْأَمِينِ ] : البلد : زمین کا ایک خطہ، حدود مقرر کردہ قطعہِ اراضی، آبادی کا علاقہ، آباد شہر۔
البلد الامین = وہ خطہِ زمین جسے مامون و محفوظ کر لیا گیا ہو۔
**********************************
۳] سورۃ اسراء
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کی کیفیت میں [لَيْلًا ]اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی [ أَسْرَىٰ ] ، ایک ممنوع کیے گئے مقام اطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ] سے، بہت دور کے ایک دوسرے مرکزِاطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو [حَوْلَهُ ] ہم نے ما قبل ہی سے ذریعہِ فیض و برکات ، یعنی سازگار بنا دیا تھا [بَارَكْنَا] ، تاکہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھائیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
اور اب رواں ترجمہ:
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کے درمیان اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی ، ایک ممنوع کیے گئے مقامِ اطاعت و عبودیت سے، دُور کے اُس مرکزِ اطاعت و عبودیت کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو ہم نے ما قبل ہی سے اس کے مشن کے لیے ذریعہِ فیض و برکات یعنی مکمل سازگار بنا دیا تھا ۔ اور یہ اس مقصد کے تحت کہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھا دیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
بریکٹ شدہ الفاظ کے مستند تراجم:
[لَيْلًا ]: تاریک رات مین، ایک شب و روز میں ، سورج کے غروب ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک؛ the civil day from sunset to sunset ، اندھیروں میں۔
[أَسْرَىٰ ] : بلند ترین مقام، چوٹی، پانی کا نشمہ، ندی، قوم کا سربراہ، رات کا سفر : سفر؛ رخصت ہونا، کسی کو رات کےسفر کے لیے کہنا؛ بلند مقام کی طرف لوٹنا یا ہجرت کر جانا؛ travel during night, to depart, ; to make anyone to travel by nation, repair to an upland; highest point; summit; rivulet; fountain,; stream; chief of the
[الْمَسْجِدِ] : س ج د: برتری، اتھارٹی تسلیم کر لینا؛ جھک جانا، خود کو حقیر کرنا؛ تعظیم دینا، اطاعت کرنا، انکساری/عاجزی کرنا، سلوٹ کرنا؛ احکامات کے سامنے جھک جانا؛ [مفرداتِ راغب: اصل معنی فروتنی اور عاجزی ہیں]
مسجد: سجد سے اسم ظرف اور اسم مفعول : وہ جگہ یا مرکز جہاں جھکنا، اطاعت کرنا ہے ، یا وہ احکامات جن کے سامنے جھکنا اور جن کی اطاعت کرنا ہے ۔
[ الْحَرَامِ ]: [یہ لفظ متضاد معانی پر محیط ہے یعنی حرام اور ممنوع بھی اور محترم یا قابلِ احترام بھی ۔ استعمال سیاق و سباق کے مطابق ہوگا۔]ممنوعہ، جرم، غیر قانونی، ناقابلِ خلاف ورزی، ، لعنتی، انکار کرنا، پابندیوں والا ؛ محترم، مقدس ،حرمت والا، ۔
[الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]: ق ص و : دور دراز، فاصلے پر، دور چلے جانا، انتہا۔ اقصیٰ : زیادہ دور، زیادہ فاصلے پر
[حَوْلَهُ ] : اس کا ماحول، اس کے اطراف و جوانب ؛ اس کے گردا گرد۔
[بَارَكْنَا] : ہم نے برکت دی، سازگار، محکم، مضبوط بنادیا۔
*******************************
۴] سورۃ ابراہیم : ۱۴/۳۵--
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین [الْبَلَدَ] کو امن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں [بَنِيَّ] یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات [الْأَصْنَامَ ]سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں [أَن نَّعْبُدَ َ] ۔
آیت: ۱۴/۳۶
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارگکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
آیت : ۱۴/۳۷
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد [مِن ذُرِّيَّتِي] کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز [بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ]کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں [بِوَادٍ] بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے [غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں [لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ]۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات [أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے [وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ] تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں [يَشْكُرُونَ ]۔
آیت: ۱۴/۳۸
رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔
آیت: ۱۴/۳۹
﴿٣٨﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٩﴾
اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا
ہے ۔
آیت: ۱۴/۴۰
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾
اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
آیت: ۱۴/۴۱
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو احتساب کی سٹیج قائم ہونے کے مرحلے میں [يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] تحفظ عطا فرما دے [اغْفِرْ ]۔
اب رواں ترجمہ:
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین کوامن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں ۔
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارتکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں ۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں ۔
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا ہے ۔اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو اُس مرحلے میں بھی تحفظ عطا فرما دے جب تیرےاحتساب کی سٹیج قائم ہوگی۔
اور اب بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے مستند تراجم، جن کے لیے دو عدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے ۔
[الْبَلَدَ] : خطہِ زمین ، ایسا علاقہ جو حدود کے اندر واقع ہو ، ایک آباد علاقہ، ایک شہر۔
[بَنِيَّ] : baniyya :بیٹے، اولاد، جانشین : جمع کا صیغہ ہے ۔ اسی کا واحد ہے : banayya : میرا بیٹا
[الْأَصْنَامَ ]: الراغب: وہ تمام چیزیں جو انسان کو خدا کی طرف سے موڑ دیں؛ ہر چیز جو انسان کی توجہ کو دوسری جانب منعطف کر دے؛ جس کی بھی اللہ کے علاوہ اطاعت کی جائے؛ نیز پتھر یا لکڑی کی کوئی بھی صورت جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہو۔
[أَن نَّعْبُدَ َ] ۔کہ ہم اطاعت و فرماں برداری نہ کریں۔
[مِن ذُرِّيَّتِي] : میری اولاد ؛ میری نسل ؛ یا میری اولاد میں سے۔
[بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ] : تیرا قابلِ احترام نظریاتی مرکز ؛ تیرے احکامات کی تعمیل کا مرکز؛ تیرا محترم ادارہ؛ مرکزِ حکومتِ الٰہیہ۔
[بِوَادٍ] : واد؛ ودی؛ ودیان: طریقہ، مذہب، اسلوب، طرز ، سوچ، وادی، دریا کی وادی یا گذرگاہ، نشیب، کیمپ؛ [ الراغب: فلاں فی واد غیر وادیک = فلاں کا مسلک تجھ سے جداگانہ ہے - قاموس الوحید: ھما من واد واحد = وہ دونوں ایک ہی اصل سے یا طریقے یا مسلک سے ہیں]
[غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] : بیج نہ ڈالا گیا، فصل نہ بوئی گئی، جہاں زمین تیار نہ کی گئی، بیج ڈالنے اور فصل اگانے کے لیے۔
[لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ] : تاکہ وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کریں ۔
[أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]: لوگوں کے رحجاناتِ قلب، میلانِ طبع، سوچ و فکر۔
[وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ]: ثمرات: صرف پھل نہیں بلکہ خوشگوار نتائج، اجر، ثواب، انعامات
[يَشْكُرُونَ ]۔ ان کی کوششیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ شکر : کوششوں کے بھرپور نتائج پیدا ہونا۔
[يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] : وہ وقت، دور یا سٹیج جب انسانوں کے اعمال پر احتساب کی کاروائی عمل میں لائی جائیگی ۔اور سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا ۔ [استعاراتی اسلوب]
[اغْفِرْ ]۔ غ ف ر : تحفظ اور بچاو کے اسباب عطا کرنا ۔
***************
۵] سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام
التوبۃ : ۱۹۔۲۰
اجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام، کمن آمن باللہ و الیوم الآخر و جٰھد فی سبیل اللہ۔ لایستون عنداللہ۔ واللٰہ لا یھدی القوم الظٰلمین۔ اللذین اٰمنو و ھاجروا و جاھدُوا فی سبیل اللٰہ باموالھم و انفُسھم، اعظمُ درجۃ عند اللٰہ۔ و اُولٰئک ھم الفآئزون۔
کیا دلائل کے ساتھ اتمامِ حجت چاہنے والوں [الحاج ]کی علمی پیاس کو سیراب [سقایۃ ]کرنے ، اور واجب الاحترام مرکزِ اطاعت و عبودیت [المسجد الحرام ]میں فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اسے آباد رکھنے [عمارۃ] کےعمل کو تم اُن لوگوں کے عمل کی مانند بنا نے کی کوشش کرتے ہو[اجعلتم] جنہوں نے اللہ پر ایمان اور دورِ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عملی جہاد کیا؟؟؟ نہیں، وہ اللہ کے نزدیک مساوی نہیں ٹھہرتے ۔ یہ حق کے ساتھ ناحق کرنا ہے اس لیے یاد رہے کہ اللہ کا قانون حق تلفی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔درحقیقت جو لوگ اللہ کی راہنمائی پر ایمان لائے ، اور اس کی خاطر ہجرت کا دکھ برداشت کیا، اور اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہدکی، انہی کا درجہ اللہ کے نزدیک عظیم تر ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب و کامران ہوئے۔
اب رواں ترجمہ:
کیا دلائل کے ساتھ اتمامِ حجت چاہنے والوں کی علمی پیاس کو سیراب کرنے ، اور واجب الاحترام مرکزِ اطاعت و عبودیت میں فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اسے آباد رکھنے کےعمل کو تم اُن لوگوں کے عمل کی مانند بنا نے کی کوشش کرتے ہوجنہوں نے اللہ پر ایمان اور دورِ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عملی جہاد کیا؟؟؟ نہیں، وہ اللہ کے نزدیک مساوی نہیں ٹھہرتے ۔ یہ حق کے ساتھ ناحق کرنا ہے اس لیے یاد رہے کہ اللہ کا قانون حق تلفی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔درحقیقت جو لوگ اللہ کی راہنمائی پر ایمان لائے ، اور اس کی خاطر ہجرت کا دکھ برداشت کیا، اور اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہدکی، انہی کا درجہ اللہ کے نزدیک عظیم تر ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب و کامران ہوئے۔
بریکٹوں میں دیے ہوئے مشکل الفاظ کے مستند معانی :
سقایۃ : پانی دینے کا یا آبپاشی کا نظام، اس نظام کا آفس، وہ مقام یا مرکز جہاں سے پیاس کو سیراب کیا جائے، وہ برتن جس میں کچھ پینے کو دیا جائے، {استعارہ} سقاک اللہ = اللہ تجھے خوب سیراب کر دے ۔ کسی کمی کو فراوانی دے کر سیراب کر دینا۔
[حاج ] حج: وہ اس پر دلائل سے غالب آیا؛ دلائل دینا، حجت کرنا، الزام کو دلیل سے ثابت کرنا، ثبوت، شہادت یا گواہی۔
ایسا کرنے والا = حاج ۔
[عمارۃ]: ع م ر : پھلنا پھولنا، خوشحال ہونا، ترقی کرنا، آبادی کرنا، لوگوں سے بھرنا، آباد کرنا، تہذیب یافتہ ہونا، فراوانی کا مالک ہونا، زندگی سے بھرپور ہونا، ترقی کا باعث بننا، خوشحال کرنا، تعمیر کرنا، جوڑ کر فٹ کرنا، بنانا، بحال کرنا، جینے دینا، محفوظ کرنا