اورنگزیب یوسفزئی                                                                                      مئی  2020

 

سانحہِ کربلا،     یا     ایک دیومالائی داستان

اُمت مسلمہ کے بڑے فکری مغالطے

 

تلاشِ حقیقت ایک نہایت غیر جانبدار جِرح اور بے رحم استکشاف کا تقاضا کرتی  ہے۔ اور اس انداز میں کی گئی  تحقیق اگر نہایت متنازعہ مذہبی موضوعات پر کی جائے تو نتیجے میں سامنے آنے والے تحیر خیز اور ہوش رُبا انکشافات بہت سے قارئین کے پہاڑ جیسے مضبوط عقائد میں دراڑیں ڈال سکتے ہیں۔ نیزمذہبی جذبات کو سخت مجروح  اور انگیخت  بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ تحقیق کی ضرورت ہمیشہ متنازعہ اور مشتبہ حیثیت کے حامل امور کے ضمن میں ہی محسوس کی جاتی ہے۔  فلھٰذا التماس ہے کہ زیرِ نظر تحقیقی مقالے کو کسی بھی مسلکی، تعصبی، یا متہّمی انداز میں نہ لیا جائے۔ راقم السطور نہ سُنّی ہے اور نہ شیعی مسلک کا پیروکاراور نہ ہی کسی بھی انسانی گروہ سے برسرِ پیکار۔ کافر و مسلم اور ملحد و  دہری جیسے القابات سے اِسے کوئی واسطہ ہے نہ سروکار ۔ احترامِ آدمیت اس کا مسلک ہے اور سچائی کی جستجو اس کا نصب العین۔ قرآن اس کی واحد انمول کتابِ ہدایت ہے۔ اوراسلامی تاریخ کو کھنگال کر اس کی ہنوز پوشیدہ سچائیاں کھوج نکالنا اِس کا میدانِ تخصّص ۔ دریں احوال، اس علمی فورم میں ہر مسلک سے متعلق وہ محترم دوست شریک ہو سکتے ہیں جوحاضر و موجود سے بیزار ہوں ، تاریخ کے گہرے پانیوں میں غوّاصی کے شوقین ہوں اور اصحابِ علم واسرار کی صفت سے موصوف ہونا ایک خوبی مانتے ہوں۔  یہاں کسی کی عزت و احترام میں کوئی فرق نہ آنے دیا جائے گا۔  کیونکہ علم اور علمی تحقیق کا نہ کوئی مسلک ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی انسان کی اکلوتی میراث ہے ۔ جو کُچھ بھی سپردِ قلم کیا گیا وہ مختلف تواریخ و ماخذات سے لیا گیا ہے۔ راقم کے ذہن سے کوئی اختراع نہیں کی گئی۔ واللہُ بکُلّ شیئی علیم۔

 

 واقعہِ کربلا اُمتِ مسلمہ کے بڑے فکری مغالطوں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے، اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت یقین بھی کرتی ہے، کہ کربلا نامی مقام پر نبی پاک کے نواسے حضرت حسین کو اُن کے اہل و عیال سمیت اموی خلیفہ یزید کے ایما پر مسلح فوج نے گھیر لیا اور چند بچوں اور خواتین  کے سوا سبھی کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔  قبل ازیں حضرت حسین کو ملوکیتی خلیفہ ِ دوم ، یزید ابنِ معاویہ  کے خلاف خروج کے لیے عراق کے شہر کوفے کی جانب عازمِ سفر ہو کر اہلِ کوفہ کی سربراہی کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ لیکن پھرپے در پے دھوکہ دے کر یزید کی فوج کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ مسلح حکومتی فوج نے آپ کو واپس بھی نہ پلٹنے  دیا ۔ چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا، اور مذاکرات کے نتیجے میں آپ کو مدافعتی جنگ پر مجبور کر دیا گیا۔  جس کے نتیجے میں آپ کو بمعہ آپ کے متعدد رفقاء انتہائی بربریت کے ساتھ  محرم 61 ہجری میں شہید کر دیا گیا۔

 

 متعدد متعلقہ تحریروں میں اس اہم واقعےکے بیانات کی جزئیاتی تفاصیل میں جس قدر تضادات، ابہام ، تشکیک، دیومالائی  حکایتیں ، خارقِ عادات حرکات و معجزاتی  قصّے  ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں، اُن کی روشنی میں جو واحد منطقی نتیجہ اور ماحصل ہمارے سامنے آتا ہے۔  وہ یہ ہے، کہ یہ ایک ایسا من گھڑت واقعہ ہے جس پر کھُل کر خامہ فرسائی کرنے کی اجازت حاصل رہی ہے۔  اور ہر ہما شما نے اپنی ذہنی سطح کے مطابق اور اپنے اعتقادات کے زیرِ اثر جتنا بھی بڑھا چڑھا کر مبالغہ آمیزی کرنی چاہی، اُس میں کوئی دریغ نہیں کیا گیا۔  صرف ایک ہی مثال دینا کافی ہے۔ میدانِ کربلا میں جو لشکر حضرت حسین کی مختصرفیملی کے مقابل "جنگ" کرنے کے لیے بھیجا گیا، مختلف کُتب کے مختلف فاضل مصنفین نے اُس کی تعداد ڈھائی تین ہزار سے شروع کرتے ہوئے، اورعقل و شعور کی ہر حد کو پار کرتے ہوئے،  2 کروڑ تک بیان کی ہے۔  حالانکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی طاقتور سے طاقتور دشمن کے مقابلے میں کبھی اور کسی زمانے میں بھی، کسی بھی قوم یا سلطنت کی جانب سے، دو کروڑ کی تعداد میں کوئی فوج اکٹھی نہیں کی جا سکی۔

 

خارقِ عادات اور کرشماتی واقعات کی بھرمار اس انداز میں کی گئی ہے کہ حضرتِ حسین کا جسم تیروں سے جھلنی کر دیا گیا، ایک تیر حلقوم کے بھی پار ہو چکا، لیکن پھر بھی آپ کو شہید کرنے کے لیے انجامِ کار گردن کو ہی ڈرامائی انداز میں تن سے جدا کرنا پڑا۔  تب تک آپ اپنے ہر زخم کا خون چُلّو میں بھر کر آسمان کی جانب اُچھالتے رہے، اور وہ خون زمین کی جانب واپس نہ آیا۔ نہ جانے کہاں چلا گیا۔  دریا کے کنارے خیمہ زن تھے، چند فٹ زمین کھودنے پر پانی نکل آنا لازمی تھا، لیکن عورتوں اور بچوں سمیت پانی کے قحط کا شکار رہے۔  اکیلے بوڑَھے آدمی گھوڑے پر سوار جدہر بھی حملہ کرتے، دشمن کی فوج کے پرے کے پرے اُکھاڑ پھینکتے۔  ہر زخم لگنے پر آسمان کو دیکھتے، اللہ سے فریاد کرتے، اور دشمن کھڑا یہ منظر دیکھتا رہتا۔  پھر آپ کے گھوڑے نے جو معجزاتی کارہائے نمایاں دشمن کے خلاف انجام دیے، اُن کے ذکر سے بھی کتابیں بھر دی گئیں۔ یہاں تک بے تُکی چھوڑی گئی کہ وہ گھوڑا نبی پاک صلعم سے آپ کو ورثے میں حاصل ہوا تھا۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ ہر فاضل مصنف نے اپنے اپنے تصورات کو کام میں لاتے ہوئے اپنی تحریر میں اپنا ہی انفرادی رنگ بھر دیا اور بیانیے کا انداز یہ رہا گویا کہ ہر فاضل مصنف موقع پر موجود ہر واقعے کا چشمِ دید گواہ تھا  اور ہر گفتگو کا ہر ڈائیلاگ بذات خود سُن رہا تھا اور تفصیل کے ساتھ نوٹ لے رہا تھا۔  یہ سب وہ کاروائی ہے جسے فقط عقل  سے ماوراء اندھی مذہبی عقیدت کے تحت ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ فلھٰذا واقعہِ کربلا اپنے بیانیوں کی روشنی میں فکر و شعور کے معیار پر ایک حقیقت کے بجائے ایک فکشن کے طور پر لیے جانے کا متقاضی پایا جاتا ہے۔ درج بالا مواد مذکورہ طول طویل بیانیوں کی صرف ایک آدھ جھلک ہے جو صرف مثال کے طور پر سامنے لے آئی گئی ہے تاکہ یہ جان لیا جائے کہ مذہبی انتہا پسندی، خواہ کسی فرد، گروہ یا  فرقے کی جانب سے ہو،ہمیشہ عقل و شعور کی حدود و قیود سے آزاد ہوا کرتی ہے۔

مقتلِ الحسین

لوط بن یحیٰ ابی مخنف وہ واحد شخصیت ہے جس نے پہلی مرتبہ داستانِ کربلا "مقتل الحسین" کے نام سے وضع کر کے اہلِ تشیع کے ہاتھوں میں تھمائی ہے۔ یہ ان کی سب سے متبرک کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسی کی داستانیں محرم میں تلاوت کی جاتی ہیں۔ مورخ ابنِ جریر طبری نے اسی کی داستانوں کو اپنی تاریخ کی زینت بنایا ہے۔

حافظ ابن حجر "لسان المیزان" اور حافظ ذہبی "میزان الاعتدال" میں لکھتے ہیں، یہ شخص مورخ ہے، مصنف ہے، اور اسے ابو حاتم وغیرہ نے متروک قرار دیا ہے۔ دارقطنی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں "یہ کچھ نہیں" [لا شئی]۔ ابنِ عدی کہتے ہیں کہ یہ تو ایک آگ پھیلانے والا شیعہ ہے اور شیعوں ہی کا مورخ ہے۔ عبدالرحمان ابن ابی حاتم کا بیان ہے کہ میرے والد ابو حاتم رازی فرماتے تھے ابو مخنف متروک ہے [الجرح و التعدیل ج۷، ص۱۸۲]۔

کچھ بیانات کے مطابق اس کی وفات ۱۷۰ ہجری کے لگ بھگ ہوئی۔  اور کچھ دیگر کے مطابق 157 میں فوت ہوا۔ کربلا کے جس واقعے کو یہ بڑی تفصیل اور وثوق  سے بیان کرتا ہے اُس وقوعے کے وقت اس کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی۔
ہمارے ائمہِ جرح و تعدیل اپنی غیر جانبداری اور عرق ریزی کی بنا پر ایک  خاصہ غیر متنازعہ پروفائل رکھتے ہیں اور بے شمار جھوٹی روایات اور کذاب و ضعیف راویان کی حقیقت کا پردہ انہی نے چاک کیا ہے۔ انہی کی تحقیق کی مدد سے ہم تاریخ کی وہ اغلاط چھانٹی کر کے الگ کرتے ہیں جن کے ماخذات روایات ہوتی ہیں، اوراس طرح اس کی تطہیر کر تے ہیں۔ ورنہ ہم اندھیرے ہی میں رہتے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں لوط بن یحییٰ ابی مخنف کس قبیل کی کرشماتی شخصیت تھی۔

لوط بن یحییٰ ابی مخنف

لوط بن یحییٰ ابی مخنف کی  پیدائش کے بارے میں اختلافات ہیں، یعنی 689  عیسوی مساوی بہ 71 ہجری بھی کہا جاتا ہے اور 709   عیسوی بھی ۔ جو لگ بھگ ہجری سال 91 کے مساوی ہوتی ہے ۔ ویکی پیڈیا کے مطابق اس کی سنہِ وفات 156 ہجری [774/775 عیسوی] ہے۔ 85 سال کی عمر پائی۔ کوفہ میں آباد  ازد قبیلہ سے تعلق تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس کے پڑ دادا کا نام مخنف ابن سُلیم تھا جو  ازد قبیلے کے سردار تھے اور39 ہجری [مساوی بہ 657 عیسوی] میں صفین کی لڑائی میں حضرت علی کی فوج میں اپنے قبیلے کے کماندار تھے۔ لوط کے دادا محمد بن مخنف صفین کے موقع پر 17 سال کی عمر میں تھے اور اُن کی اس معرکے کی رپورٹیں، مبینہ طور پر، ابی مخنف نے ریکارڈ کر لی تھیں۔ اُس نے ابن العشعث کی زیرِکمان سنہ 700 میں بنو امیہ کے خلاف بھاری عراقی بغاوت کا مشاہدہ کیا اور 750 میں عباسیوں کے ہاتھوں امویوں کا تختہ اُلٹتے دیکھا۔  وہ تفسیرِ ابن عباس، یا تفسیرِ کلبی کے بدنامِ زمانہ وضّاع محمد ابن صائب الکلبی کا دوست تھا۔ اور اُسی کلبی کے بیٹے ہشام ابن الکلبی کے ذریعے ابی مخنف کی تحریروں کی جلدیں عوام تک پہنچائی گئیں۔ یہی ابی مخنف عراق کی سیاست و معاشرت کے بارے میں طبری کی تاریخ کے بڑے ماخذات میں سے ایک ہے۔ طبری کا دوسرا بڑا ماخذ مغازی محمد ابنِ اسحاق یسار ہے۔ یعنی طبری کے بارے میں ہمارے اساتذہ اور کئی دیگر سکالرز کی وہ تحریریں بے بنیاد ہیں جن میں کہا گیا کہ موصوف نے گھر بیٹھ کر کاغذ کے کسی ایک ٹکڑے، یعنی کسی بھی سابقہ تحریر کے بغیر اپنی تاریخ الامم و الملوک لکھ  ماری  [علامہ پرویز، ڈاکٹر شبیر احمد و دیگر]۔  عقلِ سلیم کی رُو سے ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔  بلاذری اور طبری نے اپنی تحریروں میں  اِس کے حوالہ جات بھی  دیے ہیں۔  بعد ازاں کچھ  نمایاں سکالروں نے جن میں الذھبی، یحییٰ  ابن معین، دارقطنی اور ابو حاتم شامل ہیں ، اسے تنقید کی زد میں لیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کی تحریروں کا بڑا فوکس حضرت علی اور اُن کے بیٹے حسن اور حسین ہی رہے ہیں۔ اسی بنا پر دیگر سکالروں نے اسے خالص شیعی رحجانات کا حامل ثابت کیا ہے۔ امام یحییٰ ابن معین، ابو حاتم، ابن عدی اور حافظ ذھبی جیسے معتبر ائمہِ جرح و تعدیل اُسے نہایت ضعیف قرار دیتے ہیں۔  امام ابنِ عدی کا موقف ہے کہ وہ ایک انتہا پسند شیعہ تھا جو صرف اہلِ تشیع کے بارے میں تاریخ اور معلومات ریکارڈ کرتا تھا۔ اپنی تاریخ الاسلام میں حافظ ذھبی اس کا ذکر "رافضی" کے لقب سے کرتے ہیں۔

درجِ بالا شہادات کی بنا پر ابی مخنف کے عمومی بیانات ضعیف ہی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اور خاص کر حضرت حسین کی شہادت کے بارے میں لکھے گئے بیانیے تو ناقابلِ قبول قرار دیے گئے ہیں۔ اُس کی مشہور کتاب مقتل الحسین کے علاوہ اُس کی دیگر تحریروں میں الشوریٰ  [حضرت عثمان کے انتخاب کے بارے میں کتاب[،   کتاب الصفین  [صفین کے معرکے کے بارے میں کتاب] اور کتاب مقتل الحسن وغیرہ شامل ہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے کام کی بنیاد محمد ابن قیس، حارث ابن عبداللہ ابن شریک الامیری، عبداللہ ابن عاصم اور ضحاک ابن عبداللہ، ابو جنب الکلبی وغیرہ کی چشمِ دید گواہی پر رکھی ہے۔

مُذکّرہ حُر بن عبد الرحمان

فلوریڈا سے ڈاکٹر شبیر نے اپنی مشہورکتاب حقیقتِ کربلا میں اندلس کے حر بن عبدالرحمان کی آثارِ قدیمہ سے برآمد ہونے والی ڈائری، مذکّرہ حُر بن عبدالرحمان، کے حوالے سے یہ روشنی ڈالی ہے کہ مقتل الحسین کے بیانیے کے برعکس حضرت حسین اپنی وفات کے وقت عراق کے گورنر کی حیثیت سے کوفہ کے قصرِ امارہ میں اپنے سرکاری فرائض ادا کرنے میں مصروف تھے۔ اُن کی امارت کا دور عراق جیسے فتنہ و فساد کے مرکز میں ایک مثالی امن و امان کا دور تھا۔ عوام الناس خوشحال تھے اور خوشیوں کے شادیانے بجاتے تھے۔  اس لحاظ سے یہ دستاویزی ثبوت ایک ناقابلِ تردید شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ راقم کی بعد ازاں کی تحقیق کے مطابق  یہ حُر بن عبدالرحمان الثقفی  اُندلس کی اُموی حکومت کے ایک فوجی کماندار تھے جنہوں نے بعد ازاں اندلس کے اموی صوبے پر گورنر کی حیثیت سے 716 اور 718 کے درمیان حکومت کی تھی۔اس طرح حُر بن عبد الرحمان کی  ڈائری وثاقت کی سند رکھتی ہے۔

تدفین کے بارے میں تاریخی حوالے

روایات کے مطابق حضرتِ حسین کا  جسدِ مبارک بغیر سر کے  ہی دفن کر دیا گیا  [طبری ، اخبار الطّوال، ]۔  سر کو ابنِ زیاد کے  ملاحظے کے لیے کوفہ بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں آپ کا سر اور بچے کھچے اہلِ بیت کو ابنِ زیاد کے معائنے کے بعد  شام بھجوا دیا گیا۔  یزید ابنِ معاویہ کو مکافاتِ عمل سے بچانے کی ایک بھونڈی کوشش کی گئی۔  کہا گیا کہ یزید کو جب اِس حادثے کہ خبر ملی تو اُس کے آنسو نکل آئے، کیونکہ اُس نے "صرف بیعت لینے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہ دی تھی"۔   اُس نے کہا کہ اگر تم لوگ حسین کو قتل نہ کرتے تو میں تُم سے زیادہ خوش ہوتا ؟؟؟[ یعنی اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ خوش تو اب بھی تھا، صرف کہنے کا انداز یہ رکھا گیا کہ  اگر قتل نہ کرتے تو "زیادہ" خوش ہوتا]۔  ابنِ سمیّہ [ابنِ زیاد]  پر خدا کی لعنت ہو، اگر میں موجود ہوتا تو حسین کو معاف کر دیتا، خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔     اب یزید ابنِ معاویہ کے  اسی تاریخی مکالمے کا تاریخ ہی سے تضاد ملاحظہ فرمائیے۔ طبری لکھتا ہے  [ظاہر ہے کہ مقتل الحسین ہی کے حوالے سے]  کہ  پھر یزید نے حضرت حسین کے سر کی طرف اشارہ کر کے درباریوں سے کہا کہ ان کا یہ انجام اس لیے ہوا کہ یہ کہتے تھے کہ ان کے باپ علی میرے باپ سے، ان کی ماں فاطمہ میری ماں سے، ان کے جدّ  رسول اللہ میرے جد سے بہتر اور وہ خود مجھ سے زیادہ خلافت کے مستحق تھے۔  سُو ان کے باپ اور میرے باپ نے خدا سے محاکمہ چاہا، اور دنیا کو معلوم ہے کہ خدا نے کس کے حق میں فیصلہ دیا۔   باقی، ان کی ماں، میری عمر کی قسم، میر ی ماں سے بہتر تھیں اور کوئی مسلمان جو خدا اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے ،کسی کو رسول اللہ کے برابر نہیں سمجھ سکتا۔  مگر افسوس انہوں نے "اللٰھُمّ مالکُ المُلک،،،، کا خدائی فرمان نہیں پڑھا تھا!!!

 امام حسین کا مقبرہ بعد ازاں کربلا میں اُن کے مدفن پر تعمیر کیا گیا۔  850 عیسوی میں عباسی خلیفہ المتوکل نے یہ مقبرہ منہدم کروا دیا تاکہ  اہلِ تشیع کی زیارتوں کو روکا جا سکے۔ تاہم زیارات پھر بھی جاری رہیں۔  البتہ امام حسین کے سرِ مبارک کے بارے میں مختلف داستانیں تواریخ میں ثبت ہیں۔

حضرت حسین  کی کربلا میں شہادت ہی کے ضمن میں آپ کے سرِ مبارک کی داستان بھی کسی دیومالائی حکایت سے کم نہیں پائی گئی۔  کہا گیا کہ حضرت حسین کے بیٹے علی نے  عاشورہ سے چالیس دن بعد  آپ کا سرِ مبارک شام سے واپس لا کر جسدِ خاکی کے ساتھ جوڑ دیا۔ اہلِ تشیّع اس چالیسویں دین کو اربعین کے نام سے مناتے ہیں۔  شیعی عقیدے کے مطابق ایک امام  کو ایک امام ہی اپنے ہاتھوں  سپردِ  خاک کرتا ہے۔ حضرت حسین کا جسدِ خاکی اُن کے بیٹے علی  زین العابدین  کے ہاتھوں  تدفین کے مراحل سے گذرا۔  لیکن تاریخ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ  کربلا کی لڑائی کے بعد یزید کی افواج نے حضرت حسین کا سر ایک نیزے پر بلند کیا۔ پھر یزید کے دربار میں پیش کیے جانے کے بعد  یہ سر اموی مسجد کی اندرونی دیواروں میں سے  ایک  میں بنی محراب  کے نیچے 200 سال تک مدفون رہا۔  جب  عباسیوں نے امویوں کا تختہ پلٹ دیا تو  انہوں نے حضرت حسین کے سر کو  سرکاری تحویل میں ہی رہنے دیا۔  اُس ہی مقام پر  سرِ مبارک کی زیارت جاری رہی۔ عباسی خلیفہ المقتدر [المتوفی 295/908] نے کئی بار کوشش کی کہ اس کی زیارت کو روکا جا سکے، لیکن ایسا نہ کر سکا۔  آخرِ کار اُس نے خفیہ طور پر آپ کے سر کو موجودہ اسرائیل کے قدیمی شہر عسقلان [Ashkelon] منتقل کر دیا۔ فاطمی خلیفہ العزیزباللٰہ نے  985 میں بغداد میں  تخت نشین اپنے ہمعصر خلیفہ کے ذریعے اِس کا سُراغ لگایا۔ ایک عربی زبان کے مخطوطے کے مطابق ، جو  ہیبرون  [Hebron] کی ابراہیمی مسجد کے فاطمی منبر پر کندہ ہے، فاطمی وزیر بدر الجمالی نے خلیفہ المنتصر باللٰہ کے تحت فلسطین کو فتح کیا اور ہجری 448 میں حضرت حسین کے سر کو دریافت کیا۔ اُس نے اس کے مدفن کی جگہ پر  ایک منبر، ایک مسجد  اور مشہد تعمیر کروایا۔ اس  یادگار تعمیر کو عسقلان کی شاندار ترین عمارت  کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔  آپ کے سر کے اس مدفن کی کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی ، بلکہ آئندہ آنے والے حوادث سے بھی پُر ہے جن کے بیان کرنے کا یہاں کوئی فائدہ نہیں۔  کیونکہ اس پورے واقعے میں  بنیادی تضادات  پہلے ہی واضح ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔

ہمارے زیرِ تحقیق موضوع پر ہمارے پختونخواہ کے ایک جوان العمر لیکن   نابغہِ روزگار سکالر اور محقق جناب رشید یوسفزئی نے ایک نہایت معلومات افزا مقالہ تحریر کیا تھا جو اس وقت راقم الحروف کی نظروں کے سامنے ہے۔ اسے زیبِ داستان کے طور پر  اس تحقیقی کام کے ساتھ شامل کرنا گویا اس کی توثیق و تصدیق کا باعث ہوگا اور شیعی لٹریچراور نامور شیعی سکالرز کے تناظر میں قارئین کو بہت سی قیمتی معلومات فراہم کرنے کا سبب ہوگا۔   تو آئیے ایک دلچسپ تحریر سے گذرنے کا فائدہ  حاصل کرتے  ہیں جسے زبان و بیان کی چند غلطیاں دور کرتے ہوئے یہاں من و عن درج کر دیا گیا ہے۔

یہ واضح رہے کہ رشید یوسفزئی کی درج ذیل تحریر میں حقیقی اسلام کے قاتل حضرت معاویہ، یزید  ابنِ معاویہ ، شقی القلب حجاج بن یوسف و دیگر اموی حکمرانوں کے بارے میں جو خوش گمانیاں موجود ہیں، انہیں آسان ترین الفاظ میں روایتی عقیدت پر مبنی اُنہی خاص خوش فہمیوں کی ذیل میں لیا جا سکتا ہے جن کا اُمتِ مسلمہ بالعموم شکار پائی جاتی ہے۔ اور جن کا جدید ترین تحقیق کے مطابق حقیقتِ حال سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حصہ صرف مضمون میں ایک تنوع پیدا کرنے کے لیے جوں کا تُوں برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ عاجز حضرت معاویہ اور یزید ابنِ معاویہ کے بارے میں پائے جانے والے اس تاریخی مغالطے کی پول سندات کے ساتھ پوری طرح اپنے مقالہ بعنوان "امیر معاویہ بن ابی سفیان" میں کھول چکا ہے۔

واقعہ کربلا ایک دیومالائی داستان [از رشید یوسفزئی]
"حضرات، داستان کربلا تمام فرقہ ھاۓ شیعہ کی سنگ بنیاد ھے۔ کربلا نہ ھو تو تشیّع کا وجود فنا ھوگا۔ اسی تناظر میں راقم نے ایک ہلکے پھلکے انداز میں شیعہ ائمہ و مجتھد ین اور ان کے علمی کارناموں کے تعارف کیساتھ ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ قارئین کا تشیّع کے ساتھ ایک جامع اور ھمہ جہت تعارف ھو جاۓ اور بحث کربلاکی داستان پر منتج ھو۔ تاھم میرے طرز تحریر سے ناآشنا قارئین اور خصوصا میرے شیعہ دوستوں نے بحث کا الجھاؤ اور خلط مبحث وغیرہ جیسی شکایات کیں۔ لہذا وہ سلسلہ ترک کرکے اس بحث کوایک نشست میں سمیٹتا  ھوں۔ عبارات ذیل کے سارے حوالے شیعہ منابع کے ھیں۔ میرا  مذھبی مطالعہ صرف عربی،فارسی اور انگریزی تک محدود ھے  وہ بھی منابع و ماخذ تک۔  مجھ سے اردو کی چٹخارے دار تحریروں کی توقع نہ رکھیں۔ میری ذاتی راۓ یہاں درج نہیں۔
ابو جعفر( ابو عبداللہ) محمد بن علی بن شھر آشوب بن ابی نصر بن ابی جیش المعروف بہ زین الدین،عزالدین،رشیدالدین شھر آشوب(المتوفی 2 ستمبر 1192) شیعہ متکلم،مبلغ، فقیہ،مجتھد مازندران میں پیدا ھوۓ اور زندگی کا اکثر حصہ حلب میں گزارا۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیعہ عالم تسلیم کئے گئے تھے۔ شیعوں کے علاوہ اھل سنت بھی شھرآشوب کی انتہائی تعظیم کرتے تھے۔ عباسی خلفاء ویسے بھی کانوں تک شیعہ تھے، لیکن خلیفہ مکتفی باللہ تو شھر آشوب کے باقاعدہ مرید تھے جس نے ان کو رشید الدین کا خطاب دیا۔ کمال یہ ھے کہ ھمعصر مخالفین میں زمحشری، غزالی اور خطیب الخوارزمی المکی تک سے اجازہ لیا۔ شیعہ علماء میں ان کے شیوخ میں الاحتجاج کے مصنف ابو منصور بن ابی طالب الطبرسی، مجمع البیان کے مصنف فضل بن حسن امین الدین الطبرسی، اورفارسی زبان میں شیعیوں کی اھم ترین تفسیر کےمصنف ابوالفتوح رازی جیسے اکابرین شیعیت شامل تھے۔ ابن شھرآشوب کے علم وفضل کا یہ مقام ھے کہ نجم الدین جعفر بن حسن المحقق الاول الحلی(علامہ جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطھر الحلی مشھور ترین عالم الگ ھے) جیسی شخصیت انکو اپنا شیخ بتانے پر فخر کرتے ھیں (اگر چہ ایک واسطہ پر)۔
ابن شھرآشوب کی معروف و مقبول کتاب تین جلدوں پر مشتمل ”مناقب آل ابی طالب“ ھے۔ اسی کتاب کے جلد سوم صفحہ ٢٢٩ پر حضرت لکھتے ھیں:
شب معراج میں محمدﷺ نے ایک محل دیکھا جو سفید موتی سے بنا تھا اور انکو بتایا گیا کہ یہ حسین کیلیے بنا ھے۔ جیسے ہی محمدﷺ اس محل کیطرف گئے تو انہوں نے ایک سیب دیکھا۔ اسے ھاتھ میں لیااور دو حصوں میں کاٹا۔ اس سے ایک دوشیزہ نکلی جس کی انکھیں عقاب جیسی تھیں۔  یہ لڑکی حسین کے لیے تھی“ ۔  (شیعہ عالم و مورخ ابن رستم طبری کی ایک روایت کےمطابق،” تخلیق کائنات سے سات ھزار سال قبل محمدﷺ،علی،فاطمہ، حسن، حسین نور کی شبیہ میں عرش کے سامنے کھڑے تسبیح پڑھ رھے تھے۔ پھر ذات باری تعالی نےانکو نور کے ایک ستون میں تبدیل کرکے حضرت آدم  علیہ السلام کی کمر میں منتقل کیا“)۔   امام حسین فطری پیدائشی مدت سے تین مھینے قبل پیدا ھوۓ اور انکی پیدائش کے حالات عیسی ابن مریم جیسے تھے۔ ص ٢٠٩۔۔٢٣٩۔ ایک ھزار فرشتے حسین کے پیدائش کا جشن منانے دنیا میں آۓ۔ ص٢٠٩۔  جبریل خدا کی طرف سے مبارکباد اور تعزیت ساتھ لےکے آیا۔  اور جبریل کی مٹھی میں کربلا کی خاک تھی۔ ایک فرشتہ مردود ہُوا تھا۔  پیدائش حسین کے صدقے میں اسے معافی ملی۔ اب وہی فرشتہ زائرین کربلا کو نوٹ کرنے پرمامور ھے۔ص٢٣٤ ۔
قرانی سورت کے حروف مقطعات ”کھیعص“ کا اصل مطلب ھے : ک=کربلا، ھ=ھلک العترہ، یا=یزید، ع=عطشہ، ص=صبرہ۔ ص٢٣٧۔


ایک دیومالائی داستان کے دیومالائی ھیرو کی دیومالائی شیعہ تمھید۔
واقعہ کربلا وقوع پذیر ھوا۔۔۔۔ جس طرح سیرت کا باقاعدہ کتابی آغاز ابن اسحاق سے ھوتا ھے، داستان کربلا کا ابو مخنف سے ہوتا ہے۔ واقعہ کربلا کی روایات کا تنہا راوی ابومخنف ھے۔ ابومخنف نہ ھوتا تو تاریخی کتب میں کربلا کے حوالے سے ایک لفظ نہ ھوتا۔
لوط بن یحیی بن سعید بن مخنف الازدی(المتوفی774) بروایت ابن الندیم کے الفھرست کے عرب خصوصا عراق کے حوالے سے 32 طویل کتاب نمامقالات کےمصنف ھیں۔ بطور راوی علماء جرح وتعدیل کا، مستشرقین اور انسائکلوپیڈیا اف اسلام کا متفقہ فیصلہ ھے کہ کذاب اور وضاع تھا۔
As a traditionist  he is regarded as weak and unreliable. Encyclopedia of Islam.pp 140.
ابومخنف کی روایات من وعن طبری نےلیں۔ بلاذری نے صرف مجھول ”قالُوا“ کا اضافہ کرکے کچھ تلخیص کیساتھ انہی روایات کو لیا۔ کچھ واقعات ھشام بن محمد الکلبی نے اپنے شیخ ابومخنف سے روایت کئے۔ ابوحنیفہ دینوری، یعقوبی اور ابن عبدربہ نے انہی روایات کو بڑھایا۔
ابومخنف نے ساری داستان کو لکھنے کے بعد ایک مختصر جملہ میں ساری حقیقت کوسمیٹاھے، جسے طبری نے جلددوم صفحہ ٣٧٤ پرنقل کیا ھے:


کربلا کا معرکہ ایک قیلولے سے کم وقت میں ختم ھوا۔
بنو امیہ اور یزید رحمہ اللہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مظلوم ھیں۔ ایرانیوں نے علویت اور بعد میں حسینیت کے لبادے میں خالص عربی اسلام سے انتقام لیا اور لے رھے ھیں اور ایرانیت سے اسلام کے دفاع کے پہلے مجاھد خلیفہ خامس حضرت امیرمعاویہ ؓ اور انکے جانشین حضرت یزیدؒ اور ان کے بعد حجاج بن یوسف الثقفی تھے ورنہ آج خالص عربی اسلام اور واحدانیت پرستی کے بجاۓ (جیسےام الکتاب کی روایت کےمطابق) جعفرجعفی اور ابوالخطاب الاسدی اورمغیرہ بن سعید العجلی کی طرح علی اور امام باقر کو سجدے کرتے۔ عباسیوں نے شیعیت کی تلوار سے حکومت حاصل کی۔ شیعہ اھل قلم بن گئے اور تاریخ نے یزیدؒ اور حجاجؒ پر وہ بربریت  کی جو چنگیزخان کے نیزوں، تلواروں سے ممکن نہ تھی۔  فلپ ھٹی جیسے موروخ نے لکھا
Ah, the historian of Banuu Ummiyah is yet to come!
افسوس بنو امیہ کا  مورخ ابھی آنے کو ھے۔
ازالة الخَفاء(ھمارے علماء بھی اس کو خِفا کے زیر سے پڑھتے ھیں جبکہ یہ زبر سے ھے) میں بخاری کے سپہ سالارِ قسطنطنیہ والی حدیث کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ رح نے یزید کے صلاحیتوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ھے اس کےبعد مزید بحث کی گنجائش نہیں۔ شیعہ علماء نے شاہ صاب کو اس حدیث کے کےدفاع پر ناصبی کالقب دیا۔ جس سید الشباب اھل الجنہ والی روایات کوسر تک شیعہ اور کانوں تک شیعہ-اھلسنت رٹا لگاتے نہیں تھکتے اس پر مروان بن حکم رض کی جرح کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ تو جملہ ھاۓ معترضہ سمجھیں۔
آخر مستشرقین میں ولھازن اور لیمنز نے یزیدؒ پر شاھکار لکھے اور ان پر تاریخ کےبربریت کو طاقتور دلائل سے ثابت کیا۔ فرانسیسی محقق لیمنز [Lammens ]نے خلافت یزیدؒ پر  [   Le Califat de Yazid   ]لکھی۔عقیدت و تقلید کے غلاموں نے اس کے ترجمہ پر قدغن لگائی۔ صفحہ 169 پر لکھتےھیں:
The tragedy of Karbala instead of lasting for weeks consisted of only one action and was over in an hour.
کربلا کاالمیہ ھفتوں جاری رھنے کے بجاۓ ایک ایکشن پر مبنی تھا اور ایک گھنٹے میں ختم ھوا۔ بحث پھر ختم ھونے والی نہیں لہذا ایک اور قسط کی اجازت چاھتاھوں۔

واقعہ کربلا ایک دیومالائی داستان۔۔۔٢[بزبان رشید یوسفزئی – جاری ہے]


اھل تسنن کے صحاح ستہ کے متوازی اھل تشیع کی کتب اربعہ ھیں۔ پہلی محمد بن یعقوب کلینی کی الکافی ھے جو دوحصوں میں ھے: الاصول الکافی اور الفروع الکافی۔ اس میں تقریباً سولہ ھزار احادیث ھیں۔ کلینی کو اھل تشیع ” ثقة الاسلام“ کے نام سے ذکر کرتے ھیں۔ غالباً 939 عیسوی میں بغداد میں فوت ھوۓ۔ اصول کافی میں ایسی احادیث موجود ھیں جن کے نقل کرنے کی راقم جرات نہیں کرسکتا۔ تحریف قران کے قائل تھے۔


کتب اربعہ کی دوسری کتاب ”من لایحضرہ الفقیہ“(جس سے ھمارے مولانا شیرانی صاحب بہت متاثر ھیں) ابن بابویہ القمی المعروف با شیخ صدوق کی تصنیف ھے۔ بابویہ شاید تشیع کا سب سے بڑا مجتھد امام ھے۔ ایک ایرانی تاجر علی کے گھر میں پیدا ھوۓ۔ پہلے بھائی کا نام حسن دوسرے کا نام حسین تھا۔ برروایت مشھور ہے کہ والد نے امام غائب مھدی کے تیسرے وکیل ابوالقاسم الروح سے امام غائب سے تیسرے بیٹے کیلیے دعا کی جس کے جواب میں امام غائب نے محمد بابویہ کے پیدا ھونے کا حکم دیا۔ اسی دیومالائی طرز پیدائش کیوجہ سے وہ خود بھی فخر کرتاتھا اور بدیں وجہ شیعوں کے ھاں یہ رتبہ بھی پایا۔ 991  میں فوت ھوۓ (حافظے سے لکھ رھاھوں غلطی کا امکان ھے۔]
تیسری کتاب ”استبصار“ محمد طوسی کی ھے اور چوتھی کتاب ”تہذیب الاحکام“ بھی محمد طوسی کی ھے۔
ابن بابویہ کے شاگرد شیخ المفید تھے جنھوں شیعہ ائمہ کے اتباع کے حوالےسے مشھور کتاب ”کتاب الارشاد“ لکھی۔ اھلبیت کے معجزات اور الوھی طاقتوں کی دلچسپ داستان اس کتاب میں موجود ھیں۔
شیخ مفید کے دو شاگرد تھے جو علم و فضل اور ادب میں تمام علماء تشیع سے سبقت لےگئے: مشھور عربی شاعر شریف الرضی (متوفی1015) اور شریف المرتضی (متوفی1044)۔ دونوں بھائی سید زادے تھے۔ شریف رضی علیؓ ابن ابی طالب سے منصوب اقوال کے مجموعے نہج البلاغہ کے مٶلف ھیں۔ علماء جرح و تعدیل اور مستشرقین کے نزدیک نہج البلاغہ اور دیوان علی دونوں جعلی ھیں۔

آپ یا شیعہ حضرات لاکھ مبالغہ کہیں مگر شیعوں کے تمام فرقوں کے ہاں نہج البلاغہ کی اھمیت قران مجید سے (نعوذباللہ) بڑھ کر ھے کیونکہ بروایت کلینی قران مجید سترہ ھزار آیات سے چھ ھزار آیات پہ آگیا ھے جبکہ نہج البلاغہ تحریف سے پاک ھے۔
اسماعیلی فاطمی خلفاء ۔۔۔ اور ان کے اولاد ھونے کے مدعی موجودہ آغاخان ۔۔۔ اولاد فاطمہ ھونے کے دعویدار تھے اور اسلیے خلافت کے مدعی۔ عباسی خلفاء فاطمئین مصر کے اس دعوی کے سخت مخالف تھے اور فاطمئین کو ایک صابی یا مانوی دیصان یا بردیصان کی اولاد کہتے تھے۔ عربوں میں علم الانساب ایک باقاعدہ فن ھے۔ عباسی خلیفہ قادرباللہ نے بغداد میں فاطمئین کے اس دعوے کے تردید کیلیے علما اور ماھرین انساب کی ایک کونسل 1011 عیسوی میں بلائی۔ کونسل نے ایک قراداد پاس کی جوتاریخ میں ”محضر بغداد“ کے نام سے مشھورھے جس میں فاطمئین کے شجرہ نسب کو جعلی قرار دیا گیاھے۔ اس محضر پہ دستخط کرنے والوں میں سرفہرست شریف الرضی تھے!
راقم نے چند سال پہلے انسٹیٹیوٹ اف اسماعیلی سٹڈیز کے اربابان بست وکشاد اور کئی پاکستانی اسماعیلی واعظین سے یہ سوال کیا کہ اگر آپ نہج البلاغہ کو مقدس مانتے ھیں تو آپ کے امام کا شجرہ نسب جعلی ھوجاتا ھے۔ اگر آپ کے امام کا شجرہ نسب درست ھے اور شریف رضی نے غلط دستخط کیا ھے تو نہ شریف رضی ثقہ رھے نہ نہج البلاغہ مستند رھی!۔۔۔۔۔۔ تعجب کی بات ھے کہ تاریخ ابن خلدون میں شریف رضی کے اسماعیلی فاطمی خلیفہ کی تعریف میں اشعار بھی موجود ھیں۔۔۔۔۔۔۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ نہج البلاغہ یا اسماعیلی آئمہ میں سے ایک نے جعلی ھونا ھے! "

عزیزم  رشید یوسفزئی کا نہایت علم افزا اور دلچسپ مقالہ  یہاں اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قیمتی مقالے سے اصحابِ علم نے کافی حظ اُٹھایا ہوگا۔ یہاں راقم الحروف کی عرض صرف اتنی ہے کہ جب عنوان  حضرتِ حسین سے متعلقہ واقعہ کربلا پر چل رہا ہو، تو کوئی اصول نہیں کہ بات کو پھیلا کر اموی خلافت کے جواز و عدم جواز   سے متعلق اپنے ذاتی تصورات و جذبات کی جانب  لے آیا جائے۔ یا آل ابو بکر وغیرہ  کا ذکر درمیان میں لے آیا جائے۔ یہی تو ہمارا   وہ خلافِ قاعدہ   رویہ ہوتا ہے جس سے کسی بات کی تہ تک پہنچنے کا عمل سبوتاز کر دیا جاتا ہے۔ ہر موضوع  جو اپنی ایک علیحدہ  اور اہم حیثیت کا حامل ہو،  نہایت گہری ریسرچ اور شواہد  کا طلب گار ہو، اپنے علیحدہ   اور انفرادی عنوان کے تحت   ہی سامنے لایا جانا چاہیئے۔ ارتکاز توجہ  اُسی موضوع پر رکھنا بہتر ہوتا ہے جو زیر بحث ہو ۔ اور موضوع کو اُسی ذریعے سے دیکھنا ہوگا جو باوثوق اور مستند ہو ۔مزید برآں ،جب واقعہ راوی کے بیان پر مبنی ہو تو اصول ایک ہی ہے ۔ وہ یہی ہے کہ راوی کے کوائف زیر تفتیش لائے جائیں۔ اس اصولی عمل میں اس کے اعتقادات  اور فکری رحجانات بھی ضرور زیر تفتیش لائے جائیں گے، خواہ کسی کو بُرا لگے یا اچھا ۔

میرے  ایک مخصوص مکتبِ فکر کے قارئین کی تالیفِ قلوب کے لیے مودبانہ گذارش ہے کہ بحث  و تحقیق کےلیے ایسا متنازع موضوع ضرور چھیڑا گیا ہے جس پر صدیوں قبل سے مباحث کا سلسلہ اگرچہ جاری ہے لیکن پہاڑوں کی مانند مضبوط اور باہم متخالف مسالک کی پیروی میں کوئی صاحبِ ایمان بھی آج تک متزلزل نہیں ہوسکا۔ اکا دکّا اگر منحرف ہو کر دوسری جانب چلا بھی گیا تو اُس سے مسلک کی بنیادوں میں کوئی دراڑ واقعہ نہیں ہوئی۔ کیونکہ حقیقتِ احوال دراصل یہ رہی ہے کہ مذاہب یا مکاتبِ فکر ایک بار قائم ہو جانے پر اپنی اساس کو اس کی جگہ سے کبھی ہلنے نہیں دیا کرتے خواہ وہ اساس من گھڑت اور جھوٹی بنیادوں پر ہی کیوں نہ قائم کی گئی ہوں۔ فلھٰذا تحقیق و تفتیش اور اصحابِ فکر کے فیصلے اپنی جگہ، واقعہِ کربلا کی بنیادوں پر  شیعی مذہب آج بھی اپنی جگہ پہاڑ کی طرح قائم و مضبوط ہے۔
حضرت حسن بن علی
حالات و واقعات کے تجزیے کی رُو سے  جس نتیجے تک ہم پہنچتے ہیں وہ یہی ہے کہ واقعہِ کربلا تاریخی تحقیق  کی رُو سے  تمام تر من گھڑت ثابت ہو چکا ہے۔ حضرت امام حسین کی شہادت کوفے کے قصرِ امارت میں اس وقت واقع ہوئی جب وہ گورنرِ عراق کے منصبِ عالی پر فائز تھے  [مذکرہ حُر بن عبدالرحمان اندلسی ]۔  یہ دستاویزی ثبوت اس بنیاد پر بھی وثاقت کا حامل ہے کہ قبلِ ازیں  آپکے برادر اکبرحضرت امام حسن نے امیر معاویہ کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اُن کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا اور معاہدے کی شرائط کے مطابق عراق کے دارالحکومت کوفے کا خزانہ اُن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کچھ علاقوں کے محاصل وصول کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔ انہیں امیر معاویہ کا جانشین بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، اور دربارِ خلافت سے دیگر رقوم اور تحائف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔  اس پُر امن بقائے باہمی کی فضا میں اُن کے چھوٹے بھائی جیسے عالی حسب  و نسب  کے حامل ، اُمت کی برگزیدہ شخصیت  کا کوفے میں عراق کے گورنر کی حیثیت میں تعینات کیا جانا ایک فطری اور قرین العقل واقعہ باور ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے بذریعہ تحقیق ایک دستاویزی ثبوت بھی دریافت ہو چکا ہے۔ تحقیق کے مطابق حضرت حسین کو کوفے کے قصرِ امارت ہی میں گہری سازش کے تحت شہید کیا گیا۔ قاتلوں کے ناموں تک کا انکشاف ہو چکا ہے، جو راقم باوجود کوشش اپنے ذہن کے آرکائیوز سے باہر نہیں لا سکا۔اور ماخذ کتاب دستیاب نہ ہو سکی۔   البتہ حضرت حسن کی زہر خورانی سے واقع ہونے والی پُر اسرار موت  سے یہ عمومی  استنباط کیا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ کی پسِ پردہ  منفی نوعیت کی مہلک سیاسی  کاروائیاں جاری رہیں۔  اپنے جانشین کے طور پر اپنے فرزند  کو نامزد کرنے کے لیے حضرت حسن کی ایک بیوی کے ذریعے اُن کا خاتمہ کروا دیا گیا۔  تواریخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت حسن  متعدد شادیاں کرنے کے شوقین رہے۔  بعض حوالوں سے آپ نے 200 شادیاں کی  اور چار موجودہ  بیویوں کو طلاق دے کر  اکٹھی ہی چار نئی شادیاں کر لیا کرتے تھے۔ اِسی نوعیت کی کھُلی اخلاقیات کے باعث آپ کو "مِطلق "  [ mitlaq]  کا لقب بھی دیا گیا، یعنی "طلاقیں دینے والا" [divorcerروایات کہتی ہیں کہ آپ نے300  لونڈیوں کا حرم بھی آباد رکھا۔  اُن  ہی  خواتین میں سے  جُعدہ نامی ایک خاتون   نے اُنہیں زہر  کھلا دیا۔ اور اس طرح  فرزند یزید کی ولی عہدی کا راستہ صاف کر لیا گیا۔   آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ غالبا 1925 میں  وہابی تحریک  کے عروج کے زمانے میں آپ کا مقبرہ بھی دیگر مزارات کے ساتھ منہدم کر دیا گیا تھا۔

 امیر معاویہ و یزید ابن معاویہ

پس جہاں تک فرضی وقوعہ کربلا کا تعلق ہے، یہ حضرت حسین کی وفات کے 90 یا 100 برس بعد تک کسی بھی تاریخ میں مندرج نہیں۔ یہ حقیقت اس کی وثاقت کے خلاف ایک بڑا اور ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ پھر یہ کہ اس کا واضع، خبرِ واحد، لوط بن یحییِ ابی مخنف ہے جو ائمہ جرح و تعدیل کی تحقیق کے مطابق کذاب، غیر ثقہ وغیرہ ہے۔۔۔۔۔ امام طبری نے لا محالہ اِسی کے حوالے سے یہ واقعہ اپنی اُم التواریخ میں درج کیا  کیونکہ یہ اور کسی بھی ماخذ میں موجود نہیں پایا گیا۔  لیکن،،،،، کیا اس واقعے کے جھوٹ کو بنی امیہ کی اسلام دشمن خلافت کی داغدار تاریخ کو غلاظت سے صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے،  جیسے کہ ہمارے پیارے فاضل رشید یوسفزئی نے روایتی عقیدت سے مجبور ہو کر کرنے کی کوشش کی ؟ ظاہر ہے کہ ایسا سوچنا بھی بلا جواز ہوگا۔
سوچنے کے لیے نکتہ بہت واضح ہے کہ حضرت معاویہ جنہوں نے ، جدید ترین تحقیقات کے مطابق، طاقتور گورنرِ شام کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے پہلے مروان اور اس کے دو قریبی ساتھیوں کی مدد سے حضرت عثمان کو قتل کروایا،  اور پھر خود ہی اسے بنیاد بنوا کر شورشیں برپا کروائیں۔ پھر منتخب خلیفہ حضرت علی کے خلاف، دمشق میں اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے،  اُن کے خلاف ایک بڑا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کے لیے ہر سامراجی حربہ استعمال کیا ، اور وہ تمام کوششیں کیں جو آپ کے قتل پر منتج ہوئیں۔  اور اس طرح خلافتِ راشدہِ اسلامیہ کو غصب کیا، اور اسلام دشمن بنو اموی سرداروں کی مدد سے اسلامی نظریے ہی کا بستر بوریہ لپیٹ دیا۔ پھر حضرت حسن کے قتل میں بھی ملوّث پائے گئے۔  وہ اور ان کا بیٹا یزید کیسے صرف کربلا کے واقعے کے جھوٹا ثابت ہو جانے سے نیک، صالح اور امیر المومنین ثابت ہو سکتے ہیں ؟

یزید ابنِ معاویہ  تو وہ تاریخی شیطان ہے جس نے اپنے والد کے غیر مکمل مشن کی تکمیل کی۔  جس کے وحشی شامی لشکرِ جرار نے واقعہ حرہ کے نام سے سابقہ دارالحکومتِ خلافتِ راشدہ، یعنی مدینہ النبی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،  اور وہاں موجود قرآن کو اس کی تمام تر گہرائیوں سے جاننے والے ہر عالم و فاضل  کو قتل کر دیا۔  خلافتِ راشدہ کے تمام ریکارڈ، آثار و باقیات کا نشان تک  ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ حتیٰ کہ لشکر کو خواتین کی عصمت دری کی عام اجازت بھی دی۔ جس نے ایک ہنستے بستے سابقہ دارالحکومت کو ایک دھواں اُڑاتے، ویران، کلبہِ احزاں کی شکل میں پیچھے چھوڑا۔ اور اُمّتِ مسلمہ کو اس کے ابتدائی دور کی مکمل علمی و تاریخی وراثت سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا۔ یہی لشکر یہاں سے مکہ کو تاخت و تاراج کرنے نکلا یہاں تک کہ محاصرے کےدوران ہی یزید کی موت کی خبر آ گئی۔یہ   افسوسناک حقیقت بھی  عیاں ہے کہ ہمارے ایک بڑے مکتبِ فکر کے لوگ دوسرے مکتبِ فکر کی مخالفت میں تاریخ کے اس خونی باب پر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ نہ ہی اس کی برپا کی ہوئی قیامت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، نہ ہی اس کی تفصیل پر نوحہ اور تبصرہ ،  اور نہ ہی اُمت کے مستقبل پر اس کے اب تک موجود تاریک اثرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جو ناقابلِ تلافی ہیں۔ ایک کھوکھلی  عقیدت اور ڈھونگ  کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے کہ حضرت معاویہ جیسے" جلیل القدر صحابی" اور اُن کے فرزند کے خلاف کوئی بات زبان سے نکل کر گناہ کا باعث بن جائے۔اور تمام بربادیوں اور سیاہ کاریوں  کا الزام بے دریغ عجمیوں /فارسیوں/زر تشتیوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس قماش کی منافقت اور حقیقت سے چشم پوشی  ہمارے اسلاف کا، اساتذہ کا   اور ہمارا  دین و ایمان بن چکی ہے۔ شاید  اِس عاجز کے یہ الفاظ کچھ سخت اور ناگوار معلوم ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ سابقہ نسلیں  تاریخ کی کڑی ریسرچ سے دُور بھاگتی رہی ہوں۔ فلھٰذا   سازشی تحریروں کے باعث  اس بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہی ہوں۔ لیکن حیقت یہی ہے کہ "عُذرِ گناہ ، بدتر از گُناہ  است"۔  حقیقی اسلام کی بربادیوں کی تمام داستانوں کے پسِ منظر میں عربی اشرافیہ کا  طاقتور حکمران طبقہ ہی  کار فرما رہا ہے، اور آج تک کار فرما ہے۔

مدفنِ حضرت علی اور تاریخ

مقالے کے اواخر میں یہ انکشاف بھی کر دیا جائے تو قارئین کے لیے اپنا اپنا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ حضرت علی کے حقیقی مدفن کا معمہ بھی آج تک لا ینحل رہا ہے۔   تواریخ میں یہ  واقعہ موجود ہے کہ عباسی خلافت کے دوران بغداد پر فارس کے شیعہ دیلمی سرداران الموسوم بہ آل بنی بویہہ کی حکمرانی کے دور میں امیر الامراء عضد الدّولہ [المتوفی 373 ہجری] نے خواب میں بشارت دیکھ کر لاو لشکر سمیت سفر کیا اور حضرت علی کے مدفن کا مقام عرصہ دراز کے بعد بذریعہ قیاس و وجدان دریافت کیا۔ عضد الدولہ نے یہاں عمارت تعمیر کروائی جو اہلِ تشیع کے لیے مرجعِ خلائق بن گئی اور یہیں سے اہلِ تشیع کے مقدس شہر نجفِ اشرف کی بنیاد پڑی جو رفتہ رفتہ اہلِ تشیع کا روحانی مرکز بن گیا۔ جب کہ تاریخ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی بنیاد عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے 791 عیسوی میں یعنی 172 ہجری میں حضرت علی کے مدفن کی زیارت گاہ کے طور پر رکھی، جسے اس نے اس علاقے میں ہرن کا شکار کھیلتے ہوئے اتفاقا دریافت کر لیا تھا۔   یعنی  یہ مدفن  اُس وقت تک نا معلوم ہی تھا۔ تاریخِ اسلام سے لیے گئے ان دونوں حوالوں میں لگ بھگ دو سو سال کی دُوری پائی جاتی ہے۔ اور یہ نتیجہ نکالنا فی الحال ناممکن ہے کہ دونوں میں سے کِس حوالے کو مستند مانا جائے۔ مزید برآں کچھ اور دستاویزات بھی موجود ہیں جو اس شہر کا وجود قبل مسیح کے زمانے میں ظاہر کرتی ہیں جب اسے بانیقیہ [Baniqiyah] کے نام سے جانا جاتا تھا اور مبینہ طور پر حضرت ابراہیم میسوپوٹیمییا [Mesopotamia]سے عرب کی جانب اپنے ایک سفر کے دوران یہاں دو روز کے لیے قیام پذیر ہوئے تھے۔  الغرض، یہ وہ تاریخی حوالہ جات اور ان پر ہمارے مباحث ہیں  جن کا ایک حصہ ا ب  تک اسرار کے پردوں میں چھُپا ہوا ہے  اور جن کے تجزیہ سے  کسی  بھی فریق کا دامن آلودگی و اشتباہات سے پاک نظر نہیں آتا۔ اور جن پر مغز ماری [brainstorming] کرنے سے ہم کافی حد تک درست سمت میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔ ۔  البتہ کیونکہ مسالک اور باہم تشتت و افتراق ختم نہیں کیےجا سکتے تو  بس یہی مختصر سی عرض ہےکہ تلاشِ حقیقت  کھُلے ذہن کے ساتھ جاری رہے اور محاذ آرائی سے صرفِ نظر کیا جائے۔


ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہیئے کہ آنے والے وقت میں جب زمین اپنے تمام بوجھ اور اسرار باہر نکال پھینکے گی، اور انسانی علم و شعور ارتقاء کی ناقابلِ یقین بلندیوں تک پہنچ جائے گا، واقعہِ کربلا ، اس کے ذیلی موضوعات ، اور اس کی مانند دیگر تاریخی مغالطوں اور معمّوں کی گتھیاں بتدریج اپنی تمام تر تفصیلات کے ہمراہ مزید سُلجھتی جائیں گی۔ اور بالآخر کوئی بھی راز،  راز نہ رہے گا۔ اِس دوران ایسے تمام تہذیبی اور تاریخی مغالطوں کی حالیہ کی جانے والی تحقیقی نشاندہی آنے والی نسلوں کےکام کو  قدرے آسان ضرور کر دے گی۔

اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔