اورنگزیب یوسفزئی مئی 2014
تحقیق: کیا واقعی کعبہ بیت اللہ ہے؟ کیا مسجد الحرام کا معنی کعبہ ہے؟
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 13
بھائی منظور صاحب کے سوالات کے جواب میں ،،،جن کے ذریعے وہ کعبہ، بیت اللہ اور حج کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
ان کے سوالات اس طرح ہیں :
۱] "رب ھذا البیت" ؟؟؟؟ کیا یہ کعبے کی جانب واضح اشارہ نہیں؟؟؟ اس کے ضمن میں سورۃ قریش کا ترجمہ پیش کیا جا چکا ہے جہاں " ھذا البیت " کے معانی کی تشریح کر دی گئی ہے۔ اس کا اشارہ کعبے کی جانب نہیں ۔
۲] "ھذا البلد الامین"؟؟؟؟ کیا اس سے مراد مکہ اور کعبہ نہیں؟؟؟ اس ضمن میں سورۃ التین کا ترجمہ کیا جا چکا ہے، ذیل میں [۲] پرموجود ہے۔ یہاں بھی روایتی کعبے کی جانب اشارہ نہیں ۔
۳] ۱۷/۱ : "من مسجد الحرام الی مسجد الاقصٰی "؟؟؟؟؟ کیا یہاںمسجد الحرام سے مراد کعبہ نہیں؟اس ضمن میں سورۃ اسریٰ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ ذیل میں [۳] پرموجود ہے۔یہاں بھی مسجد الحرام سے مراد روایتی کعبہ نہیں ۔
۴] "واد غیر ذی زرع،،،،،،،عند بیتک المحرم،،" ؟؟ کیا یہاں بھی مکہ اور کعبہ مراد نہیں؟؟؟ اس ضمن میں ترجمہ سورۃ ابراہیم کے عنوان کے تحت ذیل میں [۴] پرموجود ہے۔ یہاں کہیں بھی کعبہ یا مکہ یا اس کے تقدس یا مرکزی مقام ہونےکی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے ۔
۵] ایک بہت اہم آیت، جس سے کعبے کی توثیق کا حتمی ثبوت ملتا ہے : اجعلتم ثقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام، کمن آمن باللہ و الیوم الآخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے آپ کیا کہیں گے ؟
نہیں ،یہاں سے بھی یہ توثیق نہیں ہوتی ۔ ترجمہ نمبر ۵] پر ملاحظہ فرمائیں ۔
۶] پھر مکہ میں کعبے کا حج کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
لفظ "حج" کے معانی و مفہوم کی تشریح کافی و شافی طور پر ان تراجم کی سیریز میں "صوم و حج" کے عنوان کے ساتھ کی جا چکی ہے ۔ جہاں مستند طور پر ثابت کر دیا گیا ہےکہ حج سے مراد مغفرت کے لیے یا بین الاقوامی اجتماع کے لیے زیارت یا بڑا اجتماع نہیں ہے ۔ بلکہ دینِ الٰہی کی تفہیم و تسلیم کے لیے کسی بھی قریبی نظریاتی مرکز میں بحث و مباحثہ ، یا اتمام حجت ہے ۔ اگر ہم مسلمان اندھی تقلید کے خوگراور بغیر تحقیق کیے بڑے بڑے کام کرنے کے عادی ہیں تو حج کی موجودہ شکل اختیار کرنے میں خود ہماری ہی غلطی ہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔ "صوم و حج" کے عنوان کے تحت متعلقہ آیات کے تراجم طلب فرمائیں۔
*******************
اب درج بالا پوائنٹ نمبر ۲ سے وضاحتیں پیش ِ خدمت ہیں۔
۲] سورۃ التین:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿٣﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ ﴿٧﴾ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
۹۵/۱ – ۹۵/۳ : وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے کی [وَطُورِ سِينِينَ ]جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی [الْبَلَدِ الْأَمِينِ ]جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے،
۹۵/۴: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔ ۹۵/۵: ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔ لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔
۹۵/۶: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔
۹۵/۷: فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ نظامِ زندگی [ضابطہِ کردار] کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟
۹۵/۸: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
اور اب رواں ترجمہ :
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے، کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔
لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔ اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ ضابطہِ کردار کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟ تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند ترجمہ:
[وَطُورِ سِينِينَ ]: طور : گرد گھومنا، قریب جانا، وقت یا ایک خاص وقت؛ متعدد مرتبہ؛ تعداد/پیمانہ/حد/پہلو/شکل و صورت/حلیہ/طور طریقہ/ تہذیب و آداب/قسم/طبقہ/مرحلہ/درجہ؛ سینا پہاڑ، زیتون کا پہاڑ؛ بہت سے دوسرے پہاڑ، وہ پہاڑ جہاں درخت پیدا ہوتے ہوں؛ خود کو انسانوں سے علیحدہ کر لینا، اجنبی، آخری حد، دو انتہاوں کا سامنا۔
سینین: س ن و: سنا : شان و شوکت، رحمتیں اور انعامات، ناموری ۔ بعض اسے سیناء سے ملاتے ہیں جو صحرائے سینائی میں ایک پہاڑ ہے ۔ مگر جس کی کوئی ٹھوس توجیہ یا لسانی بنیاد نہیں ہے ۔
[الْبَلَدِ الْأَمِينِ ] : البلد : زمین کا ایک خطہ، حدود مقرر کردہ قطعہِ اراضی، آبادی کا علاقہ، آباد شہر۔
البلد الامین = وہ خطہِ زمین جسے مامون و محفوظ کر لیا گیا ہو۔
**********************************
۳] سورۃ اسراء
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کی کیفیت میں [لَيْلًا ]اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی [ أَسْرَىٰ ] ، ایک ممنوع کیے گئے مقام اطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ] سے، بہت دور کے ایک دوسرے مرکزِاطاعت و عبودیت [الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو [حَوْلَهُ ] ہم نے ما قبل ہی سے ذریعہِ فیض و برکات ، یعنی سازگار بنا دیا تھا [بَارَكْنَا] ، تاکہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھائیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
اور اب رواں ترجمہ:
بلند و بے عیب ہے وہ ذات جس نے تاریکیوں کے تسلط کے درمیان اپنے فرماں بردار بندے کو سفرِ ہجرت کے قصد کی ہدایت دی ، ایک ممنوع کیے گئے مقامِ اطاعت و عبودیت سے، دُور کے اُس مرکزِ اطاعت و عبودیت کی جانب کہ جس کے اطراف و جوانب کو ، یعنی عمومی ماحول و فضا [environment ] کو ہم نے ما قبل ہی سے اس کے مشن کے لیے ذریعہِ فیض و برکات یعنی مکمل سازگار بنا دیا تھا ۔ اور یہ اس مقصد کے تحت کہ ہم اسے وہاں اپنی خوش آئند نشانیاں دکھا دیں ۔ در حقیقت وہ ذاتِ پاک تمہاری جدوجہد کے تمام معاملات کی مسلسل سماعت فرماتا اور ان پر ہمہ وقت بصیرت کی نظر رکھتا ہے ۔
بریکٹ شدہ الفاظ کے مستند تراجم:
[لَيْلًا ]: تاریک رات مین، ایک شب و روز میں ، سورج کے غروب ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک؛ the civil day from sunset to sunset ، اندھیروں میں۔
[أَسْرَىٰ ] : بلند ترین مقام، چوٹی، پانی کا نشمہ، ندی، قوم کا سربراہ، رات کا سفر : سفر؛ رخصت ہونا، کسی کو رات کےسفر کے لیے کہنا؛ بلند مقام کی طرف لوٹنا یا ہجرت کر جانا؛ travel during night, to depart, ; to make anyone to travel by nation, repair to an upland; highest point; summit; rivulet; fountain,; stream; chief of the
[الْمَسْجِدِ] : س ج د: برتری، اتھارٹی تسلیم کر لینا؛ جھک جانا، خود کو حقیر کرنا؛ تعظیم دینا، اطاعت کرنا، انکساری/عاجزی کرنا، سلوٹ کرنا؛ احکامات کے سامنے جھک جانا؛ [مفرداتِ راغب: اصل معنی فروتنی اور عاجزی ہیں]
مسجد: سجد سے اسم ظرف اور اسم مفعول : وہ جگہ یا مرکز جہاں جھکنا، اطاعت کرنا ہے ، یا وہ احکامات جن کے سامنے جھکنا اور جن کی اطاعت کرنا ہے ۔
[ الْحَرَامِ ]: [یہ لفظ متضاد معانی پر محیط ہے یعنی حرام اور ممنوع بھی اور محترم یا قابلِ احترام بھی ۔ استعمال سیاق و سباق کے مطابق ہوگا۔]ممنوعہ، جرم، غیر قانونی، ناقابلِ خلاف ورزی، ، لعنتی، انکار کرنا، پابندیوں والا ؛ محترم، مقدس ،حرمت والا، ۔
[الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ]: ق ص و : دور دراز، فاصلے پر، دور چلے جانا، انتہا۔ اقصیٰ : زیادہ دور، زیادہ فاصلے پر
[حَوْلَهُ ] : اس کا ماحول، اس کے اطراف و جوانب ؛ اس کے گردا گرد۔
[بَارَكْنَا] : ہم نے برکت دی، سازگار، محکم، مضبوط بنادیا۔
*******************************
۴] سورۃ ابراہیم : ۱۴/۳۵--
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین [الْبَلَدَ] کو امن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں [بَنِيَّ] یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات [الْأَصْنَامَ ]سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں [أَن نَّعْبُدَ َ] ۔
آیت: ۱۴/۳۶
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارگکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
آیت : ۱۴/۳۷
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد [مِن ذُرِّيَّتِي] کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز [بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ]کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں [بِوَادٍ] بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے [غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں [لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ]۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات [أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے [وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ] تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں [يَشْكُرُونَ ]۔
آیت: ۱۴/۳۸
رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔
آیت: ۱۴/۳۹
﴿٣٨﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٩﴾
اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا
ہے ۔
آیت: ۱۴/۴۰
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾
اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
آیت: ۱۴/۴۱
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو احتساب کی سٹیج قائم ہونے کے مرحلے میں [يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] تحفظ عطا فرما دے [اغْفِرْ ]۔
اب رواں ترجمہ:
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین کوامن والا بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں ۔
اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارتکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں ۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں ۔
اے ہمارے رب بیشک تو وہ بھی جانتا ہے جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ بھی جو ہم ظاہرکرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ سے اس کائنات میں موجود کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اور حمد و ثنا ہے اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے کبر سنی میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ۔ بیشک میرا رب خواشات کو سنتا اور پورا فرماتا ہے ۔اے رب مجھے اس قابل بنا دے کہ میں اور میری آل اولاد تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر سکیں ۔ اے ہمارے رب تُو ہماری یہ دعا ضرور قبول فرما لے۔
اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام امن وایمان کے ذمہ داران کو اُس مرحلے میں بھی تحفظ عطا فرما دے جب تیرےاحتساب کی سٹیج قائم ہوگی۔
اور اب بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے مستند تراجم، جن کے لیے دو عدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے ۔
[الْبَلَدَ] : خطہِ زمین ، ایسا علاقہ جو حدود کے اندر واقع ہو ، ایک آباد علاقہ، ایک شہر۔
[بَنِيَّ] : baniyya :بیٹے، اولاد، جانشین : جمع کا صیغہ ہے ۔ اسی کا واحد ہے : banayya : میرا بیٹا
[الْأَصْنَامَ ]: الراغب: وہ تمام چیزیں جو انسان کو خدا کی طرف سے موڑ دیں؛ ہر چیز جو انسان کی توجہ کو دوسری جانب منعطف کر دے؛ جس کی بھی اللہ کے علاوہ اطاعت کی جائے؛ نیز پتھر یا لکڑی کی کوئی بھی صورت جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہو۔
[أَن نَّعْبُدَ َ] ۔کہ ہم اطاعت و فرماں برداری نہ کریں۔
[مِن ذُرِّيَّتِي] : میری اولاد ؛ میری نسل ؛ یا میری اولاد میں سے۔
[بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ] : تیرا قابلِ احترام نظریاتی مرکز ؛ تیرے احکامات کی تعمیل کا مرکز؛ تیرا محترم ادارہ؛ مرکزِ حکومتِ الٰہیہ۔
[بِوَادٍ] : واد؛ ودی؛ ودیان: طریقہ، مذہب، اسلوب، طرز ، سوچ، وادی، دریا کی وادی یا گذرگاہ، نشیب، کیمپ؛ [ الراغب: فلاں فی واد غیر وادیک = فلاں کا مسلک تجھ سے جداگانہ ہے - قاموس الوحید: ھما من واد واحد = وہ دونوں ایک ہی اصل سے یا طریقے یا مسلک سے ہیں]
[غَيْرِ ذِي زَرْعٍ] : بیج نہ ڈالا گیا، فصل نہ بوئی گئی، جہاں زمین تیار نہ کی گئی، بیج ڈالنے اور فصل اگانے کے لیے۔
[لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ] : تاکہ وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کریں ۔
[أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]: لوگوں کے رحجاناتِ قلب، میلانِ طبع، سوچ و فکر۔
[وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ]: ثمرات: صرف پھل نہیں بلکہ خوشگوار نتائج، اجر، ثواب، انعامات
[يَشْكُرُونَ ]۔ ان کی کوششیں بھرپور نتائج پیدا کریں ۔ شکر : کوششوں کے بھرپور نتائج پیدا ہونا۔
[يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] : وہ وقت، دور یا سٹیج جب انسانوں کے اعمال پر احتساب کی کاروائی عمل میں لائی جائیگی ۔اور سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا ۔ [استعاراتی اسلوب]
[اغْفِرْ ]۔ غ ف ر : تحفظ اور بچاو کے اسباب عطا کرنا ۔
***************
۵] سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام
التوبۃ : ۱۹۔۲۰
اجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام، کمن آمن باللہ و الیوم الآخر و جٰھد فی سبیل اللہ۔ لایستون عنداللہ۔ واللٰہ لا یھدی القوم الظٰلمین۔ اللذین اٰمنو و ھاجروا و جاھدُوا فی سبیل اللٰہ باموالھم و انفُسھم، اعظمُ درجۃ عند اللٰہ۔ و اُولٰئک ھم الفآئزون۔
کیا دلائل کے ساتھ اتمامِ حجت چاہنے والوں [الحاج ]کی علمی پیاس کو سیراب [سقایۃ ]کرنے ، اور واجب الاحترام مرکزِ اطاعت و عبودیت [المسجد الحرام ]میں فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اسے آباد رکھنے [عمارۃ] کےعمل کو تم اُن لوگوں کے عمل کی مانند بنا نے کی کوشش کرتے ہو[اجعلتم] جنہوں نے اللہ پر ایمان اور دورِ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عملی جہاد کیا؟؟؟ نہیں، وہ اللہ کے نزدیک مساوی نہیں ٹھہرتے ۔ یہ حق کے ساتھ ناحق کرنا ہے اس لیے یاد رہے کہ اللہ کا قانون حق تلفی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔درحقیقت جو لوگ اللہ کی راہنمائی پر ایمان لائے ، اور اس کی خاطر ہجرت کا دکھ برداشت کیا، اور اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہدکی، انہی کا درجہ اللہ کے نزدیک عظیم تر ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب و کامران ہوئے۔
اب رواں ترجمہ:
کیا دلائل کے ساتھ اتمامِ حجت چاہنے والوں کی علمی پیاس کو سیراب کرنے ، اور واجب الاحترام مرکزِ اطاعت و عبودیت میں فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اسے آباد رکھنے کےعمل کو تم اُن لوگوں کے عمل کی مانند بنا نے کی کوشش کرتے ہوجنہوں نے اللہ پر ایمان اور دورِ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عملی جہاد کیا؟؟؟ نہیں، وہ اللہ کے نزدیک مساوی نہیں ٹھہرتے ۔ یہ حق کے ساتھ ناحق کرنا ہے اس لیے یاد رہے کہ اللہ کا قانون حق تلفی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔درحقیقت جو لوگ اللہ کی راہنمائی پر ایمان لائے ، اور اس کی خاطر ہجرت کا دکھ برداشت کیا، اور اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہدکی، انہی کا درجہ اللہ کے نزدیک عظیم تر ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب و کامران ہوئے۔
بریکٹوں میں دیے ہوئے مشکل الفاظ کے مستند معانی :
سقایۃ : پانی دینے کا یا آبپاشی کا نظام، اس نظام کا آفس، وہ مقام یا مرکز جہاں سے پیاس کو سیراب کیا جائے، وہ برتن جس میں کچھ پینے کو دیا جائے، {استعارہ} سقاک اللہ = اللہ تجھے خوب سیراب کر دے ۔ کسی کمی کو فراوانی دے کر سیراب کر دینا۔
[حاج ] حج: وہ اس پر دلائل سے غالب آیا؛ دلائل دینا، حجت کرنا، الزام کو دلیل سے ثابت کرنا، ثبوت، شہادت یا گواہی۔
ایسا کرنے والا = حاج ۔
[عمارۃ]: ع م ر : پھلنا پھولنا، خوشحال ہونا، ترقی کرنا، آبادی کرنا، لوگوں سے بھرنا، آباد کرنا، تہذیب یافتہ ہونا، فراوانی کا مالک ہونا، زندگی سے بھرپور ہونا، ترقی کا باعث بننا، خوشحال کرنا، تعمیر کرنا، جوڑ کر فٹ کرنا، بنانا، بحال کرنا، جینے دینا، محفوظ کرنا