اورنگزیب یوسفزئی ستمبر۲۰۱۳
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر2
یتامیٰ کی پرورش ۔ یتامیٰ کےساتھ چار شادیوں کا سانحہ
مرد عورتوں پر داروغہ
قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کےشایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسلے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
یہ سورہ النساء کی چند ابتدئی آیاتِ کریمہ کا ترجمہ ہے، جو کچھ قریبی اعزاء کی خواہش کی تکمیل میں زیرِ تحقیق لایا گیا۔
ان آیات میں بنیادی اور غالب عنصر "یتیموں" [یتامیٰ] کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ہدایات و راہنمائی دی گئی ہے۔
یہ نکتہ ما قبل ہی میں واضح کر دیا جائے کہ تقریبا تمام قابلِ ذکر فاضل مترجمین نے یہاں یتامیٰ کے معانی میں "عورت" یا "بیوہ/بے سہارا عورتوں"، کو شامل کرنے کی کوشش فرمائی ہے، وہ بھی صرف اس بناء پر کہ ان آیات میں لفظ "نساء" استعارتا استعمال ہوا ہے، نیز لفظ "نکاح" دو مقامات پر درج ہے۔ راقم الحروف کو ۱۲ عدد مستند لغات کے مطالعے کے بعد بھی لفظ "یتیم" کے معانی میں ایسا کوئی ماخذ یا مشتق، اشارتا یا اصالتا بھی نظر نہ آیا جو سوائے "وہ بچے جو باپ سے محروم ہو جائیں" کے علاوہ کسی بھی دیگر معانی کی سمت اشارہ کرتا ہو۔
سیاق و سباق بھی چھوٹے، نابالغ بچوں کی پرورش اور رشد کی عمر کو پہنچ جانے پر ان کے اموال انہیں سپرد کرنے کے موضوع پراپنی اساس رکھتا ہے اور موضوع کے ساتھ مربوط ہے۔
تو عزیزانِ من یہاں دو دو، تین تین، اور چار چار شادیوں کی غرض سے مومنین کے لیے بہت سی بالغ عورتوں کا کہاں سے نزول ہو گیا؟۔ ۔ ۔ ۔ اور حق مہر کا سوال کیسے اُٹھ کھڑا ہوا؟۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بھی صاحبِ علم و دانش، سند کے ساتھ روشنی ڈال سکیں تو ازحد ممنون ہوں گا۔ کوئی بھی فاضل بھائی اختلاف فرمائیں تو ناچیز کی اصلاح کے لیے مستند حوالہ جات پہلی فرصت میں روانہ فرماءیں ۔ مشکور ہونگا۔
اس ترجمےکے ضمن میں جن لفظی معانی کا استعمال کیا گیا ہے ان کی سند کے لیے مستند لغات سے مدد لی گئی ہے جن میں "لین"[جو ۳ عدد انتہائی مستند لغات کا مجموعہ ہے]، "المنجد"، "مفرداتِ راغب"، "قاموس الوحید" ، "اردو مختار الصحہ"، ہانز وہر"،" م ج فرید"، " ندوی"، "بریل"، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
آئیے ،اس حقیر سی کوشش کے نتائج کو دیکھتے ہیں اور اس پر بے لاگ تفتیش و پڑتال کا عمل دہراتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنی لامحدود بصیرت میں سے کچھ روشنی ہمیں بھی عطا فرما دے۔
سورۃ النساء
آیات نمبر ۱ سے ۱۰ تک
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿١﴾
اے نسلِ انسانی، تم سب نہایت محتاط روی کے ساتھ[اتَّقُوا ] اپنے نشوونما دینے والے کے ساتھ وابستہ رہو جس نے تمہیں اولا ایک کامل ذاتِ واحد [نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ]کی صورت تخلیق کیا۔ پھر اسی ذات کی تقسیم کے ذریعے [مِنْهَا ]دو نصف لیکن مکمل ذاتیں نر و مادہ کی شکل میں تشکیل دے کر اس کا جوڑا پیدا کیا تاکہ دونوں کے روحانی و جسمانی اختلاط کے ذریعے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں ہر طرف پھیل جائیں۔ پھر تاکید ہے کہ محتاط روی کے ساتھ جڑے رہو اپنے حاکمِ اعلیٰ کے ساتھ کہ جس کا نام لے کر ، یعنی جس کے حوالے کے ساتھ ،اپنے حقوق اور قرابت داریاں[وَالْأَرْحَامَ] جتلاتے ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمہارے ارتقاء کے سفر میں وہی مالک تمہارا نگہبان و نگران [رَقِيبًا ] ہے۔
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا ﴿٢﴾
تمہارے معاشرے میں جن بچوں کے باپ گذر گئے ہوں[الْيَتَامَىٰ ] ان کے وراثتی اموال ان کے حوالے کر دیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو جائے کہ تم اپنے پاک اور جائز کو ناپاک اور ناجائز سے بدل ڈالو، یعنی ان کے مال اپنے مالوں میں شامل کر کے ہڑپ کر لو۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا ارتکابِ جرم [حُوبًا]ہے۔
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
اگر پھر بھی ایسا اندیشہ لاحق ہو جائے کہ تمہارے لوگ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر پائیں تو اس کا حل یہ ہے کہ معاشرے کے اس مخصوص کمزور گروپ میں سے [مِّنَ النِّسَاءِ] جو بھی تمہاری طبع کو موزوں لگیں تم ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار کو ایک سمجھوتے کے ذریعے اپنی سرپرستی اور تحویل میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ اس صورت میں بھی اگر اندیشہ ہو کہ سب سے برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک بچہ ہی سرپرستی میں لے لو؛ یا پھر اگر کوئی قبل ازیں ہی تمہاری سرپرستی ، ذمہ داری یا تحویل میں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] رہ رہا ہے تو وہی کافی ہے۔ یعنی کہ یہ امکان بھی پیشِ نظر رکھو کہ تم عیال داری میں زچ ہو کر نہ رہ جاو۔
وآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴿٤﴾
یہ بھی یاد رکھو کہ ان کمزوروں [النِّسَاءَ ] کو ان کے حقوق و واجبات [صَدُقَاتِهِنَّ]بغیر کسی حیل و حجت کے ادا کرتے رہو۔ اگر وہ خود اس میں سے تمہارے حق میں کچھ دینا مناسب سمجھیں تو وہ تم بخوشی استعمال کر سکتے ہو۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾
لیکن یہ عمومی اصول یاد رہے کہ تمہارے اموال جنہیں اللہ نے تمہاری معاشی مضبوطی کی بنیاد بنایا ہے، انہیں نا سمجھوں کے ہاتھوں میں نہ سونپو ۔ انہیں اس میں سے ضروریاتِ زندگی ضرور دو اور ان سے عمومی طور پر اچھا سلوک گرو۔
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا ﴿٦﴾
اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ یتیم بچوں کو نشوونمائے ذات کی بھٹی میں سے گذرنے دو [وَابْتَلُوا ]یہاں تک کہ وہ بڑے مرد و عورت بن کر قبضہ و اختیار حاصل کرنے [النِّكَاحَ ] کے مرحلے تک پہنچ جائیں [بَلَغُوا]۔ تب اگر تم ان میں عقل و شعور دیکھ لو تو ان کی وراثتیں ان کے حوالے کر دو، بجائے اس کے کہ ان کےبڑا ہو جانے کے ڈر سے، ضرورت سے زیادہ اخراجات دکھاتے ہوئے ،خود کھا جاءو۔
تم میں سے جو مستغنی یعنی مالدار ہو وہ یتیموں کےاس مال کے معاملے میں مکمل ضبطِ نفس اختیار کرے۔ البتہ جو تنگ دست اور ضرورت مند ہو وہ اس میں سےصرف اتنا ہی لے لے جو عمومی معیار سے جائز ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ جب تم انہیں ان کے اموال واپس کرو تو اس عمل پر گواہی بھی ڈال لو۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کا ایک اپنا کسی بھی خطاء سے مبرا حساب کتاب کا نظام ہے جو قطعی خود مکتفی ہے۔
ِّللرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿٧﴾
ان اموال کی واپس ادائیگی کے سلسلے میں خیال رکھو کہ مردوں کا اُس پر پورا حق ہوگا جو اُن کے باپوں اور اقرباء نے چھوڑا ہے اور عورتوں کا اُس پر پورا حق ہوگا جو اُن کے باپوں اور اقرباء نے چھوڑا ہے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، حصہ یا حق ایک فرض کی مانند ہے۔
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٨﴾
نیز اگر تقسیم کے موقع پر اقارب، یتیم بچے اور غرباء موجود ہوں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ ضروریاتِ زندگی دے دو اور ان سے حسنِ سلوک کرو۔
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّـهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٩﴾
سب اس حقیقت سے ضرور ڈریں کہ اگر ایسا ہوتا کہ وہ خود اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ جاتے تو ان کی خاطر وہ خود کتنے اندیشے میں مبتلا ہوتے۔ پس سب اللہ کی دی ہوئی ہدایات کے ساتھ محتاط روی سے وابستہ رہیں اور بالکل سیدھی اور حق بات کریں۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴿١٠﴾
درحقیقت جو لوگ بھی یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں وہ اپنے باطن میں آگ بھر لیتے ہیں اور انجام کارضرور محرومیوں اور پچھتاووں کی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔
- - - - - - - - - - -
بریکٹوں میں دیے گئے الفاظ کے مستند معانی
[اتَّقُوا ] : پرہیز گاری، محتاط روی، تحفظ کا راستہ اختیار کرو
[وَالْأَرْحَامَ] : قرابت داریاں، رشتہ داریاں، نسبی تعلق
[رَقِيبًا ] : نگران، نگہبان، monitoring ۔
[الْيَتَامَىٰ ] : وہ چھوٹےبچے جن کے باپ فوت ہو جائیں۔
[حُوبًا]: حاب :جرم ، گناہ -
[مِّنَ النِّسَاءِ] : اس مخصوص کمزور گروپ یا طبقے میں سے۔
[فَانكِحُوا]: نکاح : قبضے میں لینا، غالب آ جانا، کوئی معاہدہ/سمجھوتہ کرنا/شادی کا معاہدہ کرنا۔absorption of rainwater into earth, ، to overpower ۔
[مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ]: جو کسی حلف، معاہدے، سمجھوتے کے تحت تمہاری تحویل/سرپرستی/ماتحتی میں ہو۔
[النِّسَاءَ ] : کمزور جماعت، گروپ، طبقہ ، عورت کی جمع۔
[صَدُقَاتِهِنَّ]: ان کے لازمی واجبات، حقوق،
[وَابْتَلُوا ]: ابتلا ء میں ڈال کر نشوونمائے ذات کا موقع دینا۔
[بَلَغُوا]: بلغ: کسی بات، چیز، خبر کو پہنچا دینا، پھیلا دینا۔
النساء:۳۴
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ﴿٣٤﴾
Verse: 4/34: (An-Nisaa’: 34):
ترجمہ:
طاقتور/با اختیار لوگ ، یعنی معاشرے کے سربرآواردہ اور اقتدار کے حامل لوگ، معاشرے کی کمزورجماعتوں کو استحکام دینے کے پابند ہیں اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون نے انسانی معاشروں میں بعض لوگوں کو بعض پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اپنے ذاتی اور قومی اموال میں سے انفاق کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ پس معاشرے کی صالح جماعتیں، وفادار و اطاعت شعارجماعتیں، اس پیش پا افتادہ مستقبل کی حفاظت کرتی ہیں جسکو اللہ کے قانون نے تحفظ دیا ھوا ہے۔ البتہ ان میں سے وہ جن کی سرکشی کا اندیشہ ہوانہیں نصیحت کرو، انہیں ان کی مجالس میں سوچنے کے لیے چھوڑ دو اور انہیں وضاحت سے معاملات کی تشریح کر دو۔ پھر اگر تمہاری اطاعت اختیار کر لیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ بیشک اللہ کا قانون بلند و بالا اثرات کا حامل ہے۔
[اب موازنے کے لیے روایتی ترجمہ بھی ملاحظہ فرما لیں]
ترجمہ :
مردوں کو عورتوں پر نگران بنایا گیا ہے اس سبب سے کہ ان میں سے بعض کو بعض پر برتری دی گئی ہے اور اس لیے کے مرد اپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس صالح عورتیں وہ ہیں جو وفادار و اطاعت شعار ہیں اور اس غائب چیز کی حفاظت کرتی ہیں جس کی اللہ نے بھی حفاظت کی ہے۔ البتہ جن عورتوں سے تم سرکشی کا اندیشہ کرتے ہو تو انہیں نصیحت کرو، پھر انہیں خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو اور انہیں تمام معاملات کی اونچ نیچ سے آگاہ کرو/ انہیں مارو ۔ پس اگر تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ مت چاہو۔ بیشک اللہ بہت بلند و بالاہے-
دونوں ترجمے پیشِ خدمت ہیں۔ دیکھیں کہ آپ کس کو ترجیح دیتے ہیں اور کس بنیاد پر۔
میری اپنی رائے میں دوسرا ترجمہ نہ ہی زیادہ مربوط ہے اور نہ ہی مرد اور عورت کے مساوی درجے کا علمبردار۔ اس میں عورت کو ایک ثانوی درجے کی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو مکمل طور پر مرد کی دستِ نگیں بتائی گئی ہے، حالانکہ قرآن دونوں کو یکساں درجہ، مرتبہ اور حقوق و اہمیت دیتا ہے۔ مرد ہی کیوں؟ عورت کیوں نہ نکمے مردوں کو نصیحت کرے، انہیں ان کی خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دے اور انہیں تمام امور وضاحت سے بیان کر کے انہیں اطاعت یا درست کردار اختیار کرنے پر مجبور کرے؟ آج بے شمار مرد حضرات بد کردار اور بے راہ رو ہیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کے حقوق کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔