Print
Hits: 2277

اورنگزیب یوسفزئی اگست 2016

 

قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر33
Thematic Translation Series Installment No.33

 

قرآن میں حضرت لوط اور ان کی "ہم جنس پرست"قرار دی جانے والی قوم کا واقعہ
The episode of Lut and his “assumed” sodomist community in Quran

 

کافی عرصے سے اِس ناچیز سے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے بارے میں قرآنی آیات کے تراجم میں ایک اجتماعی ہم جنس پرستی کا الزام اور اُس کی پاداش میں اُس قوم کی اللہ کے ہاتھوں براہِ راست فوری تباہی کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ اذہان میں قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا، فلہذا اس ضمن میں متعلقہ آیات کا جدید ترین قرینِ عقل Rational ترجمہ کر دیا جائے تاکہ یہ دیرینہ مغالطہ بھی دور ہو کر قرآن کے اس تاریخی حوالے کی قابلِ فہم اور مستند صورتِ حال سامنے آ جائے۔
تو بات کچھ اس طرح ہے کہ قدیم اور ہم عصر تراجم تو سبھی ایک ہی ڈگر پر چلتے نظر آتے ہیں ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اُس خاص ڈگر کو اندھی تقلید کا راستہ کہا جاتا ہے، جو قدیمی یونانی عقلیت پر مبنی استخراجی سوچ پر مبنی ہوا کرتا ہے۔ یہ استخراجی منطق قیاس پر مبنی قضیہِ کُبری سے، بغیر اُس کی معروضی مادی حقیقت کو تجربے و تفتیش کی بھٹی سے گذارے، داخلی سوچ کے تحت نتائج اخذ کرتے رہنے کی بیماری کا شکار پائی جاتی ہے۔ عرب ملوکیت کے غاصبانہ قبضے کے بعد اسلام عمومی طور پر ، اور اس دین کا ماخذ قرآن خصوصی طور پر ایک بڑے اور منظم بگاڑ کی زد میں لائے گئے تھے تاکہ سامراجی موروثی حکومتوں کے غیر اسلامی قبضے کی پردہ پوشی کی جائے ، ان کی انسانیت سوز سیاست کو جواز بخشا جائے اور ان کے ظالمانہ طرزِ حکومت کو قائم رکھنے کے لیے دینِ اسلام کے اصلاحی اور فلاحی نظریے اور فلسفےکو غیر منطقی اور دیومالائی بھول بھلیوں میں گم کر دیا جائے۔بقایا تمام قرآنی موضوعات کے ساتھ ساتھ قرآن کے یہ عبرت آموز تاریخی حوالہ جات بھی اُسی مبہم اور لایعنی طرزِ تشریح کے حوالے کر دیے گئے جس کے پیچھے ایک بڑا مذموم مقصد کار فرما تھا۔ یہ مقصد کچھ اور نہیں بلکہ دینِ حق کی اصل روح کو زمین کے نیچے گہرائیوں میں دفن کر دینا تھا۔
راقم اب تک ایسے کافی تاریخی قضیے دیو مالائی بھول بھلیوں کی تاریکیوں سے نکال کر عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حقیقی قرآنی روح کی روشنی میں اُجاگر کر چکا ہے۔ ان میں حضرت موسی کے سفر، حضرت خضر سے ملاقات، ذی القرنین، یاجوج و ماجوج، اصحابِ کہف، طوفانِ نوح ، ابابیلوں کے ذریعے پتھروں کی بارش، وغیرہ، وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا موجودہ سوالات کے تناظر میں ہمارے آج کے اس موضوع پر تمام میسر تحریروں کا احاطہ کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ آج تک صرف لاہور کے ڈاکٹر قمر زمان صاحب کے ترجمے میں روایت شکنی سے کام لیا گیا ہے اور ایک زمینی حقائق پر مبنی عقلی ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ کہ اس ناچیز کی رائے میں محترم موصوف کا عمومی بیانیہ ابہام سے پُر اور آسان فہم وضاحت سے اکثر عاری پایا جاتا ہے، اور دیگر موضوعات پر اُن کے کام کے بارے میں بنیادی اختلافات اور اعتراضات کی گنجائش موجود ہے،لیکن انہیں یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہیئے کہ زیرِ بحث نکتے پر ایک اندھی تقلید کا شکنجہ توڑنے میں انہوں نے پہل کی اور آگے کا راستہ صاف کرنے کی کوشش فرمائی۔
دریں احوال، جناب لوط علیہ السلام کا واقعہ کہیں بھی اُس علت کا ذکر نہیں کرتا جسے لواطت یا ہم جنس پرستی یا مردوں کے درمیان غیر فطری جنسی تعلق کے اظہاریوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی کا عمل بوجوہ انسانوں کے درمیان ایک مخصوص اقلیتی پیمانے میں اذل سے پایا جاتا ہے ۔ یہ امر علم البشریات Anthropology اور قدیمی تواریخ میں تحقیق سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ نیز آج کی ہماری جدید دنیا میں یہ بات اور بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ رحجان نہ صرف موجود ہے، بلکہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور کئی ممالک میں قانونی تحفظ بھی حاصل کر چکا ہے ۔ فلہذا اگر قومِ لوط ہم جنس پرستی کرتی تھی تو قرآن بھلا کیوں کہے گا کہ قومِ لوط وہ کام کرتی تھی جسے اقوامِ عالم میں اور کسی قوم نے نہ کیا تھا؟
اس حقیقت کے ہمراہ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی سنت یا قانون یا طرزِعمل کیونکہ کسی معاملے میں بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا، لہذا قومِ لوط کو ایک عمل کی پاداش میں تباہ کر دینا، اور بعد ازاں آنے والی یا سابقہ تمام قوموں کو اُسی عمل کے ارتکاب میں کھلی چھوٹ دے دینا ایک سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔ اسلام کے ظہور سے کافی قبل قدیم یونانیوں اور اہلِ روم کی اشرافیہ میں ہم جنس پرستی ایک خاصی قابلِ قبول روٹین کی حیثیت رکھتی تھی۔ صرف ایک رومن شہنشاہ ٹائی بیریس کے محل کے تہ خانوں میں چار چار سو غلام مرد اِسی غیر فطری جنسی تسکین و تلذذکے لیے قید رکھے جاتے تھے۔ بعد میں آنے والے، یعنی متاخرین، تو اُس عمل کے ارتکاب میں تمام حدود کو پھلانگ کر اُسے قانونی شکل دے چکے ہیں اور علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر اب ہم جنس پرست آپس میں شادیاں بھی رچا رہے ہیں۔ ان قدماء اور متاخرین میں سے کسی پر بھی قومِ لوط سے منسوب پتھروں کی بارش سے برباد کر دینے والا عذاب نہ ٹُوٹا۔ پس یہ زمینی حقائق ہمیں روایتی ترجمے کو درست ماننے سے احتراز کی طرف لے جاتے ہیں۔

ویسے بھی کسی قضیہ کُبری [major proposition] کو جب تک فطرت، نفسِ انسانی، معاشرتی پیراڈائم، تاریخی تقابل اور مختلف علوم کی روشنی میں تفتیش سے گذار کر اس کی معروضی مادی حقیقت کو سامنے نہیں لایا جاتا، اُس کے بارے میں کوئی بھی توضیح یا تشریح یا ترجمے کا عمل کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے؟

ہم جنس پرستی کے اسباب کی دو عمومی بنیادیں تشخیصں کی گئی ہیں۔ ایک تو جینیاتی اور ہارمونی عدم توازن ۔ اور دوسرے ماحولیاتی اثرات کے سبب جسمانی تلذذ کا ایک غلط یاگمراہ شدہ جنسی رحجان[sexual perversion]۔ اس موضوع پر اب وسیع ریسرچ موجود ہے جو علمِ سائیکالوجی اور طب کے پلیٹ فارم سے اس رحجان کے اسباب و عواقب کی پوری وضاحت کرتی ہے۔قارئین بآسانی اس کام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارا نکتہِ ارتکاز کیونکہ اس موضوع کی تحقیق نہیں بلکہ متعلقہ قرار دیے جانے والے قرآنی تراجم کی صحت کو پرکھنا یادرستگی کرنا ہے ، فلہذا پسِ منظر پر محیط اس تمہید کے بعد اب پیشِ خدمت ہے جدید ترین قرینِ عقل عصری ترجمہ :-
الاعراف : ۷/۸۰ سے ۷/۸۴ تک

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٨٠﴾ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ﴿٨١﴾وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴿٨٢﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ﴿٨٣﴾ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ ﴿٨٤
"اور یاد کرو لوط کو جب اس نے اپنی قوم کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ تم اُس درجے پر زیادتی اور حد سے تجاوز پر اُتر آتے ہو [أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ] جس سطح پر دنیا میں یا دیگر اقوام میں کوئی بھی تم سے آگے نہیں ہے ۔کیونکہ تم اپنی نفسانی خواہشات [ شَهْوَةً ] کی تسکین کرنے [ الرِّجَالَ ] پر بغیر کوئی کمزوری [ النِّسَاءِ] ظاہر کیے، یعنی دیدہ دلیری کے ساتھ پیچھے پڑ جاتے ہو، مُصِر ہوجاتے ہو [لَتَأْتُونَ ] ۔ اس طرح تم ایک زیادتی کا ارتکاب کرنے والی قوم بن چکےہو ۔ اس پر اُن کی قوم کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا کہ انہیں اور ان کی جماعت کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیرت و کردار کو پاک صاف کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ پس ہم نے انہیں اور اُن کے اپنے لوگوں کو [أَهْلَهُ] کامیاب کر دیا سوائے ان کی قوم کے اس طبقے کے جو پستیوں میں گر کر پیچھے رہ گئے تھے [امْرَأَتَهُ ۔ الْغَابِرِينَ ]۔ پھر ہم نے ان لوگوں پر تیرہ بختیوں کی بارش کر دی۔ پس دیکھو/غور کرو ، کہ مجرم لوگوں کا کیا انجام ہوا ۔"

مشکل الفاظ جن کا روایتی تراجم میں جان بوجھ کر غلط ترجمہ کیا گیا:
تاتون الفاحشۃ: زیادتی کی طرف، حد سے تجاوز کی طرف آنا
تاتون الرجال: تسکین /آسائش/تسلی/آرام و اطمینان کی طرف آنا
Alif-Taa-Waw آتو : (e.g. of "atawoo") = to come, to bring, come to pass, come upon, do, commit, arrive, pursue, put forth, show, increase, produce, pay, reach, happen, overtake, draw near, go, hit, meet, join, be engaged or occupied, perpetrate (e.g. crime), undertake. ۔ آنا، لانا، ہوجانا، ملنا، کرنا، پہنچ جانا، پیچھے لگ جانا، سامنےلے آنا، دکھانا، وغیرہ۔
[الرِّجَالَ ۔ رجال ۔ rajjala ] : بہت وسیع المعانی لفظ ہے ۔ یہاں معنی ہے تسکین، تسلی کرنا، طلب کو پورا کر کے آرام و اطمینان حاصل کرنا [لین کی لغات] ۔
rajjala - to comfort anyone, comb the hair, grant a respite.
[شہوۃ : ش و ی ] : خواہشات،طلب، نہایت شوق اور بے تابی سے چاہنا ۔ لالچ، طمع، کسی علت کا پورا کرنا، وغیرہ
Shiin-ha-Ya ش ہ ی = to long or desire eagerly, made it to be good/sweet/pleasant or the like, loved it or wished for it, desired eagerly/intensely, yearning of the soul for a thing; appetite, lust, gratification of venereal lust, greedy, voracious, was or became like him, resembling him, jested or joked with him, associated with smiting action of the (evil) eye i.e. he vied with him in smithing with the evil eye.

النساء: [ن س و؛ ن س ی ؛] کمزوری؛ کمزور عوام، کمزور طبقات، نظر انداز کیے ہوئے، پسِ پشت ڈالے ہوئے عوام۔
]امْرَأَتَهُ : [ عرفِ عام میں "اُس کی عورت"، لیکن استعارے میں "اُس کی قوم" یا "قوم کا ایک کمزور کردار رکھنے والا حصہ"۔
[مطر] : یا تو برکتوں اور رحمتوں کی برسات،،،،،، اور یا ،،،، سزاوں اور بدبختیوں کی بھرمار ۔ دونوں استعارے درست ہیں۔سیاق و سباق کے مطابق معنی دیتے ہیں۔ یہ اوپر سے برسنے والی کسی بھی چیز کا استعارہ ہے۔
پھر سوال کیا گیا کہ وہاں "رجال" – Rajjala کا معنی آپ نے بدل دیا ۔ اب ذیل کی آیت میں "الذکران" آیا ہے [أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٥﴾ ۔ اس کا معنی تو حتمی طور پر "مرد" ہوتا ہے یعنی "ذکر - Zakar "۔ "تم تو مردوں کی طرف آتے ہو" ۔ ۔ ۔ ۔یہاں آپ کیسے متبادل معنی لائیں گے اور "مردوں پر شہوت سے آنا" کو کس طرح کوئی اور رنگ دیں گے؟۔۔۔۔۔۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں "شہوت" یا "خواہش" کا ذکر تک نہیں ہے ۔ پھر بھی حضرت صاحبان سابقین کی مانند "تحریف" کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن پھر بھی عرض کیا کہ میں پورا سیاق و سباق زیرِ غور لاوں گا اور ہم اور آپ دیکھ لیں گے کہ کیا معنی یہاں عبارت کے تسلسل میں موزوں بیٹھتا ہے ۔" ذکران" کا مادہ تو بہرحال ۔ ذ ک ر ۔ ہی ہے جس کے معانی کافی وسعت کے حامل ہیں۔ قرآن بھی ذکر ہے اور یادداشت و نصیحت وغیرہ بھی مادہ "ذ ک ر" ہی سے مشتق ہیں۔ ہمیں ضرور اس کا قرین عقل معنی حاصل ہو جائیگا ۔ تو آئیے جدید ترین اور گہرا تناظر رکھنے والا معانی اپنے سیاق و سباق میں نہایت مناسبت سے فٹ بیٹھتا دیکھ لیتے ہیں۔
الشعراء: ۲۶/۱۶۲ سے ۲۶/۱۶۶
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿١٦٢﴾ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٦٣﴾ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٤﴾ أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٥﴾ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ ﴿١٦٦
"بیشک میں ہوں جو تمہارے لیے امانت [وحی- پیغام] کا حامل پیغامبر ہوں۔ پس اللہ کے قوانین کی پرہیز گاری اختیار کرو اور جو کچھ میں تمہیں بتاتا ہوں اس کی اطاعت کرو ۔ میں تم سے اس کے بدلے میں کوئی اجر طلب نہیں کرتا کیونکہ درحقیقت میرا اجر صرف تمام قوموں کے پروردگار کے ذمہ ہے۔ کیا پھر بھی تم دوسری قوموں سے [مِنَ الْعَالَمِينَ] نصیحت/سبق لینے پر اُتر آوگے [أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ] اور وہ کچھ ہوا میں اُڑا دو گے/پھینک دو گے [ blow up--تذرون] جو تمہارے اپنے لوگوں/ساتھیوں میں سے [مِّنْ أَزْوَاجِكُم ] ،یعنی تمہارے ہم قوم لوط کے ذریعے،تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے پیش کیا ہے۔ یعنی تمہارا کردار تو ایک حد سے گذر جانے والی قوم کا کردار ہے "۔

مشکل الفاظ جن کا روایتی تراجم میں غلط ترجمہ کیا گیا:

[َتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ] : تم سبق/نصیحت لینے کی طرف آتے ہو
"ذکر" یہاں مرد یا نر نہیں ہے ۔ لین کی لغات کے مطابق مرد/آدمی/نر کی جمع "ذکران " نہیں بلکہ " ذکور" ہے۔ Male/man/masculine (dhakar, dual - dhakarain, plural - dhukur).
[مِنَ الْعَالَمِينَ] : دیگر اقوامِ عالم سے
[مِّنْ أَزْوَاجِكُم ] : اپنے ہی ساتھیوں/لوگوں میں سے

یہاں تک بات کلیر ہو جاتی، لیکن پھر یہ بھی سوال کیا گیا کہ حضرت لوط پر جو پیغام بر بھیجے گئے اور ان کو لینے کے لیے قوم لوط وہاں آ پہنچے، اور حضرت لوط نے ان مہمانوں کے بدلے میں اپنی قوم کے لوگوں کو اپنی بیٹیاں پیش کر دیں ،،،،،،، اس کے متعلق بھی جو آیات قرآن میں موجود ہیں ان کا بھی عقل و دانش پر مبنی ترجمہ کر دیا جائے۔ یہ آیات سورۃ ھود کی ۷۴ سے ۸۲ تک کی آیات ہیں۔

جوابا عرض ہے کہ جدید عقلی ترجمہ تو پیش خدمت کر ہی رہا ہوں ۔ لیکن صاحبانِ دانش سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لیے ذرا کسی فرصت کے لمحے میں خود اپنے آپ کو حضرت لوط کی جگہ پر فرض کریں اور سوچیں کہ کیا کوئی بھی حضرت لوط جیسے نبی کی حکمت اور الہامی دانش رکھنے والا ایسا کام کر سکتا ہے کہ اغلام بازوں کو سیکس کرنے کے لیے اپنی "بیٹیاں" پیش کر دے؟؟؟ ۔۔۔۔۔چلیں نبی کی بات ہی نہ کریں ۔ ذرا سوچیں کہ کوئی بھی فرزانہ انسان ایک اغلام باز ہجوم کو ایک قبیح جنسی علت سے بچانے کےلیے کیسے اپنی اولاد پیش کر سکتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ذیلی سوالات یہ بھی ہیں کہ،،،،،

کیا پسند اور مرضی کی شادی اور نکاح پڑھائے بغیر کوئی اپنی بیٹیاں کسی ہجوم کو پیش کر سکتا ہے ؟؟؟
حضرت لوط کے پاس کتنی بیٹیاں تھیں، اور وہ ہجوم میں سے کِس کِس کو وہ بیٹیاں پیش کر سکتے تھے؟ ؟؟
کیا وہ بیٹیاں پوری قوم کی ضرورت پوری کر سکتی تھیں؟؟؟
یا کیا چند بیٹیوں کو ہی ایک بدکردارقوم کے ہجوم کے آگے اجتماعی ریپ کے لیے پیش کیا جا سکتا تھا ؟؟؟ ۔۔۔۔
نیز کیا اُس قوم میں ما قبل ہی سے عورتیں موجود نہیں تھیں کہ حضرت لوط انہیں اپنی بیٹیاں پیش کرتے؟؟؟ ۔۔
اگر نہیں تھیں تو پھر وہ سب بغیر عورتوں کے پیدا کیسے ہو گئے تھے؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عاجز تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ علم، عقل و دانش کی توہین پر مبنی یہ روایتی تراجم ڈیڑھ ہزار سال تک اس قوم میں قبولیت کا درجہ کیسے پاتے رہے ؟؟؟ ایسی فاش جہالت کی تاریکیاں کیسے آج کے دن تک مسلط ہیں؟؟؟ ۔۔۔ اور وہ لوگ کس قابلِ رحم روگ میں مبتلا ہیں جو آج کے زمانے میں بھی انہی بوگس تراجم کا اتباع اور دفاع کر رہے ہیں؟؟؟

اب پیش خدمت ہے سورہ ھود سے متعلقہ آیات کا قابلِ فہم ترجمہ :-

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ ﴿٧٥﴾ يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ﴿٧٦﴾ وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ﴿٧٧﴾ وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ﴿٧٨﴾ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ﴿٧٩﴾ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ ﴿٨٠﴾ قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ ﴿٨١﴾ فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢﴾

"پھر جب ابراہیم پر سے رعب و خوف کی کیفیت دور ہو گئی اور انہیں خوشخبری بھی وصول ہو گئی تو انہوں نے ہم سے قومِ لوط کے معاملے میں بحث شروع کر دی۔ کیونکہ درحقیقت وہ بہت ہی معاف کرنے والے، نرم دل اور اللہ سے ہمہ وقت رجوع کرنے والے تھے۔ انہیں کہا گیا کہ اے ابراہیم اس موضوع سے اعراض برتو ۔ کیونکہ اس پر تو کہ اللہ کا حکم صادر ہو چکا ہے اور اُن پر وہ سزا لاگو ہونے والی ہے جو واپس نہیں کی جا سکے گی۔اور جب ہمارے پیغام رساں لوط کے پاس پہنچے تو وہ اُن کی آمد کا مقصد جاننے پر بہت گھبرایا اور بے حساب پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ اسی دوران اس کی قوم کے لوگ ہجوم کرتے ہوئے اس کے پاس آئے کیونکہ وہ پہلے ہی سے ایسی مذموم حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ لوط نے کہا اے قوم، یہ میری تعلیمات [هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي]تمہارے سامنے ہیں جو تمہارے لیے ایک پاکیزہ تر کردار پیش کرتی ہیں۔ پس اللہ کے قانون کی پرہیز گاری کرو اور میرے مصائب و مشکلات میں[فِي ضَيْفِي ] میں مجھے رسوا نہ کرو [وَلَا تُخْزُونِ] ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی ہدایت یافتہ بندہ نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہی ہو کہ تمہاری تعلیمات [ِ بَنَاتِک]میں ہمارے لیے کوئی سچائی یا حقیقت نہیں ہے۔ تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ لوط نے کہا کہ کاش ایسا ہوتا کہ میرے پاس تمہارے معاملے میں کوئی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔ اس پران پیغام بروں نے کہا اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ پس تم اپنے لوگوں کے ساتھ رات گذرے یہاں سے روانہ ہو جاو ۔ تم میں سے کوئی ادھر اُدھر کسی رکاوٹ میں اُلجھ کر نہ رہ جائے سوائے تمہارے کمزور ساتھیوں کے [إِلَّا امْرَأَتَكَ ] ۔ دراصل ان پر بھی وہی کچھ گذرنے والا ہے جو ان دوسروں پر گذرنا ہے۔ ان کے انجام کا وقت [مَوْعِدَهُمُ] شروع ہونے والا [الصُّبْحُ ۚ]ہے ۔ اور اس انجام کا وقوع پذیر ہونا [الصُّبْحُ ۚ] اب بہت قریب ہے ۔ پس جب ہمارا حکم پورا ہوا تو ہمارے قانون نے اس قوم کے تمام بالا دستوں کو ان کے حقیر و پست طبقات میں تبدیل کر دیا ۔ [جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا] ۔ اس سے قبل ہی ہم اُن پر اتمام حجت کے لیے الہامی صحیفے سے عقلی دلائل [حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ] کی بارش کر چکے تھے[أَمْطَرْنَا]، یعنی فراوانی سے اپنی تعلیمات پہنچا چکے تھے۔"

یہاں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔"ان کے بالا دست طبقات کو پست کر دیا گیا"[ جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا] ۔ یعنی اس فقرے سے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ اُن پر کوئی پتھروں کی طلسمانی یا معجزاتی بارش وغیرہ نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ وہ طبعی قوانین کے تحت زندہ بھی رہے اور الہامی "ضابطہِ کردار " کی شدید خلاف ورزیوں کے نتیجے میں آنے والے مکافاتِ عمل کے باعث ان کے بدکردار معاشرے میں انقلاب وقوع پذیر ہوا اور ان کا معاشرہ اُلٹ پلٹ کر دیا گیا۔ طاقتور قابض طبقات جو تمام تر برائیوں کے لیے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں پست کر دیے گئے اور کمزور طبقات کو اوپر لا کر حکمرانی عطا کر دی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی ہماری تمام تر تفاسیر و تراجم کا اس موضوع پر تحریر کردہ تمام کا تمام غیر عقلی، قدیمی صحائف کی تشریحات سےچوری شدہ اور من گھڑت متن اللہ تعالیِ نے صرف ایک ہی جملے سے رد اور کالعدم قرار دے دیا ۔

امید کرتا ہوں کہ قرآنی تراجم کے سلسلے کی یہ الجھن بھی آج علمی ، شعوری، معاشرتی اور تاریخی تناظر میں سلجھا دی گئی ہے۔اللہ کی سنت کیونکہ تبدیل نہیں ہوتی اس لیے اگر ہم جنس پرستی کے جرم میں قومِ لوط پر پتھروں کی بارش برسا کر انہیں صفحہِ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا، تو قدیم یونانیوں اور رومنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جانا لازم تھا ۔ اس سے بھی بڑھ کر آج کے زمانے میں دیدہ دلیری سے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے والی کئی قوموں کے حق میں بھی اب تک یہی بربادی مقدر ہو چکی ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور سب سے قبل مملکتِ برطانیہ کے کھنڈرات یا آثار و باقیات موڈرن دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنے سامنے کھڑے ہوتے کیونکہ سب سے قبل ہم جنس پرستی برطانیہ ہی کی پارلیمنٹ میں قانون پاس کر کے جائز قرار دی گئی تھی۔ فلہذا قومِ لوط سے متعلقہ تراجم میں بھی وہی فاش غلطی ہمارے سامنے آجاتی ہے جو تورات و انجیل کی انسانی تفاسیر سے بغیر تحقیق مواد اُٹھائے جانے اور سیدھا سیدھا نقل کر دینےکے نتیجے میں بہت سے دیگر موضوعات کے تراجم میں بھی ہمارے سامنے آتی رہی ہے۔ اور ہمارے اسلاف اور اساتذہ اس بارے میں تحقیقی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ عقلِ سلیم کو خیر باد کہتے ۔ ۔ ۔ اپنی سہل انگاری کا مظاہرہ کرتے۔ ۔ ۔اور استقرائی عقلیت سے اعراض برتنے کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔
اصحابِ علم دوستوں کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

اب خاص الفاظ کے وہ مستند معانی دیے گئے ہیں جو روایتی تراجم میں مجرمانہ طور پر چھپا لیے گئے تھے:
ض ي ف = Dad-Ya-Fa = Inclined, approached, drew near to setting (said of the sun). Menstruation (said of a woman). Become a guest, refuge of someone. Become correlative to something. Correlation, or reciprocal correlation, so that one cannot be conceived in the mind without the other. Beign collected, joined, added together.
Ran, hastened, fled, sped, turned away.
Beset by distress of mind. Hardship, difficulty, or distress.
Asking, or calling, for an aid.
Kh-Zay-Ya تخزون : خ ز ی = To be or become abased/vile/despicable/abject, fall into trial or affliction and evil, manifest foul actions or qualities, to be confounded or perplexed by reason of disgrace, moved or affected with shame.

= Lam-Fa-Fa يَلْتَفِتْ: ل ف ف = To roll up, fold, wrap, involve, conjoin, be entangled (trees), be heaped, joined thick/dense and luxuriant/abundant.
ha-Ra-Ayn : ہ ر ع : یہرعون : = to walk with quick & trembling gait, run or rush, flow quickly, hurry, hasten.
Ba-Nun-Ya = بنت : بنات : ب ن ی Building, framing or constructing
Kind of plank used in the construction (e.g. of ships)
Becoming large, fattened or fat (like food enlarges a man)
Rearing, bringing up, educating
Form or mode of constructing a word
Natural constitution
Of or relating to a son or daughter
Branches of a road/tree
A builder/architect
A building
Bending over a bowstring while shooting
Ribs, bones of the breast or shoulder blades and the four legs
A thief/robber, wayfarer/traveler, warrior, rich man, certain beast of prey
A skin for water or milk made of hide
Raised high (applied to a palace/pavilion)
Sad-Ba-Ha صبح : ص ب ح = to visit or greet in the morning. subhun/sabahun/isbaahun - the morning. misbaahun (pl. masaabih) - lamp. sabbah (vb. 2) - to come to, come upon, greet, drink in the morning. asbaha - to enter upon the time of the morning, appear, begin to do, to be, become, happen. musbih - one who does anything in or enters upon the morning.