اورنگزیب یوسفزئی جولائی 2014

۱] دین القیم کیسےبارہ مہینوں کی گنتی ہے ؟ اور
۲] یوم الحج الاکبر کیا ہے؟ کے جوابات
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۱۷

 

آیاتِ مبارکہ 9/36 اور9/3، 4 کا مستند لغوی ترجمہ:

 

۱] کیا دین القیم بارہ مہینوں کی گنتی ہے ؟

روایتی ترجمہ میں "دین القیم" کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ "۱۲ مہینوں کی گنتی" دین القیم ہے ، جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں؟؟؟
ظاہر ہے کہ دین القیم کی یہ تعریف انتہائی لغو اور مضحکہ خیز ہے ۔ دین ایک ضابطہِ حیات کو کہتے ہیں ، صرف ۱۲ مہینوں کی گنتی کو نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس اہم آیت کے علمی اور شعوری ترجمے کی ضرورت محسوس کی گئی جو قرآن کے حقیقی پیغام و نظریے کے مطابق ہو اور جدید تعلیم یافتہ ذہن میں آسانی سے داخل ہو جائے ۔ درخواست ہے کہ اس ترجمہ کو قدیمی روایتی ترجمے کے تقابل و موازنے کے ساتھ مطالعہ کریں ۔
تو اللہ کے پاک نام سے شروع کرتے ہیں ۔

سورۃ التوبۃ: ۳۶
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ-۔
درحقیقت، کائنات کی تخلیق کی ابتدا ہی سے [يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ] اللہ تعالیٰ نے یہ قانون [فِي كِتَابِ اللَّهِ ] بنا دیا تھا کہ اس کی پسندیدہ [عِندَ اللَّهِ ]انسانی زندگی کی مجوزہ اور قابلِ لحاظ صورتِ حالات [عِدَّةَ الشُّهُورِ] وہ ہوگی جو کہ ایک نہایت قابلِ تعریف اور قابلِ رشک [اثْنَا ] مربوط انسانی معاشرے کی صورت یا کیفیت [عَشَرَ شَهْرًا] ہوتی ہے۔ اور اس معاشرے میں جو(مِنْهَا) سب سے زیادہ شفقت اور رحم دلی رکھنے والے [اَرْبَعَةٌ]ہوں گے وہ سب سے محترم [حُرُمٌ ۚ]سمجھے جائیں گے ۔ یہی واحد پائدار اور مستحکم [الْقَيِّمُ ۚ]طرزِ زندگی یا ضابطہِ حیات [الدِّينُ ]ہے ۔
پس، اس تناظر میں تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے معاشرے میں اپنے لوگوں کی حق تلفی نہ کرو۔ بلکہ اپنی پوری توجہ غیر قرآنی نظریات رکھنے والوں [الْمُشْرِكِينَ] کا مقابلہ کرنے کی جانب مرکوز کر دو بالکل ایسے جیسے کہ وہ تمہارے ساتھ اپنی پوری قوت کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر ہیں ۔ تاہم، یہ امر ہمیشہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ کی مدد انہی کے شاملِ حال رہتی ہے جو اس کے احکامات کی پوری نگہداشت کر تے ہیں ۔
اب یہی ترجمہ رواں انداز میں:-
درحقیقت، کائنات کی تخلیق کی ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا تھا کہ اس کی پسندیدہ انسانی زندگی کی مجوزہ اور قابلِ لحاظ صورتِ حالات وہ ہوگی جو کہ ایک نہایت قابلِ تعریف اور قابلِ رشک مربوط انسانی معاشرے کی صورت یا کیفیت ہوتی ہے۔ اور اس معاشرے میں جو سب سے زیادہ شفقت اور رحم دلی رکھنے والے ہوں گے وہ سب سے محترم سمجھے جائیں گے ۔ یہی واحد پائدار اور مستحکم طرزِ زندگی یا ضابطہِ حیات ہے ۔
پس، اس تناظر میں تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے معاشرے میں اپنے لوگوں کی حق تلفی نہ کرو۔ بلکہ اپنی پوری توجہ غیر قرآنی نظریات رکھنے والوں کا مقابلہ کرنے کی جانب مرکوز کر دو ، بالکل ایسے جیسے کہ وہ تمہارے ساتھ اپنی پوری قوت کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر ہیں ۔ تاہم، یہ امر ہمیشہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ کی مدد انہی کے شاملِ حال رہتی ہے جو اس کے احکامات کی پوری نگہداشت کر تے ہیں ۔

اب بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند عربی لغات سے ترجمہ :-

[يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ] : تخلیقِ کائنات کی ابتدا؛ وہ وقت جب اللہ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا۔
[فِي كِتَابِ اللَّهِ ] : اللہ کا قانون؛ اللہ کی مرضی کی رُو سے ؛ اللہ کا مقرر کردہ۔
[عِندَ اللَّهِ ]: اللہ کے ہاں؛ اللہ کا پسندیدہ؛ اللہ کا منظور کردہ۔
[عِدَّةَ الشُّهُورِ] : وہ صورتِ حالات[شھور] جو تجویز کردہ ہو، قابلِ ترجیح، قابلِ شمار ہو۔
[اثْنَا ] : انتہائی قابلِ تعریف، قابلِ ستائش ؛ ثنا = تعریف ۔
[عَشَرَ شَهْرًا]: عشر: ایک مربوط معاشرے کی [شَهْرًا]: کیفیت ، صورت، حالت۔
[ا َرْبَعَةٌ]: ر ب ع : وسیع المعانی مادہ ہے ۔ اچھی حالت، خوشحالی، اوپر اٹھانا، شفقت، محبت، رحم ، شریفانہ سلوک کرنا، چوتھا حصہ، مڈل کلاس، درمیانہ سائز، تیزی سے بھر دینا، فراوانی پیدا کر دینا، وغیرہ ، وغیرہ۔
[حُرُمٌ ۚ]: ممنوع، پابند، محترم، معزز
[الْقَيِّمُ ۚ]: مستحکم، پائیدار
[الدِّينُ ] : طرزِ حیات، ضابطہِ حیات
[الْمُشْرِكِينَ] : غیر اللہ کے نظریات پر چلنے والے، اللہ کے احکام کے ساتھ شرک کرنے والے۔

اور اب انگلش زبان میں آیتِ مبارکہ کا ترجمہ:-

Indeed, since the hour He unfolded the process of creation of the Universe, Allah had made it mandatory (fi kitaab Allah) that the prescribed and reckonable (iddata) living conditions (shuhoor) as approved by him (‘indallah) will be the state of a highly praiseworthy and Admirable (athnaa’), intimate human community (‘ashara); and in its composition (min-ha) the segment possessing the attributes of deeper affection and utmost compassion (arba’atun) will be regarded as the respected ones (hurumun). That alone is prescribed as the most sustainable, ideal (qayyam) discipline of life (Deen).

Hence in such circumstances, you are ordained not to be cruel by violating your own people’s rights in the community. Instead, concentrate fully in fighting the polytheists just like they are intent on fighting against you with their full might. However, keep always in mind that in a confrontation Allah sides with those taking full cognizance of His commandments.

۲] حج الاکبر کیا ہے ؟
آپ نے حج الاکبر کے متعلق سوال پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ سوال کے پیچھے چھپی ہوئی آپ کی اصل الجھن میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حج کے نئے تحقیقی معانی کے بارے میں اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں ۔ اسی لیے آپ نے یا دیگر غیر مطمئن یا غیر متفق ساتھیوں نے یہ سوال اُٹھایا ہے ۔ بہر حال میرا فرضِ منصبی نکتہ چینی نہیں بلکہ ایک سیر حاصل جواب دینا ہے، اور میں اپنا یہ فرض بحسن و خوبی ادا کروں گا۔
جواب: یہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴ کا معاملہ ہے، جو یہاں مندرج کر دی جاتی ہیں :
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
اس کا سیر حاصل ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں سیاق و سباق کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے جو مشرکین کے ساتھ عہد ناموں سے متعلق ہے ،اور الفاظ کے حقیقی معانی کا بھی:-

اللہ اور رسول کی جانب سے [مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ]تمام انسانیت کے لیے(إِلَى النَّاسِ)، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت [الْحَجِّ ]کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع [يَوْمَ الْأَكْبَرِ‌] پر یہ اعلان عام [أَذَانٌ] کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو [تُبْتُمْ ] تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوانین کی پاسداری و نگہداشت کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔

اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2014

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 16
آیاتِ محکمات اور متشابہات

 

Translation 16: Mohkamaat and Mutashabihaat

 

 

قرآنِ کریم کے موضوعاتی تراجم کے سلسلے کی اس قسط میں ہم ایک ایسا مخصوص موضوع ٹھوس علمی تحقیق کی چھلنی سے گذاریں گے جو اسلام کے اولین دور سے ہی مباحث کا ہدف رہا ہے ۔ اس ضمن میں ہم سب کا وہ عقیدہ زیرِ تحقیق لایا جائیگا جس کے رُو سے امت میں ایک عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ قرآن کا متن دو علیحدہ علیحدہ نوعیت کی آیات پر مشتمل ہے۔ اور وہ اسطرح کہ،،،، ان میں سے کچھ آیات اُس مخصوص اسلوب میں بیان کی گئی ہیں جسے " محکمات " کا نام دیا گیا ہے اور جو اپنے پیغام یا مفہوم کو ' بآسانی' ظاہر کر دیتی ہیں ۔ اور کچھ دوسری آیات ہیں جن کا اسلوب " متشابہات " کی ذیل میں آتا ہے، جن میں تشبیہات و استعارات کی زبان میں بات کی گئی ہے ، جس کے باعث ان کی تفیہم مشتبہ شکل اختیار کر گئی ہے ۔ لہذا انہیں بآسانی سمجھنا مشکل ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق اشارہ یہ دیا جاتا ہے کہ ثانوی نوعیت کی آیات کی تفہیم کے ضمن میں زیادہ رد و قدح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ متقدمین نے ان سے جو بھی استنباط کیا ہے اور اس کے مطابق جو بھی مفہوم پیش کر دیا گیا ہے اسے ان کے احترام میں بلا چون و چرا مان لیا جانا چاہیئے ،،، اسلیے کہ ،،،، قرآنی عبارت میں بھی کچھ ایسی ہی تلقین فرمائی گئی ہے ۔

دراصل اس موضوع پر آج کے دن تک متوارث چلا آرہا مباحثہ سراسر ایک عدد بڑی غلط فہمی کی بنیاد پر قائم ہے۔ جیسے ہی وہ غلط فہمی دور ہو جائے، تمامتر مباحثہ اپنی موت آپ مر سکتا ہے اور قرآن کا منشاء و مقصود صاف طور پر نکھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی عہدِملوکیت کے دو نمبر کے جعلی اسلام کی پیدا کردہ ہے جہاں حقیقی اسلام اور قرآنی تفاسیر کو بد نیتی سے کام لیتے ہوئےاُس اصل سے یکسر ہٹا دیا گیا تھا جس کی وضاحت ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بنفسِ نفیس فرما دی تھی۔ اگر وہ اصل قائم رہتی تو ملوکیت کو اپنی جڑیں قائم کرنے کی مہلت کبھی نہ مل سکتی تھی۔

معزز قارئین ، نہایت ادب سے عرض کرتا ہوں کہ اسلاف کا درج بالا استنباط قطعی بے بنیاد، لغو اور غیر قرآنی ہے ۔ اس لیے خواہ سابق زمانوں میں اس سے متفق ہونے والوں میں نہایت محترم نام بھی شامل ہوں، اسے کالعدم قرار دینا از حد ضروری ہے ۔ راقم کی جدید ترین تحقیق کے مطابق تو قرآن عظیم کا سارا کا سارا متن ایک ادبِ عالی کے درجے پر فائز ہے ۔ ادب کا ایک کلاسیکل شہ پارہ ہمیشہ ہی تشبیہات، محاورات، ضرب الامثال اور استعارات کے خوبصورت استعمال سے لیس ہوتا ہے اور اسی بنا پر اسے کلاسیکل کا درجہ عطا کیا جاتا ہے ۔ قرآنِ عالیشان ایک ایسا ہی ادبی شہ پارہ ہے ۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ متوارث چلا آ رہا محکمات اور متشابہات کا نظریہ اپنے تئیں کتنی وثاقت کا حامل ہے اور کیا واقعی قرآن بھی اسی نظریے کی تائید فرماتا ہے،،،،،، یا کچھ اس کے برعکس اظہار کرتا ہے ۔

اس موضوع سے متعلقہ دو عدد آیاتِ مبارکہ کا جدید شعوری اور تحقیقی ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے، جس میں آپ دیکھیں کے کہ دونوں بنیادی الفاظ یا اصطلاحات کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت متعدد مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔

یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ عاجز نہ ہی خود کوئی مسلک رکھتا ہےاور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں،،،،، اس ضروری تاکید کے ساتھ کہ قرآن پر جاری جدید ترین ریسرچ تبھی اپنی جگہ بنا پائے گی ، اور اسلام کا حقیقی منزہ چہرہ تب ہی سامنے آ سکے گا، جب ہم ارتقائے علم کے موجودہ دور میں اسلاف کی اندھی تقلید کو ترک کرنے کا مشرب بلا خوف اختیار کر لیں گے، اور اپنی سوچوں کا رُخ علم و شعور کے استعمال کی جانب موڑ لیں گے ۔ اس سلسلے میں ممکنہ اغلاط کی نشاندہی کو خوش آمدید کہا جائیگا ۔ نیز سند کے ساتھ پیش کی گئی کسی بھی علمی تصحیح کو فی الفور شرفِ قبولیت بخشا جائیگا، کیونکہ اس قرآنی تحقیق میں پیش کیا گیا کوئی بھی مواد حرفِ آخر نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسانی علم و شعور کا ارتقاء جاری و ساری ہے ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن دراصل کیا فرما رہا ہے،،،،،اور ہم سب کو کس طرح اس کی درست اور محکم راہ سے بھٹکا دیا گیا ہے ۔ متعلقہ آیتِ مبارکہ قرآن کی سطروں میں واضح طور پراس طرح سے ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے :-

آیت 3/7: هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ
تو عرض یہ ہے کہ اب تک چلے آ رہے گمراہ کن روایتی لفظی ترجمے کے مقابلے میں اس آیت کا با محاورۃ ادبی و علمی ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا :
"وہی ہے جس نے آپ پر قوانین کا مجموعہ نازل فرمایا جس میں وہ آیات ہیں جو فیصلہ کن اور دانائی پر مبنی ہیں (مُّحْكَمَاتٌ ) اور یہی سب (ھن) اس الکتاب کی بنیاد ہیں (ام الکتاب) ۔ اور اس کے علاوہ جو بھی دیگر مواد ہے ( و اُخر) وہ اس کے متشابہ بنا دیے جانے کی جہت سےمبہم ، مشتبہ، الجھا دینے والا (confusing) ہے(مُتَشَابِهَاتٌ)۔

اب انتہائی توجہ سےغور فرما لیجیئے کہ اللہ تعالیٰ یہاں قرآن کے متن کے اندر ہی موجود دو اقسام کی آیات (یعنی محکمات اور متشابہات ) کا ذکر نہیں فرماتا،،،،،،بلکہ فرماتا ہے کہ قرآن تو صرف ایسے ہی کلام پر مبنی ہے جو واضح، فیصلہ کن اور دانائی کا حامل ہے۔ دیگر کلام یا مواد جسے متشابہات کہا گیا ہے، یعنی جسے قرآن کے متماثل قرار دیا جاتا ہے، قرآن کے علاوہ ہے،،،،، یعنی خارج از قرآن ذرائع پر مشتمل ہے ۔
یعنی ثابت ہوا کہ آج تک چلی آ رہی تفاسیر اور تراجم صرف اور صرف مسلمان کو گمراہ کرتی اور لا یعنی بحث و تکرار کا راستہ ہموار کرتی چلی آ رہی ہیں،،،،اور یہی اسلام اور مسلمان کے لیے عہدِ ملوکیت کا بدبو دار تحفہ اور میراث ہے ۔

اب آئیے تصریف الآیات کے مسلمہ اصول کے ذریعے اپنے مندرجہ بالا استنباط کی قرآن ہی سے بھرپور توثیق بھی کر لیتے ہیں ۔

ملاحظہ فرمائیے آیتِ مبارکہ 11/1 : الر‌ ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌
ترجمہ: یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی سب آیات فیصلہ کن اور دانائی کی حامل بنا دی گئی ہیں (احکمت) نیز بعد ازاں اس صاحبِ دانش اور باخبر ذات کی جانب سے تفصیل سے بیان بھی کر دی گئی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم سب اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگ جاؤ۔

کہیئے، کیا تصریف الآیات کے مسلمہ اصول کے ذریعے بات بالکل واضح نہیں ہو گئی؟
یہ اس ذاتِ پاک کا قطعی فیصلہ ہے کہ اس کتاب کی تمام آیات محکم ہیں ۔ لہذا کچھ کا محکم ہونا اور کچھ کا متشابہ ہونا قطعی غیر قرآنی استنباط ہے اور قرآن سے ہرگز ثابت نہیں ہے ۔

کیونکہ ساتھیوں کے اذہان میں کچھ دیگر سوالات بھی اُٹھ سکتے ہیں ، اس لیے بنیادی آیت کا مکمل ترجمہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے ۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
"وہی ہے جس نے آپ پر قوانین کا مجموعہ نازل فرمایا جس میں وہ آیات ہیں جو فیصلہ کن اور دانائی پر مبنی ہیں اور یہی سب (ھن) اس الکتاب کی بنیاد ہیں (ام الکتاب) ۔ اور اس کے علاوہ جو بھی دیگر مواد ہے ( و اُخر) وہ اس کے مماثل کہلانے کی جہت سےمبہم اور مشتبہ ہے ۔ پس وہ لوگ جن کے ذہنوں میں کجی پائی جاتی ہے ، وہ تو بہر حال اسی کا اتباع کریں گے جو اس الکتاب کے متماثل سمجھا جانے والا مبہم اور مشتبہ مواد ہے تاکہ فتنہ پھیلا نے کی خواہش پوری کی جائے اور اس کے ذریعےقرآنی آیات کی من مرضی کی تشریح کی جائے ۔ اور ان کی اُس تاویل/تشریح کو اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں وہ یہی موقف رکھیں گے کہ ہم توصرف اسی مواد پر یقین رکھتے ہیں جو تمام کا تمام ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا جاتا ہے ۔ اور یہ اصول صرف اصحاب علم و دانش ہی پیشِ نظررکھتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔"

اور اب آخر میں دونوں اہم الفاظ کا مستند ترجمہ :
شبہ : ش ب ہ ؛ shabaha : کسی کے جیسا ہونا، مشابہت ہونا، کسی کا حصہ بن جانا، نقل کرنا، نقل بنانا، مشترکہ اوصاف کا موازنہ کرنا؛ مبہم ہونا/مشتبہ ہونا/گمنام ہونا/الجھا دیا جانا؛ تقابل/مثال/ضرب المثال/درجےیا صفات میں مماثلت ہونا/باہم منطبق ہو سکنا۔ متشابہ؛ متشابہات : وہ اشیاء جو آپس میں مشابہت رکھ کر پریشانی ،ابہام اور اشتباہ پیدا کریں
= Shiin-Ba-ha = to be like, to resemble/assimilate/liken/imitate, to compare one thing with another due to an attribute connecting them or is common to them: can be real or ideal - real: "this dollar is like this dollar" ideal: "John is like the lion/ass (i.e. strength/stupidity)", appear like another thing, ambiguous/dubious/obscure, comparison/similitude/parable/simile, co similar, resemble (in quality or attributes), conformable.
With reference to the Quran is that of which the meaning is not be learned from its words and this is of two sorts: one is that of which the meaning is known by referring to what is termed "muhkam" and the other is that of which the knowledge of its real meaning is not attainable in any way or it means what is not understood without repeated consideration. (e.g. 3:7)
شّبہ لہ lie rendered it confused to himn [by nmaking it to appear like some other
thing]; (JS,' TA;)he rendered it ambiguous, dubious, or obscure, to him.

ح ک م : روک دینا، اختیار استعمال کرنا، حکم دینا، فیصلہ دینا، دانا ہونا۔ کسی کو غلط کام یا طریق سے روک دینا، سزا سنانا، قانونی فیصلہ کرنا، قانونی اختیار استعمال کرنا، دائرہ اختیار، حکومت، ملکیت، گورنمنٹ، علم اور دانائی کا حامل ہونا، کسی چیز کو ہنر کے استعمال سے نقائص سے پاک، مضبوط، محفوظ، آزاد کر دینا۔۔۔ محکم ؛ محکمات : کوئی بھی شے/اشیاء جو اختیار، مضبوطی، تحفظ کی حامل ہو، فیصلہ کن ہو، دانائی پر مبنی ہو، بے عیب ہو اور کاملیت کی حامل ہو
To restrain from, exercise authority, command, give judgment, judge, be wise. To restrain/prevent/withhold a person from acting in an evil or corrupt manner, to judge or give judgement, pass sentence, decide judicially, exercise judicial authority/jurisdiction/rule/dominion/government, order or ordain or decree a thing, to be wise, to be sound in judgement, possess knowledge or science and wisdom, render a thing firm/stable/sound/free from defect or imperfection by the exercise of skill

 

 

 

.

اورنگزیب یوسفزئی مئی 2014


قصرِ صلاۃ - سورۃالنساء


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر15

 

 

یہ جدید تحقیق سورۃ النساء کی ۱۰۱ سے ۱۰۴ آیات پر مشتمل ہے ۔ سیاق و سباق میں جاری جنگی کاروائیوں کا ذکر، مجاہدین کا کردار، ہجرتوں کا ذکر، اور پیچھے بیٹھے رہ جانے والوں کا ذکر ہے۔کیونکہ متن انہی موضوعات سے جڑا ہے اس لیے الفاظ و اصطلاحات کا ترجمہ بھی اسی تناظر میں، لیکن مادے کے بنیادی معنوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی کیا گیا ہے ۔یہ دراصل ہنگامی حالات میں اختیار کرنے والی سٹریٹجی کی ہدایات ہیں نیز پیچھے رہ جانے والوں کی جنگی تربیت اور تیاری مد نظر ہے۔
اس تحقیق کے پس منظر میں روایت پرستوں کی جانب سے عمومی طور پر کیا جانے والا یہ دعویٰ ہے کہ اس مقام سے "روایتی نماز" ثابت ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہاں متن سے اور سیاق و سباق سے کسی طرح بھی "نماز" کے مصنوعی ڈھونگ کا ایک شائبہ بھی نگاہِ بصیرت کے سامنے نہیں آتا ۔
عمومی تراجم کے مطابق اس مقام پر ایک جاری جنگ کو فرض کر لیا گیا ہے، جب کہ ایسا اشارہ کہیں بھی نہیں دیا گیا ۔ البتہ کافروں سے اچانک مڈ بھیڑ کے خطرے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہاں عین جنگ کے دوران "نماز" پڑھنے کی حماقت بھی فرض کر لی گئی ہے، جب کہ ایسا کوئی بھی نقشہ پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ آنیوالی جنگوں کے پیش نظر پیچھے رہ جانے والے مومنوں کو بھی جنگی تربیت دے کر تیار رہنے اور اقدامی اور دفاعی جنگ کی تربیت کی کچھ تفاصیل پیش کی گئی ہیں ۔ خود ہی ملاحظہ فرمالیں۔ آپ یقینا مطالعے کے بعد متفق ہو جائیں گے ۔

سورۃ النساء کی ۱۰۱ سے ۱۰۴ آیات
وَإِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُ‌وا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ إِنَّ الْكَافِرِ‌ينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَ‌ائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَ‌ىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَ‌هُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ‌ أَوْ كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَ‌كُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٠٢﴾ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾ وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْ‌جُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْ‌جُونَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٠٤﴾

ترجمہ:
۳/۱۰۱ : وَإِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُ‌وا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ إِنَّ الْكَافِرِ‌ينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾
جب تم کسی مہم کے لیے زمین کے سفر پر نکل پڑو اور اس مہم کے دوران تمہیں خوف ہو کہ کافرین تم کو کسی آزمائش میں نہ ڈال دیں تو تم پر کوئی گناہ یا ممانعت نہیں کہ تم خود حفاظتی کے اقدامات کرنے کی خاطر اپنے عمومی ڈسپلن [الصَّلَاةِ ] یعنی احکاماتِ الٰہی کی ہمہ وقت تبلیغ و ترویج ، کی پابندیوں کو محدود یا مختصر کر لیا کرو [تَقْصُرُ‌وا ]کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کافرین تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
۳/۱۰۲ : وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَ‌ائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَ‌ىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَ‌هُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ‌ أَوْ كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَ‌كُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٠٢﴾
اور اے نبی اگر تم ان پیچھے رہ جانےوالوں کے درمیان موجود ہو [ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ ] {جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے}اور ان کے لیے اتباعِ احکامِ الٰہی کا ڈسپلن قائم کرنے کا ارادہ کیا ہو [فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ] ، تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ باری باری ان میں سےایک گروہ تمہارے ساتھ اس تربیت کے لیے قیام کیاکرے [فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ ]، اور یہ گروپ اپنے ہتھیار بھی سنبھالے رکھے ۔ تاکہ جب یہ ڈسپلن کی مکمل اطاعت اختیار کر لے [فَإِذَا سَجَدُوا ] تو یہ تمہارے پیچھے تمہاری نفری کے ساتھ شامل ہو جائے اور دوسرا گروپ جو ابھی نظام کے تابع نہیں ہوا [لَمْ يُصَلُّوا ]، سامنے آ جائے۔ پس یہ بھی تمہارے زیر ِ تربیت ڈسپلن کا اتباع و اطاعت اختیار کرے اور ہوشیار و خبردار ہو کر مسلح ہو جائے [وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَ‌هُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ]۔
یہ یاد رہے کہ کافرین تو ہمیشہ اس تاک میں رہینگے کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز و سامان سے غافل ہو جاو، تو تم پر ایک ہی بار بڑا ہلہ بول دیں۔ پس اس تربیت کی رُو سے تم پر کچھ ممانعت نہیں کہ اگر لڑائی کے دوران تمہیں فضاء سے ہتھیاروں کی بوچھار [مَّطَرٍ‌] کی مشکل کا سامنا ہو جائے[بِكُمْ أَذًى ]یا اگر تم دیگر امور میں سے کسی میں کمزوری کا سامنا کر رہے ہو[كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ]، تو اپنے ہتھیار رکھ کر اپنے بچاو اور تحفظ کے اقدامات اختیارکر لیا کرو [وَخُذُوا حِذْرَ‌كُمْ ] ۔ اللہ نے کافروں کے لیے بہر حال ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
۳/۱۰۳ :: فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾
جب تم اپنے اپنے فرائض ِ منصبی ادا کر چکے ہو [قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ ]تو پھراللہ کے احکامات کی یاد دہانی ہمہ وقت اور ہر جانب کرنا شروع کر دو۔ پھر جب تم بالآخر امن و اطمینان کی حالت میں واپس آ جاو [ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ ]تو پھر سےاحکاماتِ الٰہی کی تبلیغ و ترویج کے پورے ڈسپلن کی پیروی کے معمول پر واپس آ جایا کرو [فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ]کیونکہ اس ڈسپلن کی پیروی مومنین پر ایک لازمی اور مقرر کردہ فریضہ ہے [كِتَابًا مَّوْقُوتً] ۔
۳/۱۰۴ :وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْ‌جُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْ‌جُونَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٠٤﴾
دشمن قوم کا پیچھا کرنے میں سستی اور کمزوری نہ دکھایا کرو ۔ کیونکہ اگر تمہیں نقصانات سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی تمہاری مانند نقصانات کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔ البتہ تمہاری فضیلت یہ ہے کہ تم اللہ سے وہ کچھ حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہو جو ان کے نصیب میں نہیں ہے ۔یہ ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ ان تمام امور کا علم رکھنے والا اور بڑی دانائی کا مالک ہے ۔

اب اہم الفاظ کے مستند تراجم :

[الصَّلَاةِ ]: احکامات کی پیروی ، تبلیغ و ترویج؛ فرائض کی بجا آوری؛ اطاعت و اتباعِ احکاماتِ الٰہی ؛ فرائضِ منصبی جو اللہ کی جانب سے یا اسلامی حکومت کی جانب سے عائد ہوں ۔ ایسے فرائض کا ایک مربوط ڈسپلن ۔
[تَقْصُرُ‌وا ]: قصر : چھوٹا کر لینا؛ مختصر کر لینا؛ رُک جانا؛ باز آ جانا؛ ترک کر دینا؛ ختم کر دینا؛ محدود/قید/پابند کر دینا؛ حدود کے اندر سمیٹ دینا؛ روک لینا؛ بڑا اور وسیع گھر، محل، قلعہ۔
[وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ ]: یہاں "ھم" کی ضمیر پیچھے ذکر کیے گئے قٰعدین یعنی جہاد سے بیٹھے رہ جانے والوں کی جانب ہے۔
[فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ]: تم ان کے لیے جنگی نظم و ضبط کا ڈسپلن قائم کرو
[فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ]: پس ان میں سے ایک گروپ تمہارے ساتھ تربیت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
[فَإِذَا سَجَدُوا ] : س ج د : اطاعت میں عاجزی اور خود سپردگی اختیار کر لینا۔
[لَمْ يُصَلُّوا]: انہوں نے پیروی اختیار نہیں کی؛ وہ نظام کے تابع نہیں ہوئے۔
[وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَ‌هُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ]: حذر: تنبیہ لینا؛ ہوشیار ہونا؛ خبردار ہونا؛ خیال کرنا؛ حفاظت کرنا؛ خو دکو تیار کرنا؛ غصہ میں آنا۔
[مَّطَرٍ‌]: جو کچھ بھی رحمت کے طور پر یا سزا کے طور پر برسے یا بھیجا جائے ؛ بارش؛ اوپر سے گرنے والا شاور؛ بوچھاڑ ؛ [یہاں مراد تیروں یا آتش کی بارش یا بوچھاڑ]؛ مطرھم شر= ان پر برائی یا عذاب برس پڑا۔
مطرنی بخیر: اس نے مجھ پر نیکی کی ۔ امطرھم اللہ: اللہ نے ان پر مشکل نازل کی ۔ امطر اللہ السماء: اللہ نے آسمان سے پانی برسایا۔ مستیطر: وہ جس سے رحمتیں اورنعمتیں مانگی جائیں، یعنی جو فطرتا رحم اور انعامات عطا کر نے والا ہو۔
[بِكُمْ أَذًى ]؛ تمہیں تکلیف کا سامنا ہو۔
[كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ]: مرض : کسی بھی جسمانی یا انتظامی یا نفسیاتی یا علمی کمزوری/کمی کا سامنا۔
[وَخُذُوا حِذْرَ‌كُمْ ] : تم اپنی حفاظت کے لیے تنبیہ یا اقدام لے لو۔
[قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ ]: تم نے اپنےفرائضِ منصبی ادا کر لیے۔
[ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ ]: جب تم حالتِ اطمینان اور امن میں آ جاو ۔
[فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ]: پھر احکامات بجا لانے/فرائض ادا کرنے کا ڈسپلن قائم کرو۔
[كِتَابًا مَّوْقُوتً] : مقرر کردہ، عائد کردہ، فریضہ۔
[مَوَاقِيتُ]:واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔

اور اب آخر میں رواں ترجمہ :
جب تم کسی مہم کے لیے زمین کے سفر پر نکل پڑو اور اس مہم کے دوران تمہیں خوف ہو کہ کافرین تم کو کسی آزمائش میں نہ ڈال دیں تو تم پر کوئی گناہ یا ممانعت نہیں کہ تم خود حفاظتی کے اقدامات کرنے کی خاطر اپنے عمومی ڈسپلن ، یعنی احکامات الٰہی کی ہمہ وقت تبلیغ و ترویج ، کی پابندیوں کو محدود یا مختصر کر لیا کرو کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کافرین تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
اور اے نبی اگر تم ان پیچھے رہ جانےوالوں کے درمیان موجود ہو {جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے}اور ان کے لیے اتباعِ احکامِ الٰہی کا ڈسپلن قائم کرنے کا ارادہ کیا ہو ، تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ باری باری ان میں سےایک گروہ تمہارے ساتھ اس تربیت کے لیے قیام کیاکرے، اور یہ گروپ اپنے ہتھیار بھی سنبھال لے ۔ تاکہ جب یہ ڈسپلن کی مکمل اطاعت اختیار کر لے تو یہ تمہارے پیچھے تمہاری نفری کے ساتھ شامل ہو جائے اور دوسرا گروپ جو ابھی نظام کے تابع نہیں ہوا، سامنے آ جائے۔ پس یہ بھی تمہارے زیر ِ تربیت ڈسپلن کا اتباع و اطاعت اختیار کرے اور ہوشیار و خبردار ہو کر مسلح ہو جائے ۔
یہ یاد رہے کہ کافرین تو اس تاک میں رہینگے کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز و سامان سے غافل ہو جاو، تو تم پر ایک ہی بار بڑا ہلہ بول دیں۔ پس اس تربیت کی رُو سے تم پر کچھ ممانعت نہیں کہ اگر لڑائی کے دوران تمہیں فضاء سے ہتھیاروں کی بوچھار کی مشکل کا سامنا ہو جائےیا اگر تم دیگر امور میں سے کسی میں کمزوری کا سامنا کر رہے ہو، تو اپنے ہتھیار رکھ کر اپنے بچاو اور تحفظ کے اقدامات اختیارکر لیا کرو ۔ اللہ نے کافروں کے لیے بہر حال ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
جب تم اپنے اپنے فرائض ِ منصبی ادا کر چکے ہو تو پھراللہ کے احکامات کی یاد دہانی ہمہ وقت اور ہر جانب کرنا شروع کر دو۔ پھر جب تم بالآخر امن و اطمینان کی حالت میں واپس آ جاو تو پھر سےاحکاماتِ الٰہی کی تبلیغ و ترویج کے پورے ڈسپلن کی پیروی کے معمول پر واپس آ جایا کرو کیونکہ اس ڈسپلن کی پیروی مومنین پر ایک لازمی اور مقرر کردہ فریضہ ہے ۔ دشمن قوم کا پیچھا کرنے میں سستی اور کمزوری نہ دکھایا کرو ۔ کیونکہ اگر تمہیں نقصانات سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی تمہاری مانند نقصانات کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔ البتہ تمہاری فضیلت یہ ہے کہ تم اللہ سے وہ کچھ حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہو جو ان کے نصیب میں نہیں ہے ۔یہ ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ ان تمام امور کا علم رکھنے والا اور بڑی دانائی کا مالک ہے ۔

اورنگزیب یوسفزئی اپریل ۲۰۱۴


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 14


سورۃ احزاب کے جزوی ترجمے کا سپلیمنٹ

 


قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔


پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔


،۔،۔،۔،۔،۔،۔،


قصہ نبی [ص] کی شادی کا حضرت زید نامی مبینہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے ، ان کی طلاق ہو جانے کے بعد۔
فی الحقیقت، ان آیات کا موضوع ہے "اللہ کے احکامات پر بلا چون و چرا اور بلا خوف و ہچکچاہٹ عمل کی بجا آوری"۔ اب اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے آیاتِ مبارکہ کا با محاورہ ادبی اسلوب میں ترجمہ جسے کسی بحث و تشریح کی حاجت نہیں ۔
آیت: ۳۳/۳۶
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
قیامِ امن کے ذمہ دار افراد یا جماعت کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ جب حکومتِ الٰہیہ کی جانب سےکوئی حکم [أَمْرًا] صادر ہو جائے [قَضَى ] تو اس حکم کے نفاذ میں ذاتی مفاد ات کے پیشِ نظر کوئی متبادل راہ یا ترجیحات یا پسند ناپسند [لَهُمُ الْخِيَرَةُ] کو اختیار کیا جائے ۔ یعنی جو کوئی بھی اس انداز میں حکومتِ الٰہیہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے تو سمجھو کہ وہ دراصل ایک کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا ۔


آیت : ۳۳/۳۷
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور اس ضمن میں یاد کرو وہ معاملہ جب تم نے ایک ایسے شخص کے لیے ہدایت جاری کی تھی جس پر اللہ کی اور تمہاری جانب سے مہربانیاں اور عنایات کی گئی تھیں، یعنی بڑا مرتبہ ومنصب عطا کیا گیا تھا، کہ اپنے ساتھی ، یعنی اپنی شریکِ کار جماعت[ زَوْجَك]کو اپنے ساتھ متحد رکھو [أَمْسِكْ ]تاکہ تم اللہ کے قوانین کے معاملے میں ایک محتاط اور دور اندیشانہ رویہ [وَاتَّقِ اللَّهَ ]اختیار کرسکو۔ تم نے اسے کہا تھا کہ تم کیوں ایسے امور اپنے باطن میں چھپاتے ہو جنہیں اس کے برعکس اللہ تعالی ظاہر کرکے روشنی میں لاتا ہے[مُبْدِيهِ ]، اور ایسا تم اس بنا پر کرتے ہو کہ تم انسانوں کے ردعمل سے خائف ہوتے ہو۔ تم نے اس پر واضح کیا تھا کہ انسانوں سے مت ڈرو کیونکہ یہ تو صرف اللہ کا حق ہے کہ اسی سے ڈرا جائے ۔ اور یہ کہ ، جب یہ فیصلہ ہو گیا تھاکہ جماعت میں موجودہ سطح سے زیادہ اضافہ کرنا [زَيْدٌ ]ایک لازمی ضرورت [وَطَرًا ]بن گیا ہے، تو ہم نے تمہیں اسی ساتھی جماعت کے ساتھ جوڑ دیا تھا [زَوَّجْنَاكَهَا ]تاکہ امن کے ذمہ داروں کو اپنی جماعت کے ساتھ منسوب ہونے کے دعویداروں کو [أَدْعِيَائِهِمْ ]اپنی جماعت میں شامل کرنے میں[فِي أَزْوَاجِ ]کوئِ اندیشہ یا ہچکچاہٹ [حَرَج]نہ محسوس ہو ، اگر وہ اپنی ضرورت کے تحت [وَطَرًا ]یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر چکے ہوں ۔ا ور اس طرح اللہ کے حکم پر راست عمل درآمد ہو جائے۔


آیت : ۳۳/۳۸
مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
اللہ تعالیٰ نے نبی کے لیے ، یا کسی بھی بلند مقام پر فائز مجاز اتھارٹی کے لیے[النَّبِيِّ ]، جو فرائض مقرر فرما دیے ہیں ایسے فرائض کی ادائیگی میں انہیں کوئی اندیشہ یا مشکل محسوس کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسے فرائض تفویض فرمانا ،ان لوگوں کے معاملے بھی جو ما قبل زمانوں میں گذر چکے ہیں، اللہ کا طریقِ کار [سُنَّةَ اللَّهِ] رہا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ کا حکم ایک ایسا قانون ہوتا ہے جو ہمیشہ ایک لازمے کے طور پر پورا ہو کر رہتا ہے ۔
بریکٹ شدہ الفاظ کے مستند معانی :


[قَضَى ] : فیصلہ ہو گیا: فیصلہ کا وقت آ گیا ۔ [الْخِيَرَةُ] : ترجیح، چوائس، اختیار، چننے کا حق، دیگر متبادل

[ زَوْجَك]: تیرا ساتھی، جماعت، لوگ، میاں، بیوی۔ [أَمْسِكْ ]: پیوستہ رہنا، پکڑ لینا، متحد رہنا، ساتھ رہنا
[َاتَّقِ اللَّهَ ] : اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرنا؛ محتاط اور پرہیز گاری کا رویہ رکھنا
[مُبْدِيهِ]: مبدی: وہ جو منکشف کر دے، کھول دے، روشنی ڈال دے، واضح اور ظاہر کر دے۔
[زَيْدٌ ]: اضافہ، بڑھوتری، زیادتی، فالتو ہونا ۔ [وَطَرًا ]: لازمہ، ضرورت، مقصد، ہدف جو نظر میں ہو، احتیاج۔
[زَوَّجْنَاكَهَا ]: ہم نے تمہیں اس کے ساتھ متحد کر دیا، ملا دیا ۔ [أَدْعِيَائِهِمْ ]: تمہارے وہ لوگ جو تمہارے ساتھ ہونے کا دعوی کریں؛ الادعاۃ: کسی چیز کے متعلق دعوی کرنا کہ میرے ہے؛ خود کومنسوب کرنا کہ میں فلاں قوم سے ہوں، یا فلاں کا بیٹا ہوں؛ بلانا، طلب کرنا، خواہش کرنا۔
[فِي أَزْوَاجِ ]: متحد کرنے میں، کے ضمن میں، ساتھیوں میں ۔ [حَرَج] :تنگی، مشکل، اندیشہ، ممنوع
[سنۃ اللہ]: اللہ کا طریق کار ۔ [نبی]: نبو: ایسے بلند مقام پر فائز جہاں عوام الناس کو راہ دکھانا فرضِ منصبی ہو ۔
اور اب وہی ترجمہ رواں انداز میں :
قیامِ امن کے ذمہ دار افراد یا جماعت کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ جب حکومتِ الٰہیہ کی جانب سےکوئی حکم صادر ہو جائے تو اس حکم کے نفاذ میں ذاتی مفاد ات کے پیشِ نظر کوئی متبادل راہ یا ترجیحات یا پسند ناپسند کو اختیار کیا جائے ۔ یعنی جو کوئی بھی اس انداز میں حکومتِ الٰہیہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے تو سمجھو کہ وہ دراصل ایک کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا ۔
اور اس ضمن میں یاد کرو وہ معاملہ جب تم نے ایک ایسے شخص کے لیے ہدایت جاری کی تھی جس پر اللہ کی اور تمہاری جانب سے مہربانیاں اور عنایات کی گئی تھیں، یعنی بڑا مرتبہ و منصب عطا کیا گیا تھا، کہ اپنے ساتھی ، یعنی اپنی شریکِ کار جماعت کو اپنے ساتھ متحد رکھو تاکہ تم اللہ کے قوانین کے معاملے میں ایک محتاط اور دور اندیشانہ رویہ اختیار کرسکو۔ تم نے اسے کہا تھا کہ تم کیوں ایسے امور اپنے باطن میں چھپاتے ہو جنہیں اس کے برعکس اللہ تعالی ظاہر کرکے روشنی میں لاتا ہے،اور ایسا تم اس بنا پر کرتے ہو کہ تم انسانوں کے ردعمل سے خائف ہوتے ہو۔ تم نے اس پر واضح کیا تھا کہ انسانوں سے مت ڈرو کیونکہ یہ تو صرف اللہ کا حق ہے کہ اسی سے ڈرا جائے ۔ اور یہ کہ ، جب یہ فیصلہ ہو گیا تھاکہ جماعت میں موجودہ سطح سے زیادہ اضافہ کرنا ایک لازمی ضرورت بن گیا ہے، تو ہم نے تمہیں اسی ساتھی جماعت کے ساتھ جوڑ دیا تھا تاکہ امن کے ذمہ داروں کو اپنی جماعت کے ساتھ منسوب ہونے کے دعویداروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں کوئِ اندیشہ یا ہچکچاہٹ نہ محسوس ہو ، اگر وہ اپنی ضرورت کے تحت یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر چکے ہوں، ا ور اس طرح اللہ کے حکم پر راست عمل درآمد ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کے لیے ، یا کسی بھی بلند مقام پر فائز مجاز اتھارٹی کے لیے، جو فرائض مقرر فرما دیے ہیں ایسے فرائض کی ادائیگی میں انہیں کوئی اندیشہ یا مشکل محسوس کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسے فرائض تفویض فرمانا ،ان لوگوں کے معاملے بھی جو ما قبل زمانوں میں گذر چکے ہیں، اللہ کا طریقِ کار رہا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ کا حکم ایک ایسا قانون ہوتا ہے جو ہمیشہ ایک لازمے کے طور پر پورا ہو کر رہتا ہے ۔

نوٹ:
یہاں دورِ اول کے یہودی علماء کی گہری سازش نوٹ فرمائیے، کہ ان آیات ِ کریمہ میں مضمر حکومتِ الٰہیہ کو مضبوط بنیادوں پر چلانے کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے کی ہدایات کو مسخ کرنے کے مذموم مقاصد کے لیے زید نامی ایک کردار گھڑا گیا، اس کا وجود ثابت کرنے کے لیے روایات گھڑی گئیں، انہیں احادیث کے مجموعے میں شامل کیا گیا، جہاں سے پھر یہی مواد تواریخ میں داخل کیا گیا ۔ ان کہانیوں میں زید نامی فرضی کردار کو آپ [ص] کا متبنہ قرار دیا گیا؛ اس کی بیوی کو حضور کی کزن قرار دیا گیا؛ حضور کو اس کزن پر عاشق کروایا گیا؛ زید سے اس فرضی خاتون کو طلاق دلوائی گئی؛ اور بالآخر آپ[ص] کی ایک مزید اور شادی اس خاتون سے کروا دی گئی ۔ اور تشہیر اس امر کی کی گئی کہ یہ عمل منہ بولے بیٹے کی سابقہ بیوی سے شادی کو جائز قرار دیے جانے کے لیے سر انجام دیا گیا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔العیاذ باللٰہ۔

اورنگزیب یوسفزئی مارچ ۲۰۱۴


قصہ حضرت یونس علیہ السلام اور مچھلی کے پیٹ کا


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر12

 

 

آئیے عقلی اور علمی تراجم کے سلسلے کی اس قسط میں اب قرآنِ عظیم میں بیان کیے گئے حضرت یونس کے احوال کو اس کی حقیقی روشنی میں دریافت اور بیان کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ اس ضمن میں ذہنوں پر زمانہِ قدیم سے چھائے ہوئے وہ طلسماتی تراجم باطل قرار دیے جا سکیں جو اولین عہد میں سازشانہ کوششوں پر مبنی تھے ، اور بعد ازاں اندھی تقلید اور پیرویِ اسلاف کے طرزِ عمل پر کاربند رہنے کی بنا پر ہماری موجودہ نسل تک متوارث طور پر پہنچے ۔
اس کاوش میں بھی قرآنِ حکیم کا علمی و ادبی اسلوبِ عالی بعینہی اردو زبان میں منتقل کرنے کی کڑی اور غیر متزلزل جدو جہد کی گئی ہے، تاکہ اس الہامی وثیقے سے وفاداری کا حق ادا کیا جا سکے ۔ نیز ترجمہ اس جہت سے کیا گیا ہے کہ سیاق و سباق ہی کی پیروی ہو، تسلسل قائم رہے، الفاظ کے بنیادی [Root]معانی برقرار رہیں، اور ان سب سے بڑھ کر قرآن کے تعمیرِ کردار کے حقیقی ڈسپلن کی روح قائم و دائم رہے ۔نیز قصص الانبیاء اور تورات سے لیے گئے ماوراء العقل افسانوں کا عقلیت پسندی کی بنیاد پر کامیاب سدِباب کر دیا جائے ۔
ہمیشہ کی مانند یہ ترجمہ بھی ایک عاجزانہ کوشش ہی ہے ۔ اس ضمن میں اختلافی آراء کو خوش آمدید کہا جائیگا بشرطیکہ وہ سند کے ساتھ شعوری بنیاد پر پیش کی جائیں اور مقصد ایک اجتماعی اور متفقہ لائحہ عمل کو ترقی دینا ہو ۔
پہلے متعلقہ آیاتِ مبارکہ پیش کر دی جاتی ہیں ، پھر ان کا مرحلہ وار جدید عقلی ترجمہ پیش ِ خدمت کرنے کے ساتھ آخر میں سند کے طور پر تمام اہم الفاظ و اصطلاحات کے وہ معانی دیے جائیں گے جو لگ بھگ چودہ مستند اور مشہورِ عالم عربی لغات کی تحقیق کے بعد اخذ کیے گئے ہیں ۔
یہ امر یہاں بیان کرنا از حد ضروری ہے کہ اس جدید ترجمے کی کوشش کا محرک اور باعث ِ فیض محترم پروفیسر عبد الرزاق [مرحوم] کا منفرد عقلیت پر مبنی ترجمہ ہے ۔ مرحوم زندگی کےآخری دور میں [یا شاید زمانہِ ما قبل میں بھی] ادارہ بلاغ القرآن سے وابستہ رہے اور اپنے علم و فضل ، روشن خیالی اور عقلیت پرستی کے لیے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں ۔ اللہ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور بلند ترین درجات عطا فرمائے ۔
تو آئیے اللہ کے پاک نام سے اس پرخلوص کاوش کا آغاز کرتے ہیں ۔
آیت: ۶/۸۶
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾
اور اسماعیل اور یوشع اور یونس اور لوط، ان سب حضرات کو ہم نے ہم عصر انسانوں پر، شعوری ارتقاء کےضمن میں، افضلیت کا درجہ عطا کیا۔
آیت: ۲۱/۸۷-۸۸
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فی الظلمات أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾
اور یاد کرو [الہامی دانش کے مالک] یونس کو جب وہ مایوسی کے غلبے کی بنا پر برافروختگی کے عالم میں[مُغَاضِبًا] اپنے لوگوں سے رشتہ منقطع کر کے ہجرت کر گئے اور کچھ ایسا قیاس کرنے لگے کہ گویا ہم ان کی قدر و قیمت یا بلند مقام کا خیال نہیں رکھیں گے [لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ]، تو پھر اسی عالم میں مایوسی کے اندھیروں میں [فی الظلمات] انہوں نے پکارا کہ میرے رب تیرے سوا کوئی اختیار کا مالک نہیں ۔ تُو ذاتِ مطلق و کامل اور پاک و بلند مرتبہ ہے [سُبْحَانَكَ]۔ بیشک میری حالت اندھیروں میں بھٹکنے والے کی سی ہو گئی ہے ۔
فاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾
تب ہم نے ان کی پکار کا جواب دیا اور انہیں غم و اندوہ کی حالت سے نجات عطا کر دی ۔ ہم اسی کے مانند اہلِ امن و ایمان کو کامیاب کرتے ہیں۔
آیت: ۳۷/۱۳۹-۱۴۸
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٣٩﴾
اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت یونس پیغمبروں میں سے تھے ۔
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿١٤٠﴾
جب انہیں ہجرت کر کے ایک بلندی پر واقع کھلے قطع زمین [الْفُلْكِ] کی طرف جانا پڑا [أَبَقَ] جو آبادی سے بھرا پڑا تھا [الْمَشْحُونِ]۔
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ﴿١٤١﴾
انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سخت جدوجہد کی تھی [فَسَاهَمَ] لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا [الْمُدْحَضِينَ]۔
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿١٤٢﴾
پھر بھی ان کے مشن پر ان کے گہرے ارتکاز [الْحُوتُ] نے انہیں پوری گرفت میں [فَالْتَقَمَهُ] لے رکھا تھا اور وہ خود کو ملامت کرنے پر مائل تھے [ملیم]۔
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤٤﴾
پس اگر وہ اپنے مشن کے معاملے میں پورے وسائل کے ساتھ جدوجہد کرنیوالے [الْمُسَبِّحِينَ] نہ ہوتے تو وہ ان کےحیاتِ نو پانے کے وقت تک [إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ] ان ہی کے درمیان [فِي بَطْنِهِ] پڑے رہتے [لَلَبِثَ]۔
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَ‌اءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ﴿١٤٥﴾
اسی حقیقت کے پیش نظر ہم نے انہیں ان کے لوگوں سے منقطع کر کے [فَنَبَذْنَاهُ] ایک فراخ سرزمین پر[بِالْعَرَ‌اءِ] پہنچا دیا جب کہ وہ ناخوش و بیزار تھے [سَقِيمٌ]۔
وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَ‌ةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿١٤٦﴾
اور پھر ہم نے ان کے لیے ثمرات سے بھرپور پودے پیدا کر دیے ۔
وَأَرْ‌سَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ﴿١٤٧﴾
یعنی انہیں لاکھ سے بھی زائد لوگوں پر رسول بنا دیا ۔
فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿١٤٨﴾
پھر وہ سب ایمان بھی لے آئے، تو ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لیے اسبابِ زندگی سے مالا مال کر دیا ۔
آیت: ۶۸/۴۸-۵۰
فَاصْبِرْ‌ لِحُكْمِ رَ‌بِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿٤٨﴾
پس تم بھی، اے رسول، اللہ کے حکم پر استقامت کے ساتھ جمے رہو، اور صاحب الحوت، یعنی یونس علیہ السلام کی مانند مایوس مت ہو جیسا کہ جب انہوں نے ہمیں پکارا تو وہ سخت دباو کی[مَكْظُومٌ] حالت میں تھے۔
لَّوْلَا أَن تَدَارَ‌كَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَ‌اءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴿٤٩﴾
پھر اگر ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر عنایت نہ ہوجاتی تو وہ وسیع میدان میں پڑے رہ جاتے اور احساس مذمت کا شکار رہتے [مَذْمُومٌ]۔
فَاجْتَبَاهُ رَ‌بُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٥٠﴾
مگر ان کے پروردگار نے ان کی طرف توجہ کی اور انہیں ایک عظیم مصلح کا درجہ عطا کیا ۔
آیت: ۱۰/۹۸
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْ‌يَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٩٨﴾
تو پھر یونس کی قوم کے علاوہ بھی کوئی اور بستی ایسی کیوں نہ ہوتی کہ ایمان لے آتے اور ان کا ایمان انہیں منفعتیں عطا کردیتا، کیونکہ جب یونس کی قوم ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تو ہم نےان پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کو دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں اسبابِ زندگی سے مالا مال رکھا۔
اور اب رواں ترجمہ :
اور اسماعیل اور یوشع اور یونس اور لوط، ان سب حضرات کو ہم نے ہم عصر انسانوں پر، شعوری ارتقاء کےضمن میں، افضلیت کا درجہ عطا کیا۔
اور یاد کرو [الہامی دانش کے مالک] یونس کو جب وہ مایوسی کے غلبے کی بنا پر برافروختگی کے عالم میں اپنے لوگوں سے رشتہ منقطع کر کے ہجرت کر گئے اور کچھ ایسا قیاس کرنے لگے کہ گویا ہم ان کی قدر و قیمت یا بلند مقام کا خیال نہیں رکھیں گے- تو پھر اسی عالم میں مایوسی کے اندھیروں میں انہوں نے پکارا کہ میرے رب تیرے سوا کوئی اختیار کا مالک نہیں ۔ تُو ذاتِ مطلق و کامل اور پاک و بلند مرتبہ ہے۔ بیشک میری حالت اندھیروں میں بھٹکنے والے کی سی ہو گئی ہے ۔ تب ہم نے ان کی پکار کا جواب دیا اور انہیں غم و اندوہ کی حالت سے نجات عطا کر دی ۔ ہم اسی کے مانند اہلِ امن و ایمان کو کامیاب کرتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت یونس پیغمبروں میں سے تھے ۔ جب انہیں ہجرت کر کے ایک بلندی پر واقع کھلے قطع زمین کی طرف جانا پڑا جو آبادی سے بھرا پڑا تھا ۔ انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سخت جدوجہد کی تھی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پھر بھی ان کے مشن پر ان کے گہرے ارتکاز نے انہیں پوری گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ خود کو ملامت کرنے پر مائل تھے ۔
پس اگر وہ اپنے مشن کے معاملے میں پورے وسائل کے ساتھ جدوجہد کرنیوالے نہ ہوتے تو وہ ان کےحیاتِ نو پانے کے وقت تک ان ہی کے درمیان پڑے رہتے - اسی حقیقت کے پیش نظر ہم نے انہیں ان کے لوگوں سے منقطع کر کے ایک فراخ سرزمین پر پہنچا دیا جب کہ وہ ناخوش و بیزار تھے۔
اور پھر ہم نے ان کے لیے ثمرات سے بھرے پودے پیدا کر دیے ۔ یعنی انہیں لاکھ سے بھی زائد لوگوں پر رسول بنا دیا ۔ پھر وہ سب ایمان بھی لے آئے، تو ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لیے اسبابِ زندگی سے مالا مال کر دیا ۔
پس تم بھی، اے رسول، اللہ کے حکم پر استقامت کے ساتھ جمے رہو، اور صاحب الحوت، یعنی یونس علیہ السلام کی مانند مایوس مت ہو جیسا کہ جب انہوں نے ہمیں پکارا تو وہ سخت دباو کی حالت میں تھے۔ پھر اگر ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر عنایت نہ ہوجاتی تو وہ وسیع میدان میں پڑے رہ جاتے اور احساس مذمت کا شکار رہتے۔ مگر ان کے پروردگار نے ان کی طرف توجہ کی اور انہیں ایک عظیم مصلح کا درجہ عطا کیا ۔
تو پھر یونس کی قوم کے علاوہ بھی کوئی اور بستی ایسی کیوں نہ ہوتی کہ ایمان لے آتے اور ان کا ایمان انہیں منفعتیں عطا کردیتا، کیونکہ جب یونس کی قوم ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تو ہم نےان پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کو دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں اسبابِ زندگی سے مالا مال رکھا۔
بریکٹ میں دیے گئے اہم الفاظ کے مستند معانی :
[مُغَاضِبًا] : غصہ میں ہونا، wrath, rage, indignation, angry, irritated, furious
[لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ]: ہم اس کی صحیح قدر و اہمیت نہیں کرتے یا جانتے ۔
[فی الظلمات] : تاریکی میں ، اندھیروں میں، مایوسی اور ظلم کا اندھیرا۔
[سُبْحَانَكَ]: نُو ذاتِ مطلق و کامل ہے؛ تمام کمیوں اور نقائص سے پاک اور بلند ہے۔
[الْفُلْكِ] : زمین کا وسیع قطعہ یا میدان، زمین کے قطعے جو دائرے میں ہوں اور بلند سطح کے حامل ہوں؛ کشتی ، جہاز۔
[أَبَقَ] : بچ کر نکل جانا؛ بھاگ جانا؛ run away, to escape
[الْمَشْحُونِ] : لوڈ کیا ہوا، چارج کیا ہوا، بھرا ہوا ۔ ایک بھری ہوئِ آبادی یا شہر، بھرا ہوا جہاز یا گھر، یا کمرہ، وغیرہ۔
[فَسَاهَمَ] : سھم؛ کسی کام کے لیے سخت کوشش کرنا، سنجیدہ کوشش کرنا؛ تیر چلانا، مقابلہ کرنا ۔
[الْمُدْحَضِينَ] : شکست خوردہ؛ ہارا ہوا، loser, suffered defeat
[الْحُوتُ] : کسی مرکز کے گرد مرکوز ہونا؛ دائروں میں گھومنا، تعلیمات یا مقاصد پر توجہ مرتکز کرنا؛ مچھلی؛ مچھلی کا گول گول گھومنا۔
[فَالْتَقَمَهُ] : لقم؛ لقمہ بھرکر منہ میں ڈال لینا؛ جبڑوں کی پکڑ میں یا گرفت میں لے لینا۔مضبوطی سے چاروں طرف سے جکڑ لینا۔
[ملیم] : ملامت زدہ ہونا ۔ ذلت محسوس کرنا ۔
[الْمُسَبِّحِينَ] : وہ جو کسی مقصد کے لیے پوری طاقت سے؛ پورے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کوشش کریں ۔ جیسے تیراک کرتا ہے ۔ سبح: وہ تیرا، اس نے پوری جدوجہد کی، کاوش اور کوشش کی ۔
[إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ] : بعث : ازسرِ نو کھڑے ہو جانا : حیاتِ نو مل جانا ؛ آخرت کی زندگی ؛ مبعوث ہونا ۔
[فِي بَطْنِهِ] : اس کے درمیان میں؛ اس کے پیٹ میں؛
[لَلَبِثَ]: رہنا، زندگی گزارنا،
[فَنَبَذْنَاهُ] : نبذ : لوگوں سے منقطع ہو کر ایک طرف چلے جانا؛ گوشہ نشین ہونا ۔ چیز کو در خور اعتناء نہ سمجھ کر پھینک دینا؛ throw away, discard, reject, resign, surrender
[بِالْعَرَ‌اءِ] : فراخ میدان میں ؛ چٹیل میدان میں ۔
[سَقِيمٌ] : سقم : مرض، کمی، کمزوری، ناخوش اور بیزار ؛ diseased/disordered/distempered/sick/poor/faulty, etc.
[مَكْظُومٌ] : سخت دباو کی حالت میں؛ دکھ، مایوسی، خاموش، غم سے گھٹا ہوا آدمی۔
[مَذْمُومٌ] : مذمت؛ قابلِ مذمت؛ ذمہ داری پوری نہ کرنا ؛ discredited, blamed, reviled, reproved, forsaken

اورنگزیب یوسفزئی اپریل 2014


سورۃ التین


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 11

 

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

ٹھوس تحقیق کی بنیاد پر کیے گئے جدید عقلی تراجم کے سلسلے میں اب سورۃ التین کا ترجمہ
سورۃ التین: ۹۵
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ‌ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿٣﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾ ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ ﴿٧﴾ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
۹۵/۱ – ۹۵/۳ : وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ وَطُورِ‌ سِينِينَ ﴿٢﴾ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے کی [وَطُورِ‌ سِينِينَ ]جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی [الْبَلَدِ الْأَمِينِ ]جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے،
۹۵/۴: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔
۹۵/۵: ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔
۹۵/۶: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔
۹۵/۷: فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ نظامِ زندگی [ضابطہِ حیات] کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟
۹۵/۸: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾
تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
اور اب رواں ترجمہ :
قسم ہے انجیر اور زیتون جیسی نعمتوں کی، اور شان و شوکت ، نام و نمود والے اس مرحلے جہاں تم پہنچ چکے ہو، اور قسم ہےاس مامون و محفوظ کیے گئے خطہءِ زمین کی جو اب تمہیں حاصل ہو چکاہے، کہ ہم نے توانسان کی تخلیق بہترین ترتیب و توازن کے ساتھ انجام دی تھی ۔
لیکن تمہیں اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے ہاتھوں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ صرف اس سبب سے تھاکہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نے ا نہیں پست ترین درجے میں واپس بھیج دیا تھا ۔ سوائے تمہاری اس جماعت کے جنہوں نے یقین و ایمان کی دولت پا لی اور معاشرے کی فلاح کے لیے صلاحیت افروز اور تعمیری کام کیے ۔ پس ان سب کے لیے ایسا انعام مقرر کیا گیا ہے جو انہیں بغیر احسان مند ہوئے خود کار انداز میں مل جائے گا۔ اب اس کامیابی کے مرحلے کے حصول کے بعد ہمارے تجویز کردہ نظامِ زندگی [ضابطہِ حیات] کے بارے میں تمہیں کیسے جھٹلایا جا سکے گا ؟ تو کیا اب یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اللہ ہی تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟
بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند ترجمہ:
[وَطُورِ‌ سِينِينَ ]: طور : گرد گھومنا، قریب جانا، وقت یا ایک خاص وقت؛ متعدد مرتبہ؛ تعداد/پیمانہ/حد/پہلو/شکل و صورت/حلیہ/طور طریقہ/ تہذیب و آداب/قسم/طبقہ/مرحلہ/درجہ؛ سینا پہاڑ، زیتون کا پہاڑ؛ بہت سے دوسرے پہاڑ، وہ پہاڑ جہاں درخت پیدا ہوتے ہوں؛ خود کو انسانوں سے علیحدہ کر لینا، اجنبی، آخری حد، دو انتہاوں کا سامنا۔ سینین: س ن و: سنا : شان و شوکت، رحمتیں اور انعامات، ناموری ۔ بعض اسے سیناء سے ملاتے ہیں جو صحرائے سینائی میں ایک پہاڑ ہے ۔ مگر جس کی کوئی ٹھوس لسانی بنیاد نہیں ہے ۔
[الْبَلَدِ الْأَمِينِ ] : البلد : زمین کا ایک خطہ، حدود مقرر کردہ قطعہِ اراضی، آبادی کا علاقہ۔ البلد الامین = وہ خطہِ زمین جسے مامون و محفوظ کر لیا گیا ہو۔

اورنگزیب یوسفزئی اپریل۲۰۱۴


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر10


قصہ حضرت ایوب علیہ السلام

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
مفروضہ ہولناک بیماریوں ، عجیب و غریب ابتلاءوں اور صبرِ ایوبی کی حقیقت
اناجیل سے حاصل کی گئی روایات کے مطابق حضرت ایوب کو اپنی زندگی میں شیطان کی مداخلت کے سبب بے حد و حساب مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک انتہائی مالدار اور وسیع اہل و عیال کے مالک ہونے کے باوجود کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے ۔ نیز سوائے ایک زوجہ محترمہ کے ہر ایک رشتہ دار ان کا ساتھ بھی چھوڑ گیا ۔ مختلف فاضل مترجمین نے ، جن میں متقدمین و متآخرین سب ہی شامل ہیں، آپ کی ذاتِ عالی کے ساتھ مختلف النوع بیماریاں بھی منسلک فرما دیں ۔ جن میں ایک ایسی بیماری کا ذکر بھی ہے کہ آپ کا سارا جسم پیپ دار پھوڑوں سے بھر گیا تھا اور آپ تعفن اور مادوں کے رسنے کے باعث ریت یا راکھ پر لیٹے رہتے تھے۔ آپ کی زوجہ ہی آپ کی تیمار دار تھیں جو آپ پر پنکھا جھل کر مکھیاں اور دیگر حشرات آپ سے دور کرتی تھیں اور آپ کے کھانے پینے کا بھی اس طرح بندوبست کرتی تھیں کہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھیں ۔ مرحوم و مغفور جنابِ علامہ پرویز نے تو انجیل کے بیان سے متاثر ہو کرآپ کو سانپ سے ڈسوا کر مارگزیدہ بھی قرار دے دیا کیونکہ اناجیل میں شیطان کو سانپ کے نام سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ پھر جب آپ کے صبر کی انتہاء ہو گئی تو آپ نے اپنے رب کو پکارا ۔ پس آخرِ کار اللہ تعالیٰ نے آپ کا امتحان ختم فرمایا ۔ آپ کے پیر کی ٹھوکر سے ایک چشمہ جاری ہوا جس کے پانی کو استعمال کرنے سے آپ کے جسمانی روگ دور ہو گئے [سانپ کا زہر بھی دور ہو گیا جس نے سالہا سال آپ کے جسم کو متاثر کیے رکھا] ۔اور تمام بچھڑے ہوئے عزیز رشتہ داربھی آپ سے آ ملے ۔ پھر آپ ما قبل سے بھی بہتر صحت، مال و دولت ، جاہ و حشم اور اہل و عیال سے مالا مال ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک سو چالیس سال عمر پائی اور اپنی نسل سے چار اگلی پشتیں دیکھیں ۔ ابتلا کے دوران آپ کی واحد خدمتگار بیوی سے شیطان نے سازش کے ذریعے کوئی غلط بات بھی کہلوا دی، جس کا انکشاف ہونے پر آپ نے انہیں سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی ۔ لیکن پھر اللہ نے سو تنکوں کی ایک جھاڑو ایک مرتبہ مار دینے کی ہدایت دے کر آپ کو زوجہِ محترمہ پر یہ ظلم کرنے سے بھی بچا لیا۔ دیکھیے مروجہ تفاسیر!! ۔۔۔۔۔۔۔۔ "چہ بوالعجبی است"۔ ۔۔!!
حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ نزدیک اور دُور سے ، یا تاویل و ترکیب سے، ایسا کچھ بھی قرآن کے صفحات میں درج نہیں پایا گیا۔
لہذا، فاضل مترجمین کی عقل و دانش کا نوحہ پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے، آئیے ہم ایک مثبت انداز میں متعلقہ آیات کا ایک انتہائی منطقی اور مستند ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس ضمن میں قرآنِ حکیم نے جو کچھ فرمایا ہے اسے وضاحت اور شرح و بسط کے ساتھ قلمبند کر دیا جائے اور اساطیری کہانیوں کے پیچھے پوشیدہ حقیقت واشگاف انداز میں سامنے آ جائے۔
یہ ترجمہ قرآن کے اُسی اعلیٰ ادبی اور علمی اسلوب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائیگا جس کا حسب سابق سلسلہ ساتھیوں کی ہمت افزائی کے باوصف شروع کیا گیا ہے ۔ لفظی ترجمے کے رحجان کو قطعی کالعدم قرار دیتے ہوئے ، عبارت کے استعاراتی ، تشبیہاتی اور محاوراتی اسلوب بیان کو بہر صورت اجاگر کیا جائیگا ۔ اس انداز کے ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف عبارت کا ما فی الضمیر واضح ہو کر اور نکھر کا سامنے آ جاتا ہے بلکہ لفظی ترجمے کی بنیاد پر ایک زبان سے دوسری زبان میں مواد کی منتقلی کرنے کے غلط عمل سے متن کے معانی کو سمجھنے میں جسقدر گمراہی پھیلتی ہے اس کا بھی مکمل سد باب ہو جاتا ہے ۔ نیز قرآن کی تحریر کے ادبِ عالی کے انداز کی ترجمے میں بھی بعینہی مطابقت کرنے سے ، ترجمے کے بعد کسی بھی مزید تشریح و تفسیر کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ۔ یہ امر اس تحریر کو پڑھنے والے عین الیقین سے دیکھ لیں گے۔
تو آئیے اللہ تعالیٰ کے با برکت اسمِ عالی سے شروع کرتے ہیں ۔ سورۃ الانبیاء میں دیگر انبیاء علیہ السلام کے خصائص اور ان کو پیش آمدہ مشکلات کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ حضرت ایوب علیہ السلام کے مشن کے بارے میں بھی کچھ نصیحت آموز واقعات بیان فرماتے ہیں ۔
۲۱/۸۳ : وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَ‌بَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ‌ وَأَنتَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿٨٣﴾
اور اے نبی یاد کرو اپنے اس مشکلات کے دور میں ایوب [علیہ السلام] کو جب انہوں نے اپنے نشوونما دینے والے کو پکارا اور کہا کہ میں اپنے فریضہِ نبوت کی ادائیگی میں مشکلات کا شکار ہو گیا ہوں [مَسَّنِيَ الضُّرُّ‌ ]لیکن یقین رکھتا ہوں کہ تُو سامان رحمت و تحفظ عطا کرنے والوں میں سب سے عظیم عطا کرنے والا ہے ، سو تُو مجھے بے آسرا نہیں چھوڑے گا۔
۲۱/۸۴ : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ‌ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَ‌حْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَ‌ىٰ لِلْعَابِدِينَ ﴿٨٤﴾
پس ہم نے فی الفور انہیں ان کی پکار کا جواب دیا اور ایسی رہنمائی دی کہ وہ جن مشکلات کا شکار ہو گئے تھے وہ ان سے دور ہو گئیں [َکشَفْنَا]۔ اور پھر ہم نے انہیں ان کی قوم سے بھی ملا دیا، نیز انہی کی مانند اانہیں اور بھی افرادی قوت [وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ] عطا کر دی ۔ یہ ہماری طرف سے ان کے لیے سامانِ رحمت تھا اور ہمارے فرماں بردار بندوں کے لیے [لِلْعَابِدِينَ ] ایک عمومی سامانِ نصیحت ۔
- - - - - -
۳۸/۴۱ : وَاذْكُرْ‌ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَ‌بَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾
اور اے نبی تم اپنی موجودہ مشکلات میں ہمارے بندے ایوب کا معاملہ یاد کرو جب اس نے اپنی مشکلات کے پیشِ نظر اپنے رب ہی کو پکارا تھا اور کہا تھاکہ میرے مقدس فریضے کی ادائیگی کو ایک سرکش و بدکردار [الشَّيْطَانُ ] انسان نے دشمنی اور مخالفت کے جنون میں [ِبنُصْبٍ] مصائب اورتکالیف [عَذَابٍ] کا شکار کر دیا ہے ۔
۳۸/۴۲ : ارْ‌كُضْ بِرِ‌جْلِكَ ۖ هَـٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ‌دٌ وَشَرَ‌ابٌ ﴿٤٢﴾
پس ہم نے بذریعہ وحی انہیں ہدایت دی کہ اپنے پیروں کو زمین پر تیزی سےحرکت دیتے ہوئے اس بستی سےچل پڑو یعنی ہجرت اختیار کرو [ ارْ‌كُضْ بِرِ‌جْلِكَ ] اور ایک دیگر مقام کا قصد کرو ۔ ۔ اور ان کو ایسے مقام کی نشاندہی کر دی گئی جہاں قلوب کی صفائی و پاکیزگی کےمواقع موجود تھے [مُغْتَسَلٌ] اور جہاں وحی کی روشنی میں آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہو تی اور زندگی کے لیے ایک صحیح رحجانِ طبع، یا مسلک و مشرب [شَرَ‌ابٌ]کی پیروی کی جا سکتی تھی ۔
۳۸/۴۳ : وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَ‌حْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَ‌ىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٤٣﴾
اور پھر اسی جگہ پر ہم نے ان کے ساتھ ان کے نظریاتی ساتھی بھی ملا دیے جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے اور انہی کے ہم خیال دیگر ساتھی بھی ۔ یہ ان پر ہماری خاص رحمت و عنایت تھی ۔ نیز صاحبانِ عقل و شعور کے لیے [لِأُولِي الْأَلْبَابِ] اس واقعے میں سامانِ نصیحت بھی ہے ۔
۳۸/۴۴ : وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِ‌ب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرً‌ا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ﴿٤٤﴾
پھر ہم نے انہیں ہدایت دی کہ تم اپنی قوت اور استعداد سے کام لے کر [بِيَدِكَ] اپنی افرادی قوت کو منظم و متحدکرو [ضِغْثًا ]اور اس کے ساتھ تبلیغِ حق کے لیے زمین پر پیش قدمی کرو [فَاضْرِ‌ب بِّهِ] اس انداز میں کہ اس جدوجہد میں تمہاری جانب سے کسی حلف ، یا عہد ، یا اصول کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے [لا تَحْنَثْ] ۔ بیشک ہم نے انہیں ان کے مشن پر استقلال اور استقامت سے [صَابِرً‌ا ]جمے ہوئے پایا ۔ وہ ایک ارتقاء یافتہ، اعلیٰ اقدار کا مالک، یعنی مہربان اور نیک بندہ تھا [نعم العبد]۔ بیشک وہ ہر مشکل میں اپنے رب کی ہدایات و تعلیمات کی جانب رجوع کرنے والا تھا [أَوَّابٌ]۔
- - - -
اور اب بریکٹ شدہ مشکل الفاظ کے مستند تراجم جو دس عدد مشہورِ زمانہ لغات میں تحقیق کے ذریعے لیے گئے ہیں :
[مَسَّنِيَ الضُّرُّ‌ ] : مس الضر: تکلیف میں مبتلا ہونا، تکلیف کا شکار ہونا، تکلیف کی پکڑ میں آ جانا ۔ رکاوٹ، نقصان، پریشانی لاحق ہو جانا۔
[َکشَفْنَا]: کشف: کھینچ کر دور کر دینا؛ دور ہٹا دینا؛ کھول دینا؛ دریافت کر لینا۔
[لِلْعَابِدِينَ ] ؛ عابدین: عبادت کرنے والے، یعنی فرماں برداری، تابعداری، حکم بجا لانے اور اطاعت کرنے والے۔
[الشَّيْطَانُ ] ؛ مادہ شطن : معنی سرکش ، متکبر، ایمان نہ رکھنے والا، باغی، ضدی، ہٹ دھرم، بدکردار devil, one excessively proud/corrupt, unbelieving/rebellious/insolent/audacious/obstinate/perverse, rope,
[ِبنُصْبٍ] : دشمنی اور مخالفانہ جذبے کے ساتھ ؛ نصب: مخالفانہ یا دشمنی کا عمل؛ مشکلات جھیلنا؛ زچ ہو جانا؛ تھک جانا؛ مشکلات پریشانیاں اور مصائب جھیلنا؛ عقل و شعور استعمال کرنا، محنت و مشقت کرنا، فوری عمل کرنا، کوئی شے نصب کرنا، قائم کرنا to fix, raise/setup/establish, act with hostility/enmity, he put down a thing, fatigued/tired, suffer difficulty/distress/affliction, nasiba - to use diligence, toil/labour, be instant.
[عَذَابٍ] ؛ سزا، اذیت، عقوبت ، تکلیف، مصیبت۔
[ ارْ‌كُضْ] ؛ دوڑنا، بھاگ جانا، پیر کو زور سے مارنا، پیر کو حرکت دیناto move the feet, urge, strike heavily (with foot), fly, run .
[بِرِ‌جْلِكَ ] :رجل: پیر، پیادہ سپاہی، پیروں پر چلنے والا ۔ rijlun - foot, soldiers, good walker, tramp.
[مُغْتَسَلٌ] : دھونے، طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ، میل کچیل اور گندگی دور کرنے کامقام، صفائی کی جگہ، پانی جس سے آدمی خود کو صاف کرے۔
[شَرَ‌ابٌ] : وہ جو پیا جائے، رحجانِ طبع، خواہش، ذوق و شوق
[بِيَدِكَ] : ید: اختیار، طاقت، وسائل، قوت، ہاتھ
[ضِغْثًا ] : اکٹھا کرنا، جمع کر کے ایک مضبوط گروہ بنانا collected and gathered together:
[اضْرِ‌ب بِّهِ] : اس کے ساتھ زمین پر سفر اختیار کرو؛ چل پڑو؛ پیش قدمی کرو
[لا تَحْنَثْ] : تم اپنی قسم ،حلف یا عہد نہ توڑنا ۔
[صَابِرً‌ا ] : مقصد پیش نظر کے لیے استقلال کے ساتھ جدو جہد کرنے والا؛ مستقل مزاج
[نعم العبد] : مہربان اور بہتر انسان [أَوَّابٌ]۔ اللہ کی طرف پلٹنے والا ؛ اللہ کی ساتھ ہمیشہ لو لگانے والا؛ رجوع کرنے والا
اور آخر میں رواں ترجمہ:
اور اے نبی یاد کرو اپنے اس مشکلات کے دور میں ایوب علیہ السلام کو جب انہوں نے اپنے نشوونما دینے والے کو پکارا اور کہا کہ میں اپنے فریضہِ نبوت کی ادائیگی میں مشکلات کا شکار ہو گیا ہوں لیکن یقین رکھتا ہوں کہ تُو سامان رحمت و تحفظ عطا کرنے والوں میں سب سے عظیم عطا کرنے والا ہے ، سو تُو مجھے ہرگزبے آسرا نہیں چھوڑے گا۔
پس ہم نے فی الفور انہیں ان کی پکار کا جواب دیا اور ایسی رہنمائی دی کہ ان کا مشن جن مشکلات کا شکار ہو گیا تھا، وہ رکاوٹیں دور ہو گئیں ۔ اور پھر ہم نے انہیں ان کے ہم مشرب گروپ سے بھی ملا دیا، نیز انہی کی مانند انہیں اور بھی افرادی قوت عطا کر دی ۔ یہ ہماری طرف سے ان کے لیے سامانِ رحمت تھا اور ہمارے دیگرفرماں بردار بندوں کے لیے ایک عمومی سامانِ نصیحت ۔
اور اے نبی تم اپنی موجودہ مشکلات میں ہمارے بندے ایوب کا معاملہ یاد کرو جب اس نے اپنی مشکلات کے پیشِ نظر اپنے رب ہی کو پکارا تھا اور کہا تھاکہ میرے مقدس فریضے کی ادائیگی کو ایک سرکش و بدکردار انسان نے دشمنی اور مخالفت کے جنون میں مصائب اور تکالیف کا شکار کر دیا ہے ۔
پس ہم نے بذریعہ وحی ا نہیں ہدایت دی کہ اپنے پیروں کو زمین پر تیزی سےحرکت دیتے ہوئے اس بستی سےچل پڑو یعنی ہجرت اختیار کرو اور ایک دیگر مقام کا قصد کرو ۔ ۔ اور ان کو ایک ایسے مقام کی نشاندہی کر دی گئی جہاں قلوب کی صفائی و پاکیزگی کےمواقع موجود تھے اور جہاں وحی کی روشنی میں آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہوتی اور فلاحی زندگی گذارنےکے لیے ایک صحیح رحجانِ طبع، یا مسلک و مشرب [شَرَ‌ابٌ]کی پیروی کی جاتی ۔
اور پھر اسی جگہ پر ہم نے ان کے ساتھ ان کے نظریاتی ساتھی بھی ملا دیے جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے اور انہی کے ہم خیال دیگر ساتھی بھی ۔ یہ ان پر ہماری خاص رحمت و عنایت تھی ۔ نیز صاحبانِ عقل و شعور کے لیے اس واقعے میں سامانِ نصیحت بھی ہے ۔
پھر ہم نے انہیں ہدایت دی کہ تم اپنی قوت اور استعداد سے کام لے کر اپنی افرادی قوت کو منظم و متحدکرو اور اس کے ساتھ تبلیغِ حق کے لیے زمین پر پیش قدمی کرو اس انداز میں کہ اس جدوجہد میں تمہاری جانب سے کسی حلف ، یا عہد ، یا اصول کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے ۔ بیشک ہم نے انہیں ان کے مشن پر استقلال اور استقامت سے جمے ہوئے پایا ۔ وہ ایک ارتقاء یافتہ، اعلیٰ اقدار کا مالک، یعنی مہربان اور نیک بندہ تھا ۔ بیشک وہ ہر مشکل میں اپنے رب کی تعلیمات کی جانب رجوع کرنے والا تھا ۔
نوٹ: یہ کاوش مرحوم و مغفور جناب پروفیسر عبد الرزاق [اہلِ قرآن] کے عقلی ترجمے سے تحریک پا کر انجام دی گئی ہے ۔ مرحوم کی خواہش تھی کہ ان کے بعد کوئی اور ان کے کیے گئے ترجمے کو اردو کے بہتر اسلوب میں قلمبند کر سکے ۔ پس یہ تحریر مزید آزاد تحقیق کے بعد سپرد قلم کی گئی ہے تاکہ نہ صرف اس اہم اورمقدس فرض کے تقاضے کما حقہ پورے کیے جا سکیں بلکہ پروفیسرعبد الرزاق مرحوم کی دیرینہ خواہش کی بھی بقدرِ توفیق تکمیل کی جا سکے۔ واللہ المستعان۔

اورنگزیب یوسفزئی اپریل 2014


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر9


سورۃ قریش



قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

سورۃ قریش کے اس جدیدعقلی اور منطقی ترجمے کی بنیاد اس فلسفے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کسی بھی قبیلے کا بالتخصیص ذکر اپنی کتابِ عظیم میں فرما کر اسے کیوں دیگر قبائل یا اقوام پر فضیلت بخشنے کا قصد کرے گی جب کہ اس کی تعلیمات کے مطابق ذات، قبیلے، نسل، زبان وغیرہ کی بناء پر کسی کو کسی پر کوئی استحقاق یا فضیلت نہیں ہے؟ دوسری جانب اسلامی تحریک کی جاری جدوجہد میں قبیلہ قریش کا ذکر کسی قدیم تاریخی نصیحت آموز واقعے سے متعلق یا منسلک بھی نہیں کہ اس کا ذکر سبق حاصل کرنے کے مقصد سے کیا جاتا، جیسے کہ قوم عاد و ثمود، یا قوم لوط یا فرعون وغیرہ کا۔ جبکہ اُس جاری جدوجہد سے متعلق تواریخ میں صرف قریش ہی کا نہیں دیگر کئی قبائل کا ذکر اور نمایاں کردار بھی موجود ہے ۔ تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں اسلامی تحریک سے متعلق اگر قریش کا واقعی ذکر کیا گیا ہے تو دیگر نمایاں قبائل کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ۔
آخر قریش ہی میں بنو ہاشم بھی شامل تھے جن کے سرداران کے خاندان میں رسالتمآب کے علاوہ بھی اسلام کے حامیان موجود تھے ۔ نیز حضرت عثمان[ر] جو اسلام کے اولین مجاہدین میں شامل تھے، قریش ہی کی بنو امیہ شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور قرین عقل و قیاس ہے کہ دیگر بہت سےقریشی حضرات بھی اسلامی تحریک میں اولین دور ہی سے شامل ہوں گے ۔ فلہذا قبیلہِ قریش کی مجموعی نافرمانی کا ذکر،یا کعبے کی پیشوائیت اور اس کی بنا پر حاصل کردہ خوشحالی کی جانب باقاعدہ نام لے کر واضح اشارہ دینے ، اور اس ذریعے سے انہیں ایک نمایاں مقام عطا کرنےکا کوئی حتمی جواز سمجھ میں نہیں آتا ۔ کئی تراجم اسی سورۃ سے قریش کے تجارتی قافلوں کا ذکربھی اخذ کرتے ہیں، جبکہ یہاں ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔۔۔۔
یہ مانا کہ قبل از اسلام دور کےعرب کی سیادت قریش کے ہاتھ میں تھی۔ اور اسلامی تحریک کو اولین محاذ آرائی کا سامنا انہی کے ساتھ درپیش ہوا تھا ۔ لیکن یہ آیت ایک ایسے قبیلے کو نمایاں مقام کیوں دے گی جن کے ہاتھوں بعد ازاں صرف ۳۵ ہجری میں ہی اسلامی خلافت کی تباہی اور ملوکیت کے قیام کی بنیاد پڑی ۔اور حقیقی اسلامی فلاحی ریاست ایک استحصالی فرعونیت میں تبدیل ہو گئی۔ پس مقام غور و فکر ہے صاحبانِ دانش کے لیے ، اور اسی غور و فکر کے ضمن میں پیشِ خدمت ہے ایک ایسا ترجمہ جو خالصتا تحقیقی بنیادوں پر مستند ماخذات کے حوالے سے حیطہِ تحریر میں لایا گیا ہے ۔
سورۃ ۱۰۶ : قریش
لِإِيلَافِ قُرَ‌يْشٍ ﴿١﴾ إِيلَافِهِمْ رِ‌حْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ﴿٢﴾ فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ ﴿٣﴾ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿٤﴾
عمومی ترجمہ [۱]: ""قریش کے مانوس کرنے کے سبب، یعنی ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب، لوگوں کو چاہیئے کہ اس نعمت کے شکر میں اس گھر کے مالک کی عبادت کریں، جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن بخشا ۔"" [جالندھری]
عمومی ترجمہ [۲]: ""اس لیے کہ قریش کو میل دلایا، ان کے جاڑے اور گرمی دونوں کے کُوچ میں میل دلایا [رغبت دلائی]، تو انہیں چاہیئے کہ اس گھر کے رب کی بندگی کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا، اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا""۔ [احمد رضا خان]
آپ اتفاق کریں گے کہ ان "شاہکار تراجم" کو پڑھکر، اور ان پر قلب وذہن کی تمام صلاحیتیں مرتکز کر کے بھی آیت مبارکہ کے مافی الضمیر کا کوئی ربط یا سر پیر سمجھ میں نہیں آتا ۔ فلہذا یہ عاجز پورے وثوق کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ درجِ بالا اور دیگر روایاتی تراجم عقل و فہم و دانش کی توہین کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اگر یہ تراجم قارئین میں سے کسی کے ذہن میں کوئی واضح صورتِ حال پیش کرتے ہوں ، اور بات کو کسی قدر سمجھانے میں کوئی مدد کرتے ہوں ، تو درخواست ہے کہ اس عاجز کو بھی اپنے شرحِ صدر میں حصہ دار بنائیں ۔ یہ عاجز شکر گذار ہوگا ۔
اور اب جدید تحقیقی بنیادوں پر کیا گیا ترجمہ :
۱۰۶/۱: لِإِيلَافِ قُرَ‌يْشٍ
تمام اطراف و جوانب سے اکٹھا کیے گئے باہم متحارب لوگوں [قُرَ‌يْشٍ] کی آپس میں انسیت ،تنظیم سازی اور اتحاد کی خاطر[لِإِيلَافِ]،
۱۰۶/۲: إِيلَافِهِمْ رِ‌حْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ
نیز انہیں سرد و گرم موسموں کی آمد و رفت کے دوران[رِ‌حْلَةَ] محبت، دوستی اور ہم آہنگی[إِيلَافِهِمْ] کے بندھنوں میں باندھے رکھنے کے لیے ،
۱۰۶/۳: فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ
یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ تمہارے قائم کردہ اس نظریاتی ادارے یا مرکز کے مربی و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کریں۔
۱۰۶/۴: الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿٤﴾
اور ان پر واضح کر دیا جائے کہ یہ وہی ہستی ہے جو انہیں بھوک اور احتیاج میں سامانِ پرورش و نشوونما اور حالت خوف و اندیشے میں امن فراہم کرتی رہی ہے۔
بریکٹوں میں دیے گئے الفاظ کے مستند تراجم:
[قُرَ‌يْشٍ] : قرش: ادھر ادُھر سے اکٹھا کر کے ملانا؛ باہم لڑانا؛ کمانا، فوائد حاصل کرنا، اکسانا، مال و دولت والے، چھوٹی اور خوبصورت شارک مچھلی
[لِإِيلَافِ]: ایلاف: الف: واقف، مانوس ہونا، عادی ہونا، تربیت پا لینا، متحد ہونا، شریک ہونا، ملنا، اکٹھے ہونا، ہم آہنگ ہونا، ساتھ اور دوست بننا، محبت کرنا، پسند، منظور کرنا، اثر اندازہونا ، عہد و پیمان، تحفظ، سلامتی
[رِ‌حْلَةَ]: رحل: روانگی، روانہ ہونا، چلے جانا، دور ہٹ جانا، ہجرت کر جانا، منتقل ہوجانا، بھیج دینا، ادھر ادھر پھرتے رہنا، خانہ بدوشی کی زندگی گذارنا، اونٹ کو زین ڈالنا ۔ سفر۔ دورۃ ۔ ٹور۔ ٹرپ : رحلۃ الشتاء = موسمِ سرما کا گذرنا؛ رحلۃ الصیف = موسمِ گرما کا گذرنا؛ یہاں موسموں کے سفر، یعنی موسموں کے آنے جانے کا ذکر ہے۔وقت کے سفر کا ذکر ہے ۔ کسی تجارتی قافلے کے سفر کا نہیں۔
اور اب رواں ترجمہ:
تمام اطراف و جوانب سے اکٹھا کیے گئے باہم متحارب لوگوں کی آپس میں انسیت ،تنظیم سازی اور اتحاد کی خاطر، نیز انہیں سرد و گرم موسموں کی آمد و رفت کے دوران ، یعنی وقت کے گذران کے ساتھ ساتھ، محبت، دوستی اور ہم آہنگی کے بندھنوں میں باندھے رکھنے کے لیے ، یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ سب تمہارے قائم کردہ اس نظریاتی ادارے یا مرکز کے مربی و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کریں۔ ان پر واضح کر دیا جائے کہ یہ وہی ہستی ہے جو انہیں بھوک اور احتیاج میں سامانِ پرورش و نشوونما اور حالت خوف و اندیشے میں امن فراہم کرتی رہی ہے۔

اورنگزیب یوسفزئی اگست ۲۰۱۳

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر8

 

صوم اور حج کے اہم موضوعات۔

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسلے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

البقرۃ: ۱۸۳ سے ۲۰۲ آیت تک

قرآنِ حکیم کی چند آیات کے ترجمےکی یہ اہم مہم جو فی الحقیقت ایک لا محدود علمیت کی متقاضی ہے، اور جس کا گراں مایہ بوجھ اٹھانے کی یہ ناچیز استطاعت نہیں رکھتا، چند قریبی اعزاء کے اصرار پر ایک حقیرسی کوشش اور ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر انجام دی جا رہی ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے دربارِ عالی میں التماس ہے کہ کسی بھی بھاری غلطی کے احتمال سے محفوظ رکھے اور اس حقیر کوشش کے نتیجے میں دوستوں کو جستجوئے حق کی حالتِ اضطراب سے نجات دے کر شرحِ صدر کی دولت سے بہرہ ور فرمائے۔
اس ترجمےکے ضمن میں جن لفظی معانی کا استعمال کیا گیا ہے ان کی تفصیل سند کے طور پر ترجمے کے آخر میں دے دی گئی ہے۔ متعدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے جن میں "لین"، "المنجد"، "مفرداتِ راغب"، "قاموس الوحید" وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے بریکٹوں میں لکھے گئے عربی الفاظ کے معانی اس تحریر کے آخر میں ضرور ملاحظہ کریں۔
ترجمے میں ایک بنیادی تقاضہ سمجھتے ہوئےیہ خاص کوشش کی گئی ہے کہ قرآنِ عظیم جیسے ادبی شہ پارے میں عربی زبان و بیان کا جو اسلوبِ عالی استعمال کیا گیا ہے، اردو میں بھی زبان و بیان کے اسی انداز کی عکاسی کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ کلام ِ الٰہی کے بلند مقام کا حق بقدرِ توفیق ادا کیا جا سکے۔ اور اس مقدس کلام کا درجہ گھٹا کر ایک بازاری اسلوب میں لفظ با لفظ ترجمہ کرنے کے اُس عمومی اور رائج الوقت رحجان کی حوصلہ شکنی کی جائے جس کی ہر فاضل مترجم پیروی کرنے کے جرم میں ملوث ہے،کیونکہ یہ انداز حقیقی معنی کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ عربی زبان اور اندازِ بیان میں تشبیہ، استعارے ، محاورے اور امثال و علامات کی رُو سے بین السطور جو مفہوم پوشیدہ ہے اور سیاق و سباق کو یا تحریر کے تسلسل کو باہم جوڑنے میں جو الفاظ و حروف محذوف ہیں، جنہیں اہلِ زبان کے لیے سمجھنا کچھ مشکل نہیں، وہ سب کچھ ترجمے میں بھی بدرجہ اتم موجود ہوناضروری ہے۔نیزبنیادی معانی کے ساتھ وابستہ رہنا بھی ایک لازمی امر ہے۔ ان نکات کو عمومی طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے تراجم اللہ کے پیغام کو اس کی حقیقی شکل میں بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ تراجم عقلیت پسندوں کے سروں کے اوپر سے گذر جاتے ہیں اور تراجم کے اردو متون کو عموما بے ربط، غیر مسلسل اور عقلیت (Rationality) کے معیار سے کمتر قرار دے دیا جاتا ہے۔
احباب کے علم میں لانے کے لیےیہ بھی عرض ہے کہ اس جزوی ترجمے کی کوشش کے دوران ایک اور حیران کن اور عدیم النظیر دریافت اس عاجز کےحیطہِ ادراک میں وارد ہوئی ۔وہ یہ کہ اگر ترجمے کی مہم درج بالا اہم امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے سر انجام دےدی جائے تو ایک ایسی تخلیق سامنے آ جاتی ہے جسے کسی مزید تشریح یا تفسیر کی قطعا ضرورت پیش نہیں آتی۔ یعنی ترجمہ بذاتہ تشریح و تفسیر کی صورت برآمد ہو جاتا ہے اور بات کو سمجھانے کے لیے کسی بھی مزید مشقت سے بچا لیتا ہے۔ یعنی مفہومِ قرآن، ہدایتِ خداوندی کے عظیم تر مقصود و مطلوب کی روشنی میں، ستاروں کی مانند چمکتا دمکتا واضح ہوتا چلا جاتا ہے اور کلام الٰہی کی کسی صرفی و نحوی تحلیل کی ضرورت سےبے نیاز کر دیتا ہے۔ لہذا قرآنِ حکیم جو اپنے متن کی رُو سے اُولی الباب ، یعنی اصحابِ دانش و بینش اور علماء و فقہا کے لیے نازل کیا گیا ہے، صرف ایک منصوبہ بند اورمتعین ہدف سے لیس معیاری ترجمے کے ذریعے ہرکس و ناکس کے لیے سہل الحصول ہو جاتا ہے۔ درجِ ذیل ترجمہ ،جو ایک تجرباتی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں، اس حقیقت کی خود گواہی دے گا۔ اس ضمن میں رفقاء کی رائے کا شدت سے منتظر رہونگا۔
ترجمہ آیت مبارکہ 183 سے شروع کیا گیا ہے۔ تاہم اگرسیاق و سباق، یا موضوع زیرِ بحث کے حوالے سے کچھ سابقہ تفصیلات کا بنظرِ غائر مختصر اعادہ بھی کر لیا جائے تو گزشتہ سے پیوستہ سلسلہ ذہن نشین ہو کر فہم و ادراک کی رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ہوگا۔ تو آئیے اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔
- - - - - -

دراصل یہاں سابق سے موضوع چلا آ رہا ہے وصیت کرنے کے لازمی فریضے کا [۱۸۰] اور وصیت میں بدنیتی سے تبدیلی لا کر ورثاء کا حق باطل نہ کرنے کی تلقین کا [۱۸۱]۔ حتیٰ کہ وصی کی جانب سے اگر کوئی نا انصافی ہوئی ہو تو اس کو بھی درست کرنے کی ضرورت کا۔ پھر قتل کے قصاص کا [۱۷۹] معاملہ ہے ۔ قصاص میں انصاف کا بھی ذکر ہے اور اس ضمن میں معافی اور احسان کا بھی۔ حد ودسے تجاوز نہ کرنے اور زیادتی نہ کرنے کا بھی ۔ اور یہ بھی واضح فرمایا گیا ہے کہ نیکی اور کشادِ قلبی کی راہ یہ نہیں [۱۷۷] کہ تم منہ کس طرف پھیرتے ہو ، مشرق کی طرف یا مغرب کی جانب، بلکہ اللہ کے وجود پر یقین، اگلے بلند ترمرحلہِ حیات پر یقین اور ملائکہ، کتب اورپیغمبروں پر یقین قائم کر کے اپنا مال ضرورت مندوں پر خرچ کرنا وسعتِ قلبی اور شعوری ذات کے ارتقاء کی راہ ہے۔ نیز صلات ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، عہد کو پورا کرنا اور مشکلات میں استقامت دکھانا موضوع ہے۔ یعنی سابقہ متن سراسر "کردار سازی کے احکامات اور تربیت" پر مبنی ہے۔
پس دوستو، اب آگےآنے والے متن کے بارےمیں یہ مت سوچیں کہ یکدم ایک علیحدہ موضوع شروع کر دیا گیا ہے جس میں اچانک بھوکا رہنے، یعنی جبری خود اذیتی کی نام نہاد رسم کا ذکر آ گیا ہے۔ یقینا آگے بھی ذکر حالات کے ایک مخصوص مرحلے میں کردار سازی ہی کی تربیت کا ہے۔ ویسے بھی قرآن بزبانِ خود مکمل طور پرکردار سازی ہی کے ایک دائمی ضابطے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ایک باکردار جماعت پیدا کیے بغیر الہامی یا دنیاوی کوئی بھی بہتر سے بہترین نظریہ عملی شکل میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ بھوک پیاس سے پرہیز اور جبری خود اذیتی آج تک کردار سازی میں ممد و معاون ہونے یا تقویٰ پیدا کرکے معاشرے میں فلاح و ترقی کا باعث بننے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ نام نہاد "عبادت" تو انسان کی تمام صلاحیتیں نچوڑ کر اسے عضو معطل بنا دیتی ہے۔اور وہ جھنجھلاہٹ ، چڑچڑے پن ، پیاس اور جسمانی کمزوری کا شکار، لبِ دم،صرف کھانے پینےکے وقت کا انتظار کرنے کے قابل رہ جاتا ہے۔ تو آئیے پسِ منظر پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اب آیت مبارکہ ۱۸۳ سے شروع کرتے ہیں۔ آیت در آیت ترجمے کے بعد رواں جاری ترجمہ بھی پیش کر دیا گیا ہے:-

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾

اے اہلِ ایمان، تم سب کے لیے ان تمام امور کے پیشِ نظر جن کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ، ایک مخصوص پرہیز و تربیت [الصِّيَامُ] کا دور لازم کر دیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی نظام ہے جیسا کہ تم سے قبل گزر جانے والی اقوام کے لیے بھی لازم کر دیا گیا تھا تاکہ تم سب اللہ کی ہدایات کی نگہداشت کے ذریعے اپنی شعوری ذات یا خودی کا تحفظ کرسکو۔

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٤﴾

کیونکہ یہ تمہارے لیے ایک عظیم مقصد کی تیاریوں کے دن [أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ] ہیں لہذا تم میں سے وہ جو ابھی اپنے ایمان و ایقان کے بارے میں کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہوں [مَّرِ‌يضًا]، یا ابھی جستجوئے حق کے سفر کے درمیان میں ہوں [عَلَىٰ سَفَرٍ] تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تیاری آنے والے دنوں کے لیے موخر کر دیں۔ نیز وہ لوگ جو کسی بھی سبب سے اس فریضے کو بہ مشقت یا بمشکل انجام دے سکتے ہوں[يُطِيقُونَهُ] ہوں تو ان کے لیے واجب ہے کہ اس تقصیر یا کوتاہی کے بدل یا تلافی کے طور پر[فِدْيَةٌ]مساکین کی ضروریات پوری کریں کیونکہ جو بھی مال و دولت رضاکارانہ طور پر عطیہ کرے تو یہ اس کے حق میں بھلائی یعنی اس کی شعوری ذات کے ارتقاء کا باعث ہوگا۔ اور اگر تم سب ان مخصوص امور میں پرہیز کی راہ اختیار کروگے [تَصُومُوا] تو تم سب کے لیے اس میں بھلائی ہے اگر تم یہ حقیقت اچھی طرح جان لو۔

شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۗ يُرِ‌يدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‌ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿١٨٥﴾

یہ جنگ و جدل اور ظلم و استحصال کی گرم بازاری [رَ‌مَضَانَ ] کی ایک انتہائی مذموم عمومی صورتِ حال [شَهْرُ‌] تھی جس کے پیشِ نظر قرآن جیسی راہنمائی کی کتاب نازل کی گئی، جو دراصل انسانوں کے لیے ایک دائمی ضابطہِ کردار [هُدًى] کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ اللہ کی ہدایات کو کھول کر بیان کرتی اور خیر و شر میں فرق کی پہچان کراتی ہے[الْفُرْ‌قَانِ]۔ اس لیے لازم ہے کہ تم سب میں سے جو بھی ایسی جانی بوجھی مذموم صورت حال [الشَّهْرَ] کا مشاہدہ یا سامنا کرے تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے [فَلْيَصُمْهُ ]۔اور پھر ایک بار یہ خیال رہے کہ تم میں سے جو بھی ابھی اپنے ایمان کے بارے میں شبہ یا کمزوری کا شکار ہو(مَرِ‌يضًا )، یا ابھی تعلم وتلاش کے سفر میں ہو تو وہ اس مقدس مشن کی انجام دہی کے لیےاپنی تیاری (فَعِدَّةٌ )بعد ازاں مکمل کر لے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہارے ساتھ یعنی تمہارے لیے آسانی و فراوانی چاہتا ہے ،تنگی یا مشکلات نہیں ۔ اور وہ یہ چاہتا ہے کہ تم اپنی تیاری/استعداد بہر حال پوری کر لو تاکہ اللہ کی کبریائی اُن خطوط پر قائم کر سکو جیسے کہ اللہ نے تمہیں ہدایات دی ہیں۔ اوراللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تمہاری کوششیں بار آور ہوں،

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ ﴿١٨٦﴾

تاکہ ایک ایسی روشن مثالی صورتِ حال وجود میں آ جائے کہ اگر میرا کوئی بندہ تم سے میرے بارے میں پوچھے تو تم کہ سکو کہ میں قریب ہی موجود ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔تاکہ وہ لوگ بھی موجود صورتِ حال کا مشاہدہ کر کے میری طرف متوجہ ہوجائیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں تاکہ وہ بھی ہدایت پا جائیں/راہِ راست پر آجائیں۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّ‌فَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُ‌وهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‌ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَ‌بُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾

جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کو[إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ] بدزبانی اور توہین کا ہدف بناءو [الرَّ‌فَثُ]، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو [تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو [بَاشِرُ‌وهُنَّ] اور اتنا ہی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائزکیا ہے، یعنی اُن کے حقوق اپنے فائدے کے لیے غصب نہ کرو۔ اور علم حاصل کرو [وَكُلُوا] اور اس کے مطابق ایسا مشرب اختیار کرو [وَاشْرَ‌بُوا] کہ وہ تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح [الْفَجْرِ] میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر [الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام [الصِّيَامَ] ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک [إِلَى اللَّيْلِ ] پھیلا دو۔ جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی [الْمَسَاجِد]کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے [عَاكِفُونَ ]کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ ، یعنی معاشرے کے کمزور طبقات بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾

نیز پھر تاکید ہے کہ اپنے ہی لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے مال و دولت ناحق طور پر حاصل نہ کرو۔ نہ ہی اس غرض سے حکام تک رسائی حاصل کرو کہ اُن کے ذریعے لوگوں کے اموال کا کچھ حصہ جانتے بوجھتے ہوئے مجرمانہ انداز میں حاصل کر لو۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾

وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِ‌هَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾

نیز صرف ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔یعنی جنگ صرف دفاع کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس مہم میں بھی حدود سے تجاوز مت کرو کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِ‌جُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَ‌جُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٩١﴾

اور ایسے جارحیت پسندوں کو جہاں پاو انہیں مارو اور نکال باہر کرو ایسے جیسے کہ انہوں نےتمہیں نکال باہر کیا تھا۔ دراصل یہ سازشی/ فسادی ہیں اور فساد یعنی بد امنی پھیلانے کا عمل قتل سے بد تر ہے۔ اور ان لوگوں سے حرمت والے احکامات کےاطلاق کی صورت میں[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] جو کسی بھی معاہدے کی رُو سے جاری ہوئے ہوں،اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ خود اُن پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تم سے جنگ پر نہ اُتر آئیں۔ اگر وہ جنگ پر اُتر آئیں تو تب تم بھی جنگ کرو ۔ کافروں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔

فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٢﴾

لیکن اگروہ جنگ سے باز آ جائیں تو رُک جاو کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کی ذات تحفظ اور رحمت عطا کرنے پر مائل ہو جاتی ہے۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾

ان لوگوں سےجنگ صرف اسی وقت تک جاری رکھو جب تک کہ فساد ختم ہو جائے اور نظامِ زندگی اللہ کی راہنمائی کے مطابق چلنے لگے۔ اس لیے اگر وہ فتنہ و فساد ختم کر دیں تو پھر کہیں کوئی زیادتی / سختی نہ ہو سوائے ظالموں پر۔

الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ بِالشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ وَالْحُرُ‌مَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿١٩٤﴾

اگر دشمن تم پر کچھ ممنوعہ شرائط کی صورتِ حال [الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ] نافذ کرے تو اس کا جواب تمہاری جانب سے بھی اُسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق ہے اور یہ اصول مسلمہ ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر کفارہ یاقصاص عائد ہوتا ہے۔ پس اصول یہ ہے کہ اس ضمن میں جو کوئی تمہارے خلاف اپنی حد سے بڑھے تو تم بھی اسی قدر حدود سے بڑھو۔ ساتھ ساتھ اللہ کی گرفت کا خوف دامن گیر رہے اور یہ علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾

اور کھلا رکھو اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں لیکن یہ بھی خیال رہے کہ کہیں خود کو اپنے ہی ہاتھوں بے وسائل کر کے بربادنہ کر لو۔ ساتھی انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں سے محبت کرتا ہےجوخود اس کی عظیم صفتِ احسان اپنی ذات کے اندر سے منعکس کرتے ہیں۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَ‌ةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے(أُحْصِرْ‌تُمْ) تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو (وَلَا تَحْلِقُوا )جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد(الْهَدْيُ) پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو(مَّرِ‌يضًا )، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو(أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ) تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری(تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ) اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہو(إِلَى الْحَجِّ )تو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول(الْهَدْيِ) میسر آ گئے ہوں(اسْتَيْسَر) وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں(فِي الْحَجِّ) تین ادوار کی(ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ) پرہیزگاری کی تربیت (فَصِيَامُ ) حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہو(إِذَا رَ‌جَعْتُمْ )یعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِ‌ي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔

الْحَجُّ أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَ‌ضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَ‌فَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ‌ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾

اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے تحقیق و حجت کرنے [الْحَجُّ] کا طریقہ کار بہت معروف ہے [أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ] اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے حجت و تحقیق خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت/بحث و تحقیق کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ اختیار کرو۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَ‌فَاتٍ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ‌ الْحَرَ‌امِ ۖ وَاذْكُرُ‌وهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾

اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے [َعرَ‌فَاتٍ] تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو [أَفَضْتُم] تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں رہےتھے۔

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُ‌وا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٩﴾

بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو پھیلا دو جس کیفیت میں کہ انسان پھیلے ہوئے، زمین پرآزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَذِكْرِ‌كُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً‌ا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾

پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف /مشاہیرکو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی سب کچھ دے دیا جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿٢٠١﴾ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّـهُ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾

مگر انسانوں میں ایسے راست سوچ کے مالک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی بہتری عطا کر اور حیاتِ آخرت میں بھی، اور اس طرح ہمیں حیاتِ آخرت سے محرومی کے اُس عذاب سے بچا لے جو انسان کی خرمنِ ہستی کوآگ کی طرح پیہم جلاتا رہیگا۔ دراصل یہی وہ انسان ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کے نصیب میں سب کچھ ہوگا ،کیونکہ اللہ کا احتساب بہت سرعت سےرُو بہ عمل ہوتا ہے۔

حج کے موضوع پر ہی ایک سپلیمنٹ:
حج الاکبر کیا ہے ؟
آپ نے حج الاکبر کے متعلق سوال پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ سوال کے پیچھے چھپی ہوئی آپ کی اصل الجھن میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حج کے نئے تحقیقی معانی کے بارے میں اب بھی ، وراثت میں ملے ہوئے عقائد کے باعث، شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں ۔ اسی لیے آپ نے یا دیگر غیر مطمئن یا غیر متفق ساتھیوں نے یہ سوال اُٹحایا ہے ۔ بہر حال میرا فرضِ منصبی نکتہ چینی نہیں بلکہ ایک سیر حاصل جواب دینا ہے، اور میں اپنا یہ فرض بحسن و خوبی ادا کروں گا۔
جواب: یہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴ کا معاملہ ہے، جو یہاں مندرج کر دی جاتی ہیں :
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ
اس کا سیر حاصل ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں سیاق و سباق کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے جو مشرکین کے ساتھ عہد ناموں سے متعلق ہے ،اور الفاظ کے حقیقی معانی کا بھی:-
اللہ اور رسول کی جانب سے تمام انسانیت کے لیے، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع پر یہ اعلان عام کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔
اور اب آخر میں ایک بار پھر تمام ترجمہ و تشریح ایک رواں اردومتن کی صورت میں :

اے اہلِ ایمان، تم سب کے لیے ان تمام امور کے پیشِ نظر جن کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ، ایک مخصوص پرہیز و تربیت کا نظام لازم کر دیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی نظام ہے جیسا کہ تم سے قبل گزر جانے والی اقوام کے لیے بھی لازم کر دیا گیا تھا تاکہ تم سب اللہ کی ہدایات کی نگہداشت کےذریعےاپنی شعوری ذات کا تحفظ کر سکو۔
کیونکہ یہ تمہارے لیے ایک عظیم مقصد کی تیاریوں کے دن ہیں لہذا تم میں سے وہ جو ابھی اپنے ایمان و ایقان کے بارے میں کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہوں ، یا ابھی جستجوئے حق کے سفر کے درمیان میں ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تیاری دیگر دنوں کے لیے موخر کر دیں۔ وہ لوگ جو کسی بھی سبب سے اس فریضے کو بہ مشقت یا بمشکل انجام دے سکتے ہوںہوں تو ان کے لیے واجب ہے کہ اس تقصیر یا کوتاہی کے بدل یا تلافی کے طور پرمساکین کی ضروریات پوری کریں کیونکہ جو بھی مال و دولت رضاکارانہ طور پر عطیہ کرے تو یہ اس کے حق میں بھلائی یعنی اس کی شعوری ذات کے ارتقاء کا باعث ہوگا۔ اور اگر تم سب ان مخصوص امور میں پرہیز کی راہ اختیار کروگے تو تم سب کے لیے اس میں بھلائی ہے اگر تم یہ حقیقت اچھی طرح جان لو۔

یہ جنگ و جدل اور ظلم و استحصال کی گرم بازاری کی ایک انتہائی مذموم عمومی صورتِ حال تھی جس کے پیشِ نظر قرآن جیسی راہنمائی کی کتاب نازل کی گئی، جو دراصل انسانوں کے لیے ایک دائمی ضابطہِ کردار کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ اللہ کی ہدایات کو کھول کر بیان کرتی اور خیر و شر میں فرق کی پہچان کراتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ تم سب میں سے جو بھی ایسی جانی بوجھی مذموم صورت حال کا مشاہدہ یا سامنا کرے تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے ۔اور پھر ایک بار یہ خیال رہے کہ تم میں سے جو بھی ابھی اپنے ایمان کے بارے میں شبہ یا کمزوری کا شکار ہو، یا ابھی تلاش کے سفر میں ہو تو وہ اس مقدس مشن کی انجام دہی کے لیےاپنی تیاری بعد ازاں مکمل کر لے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہارے ساتھ یعنی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے ،تنگی یا مشکلات نہیں ۔ اور وہ یہ چاہتا ہے کہ تم اپنی تیاری/استعداد بہر حال پوری کر لو تاکہ اللہ کی کبریائی اُن خطوط پر قائم کر سکو جیسے کہ اللہ نے تمہیں ہدایات دی ہیں۔ اوراللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تمہاری کوششیں بار آور ہوں،
تاکہ ایک ایسی روشن مثالی صورتِ حال وجود میں آ جائے کہ اگر میرا کوئی بندہ تم سے میرے بارے میں پوچھے تو تم کہ سکو کہ میں قریب ہی موجود ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔تاکہ دیگر لوگ بھی موجود صورتِ حال کا مشاہدہ کر کے میری طرف متوجہ ہوجائیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں تاکہ وہ بھی ہدایت پا جائیں/راہِ راست پر آجائیں۔

جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کوبدزبانی اور توہین کا ہدف بناءو، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو ۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو اور اتنا ہی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائزکیا ہے، یعنی اُن کے حقوق اپنے فائدے کے لیے غصب نہ کرو۔ اور علم حاصل کرو اور اس کے مطابق ایسا مشرب اختیار کرو کہ وہ تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر، یعنی نیکی اور بدی میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک پھیلا دو۔ جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ ، یعنی معاشرے کے کمزور طبقات بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔

نیز پھر تاکید ہے کہ اپنے ہی لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے مال و دولت خیانت کرتے ہوئے ناحق طور پر حاصل نہ کرو۔ نہ ہی اس غرض سے حکام تک رسائی حاصل کرو کہ اُن کے ذریعے لوگوں کے اموال کا کچھ حصہ جانتے بوجھتے ہوئے مجرمانہ انداز میں حاصل کر لو۔

وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور تحقیق و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے ۔اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں تک چور دروازوں سے یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔
نیز صرف ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔یعنی جنگ صرف دفاع کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس مہم میں بھی حدود سے تجاوز مت کرو کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔
اور ایسےجارحیت پسندوں کو جہاں پاو انہیں مارو اور نکال باہر کرو ایسے جیسے کہ انہوں نےتمہیں نکال باہر کیا تھا۔ دراصل یہ سازشی/ فسادی ہیں اور فساد یعنی بد امنی پھیلانے کا عمل قتل سے بد تر ہے۔ اور ان لوگوں سے حرمت والے احکامات کےاطلاق کی صورت میں[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] جو کسی بھی معاہدے کی رُو سے جاری ہوئے ہوں،اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک یہ خود اُن پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تم سے جنگ پر نہ اُتر آئیں۔ اگر وہ جنگ پر اُتر آئیں تو تب تم بھی جنگ کرو ۔کافروں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔
لیکن اگروہ جنگ سے باز آ جائیں تو رُک جاو کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کی ذات تحفظ اور رحمت عطا کرنے پر مائل ہو جاتی ہے۔
ان لوگوں سےجنگ صرف اسی وقت تک جاری رکھو جب تک کہ فساد ختم ہو جائے اور نظامِ زندگی اللہ کی راہنمائی کے مطابق چلنے لگے۔ اس لیے اگر وہ فتنہ و فساد ختم کر دیں تو پھر کہیں کوئی زیادتی / سختی نہ ہو سوائے ظالموں پر۔
اگر دشمن تم پر کچھ ممنوعہ شرائط کی صورتِ حال نافذ کرے تو اس کا جواب تمہاری جانب سے بھی اُسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق ہے۔ اور یہ اصول مسلمہ ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر کفارہ یاقصاص عائد ہوتا ہے۔ پس اس ضمن جو کوئی تمہارے خلاف اپنی حد سے بڑھے تو تم بھی اسی قدر حدود سے بڑھو۔ ساتھ ساتھ اللہ کی گرفت کا خوف دامن گیر رہے اور یہ علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

اور کھلا رکھو اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں لیکن یہ بھی خیال رہے کہ کہیں خود کو اپنے ہی ہاتھوں بے وسائل کر کے بربادنہ کر لو۔ ساتھی انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں سے محبت کرتا ہےجوخود اس کی عظیم صفتِ احسان اپنی ذات کے اندر سے منعکس کرتے ہیں۔

نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و تکرارمکمل کرو اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو ۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں ۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے ،یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور حجت تمام کرنے تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ جائیں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب الادا احکامات کو تسلیم کرنے یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔

اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے دلیل و مباحث کرنے کا طریقہ کار بہت معروف ہے اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے اتمامِ حجت خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت یعنی دلائل و مباحث کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ یعنی تحفظِ ذات کا راستہ اختیار کرو۔
اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں تھے۔
بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو اس درجے تک پھیلا دو جیسے کہ انسان زمین پر پھیلے ہوئے آزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں ،اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف کو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی سب کچھ دے دیا جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

مگر انسانوں میں ایسے راست سوچ کے مالک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی بہتری عطا کر اور حیاتِ آخرت میں بھی، اور اس طرح ہمیں حیاتِ آخرت سے محرومی کے اُس عذاب سے بچا لے جو انسان کی خرمنِ ہستی کوآگ کی طرح پیہم جلاتا رہیگا۔ دراصل یہی وہ انسان ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کے نصیب میں سب کچھ ہوگا ،کیونکہ اللہ کا احتساب بہت سرعت سےرُو بہ عمل ہوتا ہے۔
ختم شد
اُن اہم الفاظ کے معانی جو سابقہ متن میں بریکٹوں میں نشان زد کیے گئے ہیں :-
[الصِّيَامُ] : صیام ۔ /ساکت بغیر حرکت کھڑے ہو جانا/بچنا/پرہیز کرنا/اجتناب کرنا۔ abstinence
معرف باللام ہونے کی جہت سے جب یہ قرآنی اصطلاح " الصیام" بنتی ہے تو اس کا معنی ہے: ایک خاص پیرائے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کرنا، (Lane)۔ ایک مخصوص پرہیز و اجتناب کی تربیت کا نظام ۔
[أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ] : تیاری preparation کے دن یا دور ۔
[مَّرِ‌يضًا] : مریض۔ کمزوری میں، بیمارِی میں، روگ میں، نقص، تقصیر، کوتاہی میں ہونا۔ وہ جس کے قلب میں دین و ایمان میں نقص یا شبہ ہو [ الراغب]
[ سَفَرٍ] : زمین کا سفر، علم و عرفان کے حصول کا سفر، دریافت اور ترقی کے آسمان پر چمکنا/جگمگانا/واضح ہونا/جلوہ گر ہونا/نتیجہ نکالنا۔ گھر میں جھاڑو دینا اور کوڑا کرکٹ صاف کرنا۔ اسفار: وہ کتب جو حقائق بیان کرتی ہیں
To unveil, uncover, to shine, glow, to yield, achieve, bring to end result, to rise.
[فِدْيَةٌ] : compensation، بدل، تلافی، مال دے کر خود کو چھڑانا، کسی کا زرِ فدیہ ادا کرنا۔
[تَصُومُوا] : تم بچتے ہو، تم اجتناب یا پرہیز کرتے ہو، تم ساکت کھڑے ہوتے ہو۔you abstain, avoid, you serve
God in a particular way. ، ایک خاص پیرائے میں اللہ کی تابعداری کرنا۔
[رَ‌مَضَانَ ] : ایسی گرمی جو جلا دے، سخت گرمی کی کیفیت، تلواروں کو پتھر پر رگڑ کر تیز کرنا، burning heat ۔
[شَهْرُ‌]: کوئی مشہور صورتِ حال، ایک برائی، غلط کام، بڑا/بھاری/مشہور/بدنام/عمومی/ظاہر/جانی بوجھی/مہینہ۔
/Notorious/ Known/ manifest/ public
[هُدًى] : راہنمائی، ہدایت، مصدری شکل میں ایک دائمی ضابطہِ سیرت و کردار
[الْفُرْ‌قَانِ]: صحیح و غلط میں فرق کرنے والا؛ معرف باللام کی جہت سے قرآن کی صفتِ فرقانیت ۔
[الشَّهْرَ]: مخصوص عمومی مشہور یا بدنام صورتِ حال/مہینہ/وجہ شہرت
[فَلْيَصُمْهُ ] : تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے
[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] : پرہیز اور تربیت کے نظام کا فقدان /تاریکی /غیاب؛ الصیام: ایک مخصوص پرہیز و تربیت۔
[نِسَائِكُمْ ] : تمہارا کمزور طبقہ
[الرَّ‌فَثُ] : بدزبانی اور توہین سے پیش آنا
[تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]: اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرنا، ان کے حقوق غصب کرنا۔
[بَاشِرُ‌وهُنَّ]: راست تعلق رکھنا۔ اچھی خبر دینا۔
[وَكُلُوا] : کھانا، حاصل کرنا
[وَاشْرَ‌بُوا] : مشرب ، طریق کار، مسلک اختیار کرنا
[الْفَجْرِ] : فجر: صبح ، صبح کی روشنی۔ الفجر: دین کی روشن صبح
[الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] : سیاہ دھاگے سے سفید دھاگے کی تمیز، یعنی خیر اور شر، نیکی اور بدی میں فرق۔
[الصِّيَامَ] : قرآنی خطوط کے مطابق پرہیز اور تربیت کا نظام ؛ معرف باللام کی وجہ سے ایک مخصوص پرہیز و اجتناب ۔
[إِلَى اللَّيْلِ ]: بدی کے تمام اندھیروں تک ؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے عام رات نہیں بلکہ ایک خاص تاریکی کی کیفیت۔
[الْمَسَاجِد] : احکاماتِ الٰہی ، احکامات اور ان کی تعمیل، معرف باللام ہونے کی جہت سے مخصوص احکام۔
[عَاكِفُونَ ] : غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے والے، علیحدگی میں بیٹھنے والے۔
[الْأَهِلَّةِ]: پکار، اعلانات؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے دین اللہ سے متعلق مخصوص اصولوں کی بلند آواز میں تشہیر۔
[مَوَاقِيتُ]: واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔
[الْبُيُوتَ]: معرف باللام؛ اشراف، اعلیٰ خاندان/حکمران خاندان/ادارے،عبادت گاہیں؛ عمومی معنی بیت کی جمع،وغیرہ
[ظُهُورِ‌هَا]: بیک ڈور سے یعنی چور دروازے سے
[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ]: مقدس، محترم، واجب التعمیل/پابندی والے احکاماتِ /معاہدے
[الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ]: پابندیوں لاگو ہونے کی معلوم کیفیت یا حالات یا شرائط
[لِلَّـهِ] : اللہ کی منشاء پوری کرنے کے لیے
[وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ]: حج: حجت تمام کرنا؛ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔
[الْعُمْرَ‌ةَ]: عمرہ: زندگی/عمر گذارنا؛ العمرۃ: ایک خاص نظریےکی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارنا ۔
[فَفِدْيَةٌ]: بدل /تلافی
[ صِيَامٍ ] : پرہیز /اجتناب /بچنے/رکنےکا نظام وتربیت ،
[صَدَقَةٍ ]: اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھانا
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[ نُسُكٍ]: اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious.
[الْحَجُّ]: دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت
[أَشْهُرٌ‌ ]: بہت معروف طریق کار ، best known, apparent, conspicuous, manifest, notorious
[َعرَ‌فَاتٍ] : پہچاننا، تسلیم کرنا، اقرار کرنا، سوسائٹی کا رسم و رواج، شائستہ، صحیح، اعتراف، رکنے کی جگہ۔
[أَفَیضْو] : بھر جانا، بھر کر باہر گرنا، کھل جانا، واپس آنا، انڈیلنا، پھیلانا، آزادی سے بہنا، بھیڑ کیساتھ ایک سے دوسری جگہ جانا۔
[الصِّيَامُ] : صیام ۔ /ساکت بغیر حرکت کھڑے ہو جانا/بچنا/پرہیز کرنا/اجتناب کرنا۔ abstinence
معرف باللام ہونے کی جہت سے جب یہ قرآنی اصطلاح " الصیام" بنتی ہے تو اس کا معنی ہے: ایک خاص پیرائے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کرنا، (Lane)۔ ایک مخصوص پرہیز و اجتناب کی تربیت کا نظام ۔
[تَصُومُوا] : تم بچتے ہو، تم اجتناب یا پرہیز کرتے ہو، تم ساکت کھڑے ہوتے ہو۔you abstain, avoid, you serve
God in a particular way. ، ایک خاص پیرائے میں اللہ کی تابعداری کرنا۔
[رَ‌مَضَانَ ] : ایسی گرمی جو جلا دے، سخت گرمی کی کیفیت، تلواروں کو پتھر پر رگڑ کر تیز کرنا، burning heat ۔
[شَهْرُ‌]: کوئی مشہور صورتِ حال، ایک برائی، غلط کام، بڑا/بھاری/مشہور/بدنام/عمومی/ظاہر/جانی بوجھی/مہینہ۔
/Notorious/ Known/ manifest/ public
[فَلْيَصُمْهُ ] : تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے
[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] : پرہیز اور تربیت کے نظام کا فقدان /تاریکی /غیاب؛ الصیام: ایک مخصوص پرہیز و تربیت۔

"صوم" ، "صیام" اور "الصیام" کا غلط ترجمہ اور اس سے پیدا شدہ وسیع پیمانے کی گمراہی :

آئیے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لفظ بہ لفظ غور سے پڑھتے ہیں ۔ فرمایا ہے : کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون"۔
غور فرمائیے، ،،،،،،الصیام تم پر اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تمہارے قبل کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،،،،،تاکہ،،،،،،،،تم سب،،،،،،، "پرہیز گار"،،،،،،،،،، ہو جاو ۔
بالکل صاف طور سے فرمایا گیا کہ " الصیام" کا مقصد "پرہیز گاری" یعنی تقویٰ ہے ۔ یا کچھ ایسا کام ہے جو تقویٰ یعنی پرہیز گاری کے مترادف معنی دیتا اور اسی متعین مقصد کی جانب لے جاتا ہے ۔
اس سے یہ بھی کلیر ہو گیا کہ الصیام کا لغوی معنی بھی کچھ ایسا عمل ہی ہونا چاہیئے جس سے پرہیز گاری پیدا ہوتی ہے ۔ یعنی الصیام دراصل پرہیز گاری کا ایک تربیتی نظام یا کورس ہے ۔
پھر ہم جب صوم کے مادے کے معنی کی جانب جاتے ہیں تو واضح طور پر لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس میں : بچنا،،،اجتناب کرنا،،،،رک جانا،،،،پرہیز کرنا ،،،، پایا جاتا ہے ۔ [Lane’s Lexicon، مفردات راغب، قاموس الوحید، وغیرہ وغیرہ]
پس بالکل واضح ہے کہ "صیام " وہ تربیتی نظام یا کورس ہے جس سے انسان میں "پرہیز گاری" پیدا ہوتی ہے ۔
جب یہاں "رک جانے" یا "پرہیز/اجتناب کرنے" کے ساتھ کھانے پینے کی قماش کا کوئی تناظر ہی ملحق نہیں پایا جاتا ، تو ہم کس بنا پر یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ صوم یا صیام کا معنی "کھانے پینے کا روزہ" ہے ؟؟؟

آپ کتنی بھی کوشش کر لیں، صوم یا صیام کے معنی میں کھانے پینے سے پرہیز آپ کو نہیں ملے گا جب تک کہ آپ آنکھیں بند کر کے روایتی تراجم و تفاسیر کی پیروی شروع نہ کر دیں ۔
اور یہ بھی مشاہدہِ عام ہے کہ بھو ک و پیاس پرہیز گاری تو کیا پیدا کرے گی،،،، اس سے تو نہ صرف کھانے کی ہوس بڑھتی ہے، بلکہ انسان کوئی بھی محنت و مشقت کا کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا ۔ صرف اور صرف،،،،،مذہبی جنون کی کارفرمائی کے باعث،،،،،،،خود اذیتی کے ایک ایسے عمل سے گذرتا ہے جو اس کی تمامتر کسبی اور تخلیقی صلاحیتیں سلب کر لیتا ہے ۔

اب مزید آگے آئیے، تو دیکھتے ہیں کہ درجِ الٰہی فرمان اپنے مسخ شدہ روایتی ترجمے کی عنایت سے کس طرح ایک جھوٹے اور غیر تاریخی بیان کی صورت اختیار کر لیتا ہے [نعوذ باللہ] :
"الصیام [روزے] تم پر اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تمہارے قبل کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،،،،،تاکہ،،،،،،،،تم سب،،،،،،، "پرہیز گار"،،،،،،،،،، ہو جاو ۔ "
تاریخ اور تمام صحیفے اس پر شاہد ہیں کہ جو روزے صیام کے نام پر مسلمان پر تھوپے گئے ہیں، وہ آج تک کسی بھی قوم پر نہ تھوپے گئے، نہ ہی کوئی قوم اس خود اذیتی پر عمل کرتی نظر آتی ہے ۔
اگر آپ کے مشاہدے میں کبھی آیا ہو کہ پچھلی قومیں بعینہی ایسا ہی کوئی فریضہ ادا کر رہی ہیں، تو ضرور حوالہ دیں ۔
فلہٰذا فرمانِ الٰہی تب ہی سچ اور حقیقت کے معیار پر پورا اترے گا جب اس میں شامل لفظ "الصیام" کے درست معانی کا اس ترجمے پر اطلاق کیا جائیگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی ایک ایسا تربیتی کورس یا نظام جس سے انسان میں برائیوں سے اجتناب، رکاوٹ، اور پرہیز گاری [تقویٰ] پیدا ہو جائے ۔ یہی اس حکم کا مقصد بھی ہے جو صاف طور پر بیان کیا گیا ہے ۔

اورنگزیب یوسفزئی فروری ۲۰۱۴


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر7


موت، بعث ، حیاتِ نو اور شعور

 

سوال: کیادرجِ ذیل آیات سے عالمِ برزخ اور عذابِ قبر اور شعور کے تصور کا رد نہیں ہو جاتا ؟ یہ آیات ہیں: ۲/۱۵۴، ۱۶/۲۰-۲۱، ۳/۱۶۹-۱۷۰ ، ۲۲/۵۸ ، اور ۲۳/۱۲-۱۶ ۔
جواب:
آپ کے تین[ ۳] سوالات ہیں۔ شعور کے تصور کا رد، عذابِ قبر کا رد اور عالمِ برزخ کا رد ؟
شعور کے رد کا تصور تو مذکورہ آیات میں کہیں سے بھی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان آیات میں ہر جگہ جس حیاتِ نو کی بشارت دی گئی ہے وہ شعوری حیات ہی ہے ۔کیونکہ جسمانی موت تو اٹل ہے اور جسمانی زندگی دوبارہ نہیں لوٹ سکتی ۔ فطرت کے طریق کار اور طرزِ عمل میں کبھی کوئی ریورس گیئر نہیں لگتا بلکہ صرف آگے ہی آگے کا ، اور بلند تر مرحلوں کے حصول کا سفر درپیش ہے ۔ تخلیق کے تمام تر عمل کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے ۔ قرآن میں اسے "صراطِ مستقیم" اسی لیے کہا گیا ہے ۔ اگلا بلند تر اور شاید آخری اور انتہائی مرحلہ خالص شعوری حیات کا مرحلہ ہے جسے قرآن میں بجا طور پر "حیاتِ آخرت" کا نام دیا گیا ہے ۔ اورجس کے لیے موجودہ جسمانی زندگی کے سفر میں تیاری جاری رہتی ہے جس کی بڑی واضح اور ناقابلِ تردید نشانیاں ہمارے سامنے موجود رہتی ہیں ۔
نہ جانے آپ کے ذہن میں شعور کے رد کا خیال بھی کیسے آیا ۔ابتدائے آفرینش سے آج تک مسلسل تخلیق کے عمل میں جو کچھ بھی نشو و نما پا کر ہمارے سامنے آیا ہے وہ شعور ہی تو ہے جس کی سطح اور اقدار ہر مرحلہِ تخلیق کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی رہی ہیں ۔ حتیٰ کہ انسانی مرحلہِ تخلیق میں یہ شعوری سطح اب تک کی افضل ترین سطح تک پہنچ گئی، یعنی شعورِ ذات کی خود آگاہ سطح تک، وہ سطح جو آج تک تخلیق کے کسی بھی سابقہ مرحلے میں کسی بھی مخلوق کو ودیعت نہیں ہوئی ۔ یعنی تخلیق کے ہر مرحلے میں شعور اپنی کمتر سطح یا اقدار سے بتدریج بلند تر ہوتا بالآخر انسانی ذات میں خود آگہی کے بلند ترین مرحلے تک آ پہنچا ۔ اور خود آگہی دراصل اپنے تخلیق کار، یا اپنےخالق کے وجود سے آگہی کا درجہ ہوتا ہے۔
جو لوگ بھی صوفیاء کی زندگیوں کے حالات کا علم رکھتے ہیں وہ بھی یہ نکتہ جانتے ہیں کہ ہر صوفی خالق کی تلاش میں اپنی ذات ہی کے نہاں خانوں کی گہرائیوں میں ڈوب ڈوب کر ابھرتا ہے کیونکہ وہ یہ جان جاتا ہے کہ خالق کی صفات ہی مخلوق کا بڑا ورثہ ہوتا ہے اور پیدائش ہی سے اس کی ذات کے اندرون میں ودیعت کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر خالق، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اپنی تخلیق میں خود اپنی صفات و ممکنات ہی کو ظاہر یا بیان کرنا چاہتا ہے۔
یہاں رد البتہ عذابِ قبر کے تصور کا ضرور ہوتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کے طول و عرض میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے ۔جسمانی موت، تدفین، پھر شعوری لافانی ذات کی ، جسمانی نظام سے مبرا حیاتِ نو، یعنی حیاتِ آخرت۔ اسے ہی عرفِ عام میں روحانی زندگی کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس پورے نظام یا عمل درآمد میں قبر میں کسی بھی قسم کی کارروائی خارج از امکان ہے کیونکہ انسانی اجسام مرنے کے بعد ٹھکانے لگانے کے لیےقبر کے علاوہ بھی دیگر کئی طریقوں سے فطرت کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ۔
رہ گیا برزخ ، تو یہ عمومی فہم کے مطابق اُس وقفے کو کہا جاتا ہے جو جسمانی موت اور شعوری حیات کے از سرِنو ، ایک آئندہ اور بلند تر مرحلے میں ، جاگ جانے کے درمیان ہوتا ہے ۔ اس عالمِ برزخ سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس کا وقفہ کتنا ہوگا۔ اور اس وقفے میں انسانی شعور کہاں تنویم کے عمل سے گذرے گا ۔ صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں۔اس ضمن میں اسپِ خیال کی برق رفتار پرواز بھی آپ کو کوئی تشفی بخش جواب نہ دے پائے گی، بلکہ اس کی گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش سے کئی ثقیل سوالات ذہن میں پیدا ہو جائیں گے جن کے جواب میں آپ صرف اندازے لگا سکیں گے۔ بات تخلیق کے اُسی طریقِ کار تک پہنچے گی جہاں انسان اپنے مشاہدے اور علم کی مدد سے پہنچ چکا ہے کہ، ، ، ، ،،،،،تخلیق کی ایک پست تر سطح پر موجود ہوتے ہوئے ،،،،،،،کوئی بھی مخلوق خود سے برتر مرحلے کی تخلیق کی نوعیت اور اس کے بارے میں کیفیات کا علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔ یعنی اس کی شعوری اقدار اگلے ترقی یافتہ مرحلے کے بلند ترشعور تک پہنچ ہی نہیں پاتیں ۔ یہ بات قطعی قرین عقل اس لیے بھی ہے کہ ہماری عام زندگی میں بھی کوئی اسکول کا طالب علم ،کالج کے علم کی سطح تک، یا کالج کا طالب علم، یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے علم کے بارے میں نہیں جان سکتا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے حیوانات تخلیق کے کم تر درجے میں ،کم تر شعوری اقدار کے ساتھ رہتے ہوئے، انسان کے برتر درجے کی کیفیات و حالات کے بارے میں علم حاصل نہیں کر سکتے۔
اب آئیے آپ کی حوالہ زد آیات کا مبسوط ترجمہ کرنے کی کوشش کر لیتے ہیں، شاید کہ سوالات حل ہو جائیں اور ذہن کی گرہیں خود بخود کھل جائیں۔ برسبیلِ تذکرہ، آپ کے ان حوالہ جات سے جو چیز کھل کر اپنا اثبات کر رہی ہے وہ ایک حتمی آنیوالے برتر درجہِ حیات کا وجود ہے، یعنی حیاتِ آخرت کا وجود ۔
آیات : ۲/۱۵۴-۱۵۵
و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات،، بل احیاء و لکن لا تشعرون ۔۔ و لنبلونکم بشیء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات۔۔ و بشر الصابرین ۔
ترجمہ: جو لوگ بھی اللہ کے متعین کردہ مقاصد کی آبیاری کرتے ہوئے[ فی سبیل اللہ] مار دیے جائیں تم لوگ انہیں ہرگز مردہ مت کہا کرو ۔ وہ تو اس کے برعکس ایک ایسے بلند تر مرحلہِ زندگی میں زندہ ہوتے ہیں جس کی کیفیات و ماہیت کا تم اپنے موجودہ مرحلہِ حیات میں شعور نہیں رکھتے ۔
اور یہ ہمارا مقرر کردہ طریقِ کار ہے کہ ہم ضرور تم سب کو تمہاری ارتقائے ذات کی خاطر خوف، بھوک، اموال و افراد میں کمی اور متوقع خوش آئند نتائج سے محرومی جیسی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں[لنبلونکم] ۔ پھر جو تم میں سے ان آزمائشوں میں استقامت سے کام لیتے ہیں، انہیں اس کے خوشگوار نتائج کی خوشخبری دے دی جائے۔

آیات: ۱۶/۲۰-۲۱
و الذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئا و ھم یخلقون ۔ اموات غیر احیاء ۔ و ما یشعرون ایان یبعثون۔
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہیں یہ اللہ کے ماسوا پکارتے ہیں کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے کیونکہ وہ خود اللہ کے تخلیق کردہ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مردے کی مانند ہیں، زندگی کے بغیر ہیں۔ اور وہ یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ انہیں کب حیاتِ نو عطا کی جائے گی۔

۳/۱۶۹-۱۷۰
و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا۔ بل احیاء عند ربھم یرزقون۔۔۔
ترجمہ: نیز وہ لوگ جو اللہ کے متعین کردہ مقاصد کی تکمیل میں [فی سبیل اللہ] مار دیے گئے انہیں تم لوگ مردوں میں شمار مت کیاکرو ۔ وہ تو اس کے برعکس زندہ ہیں اور اپنے رب کی جانب سے مسلسل حصولِ علم کرتے بلندیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔

آیات: ۲۲/۵۸-۵۹
و الذین ھاجروا فی سبیل اللہ ثم قتلوا او ماتوا لیرزقنھم اللہ رزقا حسنا ۔ و ان اللہ لھو خیر الرازقین ۔ ۔ لیدخلنھم مدخلا یرضونہ۔ و ان اللہ لعلیم حلیم،۔۔۔
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کے مقاصد کے حصول میں ترکِ وطن کیا، پھر مار دیے گئے یا فوت ہو گئے، بے شک اللہ انہیں بہترین عنایات کے ذریعے نشو ونما کے جانب لے جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو بہترین سامانِ نشوونما عطا کرتا ہےاور وہ ضرور انہیں ایسے مدارج میں داخل فرما دے گا جہاں وہ مسرتیں اورتسکینِ کامل حاصل کریں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ان مدارج کا علم رکھنے والا اور نرم دل، متین اور بردبار ہے ۔
۔

آیات: ۲۳/۱۲-۱۶
و لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ۔ ۔ ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ ، فخلقنا العلقۃ مضغۃ ، فخلقنا المضغۃ عظاما ، فکسونا العظام لحما ،ثم انشاناہ خلقا آخر ۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین ۔ ثم انکم بعد ذلک لمیتون ۔ ثم انکم یوم القیامۃ تبعثون۔

[یہاں، دیگر متعدد مقامات کی مانند، انسان کے حیوانی نظامِ زندگی کی تخلیق کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ۔ اسے کئی انداز سے بیان کیا جا سکتا ہے ، جس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ آج انسانی علوم کی ترقی نے یہ تمام مراحل آشکار کر دیے ہیں۔]

ترجمہ : اور انسان کے طبیعی یا حیوانی نظام کی تخلیق تو ہم نے مٹی کے خلاصے سے کی ہے ۔ پھر اگلے مرحلے میں ہم نے اسے نطفہ بنایا جو رحمِ مادر کے اندر ٹھہر گیا اور مادہ کے بیضے میں قرار گیر ہو گیا۔ پھر اس نطفے کو ایک لٹکتی ہوئی چیز میں تبدیل کیا، پھر اس علقے کو جنین بنایا۔ پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ ابھاردیا۔ پھر اس ڈھانچے پر گوشت کی تہ چڑھا دی ۔
یہاں تک حیوانی جسم کی تکمیل ہونے کے بعد ہم نے اسےایک بالکل مختلف سطح یا ایک برتر مرحلے کی مخلوق کی صورت میں ایسی حیات عطا کر دی جو حیوانات سے یکسر مختلف ہے [ خلقا آخر]۔ پس دیکھو کہ اللہ کی ذات کیسی مستحکم اور نشوونما دینے والی ہے کہ وہ تخلیق کاروں میں سب سے برتر ہے۔ پیدائش کے اس منفردمرحلے کے بعد تم سب ایک دن لازماْ موت سے ہمکنار ہو جاتے ہو۔ لیکن بعد ازاں ایک بڑے اور خاص قسم کے تخلیقی مرحلے کے قیام پر [یوم القیامۃ]تم سب پھر ایک برتر نوع کی زندگی عطا کر دیے جاوگے ۔
- - - - - -
اہم الفاظ کا مستند لغوی ترجمہ:

[رزق]: ہر وہ عنایت اور عطا جو انسان کے ارتقاء اور نشوونما میں سود مند ہو۔ یہ نشو ونما مادی بھی ہو اور علمی و عقلی بھی۔ خصوصاْ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ۔
[فی سبیل اللہ]: اللہ کے مقاصد کی تکمیل کا راستہ؛ کاطریق ِ کار؛ کا سلسلہ ؛ اس راستے میں ہونے والا عمل یا کارروائِ ۔
[خلقا آخر] : ایک دیگر قسم کی مخلوق جو زیرِ تذکرہ جسمانی یا حیوانی مخلوق سے الگ اور برتر ہو ۔
[یوم القیامۃ]: وہ موعودہ دور یا مرحلہ جب ایک طے شدہ آئندہ تخلیقی مرحلے کا قیام عمل میں آئے جو موجودہ جاری مرحلے کی سطح سے برتر یا بلند تر ہو ۔

اورنگزیب یوسفزئی جنوری:۲۰۱۴


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر6


سورة عبس

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

سورۃ ِ زیرِ نظر کا ترجمہ قریبی اصحاب کے اصرار پر ایک نشانِ راہ کے انداز میں صاحبانِ علم کے غور و خوض کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔ قرآنِ عظیم کے بلند و بالا ادبی و علمی اسلوب کو مد نظر رکھا گیا ہے اور عبارت کے باہم گہرے ربط و ضبط کو واضح کرنے کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔
اس سورت میں عمومی طور پر مخاطب کے طور پر حضور رسالتمآب [ص] کو مخصوص کر لیا جاتا ہے جس سے آپ کی ذاتِ گرامی اور سیرتِ عالیہ پر حرف آ جاتا ہے ۔ پھر مختلف تاویلیں کر کے رسولِ پاک پر وارد اس نام نہاد سرزنش کے اثرات کو کم کرنے کی بے سُو دکوشش کی جاتی ہے ۔
واضح رہے کہ یہاں متکلم نے واحدمذکر غائب اور مذکر مخاطب کی ضمیریں استعمال کی ہیں جنہیں کسی بھی خاص شخصیت کی جانب اس لیے منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ پوری سورت میں کہیں بھی ان ضمائر کا مرجع سامنے نہیں لایا گیا ۔ فلہذا یہ خطاب ِ عمومی ہے جو تمام اہلِ علم کے لیے ہے، وہ اہلِ علم جن کا رویہ ایسا ہو کہ کسی مکمل طور پر لاعلم انسان کی تربیت کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ جاہلِ مطلق کی صنف میں آتا ہو ۔ اور کسی ایسے پر پوری توجہ دی جائے جو خود کو افلاطون سمجھتا ہو اور جسے اس تربیت کی کوئی خاص پرواہ بھی نہ ہو ۔ یہ زور دیا گیا ہے کہ قرآنِ حکیم [الذِّكْرَ‌ىٰ] کا پیغام ہر انسان تک پہنچانا ضروری ہے خواہ اس کے علم کی سطح پست ہو یا بلند۔اور اس معاملے میں اکراہ اور گریز کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان اپنے تمام تر علم کے باوجود اپنی تخلیق کے طریقِ کار اور مقصد سے پوری طرح آشنا نہیں ہے ۔
آئیے اللہ کے پاک نام کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا يُدْرِ‌يكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ‌ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَ‌ىٰ ﴿٤﴾ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿٥﴾ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿٦﴾ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿٨﴾ وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿٩﴾ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿١٠﴾ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ ﴿١١﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ ﴿١٢﴾ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ ﴿١٥﴾ كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١٦﴾ قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَ‌هُ ﴿١٧﴾ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ ﴿١٩﴾ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَ‌هُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَ‌هُ ﴿٢٢﴾ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَ‌هُ ﴿٢٣﴾ فَلْيَنظُرِ‌ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْ‌ضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢﴾ فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾ يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِ‌ئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَ‌ةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَ‌ةٌ ﴿٣٩﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَ‌ةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْ‌هَقُهَا قَتَرَ‌ةٌ ﴿٤١﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَ‌ةُ الْفَجَرَ‌ةُ ﴿٤٢﴾
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾
کسی کے پاس کوئی علم سے محروم انسان [الْأَعْمَىٰ] آ جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ وہ ناگواری محسوس کرے اور اسے تعلیم دینے سے گریز کی راہ اختیار کرے ؟
وَمَا يُدْرِ‌يكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ‌ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَ‌ىٰ ﴿٤﴾
یہ کیسے تمہارے حیطہِ ادراک میں لایا جائے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شخص ذہنی طور پر نشوونما پانے کی صلاحیت سے مالا مال ہو[لَعَلَّهُ يَزَّكَّى]۔ یا وہ اتنی توجہ سے سیکھے کہ یہ اللہ کی نصیحت و راہنمائی [الذِّكْرَ‌ىٰ ]اس کی ذات کے لیے منفعت بخش ہو جائے[فَتَنفَعَهُ ]۔
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿٥﴾ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿٦﴾:دوسری طرف وہ جو علم سے بے نیازی برتے اور تم اس پر توجہ دیتے رہو۔
وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿٧﴾ : اور وہ پھر بھی ذہنی نشوونما نہ پا سکے تو پھر تم پر اس کی جواب داری کی کیا صورت رہیگی؟
وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿٨﴾ وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿٩﴾ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿١٠﴾
اس لیے، وہ جوخود تم تک پہنچا ہو اور جدو جہد بھی کرتا ہو ۔نیز وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو، تو کیا تم لوگ ایسے انسان کو سکھانے کی ذمہ داری سے جی چراوگے؟
كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ ﴿١١﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ ﴿١٢﴾ : ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ قرآن تو ایک عمومی ہدایت اور راہنمائی ہے اور ہر وہ انسان اسے یاد کرنے اوراس سے نصیحت لینے کا حق رکھتا ہے جو اپنی منشاء سے ایسا کرنا چاہے ۔
فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ ﴿١٤﴾
یہ ایسے صحیفے میں درج ہے جو واجب الاحترام ہے، بلند مرتبہ ہے اور پاکیزہ ہے ۔
بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ ﴿١٥﴾ كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١٦﴾: اور ایسے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے جو نیک، معزز اور ماہر خوشنویسوں کے ہاتھ ہیں ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَ‌هُ ﴿١٧﴾
حقیقت تو دراصل یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے تخلیقی طریقِ کار و راہنمائی سے انکار اسےروحانی طور پر مار دیتا ہے۔
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ ﴿١٩﴾: وہ یہ جان لے اور یاد رکھے کہ اس کی تخلیق کس چیز سے کی گئی ہے ۔ ایک قطرے سے اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی اس زندگی کے لیے قواعد و قوانین منضبط کر دیے گئے۔
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَ‌هُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَ‌هُ ﴿٢٢﴾
پھر اس کا مخصوص راستہ اس کے لیے مہیا اور آسان کیا گیا ۔ پھر گردشِ وقت کے ذریعے اسے انجام تک پہنچایا گیا اور اس کے جسدِ خاکی کو گڑھے میں دفن کیا گیا۔ اور پھر قانونِ مشیت کے مطابق اسکی ذاتِ حقیقی کو حیاتِ نو عطا کرنے [أَنشَرَ‌هُ ]کا طریقِ کار تشکیل دیا گیا۔
كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَ‌هُ ﴿٢٣﴾
اس لیے ابھی ایسا ہرگز نہ سوچو کہ اس کے لیے جو منزلِ مقصود متعین کی گئی ہے[أَمَرَ‌هُ ] وہ اس نے حاصل کر لی ہے [يَقْضِ ]۔
فَلْيَنظُرِ‌ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾
اس منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے حصولِ علم کی طرف توجہ دے۔ اور غور کرے کہ
أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْ‌ضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢﴾

فی الحقیقت ہم نے کس کمال کے ساتھ تخلیق کے نباتاتی مرحلے میں وافر مقدار میں پانی فراہم کیا۔ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور اس میں سےاناج پیدا کرنے کے اسباب کیے۔ اور انگور اور سبزیاں، اور زیتون اور کھجور کے درخت، اور بھرپور باغات، اور دیگر متنوع اقسام کے پھل اور گھاس پھوس تخلیق کیے ، تاکہ تمہارے اور تمہارے پالتو جانوروں کے لیے سامانِ زیست بنیں ۔
فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾ يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِ‌ئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ
پس اس طبیعی زندگی کے بعد پھر وہ آخرت کا مرحلہ آئے گا جب وہ کان پھاڑ دینے والا دھماکہ وقوع پذیر ہوگا۔ یہ وہ آخری دور ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے دُور بھاگے گا، اور اپنے ماں اور باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ان سب میں سے ہر انسان اُس مرحلے میں صرف اپنے اعمال کے نتائج ہی کی فکر میں مستغرق ہو گا۔
﴿٣٧﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَ‌ةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَ‌ةٌ ﴿٣٩﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَ‌ةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْ‌هَقُهَا قَتَرَ‌ةٌ ﴿٤١﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَ‌ةُ الْفَجَرَ‌ةُ ﴿٤٢﴾
اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے، مسکراتے اور خوش باش ہوں گے۔ کچھ اور چہرے اس دن غبار آلودہ ہوں گے ۔ ان پر تاریکیاں مسلط ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہدایتِ خداوندی سے انکار اور انتشار کی روش اپنائی ہوگی۔
اور اب رواں ترجمہ :-
کسی کے پاس کوئی علم سے محروم انسان آ جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ وہ ناگواری محسوس کرے اور اسے تعلیم دینے سے گریز کی راہ اختیار کرے ؟
یہ کیسے تمہارے حیطہِ ادراک میں لایا جائے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شخص ذہنی طور پر نشوونما پانے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ یا وہ اتنی توجہ سے سیکھے کہ یہ اللہ کی نصیحت و راہنمائی اس کی ذات کے لیے منفعت بخش ہو جائے۔
دوسری طرف وہ جو علم سے بے نیازی برتے اور تم اس پر توجہ دیتے رہو۔
اور وہ پھر بھی ذہنی نشوونما نہ پا سکے تو پھر تم پر اس کی جواب داری کی کیا صورت رہیگی؟
اس لیے وہ جوخود تم تک پہنچا ہو اور جدو جہد بھی کرتا ہو ۔نیز وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو، تو کیا تم لوگ ایسے انسان کو سکھانے کی ذمہ داری سے جی چراوگے؟
ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ قرآن تو ایک عمومی ہدایت اور راہنمائی ہے اور ہر وہ انسان اسے یاد کرنے اوراس سے نصیحت لینے کا حق رکھتا ہے جو اپنی منشاء سے ایسا کرنا چاہے ۔
یہ ایسے صحیفے میں درج ہے جو واجب الاحترام ہے، بلند مرتبہ ہے اور پاکیزہ ہے ۔
اور ایسے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے جو نیک، معزز اور ماہر خوشنویسوں کے ہاتھ ہیں ۔
حقیقت تو دراصل یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے تخلیقی طریقِ کار و راہنمائی سے انکار اسےروحانی طور پر مار دیتا ہے۔
وہ یہ جان لے اور یاد رکھے کہ اس کی تخلیق کس چیز سے کی گئی ہے ۔ ایک قطرے سے اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی اس زندگی کے لیے قواعد و قوانین منضبط کر دیے گئے۔
پھر اس کا مخصوص راستہ اس کے لیے مہیا اور آسان کیا گیا ۔ پھر گردشِ وقت کے ذریعے اسے انجام تک پہنچایا گیا اور اس کے جسدِ خاکی کی تدفین کا انتظام کیا گیا۔ اور پھر قانونِ مشیت کے مطابق اسکی ذاتِ حقیقی کو حیاتِ نو عطا کرنے کا طریقِ کار تشکیل دیا گیا۔
اس لیے ابھی ایسا ہرگز نہ سوچو کہ اس کے لیے جو منزلِ مقصود متعین کی گئی ہے وہ اس نے حاصل کر لی ہے ۔
اس منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے حصولِ علم کی طرف توجہ دے۔ اور غور کرے کہ
فی حقیقت ہم نے کس کمال کے ساتھ تخلیق کے نباتاتی مرحلے میں وافر مقدار میں پانی فراہم کیا۔ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور اس میں سےاناج پیدا کرنے کے اسباب کیے۔ اور انگور اور سبزیاں، اور زیتون اور کھجور کے درخت، اور بھرپور باغات، اور دیگر متنوع اقسام کے پھل اور گھاس پھوس تخلیق کیے ، تاکہ تمہارے اور تمہارے پالتو جانوروں کے لیے سامانِ زیست بنیں ۔
پس اس طبیعی زندگی کے بعد پھر وہ آخرت کا مرحلہ آئے گا جب وہ کان پھاڑ دینے والا دھماکہ وقوع پذیر ہوگا۔ یہ وہ آخری دور ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے دُور بھاگے گا، اور اپنے ماں اور باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ یہ سب لوگ ُ اس مرحلے میں صرف اپنے اعمال کے نتائج ہی کی فکر میں مستغرق ہونگے۔
اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے، مسکراتے اور خوش باش ہوں گے۔ کچھ اور چہرے اس دن غبار آلودہ ہوں گے ۔ ان پر تاریکیاں مسلط ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہدایتِ خداوندی سے انکار اور انتشار کی روش اپنائی ہوگی۔

اورنگزیب یوسفزئی نومبر ۲۰۱۳


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر5

 

مکہ پر ابرہہ یمنی کا حملہ – ہاتھیوں کی یلغار


سورہ الفیل

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

چند قریبی اعزہ کی خواہش پر یہ ترجمہ بھی عمومی مشاورت اور اتفاق رائے کی خاطر پیشِ خدمت ہے۔قرآنِ حکیم کی حکمت عالیہ کو جدید سائنسی علوم کی روشنی میں حیطہِ ادراک میں لانا جدید زمانے کا تقاضہ ہے۔ نوٹ فرمائیے کہ ترجمے میں سازشی بنیاد پر ڈالے گئے دیو مالائی عنصر کی کارفرمائی ختم کرتے ہی یہ ترجمہ عقل و منطق و زمینی حقائق کی کسوٹی پر اس طرح پورا اترتا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا منطقی عالم یا سائینس دان بھی اسکا نہ مذاق اڑا سکتا ہے نہ اسکی وثاقت سے انکار کی کوئی سبیل کر سکتا ہے۔
اس عاجز کی منشاء صرف یہ ہے کہ اللہ کے کلام کی غیر ملاوٹ شدہ اور منزہ شکل کو آلودہ تراجم کی خرافات کے ڈھیر سے اس طریق سے برآمد کر لیا جائے کہ اس کی سچائی جگمگ کرتی سامنے آجائے اور دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جائے ۔ نیز اس میں سے ملاوٹ شدہ معجزاتی اور فوق الفطری جزئیات کی مکمل طور پر تطہیر کر دی جائے۔
ایسا تبھی ممکن ہوا ہے کہ قرآن کے بلند و بالا ادبی اسلوب اور استعاراتی و محاوراتی اصطلاحات کو پوری توجہ سے زیر تحقیق لایا گیا ہے تاکہ لفظی ترجمہ کرنے کی فاش غلطی سے جو فتنے اب تک اٹھ چکے ہیں اس کا سد باب ہو جائے۔ لگ بھگ ایک درجن مستند لغات کی مدد سے اخذ کردہ الفاظ کے معانی متن کے اواخر میں دے دیے گئے ہیں تاکہ اطمینانِ قلب حاصل رہے اور یہ نہ باور کیا جائے کہ ترجمہ ذاتی اغراض کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
تو آئیے رب العزت کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١﴾ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾ وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾ تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١﴾
کیا آپ نے دیکھ نہیں لیا کہ آپ کے نشوونما دینے والے نے ڈینگیں مارنے والے خطا کار کم عقلوں [أَصْحَابِ الْفِيلِ]کے ساتھ کیسا معاملہ کیا۔

أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾
کیا تمہارے رب نے ان لوگوں کے تمام حربوں [كَيْدَهُمْ ] کو خس و خاشاک میں نہیں ملا دیا ۔

وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾
اس طرح کہ ان کے مقابلے میں سیماب صفت ، جھپٹ کر حملے کرنے والوں کی ایسی جماعتیں [طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ] بھیج دیں ،

تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾
جو انہیں صحیفے [سِجِّيلٍ ] میں سے حاصل کردہ عقل و دانش کے دلائل [بِحِجَارَ‌ةٍ ]کی بوچھاڑ مار تے تھے [تَرْ‌مِيهِم ]۔

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾
بالآخر اس انداز میں پیش قدمی کے ذریعے تمہارے رب نے انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند کچل کر رکھ دیا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔

بریکٹوں میں دیے ہوئے الفاظ کے مستند معانی :-

[الْفِيلِ]: فال: غلطی پر ہونا؛ غلط اور کمزور رائے یا فیصلہ کرنا؛ غلط کار؛ خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ۔ اسی سے قبل از اسلام زمانے میں "فیل" یعنی ہاتھی بھی مشتق کیا جاتا ہے جو کہ دراصل فارسی یا آرامی زبانوں سے عربی میں لایا گیا تھا ۔ to be weak-minded, to rebuke, lack of wisdom, give bad counsel, to magnify & aggrandize oneself.
[كَيْدَهُمْ]: ان کی تدبیریں؛ چالیں
[طَيْرً‌ا]: پرواز کرنے والے؛ سیماب صفت، جھپٹ کر حملہ کرنے والے، تار تار کر دینے والے،تتر بتر کرنے والے، صفوں کو درہم برہم کرنے والے؛ منتشر کرنے والے، پھیل جانے، چھا جانے والے ، الطائر: دماغ۔
[أَبَابِيلَ]: گروہ، جماعتیں، جھنڈ، غول
[سِجِّيلٍ]: سجل: بڑی بڑی پانی سے بھری بالٹیاں؛ پکی ہوئی مٹی کے بنے پتھر؛ قانونی ریکارڈ؛ فیصلوں کی دستاویز؛ رجسٹر؛ صحیفہ؛ جو کچھ ان کیلیئے لکھ دیا گیا/فیصلہ کر دیا گیا۔ A Scroll of writing/decrees/ to decide judiciously.
[بِحِجَارَ‌ةٍ]: حجر: کسی چیز سے روکنا، رکاوٹ ڈالنا، پرہیز و اجتناب، پابند کر دینا، مصروف کر دینا، ممنوع کر دینا، عقل و دانش، فہم و سمجھ، دماغی صلاحیتیں، فہم و ادراک کی قوت؛
پتھروں سے احاطہ کر نے سے لیکر عقلِ انسانی کو بھی "حجر" کہا جاتا ہے کہونکہ وہ بھی انسان کو نفسانی بے اعتدالیوں سے روکتی ہے [مفردات راغب] ۔ "ھل فی ذلک قسم ا لذی حجر": کیا یہ چیزیں عقلمندوں کے لیے قسم کھانے کے لائق ہیں [مفردات راغب]۔
[تَرْ‌مِيهِم]: ترمی؛ رمی؛ پھینک کر مارنا؛ بوچھاڑ کرنا؛ برسانا۔

اور اب رواں ترجمہ :
کیا آپ نے دیکھ نہیں لیا کہ آپ کے نشوونما دینے والے نے ڈینگیں مارنے والے خطا کار کم عقلوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا۔ کیا تمہارے رب نے ان کے تمام حربوں کو خس و خاشاک میں نہیں ملا دیا ۔
اس طرح کہ ان کے مقابلے میں سیماب صفت ، جھپٹ کر حملے کرنے والوں کی ایسی جماعتیں بھیج دیں ،
جو انہیں صحیفے سے حاصل کردہ عقل و دانش کے دلائل کی بوچھاڑ مار تے تھے ۔ بالآخر اس انداز میں پیش قدمی کے ذریعے تمہارے رب نے انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند کچل کر رکھ دیا۔

اورنگزیب یوسفزئی دسمبر: ۲۰۱۳


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر4


مساجداللہ


سورۃ البقرۃ – آیت ۲/۱۱۴ :

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ‌ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَ‌ابِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١١٤﴾

اور کون ان لوگوں سے زیادہ ناحق پر ہوگا جنہوں نے یہ رکاوٹ ڈالی اور ممنوع قرار دیا کہ اللہ کی اطاعت کے مراکز [مَسَاجِدَ اللَّـهِ ]میں اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ [اسْمُهُ ]کو پیشِ نظر رکھا جائے اور ان سے سبق و نصیحت لی جائے [يُذْكَر]؛ بلکہ انہوں نے تو اللہ کے احکامات کا حلیہ بگاڑنے کی کوششیں کیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ ان مراکز میں داخل ہوں سوائے اس کے کہ خوفزدہ اور عاجزی کی حالت میں آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیاں اس دنیا میں بھی خزاں رسیدہ رہینگی اور آخرت میں بھی ان کے حصے میں ایک عظیم سزا ہوگی ۔
مساجد : سجدہ ؛ اطاعت میں مکمل سپردگی ۔ مساجد: وہ مراکز جہاں اطاعتِ الٰہی کی کامل تنفیذ کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
اسم: سمو: بلند، رفیع الشان، عالی صفات، نمایاں اور ارفع مقام ؛ اسم : وہ نشان یا وصف جس سے بلندی اور شان ظاہر ہوتی ہے۔ sign or attribute for distinction.
ذکر: یاد دہانی، پیشِ نظر رکھنا، نصیحت، نصیحت لینا، یاد رکھنا ، شرف و مجد ۔

اورنگزیب یوسفزئی اکتوبر ۲۰۱۳

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر3


حلال و حرام

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
حلال و حرام خوراک کا موضوع اسلامک تھیالوجی، یعنی اسلامی الٰہیات سے منسلک علوم میں ایک اساسی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس پر متقدمین اور متاخرین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں دل کھول کر بحثیں کی ہیں ۔ فقہی قوانین وضع کیے گئے اور فتاویٰ صادر کیے گئے ہیں۔
البتہ اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں قرآنِ حکیم دراصل کردار سازی کا ایک دائمی ضابطہ {ھدی- Hudan }ہے اور انسانی اخلاقیات کا ایک ایسا تربیتی نظام مہیا کرتا ہے کہ جس سے انسان اس قابل ہو جائے کہ اپنے طرز معاشرت یعنی سوسائٹی کا نظم و نسق، رہن سہن، لباس و آرائش اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی خورد و نوش سے متعلق ۔ ۔ ۔ ۔خود اختیاری کے ساتھ شعوری فیصلے کر سکے۔
پس حلال و حرام کے ضمن میں جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ ہمارے روایتی تراجمِ قرآن اپنی مخصوص غیرعقلی اور غیر منطقی ڈگر پر چلتے ہوئےہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کردار سازی کے اس الہامی ضابطے میں اللہ تعالیٰ ہمارے کردار کی تعمیر سے زیادہ ہمارے کھانے پینے کی فکر فرماتا ہے اور ہمیں واضح اورمتعین انداز میں ، نیک و بد اعمال و افعال کو حلال و حرام قرار دینے کےساتھ ساتھ، فلاں قسم کی خوراک کھانے کی اجازت دیتا اور فلاں نوعیت کی اشیاء کھانے سے منع فرماتا ہے ۔گویا کہ خوراک پر پابندیاں لگانا یا اس کی درجہ بندی کرناکوئی کردار سازی میں ممد عمل ہے جس کے لیے حتمی انداز میں احکامات جاری کیے جا نے ضروری ہیں ۔
لیکن جب مشاہدہِ حق کی گفتگو ہورہی ہو تو ہمارےحیطہِ علم میں ایسے حقائق آتے ہیں کہ وہ اشیائے خوراک جوقرآنی احکام کے حوالے سے ہم مسلمانوں کو ممنوع باور کرائی جاتی ہیں وہ دیگر اقوام میں سکہِ رائج الوقت کی مانند بالعموم زیرِ استعمال ہیں ۔۔۔۔ لہذا۔۔۔۔۔ لامحالہ ذہن میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ :
۱] اگر ہمارے خالق و مالک نے تمام اقوام میں اپنے پیغامبر اپنی ہدایت کے ساتھ مبعوث کیے تھے، جیسا کہ قرآن میں حتمی طور پر بیان کیا گیا ہے، تو پھر اللہ کا کلمہ اور سنت تمام اقوام کے لیے یکساں کیو ں نہیں ہے؟ کچھ پابندیاں از قسم خوراک صرف اور صرف مسلمانوں ہی کے لیے کیوں؟ جبکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے طریقہ کار و قوانین میں کسی کے لیے تبدیلی نہیں لاتا، اس لیے وہ پوری نسلِ انسانی پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔
۲] اگر ہمیں حرام اشیاء کھانے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، تو پھر وہی اشیاء نسل در نسل دیگر مذہبی گروہ بلا کسی نقصان دہ اثرات کیسے استعمال کرتے آ رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کا صحتِ عامہ کا معیار ہم سے بہر حال بہتر ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟،،،،،،، اور۔ ۔ ۔
۳] اگر حرام اور ممنوعہ اشیاء کے استعمال سے کوئی روحانی یا اخلاقی تنزل وقوع پذیر ہونے کا خدشہ ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پابندیوں پر سختی سے عمل پیراء ہونے کے باوجود صرف مسلمان ہی کیوں سب سے زیادہ روحانی اور اخلاقی زوال کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں معاشی ، معاشرتی اورعسکری زوال کا بھی سامنا ہے، جو کہ ہر دیکھنے والی آنکھ بآسانی دیکھ سکتی ہے ؟
کیونکہ ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی شافی و کافی جواب نہیں ہے اس لیے اب آپ یہ سوچنے پرخود کو مجبور پائیں گے کہ جن اشیاء کو خوراک کے طور پر ہمارے روایتی تراجم حرام و حلال قرار دیتے ہیں، کیا وہ واقعی خوراک کی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ، ، ،،،، یا ،،،،،تراجم کرتے وقت کسی خاص ذہنیت کی کارفرمائی عمل میں آئی ہے،،،،، اور اعلیٰ کردار کی تعمیر کی بجائے کچھ خاص احکام کو خوراک پر پابندیاں لگانے کی طرف دانستہ موڑ دیا گیا ہے۔ اور۔ ۔ ۔ ۔کہیں ایسا تو نہیں ،،،کہ لفظ بہ لفظ آسانی کے ساتھ ترجمہ کردینےکی خواہش ، علت و بدعت نے حقیقی معانی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہو ،جیسا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں عبارت کے مافی الضمیر کی منتقلی کےسطحی اور غیر فنی عمل میں ایک لازمی امر ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس ماخذ تحریر کے انداز، اسلوب اور معیار کا بخوبی ادراک کیا جانا اور ترجمہ اس ہی کی بعینہی مطابقت میں کیا جانا نہ صرف ایک مسلمہ ادبی اور علمی تقاضا ہے بلکہ کامل درستگی کے ساتھ مفہوم کی منتقلی کے لیےایک لازمی امر ہے۔
تو آئیے کھانے پینے کے بارے میں نازل ہوئی تمام، یا بیشتر آیات کے ترجمے کی ایک خالص علمی و عقلی کوشش کر دیکھتے ہیں اس امید میں کہ شاید اس محنت شاقہ کے نتیجے میں ابہام دور ہو جائیں اور حقیقتِ حال کھل کر سامنے آ جائے۔اس ضمن میں قربانی کی نام نہاد رسم بھی زیرِ بحث آئے گی جس کا خوراک سے تعلق ہے اور بالعموم اسے ایک ایسے الٰہ کی خوشنودی کا ذریعہ باور کرایا جاتا ہے جو ہر گھر، گلی کوچے، محلے اور شہر میں اپنی ہی مخلوق کا کھلے عام کثرت سے خون بہانا پسند فرماتا ہے۔اور یہ ایک ایسا منظر ہوتا ہے جس سے بچے اور خواتین خوفزدہ ہو کر دور چلے جاتے ہیں اور دیگر نادان سفاکی اور شقاوتِ قلبی کا درس حاصل کرتے ہیں۔
زیرِ نظر تراجم سے یہ بدرجہ اتم ثابت ہو جائیگا کہ حلال و حرام کا ذکر فرماتے ہوئے رب ذو الجلال نے کہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ یہ شکایت کی ہے کہ میں تو اخلاقیات اور سیرت کے بارے میں حلال و حرام کا معیار مقرر کرتا ہوں جب کہ تم مجھ پر افترا باندھ کر مادی اشیائے رزق کو ، بغیر کسی اختیار کے، حرام و حلال قرار دے دیتے ہو۔
قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور الہامی صحائف کے حتمی استعاراتی اسلوب کی رعایت سے، زیر نظر ترجمہ اُسی خاص معیار کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دانشورانِ قرآن سے درخواست ہے کہ کسی بھی خطاء کو نوٹ کرنے کی صورت میں فورا سند کے ساتھ رابطہ فرمائیں تاکہ مشترکہ رائے سے تصحیح کی کوشش کی جا سکے۔ اس ترجمے کی کوشش میں قریبا دس عدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے، مادے کے بنیادی معنوں کی حدود میں رہنے کی سعی کی گئی ہے اور قرآن کے بنیادی پیغام یعنی کردار سازی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔ شروعات سورہ المائدہ سے کرتے ہیں ۔
اورنگزیب یوسفزئی
سورہ المائدہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ‌ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ ۗ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِ‌يدُ ﴿١﴾
اے ایمان والو، اپنے کیے ہوئے عہد و پیمان کی [ بِالْعُقُودِ] ہمیشہ پاسداری و تکمیل [اوفو] کیا کرو۔ ماضی میں تمہارے لیے معاہدوں کی پابندیوں کے ضمن میں جانوروں کی مانند [الْأَنْعَامِ] مبہم، یعنی غیر شعوری اور غیر واضح انداز [بَهِيمَةُ] روا رکھنا جائز کیا گیا تھا۔ اور تم صرف ان احکام پر عمل کرنے کے پابند تھے [وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ] جو آزاد نہ کیے جانے والے[غَيْرَ‌ مُحِلِّي] اسیران [الصَّيْدِ] کے ضمن میں تمہیں بتا دیے جاتے تھے[يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ] ۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو اس معاملے میں وہی احکام جاری فرمائیگا جو اس کی منشاء کے مطابق ہونگے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرِ‌ضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
اس لیے، اے ایمان لانےوالو، تم خود کو اللہ کے دیے ہوئے شعائر یعنی طور طریق ، قواعد و ضوابط سے آزاد نہ کیاکرو۔ نہ ہی معاہدوں کی رو سے عائد شدہ پابندیوں کی صورتِ حال یا کیفیت [الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ]سے بری الذمہ ہو جایا کرو ۔ نہ ہی حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں [الْهَدْيَ] کو نظر انداز کرو۔ نہ ہی خود پر عائد دیگر ذمہ داریوں سے[الْقَلَائِدَ] احتراز کرو، اور نہ ہی اپنے واجب الاحترام مرکز کے ان ذمہ داروں [آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ ] سے غافل ہو جاءو جو اپنے نشوونما دینے والے کے فضل اور رضامندی کے لیے جدو جہد کر رہے ہوں۔ البتہ جب تم کسی بھی معاہدے کی پابندیوں سے آزاد ہو جاءو [حَلَلْتُمْ] تو پھر ضرور اپنی طاقت و اقتدار قائم کرنے میں [فَاصْطَادُوا] لگ جاءو۔ لیکن اس صورت میں بھی ایک قوم کی وہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں واجب الاحترام احکامات ِ الٰہی[الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] کی بجا آوری اور نفاذسے روک رکھا تھا ،تمہیں اس جرم پر مجبور نہ کردے کہ تم حدود سے تجاوز پر اُتر آو [أَن تَعْتَدُوا] ۔ بس یہ امرپیشِ نظر رہے کہ ہمیشہ کشادِ قلب اور کردار سازی کے مدعے [الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ] پر اشتراکِ عمل کرو اور گناہ اور حدود فراموشی پر دستِ تعاون دراز مت کرو۔ اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری کے جذبے سے وابستہ رہو۔ یہ حقیقت سامنے رہے کہ اللہ کا قانون گرفت کرنے میں بہت ہی سخت ہے ۔
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣﴾
[نیز دیکھیں مماثل آیات ۲/۱۷۳ اور ۶/۱۴۵ – زیر نظر ترجمہ ان دونوں مذکورہ آیات کے ابتدائی حصوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ تکرار سے پرہیز کیا گیا ہے تاکہ عبارت طوالت اختیار نہ کرے]
تمہارے لیے ممنوع کر دیا گیاہے کہ تم اپنی قوتِ عاقلہ کو زائل کر کے مردہ کی مانند ہو جاءو [الْمَيْتَةُ ]، اور اپنے اعمال ناموں کو انسانی خون سےداغدار کرلو [الدَّمُ] اور مکار و بد طینت لوگوں [الْخِنزِيرِ]کے ساتھ قریبی تعلق [وَلَحْمُ] استوار کرو اور نہ ہی ہر اس نظریے کے ساتھ کوئی تعلق رکھو جس کے ذریعے غیر اللہ کے حق میں آواز بلند ہوتی ہو [أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ] ۔ اور تمہارے لیے یہ بھی حرام کیا گیا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کی آواز بند کر کے اسے کچل دیا جائے [وَالْمُنْخَنِقَةُ ]، یا مستقل ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر مردہ کر دیا جائے [وَالْمَوْقُوذَةُ] ، یا کسی کے حاصل کردہ بلند مقام سے اسے ناجائز طور پر قعرِ مذلت میں گرا دیا جائے [وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ ]، یا جبرا بدنصیبی اور بدقسمتی کی طرف دھکیل دیا جائے [وَالنَّطِيحَةُ ]اور ایسی صورت حال پیدا ہو کہ تمام انسانی اقدار کو وحشت و بربریت نے نگل لیا ہو [وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ] ،سوائے ان معدودے چند کے جنہیں تم نے بچاکر تقویت دے لی ہو [مَا ذَكَّيْتُمْ ]۔ یا کسی کوخود ساختہ معیار یا مقصدکی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہو [وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ] ۔ یا یہ کہ تم لوگوں کو غلط اقدام کے ذریعے تقسیم کرکے علیحدہ علیحدہ کر دو [تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ] ۔انتباہ رہے کہ مذکورہ بالا تمام صورتِ احوال بدکرداری اور بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہے [فِسْقٌ] ۔ اسی بنا پر موجودہ وقت میں حقیقت سے انکار کرنے والے تمہارے اس نظریہ حیات سے مایوس ہیں- پس تمہیں چاہیئے کہ اب ان سے اندیشہ کرنا ترک کر دو، اور اس کی بجائے میری عظمت و جلالتِ شان کو ہمہ وقت نگاہ میں رکھو۔ وقت کے سیلِ رواں کے اس موجودہ مرحلے میں میں نے تم سب کے لیے تمہارا نظریہ حیات مکمل کر دیا ہے اور اس طریقہ سے تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دی ہیں اور تمہارے لیے اسلام یعنی انسانیت کے تحفظ اور سلامتی کو بطورِ مقصودِ زندگی مقرر و متعین کر دیا ہے۔ تمام مذکورہ بالا ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تم میں سے جو کوئی بھی اضطراری حالت کی وجہ سے خود کو مجبور پائے [فِي مَخْمَصَةٍ] جب کہ اس کا برائی کیجانب میلان نہ ہو[غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ] ، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ سامانِ تحفظ اور رحمت مہیا کردیتے ہیں ۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِ‌حِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّـهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٤﴾
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیاکیا جائز قرار دیا گیا ہے ۔ انہیں بتا دو کہ تمہارے لیے تمام پاکیزہ اور خوشگوار اعمال جائز کر دیے گئے ہیں ۔ اور جب تم ہاتھ پاءوں بندھے زخمی قیدیوں کی جماعت [الْجَوَارِ‌حِ مُكَلِّبِينَ] کو وہ تعلیم دے رہے ہوتے ہو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ جو معلومات تمہیں ان کی زبانی حاصل ہوتی ہیں [وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ] ان کے ذریعےتم وہ سب کچھ جان لو جو وہ تمہارے رویوں کے خلاف کہتے یا تمہارےذمہ لگاتے ہیں [فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ] ۔ پھر اس پر اللہ کی صفات کے تناظر میں غور کرو (وَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ) تاکہ تمہارے کردار میں جو کمی رہ گئی ہو وہ کھل کر تمہارے سامنے آ جائے۔اس طرح اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری سے وابستہ رہو ، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون فوری احتساب کا عمل جاری رکھتا ہے۔
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ [۵]
آج سے ، یا وقت کے حاضر و موجود مرحلے سے، تمہارے لیے صرف تمام پاکیزہ اور خوشگوار اعمال جائز کر دیے گئے ہیں۔مزید یہ کہ ان تمام مستحسن صفات یعنی شعوری اقدار کا حصول [طَعَامُ] بھی تمہارے لیے جائز ہے جو صاحبِ کتاب لوگوں میں پائی جاتی ہیں، اور اسی کی مانندتمہاری اچھی صفات و اقدار کا حصول اُن لوگوں کے لیے بھی جائز ہے ۔ اور مومن جماعتوں [الْمُؤْمِنَاتِ] میں سے اخلاقی لحاظ سے مضبوط اور محفوظ جماعتیں [الْمُحْصَنَاتُ] اور ایسی ہی وہ جماعتیں بھی جو تم سے قبل کتاب دیے گئے لوگوں میں سے ہوں ، اُن سے تعلق استوار کرنا بھی تمہارے لیے جائز ہے بشرطیکہ تم ان کے حقوق و واجبات و معاوضے پوری طرح ادا کرو ، اور وہ اسی طرح مضبوط و محفوظ رہ سکیں [مُحْصِنِينَ ] ۔ نہ ہی خون بہانے یا بدکرداری پر اتر آئیں [مُسَافِحِينَ] اور نہ ہی خفیہ سازشوں میں ملوث [مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ] ہوں۔ یہ یاد رہے کہ جو ایمان کی دولت کے مقابلے میں کفر کی روش اپناتا ہے وہ یہ حقیقت ذہن میں بٹھا لے کہ اس کا تمام کیا دھرا ضائع ہو گیا(حَبِطَ) ۔ اور بالآخر اگلے بلند تر مرحلہ حیات میں(فِي الْآخِرَ‌ةِ) وہ نامراد وں کی جماعت میں شامل رہیگا۔
"وضو"
{محترم قارئین، حرام و حلال کے اس سلسلے میں حسن اتفاق سے اگلی آیت وہ سامنے آتی ہے جسے " وضو "سے متعلق قرار دیا جاتا ہے۔ پست درجے کی نہایت عمومی زبان میں لفظ بہ لفظ کیے گئے تراجم کی بجائے عربی ادبِ عالی کی استعارات و محاورات سے پُر [metaphoric and idiomatic ] اصطلاحات کی بنیاد پر کیا گیا درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں جو قرآنِ عظیم کے بلند اسلوب کے شایانِ شان ہے۔ سابقہ متن سے جڑا ہوا ہے ۔موضوع کا تسلسل قائم رکھتا ہے ۔اور حسبِ سابق کردار سازی کے ہی ضوابط و قواعد کی تعلیم دے رہا ہے ۔ درحقیقت یہاں"وضو" سے متعلق ذکر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وضو یہاں سیاق و سباق سے قطعی غیر منسلک ہے ۔ اختلاف کی صورت میں معتبر سند کے ساتھ فوری رجوع فرمائیں تاکہ تصحیح کی جا سکے۔}
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَ‌افِقِ وَامْسَحُوا بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُ‌وا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَ‌جٍ وَلَـٰكِن يُرِ‌يدُ لِيُطَهِّرَ‌كُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٦﴾
اے اہلِ ایمان، جب تم نفاذ و اتباعِ احکامِ الٰہی کے نصب العین کے حصول کی سمت میں اُٹھ کھڑے ہو ، تو اپنی توجہات یعنی سوچ و فکر [وُجُوهَكُمْ] اور اپنے وسائل و ذرائع [أَيْدِيَكُمْ] کو ہر قسم کی الائشوں اور رکاوٹوں سے پاک کر لو [فَاغْسِلُوا] تا آنکہ وہ تمہاری رفاقت و اعانت کا ذریعہ و ماخذ [الْمَرَ‌افِقِ] بن جائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بڑوں اور چھوٹوں( بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ )کی صلاحیتوں کا جائزہ لو اور جانچ پڑتال [امْسَحُوا]کرکے ان کو انتہائی شرف و مجد کے درجے تک پہنچا دو [إِلَى الْكَعْبَيْنِ] ۔ اگر قبل ازیں تم اس نظریاتی محاذ پر نووارد یا اجنبی [جُنُبًا] تھے تو پھر اپنے قلب و ذہن کی تطہیر کا عمل کرو [فَاطَّهَّرُ‌وا] تاکہ منفی عقائد و خیالات سے پاک ہو جاءو۔ اور اگر تم ایمان و ایقان کے معاملے میں کسی کمزوری کا شکار ہو [ مَّرْ‌ضَىٰ] یا ابھی تربیتی سفر کے درمیانی مرحلے میں ہو[عَلَىٰ سَفَرٍ‌]، یا اگر تم میں کچھ بہت پست شعوری سطح سے اُٹھ کر اوپر آئے ہوں [مِّنَ الْغَائِطِ]، یا کسی خاص شعوری کمزوری نے تمہیں متاثر کیا ہوا ہو [لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] اور اس ضمن میں تمہیں وحیِ الٰہی کی ہدایت میسر نہ آئی ہو [فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً]، تو پھر بھی تم اپنا مطلوب و مقصود [فَتَيَمَّمُوا] بلند اور پاک رکھو [صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ پھر اس کی روشنی میں از سرِ نو اپنے افکار اور اپنے وسائل کی پیمائش یااحاطہ کرو(فَامْسَحُوا )۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی صورت میں تم پر ناروا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا ۔ لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمہاری شعوری ذات منفی خیالات سے پاک ہو جائے اور تم پر اس کی نعمت تمام ہو جائے، تاکہ تمہاری جدوجہد مطلوبہ نتائج پیدا کرے۔
وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ [۷]۔
[سورۃ المائدہ کی آیت : ۷ صرف اس لیے پیش کی جارہی ہے کہ سابقہ موضوع کے ساتھ تسلسل ، یعنی عہد کی پابندی اور کردار سازی، کو ثابت کر دیا جائے تاکہ درمیان میں آنیوالی سورۃ : ۶ کے ترجمے کی "وضو" سےغلط اور سازشی طور پر منسوب کیے جانے سے متعلق حقیقت سامنے آ جائے]
اور تم پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور اس عہد کی بھی پاسداری کرتے رہو جو تم نےیہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ "ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت اختیار کر لی"۔ اور اللہ کے احکامات پر پرہیز گاری سے قائم رہو کیونکہ اللہ تمہاری اندرونی ذات پر گزرنے والی ہر کیفیت کا علم رکھتا ہے۔
سورہ الحج : ۲۸ سے ۳۰

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾
اور انسانوں کے درمیان حجیت کا [بِالْحَجِّ ]اعلانِ عام کر دو۔ وہ سب تمہارے پاس ہر دور دراز کے مقام سے [مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] دلیری کے ساتھ [رِ‌جَالًا]آئیں اور ہر ایک اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے [وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌] ،
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨﴾
تاکہ اس نظریہِ حیات میں وہ اپنے لیے منفعت کا بذاتِ خود مشاہدہ کرلیں اور تحصیلِ علم کے ایک دورانیئے [فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] میں اللہ کی صفات عالی کو ذہن نشین کرتے رہیں تاکہ اس کی روشنی میں ان تعلیمات پر حاوی آ جائیں [عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم ] جس نے انہیں جانوروں کی مانند غیر یقینی اور مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] اختیار کرنے پر لگا دیا تھا۔ پس وہ اسی روشنی سے استفادہ کریں اور جو اس سے محروم اور بدحال ہیں انہیں بھی مستفید کریں ۔
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾
پھر اس کے بعد اپنی ذہنی الائشوں سے پاکیزگی [تَفَثَهُمْ]کا کام تکمیل تک پہنچائیں [لْيَقْضُوا ]، اپنے اوپر واجب کیے ہوئے عہد کو پورا کریں [وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ ] اور حکومتِ الٰہیہ کے محترم و متقدم مرکز کی نگہبانی اور حفاظت [وَلْيَطَّوَّفُوا]کا فریضہ انجام دیں ۔
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ ﴿٣٠﴾
اس کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ ممنوعات [حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ]کی تعظیم کا رویہ اختیار کرے گا تو وہ اللہ کے نزدیک اس کے حق میں خیر کا باعث ہوگا۔ نیز تمہارے لیے اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتیں اور عطیات [الْأَنْعَامُ] حلال کر دیے گئے ہیں ماسوا ان مخصوص امور کے جن کی پیروی/اتباع کرنے کے لیے تم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یعنی جن کا تمہیں پابند کیا گیا ہے۔ پس خود کو پرستش اور عقیدت کا مرکز بنانے [الْأَوْثَانِ ] کی برائی سے اجتناب کرو اور اجتناب کرتے رہو ایسی زبان بولنے سے جو جھوٹ سے پُر ہو ۔
سورہ الحج : ۳۲ سے ۳۸
ذَٰلِكَ۔۔۔۔۔۔ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾
اور جو لوگ اللہ کے ہدایت کردہ راستے یا طور طریق کی عظمت کو بلند کریں گے، وہ اسے تقویتِ قلوب کا ذریعہ پائیں گے۔
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾
اسی راستے میں تم سب کے لیے ایک معینہ مدت تک منفعت ہے۔پھر اس ہدایت کا مستقل مرکز و منبع اللہ کا محترم و متقدم مرکزِ حکومت [الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]ہے۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
نیز ہم ہر قوم کے لیے پاکیزگیِ ذات کے ذرائع [مَنسَكًا ]پیش کر دیے ہیں تاکہ وہ اللہ کی صفاتِ عالی کو ذہن نشین کریں [لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ] اور اس کی روشنی میں جانوروں کی مانند غیر یقینی یعنی مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] پر حاوی آ جائیں جس کی انہیں تربیت دی گئی تھی[مَا رَ‌زَقَهُم]۔ اور وہ یہ سمجھ لیں کہ تمہارا حاکم ہی اصل حاکم ہے۔ اس لیے اسی کی ہدایات پر سرِ تسلیم خم کر دیں۔ جو اس معاملے میں عاجزانہ اور تابعدارانہ روش رکھتے ہوں ان کو فوری نتائج کی خوشخبری دے دو۔
الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِ‌ينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی ہدایات کی یاد دہانی ان کے قلوب کوخوفزدہ [ وَجِلَتْ ] کر دیتی ہے اور یہ وہ ہیں جو مصائب کے مقابلے میں استقامت اختیار کرلیتے ہیں۔ نظامِ صلوۃ کی پیروی کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم نے انہیں مادی اور شعوری ارتقاء کے اسباب عطا کیے ہیں [رَ‌زَقْنَاهُمْ ] وہ انہیں عوام الناس کیلیے کھول دیتے ہیں۔
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌ ۖ فَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ‌ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْ‌نَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٦﴾
طاقتور، زرہ بند انسانوں کی جماعت [فوج] قائم کرنا بھی تمہارے لیےحکومتِ الٰہیہ کے طریقِ کار اور تقاضوں میں سے ہے اور اس لازمی طریقِ کار میں تمہارے لیے تحفظ اور بہتری پوشیدہ ہے ۔ پس یہ فوج خود کو دین کے تحفظ کے لیے وقف کر دے [صَوَافَّ ]اس طرح کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی صفات عالی کی یاد دہانی کروائی جاتی رہے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ کسی مہم میں ان کا ساتھ دینا یا ان کی کارگزاری میں حصہ لینا [جُنُوبُهَا]تمہارے لیے ضروری ہو جائے [وَجَبَتْ ] تو تمہیں چاہیئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاو، علم و تربیت حاصل کرو [فَكُلُوا]اور جو قناعت کیے ہوئےاس سے محروم ہیں اور جو اس کی ضرورت رکھتے ہیں انہیں بھی فیض پہنچاءو۔ ہم نے تمہیں اس انداز میں ان چیزوں پر دسترس عطا کی ہے کہ تمہاری کوشیں بار آور ہوجائیں۔
لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَ‌هَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُحْسِنِينَ ﴿٣٧﴾
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کو ان سے تمہارے قریبی تعلق [لُحُومُهَا ]سے یا ان کی جنگی مہم جوئیوں [دِمَاؤُهَا ]سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا، بلکہ تمہارا جذبہ ِ پرہیزگاری سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہے۔پس اللہ نے اس انداز میں ان چیزوں کو تمہاری دسترس میں کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کی کبریائی ان خطوط پر قائم کرو جیسے اس نے تمہاری راہنمائی کی ہے۔اللہ کی راہ میں توازن بدوش عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ‌ ﴿٣٨﴾
جو ایمان لے آتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدافعت فرماتا اور انہیں بڑھاوا دیتا ہے اور یقینا وہ بددیانت اور انکار کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
سورہ الانعام: ۱۵۱
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَ‌بُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّ‌مَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١﴾
انہیں کہو کہ آو میں تمہیں بتادوں کہ تمہارے نشوونما دینے والے نے تم پر کیا کیا ممنوع کیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ تم اس کی حاکمیت و اختیار میں کسی بھی چیز کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسین و متوازن سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر شعوری اور اخلاقی طور پر جاہل و بے خبر نہ رکھو کیونکہ یہ انہیں مار دینے کے مترادف ہے۔ یہ یقین رکھوکہ تمہیں اور انہیں سامانِ رزق دینا ہمارا کام ہے ۔ اور ان تمام زیادتیوں اور حدود فراموشیوں کے قریب نہ جاو جو ظاہر ہو جائیں خواہ پوشیدہ رہیں، اور کسی جان کو ضائع نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے ممنوع یا محترم قرار دیا ہے سوائے اس صورت کے کہ اس کا استحقاق واجب ہو جائے۔ اللہ نے تمہیں یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کہ تم اپنی شعوری صلاحیتوں کا استعمال کرو۔
سورہ یونس: ۵۹ - ۴۰
قُلْ أَرَ‌أَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ لَكُم مِّن رِّ‌زْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَ‌امًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُ‌ونَ ﴿٥٩﴾ وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٦٠﴾
انہیں کہو کیا تم وہ نہیں دیکھتے جو سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہاری منفعت کےلیے عطیات، یعنی سامانِ رزق کی شکل میں فراہم کیا ہے۔ اس کے باوجود تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال بنا دیا ہے۔ ان سے پوچھو کیا ایسا کرنے کی تمہیں اللہ نے اجازت دی تھی؟ یا تم یہ کام کرتے تو بذاتِ خودہو اور اس جھوٹ کی ذمہ داری اللہ پر باندھتے ہو؟ جو اللہ کی ذات پر یہ جھوٹ بول کر افتراء کرتے ہیں اُن کا کیا قیاس ہے کہ اُس آنیوالے بڑے قیام کے مرحلے میں ان کے ساتھ کیا پیش آئیگا؟ افسوس کہ اللہ تو انسانوں کے لیے سراپا فضل ہے لیکن ان کی اکثریت متوقع نتائج پیدا کرنے والا رویہ نہیں رکھتی۔
النحل: ۱۱۶
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَ‌امٌ لِّتَفْتَرُ‌وا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾
اور مت بولا کرو وہ کلمات جس سے تمہاری زبانیں جھوٹ کا ارتکاب کرتی ہیں، کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کیونکہ تمہارے اس جھوٹ سے اللہ تعالیٰ پربہتان لگ جاتا ہے۔ یقینا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بہتان طرازی کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہ پائیں گے۔

- - - - - - -
بریکٹوں میں دیے الفاظ کے مستند معانی ملاحظہ فرمائیں :
[ِالْعُقُودِ]: عہد نامے، میثاق، معاہدے، ایگریمنٹ
[اوفو] : پورے کرو، تکمیل کرو، ایفائے عہد کرو
[الْأَنْعَامِ]: مویشی قسم کے جانور، جو کہ اموال کے طور پر اللہ کی نعمتوں کے معنی بھی رکھتے ہیں
[بَهِيمَةُ]: ابہام کی کیفیت، مبہم ہونا، غیر واضح، غیر متعین ، گونگا پن، غیر معروف، بے دیکھا بھالا، مشکوک، پوشیدہ، بند دروازہ۔ One knows not the way or manner in which it should be engaged in, done, executed, performed; speech which is confused, vague, dubious; also applied to closed or locked door, one can’t find a way to open it;
چوپایہ، جانور، کیونکہ اس کی شکل /صورت مبہم ہوتی ہے۔
[وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ] : جبکہ تم پابند ہو؛
[الصَّيْدِ]: وہ جسے پکڑ لیا جائے؛ ٹیڑھی گردن والا؛ مغرور؛ خودپسند: رعب و دبدبے والا ؛ شکار کا جانور
[غَيْرَ‌ مُحِلِّي]: غیر آزاد کردہ؛ not violating the prohibition؛ محلی: the place or time where something becomes lawful, permissible;
[يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ] : وہ جو تمہیں عمل درآمد کرنے کے لیے کہا یا پڑھ کر سنایا جائے۔
[الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ]: ایک پابندیوں والی معروف صورتِ حال؛ ایک حرمت والا مہینہ
[الْهَدْيَ] : عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[الْقَلَائِدَ] : حفاظتی کنٹرول؛ احکامات کی تقلید؛ پیروی؛ نظم و ضبط؛ ایک چیف کی لوگوں کی طرف ذمہ داریاں؛ اقتدار یا حکومت کا کنٹرول
[آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ ] : قابلِ احترام مرکز کے سنبھالنے، قائم رکھنے والے
[حَلَلْتُمْ] : تم آزاد ہو جاو؛ پابندیوں سے فری ہو جاو؛ ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاو
[فَاصْطَادُوا] ؛ گرفت قائم کرو، غلبہ حاصل کرو؛ پکڑ لو؛ طاقت و اقتدار قائم کرو
[الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ]: قابلِ احترام اور واجب التعمیل احکامات
[أَن تَعْتَدُوا]: کہ تم حد سے بڑھ جاو
[الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ]: اللہ کے احکامات کے تحت کشادِ قلب اور پرہیز گاری
[الْمَيْتَةُ]: قوتِ عاقلہ کا زائل ہونا [راغب]؛ دانشمندی کی صلاحیت کا مر جانا؛
[الدَّمُ] : سرخ رنگ کرنے کا سامان ؛ خون؛ خون بہانا؛ کسی مواد سے یا خون سے داغدار کر دینا؛ کوئی چیز یا شکل جس پر کوئی رنگ لگا دیا گیا ہو؛ کسی گھر کو مٹی یا کیچڑ سے لیپنا؛ ایک عورت جس نے اپنی آنکھ کے گرد زعفران سے پینٹ کر لیا ہو؛ ایک بہت ہی غیر شائستہ ، غیر مہذب رویہ؛
[الْخِنزِيرِ]: مکار اور بدطینت انسان؛ خزر: کنکھیوں سے یا ٹیڑھی نیم بند آنکھوں سے دیکھنا؛ بند اور چھوٹی آنکھو ں والا، بھینگی آنکھوں والا؛ چالاک ہونا؛
[َلَحْمُ] : الحم خرقہ:لباس کا سوراخ پیوند لگا کر جوڑنا ؛ شریک ہونا؛ بُننا، اکٹھے ہونا، قریب ہو کر اکٹھے ہونا؛ دھاگے جو آپس میں بُنے گئے ہوں؛ مرمت کرکے جوڑنا، ویلڈ کرنا، سولڈر کرنا، پیوند لگانا۔
[أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ]: وہ جس سے غیر اللہ کی آواز بلند ہو
[وَالْمُنْخَنِقَةُ ]،: مخنوق: گلا گھونٹ دیا جائے؛ گلے سے پکڑ لیا جائے؛ غلبہ پا لیا جائے؛ سانس بند کر کے مار دیا جائے
[وَالْمَوْقُوذَةُ] : ضرب مار کر مردہ بنا دینا؛ چوٹ سے مارا ہوا ۔
[وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ ]: بلندی سے گرا ہوا؛ جہنم میں گرا ہوا؛ قعرِ تذلیل میں گرا ہوا۔
[وَالنَّطِيحَةُ ]: سینگ یا ٹکر مار کر مار ڈالنا؛ ایک بدنصیب اور بدقسمت آدمی۔
[وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ] : وہ تمام اقدارِ ہستی اور اچھائیاں جنہیں وحشت و بربریت نے نگل لیا ہو ۔
[مَا ذَكَّيْتُمْ ]: جو تم نے بچا کر نشوونما دے لیا ہو
[النُّصُبِ] : کوئی مقرر کردہ معیار، ہدف، حدود، ایک نشان، اشارہ جو راہ دکھائے؛ ایک پتھر نصب کر کے پوجا جائے۔منصب، نصاب، عہدہ، ذریعہ، نسلی سلسلہ، ماخذ، اشرافیہ۔
[ْأَزْلَامِ] : زلم: غلطی کرنا؛ بغیر سوچے بولنا، قطع برید کرنا؛ ادھر اُدھربے مقصد پھرنا؛ بھوک سے بدحال ہونا؛ کان کا حصہ کاٹنا؛ بے پر کا تیر۔
[فِسْقٌ] : کسی چیز میں برائی، بدعنوانی؛ حدود فراموشی؛ گناہ؛ جرم؛ غیر اخلاقی حرکت؛ بدکرداری؛ دائرہ کردار سے نکل جانا۔
[ مَخْمَصَةٍ] : مشکل؛ مسئلہ؛ مجبوری
[غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ] : برائی کا میلان نہ ہونا۔
[الْجَوَارِ‌حِ]: جرح: زخمی کرنا/ہونا؛ شکاری جانور؛ ہاتھ پاوں کو بھی جوارح کہا جاتا ہے کہ وہ شکار پکڑ کر لاتے ہیں یا کما کر لاتے ہیں، یا اچھا اور برا کرتے ہیں؛ کمانا؛ ما لہ جارح: اس کا کوئی کمانے والا نہیں- بے کار کر دینا۔
[مُكَلِّبِينَ] : ہاتھ پاوں بندھا ہوا قیدی؛ سٹریپ سے بندھا ہوا آدمی؛ وہ جو کتے یا شکاری جانور کو تربیت دے۔پاگل پن جو کتے میں انسانی گوشت کھانے سے آ جائے؛ پاگل پن سے عقل ماوف ہو جانا۔
[وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ] : جو تم ان سے سیکھتے یا پڑھتے ہو۔
[فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ] : وہ سب جان لو جو وہ تمہارے خلاف پکڑے ہوئے ہیں یا اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ۔
[طَعَامُ]: to take to education, ؛ سیکھنا ، حاصل کرنا، ایک شخص میں مناسب و موزوں صلاحیتیں۔ طعم : to have power or ability to do it; طعم علیہ: to have power over him ؛ to be vaccinated, inoculated
[الْمُؤْمِنَاتِ] : مخصوص مومن جماعتیں؛ مومن خواتین
[الْمُحْصَنَاتُ]: مسلمہ؛ آزاد عورت؛ پارسا عورت؛ ایک بڑا موتی؛ chaste, guarded, fortified, protected, in places difficult of access, approach.؛ ایسی جماعتیں ؛ abstaining from what’s not lawful or from that which induces suspicion or evil opinion. ناقابلِ رسائی؛ قلعہ بند جماعتیں؛ با کردار؛ محفوظ
[مُحْصِنِينَ ] ۔ مذکورہ بالا قسم کے لوگ
[مُسَافِحِينَ]: خون کو بہا دینے والے؛ سفح: پست ترین حصہ جو زمین پر ہو؛ پیر؛ پیروں میں۔ اس نے بہا دیا؛ اس نے خون بہا دیا؛ ناجائز جنسی عمل۔ سفاح [س کی زیر کے ساتھ]: بدکار۔ سفاح [س پر زبر کے ساتھ]: خون بہانے والا؛ قاتل؛ سفاک۔
[مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ]: خفیہ سرگوشیاں کرنے والا؛ سازشیں کرنے والا۔
[وُجُوهَكُمْ] : تمہاری سوچ کی سمت، توجہات، نظریات، چہرے
[أَيْدِيَكُمْ] : تمہارے وسائل و ذرائع، طاقت، ہاتھ
[فَاغْسِلُوا] : پاک صاف کرو ، دھو ڈالو،
[الْمَرَ‌افِقِ]: کہنیاں؛ رفاقت و اعانت کا ذریعہ؛ باہم جڑے ہوئے ہونا
[امْسَحُوا]: زمیں پر سفر شروع کرنا؛ جائزہ لینا؛ زمین کا جائزہ لینا؛ احاطہ کرنا؛ پیمائش کرنا؛ سروے کنندہ؛ مسیح: جو زیادہ سفر کرے؛ تیل لگایا ہوا، صاف کیا ہوا، پوچھنا ایسی چیز کو جو گیلی اور گندی ہو۔
[إِلَى الْكَعْبَيْنِ] ۔ شرف مجد کے پیمانے تک
[جُنُبًا] :پہلو، سمت، گوشہ، پرایا، غیر، بے تعلق،، دور کا، اجنبی،
[اطَّهَّرُ‌وا] : پاک و صاف کرو
[ مَّرْ‌ضَىٰ]: مریض۔ کمزوری میں، بیمارِی میں، روگ میں، نقص، تقصیر، کوتاہی میں ہونا۔ وہ جس کے قلب میں دین و ایمان میں نقص یا شبہ ہو [ الراغب]
[عَلَىٰ سَفَرٍ‌]: سفر: زمین کا سفر، علم و عرفان کے حصول کا سفر، دریافت اور ترقی کے آسمان پر چمکنا/جگمگانا/واضح ہونا/جلوہ گر ہونا/نتیجہ نکالنا۔ گھر میں جھاڑو دینا اور کوڑا کرکٹ صاف کرنا۔ اسفار: وہ کتب جو حقائق بیان کرتی ہیں
To unveil, uncover, to shine, glow, to yield, achieve, bring to end result, to rise
[مِّنَ الْغَائِطِ]، پست علمی و ذہنی درجے سے آنیوالا
[لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] : تمہیں کسی کمزوری نے پکڑ لیا ہو، چھو لیا ہو۔
[َلَمْ تَجِدُوا مَاءً]: ماء استعاراتی معنوں میں اکثر وحی الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
[تَيَمَّمُوا] : مقصد، مطلوب، ارادہ، متعین کرنا
[صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ بلند اور پاک
[الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]۔ وہ مرکز یا ادارہ جو سب پر فوقیت رکھتا ہو؛ محفوظ ہو، محترم، مکرم، متقدم ہو؛
[مَنسَكًا ]: پاکیزگی ذات کے اصول و قواعد
[ِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ] – صفاتِ الٰہی کی یاد دہانی
[بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] : جانوروں/مویشیوں کی غیر واضح، مبہم ، غیر یقینی روش
[مَا رَ‌زَقَهُم]۔ وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی؛ رزق بمعنیٰ نصیبہ بھی آ جاتا ہے۔intellectual education which is for the hearts and minds, such as several sorts of knowledge and science; to bestow material or spiritual possession; anything granted to ne from which he derives benefit.
[وَالْبُدْنَ]: زرہ، زرہ بکتر، تنومند آدمی، لحیم شحیم
[صَوَافَّ ]: دینی خدمت یا کاموں کے لیے وقف کرنا؛ اسطرح کرنے کے لیے خود کو نمایاں کرنا؛ خشک کر دینا؛ روک دینا، موڑ دینا؛ اون کا تاجر
[جُنُوبُهَا]: اس کا پہلو؛ اس نے اپنی سائڈ یا پہلو توڑ لیا؛ نقصان پہنچایا ؛ نیز،،،اس کا ساتھ دینا؛ سفر میں ساتھ دینا؛ ان کا حق؛ ان کا اُتر آنا، سیٹل ہوجانا؛ باسداری/اتباع کرنا؛ their partner, neighbor; ، اجتناب
[وَجَبَتْ ] : ضروری ہو جانا، ناگزیر ، لازمی ہو جانا؛ زمین پر گر جانا؛
[فَكُلُوا]: حاصل کرو، فائدہ اٹھاو، کھاو
[دِمَاؤُهَا ]: ان کا خون بہانا
[مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] : ہر دور دراز مقام سے
[رِ‌جَالًا]: بہادری، دلیری سے، مردانہ وار؛ پیدال، پاپیادہ
[وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌] : ہر ایک کے ضمیر کی آواز پر
[فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] : ایک معین دورانیہ/عرصہ
[عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم ] : جو کچھ انہیں عطیہ /علم/اسباب دیے گئے تھے اس کے خلاف
[تَفَثَهُمْ]: ذہنی الائشوں سے پاکیزگی
[لْيَقْضُوا ]: تاکہ وہ پورا کریں/مکمل کریں/ فیصلہ کریں
[وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ ] : اپنے عہد کو / وعدوں کو پورا کرنا
[ْيَطَّوَّفُوا]: نگہبانی/حفاظت کرنا
[حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ]: اللہ کی محترم یا حرام قرار دی ہوئِ چیزیں
[الْأَنْعَامُ] : مال مویشی؛ اللہ کے انعامات
[الْأَوْثَانِ ] : وثن: ایک مرکزِ نگاہ ہونا، پوجا /عبادت کا مرکز ہونا؛ مستقل مزاج ؛ مضبوطی سے قائم؛ ادبی صلاحیت کا ہونا۔
Here is the link on www.scribd.com:
https://www.scribd.com/doc/231528070/Translation-3-Halal-Haraam-Ayaat

/189 : البقرۃ

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾

"وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِ‌هَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔"

2/196-200: البقرۃ

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

"نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَ‌ةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ گئے ہوں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات الٰہی کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِ‌ي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔"

اورنگزیب یوسفزئی ستمبر۲۰۱۳

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر2

 

یتامیٰ کی پرورش ۔ یتامیٰ کےساتھ چار شادیوں کا سانحہ

مرد عورتوں پر داروغہ

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کےشایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسلے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔ 

پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
یہ سورہ النساء کی چند ابتدئی آیاتِ کریمہ کا ترجمہ ہے، جو کچھ قریبی اعزاء کی خواہش کی تکمیل میں زیرِ تحقیق لایا گیا۔
ان آیات میں بنیادی اور غالب عنصر "یتیموں" [یتامیٰ] کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ہدایات و راہنمائی دی گئی ہے۔
یہ نکتہ ما قبل ہی میں واضح کر دیا جائے کہ تقریبا تمام قابلِ ذکر فاضل مترجمین نے یہاں یتامیٰ کے معانی میں "عورت" یا "بیوہ/بے سہارا عورتوں"، کو شامل کرنے کی کوشش فرمائی ہے، وہ بھی صرف اس بناء پر کہ ان آیات میں لفظ "نساء" استعارتا استعمال ہوا ہے، نیز لفظ "نکاح" دو مقامات پر درج ہے۔ راقم الحروف کو ۱۲ عدد مستند لغات کے مطالعے کے بعد بھی لفظ "یتیم" کے معانی میں ایسا کوئی ماخذ یا مشتق، اشارتا یا اصالتا بھی نظر نہ آیا جو سوائے "وہ بچے جو باپ سے محروم ہو جائیں" کے علاوہ کسی بھی دیگر معانی کی سمت اشارہ کرتا ہو۔
سیاق و سباق بھی چھوٹے، نابالغ بچوں کی پرورش اور رشد کی عمر کو پہنچ جانے پر ان کے اموال انہیں سپرد کرنے کے موضوع پراپنی اساس رکھتا ہے اور موضوع کے ساتھ مربوط ہے۔
تو عزیزانِ من یہاں دو دو، تین تین، اور چار چار شادیوں کی غرض سے مومنین کے لیے بہت سی بالغ عورتوں کا کہاں سے نزول ہو گیا؟۔ ۔ ۔ ۔ اور حق مہر کا سوال کیسے اُٹھ کھڑا ہوا؟۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بھی صاحبِ علم و دانش، سند کے ساتھ روشنی ڈال سکیں تو ازحد ممنون ہوں گا۔ کوئی بھی فاضل بھائی اختلاف فرمائیں تو ناچیز کی اصلاح کے لیے مستند حوالہ جات پہلی فرصت میں روانہ فرماءیں ۔ مشکور ہونگا۔
اس ترجمےکے ضمن میں جن لفظی معانی کا استعمال کیا گیا ہے ان کی سند کے لیے مستند لغات سے مدد لی گئی ہے جن میں "لین"[جو ۳ عدد انتہائی مستند لغات کا مجموعہ ہے]، "المنجد"، "مفرداتِ راغب"، "قاموس الوحید" ، "اردو مختار الصحہ"، ہانز وہر"،" م ج فرید"، " ندوی"، "بریل"، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
آئیے ،اس حقیر سی کوشش کے نتائج کو دیکھتے ہیں اور اس پر بے لاگ تفتیش و پڑتال کا عمل دہراتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنی لامحدود بصیرت میں سے کچھ روشنی ہمیں بھی عطا فرما دے۔

سورۃ النساء
آیات نمبر ۱ سے ۱۰ تک

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِ‌جَالًا كَثِيرً‌ا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْ‌حَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَ‌قِيبًا ﴿١﴾

اے نسلِ انسانی، تم سب نہایت محتاط روی کے ساتھ[اتَّقُوا ] اپنے نشوونما دینے والے کے ساتھ وابستہ رہو جس نے تمہیں اولا ایک کامل ذاتِ واحد [نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ]کی صورت تخلیق کیا۔ پھر اسی ذات کی تقسیم کے ذریعے [مِنْهَا ]دو نصف لیکن مکمل ذاتیں نر و مادہ کی شکل میں تشکیل دے کر اس کا جوڑا پیدا کیا تاکہ دونوں کے روحانی و جسمانی اختلاط کے ذریعے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں ہر طرف پھیل جائیں۔ پھر تاکید ہے کہ محتاط روی کے ساتھ جڑے رہو اپنے حاکمِ اعلیٰ کے ساتھ کہ جس کا نام لے کر ، یعنی جس کے حوالے کے ساتھ ،اپنے حقوق اور قرابت داریاں[وَالْأَرْ‌حَامَ] جتلاتے ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمہارے ارتقاء کے سفر میں وہی مالک تمہارا نگہبان و نگران [رَ‌قِيبًا ] ہے۔

وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرً‌ا ﴿٢﴾
تمہارے معاشرے میں جن بچوں کے باپ گذر گئے ہوں[الْيَتَامَىٰ ] ان کے وراثتی اموال ان کے حوالے کر دیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو جائے کہ تم اپنے پاک اور جائز کو ناپاک اور ناجائز سے بدل ڈالو، یعنی ان کے مال اپنے مالوں میں شامل کر کے ہڑپ کر لو۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا ارتکابِ جرم [حُوبًا]ہے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
اگر پھر بھی ایسا اندیشہ لاحق ہو جائے کہ تمہارے لوگ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر پائیں تو اس کا حل یہ ہے کہ معاشرے کے اس مخصوص کمزور گروپ میں سے [مِّنَ النِّسَاءِ] جو بھی تمہاری طبع کو موزوں لگیں تم ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار کو ایک سمجھوتے کے ذریعے اپنی سرپرستی اور تحویل میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ اس صورت میں بھی اگر اندیشہ ہو کہ سب سے برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک بچہ ہی سرپرستی میں لے لو؛ یا پھر اگر کوئی قبل ازیں ہی تمہاری سرپرستی ، ذمہ داری یا تحویل میں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] رہ رہا ہے تو وہی کافی ہے۔ یعنی کہ یہ امکان بھی پیشِ نظر رکھو کہ تم عیال داری میں زچ ہو کر نہ رہ جاو۔

وآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِ‌يئًا ﴿٤﴾
یہ بھی یاد رکھو کہ ان کمزوروں [النِّسَاءَ ] کو ان کے حقوق و واجبات [صَدُقَاتِهِنَّ]بغیر کسی حیل و حجت کے ادا کرتے رہو۔ اگر وہ خود اس میں سے تمہارے حق میں کچھ دینا مناسب سمجھیں تو وہ تم بخوشی استعمال کر سکتے ہو۔

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْ‌زُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٥﴾
لیکن یہ عمومی اصول یاد رہے کہ تمہارے اموال جنہیں اللہ نے تمہاری معاشی مضبوطی کی بنیاد بنایا ہے، انہیں نا سمجھوں کے ہاتھوں میں نہ سونپو ۔ انہیں اس میں سے ضروریاتِ زندگی ضرور دو اور ان سے عمومی طور پر اچھا سلوک گرو۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُ‌شْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَ‌افًا وَبِدَارً‌ا أَن يَكْبَرُ‌وا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرً‌ا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا ﴿٦﴾
اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ یتیم بچوں کو نشوونمائے ذات کی بھٹی میں سے گذرنے دو [وَابْتَلُوا ]یہاں تک کہ وہ بڑے مرد و عورت بن کر قبضہ و اختیار حاصل کرنے [النِّكَاحَ ] کے مرحلے تک پہنچ جائیں [بَلَغُوا]۔ تب اگر تم ان میں عقل و شعور دیکھ لو تو ان کی وراثتیں ان کے حوالے کر دو، بجائے اس کے کہ ان کےبڑا ہو جانے کے ڈر سے، ضرورت سے زیادہ اخراجات دکھاتے ہوئے ،خود کھا جاءو۔
تم میں سے جو مستغنی یعنی مالدار ہو وہ یتیموں کےاس مال کے معاملے میں مکمل ضبطِ نفس اختیار کرے۔ البتہ جو تنگ دست اور ضرورت مند ہو وہ اس میں سےصرف اتنا ہی لے لے جو عمومی معیار سے جائز ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ جب تم انہیں ان کے اموال واپس کرو تو اس عمل پر گواہی بھی ڈال لو۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کا ایک اپنا کسی بھی خطاء سے مبرا حساب کتاب کا نظام ہے جو قطعی خود مکتفی ہے۔

ِّللرِّ‌جَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَ‌بُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَ‌بُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ‌ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُ‌وضًا ﴿٧﴾
ان اموال کی واپس ادائیگی کے سلسلے میں خیال رکھو کہ مردوں کا اُس پر پورا حق ہوگا جو اُن کے باپوں اور اقرباء نے چھوڑا ہے اور عورتوں کا اُس پر پورا حق ہوگا جو اُن کے باپوں اور اقرباء نے چھوڑا ہے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، حصہ یا حق ایک فرض کی مانند ہے۔

وَإِذَا حَضَرَ‌ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْ‌زُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٨﴾
نیز اگر تقسیم کے موقع پر اقارب، یتیم بچے اور غرباء موجود ہوں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ ضروریاتِ زندگی دے دو اور ان سے حسنِ سلوک کرو۔

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَ‌كُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّ‌يَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّـهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٩﴾
سب اس حقیقت سے ضرور ڈریں کہ اگر ایسا ہوتا کہ وہ خود اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ جاتے تو ان کی خاطر وہ خود کتنے اندیشے میں مبتلا ہوتے۔ پس سب اللہ کی دی ہوئی ہدایات کے ساتھ محتاط روی سے وابستہ رہیں اور بالکل سیدھی اور حق بات کریں۔

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارً‌ا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً‌ا ﴿١٠﴾
درحقیقت جو لوگ بھی یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں وہ اپنے باطن میں آگ بھر لیتے ہیں اور انجام کارضرور محرومیوں اور پچھتاووں کی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔
- - - - - - - - - - -
بریکٹوں میں دیے گئے الفاظ کے مستند معانی
[اتَّقُوا ] : پرہیز گاری، محتاط روی، تحفظ کا راستہ اختیار کرو
[وَالْأَرْ‌حَامَ] : قرابت داریاں، رشتہ داریاں، نسبی تعلق
[رَ‌قِيبًا ] : نگران، نگہبان، monitoring ۔
[الْيَتَامَىٰ ] : وہ چھوٹےبچے جن کے باپ فوت ہو جائیں۔
[حُوبًا]: حاب :جرم ، گناہ -
[مِّنَ النِّسَاءِ] : اس مخصوص کمزور گروپ یا طبقے میں سے۔
[فَانكِحُوا]: نکاح : قبضے میں لینا، غالب آ جانا، کوئی معاہدہ/سمجھوتہ کرنا/شادی کا معاہدہ کرنا۔absorption of rainwater into earth, ، to overpower ۔
[مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ]: جو کسی حلف، معاہدے، سمجھوتے کے تحت تمہاری تحویل/سرپرستی/ماتحتی میں ہو۔
[النِّسَاءَ ] : کمزور جماعت، گروپ، طبقہ ، عورت کی جمع۔
[صَدُقَاتِهِنَّ]: ان کے لازمی واجبات، حقوق،
[وَابْتَلُوا ]: ابتلا ء میں ڈال کر نشوونمائے ذات کا موقع دینا۔
[بَلَغُوا]: بلغ: کسی بات، چیز، خبر کو پہنچا دینا، پھیلا دینا۔
النساء:۳۴
الرِّ‌جَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرً‌ا ﴿٣٤﴾
Verse: 4/34: (An-Nisaa’: 34):
ترجمہ:
طاقتور/با اختیار لوگ ، یعنی معاشرے کے سربرآواردہ اور اقتدار کے حامل لوگ، معاشرے کی کمزورجماعتوں کو استحکام دینے کے پابند ہیں اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون نے انسانی معاشروں میں بعض لوگوں کو بعض پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اپنے ذاتی اور قومی اموال میں سے انفاق کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ پس معاشرے کی صالح جماعتیں، وفادار و اطاعت شعارجماعتیں، اس پیش پا افتادہ مستقبل کی حفاظت کرتی ہیں جسکو اللہ کے قانون نے تحفظ دیا ھوا ہے۔ البتہ ان میں سے وہ جن کی سرکشی کا اندیشہ ہوانہیں نصیحت کرو، انہیں ان کی مجالس میں سوچنے کے لیے چھوڑ دو اور انہیں وضاحت سے معاملات کی تشریح کر دو۔ پھر اگر تمہاری اطاعت اختیار کر لیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ بیشک اللہ کا قانون بلند و بالا اثرات کا حامل ہے۔

[اب موازنے کے لیے روایتی ترجمہ بھی ملاحظہ فرما لیں]
ترجمہ :
مردوں کو عورتوں پر نگران بنایا گیا ہے اس سبب سے کہ ان میں سے بعض کو بعض پر برتری دی گئی ہے اور اس لیے کے مرد اپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس صالح عورتیں وہ ہیں جو وفادار و اطاعت شعار ہیں اور اس غائب چیز کی حفاظت کرتی ہیں جس کی اللہ نے بھی حفاظت کی ہے۔ البتہ جن عورتوں سے تم سرکشی کا اندیشہ کرتے ہو تو انہیں نصیحت کرو، پھر انہیں خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو اور انہیں تمام معاملات کی اونچ نیچ سے آگاہ کرو/ انہیں مارو ۔ پس اگر تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ مت چاہو۔ بیشک اللہ بہت بلند و بالاہے-
دونوں ترجمے پیشِ خدمت ہیں۔ دیکھیں کہ آپ کس کو ترجیح دیتے ہیں اور کس بنیاد پر۔
میری اپنی رائے میں دوسرا ترجمہ نہ ہی زیادہ مربوط ہے اور نہ ہی مرد اور عورت کے مساوی درجے کا علمبردار۔ اس میں عورت کو ایک ثانوی درجے کی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو مکمل طور پر مرد کی دستِ نگیں بتائی گئی ہے، حالانکہ قرآن دونوں کو یکساں درجہ، مرتبہ اور حقوق و اہمیت دیتا ہے۔ مرد ہی کیوں؟ عورت کیوں نہ نکمے مردوں کو نصیحت کرے، انہیں ان کی خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دے اور انہیں تمام امور وضاحت سے بیان کر کے انہیں اطاعت یا درست کردار اختیار کرنے پر مجبور کرے؟ آج بے شمار مرد حضرات بد کردار اور بے راہ رو ہیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کے حقوق کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔

 

 

Welcome to our Urdu Library 

 

 

اردو لائبریری کے عنوان کے تحت اورنگزیب یوسفزئی کا اردو زبان میں کیا گیا تمام تحریری کام اُردو قارئین کی فرمائش پر خاص اِس مقام پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک تقریبا 100 سے زیادہ تحریروں پر مشتمل یہ سارا کام مختلف ای-لائبریریوں میں بھی موجود ہے اور انٹرنیٹ آرکائیوز کے صفحات پر بھی مندرج کیا جا چکا ہے۔

 

قرآنِ حکیم کے موضوعاتی تراجم کا سلسلہ اس ناچیز نے اردو زبان میں لگ بھگ پانچ برس قبل شروع کیا تھا جو اُن اہم قضایا کو قرآن کی سچی روشنی میں لانے کا مقصد رکھتا تھا جو ہماری روز مرہ کی زندگیوں پر راست انداز میں اثر انداز ہوتے تھے اور دائمی آفاقی اصول و اقدار کی تعلیم دیتے تھے۔ اور جن کی اصل و اساس کو استخراجی منطق کے استعمال سے منظم انداز میں بگاڑ کر پرستش کی رسومات اور مختلف اقسام کی مضحکہ خیزجسمانی حرکات میں تبدیل کر دیا تھا۔ بعد ازاں اس تراجم کے سلسلے میں قارئین کی فرمائش پر قرآن میں بیان کردہ بہت سے تاریخی واقعات بھی شامل کر دیے گئے جنہیں اموی دربار کی سازش کے تحت نہایت عمومی اور بازاری معانی کے استعمال سے طلسماتی اور دیو مالائی رنگ دے دیا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ قارین کے مزید مطالبوں پر چھوٹی سورتوں کے جدید ترین عقلی تراجم کو بھی اس سلسلے میں شامل کر دیا گیا تھا۔



یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ یہ سطور لکھتے وقت 49 قرآنی موضوعات کو، بمعہ کچھ سورتیں، قرآن کی سچی روح کے مطابق نہایت گہرےعلم و دانش، حکمت اور ارتقاء یافتہ شعور کی عکاسی کرتے ہوے، از سرِ نو قرینِ عقل اردو اور انگلش زبان میں ترجمے کے ذریعے، اپنی عربی اصل و اساس کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا چکا ہے۔ موضوعاتی تراجم کی یہ 49 اقساط درجِ بالا عنوان کے تحت آپ کی اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا عمل جاری ہے۔ مزید موضوعات اور سورتوں پر کام جاری ہے جو مزید اقساط کے نمبروں کے ساتھ رفتہ رفتہ انہیں صفحات پر شامل کیا جاتا رہیگا۔

 

اسی کے ہمراہ اہم قرآنی موضوعات پر لکھے گئے ان گنت مضامین اور ریسرچ پیپرز بھی، جن کا سلسلہِ تحریر 12 سال قبل شروع کر دیا گیا تھا، اپنے اپنےعنوانات کے تحت انہی صفحات پر اپ لوڈ نگ کے جاری عمل میں شامل ہیں۔ چند روز میں یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں کچھ چھوٹی کتب اور مختلف موضوعات پر مباحثے اور رد الزامات کا ایک سلسلہ بھی تحریروں میں شامل ہیں۔ یہ بھی اپنے اپنے عنوانات کے تحت انہیں صفحات پر اپ لوڈ کیے جا رہے ہیں۔

 

قرآن کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے قرآن کے طلبہ کو اس کے چہرے سے اسلامی تالمود [ِ تفاسیر] اور اسلامی مثناہ [علمِ حدیث و روایات] کے سب پردوں کو ہٹانا ہے اور انہیں ان سیاسی ، معاشرتی اور مذہبی انحرافات کا مطالعہ کرنا ہے جو اسلامی تاریخ کےصدر اول کے دور میں ہی وقوع پذیر ہوئے ۔ انہیں خلافت راشدہ کے ملوکیت سے تبدیل ہوجانے کے مقتضیات و متضمنات پر تحقیق کرنا ہے۔ عہد قدیم میں بھی اور آج بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ قرآن کے طلبہ کو اس کا پیغام خود اس کے صفحات میں معلوم کرنا چاہیئے۔ علامہ سیوطی کا قول ہے کہ علما کے نزدیک جو شخص قرآن کا صحیح مفہوم معلوم کرنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے اس کی تلاش خود قرآن ہی کے صفحات میں کرنی چاہیئے، کیونکہ اگر قرآن ایک جگہ کسی چیز کا اجمالی طور پر ذکر کرتا ہے تو دوسری جگہ اس کی مزید تفصیل کر دیتا ہے۔ ابن جوزی نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ خود ہمارے دور میں بھی بہت سے علماء نے اس بات پر زور دیا ہے۔ فلہذا یہاں یش کردہ تمام تحقیقی کام کی اساس صرف اور صرف قرآن ہے ۔ کسی ثانوی ماخذ کو قرآن کے ترجمے اور اس کی اصل روح کی دریافت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ ایک انتہائی علمی، شعوری، قانونی اور بالضبط ترجمے کے لیے جدید ترین علوم کی ہر صنف سے استفادہ کیا گیا ہے تاکہ مقصد پیشِ نظر کو کمال مہارت، اہلیت اورترقی یافتہ ترین ارتقائی سطح کے مطابق حاصل کر لیا جائے۔

 

یاد رہے کہ 35 اردو موضوعاتی تراجم کے سلسلے کے بعد آئندہ آنے والی تمام اردواقساط کے لیے آپ کو انگلش لائبریری کی جانب رجوع کرنا ہوگا کیونکہ نمبر 36 سے شروع ہو کر آگے تمام تراجم میں اردو متن انگلش کے ساتھ ہی منسلک کر دیا گیا ہے۔ ترتیب یہ ہےکہ ہر ترجمے کے آرٹیکل میں پہلے انگلش متن ہے اور اُس کے بعد اردو متن۔

اورنگزیب یوسفزئی اگست۲۰۱۳

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۱

 

ازواج النبی اور بیوت النبی[ص] نیز ظہار اور نکاح و طعام کے اہم موضوعات

سورۃ احزاب سے

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔

ہماری مذہبی پیشوائیت کو قرآن کے ہر لفظ اور اصطلاح کا ایک ہی معنی معلوم ہے، وہ ہے لفظی اور عامیانہ معنی ۔ تشبیہ، استعارہ، ضرب المثال اور محاورہ وہ نہ قرآن کے کلام عالی میں دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کے مجازی معانی پر وہ تحقیق کرنے کی کوشش فرماتے ہیں ۔ آیات زیر نظر میں بھی ہمارے فاضل مترجمین کو ازواج کا صرف ایک ہی معنی سکھایا گیا ہے ،،،،،یعنی،،،، بیویاں۔ اسی کی مانند بیوت اور طعام کے بھی فقط لفظی اور عامیانہ معانی ان کے علم میں ہیں،،،،،،یعنی گھر [بیت] کی جمع اور کھانا ۔ اب، جدید ترین تحقیقی کوششوں کے بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے کلامِ عالی میں بیویوں، گھروں اورکھانوں کی بجائے نسلِ انسانی کے شعوری ارتقاء کے لیے کس قدر بلند کرداری کے اصول و قواعد بیان فرماتا ہے اور ہر عبارت کس طرح اپنے سیاق و سباق میں موتیوں کی طرح فٹ بیٹھتی ہے۔ ابتدا ہے اللہ کے بابرکت نام سے ۔ ۔ ۔ ۔
آیات ۱ سے ۶ تک
یَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾
اے نبی، اللہ کے احکام کی نگہداشت کرتے رہو اور حق کوچھپانے والوں اور دو رخی/ دوغلی پالیسیوں پر کاربند لوگوں کےمشوروں اور تجاویز کی پیروی ہرگز نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان سب امور کا علم رکھتا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت بھی۔
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿٢﴾ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا[۳]
اور ان حالات میں تم صرف اُسی کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب وحی کیا جاتا ہے کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ پس پورا انحصار اللہ کی ذاتِ عالی پر رکھو کیونکہ اللہ تمہاری پشت پناہی کے لیے کافی ہے۔
مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَ‌جُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾
دراصل ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے انسانی ذات کے باطن میں دو ذہن ودیعت کر دیے ہوں، اور وہ اس سبب سے دو رخی پالیسیوں پر چلنے پر مجبور ہوں۔ اور نہ ہی اس نے تمہارےاُن لوگوں کو [أَزْوَاجَكُمُ] جن پر تم غلبہ پا لیتےہو [اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ] تمہاری اصل و بنیاد [أُمَّهَاتِكُمْ ] قرار دیا ہے۔ اور نہ ہی اس نے ان کو جنہیں تم نے اپنے لوگوں میں شامل کیا ہے اور جو خود کو غیر قوم کی طرف منسوب کرتے ہیں[أَدْعِيَاءَكُمْ] ، تمہارے قوم کے اصل سپوت [أَبْنَاءَكُمْ ] قرار دیا ہے۔یہ تو محض وہ الفاظ یا القاب [قَوْلُكُم] ہیں جو تم اپنی زبانوں سے اُن کے حق میں یونہی بول دیتے ہو [بِأَفْوَاهِكُمْ ]، جب کہ اس کے برعکس اللہ ہمیشہ سچائی پر مبنی حقیقت بیان فرماتا ہے اور وہی ہے جو خطاءوں سے بچا کر اپنے مخصوص راستے کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے۔
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥﴾
مذکورہ لوگوں کو اُن کے آباء ہی کی نسبت سے پکارو کیونکہ اللہ کے نزدیک یہی زیادہ قرینِ انصاف ہے۔ البتہ اگر تم اُن کے بڑوں سے متعلق نہ جان پاءو تو اس صورت میں انہیں اپنے دینی بھائی کا اور اپنے دوستوں کا درجہ دے دو ۔ ان معاملات میں کوئی خطاء ہو جانے پر کوئی مضائقہ نہیں ہے جب تک کہ دلوں کے ارادے سے کوئی غلط قدم نہ اُٹھایا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسے معاملات میں تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُ‌وفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورً‌ا ﴿٦﴾
نبی کی حیثیت مومنین کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی بڑھ کر دوست اور سرپرست کی ہے اور نبی کی جماعت یا نبی کے اپنے ساتھی [أَزْوَاجُه] مومنین کے لیے اُن کی اصل و بنیاد یا ان کی اپنی امت کی حیثیت یا درجہ [أُمَّهَاتُهُمْ] رکھتے ہیں۔ نیز مومنین و مہاجرین میں سے جو آپس میں نسبی رشتہ دار ہیں [وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ ] ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کے ضمن میں ایک دوسرے کے لیے بہتر دوست اور معاون ہیں۔ یہ سب درست ہے مگر یہ خیال رہے کہ تم سب اپنے ان دوستوں و معاونین کے لیے جو کچھ بھی کرو وہ عمومی طور پر جائز تسلیم کی جانے والی حدود کے اندر ہو اس لیے کہ یہ ہدایت اللہ کی کتاب میں سطروں میں لکھی یعنی بالکل واضح طور پر موجود ہے۔
آیات ۵۰ سے ۵۴ تک
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَ‌هُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْ‌نَ مَعَكَ وَامْرَ‌أَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَ‌ادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَ‌ضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَ‌جٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥٠﴾
اے سربراہ مملکت الٰہیہ [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ] ہم نے آپ کی ان جماعتوں [أَزْوَاجَكَ] کو جن کے معاوضے /اجرتیں [أُجُورَ‌هُنَّ ] آپ نے مقرر کردیے ہیں، آپ کے مشن پر کام کرنےکے لیے [لَكَ ] دیگر پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد قرار دے دیا ہے [أَحْلَلْنَا] اور انہیں بھی جنہیں اللہ نے مالِ غنیمت کے توسط سے آپ کی ذمہ داری بنایا ہے [أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] اور وہ آپ کی زیرِ سرپرستی ونگرانی ہیں [مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ نیز وہ خواتین جو آپ کی چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد ہیں جنہوں نے آپ کی معیت میں ہجرت اختیار کی ہے ، اور ہر وہ مومن خاتون جو نبی کے مشن کے لیے رضاکارانہ خود کو پیش کرتی ہو، تو اگر نبی بطورِ سربراہِ مملکت ارادہ فرمائے تو انہیں قاعدے/قانون کے مطابق فرائض ادا کرنے کے لیے طلب کر سکتا ہے [أَن يَسْتَنكِحَهَا ]۔ اس معاملے میں اختیار و فیصلہ کا حق صرف آپ کا ہے دیگر ذمہ داروں [الْمُؤْمِنِينَ] کا نہیں۔ جہاں تک دیگر ذمہ داران کا تعلق ہے تو اُن کی جماعتوں/ساتھیوں کے ضمن میں اُن پر جو بھی فرائض ہم نے عائد کیے ہیں وہ بتا دیے گئے ہیں تاکہ تمامتر معاملات کی ذمہ داری کا بار آپ پر ہی نہ آ جائے۔ اللہ کا قانون سب کو تحفظ اور نشوو نمائے ذات کے اسباب مہیا کرتا ہے۔
تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ‌ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْ‌ضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ﴿٥١﴾
ان جماعتوں میں سے آپ جسے چاہیں انتظار و التوا میں رکھیں [تُرْ‌جِي] اور جسے مناسب سمجھیں طلب فرما کر [وَتُؤْوِي إِلَيْكَ ] فرائض سونپ دیں ۔ پھر جسے بھی انتظار میں رکھا ہو اسے فعال کرنا چاہیں تو اس میں بھی آپ کے لیے کوئی مضائقہ یا رکاوٹ نہیں ۔ بلکہ اس طریقِ کار کی رُو سے اُن سب کو سکون اور تسلی ملے گی، وہ غمگین نہ ہونگے اور جو کچھ انہیں آپ سے ملے گا اس پر راضی اور خوش رہینگے۔ یاد رہے کہ تم سب کے ذہنوں میں جو کچھ بھی سوچ یا خیال آتا ہے اللہ اسے جان لیتا ہے کیونکہ وہ علم سے بھرپور اور بردبار ہے۔

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّ‌قِيبًا ﴿٥٢﴾
بعدازاں یا علاوہ ازیں خواتین [النِّسَاءُ ] آپ کے مشن کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کی جاسکتیں [لَّا يَحِلُّ ]۔ نہ ہی آپ ان کے موجودہ گروپس کو نئے لوگوں [أَزْوَاجٍ ]سے تبدیل کریں خواہ ان کی خوبیاں آپ کوپسند ہی کیوں نہ آئیں ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو ما قبل سے آپ کے زیر سرپرستی و نگرانی میں آ چکی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ اللہ کا قانون ہر شے کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُ‌وا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ‌ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَ‌سُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا ﴿٥٣﴾
اے اہلِ ایمان اپنے تحصیل علم کے مقصود کی جانب بڑھنے کی خاطر [إِلَىٰ طَعَامٍ ] مناسب موقع و محل کا انتظار کیے بغیر [غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ ] نبی یعنی اپنے سربراہِ مملکت اور ان کی قریبی اشرافیہ کی غور و فکر اور فیصلہ سازی [بُيُوتَ النَّبِيِّ] میں دخل انداز نہ ہوا کرو [لَا تَدْخُلُوا ] جب تک کہ تمہیں ان کے ہاں باریابی کی اجازت [إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ] نہ مل جائے۔ لہذا تم ان کی مصرفیات میں تب ہی مخل ہوا کرو [فَادْخُلُوا ] جب مدعو کیے جاو [إِذَا دُعِيتُمْ ] اور جوں ہی مقصود حاصل ہو جائے [فَإِذَا طَعِمْتُمْ ] غیر ضروری گفتگو کی خواہش کیے بغیر [وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ] منتشر ہو جاو۔ تمہارا سابقہ رویہ نبی کے لیے زحمت کا باعث ہے مگر تمہیں اس سے روکنے میں ان کی حیا مانع ہوتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ حق بات کی تاکید سے نہیں جھجھکتا۔ نیز اگر تمہیں ان سے کسی دنیاوی ضرورت یا مفاد [مَتَاعًا] کا سوال کرنا ہو تو یہ تمہارے اور ان کی پاکیزگیءِ قلب یا ارتقائے ذات کے لیے بہتر ہوگا کہ ایسا سوال پردے میں رہ کر، غیر متعلق نگاہوں سے بچ کر کیا جائے [مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ]۔ تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ ایسے رویے اختیار کرو جس سے اللہ کے رسول کو زحمت پہنچے۔ اور نہ ہی کبھی بھی ان کے پسِ پُشت [مِن بَعْدِهِ] ان کے ساتھی اکابرین [أَزْوَاجَهُ] پر طاقت کے ذریعے اثرانداز [تَنكِحُوا ] ہونے کی کوشش کرو۔ بلاشبہ ایسا رویہ اللہ کے نزدیک ایک بڑی جسارت ہے۔

إِن تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٥٤﴾
ہمیشہ یاد رہے کہ تم کوئی خفیہ عزائم رکھو یا علانیہ کچھ بھی کرو تو اللہ کے تخلیق کردہ نظام میں تمہارا ہر عمل اور سوچ بہر حال اس کے احاطہِ علم میں داخل ہو کر ریکارڈ میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔
- - -
بریکٹ شدہ الفاظ کے ذیل میں دیے گئے مستند معانی ضرور ملاحظہ فرمائیں :
[أَزْوَاجَكُمُ] : تمہارے ساتھی، لوگ، جماعتیں
[اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ] : ظھر: غلبہ پانا؛ نمایاں ہونا؛ برتری تسلط حاصل کر لینا ۔ جن پر تم غلبہ حاصل کرتے ہو۔
[أُمَّهَاتِكُمْ ] : اُم : قوم، عوام، نسل، جڑ، اصل، جماعت ؛ تمہاری بنیادیں؛ تمہاری مائیں؛ تمہاری قومیں,، لیڈر، مثال، سمت، ماخذ، دادی، معدنیات ڈھالنے کا سانچہ۔
[أَدْعِيَاءَكُمْ]:تم میں سے وہ جنہیں تم نے اپنی جماعت میں شامل کیا ہے؛ جو غیر اقوام سے آئے ہیں اور انہی سے خود کو منسوب کرتے ہیں ۔ those whom you seek, desire, ask, demand, summon, call upon; those you invite & include in your people; خود کو غیر باپ یا غیر قوم کی طرف منسوب کرنے والا؛ جس کے نسب میں شبہ ہو۔
[أَبْنَاءَكُمْ ] : قوم کے سپوت؛ مردِ میدان؛ ہیرو؛ قوم کے قابلِ فخر بیٹے، تمہارے بیٹے۔
[قَوْلُكُم]: تمہاری بات؛ تمہارے الفاظ
[بِأَفْوَاهِكُمْ ] ؛ تمہاری زبانوں سے نکلی ہوئی بات
[أَزْوَاجُه] : اس کے ساتھی، جماعت، لوگ
[أُمَّهَاتُهُمْ] : ان کی قوم، ان کی جڑ بنیاد، ۔۔۔۔
[وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ ] : نسبی رشتہ داری رکھنے والے؛ قریب ترین تعلق کے حامل
[يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ]: اے سربراہی اور راہنمائی کے مقام پر فائز؛ اے نبی
[أَزْوَاجَكَ] : تیرے ساتھی، لوگ، جماعتیں
[أُجُورَ‌هُنَّ ] : ان کے معاوضے، اجرتیں، تنخواہیں، انعامات، مزدوریاں، ثواب، حقوق
[لَكَ ] ' تمہارے لیے، تمہارے فائدے، مقصد، منافع کے لیے۔
[أَحْلَلْنَا]: حلل: جائز کرنا، پابندیوں، ذمہ داریوں سے آزاد کرنا، کھول دینا، مسائل حل کر دینا، کنٹرول سے آزاد کر دینا، settle, stop, descend, sojourn, lodging, taking abode, make lawful or free or allowable, free from obligation, responsibility, untying, unfastening, solution, unraveling, dissolution, disbandment, decontrol.
[أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] : جو اللہ نے تم کو لوٹایا ۔ مالِ فئے، مالِ غنیمت، پورا کرنا، لوٹانا۔
[مَلَكَتْ يَمِينُكَ ] : سیدھے ہاتھ کی ملکیت، یا حلف، عہد، کنٹریکٹ کی رُو سے ملازم/ماتحت، یعنی وہ جو تمہارے تسلط، ماتحتی، قبضے، اختیار ، سرپرستی، تحویل میں ہوں کسی عہد، ایگریمنٹ یا کنٹریکٹ کی رُو سے ۔
[أَن يَسْتَنكِحَهَا ] استنکاح: بابِ استفعال جس کی سب سے بڑی خصوصیت طلبِ ماخذ ہوتا ہے ۔ کسی تقرری کے لیے طلب کرنا، فرائض سونپنے کے لیے طلب کرنا ۔ کسی معاہدے، ایگریمنٹ کے لیے بلانا ۔ شادی کے معاہدے کے لیے طلب کرنا۔ اپنی ماتحتی میں لینے کے لیے طلب کرنا۔
[الْمُؤْمِنِينَ] : ضابطِ امن؛ نظام کی تنفیذ کے ذمہ دار؛ اللہ کی حکومت کے با اختیار آفیسر ؛ ایمان لائے ہوئے ذمہ دار لوگ۔
[تُرْ‌جِي]: ارجا: انتظار کرانا، ملتوی کرنا، موخر کرنا، کاروائی کو ختم کر دینا؛ to cause to wait, to delay, postpone, put off, adjourn.
[وَتُؤْوِي إِلَيْكَ ] : اٰوٰی : کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہو جانا، ٹھکانا دینا – ماویٰ – کسی کی طرف لوٹنا، پناہ دینا، رجوع کرنا؛ to receive hospitably, to take to yourself, to shelter & to strengthen, to return
[لَّا يَحِلُّ ] : اجازت نہ ہونا، جائز نہ کرنا، پابندیوں، ذمہ داریوں سے آزاد نہ کرنا، آباد نہ کرنا، مسئلہ حل نہ کرنا۔
[أَزْوَاجٍ ] : ساتھی، لوگ، جماعتیں، اقسام۔
[إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ]: سوائے وہ جو تمہاری تحویل، نگرانی، ماتحتی میں ہوں معاہدے یا حلف کی رُو سے ۔
[إِلَىٰ طَعَامٍ ] : سیکھنے، حاصل کرنے کی خاطر ، کھانے کی طرف ۔ to acquire, an appropriate quality in a man, to take to education, to have power or ability to do it, to be vaccinated, inoculated.
[غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ ]: اس کے لیے انتظار کیے بغیر۔
[بُيُوتَ النَّبِيِّ]: نبی کا خفیہ سوچ بچار، خفیہ فیصلے، فیصلے کرنا، نبی کے قریبی اعلیٰ خاندان/اشراف / اکابرین؛ جمع: بیوتات
respectable house, noble person of his people/
[قاموس الوحید، المنجد، ہانز وہر ] Nabi’s noble persons
[لَا تَدْخُلُوا ] : دخل : مداخلت، آمدنی، وصولی، کسی پر واقع ہونا، ظاہر ہونا، امور میں دخل، مکس ہونا، کنفیوز ہونا، دخل اندازی، مخل ہونا
[إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ] : سوائے اس صورت میں اگر وہ تمہیں اجازت دیں۔
[إِذَا دُعِيتُمْ ] : اگر تم مدعو کیے جاو۔ [فَإِذَا طَعِمْتُمْ ] : جب تم نےسیکھ لیا، حاصل کر لیا، کھا لیا۔
[وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ] : فالتو گفتگو کی خواہش کرنے والے۔
[مَتَاعًا] : زندگی کی ضروریات/لطف/ مفاد/خوشی/مال/جائیداد-
[مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ]۔ : پرائیویٹ طریقے سے، تنہائی میں، پردہ میں رکھ کر، چھپا کر، حفاظت سے، نظروں سے بچا کر۔
[النِّسَاءُ]: مصدر: تنسئۃ ۔ نسیء۔ نساء ۔ نسُوء۔ منساۃ ۔ ن س ی/ن س و : lowly people/rubble/a forlorn thing/ insignificant/ completely forgotten/womanly/effeminate/to render ignominious/render backward/postponement/delay – نچلے طبقے کے لوگ/بے حیثیت/نظرانداز کیے جانے والے/پسماندہ/ اس فعل میں دونوں مادوں میں اشتراکِ معنی ہے یعنی overlap پایا جاتا ہے۔
--------------