اورنگزیب یوسفزئی مئی 2014
قصرِ صلاۃ - سورۃالنساء
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر15
یہ جدید تحقیق سورۃ النساء کی ۱۰۱ سے ۱۰۴ آیات پر مشتمل ہے ۔ سیاق و سباق میں جاری جنگی کاروائیوں کا ذکر، مجاہدین کا کردار، ہجرتوں کا ذکر، اور پیچھے بیٹھے رہ جانے والوں کا ذکر ہے۔کیونکہ متن انہی موضوعات سے جڑا ہے اس لیے الفاظ و اصطلاحات کا ترجمہ بھی اسی تناظر میں، لیکن مادے کے بنیادی معنوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی کیا گیا ہے ۔یہ دراصل ہنگامی حالات میں اختیار کرنے والی سٹریٹجی کی ہدایات ہیں نیز پیچھے رہ جانے والوں کی جنگی تربیت اور تیاری مد نظر ہے۔
اس تحقیق کے پس منظر میں روایت پرستوں کی جانب سے عمومی طور پر کیا جانے والا یہ دعویٰ ہے کہ اس مقام سے "روایتی نماز" ثابت ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہاں متن سے اور سیاق و سباق سے کسی طرح بھی "نماز" کے مصنوعی ڈھونگ کا ایک شائبہ بھی نگاہِ بصیرت کے سامنے نہیں آتا ۔
عمومی تراجم کے مطابق اس مقام پر ایک جاری جنگ کو فرض کر لیا گیا ہے، جب کہ ایسا اشارہ کہیں بھی نہیں دیا گیا ۔ البتہ کافروں سے اچانک مڈ بھیڑ کے خطرے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہاں عین جنگ کے دوران "نماز" پڑھنے کی حماقت بھی فرض کر لی گئی ہے، جب کہ ایسا کوئی بھی نقشہ پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ آنیوالی جنگوں کے پیش نظر پیچھے رہ جانے والے مومنوں کو بھی جنگی تربیت دے کر تیار رہنے اور اقدامی اور دفاعی جنگ کی تربیت کی کچھ تفاصیل پیش کی گئی ہیں ۔ خود ہی ملاحظہ فرمالیں۔ آپ یقینا مطالعے کے بعد متفق ہو جائیں گے ۔
سورۃ النساء کی ۱۰۱ سے ۱۰۴ آیات
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٠٢﴾ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾ وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٠٤﴾
ترجمہ:
۳/۱۰۱ : وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾
جب تم کسی مہم کے لیے زمین کے سفر پر نکل پڑو اور اس مہم کے دوران تمہیں خوف ہو کہ کافرین تم کو کسی آزمائش میں نہ ڈال دیں تو تم پر کوئی گناہ یا ممانعت نہیں کہ تم خود حفاظتی کے اقدامات کرنے کی خاطر اپنے عمومی ڈسپلن [الصَّلَاةِ ] یعنی احکاماتِ الٰہی کی ہمہ وقت تبلیغ و ترویج ، کی پابندیوں کو محدود یا مختصر کر لیا کرو [تَقْصُرُوا ]کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کافرین تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
۳/۱۰۲ : وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٠٢﴾
اور اے نبی اگر تم ان پیچھے رہ جانےوالوں کے درمیان موجود ہو [ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ ] {جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے}اور ان کے لیے اتباعِ احکامِ الٰہی کا ڈسپلن قائم کرنے کا ارادہ کیا ہو [فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ] ، تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ باری باری ان میں سےایک گروہ تمہارے ساتھ اس تربیت کے لیے قیام کیاکرے [فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ ]، اور یہ گروپ اپنے ہتھیار بھی سنبھالے رکھے ۔ تاکہ جب یہ ڈسپلن کی مکمل اطاعت اختیار کر لے [فَإِذَا سَجَدُوا ] تو یہ تمہارے پیچھے تمہاری نفری کے ساتھ شامل ہو جائے اور دوسرا گروپ جو ابھی نظام کے تابع نہیں ہوا [لَمْ يُصَلُّوا ]، سامنے آ جائے۔ پس یہ بھی تمہارے زیر ِ تربیت ڈسپلن کا اتباع و اطاعت اختیار کرے اور ہوشیار و خبردار ہو کر مسلح ہو جائے [وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ]۔
یہ یاد رہے کہ کافرین تو ہمیشہ اس تاک میں رہینگے کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز و سامان سے غافل ہو جاو، تو تم پر ایک ہی بار بڑا ہلہ بول دیں۔ پس اس تربیت کی رُو سے تم پر کچھ ممانعت نہیں کہ اگر لڑائی کے دوران تمہیں فضاء سے ہتھیاروں کی بوچھار [مَّطَرٍ] کی مشکل کا سامنا ہو جائے[بِكُمْ أَذًى ]یا اگر تم دیگر امور میں سے کسی میں کمزوری کا سامنا کر رہے ہو[كُنتُم مَّرْضَىٰ]، تو اپنے ہتھیار رکھ کر اپنے بچاو اور تحفظ کے اقدامات اختیارکر لیا کرو [وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ] ۔ اللہ نے کافروں کے لیے بہر حال ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
۳/۱۰۳ :: فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾
جب تم اپنے اپنے فرائض ِ منصبی ادا کر چکے ہو [قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ ]تو پھراللہ کے احکامات کی یاد دہانی ہمہ وقت اور ہر جانب کرنا شروع کر دو۔ پھر جب تم بالآخر امن و اطمینان کی حالت میں واپس آ جاو [ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ ]تو پھر سےاحکاماتِ الٰہی کی تبلیغ و ترویج کے پورے ڈسپلن کی پیروی کے معمول پر واپس آ جایا کرو [فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ]کیونکہ اس ڈسپلن کی پیروی مومنین پر ایک لازمی اور مقرر کردہ فریضہ ہے [كِتَابًا مَّوْقُوتً] ۔
۳/۱۰۴ :وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٠٤﴾
دشمن قوم کا پیچھا کرنے میں سستی اور کمزوری نہ دکھایا کرو ۔ کیونکہ اگر تمہیں نقصانات سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی تمہاری مانند نقصانات کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔ البتہ تمہاری فضیلت یہ ہے کہ تم اللہ سے وہ کچھ حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہو جو ان کے نصیب میں نہیں ہے ۔یہ ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ ان تمام امور کا علم رکھنے والا اور بڑی دانائی کا مالک ہے ۔
اب اہم الفاظ کے مستند تراجم :
[الصَّلَاةِ ]: احکامات کی پیروی ، تبلیغ و ترویج؛ فرائض کی بجا آوری؛ اطاعت و اتباعِ احکاماتِ الٰہی ؛ فرائضِ منصبی جو اللہ کی جانب سے یا اسلامی حکومت کی جانب سے عائد ہوں ۔ ایسے فرائض کا ایک مربوط ڈسپلن ۔
[تَقْصُرُوا ]: قصر : چھوٹا کر لینا؛ مختصر کر لینا؛ رُک جانا؛ باز آ جانا؛ ترک کر دینا؛ ختم کر دینا؛ محدود/قید/پابند کر دینا؛ حدود کے اندر سمیٹ دینا؛ روک لینا؛ بڑا اور وسیع گھر، محل، قلعہ۔
[وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ ]: یہاں "ھم" کی ضمیر پیچھے ذکر کیے گئے قٰعدین یعنی جہاد سے بیٹھے رہ جانے والوں کی جانب ہے۔
[فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ]: تم ان کے لیے جنگی نظم و ضبط کا ڈسپلن قائم کرو
[فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ]: پس ان میں سے ایک گروپ تمہارے ساتھ تربیت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
[فَإِذَا سَجَدُوا ] : س ج د : اطاعت میں عاجزی اور خود سپردگی اختیار کر لینا۔
[لَمْ يُصَلُّوا]: انہوں نے پیروی اختیار نہیں کی؛ وہ نظام کے تابع نہیں ہوئے۔
[وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ]: حذر: تنبیہ لینا؛ ہوشیار ہونا؛ خبردار ہونا؛ خیال کرنا؛ حفاظت کرنا؛ خو دکو تیار کرنا؛ غصہ میں آنا۔
[مَّطَرٍ]: جو کچھ بھی رحمت کے طور پر یا سزا کے طور پر برسے یا بھیجا جائے ؛ بارش؛ اوپر سے گرنے والا شاور؛ بوچھاڑ ؛ [یہاں مراد تیروں یا آتش کی بارش یا بوچھاڑ]؛ مطرھم شر= ان پر برائی یا عذاب برس پڑا۔
مطرنی بخیر: اس نے مجھ پر نیکی کی ۔ امطرھم اللہ: اللہ نے ان پر مشکل نازل کی ۔ امطر اللہ السماء: اللہ نے آسمان سے پانی برسایا۔ مستیطر: وہ جس سے رحمتیں اورنعمتیں مانگی جائیں، یعنی جو فطرتا رحم اور انعامات عطا کر نے والا ہو۔
[بِكُمْ أَذًى ]؛ تمہیں تکلیف کا سامنا ہو۔
[كُنتُم مَّرْضَىٰ]: مرض : کسی بھی جسمانی یا انتظامی یا نفسیاتی یا علمی کمزوری/کمی کا سامنا۔
[وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ] : تم اپنی حفاظت کے لیے تنبیہ یا اقدام لے لو۔
[قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ ]: تم نے اپنےفرائضِ منصبی ادا کر لیے۔
[ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ ]: جب تم حالتِ اطمینان اور امن میں آ جاو ۔
[فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ]: پھر احکامات بجا لانے/فرائض ادا کرنے کا ڈسپلن قائم کرو۔
[كِتَابًا مَّوْقُوتً] : مقرر کردہ، عائد کردہ، فریضہ۔
[مَوَاقِيتُ]:واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔
اور اب آخر میں رواں ترجمہ :
جب تم کسی مہم کے لیے زمین کے سفر پر نکل پڑو اور اس مہم کے دوران تمہیں خوف ہو کہ کافرین تم کو کسی آزمائش میں نہ ڈال دیں تو تم پر کوئی گناہ یا ممانعت نہیں کہ تم خود حفاظتی کے اقدامات کرنے کی خاطر اپنے عمومی ڈسپلن ، یعنی احکامات الٰہی کی ہمہ وقت تبلیغ و ترویج ، کی پابندیوں کو محدود یا مختصر کر لیا کرو کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کافرین تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
اور اے نبی اگر تم ان پیچھے رہ جانےوالوں کے درمیان موجود ہو {جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے}اور ان کے لیے اتباعِ احکامِ الٰہی کا ڈسپلن قائم کرنے کا ارادہ کیا ہو ، تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ باری باری ان میں سےایک گروہ تمہارے ساتھ اس تربیت کے لیے قیام کیاکرے، اور یہ گروپ اپنے ہتھیار بھی سنبھال لے ۔ تاکہ جب یہ ڈسپلن کی مکمل اطاعت اختیار کر لے تو یہ تمہارے پیچھے تمہاری نفری کے ساتھ شامل ہو جائے اور دوسرا گروپ جو ابھی نظام کے تابع نہیں ہوا، سامنے آ جائے۔ پس یہ بھی تمہارے زیر ِ تربیت ڈسپلن کا اتباع و اطاعت اختیار کرے اور ہوشیار و خبردار ہو کر مسلح ہو جائے ۔
یہ یاد رہے کہ کافرین تو اس تاک میں رہینگے کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز و سامان سے غافل ہو جاو، تو تم پر ایک ہی بار بڑا ہلہ بول دیں۔ پس اس تربیت کی رُو سے تم پر کچھ ممانعت نہیں کہ اگر لڑائی کے دوران تمہیں فضاء سے ہتھیاروں کی بوچھار کی مشکل کا سامنا ہو جائےیا اگر تم دیگر امور میں سے کسی میں کمزوری کا سامنا کر رہے ہو، تو اپنے ہتھیار رکھ کر اپنے بچاو اور تحفظ کے اقدامات اختیارکر لیا کرو ۔ اللہ نے کافروں کے لیے بہر حال ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
جب تم اپنے اپنے فرائض ِ منصبی ادا کر چکے ہو تو پھراللہ کے احکامات کی یاد دہانی ہمہ وقت اور ہر جانب کرنا شروع کر دو۔ پھر جب تم بالآخر امن و اطمینان کی حالت میں واپس آ جاو تو پھر سےاحکاماتِ الٰہی کی تبلیغ و ترویج کے پورے ڈسپلن کی پیروی کے معمول پر واپس آ جایا کرو کیونکہ اس ڈسپلن کی پیروی مومنین پر ایک لازمی اور مقرر کردہ فریضہ ہے ۔ دشمن قوم کا پیچھا کرنے میں سستی اور کمزوری نہ دکھایا کرو ۔ کیونکہ اگر تمہیں نقصانات سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی تمہاری مانند نقصانات کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔ البتہ تمہاری فضیلت یہ ہے کہ تم اللہ سے وہ کچھ حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہو جو ان کے نصیب میں نہیں ہے ۔یہ ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ ان تمام امور کا علم رکھنے والا اور بڑی دانائی کا مالک ہے ۔