اورنگزیب یوسفزئی ستمبر ۲۰۱۶


قرآن کے" موضوعاتی" تراجم کے سلسلے کی قسط نمبر [۳۵]
Thematic Translation Series Installment No.35

انسان کی تخلیقی اور موروثی فطرت ۔ قرآن کی روشنی میں کتابِ ہستی کا سبق
The Nature Man is Born with – Lesson from the Book of Self
in the Light of Quran

 

قرآنِ حکیم کی موجودہ اردو تفاسیر و تراجم کو اگر ثواب کمانے کی عمومی مروجہ روش کے مطابق صرف پڑھ کر گذر جانے کی بجائے واقعی سمجھنے کی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سے مقامات پر آپ کو تضادات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آپ خود کو ایک بڑے مخمصے میں گرفتار پائیں گے کہ کیا درست مانا جائے اور کیا نہیں ۔بہت سے بیانات معاشرتی تناظر میں اپنی جگہ فٹ نہیں بیٹھیں گے۔ کئی مقامات پر علوم کی اکثر اصناف کی روشنی میں کھلا تضاد نظر آئیگا ۔ بہت سا مواد ایسا بھی ہوگا کہ قوانینِ فطرت اور انسانی نفس کے پیمانے پر آپ کے سر پر سے گذر جائیگا۔ اور بہت سی دیومالائی فسوں کاری ایسی بھی ہوگی کہ عقل، علم اور انسانی تجربات کی ضد قرار پائے گی اور صرف رعب اور احترام آپ کو چپ رہنے پر مجبور کر دے گا ۔ یہی صورتِ حال آپ عربی تفاسیر کے ہاں بھی پائیں گے جہاں سے ہم اپنی زبان میں مواد کی منتقلی کرتے ہیں ۔ بلکہ حقیقتِ حال یوں ہے کہ ہمارے اردو تراجم قرآن کی عبارات کی راست تفہیم سے نہیں بلکہ انہی عربی تفاسیر کی اتھارٹی کے تحت منقولی منطق اور اندھی تقلید کے انداز پر تیار کیے جاتے ہیں۔
قرآنی پیغام کی ہماری زبان میں منتقلی کے مروجہ طریقِ کارمیں پایا جانے والا یہ بنیادی سقم ہمارا "مقدس ورثہ" ہے۔ اس مقدس ورثے کے تسلسل اور دوام کا ذمہ دار اور نگہبان ہمارا ملّا ئیت کا روز افزوں طاقتور ہوتا پسماندہ اور متشدد گروہ ہے، جس کی معیشت اور اقتدار ہماری ذہنی ارتقاء کی انتہائی پسماندہ صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔ اس لیے کہ اسلامی معاشروں پر 1400 سال سے قابض چلے آ رہے عیاش، سرمایہ دار، ڈکٹیٹر حکمران یہی چاہتے ہیں۔ اور "ملّائیت مافیا" اِنہی گناہ گار اور مجرم قابضین کے ہاتھوں میں موجودسب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ لیکن
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذا ں لا الہ الا اللہ
اللہ کی کتاب صرف پڑھ کر گذر جانے کے لیے نہیں بلکہ اس کی ہدایات سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ صرف صبحِ صادق کے وقت تلاوت کر لینے سے تفہیم کا عمل پیدا نہیں ہوتا جب کہ قرآنی اصطلاح "قرآن الفجر" کا ایک گمراہ کُن ترجمہ کر کے ہمیں بتایا جاتا ہےکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنے سے فہم و ادراک میں اضافہ ہوتا ہے ۔ با ترجمہ پڑھنے والے بھی صرف روایتی تراجم کی بے سرو پا عبارت پڑھ کر گذر جاتے ہیں۔ تفہیم ہی پیدا نہ ہو تو عمل کیسے درست ہو سکتا ہے۔ جب کہ یہ کتاب تدبر ، تفکر اور تعقل کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ یہ بزبانِ خود ایک لازمی اور دائمی انسانی ضابطہِ کردار ہے۔
ہمارے درجِ بالا موضوع کے ضمن میں جو بات آپ کی توجہ کے لیے سامنے لائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن خود کو شکوک، تضادات اور ابہامات سے پاک کتاب قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی بھی دوسرے کی جانب سے آیا ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ۔ یعنی اس کے ارشاداتِ عالیہ میں کہیں بھی تضاد یا اختلاف نہیں پایا جا سکتا۔ لیکن سوال کیا گیا کہ کہ انسان کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں قرآن کے تراجم و تفاسیر میں متضاد بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اور ہم یہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ۔ اور ایسے مقامات پر ایسا کیا اسرار پوشیدہ ہے جو ہمارے فہم سے بالا تر ہے۔
تو آئیے دیکھیں کہ قرآنِ خالص انسانی فطرت اور اِس اشرف المخلوقات کی تخلیق و تشکیل کے بارے میں جو حقائق بیان کرتا ہے، جو ہمارے تراجم و تفاسیر کی رُو سے باہم متضاد و متخالف نظر آتے ہیں، وہ کیسے انتہائی ربط و تسلسل کے ساتھ نہ صرف باہم منطبق ہوتے ہیں بلکہ کیسی حکمتِ عالیہ اور حقیقت ابدی پر مبنی ہیں ۔ اس انکشافِ حقیقت کے لیے ہمیں،،،، ہیئتِ انسانی کی ترکیب کے عناصر ،،،یعنی فلسفہِ ہستی،،،یعنی اسرارِ ذاتِ انسانی،،،،کے وسیع علم پر قدرے روشنی ڈالنی ہوگی ۔ اس عاجز کو امید ہے کہ حقیقی طالبانِ علم اس سفر میں اُس کا پورا پورا ساتھ دیں گے۔
انسان کے کردار کی کجیاں اور کمزوریاں بزبانِ قرآن:
96/6-7: كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ ﴿٦﴾ أَن رَّ‌آهُ اسْتَغْنَىٰ ﴿٧﴾ ہرگز نہیں۔ انسان تو سرکشی کرتا ہے، اس لیے کہ وہ خود کو بے نیاز/خود مختار دیکھتا ہے۔
/28 : ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾ ۔ لیکن انسان کو کچھ کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔
14/34: إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ‌ ۔ بیشک انسان اندھا اور ناشکرا ہے۔
16/4: هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ – بہت کھلا ہوا جھگڑالو ہے۔
17/11: وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا۔ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ 17
/100: وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورً‌ا ۔ اور انسان تنگ دل واقع ہوا ہے۔ 18
/54: ۔ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ‌ شَيْءٍ جَدَلًا ۔ انسان اکثر معاملات میں حجت اور جھگڑا کرتا ہے۔
33/72: إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ۔ بیشک وہ ناپختہ اور لاعلمی کی حالت میں تھا ۔
70/18: وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ / جمع کرتا ہے پھر اسے گرہ باندھ کر رکھ لیتا ہے۔ 70/19: إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ۔ انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے۔
89/20: ۔ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ چاہتا ہے دنیا بھر کی دولت سمٹ کر اس کے پاس آ جائے۔
100/8: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ‌ لَشَدِيدٌ ۔ اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح/شدت سے مبتلا ہے۔
لیکن یہ کیا کہ دوسری جانب اللہ تعالیٰ اس کے برعکس فرماتا ہے کہ :
"فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا ۔" ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ اللہ ہی کی فطرت، مزاج، نیچر ہے جس پر اُس نے انسان کی تخلیق کی ہے!!!!
تو کیا اوپر بیان کی ہوئی انسان کی کمزوریاں، اللہ کے مزاج کی کمزوریاں ہیں؟؟؟۔۔۔۔ نعوذُ باللہ۔۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔۔تو ان کمزوریوں کا ماخذ یا مخرج کیا ہے، اور اللہ کی وہ "فطرت" کیا ہے جو انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے؟ آگے آنے والی سطور میں ہم اس کا شافی و کافی جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلے ہم درجِ بالا عیوب کے تضاد میں موجود انسانی صفات کی حامل قرآنی آیات کو سامنے لے آتے ہیں ۔
انسان کی تشکیل و تخلیق کی تعریف میں آیات :
95/4: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِیم ۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔
17/70: وَلَقَدْ كَرَّ‌مْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ وَرَ‌زَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ‌ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۔ اور ہم نے بنی آدم کو فضیلت اور بزرگی عطا کی، انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں، انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی کثیر مخلوقات پر فوقیت بخشی۔
23/14: ثم انشانہ خلق آخر ۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا۔
32/9: ثم سواہ و نفخَ فیہ من روحہ ۔ پھر اس نے اسے نک سک سے درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی ۔
اور اب لا محالہ ہم سبھی کے ذہن میں یہ سوال اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ آخریہ تضاد کیوں؟
۔۔۔ انسان کو خود اپنی فطرت پر بنایا ،
۔۔۔ انسان کو احسن تقویم پر تخلیق کیا،
۔۔۔ انسان کو عزت و تکریم کا حامل بنایا، تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی، خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں ،
۔۔۔ عام جاندار سے علیحدہ ایک چیزے دیگر بنایا اور پھر،،،،سب سے بڑا مقام یہ دیا کہ،،،،،،
۔۔۔ اُس میں خود اپنی "روح" پھونک دی !!!
اس کے بعد پھر اُس میں یہ تمام برائیاں کہاں سے آئیں جن کا بیان اوپر مختلف آیات کے ذریعے کیا گیا ؟؟؟ ان تضادات کا کیا قرین عقل اور علمی جواز ہے؟
انسان کے باطن میں دو مختلف عناصر
دراصل آیات -۱۱ ۹۱/۷ میں اللہ تعالیِ نے اس الجھن کو نہایت چابکدستی سے یہ فرما کر دور کر دیا ہے کہ ہم نے نفس انسانی کو دو مختلف و متضاد عناصر کا مجموعہ بنا کر تخلیق کیا ہے۔ملاحظہ فرماءیں:-
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
""اور انسانی نفس اور جس انداز سے اس کی تشکیل کی گئی ہے وہ اسطرح ہے کہ ان میں ذات کے انتشار اورتخریب کاعنصر اور پرہیزگاری کے ذریعے تحفظ کا عنصر دونوں ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ پس جس نے ذات کو تحفظ دے کر نشوونما دے لی وہ کامیاب ہوا، اور جس نے اس کی صلاحیتوں کو کچل دیا وہ برباد ہوا ""۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں عناصر میں سے ایک انسان کا مادی حیوانی پیکر ہے جو حیوانی جبلتوں کا تابع رہتا ہے ۔ دوسرا اس کا غیر مادی شعوری پیکر ہے جو اللہ تعالی کی روح یعنی صفاتِ عالیہ کا مخزن ہے اور اس لیے سیرت و کردار کی اعلی ترین اقدار کا حامل ہے ۔ اوپر بیان کی گئی تمام برائیاں اور نقائص انسان کے حیوانی وجود سے تعلق رکھتے ہیں اور بے شک جس انسان میں اس کی حیوانی خواہشات غالب رہتی ہیں وہ ان تمام نقائص کا مجموعہ ہی ہوا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اوپر بیان کی گئی تمام صفات انسان کے اعلی شعوری وجود سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ وہی ہیں جو انسان کی موت کے بعد اس کے غیر مادی وجود کے ساتھ آخری دورِ حیات، یعنی آخرت میں اس کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوں گی ۔ جو انسان اپنے شعوری وجود کی اقدار کو جتنا زیادہ زندہ رکھے گا اور انہیں مادی وجود کی جبلتوں پر غالب کر لے گا، وہ آخرت میں کامیابی اور سرخروئی کا مستحق ہوگا، کیونکہ ا س مادی زندگی میں ایسے طرزِ عمل کو اختیار کر لینے سے اس کی اندرونی ذات کی تکمیل ہوتی چلی جائیگی۔
دراصل انسان ایک حیوانی وجود اور ایک شعوری ذات ، یعنی دو عناصر کا ایک پُر حکمت امتزاج ہے ۔ حیوانی وجود جو تمام حیوانی جبلتوں کا تابع ہے ، دماغ سے حسیات کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے ۔ جب کہ اس کی شعوری ذات اُس شعورِ مطلق کی اپنی خصوصیات کا اظہار ہے جو اس کی ودیعت کردہ تمام صفات و اقدار کا خزینہ ہے، ایک غیر مادی وجود رکھتا ہے اور اپنے ذہنی یا شعوری جسم میں رہتا ہے جو غیر مرئی ہے۔ اسے ہی عرفِ عام میں روح، یا روحانی زندگی کہا جاتا ہے ۔
درحقیقت انسان کی تخلیق کا مرحلہ اپنی اہمیت میں تخلیق کے تمام موجود مراحل پر فوقیت رکھتاہے ۔ اس لیے کہ انسان کی تخلیق دراصل تخلیق کی دو انتہاؤں کا مرحلہ ہے۔ یعنی مادی زندگی کی تخلیق کا ایک انتہائی مرحلہ، جو ٹھوس مادی اور مرئی کیفیت رکھتا ہے، انسان کے حیوانی وجود تک پہنچ کر اپنی انتہاء کو حاصل کر لیتا ہے۔ اور شعوری مراحلِ تخلیق [degrees of Consciousness] کا اب تک کا انتہائی مرحلہ بھی انسان کے اندر موجود شعورِ ذات، یا خود آگاہی [self-consciousness] کے احساس کی صورت میں اپنی پختگی اور بلوغت کو پہنچ جاتا ہے کیونکہ خود آگہی دراصل اپنے خالق کی آگہی ہوتی ہے۔ یہ وہ اہم ترین مرحلہ ہے جہاں انسان کے مادی اور روحانی عناصر کا باہم مسلسل ٹکراو پایا جاتا ہے ، اور اس کشمکش کو قائم رکھنے کے لیے ہی مادی اور روحانی دونوں کیفیات ایک عظیم حکمت کے تحت ایک مخصوص سطح پر یکجا کر دی گئی ہیں ۔یہ وہ کشمکش ہے جو انسانی زندگی کو ایک امتحان گاہ کی شکل دیتی ہے، جس کے ذریعے شعورِ ذات کا ارتقاء بنیادی مقصد ہے تاکہ فائنل مرحلے میں ارتقاء یافتہ ذاتیں مزید ناقابلِ یقین ارتقاء کےشعوری یا روحانی سفر پر روانہ ہوجائیں اور بالآخراپنے خالق کے متعین کردہ مقصدِ تخلیق کو پورا کرتے ہوئے سامنے لے آئیں۔
یاد رہے کہ اسی مرحلے میں مادی وجود طبیعی موت کے ذریعے بتدریج نسلِ انسانی سے ختم کر دیا جاتا ہے اور خالص غیر مادی اور غیر مرئی شعوری ذات آئندہ کے آخری مرحلہِ حیات میں اپنی منتقلی اور نمود کا انتظار کرتی ہے۔ ۔ آنیوالہ مرحلہ وہ چھٹا مرحلہِ تخلیق ہوگا جہاں انسان اپنی ہیئت، اوصاف اور صلاحیتوں میں خود اپنے خالق کے قریب تر پہنچ جائیگا ، تسخیرِ کائنات کا کارنامہ انجام دے گا اور خالق کے آئیڈیل کی صورت میں خود کو بارز کرتا ہوا اپنی تخلیق کے مقصد اور نصب العین کو پورا کرے گا ۔ لیکن معدودے چند انسان ہوں گے جو اِس منصب و مقام کو حاصل کر سکیں گے۔
فلہذا انسان کے وہ تمام عیوب جو اوپر گنوائے گئے وہ اس کےمادی حیوانی وجود کی خصوصیات ہیں جن کا بالکل درست تعین کیا گیا ہے۔ اور بعد ازاں وہ تمام محاسن جو اس کے حق میں بیان کیے گئے وہ اس کی حقیقی زندگی، یعنی اس کی شعوری غیر مادی ذات کی خصوصیات ہیں جو اُسی طرح بالکل درستگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔یہاں کوئی ابہام یا تضاد نہیں پایا جاتا۔ یہ کتاب ہستی ہے، یعنی انسانی ذات کی تشکیل و ماہیت کا علم۔ کتاب ہستی کا بغور مطالعہ کیے بغیر قرآن کو کما حقہ سمجھا نہیں جا سکتا ۔ اسی لیے ہمارے وہ نام نہاد سکالرز حضرات جو مذہبی پیشوائیت کے ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کی تفہیم کے لیے حدیث و فقہ کی بیساکھیاں استعمال کرتے ہیں اس میں تضادات یا معجزات کے علاوہ کچھ بھی قرینِ عقل دریافت نہیں کر پاتے، اور پھر یہی مبہم مواد تبلیغ کے نام پر ایک بہت زیادہ دانشمند دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ یہ ہمارے وہی نادان روایتی سکالرز ہیں جن کی کم علمی ، محدود مطالعہ اور پست ذہنی سطح کے باعث آج دین ِ حق ایک انتہائی سائنٹیفک دنیا کے ہاتھوں مضحکہ آرائی، تمسخر اور استرداد کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ قرآن کے فہم میں دوسری انتہائی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ کتابِ تخلیق کے علم پر بھی مکمل دسترس حاصل ہو ۔ کتابِ ہستی یعنی اسرارِ ذات ،،،اور کتابِ تخلیق، یعنی خالق کے پورے تخلیقی پلان کا علم جدید سائنسز اور صحائف کی روشنی میں حاصل کیے بغیر قرآن فہمی کا میدان ایک آسان، ہموار اور کھلا ہوا راستہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مرحلہِ تخلیق کی موجودہ انسانی صورتِ حال میں ایک ہی مخلوق کے اندر دو مختلف اور متضاد ذاتیں ، یعنی مادی حیوانی ذات اور غیر مادی و غیر مرئی شعوری ذات، اپنی بالغ و خود مختار کیفیت میں کیوں اکٹھا کی گئیں اور ان کے پیچھے پوشیدہ مقصد کیا تھا اور کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے؟ یہ تخالف اور تضاد جو انسان کے اندر ایک دائمی کشمکش کا موجب ہے آخر کیا حکمت رکھتا ہے؟
دنیا انسانی زندگی کے لیےایک امتحان گاہ :
اگر آپ کے سامنے خالق کا پورا تخلیقی پلان موجود ہے ، جو اُسی کے فرمان کے مطابق چھ مراحل پر مشتمل ہے، تو جواب نہایت آسان ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطور میں اشارہ دے دیا گیا ہے، صحائف میں بیان کردہ الہامی فرمودات کے مطابق دنیاوی زندگی ایک امتحان گاہ ہے۔ اور امتحان وہیں ہو سکتا ہے جہاں متخالف اور متضاد قوتیں سامنے لاتے ہوئے ایک امتحانی کیفیت پیدا کی جائے اور اس امتحان میں ڈال کر انسان کی منفی اور مثبت صلاحیتوں او رمختلف النوع ترغیبات کے مقابلے میں نفسِ شعوری کی اصلاحی کوششوں کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ لیا جائے۔اور یہ دیکھا جائے کہ آیا شعوری اقدار اس کے عمومی کردار پر غلبہ پا لیتی ہیں، یا حیوانی جبلتیں زور مارتی ہوئی ، اعلی شعوری اقدار کو شکست دے دیتی ہیں۔ نیز ایک کڑے احتساب کے بعد، تمام عیوب و محاسن کو ایک میزان کی کیفیت میں تولا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کونسا پلڑا ہلکا ہے اور کون سا بھاری۔ اور پھر ان نتائج کی روشنی میں حیاتِ آخرت میں انسان کے درجے کا تعین خالص اُس کے اپنے اعمال پر، جو اُس نے کامل خود مختاری کے ساتھ انجام دیے ہوں، کیا جا سکے۔
ذیل میں دیکھیے کہ ہمارا خالق و مالک اس کشمکش سے بھرپور امتحان گاہ کی تصدیق و تثبیت لفظ "بلاء" کے مختلف مشتقات کے استعمال کے ساتھ کن شاندار الفاظ اور کس اعلی ادبی پیرایے میں فرماتا ہے - وہ واضح طور پر فرماتا ہے کہ حیات و موت کا دائرہ یا گردش ڈیزائن ہی اس لیے کی گئی ہے کہ تمہیں ابتلاوں میں ڈال کر تمہاری ارتقائے ذات کو مہمیز کیا جائے تاکہ تم حیاتِ آخرت میں بلند درجات حاصل کر سکو ۔ اس تھیوری کے ثبوت کے لیے چند الہامی نصوص پیشِ خدمت ہیں :-
[۶۷/۲] الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
"وہی تو ہے جس نے یہ زندگی، یعنی موت و حیات کا یہ سائیکل اس لیے تخلیق فرمایا کہ تم میں ہر ایک کوآزمائشوں سے گزارتے ہوئے، حسین اعمال کے ذریعے اپنی نشوونمائے ذات کے مواقع فراہم کیے جائیں۔"
2/155: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَ‌اتِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٥﴾
اور ہم تمہیں مختلف امور میں ضرور اس طرح آزمائیں گےکہ تمہیں خوف، بھوک لاحق کردیں اور مال و متاع ، جانوں اور کوششوں کے متوقع نتائج میں کمی کا شکار کردیں۔ اور اس صورت حال میں استقامت دکھانے والوں کو خوش خبریوں کی نوید دے دی جائے۔
5/48 : وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی قومی وحدت عطا کر دیتا لیکن وہ تمہیں وہ کچھ دیتا ہے کہ جس سے وہ تمہیں آزما کر ارتقائے ذات کے مواقع دیتا رہے۔
6/165: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْ‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ
اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر با اختیار جانشین بنایا اور تم میں بعض کو بعض پر برتری کے مقامات پر بلند کیا تاکہ اپنی اس عطا کی بنیاد پر تمہیں ابتلاوں میں ڈال کر ارتقائے ذات کے مواقع عطا کر دے۔
7/163: كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿١٦٣﴾
اور جس طرح کی فاسقانہ روش وہ اختیار کرتے ہیں اس کے ذریعے بھی ہم ان کی آزمائش کرتے ہیں۔
21/35: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ‌ وَالْخَيْرِ‌ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْ‌جَعُونَ ﴿٣٥﴾
ہر نفس نے موت کا زائقہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں نیکی اور بدی کے ساتھ ایک بھٹی سے گذارتے ہوئے ارتقائے ذات کے مواقع دیتے ہیں کیونکہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔
47/31: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِ‌ينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَ‌كُمْ
اور تمہیں ابتلاوں کے ذریعے ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہیں تاکہ ہمیں یہ علم ہو جائے کہ تم میں سے جدو جہد کرنے والے اور استقامت رکھنے والے کون ہیں۔ اور پھر ہم تمہارے حالات کی جانچ کریں۔
یعنی انسان نامی مخلوق اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ آزادی سے متصف فرما کر پیدا کی جس کے ذریعے ایک طرف تو حضرتِ انسان اشرف تخلیق اور خلیفہ کے درجے پر فائز ہوا، اور دوسری طرف فکر و عمل و فیصلےمیں خود مختار ہو کر پروگرامڈ جبلتوں کا تابعِ مہمل نہ رہا ۔ اسی لیے ہم اسے بیک وقت دو انتہاءوں کے درمیان عمل پذیر پاتے ہیں ۔ انتہائی شیطنیت اور انتہائی رحمت و موءدت ۔
خیر و شر کی جنگ دراصل شیطان اور رحمان کی جنگ نہیں بلکہ انہی دو مذکورہ عناصر کی آپس میں اپنے اپنے غلبے کے لیے جاری جنگ ہے ۔ جہاں حیوانی وجود کے طبیعی تقاضے غالب آ جائیں وہاں شر غالب آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب شعوری وجود کی اعلیٰ صفات و اقدار غالب آ جائیں تو خیر، امن و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔
دونوں عناصر کو اس ناچیز نے ایک "پُر حکمت" امتزاج یو ں کہا کہ یہی تو وہ امتحان ہے جو انسان کو جہدِ مسلسل پر اکساتا ہے اور اسے ارتقائے ذات کے مواقع فراہم کر کے اسے آئندہ برتر مرحلہِ زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ یعنی اس مادی دنیا کے آشوب اور طبعی وسائل کی ظالمانہ لوٹ مار کے اندھیروں میں جو بھی انسان قومی یا انفرادی طور پر اپنی شعوری ذات کی پرورش کر پاتا ہے اور بدی کی طاقتوں سے برسرِ پیکار رہ کر روحانی قوت کی افزائش کر لیتا ہے ، اس کے لیے اگلے برتر مرحلے میں صعود ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کی موجودہ زندگی کا سائیکل اسے یہ مواقع دیتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی موروثی صفات کی نمو دکر سکے۔
آخر کب تک ؟
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آخریہ جاری کشت و خون کے سلسلے کب تک؟ تو میرے عزیز بھائیو، ابھی انسانی کارواں کی آبلہ پائی کا اختتام دُور تک نظر نہیں آتا۔ انسانی تاریخ اور موجودہ برسرِ زمین حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ابھی خون کے اور بہت سے دریا پار کرنے ہوں گے۔ یاد کریں کہ جب محاکاتی انداز میں بات کی تشریح کرتے ہوئے ہمارے خالق نے ملائکہ کے ساتھ اپنے مکالمہ کو ذیل کے انداز میں پیش کیا تو وہ ذاتِ پاک ہمیں اپنی تخلیقی فارمولے کی کس حقیقت سے روشناس کرنا چاہتا تھا :-
آیتِ مبارکہ ۲/۳۰ : وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
"اور یاد کرو وہ وقت جب تمہارے پروردگار نے "کائناتی قوتوں" کو بتایا کہ میں زمین پر اپنا اختیار رکھنے والا جانشین پیدا کر رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا آپ وہاں ایک اختیار والی ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو وہاں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی ۔ جبکہ ہم تو صرف آپ کی حمد کے لیے ہمہ وقت وظائف ادا کرتے ہیں اور آپ کی کبریائی کے کام کرتے ہیں۔ پروردگار نے جواب دیا کہ درحقیقت اس خلیفہ کی تخلیق میں جو حکمت پوشیدہ ہے اس کا تم علم نہیں رکھتے ۔ وہ صرف میں ہی جانتا ہوں"۔
یہاں بات بالکل صاف ہو گئی کہ فساد اور خوں ریزی تو اس فارمولے کی حقیقت تھی ۔ البتہ اس کی حکمت خود خالق ہی کے ضمیر پر روشن تھی۔ اسی لیے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پس ثابت ہوا کہ انسان کی منزلِ مقصود ابھی بہت دور ، اور بہت سے خون کے دریاوں کے اُس پار واقع ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ :
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر"۔
توو ہی صورتِ حال ہمیں درپیش ہے۔ حضرتِ انسان ابھی اپنی ارتقائی منازل یعنی اپنی شعوری ذات کی تکمیل کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہے ۔ ابھی اس کے آئیڈیل نہایت کمتر سطح کی حیثیت کے حامل ہیں۔ یعنی ابھی تو صرف مادی وسائل اور طبیعی زندگی کے عیش، آرام اور فراوانی اس کا مقصودِ نظر ہے۔جس کی خاطر وہ فساد پیدا کرتا اور خون بہاتا ہے ۔ جب انسان بالآخر صفاتِ باری تعالیٰ کو اپنا آئیڈیل بنا لے گا اور اپنے اندرون سے ان صفاتِ عالیہ کی نمود و اظہار کی ابتدا کرے گا تو تبھی یہ دنیا اور انسانی زندگی امن و شانتی کی فصلِ بہار کا نظارہ کر سکے گی۔ اقبال نے اسی صورتِ حال کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی بصیرتِ قرآنی سے کیسا انکشافِ حقیقت فرمایا تھا جب کہا کہ :-
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ اذل تیرا نقش ہے نا تمام ابھی
امید واثق ہے کہ اس مختصر بیانیے میں ایک بہت ہی اہم قضیے پر تحقیق کرتے ہوئے قرآن کے بہت سے مفروضہ تضادات کو الہامی فرمودات کی روشنی میں غلط ثابت کرتے ہوئے دور کر دیا گیا ہے۔ اورپوری توقع کرتا ہوں کہ سمجھ کر پڑھنے والے ان سطور سے اطمینانِ قلب و ذہن کی دولت پا لینے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کریں گے۔