اورنگزیب یوسفزئی جون 2015
قرآن کےسلسلہ وار "موضوعاتی" تراجم کی قسط نمبر (22)
حضرت موسیٰ کا تربیتی سفر، حضرت خضر کی ہمراہی، ذو القرنین کے کارنامے
سورۃ الکہف سے ماخوذ(آیات 60 سے 99)
قرآنِ کریم کے موضوعاتی تراجم کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان تراجم کی اساس اور کسوٹی عقلیت پر مبنی جدید ترین علوم ، اور انسان کے شعوری ارتقاء کی موجودہ بلند ترین سطح کو ٹھہرایا گیا ہے۔ عہدِ ملوکیت کے تحت ،ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا مقصد رکھنے والی قرآنِ حکیم کی وضع کردہ قدیم و جدید تفاسیر۔۔۔۔۔۔جو حقیقی دین اللہ کی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کی منہ بولتی تصویروں کا روپ پیش کرتی ہیں۔۔۔۔۔ اور ان تفاسیر کے تابع تیار کردہ وہ تمام تراجم ----جو اسلام کے ماتھے پر داغِ تذلیل سجانے کا سامان رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ان میں ملاوٹ کردہ توہمات، اسرار و افسانے اور دیگر تمام غیر منطقی عناصر کی مکمل تطہیر کی سمت میں خالص غیر جانب دارانہ اور مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات کے اُس مجموعی آفاقی پیغام سے، جو کہ فقط ایک اعلیٰ انسانی قدروں پر مبنی سیرت و کردار کی تعمیر کا نقیب ہے، ایک حقیقی مطابقت قائم رکھنے کو راس المال ٹھہرایا گیا ہے۔ کیونکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بند عامیانہ لفظی تراجم کرنے کی سدا سے رائج بدعت نے قرآن کے ادبِ عالی پر مبنی متون کی شکل و صورت ایک ایسے وسیع پیمانے پر بگاڑ دی ہے کہ اسے تعلیم یافتہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیشہ معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے،،، اور اس کے جواز کے لیے متعدد غیر عقلی تاویلات پیش کرنا پڑتی ہیں،،، اس لیے اس قدیم زمانے سے رائج سازشانہ غیر علمی معیار و غیر ادبی طریقِ کار کے استعمال کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
اس مرتبہ تین یکے بعد دیگرے وارد ہونے والے اہم موضوعات پر ارتکاز کیا گیا ہے جن کے آج تک دستیاب تمام تراجم و تشریحات زمینی حقائق پر پورے نہیں اُترتے اور اس سبب سے وہ قرآن میں واقع "ناقابلِ فہم" مضامین میں شامل کیے جاتے ہیں ۔ وہ موضوعات درجِ ذیل ہیں :-
اولا"، "حضرتِ موسیٰ کی ایک سفری مہم کی روداد"، ،،،
ثانیا"، اسی سفر کے دوران "ایک برگزیدہ شخصیت کی معیت ، اور اس معیت میں پیش آنے والے کچھ واقعات کے ذریعے حصولِ علم"،،،،
اور ثالثاّ"، "ایک افسانوی تاریخی شخصیت، ذی القرنین" کے کچھ کارنامے، جن کی ذیل میں یاجوج و ماجوج کا حوالہ بھی سامنے آتا ہے۔
عمومی دستیاب تراجم میں محیر العقول واقعات کا ذکر
دستیاب روایتی تفاسیر و تراجم بلا استثناء حضرت موسیٰ کے کسی بے مقصد اور ناقابلِ فہم زمینی سفر کا بیان رقم کرتے ہیں ۔ایک نامعلوم نوجوان کا ساتھ۔ کسی غیر معلوم مقام پر دو دریاؤں یا سمندروں کے ملاپ کا ذکر(مجمع البحرین) ۔ سفر کے دوران کسی "مچھلی"(حوت) کا کہیں پیچھے بھول آنا ۔ یہ سوچنا کہ مچھلی کو بھول جانے کے عمل کا ارتکاب شیطان نےکروایا تھا۔ "ناشتہ " طلب کرنا۔ اسی مچھلی کا پانی میں واپس لوٹ جانا، گویا کہ وہ زندہ ہو گئی ہو۔ حضرت موسیٰ کا ناقابلِ فہم انداز میں یہ کہنا کہ یہی تو ہم چاہتے تھے؟ بعد ازاں اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کا راہ میں ہمسفر ہو جانا۔ اس بندے کو ایک افسانوی کردار، حضرتِ خضر علیہ السلام قرار دیا جانا۔ پھر اسی کردار کے ہاتھوں چند غیر معمولی اعمال کا بلا جوازسرانجام پانا ۔ حضرت موسیٰ کا احتجاج کرنا اور حضرتِ خضر کا بار بار انہیں ساتھ چھوڑ دینے کا انتباہ کرنا ۔ بالآخر دونوں حضرات کا جدا ہو جانےکا فیصلہ کرلینا اور حضرت خضر کا اپنے انہی خاص اعمال کی تاویل پیش کرنا ۔ اس کے فورا ہی بعد ایک دیگر موضوع کے تحت ذو القرنین اور اس کے کردار اور کارناموں کا ذکر ۔ذو القرنین کا "سورج کے غروب ہونے کے مقام" تک سفر۔ اسی طرح اس کا "سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک" پہنچ جانے کا ذکر۔ کسی مفسد قوم ، یاجوج و ماجوج، کا ذو القرنین کی مدد سے سدّ باب۔ ایک مفروضہ ، پگھلی ہوئی دھات پر مبنی، دو پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی، رکاوٹی دیوار کی احمقانہ تیاری کا اجمالی ذکر۔
عیسائی ماخذات اور تاریخی پسِ منظر
سورۃ کہف ہی میں واقع "اصحابِ کہف" کے واقعہ کی مانند ۔۔۔۔۔۔جو کسی غار میں "سونے والوں " کی عیسائیت کے لٹریچر سے درآمد شدہ معجزاتی کہانی کی وضاحت کرتاہے، (سورۃ کے اس حصے کا قرینِ عقل، ادبی و علمی ترجمہ، تراجم کے اس سلسلے کی قسط نمبر 21 کے تحت جاری کر دیا گیا ہے جس کا انٹرنیٹ پر لنک یہ ہے :- http://ebooks.rahnuma.org/cgi-bin/shbkpage.pl?bkid=1431171397 ) ۔۔۔۔۔۔ "ذو القرنین" کا واقع بھی اپنا ماخذ عیسائیت کے مذہبی لٹریچر ہی میں رکھتا ہے ۔ یاجوج و ماجوج کا بائبل میں مندرج حوالہ (Gog and Magog) بھی اسی ذو القرنین کی کہانی سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی ماخذ سے مشتق ، ذوالقرنین کے بارے میں تاریخی تناظر کے ساتھ بہت سی عیسائی روایاتی کہانیاں ، کچھ نہ کچھ اختلافِ متن کے ساتھ نبیِ پاک ﷺ کی اسلامی تحریک کی جدوجہد کے دوران مشہورِ عام تھیں ۔ جس انداز میں حضور ﷺکے علم کا امتحان لینے کے لیے یہود و نصاریٰ نے اصحابِ کہف کے بارے میں بحیثیتِ نبی آپ کی معلومات کو جانچنے کی کوشش کی تھی، اسی کی مانند وہ ذو القرنین کے بارے میں پھیلی ہوئی مذہبی کہانیوں پر بھی حضور کے علم کو آزمانا چاہتے تھے اور سوالات کیا کرتے تھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس ضمن میں باخبر کرنے کے لیے چند موٹے موٹے حقائق سے آگاہ کر دیا جو بعد ازاں اہلِ کتاب کے سامنے بیان کر کے ان کی تسلی و تشفی کر دی گئی ۔ بیشتر مسلم مفسرین و مورخین نے بھی، ایک قرینِ عقل ترجمہ کرنے کی بجائے، انہی عیسائی مذہبی کہانیوں سے متاثر ہو کرقرآن میں ذو القرنین کے ذکر کو یونانی فاتح سکندر اعظم سے منسوب قرار دے دیا ۔ لیکن اسے سکندر اعظم قرار دینے میں سب سے بڑی قباحت یہ پیش آتی رہی کہ قرآن ِ حکیم میں ذو القرنین کو خدائے واحد کا ماننے والا ایک صالح بندہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جب کہ سکندر یونانی تو حتمی طور پر دیوتاؤں پر ایمان رکھتا تھا ۔ اسی عدم تطابق کے پیش نظر کچھ مسلم مفسرین نے مسئلے کا حل یہ دریافت یا ایجاد کیا کہ یہ ذکر سکندر یونانی سے متعلق باور نہ کیا جائے، بلکہ اسے قدیم ایرانی شہنشاہ سائرسِ اعظم کی جانب اشارہ قرار دے دیا جائے۔ یہ وہ سائرسِ اعظم ہے جس کی رحم دلی کے باوصف یہودی قوم کو یروشلم سے Nebuchadnezzar II of Babylon) ) شاہ نبوکد نضار، یا "بو نصر"کے ہاتھوں ملی چھٹی صدی قبل مسیح کی عظیم تاریخی جلا وطنی (Jewish Diaspora) کے عذاب سے نجات حاصل ہوئی تھی، اور جس نے انہیں عرا ق (بابل) سے یروشلم لوٹ جانے کے لیے آزادی اور آسانیاں فراہم کی تھیں۔ بہر حال قرآن میں بیان کردہ یہ واقعہ، کسی نہایت با وسائل اور صاحبِ ایمان بادشاہ ، جس کا نام قرآن نے مروجہ روایات کے عین مطابق"ذو القرنین" ہی درج کیا ہے، کے علاوہ کسی بھی دیگر کردار کی جانب کوئی راہنمائی نہیں کرتا۔ عمومی طور پر ذو القرنین کو قدیم عیسائی لٹریچر میں "دو سینگوں والا"(The Two-horned One) کہا جاتا ہے، جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ بادشاہ ایسا تاج سر پر پہنتا تھا جس میں دو سینگ بنے ہوئے تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت موسیٰ کے سفر کے دوران ساتھ دینے والے نوجوان کا نام عیسائی لٹریچر میں Joshua یعنی "یوشع بن نون" بتا یا گیا ہے ۔ یہ وہ مسلّمہ تاریخی کردار ہے جو حضرت موسیٰ کا نائب تھا اور آپ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کا لیڈر اور سپہ سالار بنا ۔
استعاراتی تراجم کی کوششیں
ہم یہاں روایتی تراجم کو تو زیر بحث لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے کیوں کہ اُن تراجم کی رُو سےتو قرآن کا مافی الضمیر آج کے دن تک روشن نہیں ہو پایا ۔جبکہ قرآن رمز و ایمائیت سے بھرپور ایک ایسا اختصار نویسی کا شاہکار ہے جو اپنے اختصار کے پردے میں بھی الہامی حکمت اور معنی و بیان کے مفصل اور بے حد و نہایت خزانوں سے بھرا پڑا ہے۔روایتی لفظی تراجم کا انداز تو بدنیتی پر مبنی نادانی، کم فہمی اور کوتاہ اندیشی کاایک کھیل ہے جو کبھی وہم و گمان میں بھی قرآنی حکمت کے خزانوں تک پہنچ جانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ یوں بھی آج کے مصروف دور میں تحریروں کے سلسلے میں طوا لت سے گریز کرنا ایک بہتر روش سمجھی جاتی ہے ۔
تاہم عہدِ جدید کے کچھ مترجمین کی کوششوں پر کچھ نہ کچھ روشنی ڈالنا نہایت اہم سمجھا گیا ہے ۔ ان فاضل مترجمین نے زیرِ بحث عربی متون کا مفہوم اور ربط و تسلسل اپنے حیطہِ فہم و ادراک میں نہ آ سکنے کے باعث ان کا استعاراتی یا مجازی مفہوم متعارف کرانے کی اپنی اپنی کوششیں کی ہیں۔ لاہور کے ایک حال ہی میں مرحوم ہو جانے والے نامور عالمِ قرآن کے نظریات سے متاثر ہونے والے انہی کے شاگردوں میں سے ایک گروپ نے ،انہی کوششوں کے تحت ، حضرت موسیٰ کے ذکر کو "حضرت موسیٰ کی قوم" کےذکر سے تعبیر کیا ہے ۔ اسی مفروضہ تھیوری کی تطبیق میں اُن کے سفر کو ،،، "اُن کی یہودی تہذیب کا عصری سفر"،،، تعبیر کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ جو بتدریج عیسائی تہذیب کے منصہِ شہود پر آجانے کے زمانے کی جانب طے کیا گیا۔ مچھلی (حوت) کی بھی تمثیلی و استعاراتی تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضرت خضر باور کیے جانے والے بزرگ سے ملاقات کوموسوی تہذیب کا غالب طور پر عیسائی تہذیب سے، بلکہ بعض مواقع پر حضرت محمدﷺ سے ملاپ یا ملاقات تصور کیا گیا ۔ بالآخر ذو القرنین کے ایک یکسر مختلف موضوع کو اسی کہانی کے تسلسل سے بلا جواز جوڑتے ہوئے، اُس کی شخصیت کو بھی ، دُور از کار قیاس آرائیاں کرتے ہوئے،حضرت محمدﷺ کی شخصیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی حضرت محمد کے دور میں پہنچ جانے پر سابقہ دونوں مذہبی گروپس کو، یعنی یہودی و عیسائی تہذیبوں کو، سورۃ کہف کے اس متن کے حوالے سے، ایک طول طویل عصری سفر کے تناظر میں اسلامی تہذیب میں مدغم کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نوعیت کی علامتی یا تمثیلی تعبیرات کی رُو سے، مذکورہ موقر عالمِ قرآن کے نظریات کی مطابقت میں لاہور کے اس ذیلی مکتب نے "ذو القرنین" کا معنی دو قرنوں، یا دو زمانوں اور تہذیبوں کو ملانے والا ، یعنی رسالتمآب ﷺ کی شخصیت کو قرار دیا ہے۔
اس نوعیت کا جوڑ توڑ ایجاد و اختراع کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر حضرتِ خضر اور ذوالقرنین ، دونوں مجازی شخصیات سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد، یا صرف حضرت محمدﷺ بذاتِ خود ہی ہوتے، تو پھر آپ رسالتمآب کا اپنے ہی بارے میں مذکور ان تاریخی واقعات سے لاعلم ہونا،،،، اور اللہ تعالیٰ کا اُنہیں پہلی بار اس موضوع پر معلومات بہم پہنچانا،،،،، کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے ؟؟؟ نیز، انہیں خود ذو القرنین ہوتے ہوئے بھی، ذو القرنین ہی کے بارے میں ایک غائب کے صیغے میں (as a third person) اسے ایک غیر شخصیت مانتے ہوئے، لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے کچھ معلومات سے آراستہ کیوں کیا جاتا؟؟؟ یعنی خودماضی کے واقعے کے ایک کردار (ذو القرنین) کو قدیمی صحیفے سے نکال کر موجودہ زمانے میں موجود ایک شخصیت کی شکل میں بارز کرنا ،،،،،،اور اُس شخصیت کو اُسی کی ذات کے بارے میں ماضی کی کچھ کہانیاں سنانا،،،،، تاکہ وہ سوالات کرنے والوں کو جواب دے سکے،،،،، اس سارے طریق کار میں عقل و خرد کا دخل کہاں سے پایا جائے گا؟ ؟؟ یہ بھی بڑا سوال ان فاضل مترجمین کے اذہان میں نہ اُبھرا کہ قرآن میں خود حضور ﷺ سے، سوالات کے جواب میں، یہ کیوں نہ کہلوایا گیا کہ "وہ ذو القرنین تو خود میں ہی ہوں" اور یہ "میرا ہی ذکر ہے" ؟؟؟؟ ظاہر ہے کہ حقیقتِ حال ایسی ہرگز نہ تھی۔اور فقط اندھیرے میں بلا جواز ایک بے تُکا تیر چلایا گیا ۔
قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ کے اس امکانی تحصیل علم کے تجرباتی سفر کو،،،، خواہ مخواہ پوری یہودی تہذیب کا "عصری سفر" ،،،،قرار دینے کی آخر ضرورت کیا تھی، جبکہ حضرت موسیٰ نے توقرآن کی رُو سے واقعی خود کو علم و عرفان کے سفروں کی بھٹی سے گذارا، اور ایک بیش قیمت تجربات و کار ہائے نمایاں سے بھرپور زندگی بسر کی ۔ اور اس کا حتمی ثبوت خود قرآن نے بزبانِ متکلم حضرت موسیٰ سے یہ کہ کر پیش کر دیا کہ :
(20/40) وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴿٤٠﴾ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي
"ہم نے تمہیں بہت سے امتحانوں کی بھٹی سے گذارا۔ بعد ازاں تم نے زندگی کے بہت سے برس مَدیَن کےخطے کے لوگوں کے درمیان بھی بسر کیے ۔ اِِن تمام تربیاتی مہمات کے بعد ہی ، اے موسیٰ، تم ہمارے پیمانے پر پورے اُترے ۔ پس پھر ہم نے تمہیں خاص اپنی خدمات کے لیے چن لیا "۔
راقم الحروف تو ، درجِ بالا قرآنی سند کی روشنی میں، صرف اسی ایک تجزیے تک پہنچ سکتا ہے کہ یہ فاضل مترجمین قرآن کی مجموعی تعلیم کے تناظر کو سامنے نہ رکھ سکنے کے باعث اُس کے متون کا ایک قرار واقعی اور مکمل نمائندگی کرنے والا ترجمہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ ۔۔لہٰذا اُن کی اس کمزوری نے، انہیں ایک انتہائی دور از کار مجازی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اور اس تحقیقی کام کے دوران وہ اپنے اس انداز کے خلاف موجود قرآنی ثبوتوں اور حقائق کا خاطر خواہ احاطہ نہ کر سکے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ ایک مجازی یا استعاراتی ترجمے کو بھی ہر حال میں قرآن کے الفاظ سے ایک انتہائی اصولی سختی کے ساتھ وابستہ و پیوستہ رہنا ضروری ہے۔
ایک اور تمثیلی بیانیہ حضرت موسیٰ کے سفر کو ان کی قبل از نبوت، روحانی یا "باطنی" تعلیم و تربیت کا سفر قرار دیتا ہے، جہاں انہیں ایک مرشدِ کامل کی ضرورت پڑنے پر حضرتِ خضر علیہ السلام سے ملا دیا جاتا ہے۔ پھر جو بھی حوادث وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ سب ان کی روحانی تربیت کے ضمن میں مختلف مراحل تصور کیے جاتے ہیں ۔ کشتی میں سوراخ کر دیا جانا دراصل شاگرد کے دل میں اپنے استاد کی عظمت کا اُتر جانا ہے ۔ ظالم حاکم جو کشتیاں ضبط کر لیتا ہے ، دراصل شیطان ہے جو روحانیت کا سفر میں رکاوٹ (hinderer) بن جاتا ہے۔ گرتی ہوئی دیوار، جسے سہارا دے کر قائم کر دیا جاتا ہے، اس دیوار کے نیچے خزانہ "معرفت" کا خزانہ ہے ۔ دو یتیم بچے "طریقت" اور "شریعت" کا علم ہیں ۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بھی ایک خاصی مجہول الحال اور صوفیانہ رحجانات کی عکاس، تخیل کی بے تکی بلند پروازی ہے ۔
تاہم ان تمام جدید تعبیرات میں سب سے نمایاں قباحت یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام اِن مترجمین حضرات کےذاتی نظریات ہی باور کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ یہ نظریات صرف اُن مترجم حضرات کے مباحث میں،،،، یا تراجم کے تابع جن تفسیرات کا عموما" ذاتی تصورات و ذاتی فہم کی بنیاد پر اضافہ کیاجاتا ہے، اُن میں بیان کیے گئے ہیں ۔۔۔۔اور قرآنی الفاظ سے کوئی مس یا ربط ہرگزنہیں رکھتے ۔ ایسی کوششیں کرنے والے سب لوگ فقط قرآنی الفاظ کے معانی کی رُو سے ، یا اُن الفاظ کے کسی اعلیٰ و ارفع خالص ادبی ترجمے کی رُو سے، اپنے ان ذاتی نظریات کی وثاقت بالکل بھی ثابت نہیں کر پائے ۔۔۔۔۔ یعنی مذکورہ تمام استنباطات قرآن کی حاکمیت کو بروئے کار لائے بغیر، ،،،،اُس کے اپنے متن کےالفاظ کے عقلی، علمی و ادبی تراجم کی رُو سے نہیں، ،،،بلکہ صرف ذاتی تصرف کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں۔ ۔۔اس لیے نہ تو قرینِ عقل ہیں اور نہ ہی کوئی سند رکھتے ہیں ۔
جدید عقلی و علمی (Rational) ترجمے کی مہم:
تو آئیے اب اس واقعے کا ، قرآن کے عظیم (Classical) ادبی اسلوبِ بیان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، عقلی اور منطقی نچوڑ پر مبنی تحقیقی ترجمہ سامنے لانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ہر حال میں قرآن کی حاکمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اُس ہی کے الفاظ کے ساتھ من و عن پیوستہ رہتے ہوئے، ایسے قرین عقل معانی تلاش کرنے کی سعی کی گئی ہے جو الہامی عبارت کا ایک روشن اور واضح ما فی الضمیر سامنے لا سکیں۔۔سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ سکیں۔۔۔ نیز قرآن کے مجموعی پیغام کے ساتھ مطابقت ثابت کردیں ۔بات کو سمجھانے کے لیے ذاتی خیالات یا تصورات کے اظہار یا استعمال کی یہاں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی، بلکہ حسبِ سابق اس عمومی طور پر رائج ، لیکن اللہ کی جانب سےممنوعہ رحجان کی مکمل نفی اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔(اس ضمن میں دیکھیے راقم کاحالیہ مضمون "تحقیقِ تفاسیرِ قرآنی - تفسیر نویسی ایک فن یا حدود فراموشی کا جرم"۔ انٹرنیٹ پر لنک یہ ہے : http://ebooks.rahnuma.org/cgi-bin/shbkpage.pl?bkid=1431171384
یہ ترجمہ قرآن کےایک جزء کو اس کے خالص حقیقی معانی میں آشکار کرنے کی ایک جدید اور ترقی یافتہ کوشش ضرور ہے، لیکن اسے "حرفِ آخر" یا "قولِ فیصل" وغیرہ،،، یا اسی قماش کی کوئی دیگر چیز، ہرگز قرار نہیں دیا گیا ۔بلکہ اس کے برعکس ، قرآنی تراجم میں خالص علمی تحقیق کرنے والے فاضلین کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ اپنی قیمتی آراء سے آگاہ فرمائیں۔ کوئی بھی واضح غلطی نظر آئے تو باوثوق سند کے ساتھ تصحیح فرمائیں۔ کسی بھی سہو و خطا کی تمامتر ذمہ داری بلا جھجھک قبول کرتا ہوں۔
کھوکھلی تنقید اور لا یعنی اعتراضات و سوالات کی بجائے، بہتر ہوگا کہ زیرِ نظر کاوش سے بڑھ کر کی گئی کوئی تحقیقی کاوش، یعنی زیرِ بحث قرآنی متن کا اُردو زبان میں ایک اِس سےبھی برتر اور ارفع طریق پر نمائندگی کرنے والا کوئی ترجمہ پیش کرنے کی علمی کوشش کی جائے۔۔۔۔ کہ یہی ایک تعمیری رویہ ہے۔پس یہ عاجز کسی بھی علمی راہنمائی کے لیے از حد شکر گذار ہو گا۔
یہاں یہ یاد رہے کہ قصہِ "ذو القرنین" ایک علیحدہ حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کا کوئی واقعاتی تعلق اس سے فوری ما قبل میں مذکورسابقہ "سفرِ موسیٰ" کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ہاں یہ البتہ واضح ہے کہ قرآن کےمجموعی پیغام کے ضمن میں دونوں قصے ایک ہی سیاق و سباق رکھتے ہیں۔ قرآن میں اِس مخصوص مقام پر ذو القرنین کا یہ قصہ تو صرف اُس معروف کہانی کے چند حقائق کی درستگی اور اثبات کے لیے مندرج کیا گیا ہے جو ما قبل ہی سے رائج العام تھی اور جس کے بارے میں حضور کے علم کو پرکھنے کے لیے سوالات کیے جاتے تھے ۔ ورنہ یہ دونوں علیحدہ اور منفرد واقعات ہیں ۔ بہر حال، دونوں کا سبق ایک ہی ہے یعنی اللہ کے راستے میں جدو جہد اور اس کے نیک نتائج ۔ ۔۔ بنا بریں، ہمارے دورِ جدید کے مذکورہ بالا عقلی مترجمین کی جانب سے دونوں واقعات میں اشتراک پیدا کرنے اور ان کی باہم جڑی ہوئی تشریحات پیش کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ۔ البتہ اِس درجِ ذیل ترجمے کی کاوش میں ذو القرنین کےمتعلق بیان کردہ واقعات کا اس کےموضوع کی مناسبت سے قرآنی تعلیمات کے سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جانے والا معانی پیش کرنے کی پوری سعی کی گئی ہے ۔ اس ترجمے میں جس بھی اہم لفظ کے معانی پر اختلاف محسوس ہو، مضمون کے اواخر میں دیے گئے اُس لفظ کے مستند معانی کی پوری وسعت ملاحظہ فرما لیں۔
تمہید
سورۃ الکہف مجموعی طور پر ایمان نہ لانے والوں اور بد فطرت انسانوں کے لیےان کی بداعمالی کی بنیاد پر عذاب کی وارننگ اور صالح فطرت ، اللہ کی راہ میں جدو جہد کرنے والوں کے لیے اجر کی بشارتوں کی بات کرتی ہے – اس میں شامل اصحابِ کہف کا پہلا واقعہ بھی خیر و شر کی کشمکش کا قدیمی واقعہ تھا جس میں آخری فتح اور انعام اللہ کا پیغام بلند کرنے والوں کے لیے مختض کیا گیا ہے ۔ اسی ضمن میں یہاں بھی اللہ کے کچھ دیگر با اختیار بندوں کی شر کے خلاف اور خیرِ عمومی پر مبنی سبق آموز مہمات کا ذکر ہے ،جن میں ایک قدیمی تاریخ سے تعلق رکھنے والی شخصیت، ذو القرنین کے کارناموں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ شَر کا سدّ باب ، مغرور اور شیطانی اعمال کے مرتکبین کی سزاؤں کا ذکر، اور غلط کار معاشروں کے زوال پذیر ہوجانے کی وعید کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اسی ضمن میں حضرت موسیٰ کی ایک مہم کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ جو اسطرح بیان کی گئی ہے :-
ترجمہ:
آیات 18/59 سے 18/61
و تلک القریٰ اھلکناھم لما ظلموا و جعلنا لمھلکھم موعدا (59) و اذ قال موسیٰ لفتاہ لا ابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین او امضی حقبا (60) فلمّا بلغا مجمع بینھما نسیا حوتھما فاتّخذ سبیلہ فی البحرِ سَرَبا (61)
اور یہ وہ انسانی آبادیاں تھیں جنہیں عدل و انصاف کا خون کرنے (لما ظلموا) کی بنا پر ہمارے قوانین نے زوال کا شکار (اھلکناھم)کر دیا کیونکہ اِن قوانین کے مطابق ان کے زوال کا وقت مقرر و متعین ہو گیا تھا۔ پھر اسی ضمن میں یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنے نوجوان نائب سے یہ کہا تھا کہ میں اپنی جدوجہد سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا(ابرح) جب تک کہ اُس مرحلے تک نہ پہنچ جاؤں(ابلغ)کہ قوم کے دو دھڑوں میں واقع افتراق و تقسیم (البحرین )کو ایک جماعت یا وحدت کی شکل میں(مجمع) نہ لے آؤں۔ یا بصورتِ دیگر اس کام کی تکمیل کے لیے پوری توجہ کے ساتھ ، رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے(حقبا) آگے بڑھتا رہوں(امضی) ۔ پس ان کوششوں کے نتیجے میں آخرِ کار جب دونوں گروہ اپنے درمیان(بینھما) ایک اتحاد کے قیام کی منزل (مجمع) تک پہنچ گئے(بلغا) تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ دراصل دونوں فریق اپنے نصب العین یا تعلیمات و ہدایات (حوتھما) کو فراموش کر چکے تھے ۔ لیکن بعدازاں، حضرت موسیٰ کی کوشش اور جدو جہد کے نتیجے میں، ان ہی تعلیمات نے افتراق و انتشار والے ان معاملات میں اپنا راستہ بنا کر بہ عجلت تمام(سَرَبا) اپنے قدم جما لیے۔
آیات 18/62 سے 18/64 تک :
فلَمّا جاوزا قالَ لفتاہ آتنا غداءنا لقد لقینا من سفرِنا ھذا نصبا (62) قالَ ارایتَ اذ اوینا الی الصخرۃِ فانّی نسیتُ الحوتَ و ما انسانیہُ الّا الشیطانُ ان اذکُرہُ ۔ و اتّخذَ سبیلہ فی البحرِ عجبا (63) قال ذٰلک ما کنّا نبغِ ۔ فارتدّا علیٰ آثارھِما قَصََصا (64)
اس کے بعد جب موسیٰ اور ان کا نائب اِس مرحلے سے گذر گئے(جاوزا )، تو موسیٰ نے نوجوان ساتھی سے کہا کہ اب ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل (غداءنا) ہمارے سامنے لاؤ ۔کیونکہ ہم اب اپنے اس سفر کے حوالے سے(من سفرِنا ھذا) اپنا نصب العین اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ساتھی نےیاد کروایا کہ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا تھا کہ جب ہم نے اپنے اس مشن کی تکمیل کی خاطر سختی ا ور ثابت قدمی کے رویے کو اپنی ڈھال اور پناہ بنایا تھا (اوینا الی الصخرۃِ) تو اس وقت میں بھی وقتی طور پر اس نصب العین (الحوتَ) کو بھول گیا تھا ۔ اور ان خدائی تعلیمات کو سوائے سرکشی اور جارحیت کے جذبات کے(الشیطانُ) اور کون بھلا سکتا ہے تاکہ وہ پیشِ نظر ہی نہ رکھے جا سکیں(ان اذکُرہُ)۔ تاہم اُن الہامی تعلیمات نے تفریق و انتشار کے اس بحران میں بھی حیران کن انداز میں قوم کے درمیان اپنا راستہ پکڑ لیا ، یعنی اپنے قدم جما لیے ۔ اس پر موسیٰ نے اطمینان ظاہر کیا کہ یہ تو بعینہی وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، یا جو ہمارا مشن و مقصد تھا(ما کنّا نبغِ) ۔ بعد ازاں وہ دونوں اپنے سابقہ راستے کی جانب واپس لوٹے ۔
آیات 18/65 سے 18/70 تک :
فوجدا عبدا من عبادنا آتیناہ رحمۃ من عندنا و علّمناہ من لّدنّا علما (65) قالَ لہُ موسیٰ ھل اتّبعک علٰ ان تعلمنِ مما علّمتَ رشدا (66) قالَ انّکَ لَن تستطیع معی صبرا (67) و کیف تصبرُ علیٰ ما لم تحط بہ خبرا (68) قالَ ستجدُنی ان شاء اللٰہ صابرا و لا اعصی لَکَ امرا (69) قال فانِ اتّبعتنی فلا تسالنی عن شیء حتّی اُحدث لکَ منہُ ذکرا (70)
پھر ایسا ہوا کہ انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک ایسا برگزیدہ بندہ مل گیا جسے ہمارے جانب سے وسائل و اسباب کی فراوانی(رحمۃ) عطا ہوئی تھی اور جسے ہم نے بذاتِ خود علم و فضل سے آراستہ فرمایا تھا(من لّدنّا علما )۔ موسیٰ نے یہ امر جان کر اس بزرگ سے درخواست کی کہ کیا ہم اس سفر میں آپ کا اتباع کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے حصول کردہ علم سے رشد و ہدایت پا سکیں۔ اس بزرگ نے موسٰی سے کہا کہ آپ اس کی استطاعت نہیں رکھتے، ( یا نہیں رکھ سکیں گے،) کہ میرے اقدامات پر صبر و ضبط سے کام لے کر خاموش رہ سکیں۔ اور یوں بھی آپ ایسے امور میں کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جن کی وجوہات و تاویلات آپ کے علم و فہم کے احاطے سے باہر ہوں! موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر اللہ کی مشیت ہوئی تو آپ مجھے صبر و استقامت والا پائیں گے، اور میں کسی بھی معاملے میں آپ کی سرتابی نہ کروں گا۔ ان بزرگ نے جواب دیا کہ اگر آپ میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہیں تو میری شرط یہ ہے کہ آپ میرے کسی بھی اقدامات پر قبل از وقت استفسار نہ کریں، جب تک کہ میں اس بارے میں آپ کو خود ہی آگاہ نہ کر دوں۔
آیات 18/71 سے 18/76 تک:
فانطلقا حتیٰ اذا رکبا فی السفینۃِ خرقھا ۔ قالِ اخرقتھا لتغرِقَ اھلھا لقد جئتَ شیئا اِمرا (71)۔ قالَ الَم اَقُل انک لن تستطیعَ معِیَ صبرا (72) ۔ قال لا تؤاخذنی بما نسیتُ و لا تُرھقنی من امرِی عسرا (73)۔ فانطلقا حتّٰی اذا لقیا غلاما فقتلہُ قال اقتلتَ نفسا زکیۃ بغیر نفس لقد جئتَ شیئا نکرا (74)۔ قالٰ الم اقُل لکَ انکَ لن تستطیع معی صبرا (75)۔ قالَ ان سالتُک عن شَیء بعدھا فلا صاحبنی۔ قد بلغت من لّدُنّی عذرا (76)۔
پس انہوں نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ راہ میں انہوں نے ایک بستی (السفینۃِ ) پر چڑھائی کی )رکبا( اور پھر وہاں کے لوگوں اتنا پریشان اور دِق کیا کہ وہ کوئی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے(اخرقتھا) ۔ حضرت موسیٰ اس پر خاموش نہ رہ سکے اور احتجاج کیا کہ آپ نے انہیں بے کار کیوں کر دیا کہ ان لوگوں کا معاشی طور پر بیڑا ہی غرق ہو جائے(تغرق) ۔یہ تو آپ نےبڑا غلط کام کر دیا۔ بزرگ ہستی نے جواب دیا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری ہمراہی میں صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکوگے؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میری بھول پر گرفت نہ کریں اور اس پر مجھے مشکل میں نہ ڈالیں۔ تب وہ آگے روانہ ہوئے، یہاں تک وہاں ایک بدکردار نوجوان(غلاما )سے ملاقات ہوئی۔ بزرگ نے اُس کی ایسی تذلیل و تحقیر کی کہ اس کی کوئی اہمیت یا قدر و قیمت باقی نہ رہے (فقتلہُ )۔ موسیٰ نے کہا کہ آپنے بغیر کسی قصور کے ایک جان کو ذلیل و حقیر کر دیا ۔ یہ آپ نے ایک ممنوعہ کام کیا ہے۔ بزرگ نے پھر کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم صبر و ضبط کی استطاعت نہیں رکھ سکو گے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ اب اگر میں اس کے بعد کوئی سوال کروں تو آپ بیشک میری مصاحبت سے انکار کر دیں۔ اب میری جانب سے عذر کی انتہا ہو چکی ہے۔
آیات 18/77 سے 18/82 تک:-
فانطلقا حتّیٰ اذا اتیا اھل قریۃ استطعما اھلھا فابوا ان یضیفوھما فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقضّ فاقامہ۔ قال لو شئت لاتّخذتَ علیہ اجرا (77)۔ قال ھذا فراقُ بینی و بینک۔ سانبّئکَ بتاویلِ ما لم تستطع علیہ صبرا (78)۔ امّا السفینۃُ فکانت لمساکین یعملونٰ فی البحر، فاردتُّ ان اعیبھا و کان وراءھم ملک یا خذ کلّ سفینۃ غصبا (79) و اما الغلامُ فکان ابواہ مؤمنین فخشینا ان یرھقھما طغیانا و کفرا (80)۔ فاردنا ان یبد لھما ربّھما خیرا منہ زکاۃ و اقرب رحما(81) و اما الجدارُ فکانَ لغلامینِ یتیمینِ فی المدینۃِ و کانَ تحتہ کنز لّھما و کان ابوھما صالحا فارادَ ربّکَ ان یبلغا اشدّ ھما و یستخرجا کنزھما رحمۃ من ربکَ۔ و ما فعلتہ عن امری۔ ذٰلکَ تاویلُ ما لم تسطع علیہِ صبرا (82) ۔
پھر وہ دونوں آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں جا پہنچے جہاں دونوں نے مل کر اہالیانِ شہر کو تعلیم دینے کا اہتمام کیا (استطعما )۔ لیکن انہوں ان کی پذیرائی کرنےسے انکار کر دیا۔ بعد ازاں انہوں نے وہاں ایک قابل اور اہلیت کی حامل جماعت(جدارا) دیکھی، لیکن ان کی قوت ختم ہوا چاہتی تھی(ینقضّ )۔ پس ان بزرگ نے ان لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر مضبوط و مستحکم کر دیا(فاقامہ )۔ اس پر پھر حضرت موسیٰ نے سوال کر دیا کہ اگرآپ چاہتے تو اس بڑے کام کی انجام دہی پر کوئی مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ تم میں اور مجھ میں یہی فرق ہے ۔ اور اب میں تمہیں ضرور بتاؤں گا کہ جن امور پر تم صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکے ان کے پسِ پردہ کیا حکمت پنہاں تھی۔ جہاں تک اُس خاص بستی کا معاملہ تھا، تو وہ ایک غریبوں کی بستی تھی جو اپنی زمین کے ٹکڑے پر (فی البحر)محنت کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ ان کی زمین کو وقتی طور پر غیر پیداواری یعنی بے کار بنا دوں (اعیبھا )، کیونکہ ان کے پیچھے ایک ایسا بادشاہ لگا ہوا تھا جو آباد بستیوں/زمینوں کو غصب کر کے قبضے میں لے لیتا تھا۔ جہاں تک برے کردار کے نوجوان (الغلامُ ) کا تعلق ہے تو اس کے والدین اصحابِ امن وایمان تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ان دونوں کے ساتھ حدود فراموشی اور کفر کا سلوک کرتا۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ ان کی اولاد نشوونما میں زیادہ برتراور صلہ رحمی میں زیادہ بہتر ہوجائے۔ اور جہاں تک بستی کے مضبوط کردار والوں کی جماعت کا تعلق ہے، تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں(لغلامینِ یتیمینِ) کی سرپرستی کے لیےکام کر رہے تھے اور ان کی تحویل میں ان دونوں کے لیے علم و حکمت کا ایک خزانہ جمع کیا ہوا رکھا تھا کیونکہ ان کا مرحوم والد ایک مصلحِ قوم تھا ۔ اس لیے تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی پختہ عمر کو پہنچ جائیں اور اس ہدایت کے خزانے کو برسرِ عام لے آئیں جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے عطا کردہ ارتقاء و نشوونما کے وسائل و اسباب تھے۔ نیز یہ بھی جان لو کہ میں نے یہ سارے اقدامات اپنی مرضی یا خواہش سے نہیں کیے۔ پس یہ ہے مآلِ کار ان سب واقعات کا جن کے بارے میں تمہیں صبر و ضبط کی استطاعت نہیں تھی۔
آیات 18/83 سے 18/88 تک :-
و یسالونک عن ذی القرنین۔ قُل ساتلو علیکم منہ ذکرا (83)انا مکّنّا لہ فی الارضِ و آتیناہ من کل شیء سببا (84)۔ فاتبع سببا (85)۔ حتّیٰ اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغربُ فی عین حمئۃ و وجدَ عندھا قوما۔ قلنا یا ذا القرنین اما ان تعذبَ و اما ان تتّخذ فیھم حسنا (86)۔ قالَ اما من ظلم فسوف نعذّبہ ثمّ یردّ الیٰ ربہ فیُعذبہ عذابا نکرا (87)۔ و اما من آمنَ و عملَ صالحا فلہ جزاء الحسنیٰ۔ و سنقولُ لہ من امرنا یسرا (88)۔
اور یہ لوگ آپ سے ذی القرنین کی تاریخی شخصیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ انہیں کہ دیں کہ اس کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کے حقائق مَیں تمہاری راہنمائی کے لیے ضرور بیان کر وں گا۔ انہیں بتا دو کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھی جسے ہم نے اقتدار و اختیار عطا کیا تھا اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام اسباب و ذرائع مہیا کر دیے تھے۔ پس وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مہم جوئی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک قوم موجود تھی جس کی بداعمالیوں کے باعث ان کا عروج و خوشحالی کا سورج غروب(مغرب الشمس) ہو کرتنزل کے تاریک گڑھے (عین حمئۃ )میں گر چکا تھا۔ ہم نے اسے یہ اختیار عطا کیا کہ وہ چاہے تو انہیں ان کی غلط کاریوں پر سزا دے اور چاہے تو ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ اِس اختیار پر اُس نے یہ اعلان کیا کہ اِن میں سے جس نے عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے(ظلم) اپنی قوم کو اس زوال کا شکار کیا ہے اسے ہم ضرور سزا دیں گے ۔ اور بعد ازاں جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹے گا تو وہ بھی انہیں بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ البتہ ان میں سے جو اللہ کی برتری پر ایمان لے آیا اور اصلاحی روش پر عمل پیرا ہو گیا تو اس کا اجر خوبصورت ہوگا۔ یعنی ہم اس کے لیے اپنے ارادے و خواہش سے آسانیاں/فراوانیاں پیدا کر دیں گے۔
آیات 18/89 سے 18/95 تک:-
ثمّ اتبع سببا (89)۔ حتیٰ اذا بلغ مطلع الشمسِ وجدھا تطلُعُ علیٰ قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا (90) کذلک و قد احطنا بما لدیہ خبرا (91) ثم اتبع سببا (92)۔ حتیٰ اذا بلغ بین السّدّین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفقھون قولا (93)۔ قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ فھل نجعلُ لک خرجا علٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدا (94)۔ قال ما مکّنّی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوّۃ اجعل بینکم و بینھم ردما (95)۔
بعد ازاں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم تک جا پہنچا جن پر عروج کا سورج طلوع (مطلع الشمسِ) ہو رہا تھا ۔لیکن اس ایک مثبت امر کے سوا (دونھا )ہم نے انہیں ابھی تک کوئی دیگر سامانِ تحفظ اور بردباری کا شعور (سترا )مہیا نہیں کیا تھا۔ پھر اسی طرح ہوا ، یعنی انہیں ضروری تربیت و راہنمائی فراہم کر دی گئی(کذلک)۔ جو کچھ بھی اصلاحی اور انسانی خیر کے کام وہ کرتا رہا، ہم اسکے تمام احوال سے باخبر رہے۔ وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مصروفِ کار رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقدس مشن کی راہ میں موجود دو بڑی رکاوٹوں یعنی دو فسادی قوموں کے درمیان جا پہنچا(بلغ بین السّدّین) ۔ ان دونوں کے علاوہ اس نے وہاں ایک ایسی قوم بھی دیکھی جو کسی سمجھ بُوجھ یا علم و تربیت کی حامل نہ تھی یعنی مکمل طور پر پسماندہ تھی ۔ انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں ہمارے درمیان مفسدین کے گروہ ہیں جو زمین کے امن کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان ایک روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ کثیر ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں ان کے اور تمہارے معاملے کا سد باب کر دیتا ہوں ۔
آیات 18/96 سے 18/97 تک:-
آتونی زُبرَ الحدید۔ حتیٰ اذا ساویٰ بین الصدفینِ قال انفخو۔ حتیٰ اذا جعلہ نارا قال آتونی افرغ علیہ قطرا (96)۔ فما اسطاعوا ان یظھروہ و ما استطاعو لہ نقبا (97)۔
پھراس نے حکم دیا کہ میرے پاس خدائی حدود و احکامات پر مبنی صحیفہ ، یعنی کتاب اللہ لاؤ (زُبرَ الحدید) ۔ پھر اس نے انہیں کتاب اللہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے نظم و قوت میں اتنا بڑھا دیا کہ دونوں متخالف محاذوں(الصدفینِ) کے مابین برابری پیدا ہو گئی (ساویٰ)۔ تو اس نے کہا کہ اب اپنی کامیابی پر اطمینان کا سانس لو ۔ تربیت جاری رہی یہاں تک کہ اُس نے اِس قوم کو علم و عمل کا ایک روشن و درخشاں نمونہ (نارا )بنا دیا۔ اس مرحلے پر اس نے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں انہیں نصیحت کر کے اس بات سے روک دوں (افرغ علیہ) کہ وہ دوبارہ قطرہ قطرہ ہو کر یعنی اپنی وحدت پارا پارا کر تے ہوئے کمزور ہو جائیں(قطرا) ۔ پس اس کے بعد اُن مفسد وں کے گروہ میں اِس قوم کا مقابلہ کرنے، یا اِس پر غالب آنے کی استطاعت نہ رہی اور نہ ہی وہ اِس کی قوت کو توڑنے کی استطاعت پیدا کر سکے۔
آیات 18/99 سے 18/100
قال ھذا رحمۃ من ربی۔ فاذا جاء وعدُ ربی جعلہ دکّاء ۔ و کان وعد ربی حقّا۔ و ترکنا بعضھم یومئذ یموجُ فی بعض و نفخ فی الصورِ فجمعناھم جمعا (99)۔ و عرضنا جھنم یومئذ للکافرین عرضا (100)
ذو القرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ جب بھی بعد ازاں میرے پروردگار کا مقرر کر دہ وقت آپہنچا تو وہ یہ سب فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ کیونکہ میرے پروردگار کا وعید کردہ ہمیشہ حقیقت بن جایا کرتا ہے۔ اور مستقبل میں جس دور میں بھی وہ وقت آپہنچا تو صورتِ حال یہ ہوگی کہ ہم نے انسانوں کو ایک وحشت کے عالم میں ایک دوسرے کے بارے میں چیخ و پکار کرنے کے لیے(یموج) چھوڑ دیا ہوگا۔ آخری فیصلے کے صادر ہونے کا نقارہ بجا دیا گیا ہوگا ۔ اور ہم نے سب کو اپنی عدالت میں حاضر کر لیا ہوگا۔ اور وقت کے اُس مرحلے پر جہنم کی زندگی اُن انسانوں کے سامنے پیش کر دی گئی ہوگی جو ہمارے اقتدار و اختیار کا اور ہماری ہدایت و راہنمائی کا انکار کرنے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب بغیر کسی رکاوٹ، ایک مسلسل اور رواں ترجمہ
اور یہ وہ انسانی بستیاں تھیں جنہیں عدل و انصاف کا خون کرنے کی بنا پر ہمارے قوانین نے زوال کا شکار کر دیا کیونکہ اِن قوانین کے مطابق ان کے زوال کا وقت مقرر و متعین ہو گیا تھا۔ پھر اسی ضمن میں یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنے نوجوان نائب سے یہ کہا تھا کہ میں اپنی جدوجہد سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اُس مرحلے تک نہ پہنچ جاؤں کہ قوم کے دو دھڑوں میں واقع افتراق و تقسیم کو ایک جماعت یا وحدت کی شکل میں نہ لے آؤں۔ یا بصورتِ دیگر اس کام کی تکمیل کے لیے پوری توجہ کے ساتھ ، رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئےآگے بڑھتا رہوں۔ پس آخرِ کار جب دونوں گروہ اپنے درمیان ایک اتحاد کے قیام کی منزل تک پہنچ گئے تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ دراصل دونوں فریق اپنے نصب العین یا تعلیمات و ہدایات کو فراموش کر چکے تھے ۔ لیکن بعدازاں ،حضرت موسیٰ کی کوشش اور جدو جہد کے نتیجے میں،ان ہی تعلیمات نے افتراق و انتشار والے ان معاملات میں اپنا راستہ بنا کر بہ عجلت تمام اپنے قدم جما لیے۔
اس کے بعد جب موسیٰ اور ان کا نائب اِس مرحلے سے گذر گئے، تو موسیٰ نے ساتھی سے کہا کہ اب ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل ہمارے سامنے لاؤ ۔کیونکہ ہم اب اپنے اس سفر کے حوالے سے اپنا نصب العین اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ساتھی نے یاد دلایا کہ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا تھا کہ جب ہم نے اپنے اس مشن کی تکمیل کی خاطر سختی اور ثابت قدمی کے رویے کو اپنی ڈھال اور پناہ بنا لیا تھا تو اس وقت میں بھی وقتی طور پر اپنی خدائی تعلیمات کو بھول گیا تھا ۔ اور ان تعلیمات کو سوائے سرکشی اور جارحیت کے جذبات کے اور کون بھلا سکتا ہے، تاکہ وہ پیشِ نظر رکھے ہی نہ جا سکیں ۔ تاہم اُن الہامی تعلیمات نے تفریق و انتشار کےبحران میں حیران کن انداز میں قوم کے درمیان اپنے قدم جما لیے۔ اس پر موسیٰ نے کہا کہ یہ تو بعینہی وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، یا جو ہمارا مشن تھا ۔ بعد ازاں وہ دونوں اپنے سابقہ راستے کی جانب واپس لوٹے ۔
پھر ایسا ہوا کہ انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک ایسا برگزیدہ بندہ مل گیا جسے ہمارے جانب سے وسائل و اسباب کی فراوانی عطا ہوئی تھی اور جسے ہم نے بذاتِ خود علم و فضل سے آراستہ فرمایا تھا۔ موسیٰ نے یہ امر جان کر اس بزرگ سے درخواست کی کہ کیا ہم اس سفر میں آپ کا اتباع کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے حصول کردہ علم سے رشد و ہدایت پا سکیں۔ اس بزرگ نے موسٰی سے کہا کہ آپ اس کی استطاعت نہیں رکھتے کہ میرے اقدامات پر صبر و ضبط سے کام لے کر خاموش رہ سکیں۔ اور یوں بھی آپ ایسے امور میں کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جن کی وجوہات و تاویلات آپ کے علم و فہم کے احاطے سے باہر ہوں! موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر اللہ کی مشیت ہوئی تو آپ مجھے صبر و استقامت والا پائیں گے، اور میں کسی بھی معاملے میں آپ کی سرتابی نہ کروں گا۔ ان بزرگ نے جواب دیا کہ اگر آپ میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہیں تو میری شرط یہ ہے کہ آپ میرے کسی بھی اقدامات پر قبل از وقت استفسار نہ کریں، جب تک کہ میں اس بارے میں آپ کو خود ہی آگاہ نہ کر دوں۔
پس انہوں نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ راہ میں انہوں نے ایک بستی پر چڑھائی کی اور پھر وہاں کے لوگوں اتنا پریشان کیا کہ وہ کوئی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے۔ حضرت موسیٰ اس پر خاموش نہ رہ سکے اور احتجاج کیا کہ آپ نے انہیں بے کار کیوں کر دیا کہ ان لوگوں کا معاشی طور پر بیڑا ہی غرق ہو جائے ۔یہ تو آپ نےبڑا غلط کام کر دیا۔ بزرگ ہستی نے جواب دیا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری ہمراہی میں صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکوگے؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میری بھول پر گرفت نہ کریں اور اس پر مجھے مشکل میں نہ ڈالیں۔ تب وہ آگے روانہ ہوئے، یہاں تک وہاں ایک بدکردار نوجوان سے سامنا ہوا۔ بزرگ نے اس کی ایسی تذلیل و تحقیر کی کہ اس کی کوئی اہمیت یا قدر و قیمت باقی نہ رہے ۔ موسیٰ نے کہا کہ آپنے بغیر کسی قصور کے ایک جان کو ذلیل و حقیر کر دیا ۔ یہ آپ نے ایک ممنوعہ کام کیا ہے۔ بزرگ نے پھر کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم صبر و ضبط کی استطاعت نہیں رکھ سکو گے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ اب اگر میں اس کے بعد کوئی سوال کروں تو آپ بیشک میری مصاحبت سے انکار کر دیں۔ اب میری جانب سے عذر کی انتہا ہو چکی ہے۔
پھر وہ دونوں آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک بستی میں جا پہنچے جہاں دونوں نے مل کر اہالیانِ شہر کو تعلیم دینے کا اہتمام کیا ۔ لیکن انہوں ان کی پذیرائی کرنےسے انکار کر دیا۔ بعد ازاں انہوں نے وہاں ایک قابل اور اہلیت کی حامل جماعت دیکھی، لیکن ان کی قوت ختم ہوا چاہتی تھی۔ پس ان بزرگ نے ان لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر مضبوط و مستحکم کر دیا۔ اس پر پھر حضرت موسیٰ نے سوال کر دیا کہ اگرآپ چاہتے تو اس بڑے کام کی انجام دہی پر کوئی مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ تم میں اور مجھ میں یہی فرق ہے ۔ اور اب میں تمہیں ضرور بتاؤں گا کہ جن امور پر تم صبر و ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکے ان کے پسِ پردہ کیا حکمت پنہاں تھی۔ جہاں تک اُس خاص بستی کا معاملہ تھا، تو وہ ایک غریبوں کی بستی تھی جو اپنی زمین کے ٹکڑے پر محنت کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ ان کی زمین کو وقتی طور پر غیر پیداواری بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک ایسا بادشاہ لگا ہوا تھا جو آبادبستیوں/زمینوں کو غصب کر کے قبضے میں لے لیتا تھا۔ جہاں تک برے کردار کے نوجوان کا تعلق ہے تو اس کے والدین اصحابِ امن وایمان تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ان دونوں کے ساتھ حدود فراموشی اور کفر کا سلوک کرتا۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ ان کی اولاد نشوونما میں زیادہ برتراور صلہ رحمی میں زیادہ بہتر ہوجائے۔ اور جہاں تک بستی کے مضبوط کردار والوں کی جماعت کا تعلق ہے، تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کی تحویل میں ان دونوں کے لیے علم و حکمت کا ایک خزانہ جمع کیا ہوا رکھا تھا کیونکہ ان کا مرحوم والد ایک مصلحِ قوم تھا ۔ اس لیے تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی پختہ عمر کو پہنچ جائیں اور اس ہدایت کے خزانے کو برسرِ عام لے آئیں جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے عطا کردہ ارتقاء و نشوونما کے وسائل و اسباب تھے۔ نیز یہ بھی جان لو کہ میں نے یہ سارے اقدامات اپنی مرضی یا خواہش سے نہیں کیے۔ پس یہ ہے مآلِ کار ان سب واقعات کا جن کے بارے میں تمہیں صبر و ضبط کی استطاعت نہیں تھی۔
اور یہ لوگ آپ سے ذی القرنین کی تاریخی شخصیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ انہیں کہ دیں کہ اس کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کے حقائق مَیں تمہاری راہنمائی کے لیے ضرور بیان کر وں گا۔ انہیں بتا دو کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھی جسے ہم نے اقتدار و اختیار عطا کیا تھا اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام اسباب و ذرائع مہیا کر دیے تھے۔ پس وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مہم جوئی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک قوم موجود تھی جس کی بداعمالیوں کے باعث ان کا عروج و خوشحالی کا سورج غروب ہو کرتنزل کے تاریک گڑھے میں گر چکا تھا۔ ہم نے اسے یہ اختیار عطا کیا کہ وہ چاہے تو انہیں ان کی غلط کاریوں پر سزا دے اور چاہے تو ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ اِس اختیار پر اُس نے یہ اعلان کیا کہ اِن میں سے جس نے عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے اپنی قوم کو اس زوال کا شکار کیا ہے تو اسے ہم ضرور سزا دیں گے ۔ اور بعد ازاں جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹے گا تو وہ بھی انہیں بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ البتہ ان میں سے جو اللہ کی برتری پر ایمان لے آیا اور اصلاحی روش پر عمل پیرا ہو گیا تو اس کا اجر خوبصورت ہوگا۔ یعنی ہم اس کے لیے اپنے ارادے و خواہش سے آسانیاں/فراوانیاں پیدا کر دیں گے۔
بعد ازاں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم تک جا پہنچا جن پر عروج کا سورج طلوع ہو رہا تھا ۔لیکن اس ایک مثبت امر کے سوا ہم نے انہیں ابھی تک کوئی دیگر سامانِ حفاظت اور بردباری کا شعور مہیا نہیں کیا تھا۔ پھر اسی طرح ہوا ، یعنی انہیں ضروری تربیت و راہنمائی فراہم کر دی گئی۔ جو کچھ بھی اصلاحی اور انسانی خیر کے کام وہ کرتا رہا، ہم اسکے تمام احوال سے باخبر رہے۔ وہ اپنے مقاصد کی پیروی میں مصروفِ کار رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقدس مشن کی راہ میں موجود دو بڑی رکاوٹوں یعنی دو فسادی قوموں کے درمیان جا پہنچا۔ ان دونوں کے علاوہ اس نے وہاں ایک ایسی قوم بھی دیکھی جو کسی سمجھ بُوجھ یا علم و تربیت کی حامل نہ تھی یعنی مکمل طور پر پسماندہ تھی ۔ انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں دو فسادی اقوام، یاجوج و ماجوج ہیں جو زمین کے امن کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان ایک روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ کثیر ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں ان کے اور تمہارے درمیان ایک مضبوط دیوار قائم کر دیتا ہوں ۔
پھراس نے حکم دیا کہ میرے پاس خدائی حدود و احکامات پر مبنی صحیفہ ، یعنی کتاب اللہ لاؤ ۔ پھر اس نے انہیں کتاب اللہ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے نظم و قوت میں اتنا بڑھا دیا کہ دونوں متخالف محاذوں کے مابین برابری پیدا ہو گئی ۔ تو اس نے کہا کہ اب اپنی کامیابی پر آزادی و اطمینان کا سانس لو ۔ تربیت جاری رہی یہاں تک کہ اُس نے اِس قوم کو علم و عمل کا ایک روشن و درخشاں نمونہ بنا دیا۔ اس مرحلے پر اس نے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں انہیں نصیحت کر کے اس بات سے روک دوں کہ وہ دوبارہ قطرہ قطرہ ہو کر یعنی اپنی وحدت پارا پارا کر تے ہوئے کمزور ہو جائیں۔ پس اس کے بعد اُن مفسد قوموں میں اِس قوم کا مقابلہ کرنے، یا اِس پر غالب آنے کی استطاعت نہ رہی اور نہ ہی وہ اِس کی قوت کو توڑنے کی استطاعت پیدا کر سکے۔
ذو القرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے۔ جب بھی بعد ازاں میرے پروردگار کا مقرر کر دہ وقت آپہنچا تو وہ یہ سب کچھ فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ کیونکہ اُس کا وعید کردہ ہمیشہ حقیقت بن جایا کرتا ہے۔ اور مستقبل میں جس دور میں بھی وہ وقت آپہنچا تو صورتِ حال یہ ہوگی کہ ہم نے انسانوں کو ایک وحشت کے عالم میں ایک دوسرے کے بارے میں چیخ و پکار کرنے کے لیےچھوڑ دیا ہوگا۔ آخری فیصلے کے صادر ہونے کا نقارہ بجا دیا گیا ہوگا ۔ اور ہم نے سب کو اپنی عدالت میں حاضر کر لیا ہوگا۔ اور وقت کے اُس مرحلے پر جہنم اُن انسانوں کے سامنے پیش کر دی گئی ہوگی جو ہمارے اقتدار و اختیار کا اور ہماری ہدایت و راہنمائی کا انکار کرنے والے تھے۔
بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے معانی جو کم از کم 10 عدد مستند لغات سے اخذ کیے گئے ہیں
(لما ظلموا) : ظلم: حق تلفی، عدل و انصاف کا خون؛ میرٹ کا خون؛ زیادتی؛ اندھیرا؛ گمنامی؛ سایہ، تحفظ؛ غلط کاری، بدسلوکی، نقصان پہنچانا، طاقت سے کچل دینا، استحصال، بدعملی، زخمی کرنا،
(اھلکناھم): ہلک: مر جانا، برباد ہو جانا، ضائع ہو جانا، گم ہو جانا، بگڑ جانا
(ابرح): ب ر ح: چھوڑ کر چلے جانا؛ روانہ ہو جانا؛ ہتھیار ڈال دینا، کسی کام سے رک جانا،ترک کر دینا، تنگ ہو جانا، مشکل یا مصیبت میں پڑ جانا۔
(ابلغ): بلغ: پہنچنا، حاصل کرنا، آ جانا، کسی راستے کے آخری مقام تک چلا جانا، خواہش کی تکمیل تک پہنچنا۔ اطلاعات، اعلانات یا خبریں لانا، دینا، پہنچانا، وغیرہ، وغیرہ۔
(البحرین ): بحر: زمین کا ایک وسیع ٹکڑا، جو آباد ہو؛ ایسا شہر جس میں پانی کا کوئی ذخیرہ ہو؛ کاٹ دینا، تقسیم کر دینا، ٹکڑے کر دینا، انتشار، تفریق کو وسیع کر دینا، پانی کا کوئی بھی بڑا منبع یا ذخیرہ۔
(مجمع) : جمع: جمع کرنا، اجتماع، جلسہ، سلسلہ قائم کرنا، اتحاد و اتفاق میں لے آنا، یکسانیت پیدا کرنا، تعین کرنا، فیصلہ کر دینا، کسی بات یا رائے پر اتحاد و رضامندی کر دینا۔
(حقبا) : حقب: روکنے یا رکنے میں مشکل ہونا؛ موخر ہو جانا یا روک لیا جانا، گمراہ ہو جانا، غیر منظم ہو جانا، جبر کے تحت آ جانا، وغیرہ۔
(امضی) : مضٰی: آگے بڑھنا، گذرنا، جانا، دور چلے جانا، مسلسل آگے بڑھتے رہنا، عمل درآمد کرنا، ادائیگی کرنا، کسی چیز کی تکمیل حاصل کرنا؛ کاٹنا یا داخل ہو جانا، کسی کام میں بڑھ جانا، دوسروں سے آگے گذر جانا۔
(حوتھما) : ح و ت؛ ح ا ت : کسی مرکز کے گرد اُڑنا، تیرنا، یا گھومنا ؛ کسی مقصد کے لیے جدوجہد یا کوشش کر کے کسی انسان کی سوچ بدل دینا۔ کسی انسان کو کسی نظریے سے موڑ لینے کی تعلیم دینا، کوشش کرنا؛ کسی کو مسحور کر لینا، کشش کی جانب کھینچ لینا ۔ ایسی تعلیمات، ایسا مقصد یا نصب العین جس کی طرف انسانوں کو موڑا جائے۔ الحوت: قرآن کے تناظر میں قرآن کی وہ الہامی تعلیمات یا احکامات جو انسان کی توجہات کا مرکز ہیں ۔
(سَرَبا") : نظری دھوکا؛ سراب؛ آزادی سے آنا جانا، بہنا، بھاگنا، تیزی دکھانا ۔
(جاوزا): تجاوز کرنا؛ آگے گذر جانا۔ آگے بڑھ جانا۔کسی بھی مرحلے سے آگے نکل جانا۔
(غداءنا) : غداء: دُور کا وقت؛ آنے والا وقت؛ توشہِ آخرت؛ کل کا یا آئندہ کا پروگرام؛ فیڈ بیک؛ لائحہ عمل؛ آئندہ کا/کل کا /مستقبل کا لائحہ عمل/ایجنڈا؛ خوراک، ناشتہ۔
(اوینا الی الصخرۃِ): صخرۃ : چٹان؛ چٹان کی سختی؛ سخت گیری؛ پہاڑی؛ گھاٹی؛ پتھر؛ ثابت قدم ہو نا ، وغیرہ۔
(الشیطانُ) : شطن: سرکشی؛ سرکشی کے جذبات؛ حدود فراموشی؛
(رحمۃ): رحم، ترس، معافی، محبت، نرمی، احسان، تمام اسباب و وسائل جو اچھائی کے کام آئیں؛ رشتہ داری، شکمِ مادر، وغیرہ۔
(من لّدنّا علما ): اللہ کی جانب سے براہ راست تعلیم جو انبیاء و رسل کے لیے مخصوص ہے۔
(السفینۃِ ): سفن: مجسمہ بنانا، تراش کر شکل دینا، پتھر یا چٹان کو کوئی صورت دینا؛ کشتی، جہاز، چھلکا، کاٹتے ہوئے ، راستہ بناتے ہوئے چلنا۔ مجازی معنی: ایک تراشا ہوا، ترقی دیا گیا ، تہذیب یافتہ انسانی معاشرہ یا بستی ۔
)رکبا( : اوپر چڑھنا، سواری کرنا، شروعات کرنا، لے جائے جانا، جہاز ہر چڑھنا، سفر پر نکلنا، سڑک پر واک کرنا، غلطی کا ارتکاب کرنا، قافلہ، سوار ہو جانا، سوار، ڈھیر کی صورت میں ڈال دینا، ایک دوسرے پر چڑھا دینا، تہ در تہ۔
(اخرقتھا) : خرق: پار نکل جانا، سوراخ کر دینا، پریشان اور دِق ہو جانا یہاں تک کی حرکت کی سکت نہ رہے؛ عقل و شعور میں کمی یا نقص ہو جانا؛ آزاد خیال، فراوانی اور سخاوت والا ہو جانا؛ کسی نفع ، اچھائی یا خوشحالی سے محروم کر دینا۔
(لتغرِقَ): غرق: ڈوب جانا؛ معاشی طور پر تباہ ہو جانا، وغیرہ۔
(غلاما ): غلم: شہوت کا شکار، جذباتی طور پر ہیجان میں مبتلا، جارحانہ، کنفیوزڈ اور غیر یقینی کیفیت؛ نوجوان؛ جوان آدمی؛ لڑکا ۔
(فقتلہُ ): قتل : مار ڈالنا، لڑنا، جنگ کرنا، مشکلات میں ڈالنا، لعنت پھٹکار کرنا؛ تفتیش کرنا، تربیت دینا، بہت سخت محنت کا کام کرنا۔ مجاز: غیر اخلاقی خواہشات کو مارنا؛ جنسی خواہشات کو مارنا، طاقت کو کم یا کمزور کرنا ؛ تذلیل و تحقیر سے ایسا کر دینا کہ کوئی اس کی بات پر دھیان ہی نہ دے۔
(استطعما) : استطعم: طعام، یا تعلیم و تربیت کا انتظام کر دینا ۔ طعم: کھلانا، نشو نما کرنا وغیرہ ۔ علمی نشو نما کرنا ۔ پکا ہوا پھل۔ انسان میں ایک قابل تعریف صفت جیسے قابلیت، دور اندیشی، فیصلے کی اہلیت۔
(جدارا) : جدر: احاطہ بنانا، احاطے کی دیوار تعمیر کرنا۔ سامنے آجانا یا پھیل جانا۔ موزوں، قابل اور اہل ہو جانا- کسی چیز کو اونچا اٹھانا – کچھ مضبوطی سے بنانا اورطاقتور کرنا اور اسے بلند اٹھانا- کسی چیز کو ازسرِ نو بنانا ، اس کے معدوم ہو جانے کے بعد۔
(اعیبھا) : عیب ڈال دینا، نقص ڈال دینا، خراب و بے کار کر دینا۔
(مغرب الشمس): ترقی و خوشحالی کا زوال
(حمئۃ):نحوست؛ منحوس نظر، سیاہی ،سیاہ کیچڑ، کسی سے غصہ ہو جانا، وغیرہ
(عین):آنکھ میں تکلیف، آنسوؤں کا بہنا، جاسوسی کرنا، دیکھنا، سوراخ، گڑہا، درخت کا تنا، پانی کا چشمہ، سردار، خوبصورت، وغیرہ
(مطلع الشمسِ): عروج، ترقی، خوشحالی
(دونھا ): اس کے بغیر، اس کے علاوہ
(سترا ): پردہ ڈالنا، چھپانا، کپڑے لپیٹ لینا- اچھا چال چلن، حفاظت، اسبابِ حفاظت، کسی کا خود کو چھپانا، سامنے روک لگانا، معذرت کرنا، بہانہ کرنا، ایک حفاظتی چار دیواری۔
(زبر الحدید): حدید: حد: ایک حد مقرر کرنا، تعین کرنا، سزا دینا، پیچھے پھینک دینا، دھار تیز کرنا۔ روکنا، بچانا، پرہیز کرنا، ایک چیز کا دوسری سے الگ تعین کرنا، پابند کرنا، منع کرنا یا ممنوع قرار دینا- پسپا کرنا، واپس بھیج دینا، خطرہ دور کر دینا۔ وغیرہ وغیرہ۔
(زبر): لکھی ہوئی چیز؛ داؤد کی کتاب؛ محمد، داؤد اور موسیٰ کے صحائف ۔ چیک کرنا، روکنا، منع کرنا، مہارت سے اور مضبوطی سے لکھنا- پڑھنا، تلاوت کرنا- بڑا ہو جانا، ہمت والا اور بہادر بن جانا۔ لوہے کے ٹکڑے؛ پشت کا بالائی حصہ، طاقتور اور جسیم؛ سیاہ کیچڑ، وغیرہ
(الصدفینِ) : صدف: پہاڑ کی ڈھلوان سائڈ، رکاوٹ، حد بندی، واپس مڑجانا، ایک جانب نکل جانا،
(ساوی): تناسب ، کاملیت، سطح، برابری، کمی کو پورا کرنا، خلا کو بھرنا۔
(نارا ): آگ، شعلے، گرمی، روشنی، چمک، جگمگاہٹ، اکساہٹ، جنگ پر اکسانا۔
(افرغ علیہ): فرغ : کسی چیز کا مکمل کرنا، کسی چیز سے روکنا، غیر مصروف ہونا، کسی کام سے آزاد ہونا، خالی ہونا، جگہ کا خالی ہونا، وغیرہ۔
(قطرا) : ق ط ر : ٹپک جانا، مائع بن کر رس جانا، جوانب، علاقے، ایکطرف، پگھلا ہوا تانبہ، پگھلے ہوئے مواد کی سطح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔