اورنگزیب یوسفزئی اگست ۲۰۱۳

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر8

 

صوم اور حج کے اہم موضوعات۔

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسلے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

البقرۃ: ۱۸۳ سے ۲۰۲ آیت تک

قرآنِ حکیم کی چند آیات کے ترجمےکی یہ اہم مہم جو فی الحقیقت ایک لا محدود علمیت کی متقاضی ہے، اور جس کا گراں مایہ بوجھ اٹھانے کی یہ ناچیز استطاعت نہیں رکھتا، چند قریبی اعزاء کے اصرار پر ایک حقیرسی کوشش اور ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر انجام دی جا رہی ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے دربارِ عالی میں التماس ہے کہ کسی بھی بھاری غلطی کے احتمال سے محفوظ رکھے اور اس حقیر کوشش کے نتیجے میں دوستوں کو جستجوئے حق کی حالتِ اضطراب سے نجات دے کر شرحِ صدر کی دولت سے بہرہ ور فرمائے۔
اس ترجمےکے ضمن میں جن لفظی معانی کا استعمال کیا گیا ہے ان کی تفصیل سند کے طور پر ترجمے کے آخر میں دے دی گئی ہے۔ متعدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے جن میں "لین"، "المنجد"، "مفرداتِ راغب"، "قاموس الوحید" وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے بریکٹوں میں لکھے گئے عربی الفاظ کے معانی اس تحریر کے آخر میں ضرور ملاحظہ کریں۔
ترجمے میں ایک بنیادی تقاضہ سمجھتے ہوئےیہ خاص کوشش کی گئی ہے کہ قرآنِ عظیم جیسے ادبی شہ پارے میں عربی زبان و بیان کا جو اسلوبِ عالی استعمال کیا گیا ہے، اردو میں بھی زبان و بیان کے اسی انداز کی عکاسی کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ کلام ِ الٰہی کے بلند مقام کا حق بقدرِ توفیق ادا کیا جا سکے۔ اور اس مقدس کلام کا درجہ گھٹا کر ایک بازاری اسلوب میں لفظ با لفظ ترجمہ کرنے کے اُس عمومی اور رائج الوقت رحجان کی حوصلہ شکنی کی جائے جس کی ہر فاضل مترجم پیروی کرنے کے جرم میں ملوث ہے،کیونکہ یہ انداز حقیقی معنی کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ عربی زبان اور اندازِ بیان میں تشبیہ، استعارے ، محاورے اور امثال و علامات کی رُو سے بین السطور جو مفہوم پوشیدہ ہے اور سیاق و سباق کو یا تحریر کے تسلسل کو باہم جوڑنے میں جو الفاظ و حروف محذوف ہیں، جنہیں اہلِ زبان کے لیے سمجھنا کچھ مشکل نہیں، وہ سب کچھ ترجمے میں بھی بدرجہ اتم موجود ہوناضروری ہے۔نیزبنیادی معانی کے ساتھ وابستہ رہنا بھی ایک لازمی امر ہے۔ ان نکات کو عمومی طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے تراجم اللہ کے پیغام کو اس کی حقیقی شکل میں بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ تراجم عقلیت پسندوں کے سروں کے اوپر سے گذر جاتے ہیں اور تراجم کے اردو متون کو عموما بے ربط، غیر مسلسل اور عقلیت (Rationality) کے معیار سے کمتر قرار دے دیا جاتا ہے۔
احباب کے علم میں لانے کے لیےیہ بھی عرض ہے کہ اس جزوی ترجمے کی کوشش کے دوران ایک اور حیران کن اور عدیم النظیر دریافت اس عاجز کےحیطہِ ادراک میں وارد ہوئی ۔وہ یہ کہ اگر ترجمے کی مہم درج بالا اہم امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے سر انجام دےدی جائے تو ایک ایسی تخلیق سامنے آ جاتی ہے جسے کسی مزید تشریح یا تفسیر کی قطعا ضرورت پیش نہیں آتی۔ یعنی ترجمہ بذاتہ تشریح و تفسیر کی صورت برآمد ہو جاتا ہے اور بات کو سمجھانے کے لیے کسی بھی مزید مشقت سے بچا لیتا ہے۔ یعنی مفہومِ قرآن، ہدایتِ خداوندی کے عظیم تر مقصود و مطلوب کی روشنی میں، ستاروں کی مانند چمکتا دمکتا واضح ہوتا چلا جاتا ہے اور کلام الٰہی کی کسی صرفی و نحوی تحلیل کی ضرورت سےبے نیاز کر دیتا ہے۔ لہذا قرآنِ حکیم جو اپنے متن کی رُو سے اُولی الباب ، یعنی اصحابِ دانش و بینش اور علماء و فقہا کے لیے نازل کیا گیا ہے، صرف ایک منصوبہ بند اورمتعین ہدف سے لیس معیاری ترجمے کے ذریعے ہرکس و ناکس کے لیے سہل الحصول ہو جاتا ہے۔ درجِ ذیل ترجمہ ،جو ایک تجرباتی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں، اس حقیقت کی خود گواہی دے گا۔ اس ضمن میں رفقاء کی رائے کا شدت سے منتظر رہونگا۔
ترجمہ آیت مبارکہ 183 سے شروع کیا گیا ہے۔ تاہم اگرسیاق و سباق، یا موضوع زیرِ بحث کے حوالے سے کچھ سابقہ تفصیلات کا بنظرِ غائر مختصر اعادہ بھی کر لیا جائے تو گزشتہ سے پیوستہ سلسلہ ذہن نشین ہو کر فہم و ادراک کی رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ہوگا۔ تو آئیے اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔
- - - - - -

دراصل یہاں سابق سے موضوع چلا آ رہا ہے وصیت کرنے کے لازمی فریضے کا [۱۸۰] اور وصیت میں بدنیتی سے تبدیلی لا کر ورثاء کا حق باطل نہ کرنے کی تلقین کا [۱۸۱]۔ حتیٰ کہ وصی کی جانب سے اگر کوئی نا انصافی ہوئی ہو تو اس کو بھی درست کرنے کی ضرورت کا۔ پھر قتل کے قصاص کا [۱۷۹] معاملہ ہے ۔ قصاص میں انصاف کا بھی ذکر ہے اور اس ضمن میں معافی اور احسان کا بھی۔ حد ودسے تجاوز نہ کرنے اور زیادتی نہ کرنے کا بھی ۔ اور یہ بھی واضح فرمایا گیا ہے کہ نیکی اور کشادِ قلبی کی راہ یہ نہیں [۱۷۷] کہ تم منہ کس طرف پھیرتے ہو ، مشرق کی طرف یا مغرب کی جانب، بلکہ اللہ کے وجود پر یقین، اگلے بلند ترمرحلہِ حیات پر یقین اور ملائکہ، کتب اورپیغمبروں پر یقین قائم کر کے اپنا مال ضرورت مندوں پر خرچ کرنا وسعتِ قلبی اور شعوری ذات کے ارتقاء کی راہ ہے۔ نیز صلات ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، عہد کو پورا کرنا اور مشکلات میں استقامت دکھانا موضوع ہے۔ یعنی سابقہ متن سراسر "کردار سازی کے احکامات اور تربیت" پر مبنی ہے۔
پس دوستو، اب آگےآنے والے متن کے بارےمیں یہ مت سوچیں کہ یکدم ایک علیحدہ موضوع شروع کر دیا گیا ہے جس میں اچانک بھوکا رہنے، یعنی جبری خود اذیتی کی نام نہاد رسم کا ذکر آ گیا ہے۔ یقینا آگے بھی ذکر حالات کے ایک مخصوص مرحلے میں کردار سازی ہی کی تربیت کا ہے۔ ویسے بھی قرآن بزبانِ خود مکمل طور پرکردار سازی ہی کے ایک دائمی ضابطے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ایک باکردار جماعت پیدا کیے بغیر الہامی یا دنیاوی کوئی بھی بہتر سے بہترین نظریہ عملی شکل میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ بھوک پیاس سے پرہیز اور جبری خود اذیتی آج تک کردار سازی میں ممد و معاون ہونے یا تقویٰ پیدا کرکے معاشرے میں فلاح و ترقی کا باعث بننے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ نام نہاد "عبادت" تو انسان کی تمام صلاحیتیں نچوڑ کر اسے عضو معطل بنا دیتی ہے۔اور وہ جھنجھلاہٹ ، چڑچڑے پن ، پیاس اور جسمانی کمزوری کا شکار، لبِ دم،صرف کھانے پینےکے وقت کا انتظار کرنے کے قابل رہ جاتا ہے۔ تو آئیے پسِ منظر پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اب آیت مبارکہ ۱۸۳ سے شروع کرتے ہیں۔ آیت در آیت ترجمے کے بعد رواں جاری ترجمہ بھی پیش کر دیا گیا ہے:-

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾

اے اہلِ ایمان، تم سب کے لیے ان تمام امور کے پیشِ نظر جن کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ، ایک مخصوص پرہیز و تربیت [الصِّيَامُ] کا دور لازم کر دیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی نظام ہے جیسا کہ تم سے قبل گزر جانے والی اقوام کے لیے بھی لازم کر دیا گیا تھا تاکہ تم سب اللہ کی ہدایات کی نگہداشت کے ذریعے اپنی شعوری ذات یا خودی کا تحفظ کرسکو۔

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٤﴾

کیونکہ یہ تمہارے لیے ایک عظیم مقصد کی تیاریوں کے دن [أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ] ہیں لہذا تم میں سے وہ جو ابھی اپنے ایمان و ایقان کے بارے میں کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہوں [مَّرِ‌يضًا]، یا ابھی جستجوئے حق کے سفر کے درمیان میں ہوں [عَلَىٰ سَفَرٍ] تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تیاری آنے والے دنوں کے لیے موخر کر دیں۔ نیز وہ لوگ جو کسی بھی سبب سے اس فریضے کو بہ مشقت یا بمشکل انجام دے سکتے ہوں[يُطِيقُونَهُ] ہوں تو ان کے لیے واجب ہے کہ اس تقصیر یا کوتاہی کے بدل یا تلافی کے طور پر[فِدْيَةٌ]مساکین کی ضروریات پوری کریں کیونکہ جو بھی مال و دولت رضاکارانہ طور پر عطیہ کرے تو یہ اس کے حق میں بھلائی یعنی اس کی شعوری ذات کے ارتقاء کا باعث ہوگا۔ اور اگر تم سب ان مخصوص امور میں پرہیز کی راہ اختیار کروگے [تَصُومُوا] تو تم سب کے لیے اس میں بھلائی ہے اگر تم یہ حقیقت اچھی طرح جان لو۔

شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۗ يُرِ‌يدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‌ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿١٨٥﴾

یہ جنگ و جدل اور ظلم و استحصال کی گرم بازاری [رَ‌مَضَانَ ] کی ایک انتہائی مذموم عمومی صورتِ حال [شَهْرُ‌] تھی جس کے پیشِ نظر قرآن جیسی راہنمائی کی کتاب نازل کی گئی، جو دراصل انسانوں کے لیے ایک دائمی ضابطہِ کردار [هُدًى] کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ اللہ کی ہدایات کو کھول کر بیان کرتی اور خیر و شر میں فرق کی پہچان کراتی ہے[الْفُرْ‌قَانِ]۔ اس لیے لازم ہے کہ تم سب میں سے جو بھی ایسی جانی بوجھی مذموم صورت حال [الشَّهْرَ] کا مشاہدہ یا سامنا کرے تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے [فَلْيَصُمْهُ ]۔اور پھر ایک بار یہ خیال رہے کہ تم میں سے جو بھی ابھی اپنے ایمان کے بارے میں شبہ یا کمزوری کا شکار ہو(مَرِ‌يضًا )، یا ابھی تعلم وتلاش کے سفر میں ہو تو وہ اس مقدس مشن کی انجام دہی کے لیےاپنی تیاری (فَعِدَّةٌ )بعد ازاں مکمل کر لے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہارے ساتھ یعنی تمہارے لیے آسانی و فراوانی چاہتا ہے ،تنگی یا مشکلات نہیں ۔ اور وہ یہ چاہتا ہے کہ تم اپنی تیاری/استعداد بہر حال پوری کر لو تاکہ اللہ کی کبریائی اُن خطوط پر قائم کر سکو جیسے کہ اللہ نے تمہیں ہدایات دی ہیں۔ اوراللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تمہاری کوششیں بار آور ہوں،

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ ﴿١٨٦﴾

تاکہ ایک ایسی روشن مثالی صورتِ حال وجود میں آ جائے کہ اگر میرا کوئی بندہ تم سے میرے بارے میں پوچھے تو تم کہ سکو کہ میں قریب ہی موجود ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔تاکہ وہ لوگ بھی موجود صورتِ حال کا مشاہدہ کر کے میری طرف متوجہ ہوجائیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں تاکہ وہ بھی ہدایت پا جائیں/راہِ راست پر آجائیں۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّ‌فَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُ‌وهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‌ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَ‌بُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾

جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کو[إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ] بدزبانی اور توہین کا ہدف بناءو [الرَّ‌فَثُ]، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو [تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو [بَاشِرُ‌وهُنَّ] اور اتنا ہی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائزکیا ہے، یعنی اُن کے حقوق اپنے فائدے کے لیے غصب نہ کرو۔ اور علم حاصل کرو [وَكُلُوا] اور اس کے مطابق ایسا مشرب اختیار کرو [وَاشْرَ‌بُوا] کہ وہ تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح [الْفَجْرِ] میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر [الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام [الصِّيَامَ] ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک [إِلَى اللَّيْلِ ] پھیلا دو۔ جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی [الْمَسَاجِد]کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے [عَاكِفُونَ ]کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ ، یعنی معاشرے کے کمزور طبقات بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾

نیز پھر تاکید ہے کہ اپنے ہی لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے مال و دولت ناحق طور پر حاصل نہ کرو۔ نہ ہی اس غرض سے حکام تک رسائی حاصل کرو کہ اُن کے ذریعے لوگوں کے اموال کا کچھ حصہ جانتے بوجھتے ہوئے مجرمانہ انداز میں حاصل کر لو۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾

وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِ‌هَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾

نیز صرف ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔یعنی جنگ صرف دفاع کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس مہم میں بھی حدود سے تجاوز مت کرو کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِ‌جُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَ‌جُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٩١﴾

اور ایسے جارحیت پسندوں کو جہاں پاو انہیں مارو اور نکال باہر کرو ایسے جیسے کہ انہوں نےتمہیں نکال باہر کیا تھا۔ دراصل یہ سازشی/ فسادی ہیں اور فساد یعنی بد امنی پھیلانے کا عمل قتل سے بد تر ہے۔ اور ان لوگوں سے حرمت والے احکامات کےاطلاق کی صورت میں[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] جو کسی بھی معاہدے کی رُو سے جاری ہوئے ہوں،اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ خود اُن پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تم سے جنگ پر نہ اُتر آئیں۔ اگر وہ جنگ پر اُتر آئیں تو تب تم بھی جنگ کرو ۔ کافروں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔

فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٢﴾

لیکن اگروہ جنگ سے باز آ جائیں تو رُک جاو کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کی ذات تحفظ اور رحمت عطا کرنے پر مائل ہو جاتی ہے۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾

ان لوگوں سےجنگ صرف اسی وقت تک جاری رکھو جب تک کہ فساد ختم ہو جائے اور نظامِ زندگی اللہ کی راہنمائی کے مطابق چلنے لگے۔ اس لیے اگر وہ فتنہ و فساد ختم کر دیں تو پھر کہیں کوئی زیادتی / سختی نہ ہو سوائے ظالموں پر۔

الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ بِالشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ وَالْحُرُ‌مَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿١٩٤﴾

اگر دشمن تم پر کچھ ممنوعہ شرائط کی صورتِ حال [الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ] نافذ کرے تو اس کا جواب تمہاری جانب سے بھی اُسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق ہے اور یہ اصول مسلمہ ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر کفارہ یاقصاص عائد ہوتا ہے۔ پس اصول یہ ہے کہ اس ضمن میں جو کوئی تمہارے خلاف اپنی حد سے بڑھے تو تم بھی اسی قدر حدود سے بڑھو۔ ساتھ ساتھ اللہ کی گرفت کا خوف دامن گیر رہے اور یہ علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾

اور کھلا رکھو اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں لیکن یہ بھی خیال رہے کہ کہیں خود کو اپنے ہی ہاتھوں بے وسائل کر کے بربادنہ کر لو۔ ساتھی انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں سے محبت کرتا ہےجوخود اس کی عظیم صفتِ احسان اپنی ذات کے اندر سے منعکس کرتے ہیں۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَ‌ةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے(أُحْصِرْ‌تُمْ) تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو (وَلَا تَحْلِقُوا )جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد(الْهَدْيُ) پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو(مَّرِ‌يضًا )، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو(أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ) تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری(تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ) اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہو(إِلَى الْحَجِّ )تو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول(الْهَدْيِ) میسر آ گئے ہوں(اسْتَيْسَر) وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں(فِي الْحَجِّ) تین ادوار کی(ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ) پرہیزگاری کی تربیت (فَصِيَامُ ) حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہو(إِذَا رَ‌جَعْتُمْ )یعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِ‌ي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔

الْحَجُّ أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَ‌ضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَ‌فَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ‌ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾

اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے تحقیق و حجت کرنے [الْحَجُّ] کا طریقہ کار بہت معروف ہے [أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ] اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے حجت و تحقیق خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت/بحث و تحقیق کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ اختیار کرو۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَ‌فَاتٍ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ‌ الْحَرَ‌امِ ۖ وَاذْكُرُ‌وهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾

اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے [َعرَ‌فَاتٍ] تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو [أَفَضْتُم] تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں رہےتھے۔

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُ‌وا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٩﴾

بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو پھیلا دو جس کیفیت میں کہ انسان پھیلے ہوئے، زمین پرآزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَذِكْرِ‌كُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً‌ا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾

پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف /مشاہیرکو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی سب کچھ دے دیا جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿٢٠١﴾ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّـهُ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾

مگر انسانوں میں ایسے راست سوچ کے مالک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی بہتری عطا کر اور حیاتِ آخرت میں بھی، اور اس طرح ہمیں حیاتِ آخرت سے محرومی کے اُس عذاب سے بچا لے جو انسان کی خرمنِ ہستی کوآگ کی طرح پیہم جلاتا رہیگا۔ دراصل یہی وہ انسان ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کے نصیب میں سب کچھ ہوگا ،کیونکہ اللہ کا احتساب بہت سرعت سےرُو بہ عمل ہوتا ہے۔

حج کے موضوع پر ہی ایک سپلیمنٹ:
حج الاکبر کیا ہے ؟
آپ نے حج الاکبر کے متعلق سوال پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ سوال کے پیچھے چھپی ہوئی آپ کی اصل الجھن میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حج کے نئے تحقیقی معانی کے بارے میں اب بھی ، وراثت میں ملے ہوئے عقائد کے باعث، شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں ۔ اسی لیے آپ نے یا دیگر غیر مطمئن یا غیر متفق ساتھیوں نے یہ سوال اُٹحایا ہے ۔ بہر حال میرا فرضِ منصبی نکتہ چینی نہیں بلکہ ایک سیر حاصل جواب دینا ہے، اور میں اپنا یہ فرض بحسن و خوبی ادا کروں گا۔
جواب: یہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴ کا معاملہ ہے، جو یہاں مندرج کر دی جاتی ہیں :
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ
اس کا سیر حاصل ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں سیاق و سباق کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے جو مشرکین کے ساتھ عہد ناموں سے متعلق ہے ،اور الفاظ کے حقیقی معانی کا بھی:-
اللہ اور رسول کی جانب سے تمام انسانیت کے لیے، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع پر یہ اعلان عام کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔
اور اب آخر میں ایک بار پھر تمام ترجمہ و تشریح ایک رواں اردومتن کی صورت میں :

اے اہلِ ایمان، تم سب کے لیے ان تمام امور کے پیشِ نظر جن کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ، ایک مخصوص پرہیز و تربیت کا نظام لازم کر دیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی نظام ہے جیسا کہ تم سے قبل گزر جانے والی اقوام کے لیے بھی لازم کر دیا گیا تھا تاکہ تم سب اللہ کی ہدایات کی نگہداشت کےذریعےاپنی شعوری ذات کا تحفظ کر سکو۔
کیونکہ یہ تمہارے لیے ایک عظیم مقصد کی تیاریوں کے دن ہیں لہذا تم میں سے وہ جو ابھی اپنے ایمان و ایقان کے بارے میں کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہوں ، یا ابھی جستجوئے حق کے سفر کے درمیان میں ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تیاری دیگر دنوں کے لیے موخر کر دیں۔ وہ لوگ جو کسی بھی سبب سے اس فریضے کو بہ مشقت یا بمشکل انجام دے سکتے ہوںہوں تو ان کے لیے واجب ہے کہ اس تقصیر یا کوتاہی کے بدل یا تلافی کے طور پرمساکین کی ضروریات پوری کریں کیونکہ جو بھی مال و دولت رضاکارانہ طور پر عطیہ کرے تو یہ اس کے حق میں بھلائی یعنی اس کی شعوری ذات کے ارتقاء کا باعث ہوگا۔ اور اگر تم سب ان مخصوص امور میں پرہیز کی راہ اختیار کروگے تو تم سب کے لیے اس میں بھلائی ہے اگر تم یہ حقیقت اچھی طرح جان لو۔

یہ جنگ و جدل اور ظلم و استحصال کی گرم بازاری کی ایک انتہائی مذموم عمومی صورتِ حال تھی جس کے پیشِ نظر قرآن جیسی راہنمائی کی کتاب نازل کی گئی، جو دراصل انسانوں کے لیے ایک دائمی ضابطہِ کردار کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ اللہ کی ہدایات کو کھول کر بیان کرتی اور خیر و شر میں فرق کی پہچان کراتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ تم سب میں سے جو بھی ایسی جانی بوجھی مذموم صورت حال کا مشاہدہ یا سامنا کرے تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے ۔اور پھر ایک بار یہ خیال رہے کہ تم میں سے جو بھی ابھی اپنے ایمان کے بارے میں شبہ یا کمزوری کا شکار ہو، یا ابھی تلاش کے سفر میں ہو تو وہ اس مقدس مشن کی انجام دہی کے لیےاپنی تیاری بعد ازاں مکمل کر لے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہارے ساتھ یعنی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے ،تنگی یا مشکلات نہیں ۔ اور وہ یہ چاہتا ہے کہ تم اپنی تیاری/استعداد بہر حال پوری کر لو تاکہ اللہ کی کبریائی اُن خطوط پر قائم کر سکو جیسے کہ اللہ نے تمہیں ہدایات دی ہیں۔ اوراللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تمہاری کوششیں بار آور ہوں،
تاکہ ایک ایسی روشن مثالی صورتِ حال وجود میں آ جائے کہ اگر میرا کوئی بندہ تم سے میرے بارے میں پوچھے تو تم کہ سکو کہ میں قریب ہی موجود ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔تاکہ دیگر لوگ بھی موجود صورتِ حال کا مشاہدہ کر کے میری طرف متوجہ ہوجائیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں تاکہ وہ بھی ہدایت پا جائیں/راہِ راست پر آجائیں۔

جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کوبدزبانی اور توہین کا ہدف بناءو، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو ۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو اور اتنا ہی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائزکیا ہے، یعنی اُن کے حقوق اپنے فائدے کے لیے غصب نہ کرو۔ اور علم حاصل کرو اور اس کے مطابق ایسا مشرب اختیار کرو کہ وہ تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر، یعنی نیکی اور بدی میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک پھیلا دو۔ جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ ، یعنی معاشرے کے کمزور طبقات بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔

نیز پھر تاکید ہے کہ اپنے ہی لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے مال و دولت خیانت کرتے ہوئے ناحق طور پر حاصل نہ کرو۔ نہ ہی اس غرض سے حکام تک رسائی حاصل کرو کہ اُن کے ذریعے لوگوں کے اموال کا کچھ حصہ جانتے بوجھتے ہوئے مجرمانہ انداز میں حاصل کر لو۔

وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور تحقیق و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے ۔اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں تک چور دروازوں سے یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔
نیز صرف ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔یعنی جنگ صرف دفاع کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس مہم میں بھی حدود سے تجاوز مت کرو کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔
اور ایسےجارحیت پسندوں کو جہاں پاو انہیں مارو اور نکال باہر کرو ایسے جیسے کہ انہوں نےتمہیں نکال باہر کیا تھا۔ دراصل یہ سازشی/ فسادی ہیں اور فساد یعنی بد امنی پھیلانے کا عمل قتل سے بد تر ہے۔ اور ان لوگوں سے حرمت والے احکامات کےاطلاق کی صورت میں[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] جو کسی بھی معاہدے کی رُو سے جاری ہوئے ہوں،اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک یہ خود اُن پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تم سے جنگ پر نہ اُتر آئیں۔ اگر وہ جنگ پر اُتر آئیں تو تب تم بھی جنگ کرو ۔کافروں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔
لیکن اگروہ جنگ سے باز آ جائیں تو رُک جاو کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کی ذات تحفظ اور رحمت عطا کرنے پر مائل ہو جاتی ہے۔
ان لوگوں سےجنگ صرف اسی وقت تک جاری رکھو جب تک کہ فساد ختم ہو جائے اور نظامِ زندگی اللہ کی راہنمائی کے مطابق چلنے لگے۔ اس لیے اگر وہ فتنہ و فساد ختم کر دیں تو پھر کہیں کوئی زیادتی / سختی نہ ہو سوائے ظالموں پر۔
اگر دشمن تم پر کچھ ممنوعہ شرائط کی صورتِ حال نافذ کرے تو اس کا جواب تمہاری جانب سے بھی اُسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق ہے۔ اور یہ اصول مسلمہ ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر کفارہ یاقصاص عائد ہوتا ہے۔ پس اس ضمن جو کوئی تمہارے خلاف اپنی حد سے بڑھے تو تم بھی اسی قدر حدود سے بڑھو۔ ساتھ ساتھ اللہ کی گرفت کا خوف دامن گیر رہے اور یہ علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

اور کھلا رکھو اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں لیکن یہ بھی خیال رہے کہ کہیں خود کو اپنے ہی ہاتھوں بے وسائل کر کے بربادنہ کر لو۔ ساتھی انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں سے محبت کرتا ہےجوخود اس کی عظیم صفتِ احسان اپنی ذات کے اندر سے منعکس کرتے ہیں۔

نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و تکرارمکمل کرو اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو ۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں ۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے ،یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور حجت تمام کرنے تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ جائیں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب الادا احکامات کو تسلیم کرنے یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔

اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے دلیل و مباحث کرنے کا طریقہ کار بہت معروف ہے اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے اتمامِ حجت خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت یعنی دلائل و مباحث کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ یعنی تحفظِ ذات کا راستہ اختیار کرو۔
اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں تھے۔
بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو اس درجے تک پھیلا دو جیسے کہ انسان زمین پر پھیلے ہوئے آزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں ،اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف کو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی سب کچھ دے دیا جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

مگر انسانوں میں ایسے راست سوچ کے مالک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی بہتری عطا کر اور حیاتِ آخرت میں بھی، اور اس طرح ہمیں حیاتِ آخرت سے محرومی کے اُس عذاب سے بچا لے جو انسان کی خرمنِ ہستی کوآگ کی طرح پیہم جلاتا رہیگا۔ دراصل یہی وہ انسان ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کے نصیب میں سب کچھ ہوگا ،کیونکہ اللہ کا احتساب بہت سرعت سےرُو بہ عمل ہوتا ہے۔
ختم شد
اُن اہم الفاظ کے معانی جو سابقہ متن میں بریکٹوں میں نشان زد کیے گئے ہیں :-
[الصِّيَامُ] : صیام ۔ /ساکت بغیر حرکت کھڑے ہو جانا/بچنا/پرہیز کرنا/اجتناب کرنا۔ abstinence
معرف باللام ہونے کی جہت سے جب یہ قرآنی اصطلاح " الصیام" بنتی ہے تو اس کا معنی ہے: ایک خاص پیرائے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کرنا، (Lane)۔ ایک مخصوص پرہیز و اجتناب کی تربیت کا نظام ۔
[أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ] : تیاری preparation کے دن یا دور ۔
[مَّرِ‌يضًا] : مریض۔ کمزوری میں، بیمارِی میں، روگ میں، نقص، تقصیر، کوتاہی میں ہونا۔ وہ جس کے قلب میں دین و ایمان میں نقص یا شبہ ہو [ الراغب]
[ سَفَرٍ] : زمین کا سفر، علم و عرفان کے حصول کا سفر، دریافت اور ترقی کے آسمان پر چمکنا/جگمگانا/واضح ہونا/جلوہ گر ہونا/نتیجہ نکالنا۔ گھر میں جھاڑو دینا اور کوڑا کرکٹ صاف کرنا۔ اسفار: وہ کتب جو حقائق بیان کرتی ہیں
To unveil, uncover, to shine, glow, to yield, achieve, bring to end result, to rise.
[فِدْيَةٌ] : compensation، بدل، تلافی، مال دے کر خود کو چھڑانا، کسی کا زرِ فدیہ ادا کرنا۔
[تَصُومُوا] : تم بچتے ہو، تم اجتناب یا پرہیز کرتے ہو، تم ساکت کھڑے ہوتے ہو۔you abstain, avoid, you serve
God in a particular way. ، ایک خاص پیرائے میں اللہ کی تابعداری کرنا۔
[رَ‌مَضَانَ ] : ایسی گرمی جو جلا دے، سخت گرمی کی کیفیت، تلواروں کو پتھر پر رگڑ کر تیز کرنا، burning heat ۔
[شَهْرُ‌]: کوئی مشہور صورتِ حال، ایک برائی، غلط کام، بڑا/بھاری/مشہور/بدنام/عمومی/ظاہر/جانی بوجھی/مہینہ۔
/Notorious/ Known/ manifest/ public
[هُدًى] : راہنمائی، ہدایت، مصدری شکل میں ایک دائمی ضابطہِ سیرت و کردار
[الْفُرْ‌قَانِ]: صحیح و غلط میں فرق کرنے والا؛ معرف باللام کی جہت سے قرآن کی صفتِ فرقانیت ۔
[الشَّهْرَ]: مخصوص عمومی مشہور یا بدنام صورتِ حال/مہینہ/وجہ شہرت
[فَلْيَصُمْهُ ] : تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے
[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] : پرہیز اور تربیت کے نظام کا فقدان /تاریکی /غیاب؛ الصیام: ایک مخصوص پرہیز و تربیت۔
[نِسَائِكُمْ ] : تمہارا کمزور طبقہ
[الرَّ‌فَثُ] : بدزبانی اور توہین سے پیش آنا
[تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]: اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرنا، ان کے حقوق غصب کرنا۔
[بَاشِرُ‌وهُنَّ]: راست تعلق رکھنا۔ اچھی خبر دینا۔
[وَكُلُوا] : کھانا، حاصل کرنا
[وَاشْرَ‌بُوا] : مشرب ، طریق کار، مسلک اختیار کرنا
[الْفَجْرِ] : فجر: صبح ، صبح کی روشنی۔ الفجر: دین کی روشن صبح
[الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] : سیاہ دھاگے سے سفید دھاگے کی تمیز، یعنی خیر اور شر، نیکی اور بدی میں فرق۔
[الصِّيَامَ] : قرآنی خطوط کے مطابق پرہیز اور تربیت کا نظام ؛ معرف باللام کی وجہ سے ایک مخصوص پرہیز و اجتناب ۔
[إِلَى اللَّيْلِ ]: بدی کے تمام اندھیروں تک ؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے عام رات نہیں بلکہ ایک خاص تاریکی کی کیفیت۔
[الْمَسَاجِد] : احکاماتِ الٰہی ، احکامات اور ان کی تعمیل، معرف باللام ہونے کی جہت سے مخصوص احکام۔
[عَاكِفُونَ ] : غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے والے، علیحدگی میں بیٹھنے والے۔
[الْأَهِلَّةِ]: پکار، اعلانات؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے دین اللہ سے متعلق مخصوص اصولوں کی بلند آواز میں تشہیر۔
[مَوَاقِيتُ]: واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔
[الْبُيُوتَ]: معرف باللام؛ اشراف، اعلیٰ خاندان/حکمران خاندان/ادارے،عبادت گاہیں؛ عمومی معنی بیت کی جمع،وغیرہ
[ظُهُورِ‌هَا]: بیک ڈور سے یعنی چور دروازے سے
[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ]: مقدس، محترم، واجب التعمیل/پابندی والے احکاماتِ /معاہدے
[الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ]: پابندیوں لاگو ہونے کی معلوم کیفیت یا حالات یا شرائط
[لِلَّـهِ] : اللہ کی منشاء پوری کرنے کے لیے
[وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ]: حج: حجت تمام کرنا؛ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔
[الْعُمْرَ‌ةَ]: عمرہ: زندگی/عمر گذارنا؛ العمرۃ: ایک خاص نظریےکی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارنا ۔
[فَفِدْيَةٌ]: بدل /تلافی
[ صِيَامٍ ] : پرہیز /اجتناب /بچنے/رکنےکا نظام وتربیت ،
[صَدَقَةٍ ]: اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھانا
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[ نُسُكٍ]: اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious.
[الْحَجُّ]: دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت
[أَشْهُرٌ‌ ]: بہت معروف طریق کار ، best known, apparent, conspicuous, manifest, notorious
[َعرَ‌فَاتٍ] : پہچاننا، تسلیم کرنا، اقرار کرنا، سوسائٹی کا رسم و رواج، شائستہ، صحیح، اعتراف، رکنے کی جگہ۔
[أَفَیضْو] : بھر جانا، بھر کر باہر گرنا، کھل جانا، واپس آنا، انڈیلنا، پھیلانا، آزادی سے بہنا، بھیڑ کیساتھ ایک سے دوسری جگہ جانا۔
[الصِّيَامُ] : صیام ۔ /ساکت بغیر حرکت کھڑے ہو جانا/بچنا/پرہیز کرنا/اجتناب کرنا۔ abstinence
معرف باللام ہونے کی جہت سے جب یہ قرآنی اصطلاح " الصیام" بنتی ہے تو اس کا معنی ہے: ایک خاص پیرائے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کرنا، (Lane)۔ ایک مخصوص پرہیز و اجتناب کی تربیت کا نظام ۔
[تَصُومُوا] : تم بچتے ہو، تم اجتناب یا پرہیز کرتے ہو، تم ساکت کھڑے ہوتے ہو۔you abstain, avoid, you serve
God in a particular way. ، ایک خاص پیرائے میں اللہ کی تابعداری کرنا۔
[رَ‌مَضَانَ ] : ایسی گرمی جو جلا دے، سخت گرمی کی کیفیت، تلواروں کو پتھر پر رگڑ کر تیز کرنا، burning heat ۔
[شَهْرُ‌]: کوئی مشہور صورتِ حال، ایک برائی، غلط کام، بڑا/بھاری/مشہور/بدنام/عمومی/ظاہر/جانی بوجھی/مہینہ۔
/Notorious/ Known/ manifest/ public
[فَلْيَصُمْهُ ] : تو وہ اس سے اجتناب کرے/بچے
[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] : پرہیز اور تربیت کے نظام کا فقدان /تاریکی /غیاب؛ الصیام: ایک مخصوص پرہیز و تربیت۔

"صوم" ، "صیام" اور "الصیام" کا غلط ترجمہ اور اس سے پیدا شدہ وسیع پیمانے کی گمراہی :

آئیے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لفظ بہ لفظ غور سے پڑھتے ہیں ۔ فرمایا ہے : کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون"۔
غور فرمائیے، ،،،،،،الصیام تم پر اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تمہارے قبل کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،،،،،تاکہ،،،،،،،،تم سب،،،،،،، "پرہیز گار"،،،،،،،،،، ہو جاو ۔
بالکل صاف طور سے فرمایا گیا کہ " الصیام" کا مقصد "پرہیز گاری" یعنی تقویٰ ہے ۔ یا کچھ ایسا کام ہے جو تقویٰ یعنی پرہیز گاری کے مترادف معنی دیتا اور اسی متعین مقصد کی جانب لے جاتا ہے ۔
اس سے یہ بھی کلیر ہو گیا کہ الصیام کا لغوی معنی بھی کچھ ایسا عمل ہی ہونا چاہیئے جس سے پرہیز گاری پیدا ہوتی ہے ۔ یعنی الصیام دراصل پرہیز گاری کا ایک تربیتی نظام یا کورس ہے ۔
پھر ہم جب صوم کے مادے کے معنی کی جانب جاتے ہیں تو واضح طور پر لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس میں : بچنا،،،اجتناب کرنا،،،،رک جانا،،،،پرہیز کرنا ،،،، پایا جاتا ہے ۔ [Lane’s Lexicon، مفردات راغب، قاموس الوحید، وغیرہ وغیرہ]
پس بالکل واضح ہے کہ "صیام " وہ تربیتی نظام یا کورس ہے جس سے انسان میں "پرہیز گاری" پیدا ہوتی ہے ۔
جب یہاں "رک جانے" یا "پرہیز/اجتناب کرنے" کے ساتھ کھانے پینے کی قماش کا کوئی تناظر ہی ملحق نہیں پایا جاتا ، تو ہم کس بنا پر یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ صوم یا صیام کا معنی "کھانے پینے کا روزہ" ہے ؟؟؟

آپ کتنی بھی کوشش کر لیں، صوم یا صیام کے معنی میں کھانے پینے سے پرہیز آپ کو نہیں ملے گا جب تک کہ آپ آنکھیں بند کر کے روایتی تراجم و تفاسیر کی پیروی شروع نہ کر دیں ۔
اور یہ بھی مشاہدہِ عام ہے کہ بھو ک و پیاس پرہیز گاری تو کیا پیدا کرے گی،،،، اس سے تو نہ صرف کھانے کی ہوس بڑھتی ہے، بلکہ انسان کوئی بھی محنت و مشقت کا کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا ۔ صرف اور صرف،،،،،مذہبی جنون کی کارفرمائی کے باعث،،،،،،،خود اذیتی کے ایک ایسے عمل سے گذرتا ہے جو اس کی تمامتر کسبی اور تخلیقی صلاحیتیں سلب کر لیتا ہے ۔

اب مزید آگے آئیے، تو دیکھتے ہیں کہ درجِ الٰہی فرمان اپنے مسخ شدہ روایتی ترجمے کی عنایت سے کس طرح ایک جھوٹے اور غیر تاریخی بیان کی صورت اختیار کر لیتا ہے [نعوذ باللہ] :
"الصیام [روزے] تم پر اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تمہارے قبل کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،،،،،تاکہ،،،،،،،،تم سب،،،،،،، "پرہیز گار"،،،،،،،،،، ہو جاو ۔ "
تاریخ اور تمام صحیفے اس پر شاہد ہیں کہ جو روزے صیام کے نام پر مسلمان پر تھوپے گئے ہیں، وہ آج تک کسی بھی قوم پر نہ تھوپے گئے، نہ ہی کوئی قوم اس خود اذیتی پر عمل کرتی نظر آتی ہے ۔
اگر آپ کے مشاہدے میں کبھی آیا ہو کہ پچھلی قومیں بعینہی ایسا ہی کوئی فریضہ ادا کر رہی ہیں، تو ضرور حوالہ دیں ۔
فلہٰذا فرمانِ الٰہی تب ہی سچ اور حقیقت کے معیار پر پورا اترے گا جب اس میں شامل لفظ "الصیام" کے درست معانی کا اس ترجمے پر اطلاق کیا جائیگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی ایک ایسا تربیتی کورس یا نظام جس سے انسان میں برائیوں سے اجتناب، رکاوٹ، اور پرہیز گاری [تقویٰ] پیدا ہو جائے ۔ یہی اس حکم کا مقصد بھی ہے جو صاف طور پر بیان کیا گیا ہے ۔