اورنگزیب یوسفزئی اکتوبر ۲۰۱۳

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر3


حلال و حرام

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
حلال و حرام خوراک کا موضوع اسلامک تھیالوجی، یعنی اسلامی الٰہیات سے منسلک علوم میں ایک اساسی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس پر متقدمین اور متاخرین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں دل کھول کر بحثیں کی ہیں ۔ فقہی قوانین وضع کیے گئے اور فتاویٰ صادر کیے گئے ہیں۔
البتہ اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں قرآنِ حکیم دراصل کردار سازی کا ایک دائمی ضابطہ {ھدی- Hudan }ہے اور انسانی اخلاقیات کا ایک ایسا تربیتی نظام مہیا کرتا ہے کہ جس سے انسان اس قابل ہو جائے کہ اپنے طرز معاشرت یعنی سوسائٹی کا نظم و نسق، رہن سہن، لباس و آرائش اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی خورد و نوش سے متعلق ۔ ۔ ۔ ۔خود اختیاری کے ساتھ شعوری فیصلے کر سکے۔
پس حلال و حرام کے ضمن میں جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ ہمارے روایتی تراجمِ قرآن اپنی مخصوص غیرعقلی اور غیر منطقی ڈگر پر چلتے ہوئےہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کردار سازی کے اس الہامی ضابطے میں اللہ تعالیٰ ہمارے کردار کی تعمیر سے زیادہ ہمارے کھانے پینے کی فکر فرماتا ہے اور ہمیں واضح اورمتعین انداز میں ، نیک و بد اعمال و افعال کو حلال و حرام قرار دینے کےساتھ ساتھ، فلاں قسم کی خوراک کھانے کی اجازت دیتا اور فلاں نوعیت کی اشیاء کھانے سے منع فرماتا ہے ۔گویا کہ خوراک پر پابندیاں لگانا یا اس کی درجہ بندی کرناکوئی کردار سازی میں ممد عمل ہے جس کے لیے حتمی انداز میں احکامات جاری کیے جا نے ضروری ہیں ۔
لیکن جب مشاہدہِ حق کی گفتگو ہورہی ہو تو ہمارےحیطہِ علم میں ایسے حقائق آتے ہیں کہ وہ اشیائے خوراک جوقرآنی احکام کے حوالے سے ہم مسلمانوں کو ممنوع باور کرائی جاتی ہیں وہ دیگر اقوام میں سکہِ رائج الوقت کی مانند بالعموم زیرِ استعمال ہیں ۔۔۔۔ لہذا۔۔۔۔۔ لامحالہ ذہن میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ :
۱] اگر ہمارے خالق و مالک نے تمام اقوام میں اپنے پیغامبر اپنی ہدایت کے ساتھ مبعوث کیے تھے، جیسا کہ قرآن میں حتمی طور پر بیان کیا گیا ہے، تو پھر اللہ کا کلمہ اور سنت تمام اقوام کے لیے یکساں کیو ں نہیں ہے؟ کچھ پابندیاں از قسم خوراک صرف اور صرف مسلمانوں ہی کے لیے کیوں؟ جبکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے طریقہ کار و قوانین میں کسی کے لیے تبدیلی نہیں لاتا، اس لیے وہ پوری نسلِ انسانی پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔
۲] اگر ہمیں حرام اشیاء کھانے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، تو پھر وہی اشیاء نسل در نسل دیگر مذہبی گروہ بلا کسی نقصان دہ اثرات کیسے استعمال کرتے آ رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کا صحتِ عامہ کا معیار ہم سے بہر حال بہتر ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟،،،،،،، اور۔ ۔ ۔
۳] اگر حرام اور ممنوعہ اشیاء کے استعمال سے کوئی روحانی یا اخلاقی تنزل وقوع پذیر ہونے کا خدشہ ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پابندیوں پر سختی سے عمل پیراء ہونے کے باوجود صرف مسلمان ہی کیوں سب سے زیادہ روحانی اور اخلاقی زوال کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں معاشی ، معاشرتی اورعسکری زوال کا بھی سامنا ہے، جو کہ ہر دیکھنے والی آنکھ بآسانی دیکھ سکتی ہے ؟
کیونکہ ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی شافی و کافی جواب نہیں ہے اس لیے اب آپ یہ سوچنے پرخود کو مجبور پائیں گے کہ جن اشیاء کو خوراک کے طور پر ہمارے روایتی تراجم حرام و حلال قرار دیتے ہیں، کیا وہ واقعی خوراک کی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ، ، ،،،، یا ،،،،،تراجم کرتے وقت کسی خاص ذہنیت کی کارفرمائی عمل میں آئی ہے،،،،، اور اعلیٰ کردار کی تعمیر کی بجائے کچھ خاص احکام کو خوراک پر پابندیاں لگانے کی طرف دانستہ موڑ دیا گیا ہے۔ اور۔ ۔ ۔ ۔کہیں ایسا تو نہیں ،،،کہ لفظ بہ لفظ آسانی کے ساتھ ترجمہ کردینےکی خواہش ، علت و بدعت نے حقیقی معانی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہو ،جیسا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں عبارت کے مافی الضمیر کی منتقلی کےسطحی اور غیر فنی عمل میں ایک لازمی امر ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس ماخذ تحریر کے انداز، اسلوب اور معیار کا بخوبی ادراک کیا جانا اور ترجمہ اس ہی کی بعینہی مطابقت میں کیا جانا نہ صرف ایک مسلمہ ادبی اور علمی تقاضا ہے بلکہ کامل درستگی کے ساتھ مفہوم کی منتقلی کے لیےایک لازمی امر ہے۔
تو آئیے کھانے پینے کے بارے میں نازل ہوئی تمام، یا بیشتر آیات کے ترجمے کی ایک خالص علمی و عقلی کوشش کر دیکھتے ہیں اس امید میں کہ شاید اس محنت شاقہ کے نتیجے میں ابہام دور ہو جائیں اور حقیقتِ حال کھل کر سامنے آ جائے۔اس ضمن میں قربانی کی نام نہاد رسم بھی زیرِ بحث آئے گی جس کا خوراک سے تعلق ہے اور بالعموم اسے ایک ایسے الٰہ کی خوشنودی کا ذریعہ باور کرایا جاتا ہے جو ہر گھر، گلی کوچے، محلے اور شہر میں اپنی ہی مخلوق کا کھلے عام کثرت سے خون بہانا پسند فرماتا ہے۔اور یہ ایک ایسا منظر ہوتا ہے جس سے بچے اور خواتین خوفزدہ ہو کر دور چلے جاتے ہیں اور دیگر نادان سفاکی اور شقاوتِ قلبی کا درس حاصل کرتے ہیں۔
زیرِ نظر تراجم سے یہ بدرجہ اتم ثابت ہو جائیگا کہ حلال و حرام کا ذکر فرماتے ہوئے رب ذو الجلال نے کہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ یہ شکایت کی ہے کہ میں تو اخلاقیات اور سیرت کے بارے میں حلال و حرام کا معیار مقرر کرتا ہوں جب کہ تم مجھ پر افترا باندھ کر مادی اشیائے رزق کو ، بغیر کسی اختیار کے، حرام و حلال قرار دے دیتے ہو۔
قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور الہامی صحائف کے حتمی استعاراتی اسلوب کی رعایت سے، زیر نظر ترجمہ اُسی خاص معیار کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دانشورانِ قرآن سے درخواست ہے کہ کسی بھی خطاء کو نوٹ کرنے کی صورت میں فورا سند کے ساتھ رابطہ فرمائیں تاکہ مشترکہ رائے سے تصحیح کی کوشش کی جا سکے۔ اس ترجمے کی کوشش میں قریبا دس عدد مستند لغات سے مدد لی گئی ہے، مادے کے بنیادی معنوں کی حدود میں رہنے کی سعی کی گئی ہے اور قرآن کے بنیادی پیغام یعنی کردار سازی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔ شروعات سورہ المائدہ سے کرتے ہیں ۔
اورنگزیب یوسفزئی
سورہ المائدہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ‌ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ ۗ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِ‌يدُ ﴿١﴾
اے ایمان والو، اپنے کیے ہوئے عہد و پیمان کی [ بِالْعُقُودِ] ہمیشہ پاسداری و تکمیل [اوفو] کیا کرو۔ ماضی میں تمہارے لیے معاہدوں کی پابندیوں کے ضمن میں جانوروں کی مانند [الْأَنْعَامِ] مبہم، یعنی غیر شعوری اور غیر واضح انداز [بَهِيمَةُ] روا رکھنا جائز کیا گیا تھا۔ اور تم صرف ان احکام پر عمل کرنے کے پابند تھے [وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ] جو آزاد نہ کیے جانے والے[غَيْرَ‌ مُحِلِّي] اسیران [الصَّيْدِ] کے ضمن میں تمہیں بتا دیے جاتے تھے[يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ] ۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو اس معاملے میں وہی احکام جاری فرمائیگا جو اس کی منشاء کے مطابق ہونگے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرِ‌ضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
اس لیے، اے ایمان لانےوالو، تم خود کو اللہ کے دیے ہوئے شعائر یعنی طور طریق ، قواعد و ضوابط سے آزاد نہ کیاکرو۔ نہ ہی معاہدوں کی رو سے عائد شدہ پابندیوں کی صورتِ حال یا کیفیت [الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ]سے بری الذمہ ہو جایا کرو ۔ نہ ہی حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں [الْهَدْيَ] کو نظر انداز کرو۔ نہ ہی خود پر عائد دیگر ذمہ داریوں سے[الْقَلَائِدَ] احتراز کرو، اور نہ ہی اپنے واجب الاحترام مرکز کے ان ذمہ داروں [آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ ] سے غافل ہو جاءو جو اپنے نشوونما دینے والے کے فضل اور رضامندی کے لیے جدو جہد کر رہے ہوں۔ البتہ جب تم کسی بھی معاہدے کی پابندیوں سے آزاد ہو جاءو [حَلَلْتُمْ] تو پھر ضرور اپنی طاقت و اقتدار قائم کرنے میں [فَاصْطَادُوا] لگ جاءو۔ لیکن اس صورت میں بھی ایک قوم کی وہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں واجب الاحترام احکامات ِ الٰہی[الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] کی بجا آوری اور نفاذسے روک رکھا تھا ،تمہیں اس جرم پر مجبور نہ کردے کہ تم حدود سے تجاوز پر اُتر آو [أَن تَعْتَدُوا] ۔ بس یہ امرپیشِ نظر رہے کہ ہمیشہ کشادِ قلب اور کردار سازی کے مدعے [الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ] پر اشتراکِ عمل کرو اور گناہ اور حدود فراموشی پر دستِ تعاون دراز مت کرو۔ اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری کے جذبے سے وابستہ رہو۔ یہ حقیقت سامنے رہے کہ اللہ کا قانون گرفت کرنے میں بہت ہی سخت ہے ۔
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣﴾
[نیز دیکھیں مماثل آیات ۲/۱۷۳ اور ۶/۱۴۵ – زیر نظر ترجمہ ان دونوں مذکورہ آیات کے ابتدائی حصوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ تکرار سے پرہیز کیا گیا ہے تاکہ عبارت طوالت اختیار نہ کرے]
تمہارے لیے ممنوع کر دیا گیاہے کہ تم اپنی قوتِ عاقلہ کو زائل کر کے مردہ کی مانند ہو جاءو [الْمَيْتَةُ ]، اور اپنے اعمال ناموں کو انسانی خون سےداغدار کرلو [الدَّمُ] اور مکار و بد طینت لوگوں [الْخِنزِيرِ]کے ساتھ قریبی تعلق [وَلَحْمُ] استوار کرو اور نہ ہی ہر اس نظریے کے ساتھ کوئی تعلق رکھو جس کے ذریعے غیر اللہ کے حق میں آواز بلند ہوتی ہو [أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ] ۔ اور تمہارے لیے یہ بھی حرام کیا گیا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کی آواز بند کر کے اسے کچل دیا جائے [وَالْمُنْخَنِقَةُ ]، یا مستقل ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر مردہ کر دیا جائے [وَالْمَوْقُوذَةُ] ، یا کسی کے حاصل کردہ بلند مقام سے اسے ناجائز طور پر قعرِ مذلت میں گرا دیا جائے [وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ ]، یا جبرا بدنصیبی اور بدقسمتی کی طرف دھکیل دیا جائے [وَالنَّطِيحَةُ ]اور ایسی صورت حال پیدا ہو کہ تمام انسانی اقدار کو وحشت و بربریت نے نگل لیا ہو [وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ] ،سوائے ان معدودے چند کے جنہیں تم نے بچاکر تقویت دے لی ہو [مَا ذَكَّيْتُمْ ]۔ یا کسی کوخود ساختہ معیار یا مقصدکی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہو [وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ] ۔ یا یہ کہ تم لوگوں کو غلط اقدام کے ذریعے تقسیم کرکے علیحدہ علیحدہ کر دو [تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ] ۔انتباہ رہے کہ مذکورہ بالا تمام صورتِ احوال بدکرداری اور بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہے [فِسْقٌ] ۔ اسی بنا پر موجودہ وقت میں حقیقت سے انکار کرنے والے تمہارے اس نظریہ حیات سے مایوس ہیں- پس تمہیں چاہیئے کہ اب ان سے اندیشہ کرنا ترک کر دو، اور اس کی بجائے میری عظمت و جلالتِ شان کو ہمہ وقت نگاہ میں رکھو۔ وقت کے سیلِ رواں کے اس موجودہ مرحلے میں میں نے تم سب کے لیے تمہارا نظریہ حیات مکمل کر دیا ہے اور اس طریقہ سے تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دی ہیں اور تمہارے لیے اسلام یعنی انسانیت کے تحفظ اور سلامتی کو بطورِ مقصودِ زندگی مقرر و متعین کر دیا ہے۔ تمام مذکورہ بالا ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تم میں سے جو کوئی بھی اضطراری حالت کی وجہ سے خود کو مجبور پائے [فِي مَخْمَصَةٍ] جب کہ اس کا برائی کیجانب میلان نہ ہو[غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ] ، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ سامانِ تحفظ اور رحمت مہیا کردیتے ہیں ۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِ‌حِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّـهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٤﴾
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیاکیا جائز قرار دیا گیا ہے ۔ انہیں بتا دو کہ تمہارے لیے تمام پاکیزہ اور خوشگوار اعمال جائز کر دیے گئے ہیں ۔ اور جب تم ہاتھ پاءوں بندھے زخمی قیدیوں کی جماعت [الْجَوَارِ‌حِ مُكَلِّبِينَ] کو وہ تعلیم دے رہے ہوتے ہو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ جو معلومات تمہیں ان کی زبانی حاصل ہوتی ہیں [وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ] ان کے ذریعےتم وہ سب کچھ جان لو جو وہ تمہارے رویوں کے خلاف کہتے یا تمہارےذمہ لگاتے ہیں [فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ] ۔ پھر اس پر اللہ کی صفات کے تناظر میں غور کرو (وَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ) تاکہ تمہارے کردار میں جو کمی رہ گئی ہو وہ کھل کر تمہارے سامنے آ جائے۔اس طرح اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری سے وابستہ رہو ، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون فوری احتساب کا عمل جاری رکھتا ہے۔
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ [۵]
آج سے ، یا وقت کے حاضر و موجود مرحلے سے، تمہارے لیے صرف تمام پاکیزہ اور خوشگوار اعمال جائز کر دیے گئے ہیں۔مزید یہ کہ ان تمام مستحسن صفات یعنی شعوری اقدار کا حصول [طَعَامُ] بھی تمہارے لیے جائز ہے جو صاحبِ کتاب لوگوں میں پائی جاتی ہیں، اور اسی کی مانندتمہاری اچھی صفات و اقدار کا حصول اُن لوگوں کے لیے بھی جائز ہے ۔ اور مومن جماعتوں [الْمُؤْمِنَاتِ] میں سے اخلاقی لحاظ سے مضبوط اور محفوظ جماعتیں [الْمُحْصَنَاتُ] اور ایسی ہی وہ جماعتیں بھی جو تم سے قبل کتاب دیے گئے لوگوں میں سے ہوں ، اُن سے تعلق استوار کرنا بھی تمہارے لیے جائز ہے بشرطیکہ تم ان کے حقوق و واجبات و معاوضے پوری طرح ادا کرو ، اور وہ اسی طرح مضبوط و محفوظ رہ سکیں [مُحْصِنِينَ ] ۔ نہ ہی خون بہانے یا بدکرداری پر اتر آئیں [مُسَافِحِينَ] اور نہ ہی خفیہ سازشوں میں ملوث [مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ] ہوں۔ یہ یاد رہے کہ جو ایمان کی دولت کے مقابلے میں کفر کی روش اپناتا ہے وہ یہ حقیقت ذہن میں بٹھا لے کہ اس کا تمام کیا دھرا ضائع ہو گیا(حَبِطَ) ۔ اور بالآخر اگلے بلند تر مرحلہ حیات میں(فِي الْآخِرَ‌ةِ) وہ نامراد وں کی جماعت میں شامل رہیگا۔
"وضو"
{محترم قارئین، حرام و حلال کے اس سلسلے میں حسن اتفاق سے اگلی آیت وہ سامنے آتی ہے جسے " وضو "سے متعلق قرار دیا جاتا ہے۔ پست درجے کی نہایت عمومی زبان میں لفظ بہ لفظ کیے گئے تراجم کی بجائے عربی ادبِ عالی کی استعارات و محاورات سے پُر [metaphoric and idiomatic ] اصطلاحات کی بنیاد پر کیا گیا درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں جو قرآنِ عظیم کے بلند اسلوب کے شایانِ شان ہے۔ سابقہ متن سے جڑا ہوا ہے ۔موضوع کا تسلسل قائم رکھتا ہے ۔اور حسبِ سابق کردار سازی کے ہی ضوابط و قواعد کی تعلیم دے رہا ہے ۔ درحقیقت یہاں"وضو" سے متعلق ذکر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وضو یہاں سیاق و سباق سے قطعی غیر منسلک ہے ۔ اختلاف کی صورت میں معتبر سند کے ساتھ فوری رجوع فرمائیں تاکہ تصحیح کی جا سکے۔}
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَ‌افِقِ وَامْسَحُوا بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُ‌وا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَ‌جٍ وَلَـٰكِن يُرِ‌يدُ لِيُطَهِّرَ‌كُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٦﴾
اے اہلِ ایمان، جب تم نفاذ و اتباعِ احکامِ الٰہی کے نصب العین کے حصول کی سمت میں اُٹھ کھڑے ہو ، تو اپنی توجہات یعنی سوچ و فکر [وُجُوهَكُمْ] اور اپنے وسائل و ذرائع [أَيْدِيَكُمْ] کو ہر قسم کی الائشوں اور رکاوٹوں سے پاک کر لو [فَاغْسِلُوا] تا آنکہ وہ تمہاری رفاقت و اعانت کا ذریعہ و ماخذ [الْمَرَ‌افِقِ] بن جائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بڑوں اور چھوٹوں( بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ )کی صلاحیتوں کا جائزہ لو اور جانچ پڑتال [امْسَحُوا]کرکے ان کو انتہائی شرف و مجد کے درجے تک پہنچا دو [إِلَى الْكَعْبَيْنِ] ۔ اگر قبل ازیں تم اس نظریاتی محاذ پر نووارد یا اجنبی [جُنُبًا] تھے تو پھر اپنے قلب و ذہن کی تطہیر کا عمل کرو [فَاطَّهَّرُ‌وا] تاکہ منفی عقائد و خیالات سے پاک ہو جاءو۔ اور اگر تم ایمان و ایقان کے معاملے میں کسی کمزوری کا شکار ہو [ مَّرْ‌ضَىٰ] یا ابھی تربیتی سفر کے درمیانی مرحلے میں ہو[عَلَىٰ سَفَرٍ‌]، یا اگر تم میں کچھ بہت پست شعوری سطح سے اُٹھ کر اوپر آئے ہوں [مِّنَ الْغَائِطِ]، یا کسی خاص شعوری کمزوری نے تمہیں متاثر کیا ہوا ہو [لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] اور اس ضمن میں تمہیں وحیِ الٰہی کی ہدایت میسر نہ آئی ہو [فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً]، تو پھر بھی تم اپنا مطلوب و مقصود [فَتَيَمَّمُوا] بلند اور پاک رکھو [صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ پھر اس کی روشنی میں از سرِ نو اپنے افکار اور اپنے وسائل کی پیمائش یااحاطہ کرو(فَامْسَحُوا )۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی صورت میں تم پر ناروا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا ۔ لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمہاری شعوری ذات منفی خیالات سے پاک ہو جائے اور تم پر اس کی نعمت تمام ہو جائے، تاکہ تمہاری جدوجہد مطلوبہ نتائج پیدا کرے۔
وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ [۷]۔
[سورۃ المائدہ کی آیت : ۷ صرف اس لیے پیش کی جارہی ہے کہ سابقہ موضوع کے ساتھ تسلسل ، یعنی عہد کی پابندی اور کردار سازی، کو ثابت کر دیا جائے تاکہ درمیان میں آنیوالی سورۃ : ۶ کے ترجمے کی "وضو" سےغلط اور سازشی طور پر منسوب کیے جانے سے متعلق حقیقت سامنے آ جائے]
اور تم پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور اس عہد کی بھی پاسداری کرتے رہو جو تم نےیہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ "ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت اختیار کر لی"۔ اور اللہ کے احکامات پر پرہیز گاری سے قائم رہو کیونکہ اللہ تمہاری اندرونی ذات پر گزرنے والی ہر کیفیت کا علم رکھتا ہے۔
سورہ الحج : ۲۸ سے ۳۰

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾
اور انسانوں کے درمیان حجیت کا [بِالْحَجِّ ]اعلانِ عام کر دو۔ وہ سب تمہارے پاس ہر دور دراز کے مقام سے [مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] دلیری کے ساتھ [رِ‌جَالًا]آئیں اور ہر ایک اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے [وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌] ،
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨﴾
تاکہ اس نظریہِ حیات میں وہ اپنے لیے منفعت کا بذاتِ خود مشاہدہ کرلیں اور تحصیلِ علم کے ایک دورانیئے [فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] میں اللہ کی صفات عالی کو ذہن نشین کرتے رہیں تاکہ اس کی روشنی میں ان تعلیمات پر حاوی آ جائیں [عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم ] جس نے انہیں جانوروں کی مانند غیر یقینی اور مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] اختیار کرنے پر لگا دیا تھا۔ پس وہ اسی روشنی سے استفادہ کریں اور جو اس سے محروم اور بدحال ہیں انہیں بھی مستفید کریں ۔
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾
پھر اس کے بعد اپنی ذہنی الائشوں سے پاکیزگی [تَفَثَهُمْ]کا کام تکمیل تک پہنچائیں [لْيَقْضُوا ]، اپنے اوپر واجب کیے ہوئے عہد کو پورا کریں [وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ ] اور حکومتِ الٰہیہ کے محترم و متقدم مرکز کی نگہبانی اور حفاظت [وَلْيَطَّوَّفُوا]کا فریضہ انجام دیں ۔
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ ﴿٣٠﴾
اس کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ ممنوعات [حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ]کی تعظیم کا رویہ اختیار کرے گا تو وہ اللہ کے نزدیک اس کے حق میں خیر کا باعث ہوگا۔ نیز تمہارے لیے اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتیں اور عطیات [الْأَنْعَامُ] حلال کر دیے گئے ہیں ماسوا ان مخصوص امور کے جن کی پیروی/اتباع کرنے کے لیے تم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یعنی جن کا تمہیں پابند کیا گیا ہے۔ پس خود کو پرستش اور عقیدت کا مرکز بنانے [الْأَوْثَانِ ] کی برائی سے اجتناب کرو اور اجتناب کرتے رہو ایسی زبان بولنے سے جو جھوٹ سے پُر ہو ۔
سورہ الحج : ۳۲ سے ۳۸
ذَٰلِكَ۔۔۔۔۔۔ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾
اور جو لوگ اللہ کے ہدایت کردہ راستے یا طور طریق کی عظمت کو بلند کریں گے، وہ اسے تقویتِ قلوب کا ذریعہ پائیں گے۔
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾
اسی راستے میں تم سب کے لیے ایک معینہ مدت تک منفعت ہے۔پھر اس ہدایت کا مستقل مرکز و منبع اللہ کا محترم و متقدم مرکزِ حکومت [الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]ہے۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
نیز ہم ہر قوم کے لیے پاکیزگیِ ذات کے ذرائع [مَنسَكًا ]پیش کر دیے ہیں تاکہ وہ اللہ کی صفاتِ عالی کو ذہن نشین کریں [لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ] اور اس کی روشنی میں جانوروں کی مانند غیر یقینی یعنی مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] پر حاوی آ جائیں جس کی انہیں تربیت دی گئی تھی[مَا رَ‌زَقَهُم]۔ اور وہ یہ سمجھ لیں کہ تمہارا حاکم ہی اصل حاکم ہے۔ اس لیے اسی کی ہدایات پر سرِ تسلیم خم کر دیں۔ جو اس معاملے میں عاجزانہ اور تابعدارانہ روش رکھتے ہوں ان کو فوری نتائج کی خوشخبری دے دو۔
الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِ‌ينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی ہدایات کی یاد دہانی ان کے قلوب کوخوفزدہ [ وَجِلَتْ ] کر دیتی ہے اور یہ وہ ہیں جو مصائب کے مقابلے میں استقامت اختیار کرلیتے ہیں۔ نظامِ صلوۃ کی پیروی کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم نے انہیں مادی اور شعوری ارتقاء کے اسباب عطا کیے ہیں [رَ‌زَقْنَاهُمْ ] وہ انہیں عوام الناس کیلیے کھول دیتے ہیں۔
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌ ۖ فَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ‌ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْ‌نَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٦﴾
طاقتور، زرہ بند انسانوں کی جماعت [فوج] قائم کرنا بھی تمہارے لیےحکومتِ الٰہیہ کے طریقِ کار اور تقاضوں میں سے ہے اور اس لازمی طریقِ کار میں تمہارے لیے تحفظ اور بہتری پوشیدہ ہے ۔ پس یہ فوج خود کو دین کے تحفظ کے لیے وقف کر دے [صَوَافَّ ]اس طرح کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی صفات عالی کی یاد دہانی کروائی جاتی رہے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ کسی مہم میں ان کا ساتھ دینا یا ان کی کارگزاری میں حصہ لینا [جُنُوبُهَا]تمہارے لیے ضروری ہو جائے [وَجَبَتْ ] تو تمہیں چاہیئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاو، علم و تربیت حاصل کرو [فَكُلُوا]اور جو قناعت کیے ہوئےاس سے محروم ہیں اور جو اس کی ضرورت رکھتے ہیں انہیں بھی فیض پہنچاءو۔ ہم نے تمہیں اس انداز میں ان چیزوں پر دسترس عطا کی ہے کہ تمہاری کوشیں بار آور ہوجائیں۔
لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَ‌هَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُحْسِنِينَ ﴿٣٧﴾
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کو ان سے تمہارے قریبی تعلق [لُحُومُهَا ]سے یا ان کی جنگی مہم جوئیوں [دِمَاؤُهَا ]سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا، بلکہ تمہارا جذبہ ِ پرہیزگاری سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہے۔پس اللہ نے اس انداز میں ان چیزوں کو تمہاری دسترس میں کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کی کبریائی ان خطوط پر قائم کرو جیسے اس نے تمہاری راہنمائی کی ہے۔اللہ کی راہ میں توازن بدوش عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ‌ ﴿٣٨﴾
جو ایمان لے آتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدافعت فرماتا اور انہیں بڑھاوا دیتا ہے اور یقینا وہ بددیانت اور انکار کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
سورہ الانعام: ۱۵۱
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَ‌بُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّ‌مَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١﴾
انہیں کہو کہ آو میں تمہیں بتادوں کہ تمہارے نشوونما دینے والے نے تم پر کیا کیا ممنوع کیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ تم اس کی حاکمیت و اختیار میں کسی بھی چیز کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسین و متوازن سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر شعوری اور اخلاقی طور پر جاہل و بے خبر نہ رکھو کیونکہ یہ انہیں مار دینے کے مترادف ہے۔ یہ یقین رکھوکہ تمہیں اور انہیں سامانِ رزق دینا ہمارا کام ہے ۔ اور ان تمام زیادتیوں اور حدود فراموشیوں کے قریب نہ جاو جو ظاہر ہو جائیں خواہ پوشیدہ رہیں، اور کسی جان کو ضائع نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے ممنوع یا محترم قرار دیا ہے سوائے اس صورت کے کہ اس کا استحقاق واجب ہو جائے۔ اللہ نے تمہیں یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کہ تم اپنی شعوری صلاحیتوں کا استعمال کرو۔
سورہ یونس: ۵۹ - ۴۰
قُلْ أَرَ‌أَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ لَكُم مِّن رِّ‌زْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَ‌امًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُ‌ونَ ﴿٥٩﴾ وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٦٠﴾
انہیں کہو کیا تم وہ نہیں دیکھتے جو سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہاری منفعت کےلیے عطیات، یعنی سامانِ رزق کی شکل میں فراہم کیا ہے۔ اس کے باوجود تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال بنا دیا ہے۔ ان سے پوچھو کیا ایسا کرنے کی تمہیں اللہ نے اجازت دی تھی؟ یا تم یہ کام کرتے تو بذاتِ خودہو اور اس جھوٹ کی ذمہ داری اللہ پر باندھتے ہو؟ جو اللہ کی ذات پر یہ جھوٹ بول کر افتراء کرتے ہیں اُن کا کیا قیاس ہے کہ اُس آنیوالے بڑے قیام کے مرحلے میں ان کے ساتھ کیا پیش آئیگا؟ افسوس کہ اللہ تو انسانوں کے لیے سراپا فضل ہے لیکن ان کی اکثریت متوقع نتائج پیدا کرنے والا رویہ نہیں رکھتی۔
النحل: ۱۱۶
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَ‌امٌ لِّتَفْتَرُ‌وا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾
اور مت بولا کرو وہ کلمات جس سے تمہاری زبانیں جھوٹ کا ارتکاب کرتی ہیں، کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کیونکہ تمہارے اس جھوٹ سے اللہ تعالیٰ پربہتان لگ جاتا ہے۔ یقینا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بہتان طرازی کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہ پائیں گے۔

- - - - - - -
بریکٹوں میں دیے الفاظ کے مستند معانی ملاحظہ فرمائیں :
[ِالْعُقُودِ]: عہد نامے، میثاق، معاہدے، ایگریمنٹ
[اوفو] : پورے کرو، تکمیل کرو، ایفائے عہد کرو
[الْأَنْعَامِ]: مویشی قسم کے جانور، جو کہ اموال کے طور پر اللہ کی نعمتوں کے معنی بھی رکھتے ہیں
[بَهِيمَةُ]: ابہام کی کیفیت، مبہم ہونا، غیر واضح، غیر متعین ، گونگا پن، غیر معروف، بے دیکھا بھالا، مشکوک، پوشیدہ، بند دروازہ۔ One knows not the way or manner in which it should be engaged in, done, executed, performed; speech which is confused, vague, dubious; also applied to closed or locked door, one can’t find a way to open it;
چوپایہ، جانور، کیونکہ اس کی شکل /صورت مبہم ہوتی ہے۔
[وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ] : جبکہ تم پابند ہو؛
[الصَّيْدِ]: وہ جسے پکڑ لیا جائے؛ ٹیڑھی گردن والا؛ مغرور؛ خودپسند: رعب و دبدبے والا ؛ شکار کا جانور
[غَيْرَ‌ مُحِلِّي]: غیر آزاد کردہ؛ not violating the prohibition؛ محلی: the place or time where something becomes lawful, permissible;
[يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ] : وہ جو تمہیں عمل درآمد کرنے کے لیے کہا یا پڑھ کر سنایا جائے۔
[الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ]: ایک پابندیوں والی معروف صورتِ حال؛ ایک حرمت والا مہینہ
[الْهَدْيَ] : عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[الْقَلَائِدَ] : حفاظتی کنٹرول؛ احکامات کی تقلید؛ پیروی؛ نظم و ضبط؛ ایک چیف کی لوگوں کی طرف ذمہ داریاں؛ اقتدار یا حکومت کا کنٹرول
[آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ ] : قابلِ احترام مرکز کے سنبھالنے، قائم رکھنے والے
[حَلَلْتُمْ] : تم آزاد ہو جاو؛ پابندیوں سے فری ہو جاو؛ ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاو
[فَاصْطَادُوا] ؛ گرفت قائم کرو، غلبہ حاصل کرو؛ پکڑ لو؛ طاقت و اقتدار قائم کرو
[الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ]: قابلِ احترام اور واجب التعمیل احکامات
[أَن تَعْتَدُوا]: کہ تم حد سے بڑھ جاو
[الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ]: اللہ کے احکامات کے تحت کشادِ قلب اور پرہیز گاری
[الْمَيْتَةُ]: قوتِ عاقلہ کا زائل ہونا [راغب]؛ دانشمندی کی صلاحیت کا مر جانا؛
[الدَّمُ] : سرخ رنگ کرنے کا سامان ؛ خون؛ خون بہانا؛ کسی مواد سے یا خون سے داغدار کر دینا؛ کوئی چیز یا شکل جس پر کوئی رنگ لگا دیا گیا ہو؛ کسی گھر کو مٹی یا کیچڑ سے لیپنا؛ ایک عورت جس نے اپنی آنکھ کے گرد زعفران سے پینٹ کر لیا ہو؛ ایک بہت ہی غیر شائستہ ، غیر مہذب رویہ؛
[الْخِنزِيرِ]: مکار اور بدطینت انسان؛ خزر: کنکھیوں سے یا ٹیڑھی نیم بند آنکھوں سے دیکھنا؛ بند اور چھوٹی آنکھو ں والا، بھینگی آنکھوں والا؛ چالاک ہونا؛
[َلَحْمُ] : الحم خرقہ:لباس کا سوراخ پیوند لگا کر جوڑنا ؛ شریک ہونا؛ بُننا، اکٹھے ہونا، قریب ہو کر اکٹھے ہونا؛ دھاگے جو آپس میں بُنے گئے ہوں؛ مرمت کرکے جوڑنا، ویلڈ کرنا، سولڈر کرنا، پیوند لگانا۔
[أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ]: وہ جس سے غیر اللہ کی آواز بلند ہو
[وَالْمُنْخَنِقَةُ ]،: مخنوق: گلا گھونٹ دیا جائے؛ گلے سے پکڑ لیا جائے؛ غلبہ پا لیا جائے؛ سانس بند کر کے مار دیا جائے
[وَالْمَوْقُوذَةُ] : ضرب مار کر مردہ بنا دینا؛ چوٹ سے مارا ہوا ۔
[وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ ]: بلندی سے گرا ہوا؛ جہنم میں گرا ہوا؛ قعرِ تذلیل میں گرا ہوا۔
[وَالنَّطِيحَةُ ]: سینگ یا ٹکر مار کر مار ڈالنا؛ ایک بدنصیب اور بدقسمت آدمی۔
[وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ] : وہ تمام اقدارِ ہستی اور اچھائیاں جنہیں وحشت و بربریت نے نگل لیا ہو ۔
[مَا ذَكَّيْتُمْ ]: جو تم نے بچا کر نشوونما دے لیا ہو
[النُّصُبِ] : کوئی مقرر کردہ معیار، ہدف، حدود، ایک نشان، اشارہ جو راہ دکھائے؛ ایک پتھر نصب کر کے پوجا جائے۔منصب، نصاب، عہدہ، ذریعہ، نسلی سلسلہ، ماخذ، اشرافیہ۔
[ْأَزْلَامِ] : زلم: غلطی کرنا؛ بغیر سوچے بولنا، قطع برید کرنا؛ ادھر اُدھربے مقصد پھرنا؛ بھوک سے بدحال ہونا؛ کان کا حصہ کاٹنا؛ بے پر کا تیر۔
[فِسْقٌ] : کسی چیز میں برائی، بدعنوانی؛ حدود فراموشی؛ گناہ؛ جرم؛ غیر اخلاقی حرکت؛ بدکرداری؛ دائرہ کردار سے نکل جانا۔
[ مَخْمَصَةٍ] : مشکل؛ مسئلہ؛ مجبوری
[غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ] : برائی کا میلان نہ ہونا۔
[الْجَوَارِ‌حِ]: جرح: زخمی کرنا/ہونا؛ شکاری جانور؛ ہاتھ پاوں کو بھی جوارح کہا جاتا ہے کہ وہ شکار پکڑ کر لاتے ہیں یا کما کر لاتے ہیں، یا اچھا اور برا کرتے ہیں؛ کمانا؛ ما لہ جارح: اس کا کوئی کمانے والا نہیں- بے کار کر دینا۔
[مُكَلِّبِينَ] : ہاتھ پاوں بندھا ہوا قیدی؛ سٹریپ سے بندھا ہوا آدمی؛ وہ جو کتے یا شکاری جانور کو تربیت دے۔پاگل پن جو کتے میں انسانی گوشت کھانے سے آ جائے؛ پاگل پن سے عقل ماوف ہو جانا۔
[وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ] : جو تم ان سے سیکھتے یا پڑھتے ہو۔
[فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ] : وہ سب جان لو جو وہ تمہارے خلاف پکڑے ہوئے ہیں یا اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ۔
[طَعَامُ]: to take to education, ؛ سیکھنا ، حاصل کرنا، ایک شخص میں مناسب و موزوں صلاحیتیں۔ طعم : to have power or ability to do it; طعم علیہ: to have power over him ؛ to be vaccinated, inoculated
[الْمُؤْمِنَاتِ] : مخصوص مومن جماعتیں؛ مومن خواتین
[الْمُحْصَنَاتُ]: مسلمہ؛ آزاد عورت؛ پارسا عورت؛ ایک بڑا موتی؛ chaste, guarded, fortified, protected, in places difficult of access, approach.؛ ایسی جماعتیں ؛ abstaining from what’s not lawful or from that which induces suspicion or evil opinion. ناقابلِ رسائی؛ قلعہ بند جماعتیں؛ با کردار؛ محفوظ
[مُحْصِنِينَ ] ۔ مذکورہ بالا قسم کے لوگ
[مُسَافِحِينَ]: خون کو بہا دینے والے؛ سفح: پست ترین حصہ جو زمین پر ہو؛ پیر؛ پیروں میں۔ اس نے بہا دیا؛ اس نے خون بہا دیا؛ ناجائز جنسی عمل۔ سفاح [س کی زیر کے ساتھ]: بدکار۔ سفاح [س پر زبر کے ساتھ]: خون بہانے والا؛ قاتل؛ سفاک۔
[مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ]: خفیہ سرگوشیاں کرنے والا؛ سازشیں کرنے والا۔
[وُجُوهَكُمْ] : تمہاری سوچ کی سمت، توجہات، نظریات، چہرے
[أَيْدِيَكُمْ] : تمہارے وسائل و ذرائع، طاقت، ہاتھ
[فَاغْسِلُوا] : پاک صاف کرو ، دھو ڈالو،
[الْمَرَ‌افِقِ]: کہنیاں؛ رفاقت و اعانت کا ذریعہ؛ باہم جڑے ہوئے ہونا
[امْسَحُوا]: زمیں پر سفر شروع کرنا؛ جائزہ لینا؛ زمین کا جائزہ لینا؛ احاطہ کرنا؛ پیمائش کرنا؛ سروے کنندہ؛ مسیح: جو زیادہ سفر کرے؛ تیل لگایا ہوا، صاف کیا ہوا، پوچھنا ایسی چیز کو جو گیلی اور گندی ہو۔
[إِلَى الْكَعْبَيْنِ] ۔ شرف مجد کے پیمانے تک
[جُنُبًا] :پہلو، سمت، گوشہ، پرایا، غیر، بے تعلق،، دور کا، اجنبی،
[اطَّهَّرُ‌وا] : پاک و صاف کرو
[ مَّرْ‌ضَىٰ]: مریض۔ کمزوری میں، بیمارِی میں، روگ میں، نقص، تقصیر، کوتاہی میں ہونا۔ وہ جس کے قلب میں دین و ایمان میں نقص یا شبہ ہو [ الراغب]
[عَلَىٰ سَفَرٍ‌]: سفر: زمین کا سفر، علم و عرفان کے حصول کا سفر، دریافت اور ترقی کے آسمان پر چمکنا/جگمگانا/واضح ہونا/جلوہ گر ہونا/نتیجہ نکالنا۔ گھر میں جھاڑو دینا اور کوڑا کرکٹ صاف کرنا۔ اسفار: وہ کتب جو حقائق بیان کرتی ہیں
To unveil, uncover, to shine, glow, to yield, achieve, bring to end result, to rise
[مِّنَ الْغَائِطِ]، پست علمی و ذہنی درجے سے آنیوالا
[لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] : تمہیں کسی کمزوری نے پکڑ لیا ہو، چھو لیا ہو۔
[َلَمْ تَجِدُوا مَاءً]: ماء استعاراتی معنوں میں اکثر وحی الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
[تَيَمَّمُوا] : مقصد، مطلوب، ارادہ، متعین کرنا
[صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ بلند اور پاک
[الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]۔ وہ مرکز یا ادارہ جو سب پر فوقیت رکھتا ہو؛ محفوظ ہو، محترم، مکرم، متقدم ہو؛
[مَنسَكًا ]: پاکیزگی ذات کے اصول و قواعد
[ِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ] – صفاتِ الٰہی کی یاد دہانی
[بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] : جانوروں/مویشیوں کی غیر واضح، مبہم ، غیر یقینی روش
[مَا رَ‌زَقَهُم]۔ وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی؛ رزق بمعنیٰ نصیبہ بھی آ جاتا ہے۔intellectual education which is for the hearts and minds, such as several sorts of knowledge and science; to bestow material or spiritual possession; anything granted to ne from which he derives benefit.
[وَالْبُدْنَ]: زرہ، زرہ بکتر، تنومند آدمی، لحیم شحیم
[صَوَافَّ ]: دینی خدمت یا کاموں کے لیے وقف کرنا؛ اسطرح کرنے کے لیے خود کو نمایاں کرنا؛ خشک کر دینا؛ روک دینا، موڑ دینا؛ اون کا تاجر
[جُنُوبُهَا]: اس کا پہلو؛ اس نے اپنی سائڈ یا پہلو توڑ لیا؛ نقصان پہنچایا ؛ نیز،،،اس کا ساتھ دینا؛ سفر میں ساتھ دینا؛ ان کا حق؛ ان کا اُتر آنا، سیٹل ہوجانا؛ باسداری/اتباع کرنا؛ their partner, neighbor; ، اجتناب
[وَجَبَتْ ] : ضروری ہو جانا، ناگزیر ، لازمی ہو جانا؛ زمین پر گر جانا؛
[فَكُلُوا]: حاصل کرو، فائدہ اٹھاو، کھاو
[دِمَاؤُهَا ]: ان کا خون بہانا
[مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] : ہر دور دراز مقام سے
[رِ‌جَالًا]: بہادری، دلیری سے، مردانہ وار؛ پیدال، پاپیادہ
[وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌] : ہر ایک کے ضمیر کی آواز پر
[فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] : ایک معین دورانیہ/عرصہ
[عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم ] : جو کچھ انہیں عطیہ /علم/اسباب دیے گئے تھے اس کے خلاف
[تَفَثَهُمْ]: ذہنی الائشوں سے پاکیزگی
[لْيَقْضُوا ]: تاکہ وہ پورا کریں/مکمل کریں/ فیصلہ کریں
[وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ ] : اپنے عہد کو / وعدوں کو پورا کرنا
[ْيَطَّوَّفُوا]: نگہبانی/حفاظت کرنا
[حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ]: اللہ کی محترم یا حرام قرار دی ہوئِ چیزیں
[الْأَنْعَامُ] : مال مویشی؛ اللہ کے انعامات
[الْأَوْثَانِ ] : وثن: ایک مرکزِ نگاہ ہونا، پوجا /عبادت کا مرکز ہونا؛ مستقل مزاج ؛ مضبوطی سے قائم؛ ادبی صلاحیت کا ہونا۔
Here is the link on www.scribd.com:
https://www.scribd.com/doc/231528070/Translation-3-Halal-Haraam-Ayaat

/189 : البقرۃ

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾

"وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِ‌هَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔"

2/196-200: البقرۃ

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

"نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَ‌ةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ گئے ہوں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات الٰہی کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِ‌ي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔"