اورنگزیب یوسفزئی مارچ ۲۰۱۴


قصہ حضرت یونس علیہ السلام اور مچھلی کے پیٹ کا


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر12

 

 

آئیے عقلی اور علمی تراجم کے سلسلے کی اس قسط میں اب قرآنِ عظیم میں بیان کیے گئے حضرت یونس کے احوال کو اس کی حقیقی روشنی میں دریافت اور بیان کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ اس ضمن میں ذہنوں پر زمانہِ قدیم سے چھائے ہوئے وہ طلسماتی تراجم باطل قرار دیے جا سکیں جو اولین عہد میں سازشانہ کوششوں پر مبنی تھے ، اور بعد ازاں اندھی تقلید اور پیرویِ اسلاف کے طرزِ عمل پر کاربند رہنے کی بنا پر ہماری موجودہ نسل تک متوارث طور پر پہنچے ۔
اس کاوش میں بھی قرآنِ حکیم کا علمی و ادبی اسلوبِ عالی بعینہی اردو زبان میں منتقل کرنے کی کڑی اور غیر متزلزل جدو جہد کی گئی ہے، تاکہ اس الہامی وثیقے سے وفاداری کا حق ادا کیا جا سکے ۔ نیز ترجمہ اس جہت سے کیا گیا ہے کہ سیاق و سباق ہی کی پیروی ہو، تسلسل قائم رہے، الفاظ کے بنیادی [Root]معانی برقرار رہیں، اور ان سب سے بڑھ کر قرآن کے تعمیرِ کردار کے حقیقی ڈسپلن کی روح قائم و دائم رہے ۔نیز قصص الانبیاء اور تورات سے لیے گئے ماوراء العقل افسانوں کا عقلیت پسندی کی بنیاد پر کامیاب سدِباب کر دیا جائے ۔
ہمیشہ کی مانند یہ ترجمہ بھی ایک عاجزانہ کوشش ہی ہے ۔ اس ضمن میں اختلافی آراء کو خوش آمدید کہا جائیگا بشرطیکہ وہ سند کے ساتھ شعوری بنیاد پر پیش کی جائیں اور مقصد ایک اجتماعی اور متفقہ لائحہ عمل کو ترقی دینا ہو ۔
پہلے متعلقہ آیاتِ مبارکہ پیش کر دی جاتی ہیں ، پھر ان کا مرحلہ وار جدید عقلی ترجمہ پیش ِ خدمت کرنے کے ساتھ آخر میں سند کے طور پر تمام اہم الفاظ و اصطلاحات کے وہ معانی دیے جائیں گے جو لگ بھگ چودہ مستند اور مشہورِ عالم عربی لغات کی تحقیق کے بعد اخذ کیے گئے ہیں ۔
یہ امر یہاں بیان کرنا از حد ضروری ہے کہ اس جدید ترجمے کی کوشش کا محرک اور باعث ِ فیض محترم پروفیسر عبد الرزاق [مرحوم] کا منفرد عقلیت پر مبنی ترجمہ ہے ۔ مرحوم زندگی کےآخری دور میں [یا شاید زمانہِ ما قبل میں بھی] ادارہ بلاغ القرآن سے وابستہ رہے اور اپنے علم و فضل ، روشن خیالی اور عقلیت پرستی کے لیے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں ۔ اللہ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور بلند ترین درجات عطا فرمائے ۔
تو آئیے اللہ کے پاک نام سے اس پرخلوص کاوش کا آغاز کرتے ہیں ۔
آیت: ۶/۸۶
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾
اور اسماعیل اور یوشع اور یونس اور لوط، ان سب حضرات کو ہم نے ہم عصر انسانوں پر، شعوری ارتقاء کےضمن میں، افضلیت کا درجہ عطا کیا۔
آیت: ۲۱/۸۷-۸۸
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فی الظلمات أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾
اور یاد کرو [الہامی دانش کے مالک] یونس کو جب وہ مایوسی کے غلبے کی بنا پر برافروختگی کے عالم میں[مُغَاضِبًا] اپنے لوگوں سے رشتہ منقطع کر کے ہجرت کر گئے اور کچھ ایسا قیاس کرنے لگے کہ گویا ہم ان کی قدر و قیمت یا بلند مقام کا خیال نہیں رکھیں گے [لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ]، تو پھر اسی عالم میں مایوسی کے اندھیروں میں [فی الظلمات] انہوں نے پکارا کہ میرے رب تیرے سوا کوئی اختیار کا مالک نہیں ۔ تُو ذاتِ مطلق و کامل اور پاک و بلند مرتبہ ہے [سُبْحَانَكَ]۔ بیشک میری حالت اندھیروں میں بھٹکنے والے کی سی ہو گئی ہے ۔
فاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾
تب ہم نے ان کی پکار کا جواب دیا اور انہیں غم و اندوہ کی حالت سے نجات عطا کر دی ۔ ہم اسی کے مانند اہلِ امن و ایمان کو کامیاب کرتے ہیں۔
آیت: ۳۷/۱۳۹-۱۴۸
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٣٩﴾
اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت یونس پیغمبروں میں سے تھے ۔
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿١٤٠﴾
جب انہیں ہجرت کر کے ایک بلندی پر واقع کھلے قطع زمین [الْفُلْكِ] کی طرف جانا پڑا [أَبَقَ] جو آبادی سے بھرا پڑا تھا [الْمَشْحُونِ]۔
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ﴿١٤١﴾
انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سخت جدوجہد کی تھی [فَسَاهَمَ] لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا [الْمُدْحَضِينَ]۔
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿١٤٢﴾
پھر بھی ان کے مشن پر ان کے گہرے ارتکاز [الْحُوتُ] نے انہیں پوری گرفت میں [فَالْتَقَمَهُ] لے رکھا تھا اور وہ خود کو ملامت کرنے پر مائل تھے [ملیم]۔
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤٤﴾
پس اگر وہ اپنے مشن کے معاملے میں پورے وسائل کے ساتھ جدوجہد کرنیوالے [الْمُسَبِّحِينَ] نہ ہوتے تو وہ ان کےحیاتِ نو پانے کے وقت تک [إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ] ان ہی کے درمیان [فِي بَطْنِهِ] پڑے رہتے [لَلَبِثَ]۔
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَ‌اءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ﴿١٤٥﴾
اسی حقیقت کے پیش نظر ہم نے انہیں ان کے لوگوں سے منقطع کر کے [فَنَبَذْنَاهُ] ایک فراخ سرزمین پر[بِالْعَرَ‌اءِ] پہنچا دیا جب کہ وہ ناخوش و بیزار تھے [سَقِيمٌ]۔
وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَ‌ةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿١٤٦﴾
اور پھر ہم نے ان کے لیے ثمرات سے بھرپور پودے پیدا کر دیے ۔
وَأَرْ‌سَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ﴿١٤٧﴾
یعنی انہیں لاکھ سے بھی زائد لوگوں پر رسول بنا دیا ۔
فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿١٤٨﴾
پھر وہ سب ایمان بھی لے آئے، تو ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لیے اسبابِ زندگی سے مالا مال کر دیا ۔
آیت: ۶۸/۴۸-۵۰
فَاصْبِرْ‌ لِحُكْمِ رَ‌بِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿٤٨﴾
پس تم بھی، اے رسول، اللہ کے حکم پر استقامت کے ساتھ جمے رہو، اور صاحب الحوت، یعنی یونس علیہ السلام کی مانند مایوس مت ہو جیسا کہ جب انہوں نے ہمیں پکارا تو وہ سخت دباو کی[مَكْظُومٌ] حالت میں تھے۔
لَّوْلَا أَن تَدَارَ‌كَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَ‌اءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴿٤٩﴾
پھر اگر ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر عنایت نہ ہوجاتی تو وہ وسیع میدان میں پڑے رہ جاتے اور احساس مذمت کا شکار رہتے [مَذْمُومٌ]۔
فَاجْتَبَاهُ رَ‌بُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٥٠﴾
مگر ان کے پروردگار نے ان کی طرف توجہ کی اور انہیں ایک عظیم مصلح کا درجہ عطا کیا ۔
آیت: ۱۰/۹۸
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْ‌يَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٩٨﴾
تو پھر یونس کی قوم کے علاوہ بھی کوئی اور بستی ایسی کیوں نہ ہوتی کہ ایمان لے آتے اور ان کا ایمان انہیں منفعتیں عطا کردیتا، کیونکہ جب یونس کی قوم ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تو ہم نےان پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کو دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں اسبابِ زندگی سے مالا مال رکھا۔
اور اب رواں ترجمہ :
اور اسماعیل اور یوشع اور یونس اور لوط، ان سب حضرات کو ہم نے ہم عصر انسانوں پر، شعوری ارتقاء کےضمن میں، افضلیت کا درجہ عطا کیا۔
اور یاد کرو [الہامی دانش کے مالک] یونس کو جب وہ مایوسی کے غلبے کی بنا پر برافروختگی کے عالم میں اپنے لوگوں سے رشتہ منقطع کر کے ہجرت کر گئے اور کچھ ایسا قیاس کرنے لگے کہ گویا ہم ان کی قدر و قیمت یا بلند مقام کا خیال نہیں رکھیں گے- تو پھر اسی عالم میں مایوسی کے اندھیروں میں انہوں نے پکارا کہ میرے رب تیرے سوا کوئی اختیار کا مالک نہیں ۔ تُو ذاتِ مطلق و کامل اور پاک و بلند مرتبہ ہے۔ بیشک میری حالت اندھیروں میں بھٹکنے والے کی سی ہو گئی ہے ۔ تب ہم نے ان کی پکار کا جواب دیا اور انہیں غم و اندوہ کی حالت سے نجات عطا کر دی ۔ ہم اسی کے مانند اہلِ امن و ایمان کو کامیاب کرتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت یونس پیغمبروں میں سے تھے ۔ جب انہیں ہجرت کر کے ایک بلندی پر واقع کھلے قطع زمین کی طرف جانا پڑا جو آبادی سے بھرا پڑا تھا ۔ انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سخت جدوجہد کی تھی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پھر بھی ان کے مشن پر ان کے گہرے ارتکاز نے انہیں پوری گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ خود کو ملامت کرنے پر مائل تھے ۔
پس اگر وہ اپنے مشن کے معاملے میں پورے وسائل کے ساتھ جدوجہد کرنیوالے نہ ہوتے تو وہ ان کےحیاتِ نو پانے کے وقت تک ان ہی کے درمیان پڑے رہتے - اسی حقیقت کے پیش نظر ہم نے انہیں ان کے لوگوں سے منقطع کر کے ایک فراخ سرزمین پر پہنچا دیا جب کہ وہ ناخوش و بیزار تھے۔
اور پھر ہم نے ان کے لیے ثمرات سے بھرے پودے پیدا کر دیے ۔ یعنی انہیں لاکھ سے بھی زائد لوگوں پر رسول بنا دیا ۔ پھر وہ سب ایمان بھی لے آئے، تو ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لیے اسبابِ زندگی سے مالا مال کر دیا ۔
پس تم بھی، اے رسول، اللہ کے حکم پر استقامت کے ساتھ جمے رہو، اور صاحب الحوت، یعنی یونس علیہ السلام کی مانند مایوس مت ہو جیسا کہ جب انہوں نے ہمیں پکارا تو وہ سخت دباو کی حالت میں تھے۔ پھر اگر ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر عنایت نہ ہوجاتی تو وہ وسیع میدان میں پڑے رہ جاتے اور احساس مذمت کا شکار رہتے۔ مگر ان کے پروردگار نے ان کی طرف توجہ کی اور انہیں ایک عظیم مصلح کا درجہ عطا کیا ۔
تو پھر یونس کی قوم کے علاوہ بھی کوئی اور بستی ایسی کیوں نہ ہوتی کہ ایمان لے آتے اور ان کا ایمان انہیں منفعتیں عطا کردیتا، کیونکہ جب یونس کی قوم ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تو ہم نےان پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کو دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں اسبابِ زندگی سے مالا مال رکھا۔
بریکٹ میں دیے گئے اہم الفاظ کے مستند معانی :
[مُغَاضِبًا] : غصہ میں ہونا، wrath, rage, indignation, angry, irritated, furious
[لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ]: ہم اس کی صحیح قدر و اہمیت نہیں کرتے یا جانتے ۔
[فی الظلمات] : تاریکی میں ، اندھیروں میں، مایوسی اور ظلم کا اندھیرا۔
[سُبْحَانَكَ]: نُو ذاتِ مطلق و کامل ہے؛ تمام کمیوں اور نقائص سے پاک اور بلند ہے۔
[الْفُلْكِ] : زمین کا وسیع قطعہ یا میدان، زمین کے قطعے جو دائرے میں ہوں اور بلند سطح کے حامل ہوں؛ کشتی ، جہاز۔
[أَبَقَ] : بچ کر نکل جانا؛ بھاگ جانا؛ run away, to escape
[الْمَشْحُونِ] : لوڈ کیا ہوا، چارج کیا ہوا، بھرا ہوا ۔ ایک بھری ہوئِ آبادی یا شہر، بھرا ہوا جہاز یا گھر، یا کمرہ، وغیرہ۔
[فَسَاهَمَ] : سھم؛ کسی کام کے لیے سخت کوشش کرنا، سنجیدہ کوشش کرنا؛ تیر چلانا، مقابلہ کرنا ۔
[الْمُدْحَضِينَ] : شکست خوردہ؛ ہارا ہوا، loser, suffered defeat
[الْحُوتُ] : کسی مرکز کے گرد مرکوز ہونا؛ دائروں میں گھومنا، تعلیمات یا مقاصد پر توجہ مرتکز کرنا؛ مچھلی؛ مچھلی کا گول گول گھومنا۔
[فَالْتَقَمَهُ] : لقم؛ لقمہ بھرکر منہ میں ڈال لینا؛ جبڑوں کی پکڑ میں یا گرفت میں لے لینا۔مضبوطی سے چاروں طرف سے جکڑ لینا۔
[ملیم] : ملامت زدہ ہونا ۔ ذلت محسوس کرنا ۔
[الْمُسَبِّحِينَ] : وہ جو کسی مقصد کے لیے پوری طاقت سے؛ پورے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کوشش کریں ۔ جیسے تیراک کرتا ہے ۔ سبح: وہ تیرا، اس نے پوری جدوجہد کی، کاوش اور کوشش کی ۔
[إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ] : بعث : ازسرِ نو کھڑے ہو جانا : حیاتِ نو مل جانا ؛ آخرت کی زندگی ؛ مبعوث ہونا ۔
[فِي بَطْنِهِ] : اس کے درمیان میں؛ اس کے پیٹ میں؛
[لَلَبِثَ]: رہنا، زندگی گزارنا،
[فَنَبَذْنَاهُ] : نبذ : لوگوں سے منقطع ہو کر ایک طرف چلے جانا؛ گوشہ نشین ہونا ۔ چیز کو در خور اعتناء نہ سمجھ کر پھینک دینا؛ throw away, discard, reject, resign, surrender
[بِالْعَرَ‌اءِ] : فراخ میدان میں ؛ چٹیل میدان میں ۔
[سَقِيمٌ] : سقم : مرض، کمی، کمزوری، ناخوش اور بیزار ؛ diseased/disordered/distempered/sick/poor/faulty, etc.
[مَكْظُومٌ] : سخت دباو کی حالت میں؛ دکھ، مایوسی، خاموش، غم سے گھٹا ہوا آدمی۔
[مَذْمُومٌ] : مذمت؛ قابلِ مذمت؛ ذمہ داری پوری نہ کرنا ؛ discredited, blamed, reviled, reproved, forsaken