اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2015

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر23

Thematic Translation Series, Installment No.23

یاجوج و ماجوج – GOG AND MAGOG

قرآنِ حکیم کے ہمیں آج تک مسخ شدہ غلط تراجم ہی ورثے میں ملے ہیں، خواہ وہ ورثہ قدیمی ہو یا حالیہ زمانے کا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساڑھے چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود بھی ہمارا نظریہ حیات الجھاووں سے بھرا ہوا ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ زیر تفتیش و تحقیق لایا جا رہا ہے۔ تفاسیر کے ناقابلِ مطالعہ بلند پہاڑ موجود چلے آ رہے ہیں ،اس کے باوجود بھی ہر شہر کے ہر تیسرے چوتھے محلے میں ایک عدد مفسر بیٹھا نہایت خلوصِ نیت سے ایک اورنئی اور سابقہ تمام کتابوں سے منفرد تفسیر لکھنے میں مشغول ہے۔سوالات، بحث و مباحث اور ایک دوسرے کی نفی، تردید یا تنقید کا سلسلہ دشنام طرازی تک، حتیٰ کہ تکفیری نعرہ بازی کی حد تک جا پہنچتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس عالیشان الہامی صحیفے سے علم و دانش کے موتی اس طرح چن کر ہماری زبان میں سامنے لے آئے کہ اس کا حقیقی بلند و بالا پیغام ہم سب کے لیے آسان فہم ہو جائے، یہ پیغام طلسماتی اوردیومالائی افسانوں سے پاک ہو جائے، عقلی علمی اور سائنسی معیارات پر پورا اتر پائے، اور اس میں کلامِ الٰہی کے اپنے متبرک و مقدس الفاظ کے ہمراہ کسی ایک بھی انسانی لفظ یا خیال کی ملاوٹ نہ پائی جائے ۔ دراصل سخت محنت اور تحقیقی مہمات ہمارے آج کے مزاج کا حصہ ہی نہیں۔

جدید علمی اور عقلی تراجم کے اس سلسلے میں درجِ بالا معیار اپناتے ہوئے یہی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے کہ "مفہوم" کے نام پر ڈیڑھ ہزار سال سے چلا آرہا التباس و اشتباہ، اور حک و اضافے کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اور قرآن اپنے اعلیٰ ادبی اسلوب کے عین مطابق دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔انتہائی سختی اور قطعیت کے ساتھ صرف متکلم کی ذاتِ عالی شان کے خالص اپنے ہی الفاظ کے اردو ترجمے کے ساتھ۔

اس ضمن میں یہ اہم نکتہ آپ کے گوش گزار کر دیا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا کہ ہمارے کچھ "دانشور" ساتھی، ہمارے بزرگوں کی زبان سے سنی سنائی منطق کی تقلید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ "قرآن کا تو ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کا تو صرف مفہوم دوسری زبانوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے"!!!! یا یہ کہ قرآن کا ترجمہ کرنا سب سے بڑی حماقت (یا ایسا ہی کچھ) ہے"۔!!! عقل کو استعمال میں لائے بغیر اس قسم کے فتاویٰ کا شوق رکھنے والے ساتھیوں کے سامنےیہ دلیل لائی جائے کہ وہ خود بھی قرآن کو "اردو زبان" ہی میں پڑھ کر سمجھتے ہیں ۔ اس لیے وہ کیسے یہ احمقانہ بیان جاری کر سکتے ہیں؟؟؟ تو اُ ن کے پاس ہٹ دھرمی کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا ۔۔ ۔ ۔ حد تو یہ ہے کہ ہر تفسیر، خواہ نئی ہو یا قدیم، عموما"
پہلے ترجمہ ہی کرتی ہے، اور پھر اس کی تفسیر کے نام پر اس کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ یعنی ترجمہ ایک لازمی امر ہے ۔ اب یہ سوال کہ اگر ترجمہ کر دیا جاتا ہے، تو پھر ہر ایک طالع آزما کو تفسیر یا تشریح یا مفہوم لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہایت اہم سوال ہے ! جواب اس اہم سوال کا نہایت آسان ہے ۔ کیونکہ ترجمہ کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں ہوتی، اور ترجمہ غیر مربوط، غیر نمائندہ ، اور غیر علمی و غیر عقلی ہوتا ہے، اس لیے پھر ایسے ترجمے کا جواز بھی پیش کرنا پڑتا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس جواز کے لیے اپنے خیالات اور اپنے ذاتی فہم کےمطابق، اور اپنی پست شعوری سطح کے مطابق، اُ سی بے ربط، عامیانہ اور دیومالائی انداز میں تشریح فرما دی جاتی ہے جو اپنی اصل میں بمعنی "تاویلات" کے ہوتی ہے۔اور یہ تشریح یا تفسیر معاملے کو قرین عقل بنانے کی بجائے مزید گنجلک کر دیتی ہے۔

آفاقی حقیقت تو یہ ہے کہ کلامِ الٰہی "للناس" یعنی تمام انسانیت کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ ضروری ہے کہ اس کا بعینہی ترجمہ، بغیر کسی تشریح و تفسیرو توضیح غیر عربی زبان بولنے والوں کے لیے ، اُن کی تمام زبانوں میں کر دیا جائے، تاکہ بجائے ایک چھوٹی سے عرب قوم کے، تمام انسانیت اس سر چشمے سے فیض و ہدایت حاصل کرے۔ اسی لیے قرآن ِ کریم 100 فیصد ترجمے کے لائق بنایا گیا ہے ۔ اسے ترجمے کے ناقابل تصور کرنا ایک یاوہ گوئی اور فضولیات کے علاوہ کچھ نہیں، جسے کوئی قرآنی سند حاصل نہیں ہے ۔ ایسی یاوہ گوئی وہی کر سکتے ہیں جن میں راست اور ہر لحاظ سے خود تشریحی اور خود مکتفی ترجمہ کرنے کی اہلیت ہی نہ ہو ،،،،،یا اُن کا مقصد ہی قرآن کے حقیقی معانی کو بگاڑ کر پیش کرنا ہو، جس کے لیے اپنے ذاتی خیالات اور نیت و ارادوں کا شامل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور یہی وہ بے ایمانی سے بھرپور کام ہے جسے تفسیروں یا مفاہیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب قرآنی اصطلاح یاجوج و ماجوج ہی کی مثال ملاحظہ فرمالیں کہ بجائے اس کے کہ حقیقی علمی ترجمہ درج بالا معیارات سے مطابق رکھنے والا ہو، لیکن اس کے برعکس ہمیں آج تک ایک ایسا لایعنی اور غیر مربوط ترجمہ پڑھایا جاتا رہا ہے جس میں میتھولاجی یعنی قدیمی دیو مالا پوری طرح کارفرما ہے۔ اور "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" والا معاملہ درپیش ہے ۔ پہلے کچھ مروجہ تراجم آپ کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں جو اپنی رُوداد خود اپنی زبانی پیش کر رہے ہیں ۔ قرآن میں یہ اصطلاحات صرف دو مقامات پر مندرج ہیں اور تصریف الآیات کے قیمتی اصول کے مطابق ایک مقام دوسرے کی خود ہی تشریح و توضیح کر دیتا ہے ۔ دیکھیے روایاتی تراجم کی چند مثالیں :-

سورۃ الانبیاء: 21/95-96:

وحرام علیٰ قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون(95) حتیٰ اذا فُتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون(96)۔

مولانا مودودی: اور ممکن نہیں ہے کہ جس ہستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے۔ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے۔

فتح محمد جالندہری: اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کر دیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے۔ یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہوں۔

احمد علی: اور جن بستیوں کو ہم فنا کر چکے ہیں ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئیں۔ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔

محمد جونا گڑھی: اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔

علامہ اسد: پس یہ ناقابلِ تردید طور پر سچ ہے کہ کوئی معاشرہ جسے ہم نے کبھی تباہ کیا ہو کہ وہ (ایسے لوگ ہیں جو) کبھی واپس نہیں آئیں گے (اپنی گناہ آلود راہوں سے) ۔ اُس وقت تک جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں (دنیا پر) اور وہ ہجوم کرکے (دنیا کے) ہر کونے سے نکل پڑیں۔

علامہ پرویز : اس کے برعکس جن قوموں کی صلاحیتیں نشوونما پانے سے رُک جاتی ہیں، وہ تباہ ہو کر زندگی کی شادابیوں سے محروم رہ جاتی ہیں اور پھر لوٹ کر (مرفہ الحالی کی طرف) نہیں آ سکتیں۔ ۔ البتہ اس کی ایک شکل یوں ہو جاتی ہے کہ جب قوت و شوکت کی مالک تیز خرام قومیں اپنے ملکوں سے نکل کر ان پس ماندہ اقوام کے ملکوں میں ڈیرے ڈال دیں، تو کچھ عرصہ کے بعد بطور رد عمل ان کمزور قوموں میں زندگی کی حرارت ابھر آتی ہے اور وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے مصروفِ تگ و تاز ہو جاتی ہیں ۔ اس سے انہیں دوبارہ زندگی مل جاتی ہے۔

درج بالا تراجم میں آپ دیکھیں گے کہ صرف آخری ترجمہ بقلم استاد علامہ پرویز ہی کافی درجے میں معقولیت کا حامل ہے، لیکن پھر بھی ان کے ذاتی فہم پر مبنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ذاتی فہم کو شامل کرنے کی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔۔باقی تو سب الّا ماشاءاللہ ہی ہیں ۔ سَروں کے اوپر سے گذر جانے والے ہیں ۔یہ آسانی سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ خود مترجمین کو ترجمہ کرتے وقت یہ مکمل ادراک تھا کہ ان کے ترجمے عقل کے کسی بھی معیار پر پورے نہیں اُترتے، کیونکہ مکمل طور پر بے معنی ہیں۔ پھر بھی ان حضرات نے ان میں کوئی قرینِ عقل معنی پیدا کرنے کے لیے مطلوبہ تحقیق یا محنت کرنا گوارا نہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون یاجوج و ماجوج؟ ۔ ۔ ۔ ۔آخر کہاں پائے جاتے ہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس پنجرے میں قید ہیں جہاں سے "کھول" دیے جائیں گے؟۔ ۔ ۔۔ اور پھر اس خیالی مخلوق کے بلندیوں سے اُ تر کر حملہ آور ہونے سے کیسے "ہلاک کی گئی" قومیں دوبارہ زندگی پا جائیں گی؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسی بہت سی خیالی قومیں موجود ہیں، جو ہر پستی میں گر جانے والی قوم کے ساتھ ایسا کریں گی؟؟؟؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یوروپین اقوام نے تو، سبھی جانتے ہیں، کہ کرہ ارض کی تمام پستیاں اور بلندیاں دریافت کر لی ہیں اور اس قماش کی کوئی پنجروں میں بند قوم کسی بھی "بلندی" پر ان کے مشاہدہ میں نہیں آئی، جہاں سے یہ ا ُتر کر کبھی حملہ آور ہوگی!۔ ۔ ۔ نیز اگر یہ قوت و شوکت کی مالک قوموں کے حملوں کا ذکر ہے (اُستادعلامہ پرویز)، تو آج تک تو ایسی قوموں کے غلام بنائے ہوئے لوگوں میں کوئی بھی حرارت اُبھرتے ہوئے نہیں دیکھی گئی ۔یوروپین قوموں کی غلامی تین صدیوں سے مسلط ہے۔ اور کسی بھی حیاتِ نو کی بجائے یہ غلام قومیں آزاد ہوجانے کے باوجود معاشی اور عسکری اور تہذیبی غلام ہیں اور مسلسل ذلتوں کے تاریک غار میں گرتی جا رہی ہیں۔ منگول قوم کے حملوں کو بھی لگ بھگ آٹھ صدیاں بیت چکی ہیں، اور ان کے تاخت و تاراج کرنے کے بعد دوبارہ اُٹھ کھڑا ہونا تو کجا، خلافتِ اسلامیہ کا شیرازہ بالکل ہی بکھر گیا ۔ طوائف الملوکی کے باعث جگہ جگہ خود مختار مملکتیں اُبھر آئیں جو آپس میں دست و گریباں رہیں ۔ سلجوقیوں کی غلامی، ممالیک سلاطین کی غلامی، ، عثمانی ترکوں کی غلامی، سلطنتِ ایران کی از سرِ نو حکمرانی اور خودمختاری، کابل و سمرقند اور ہندوستان میں الگ خودمختار مستبد حکومتیں اور پھر مآ لِ کار،،،،، یوروپین اقوام کی طویل غلامی، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

اور اب ملاحظہ فرمائیں سیاق و سباق کے مطابق حقیقی علمی ترجمہ جس میں وضاحت و تشریح کےنام پر ایک بھی غیر قرآنی لفظ یا خیال پیش نہیں کیا گیا، لیکن جو سارا معاملہ ایک طبعی قانون کی شکل میں آسانی سے بیان کر رہا ہے :-

وحرام علیٰ قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون(95) حتیٰ اذا فُتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون(96)۔

اور ممنوع ہو جاتا ہے ایسی بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا یعنی پستی میں گرا دیا ہو(اھلکناھا) کہ وہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آ سکے(یرجعون )، جب تک کہ ایسا نہ ہوجائے کہ ان کے تمام فسادی لوگوں [یاجوج و ماجوج] پر فتح پا لی گئی ہو (فُتحت) اور انہیں تمام اونچے مقامات و مناصب (حدب )سے اُکھاڑ کر ٹکڑے کر کے پھینک دیا جائے(ینسلون )۔

اب اس جدید ترین ترجمے کو تمام سابقہ تراجم سے موازنہ کر کے چیک کر لیا جائے ۔ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں ۔

براہِ کرم چیک کریں : مودودی، صحیح انٹرنیشنل، پکتھال، یوسف علی، شاکر، محمد سرور، محسن خان، آربری، جالندھری، علامہ اسد، علامہ پرویز۔ سب کے ہاں آپکو سمجھ میں نہ آنے والا،،،،، دیو مالائی،،،،، یا غیر منطقی ،،،،،،یا خود ساختہ مفہوم کا حامل ،،،،،ترجمہ نظر آئیگا جو یاجوج ماجوج کا معنی نہیں جانتا۔ حالانکہ وہ قرآن میں ہی سورۃ کہف میں بآسانی سمجھا دیا گیا ہے ۔ مزید بر آں ، بلا استثناء سب کے ہاں "فتحت" کا معنی "کھول دینا" ہی فرض کر لیا گیا ہے جب کہ اس کا معنی فتح پانا، تسخیر کر لینا، شکست دے کر زیرِ نگوں کر لینا وغیرہ بھی ہے جو تمام لغات میں مندرج ہے اور قرآن سے بھی ثابت ہے، اور اس جگہ نہایت قرینِ عقل تعبیربھی دے رہا ہے۔ لیکن ہماری روایت ہے کہ ہمارے پاس ہر عربی لفظ کا ایک ہی معنی موجود ہے، وہ جو ہمیں ہمارے دو نمبر کےملوکیتی اسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ اُس سے آگے ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔

دیکھیں سورۃ کہف (18/94):

"قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ۔"

"اے ذی القرنین، درحقیقت یاجوج و ماجوج زمین میں فساد پیدا کرنے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔"

یہاں اللہ تعالیٰ خود ہی واضح فرما رہے ہیں کہ "یاجوج و ماجوج" محاورہ ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے والے طاقتور طبقات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں اس کے یاجوج ماجوج موجود ہوتے ہیں۔ اور وہ بڑے بلند مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں وہاں سے بزور کھینچ کر باہر لا پھینکنا ہوتا ہے۔ تب ہی قوم دوبارہ ترقی اور مرفع الحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔

مکمل آیت اس طرح پیش کی گئی ہے : ۔ قالوا یا ذا القرنینِ ان یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ فی الارضِ فھل نجعلُ لک خرجا علٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدا (94)۔ قال ما مکّنّی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوّۃ اجعل بینکم و بینھم ردما (95)۔

ترجمہ: " انہوں نے اُسے مطلع کیا کہ کہ اے ذو القرنین یہاں فساد پیدا کرنے والے گروہ ہیں جنہوں نے ہماری زمین کے امن کو برباد کردیا ہے۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر ہم آپ کے لیے کچھ خراج کی ادائیگی مقرر کر دیں تو کیا ہمارے تحفظ کے لیے آپ ہمیں ان سے الگ کرنے کےلیے کوئی روک بنا دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ اختیار اور وسائل میرے رب نے مجھے دیے ہیں وہ بہت بھرپور ہیں۔ بس تم لوگ اپنی تمام تر قوت سے میری اعانت کرو تو میں تمہارے اور اُ ن کے درمیان جو معاملہ ہے اُس کا سد باب کر دیتا ہوں ۔

لیکن بلا استثناء تمام قدیم و جدید مفسرین نے اسے ایک منفرد قوم سمجھ کر اس کے مادے سے عجیب و غریب مطالب اخذ کیے ہیں اور اس اصطلاح کوکسی بڑی اور خاص خیالی قوم سے منسوب کر کے معاملے کو ابہامات سے بھر دیا ہے۔ سب نے ہی بائبل (تورات) کی کتب "حزقی ایل" اور "کتابِ مکاشفات" سے لے گئے اسی اصطلاح کے، قیاسات پر مبنی، ہزاروں سال قدیم اور حیرت اور استعجاب سے بھرپور دیومالائی معانی کو بغیر سوچے سمجھے درست مان کرقرآن میں بھی استعمال کر لیا ہے۔ اور خود اپنی عقل کواستعمال کرنے کی بجائے گھاس چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ اِ ن سبھی نے ہمیشہ سے موقف بھی یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ انجیل و تورات تو محرف کتابیں ہیں! کوئی پوچھے کہ بھائی صاحب، پھر کیوں آپ نے اندھوں کی مانند ان محرف کتابوں کے کیے ہوئے تراجم سے یاجوج و ماجوج کی قیاسی تعبیر مستعار لے کر من و عن قرآن پر تھوپ دی ہے ؟؟؟ یعنی تضادات سے کھیلنا ہمارے اِ ن پسماندہ لکھاریوں کی فطرتِ ثانیہ ہے ۔

نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یاجوج و ماجوج کی تفسیریں ایسی گھڑی گئی ہیں کہ خود ساختہ تاویلات سے بیسیوں صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس " ماورائی قوم" کی تعریف و تعبیر قلمبند کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے ہیں ۔ حالانکہ ہم اور یہ سبھی مفسرین بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن کے ترجمے میں خود سے، یا اِدھر اُدھر کے قیاسات کی مدد سے، ایک لفظ کا اضافہ کرنا بھی ناقابلِ معافی جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔ پس ہمارے اس قماش کے تراجم تو ہیں ہی "سبحان اللہ" ، لیکن ہماری جملہ موروثی تفاسیر تو اس جرم و گناہ کی زندہ اور بھاری بوجھل " وارداتیں" کہلانے کی مستحق باور ہوتی ہیں۔

فاعتبرو یا اولی الابصار!!!!

براہِ کرم مطالعہ فرمائیے : قرآن کے سلسلہ وار "موضوعا تی" تراجم کی قسط نمبر (22) – حضرت موسیٰ کا تربیتی سفر، حضرت خضر کی ہمراہی، ذو القرنین کےکارنامے ۔ سورۃ الکہف سے ماخوذ (آیات 60 سے 99)"۔ لنک : ebooks.i360.pk ۔

خاص الفاظ کے مستند معانی :

ن س ل : نسل: ینسل: ینسلون: پیدا کرنا، پرورش کرنا، باپ (بچے)

فعل: نوچ کر اکھاڑ لینا، باہر نکال دینا، ریشہ ریشہ کر کے علیحدہ کر دینا، چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دینا، مذمت/ملامت/لعنت کرنا، گرہ کھولنا

ح د ب: حدب: نمایاں طور پر ابھرا ہوا، بلند کیا گیا، اونچے مقام پر فائز، نشوونما یا ترقی یا پرورش یافتہ۔ بڑھ کر بلندی حاصل کیا ہوا۔

N s l : نسل : to beget, procreate, sire, father (children)

Verb: to pluck out; to pluck, to ravel out, unravel(to open a knot), to fall out, to separate into fibers, to shred, undo, to fall out; to imprecate (offensive words).

H d b : حدب : noun: protuberant; raised high, elevated, grown up; grown high.