اورنگزیب یوسفزئی جنوری:۲۰۱۴
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر6
سورة عبس
قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
سورۃ ِ زیرِ نظر کا ترجمہ قریبی اصحاب کے اصرار پر ایک نشانِ راہ کے انداز میں صاحبانِ علم کے غور و خوض کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔ قرآنِ عظیم کے بلند و بالا ادبی و علمی اسلوب کو مد نظر رکھا گیا ہے اور عبارت کے باہم گہرے ربط و ضبط کو واضح کرنے کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔
اس سورت میں عمومی طور پر مخاطب کے طور پر حضور رسالتمآب [ص] کو مخصوص کر لیا جاتا ہے جس سے آپ کی ذاتِ گرامی اور سیرتِ عالیہ پر حرف آ جاتا ہے ۔ پھر مختلف تاویلیں کر کے رسولِ پاک پر وارد اس نام نہاد سرزنش کے اثرات کو کم کرنے کی بے سُو دکوشش کی جاتی ہے ۔
واضح رہے کہ یہاں متکلم نے واحدمذکر غائب اور مذکر مخاطب کی ضمیریں استعمال کی ہیں جنہیں کسی بھی خاص شخصیت کی جانب اس لیے منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ پوری سورت میں کہیں بھی ان ضمائر کا مرجع سامنے نہیں لایا گیا ۔ فلہذا یہ خطاب ِ عمومی ہے جو تمام اہلِ علم کے لیے ہے، وہ اہلِ علم جن کا رویہ ایسا ہو کہ کسی مکمل طور پر لاعلم انسان کی تربیت کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ جاہلِ مطلق کی صنف میں آتا ہو ۔ اور کسی ایسے پر پوری توجہ دی جائے جو خود کو افلاطون سمجھتا ہو اور جسے اس تربیت کی کوئی خاص پرواہ بھی نہ ہو ۔ یہ زور دیا گیا ہے کہ قرآنِ حکیم [الذِّكْرَىٰ] کا پیغام ہر انسان تک پہنچانا ضروری ہے خواہ اس کے علم کی سطح پست ہو یا بلند۔اور اس معاملے میں اکراہ اور گریز کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان اپنے تمام تر علم کے باوجود اپنی تخلیق کے طریقِ کار اور مقصد سے پوری طرح آشنا نہیں ہے ۔
آئیے اللہ کے پاک نام کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿٤﴾ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿٥﴾ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿٦﴾ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿٨﴾ وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿٩﴾ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿١٠﴾ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ﴿١١﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿١٢﴾ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾ قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ﴿١٧﴾ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ﴿١٩﴾ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ﴿٢٢﴾ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ ﴿٢٣﴾ فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢﴾ فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ ﴿٣٩﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ﴿٤١﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ﴿٤٢﴾
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾
کسی کے پاس کوئی علم سے محروم انسان [الْأَعْمَىٰ] آ جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ وہ ناگواری محسوس کرے اور اسے تعلیم دینے سے گریز کی راہ اختیار کرے ؟
وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿٤﴾
یہ کیسے تمہارے حیطہِ ادراک میں لایا جائے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شخص ذہنی طور پر نشوونما پانے کی صلاحیت سے مالا مال ہو[لَعَلَّهُ يَزَّكَّى]۔ یا وہ اتنی توجہ سے سیکھے کہ یہ اللہ کی نصیحت و راہنمائی [الذِّكْرَىٰ ]اس کی ذات کے لیے منفعت بخش ہو جائے[فَتَنفَعَهُ ]۔
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿٥﴾ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿٦﴾:دوسری طرف وہ جو علم سے بے نیازی برتے اور تم اس پر توجہ دیتے رہو۔
وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿٧﴾ : اور وہ پھر بھی ذہنی نشوونما نہ پا سکے تو پھر تم پر اس کی جواب داری کی کیا صورت رہیگی؟
وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿٨﴾ وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿٩﴾ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿١٠﴾
اس لیے، وہ جوخود تم تک پہنچا ہو اور جدو جہد بھی کرتا ہو ۔نیز وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو، تو کیا تم لوگ ایسے انسان کو سکھانے کی ذمہ داری سے جی چراوگے؟
كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ﴿١١﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿١٢﴾ : ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ قرآن تو ایک عمومی ہدایت اور راہنمائی ہے اور ہر وہ انسان اسے یاد کرنے اوراس سے نصیحت لینے کا حق رکھتا ہے جو اپنی منشاء سے ایسا کرنا چاہے ۔
فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾
یہ ایسے صحیفے میں درج ہے جو واجب الاحترام ہے، بلند مرتبہ ہے اور پاکیزہ ہے ۔
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾: اور ایسے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے جو نیک، معزز اور ماہر خوشنویسوں کے ہاتھ ہیں ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ﴿١٧﴾
حقیقت تو دراصل یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے تخلیقی طریقِ کار و راہنمائی سے انکار اسےروحانی طور پر مار دیتا ہے۔
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ﴿١٩﴾: وہ یہ جان لے اور یاد رکھے کہ اس کی تخلیق کس چیز سے کی گئی ہے ۔ ایک قطرے سے اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی اس زندگی کے لیے قواعد و قوانین منضبط کر دیے گئے۔
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ﴿٢٢﴾
پھر اس کا مخصوص راستہ اس کے لیے مہیا اور آسان کیا گیا ۔ پھر گردشِ وقت کے ذریعے اسے انجام تک پہنچایا گیا اور اس کے جسدِ خاکی کو گڑھے میں دفن کیا گیا۔ اور پھر قانونِ مشیت کے مطابق اسکی ذاتِ حقیقی کو حیاتِ نو عطا کرنے [أَنشَرَهُ ]کا طریقِ کار تشکیل دیا گیا۔
كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ ﴿٢٣﴾
اس لیے ابھی ایسا ہرگز نہ سوچو کہ اس کے لیے جو منزلِ مقصود متعین کی گئی ہے[أَمَرَهُ ] وہ اس نے حاصل کر لی ہے [يَقْضِ ]۔
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾
اس منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے حصولِ علم کی طرف توجہ دے۔ اور غور کرے کہ
أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢﴾
فی الحقیقت ہم نے کس کمال کے ساتھ تخلیق کے نباتاتی مرحلے میں وافر مقدار میں پانی فراہم کیا۔ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور اس میں سےاناج پیدا کرنے کے اسباب کیے۔ اور انگور اور سبزیاں، اور زیتون اور کھجور کے درخت، اور بھرپور باغات، اور دیگر متنوع اقسام کے پھل اور گھاس پھوس تخلیق کیے ، تاکہ تمہارے اور تمہارے پالتو جانوروں کے لیے سامانِ زیست بنیں ۔
فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ
پس اس طبیعی زندگی کے بعد پھر وہ آخرت کا مرحلہ آئے گا جب وہ کان پھاڑ دینے والا دھماکہ وقوع پذیر ہوگا۔ یہ وہ آخری دور ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے دُور بھاگے گا، اور اپنے ماں اور باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ان سب میں سے ہر انسان اُس مرحلے میں صرف اپنے اعمال کے نتائج ہی کی فکر میں مستغرق ہو گا۔
﴿٣٧﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ ﴿٣٩﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ﴿٤١﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ﴿٤٢﴾
اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے، مسکراتے اور خوش باش ہوں گے۔ کچھ اور چہرے اس دن غبار آلودہ ہوں گے ۔ ان پر تاریکیاں مسلط ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہدایتِ خداوندی سے انکار اور انتشار کی روش اپنائی ہوگی۔
اور اب رواں ترجمہ :-
کسی کے پاس کوئی علم سے محروم انسان آ جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ وہ ناگواری محسوس کرے اور اسے تعلیم دینے سے گریز کی راہ اختیار کرے ؟
یہ کیسے تمہارے حیطہِ ادراک میں لایا جائے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شخص ذہنی طور پر نشوونما پانے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ یا وہ اتنی توجہ سے سیکھے کہ یہ اللہ کی نصیحت و راہنمائی اس کی ذات کے لیے منفعت بخش ہو جائے۔
دوسری طرف وہ جو علم سے بے نیازی برتے اور تم اس پر توجہ دیتے رہو۔
اور وہ پھر بھی ذہنی نشوونما نہ پا سکے تو پھر تم پر اس کی جواب داری کی کیا صورت رہیگی؟
اس لیے وہ جوخود تم تک پہنچا ہو اور جدو جہد بھی کرتا ہو ۔نیز وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو، تو کیا تم لوگ ایسے انسان کو سکھانے کی ذمہ داری سے جی چراوگے؟
ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ قرآن تو ایک عمومی ہدایت اور راہنمائی ہے اور ہر وہ انسان اسے یاد کرنے اوراس سے نصیحت لینے کا حق رکھتا ہے جو اپنی منشاء سے ایسا کرنا چاہے ۔
یہ ایسے صحیفے میں درج ہے جو واجب الاحترام ہے، بلند مرتبہ ہے اور پاکیزہ ہے ۔
اور ایسے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے جو نیک، معزز اور ماہر خوشنویسوں کے ہاتھ ہیں ۔
حقیقت تو دراصل یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے تخلیقی طریقِ کار و راہنمائی سے انکار اسےروحانی طور پر مار دیتا ہے۔
وہ یہ جان لے اور یاد رکھے کہ اس کی تخلیق کس چیز سے کی گئی ہے ۔ ایک قطرے سے اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی اس زندگی کے لیے قواعد و قوانین منضبط کر دیے گئے۔
پھر اس کا مخصوص راستہ اس کے لیے مہیا اور آسان کیا گیا ۔ پھر گردشِ وقت کے ذریعے اسے انجام تک پہنچایا گیا اور اس کے جسدِ خاکی کی تدفین کا انتظام کیا گیا۔ اور پھر قانونِ مشیت کے مطابق اسکی ذاتِ حقیقی کو حیاتِ نو عطا کرنے کا طریقِ کار تشکیل دیا گیا۔
اس لیے ابھی ایسا ہرگز نہ سوچو کہ اس کے لیے جو منزلِ مقصود متعین کی گئی ہے وہ اس نے حاصل کر لی ہے ۔
اس منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے حصولِ علم کی طرف توجہ دے۔ اور غور کرے کہ
فی حقیقت ہم نے کس کمال کے ساتھ تخلیق کے نباتاتی مرحلے میں وافر مقدار میں پانی فراہم کیا۔ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور اس میں سےاناج پیدا کرنے کے اسباب کیے۔ اور انگور اور سبزیاں، اور زیتون اور کھجور کے درخت، اور بھرپور باغات، اور دیگر متنوع اقسام کے پھل اور گھاس پھوس تخلیق کیے ، تاکہ تمہارے اور تمہارے پالتو جانوروں کے لیے سامانِ زیست بنیں ۔
پس اس طبیعی زندگی کے بعد پھر وہ آخرت کا مرحلہ آئے گا جب وہ کان پھاڑ دینے والا دھماکہ وقوع پذیر ہوگا۔ یہ وہ آخری دور ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے دُور بھاگے گا، اور اپنے ماں اور باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ یہ سب لوگ ُ اس مرحلے میں صرف اپنے اعمال کے نتائج ہی کی فکر میں مستغرق ہونگے۔
اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے، مسکراتے اور خوش باش ہوں گے۔ کچھ اور چہرے اس دن غبار آلودہ ہوں گے ۔ ان پر تاریکیاں مسلط ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہدایتِ خداوندی سے انکار اور انتشار کی روش اپنائی ہوگی۔