اورنگزیب یوسفزئی مارچ 2016


قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر32


Thematic Translation Series Installment No.32

 

لفظ "نساء/النساء" قرآن میں کس صنف یا نوع یا طبقےکی نشاندہی کرتا ہے





تمام قدیمی قرآنی تفاسیر و تراجم میں آپ کو لفظ "نساء یا النساء" کا ترجمہ ہر مقام پر اور ہر سیاق و سباق میں ایک واحد لفظ "عورت "کی جمع،،،،،،، یعنی " عورتیں"،،،، ہی کی شکل میں نظر آئیگا۔ایک عربی لفظ کے ہر مقام پر ایک ہی معنی لینے کی اس قدیمی اور سوچی سمجھی سازش کے باعث ہمیں کچھ اس قسم کی انتہائی گمراہ کُن قرآنی تعبیرات ورثے میں ملی ہیں کہ جن کی بیشتر جزئیات ہمیں قرآن کے حقیقی پیغام اور فلسفے سے بہت دُور لے جاتی ہیں۔ابہام پیدا کرتی ہیں اور اذہان میں سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تعبیرات عورت ذات پر مرد کی حاکمیت مسلط کرتے ہوئے اور اس کی عزت و حرمت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے مسلمان امت اور اسلام کی کردار کشی کا باعث بنتی ہیں ۔ اور دیگر اقوام کو ہمارے دین کی تذلیل کرنے اور اس کا مضحکہ اُڑانے کا بھرپور موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
ہمارے وہ سکالرز جو دیگر ادیان کے داعیوں کے ساتھ بحث مباحثے میں شریک ہوتے ہیں وہ صرف ایک معذرت خواہانہ [apologetic] رویہ ہی اختیار کرنے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مروجہ دینی فہم کو عقل، جدید علوم اور تجربے کی رُو سے[empirically] درست قرار نہیں دے پاتے اور ایک مدافعانہ [defensive] تبادلہِ خیالات تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ شاید آپ یہ بات جانتے ہوں کہ اس کمی، کجی،یا کمزوری کے باعث تمام مسلم سکالرز کو مغربی دنیا میں اب Muslim apologists کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس عمومی تذلیل کے باوجود یہ لوگ آج کی جدلیاتی عقلیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے الہامی صحیفے کی بنیادی معروضی حقیقتوں کو ایک کڑی جانچ سے گذارنے اور ان کی اساسی فلاسفی کو دریافت کرنے کی کوشش کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اور غلط بنیادوں پر کیے گئے لغو استنباطات کو تبلیغ کے نام نہاد فریضے کے طور پر ایک انتہائی دانشمند دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظِ "نساء" قرآنی سیاق و سباق میں زیادہ تر ایک معاشرتی طبقاتی پیراڈائم میں استعمال کیا گیا ہے اور قرآن کے انتہائی گہرے اصلاحی اسلوب میں معاشرے کے کمزور گروہ یعنی محکوم عوام کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ "نساء" کے اس بڑے قرآنی موضوع پر ایک لسانی دھوکے کا ارتکاب بھی اُسی ملوکیتی سازش کا ایک حصہ ہے جو ایک بڑے پیمانے پر قرآنی تعبیرات کو مسخ کر نے کے لیے ابتدائی اموی دور ہی سے ایک گہری منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار لائی گئی ،،،، تاکہ ملوکیتی ظلم، جبر ، استحصال اور عیاشیوں کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اور تاکہ نظر انداز کیے گئے بے بس عوامی طبقات [نساء} کے اپنے وطن کی زمین اور وسائل پر مسلمہ حقوق لُوٹے جاتے رہیں۔ اس مذموم مقصد کو بار آور کرنے کے لیے یہاں تعبیرات کے عمل میں وہی فرسودہ اور دور از کار کلیہ استعمال کیا گیا جو اپنی بنیاد ۔۔۔ "ایک عربی لفظ کا ایک ہی مطلب پرست معنی ،،،، اور دیگر زبانوں میں ترجمے کے لیے ایک ہی واحد مرادف"۔۔۔ کے باطل اصول پر رکھتا ہے ۔ یہ مرادف بھی اُسی ایک انتہائی عامیانہ لفظی معانی پر مبنی ہوتا ہے جو ایک خاص مذموم مقصد کے لیے چن لیا گیا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت کسی ماہر لسانیات سے مخفی نہیں ہے کہ عربی زبان وسیع المعانی ہے اور ہر لفظ معانی کی وسعت رکھنے کے باعث ایک سے زیادہ مرادفات رکھتا ہے جو سب ہی اپنے مادے کی نسبت سے باہم منسلک اور عموما، ما سوا چند استثنائی حالتوں کے، قریب المعانی ہوتے ہیں ۔اس وسعت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے ان تمام مرادفات میں سے اُس خاص ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ ہی کوعقل و علم اور قرآنی پیغام کی مجموعی روشنی میں منتخب کرنا ہوتا ہے جو معانی کا مکمل احاطہ کرتےہوئے اپنے سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جائیں اور نہ صرف عالمی سچائی پر مبنی ہوں، بلکہ طبقاتی پیراڈائم پر جانچنے کے عمل میں بھی کسی ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے مفادات میں نہ جا رہے ہوں۔
نیز ایسا بھی ممکن نہ سمجھا جائے کہ ہر مترجم یا مفسر جیسا چاہے ، الفاظ کی وسعتِ معانی کے باعث، اپنی من مرضی کا معانی چن لے اور اپنی حسبِ منشاء ترجمہ تیار کرتا رہے۔ ایسا ہر خواہش پرستانہ ترجمہ عقل و علم و منطق اور یونیورسل سچائیوں کے پیمانے پر رد کر دیا جائیگا ۔ علاوہ ازیں قرآنی متن کے اعلیِ ترین ادبی معیار کی رعایت سے الفاظ کی ایک کثیر تعداد کو محاورے، ضرب الامثال اور تشبیہات و استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے جو ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام قدیم تراجم و تفاسیر میں ، جو ملوکیتی اسلام پر اپنی بنیاد رکھتی ہیں، جان بوجھ کر کلی طور پر نظر انداز کی گئی ہے۔اسی لیے سابقہ تمام کام استقرائی منطق کے کسی معیار پر پورا نہیں اُترتا، اور امت میں پھیلی ہوئی عمومی گمراہی اور مسلمان کے ذہنی ارتقاء میں پسماندگی کا سبب ہے۔
تو آئیے پسِ منظر کے اس مختصر بیان کے بعد حقیقی قرآنی تعبیرات کے قریب تر پہنچنے کے لیے یہاں لفظ " نساء" کے معانی کی تحقیق کر لیتے ہیں۔ بعد ازاں چند خاص متعلقہ آیات کے مستند تراجم بھی زیر غور لے آتے ہیں جن کے ذریعے بگاڑ دیے گئے مفاہیم کو ان کی سچی اور قرین عقل روشنی میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
لفظ نساء مختلف مستند لغات کی روشنی میں :-
[النِّسَاءُ]: مصدر: تنسئۃ ۔ نسیء۔ نساء ۔ نسُوء۔ منساۃ ۔ ن س ی/ن س و : lowly people/rubble/a forlorn thing insignificant/ completely forgotten/womanly/effeminate/to render ignominious/render backward/postponement/delay –oblivion, forgotten, counted for nothing, who is despised.
نچلے طبقے کے لوگ/بے حیثیت/نظرانداز کیے جانے والے/پسماندہ/کمزور/ گمنام۔ النسیُ: بھلائی ہوچیز، حقیر چیز جو کسی شمار میں نہ آئے ۔ [غریب عوام] ۔ اس فعل میں دونوں مادوں میں اشتراکِ معنی ہے یعنی overlap پایا جاتا ہے۔عرق النسا: ایک بیماری جو کمزوری پیدا کر دیتی ہے۔
لین کی لغت میں دونوں مادے ۔۔ ن س و۔۔ اور ۔۔ ن س ی۔۔ اکٹھے مندرج ہیں اور ان کی تعریف میں لفظ " عورتیں" نہیں دیا گیا۔دیکھیں سپلیمنٹ صفحہ ۳۰۳۳ --- تناساہ : اس نے ظاہر کیا کہ وہ اُسے بھول چکا ہے؛ وہ اسے بھول گیا؛ اس نے نظر انداز کر دیا؛ ذہن سے نکال دیا ۔ پھر یہاں عرق النساء کی تشریح کی گئی ہے [Sciatic nerve] ۔
لغات القرآن کے مطابق مجازی معنوں میں یہ لفظ قوم کے اس طبقے کے لیے استعمال ہوا ہے جو جوہرِ مردانگی سے عاری ہو (اس کی تفصیل کے لیے دیکھے عنوان ذ ب ح ۔۔ اور ۔۔ ب ن و ۔[یہاں بھی مراد کمزور عوام ہی باور ہوتا ہے]۔
دیگر لغات میں دونوں مادوں کی الگ الگ تعریف اس طرح کی گئی ہے :-
ن س و : النسوۃ، النساء، النسوان ۔ یہ سب الفاظ المراءۃ کی غیر لفظی جمع ہیں۔ یعنی المراۃ کے معنی ہیں ایک عورت ، اور النساء (وغیرہ)کے معنی ہیں بہت سی عورتیں۔ ان کا واحد ان کے مادوں سے نہیں آتا ۔دوسری جانب لسان العرب میں اس کی بھی جمع نسوۃ بتائی گئی ہے۔ سیبویہ کے حوالے سے کہا گیا : نساء، نسوی، نسوۃ، نُسیۃ ، اور نُسیات ۔
ن س ی : نسی کے معنی یہاں نظر انداز کرنے کے ہیں ۔ (5/104)۔ نسی یہاں نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے مفہوم میں ہے (5/97)۔ انسا: موخر کر دینا، پیچھے ہٹا دینا ۔
متعلقہ آیات سے غلط اور صحیح تراجم کی وضاحت
نساء کے مختلف الجہت لفظی اور استعاراتی معانی کی وضاحت کے بعد اب چند آیاتِ کریمات کی وساطت سے ، اور سیاق و سباق کی مناسبت سے اس لفظ کے معانی کے استعمالات کا احاطہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ اپنے حقیقی رنگ میں سامنے آ کر اپنے چھپا دیئے گئے طبقاتی پیرا ڈائم کو واضح کر دے۔ ۔ سب سے قبل حضرت موسی کے مشن کے پس منظر میں اس لفظ کے استعمال کے لیے دیکھ لیتے ہیں آیت ۲/۴۹ :-
2/49 : وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٤٩﴾
مروجہ غیر عقلی اور سازشی ترجمہ:-
"یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزما ئش تھی"۔]مودودی]
ظاہر ہے کہ کسی بھی قوم کے مردوں کو ذبح کیا جاتا رہے تو وہ قوم ہی افزائش نسل نہ ہونے کے باعث ایک دو نسلوں کے بعد صفحہِ ہستی سے ناپید ہو جائیگی۔ کیونکہ سلسہِ تولید قوم کے مردوں کے بغیر آگے نہیں چل سکتا۔ دوئم یہ کہ پھر محنت و مشقت کے حامل وہ مردانہ فرائض کیا عورتوں سے ادا کروائے جائیں گے جن کی استعداد صرف مردوں میں ہی پائی جاتی ہے؟ فلہذا یہ روایتی ترجمہ عقل و علم کی کسوٹی کے مطابق لغو ہے۔ نہ یہاں ابناءکم کی ترکیب "لڑکوں" کے لیے آئی ہے اور نہ ہی نساوکم سے یہاں "لڑکیاں یا عورتیں" مراد ہو سکتی ہے۔
عقلیت پر مبنی جدید تحقیقاتی ترجمہ:-
"یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے نجات دی تھی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا رکھتے تھے۔ وہ تمہارے مردانگی کے حامل سپوتوں [أَبْنَاءَكُمْ ] کوبے کار کر دیتے تھے اور تمہارے کمزور لوگوں [نساوکم] کو زندگی میں بڑھاوا دیتے تھے۔ اور اس طریقِ کار کے باعث تمہارے آقاوں کی جانب سے تمہارے لیے بڑی مشکل کا سامنا تھا"۔ [نوٹ فرما لیجیئے کہ یہاں سیاق و سباق اور عقلیت کے مطابق "نساء" سے مراد عورتیں نہیں بلکہ معاشرے کا کمزور طبقہ ہے، یعنی وہ جو جوہرِ مردانگی سے محروم تھے]۔
اب "عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں" کی تعبیر رکھنے والی مشہور آیت ۲/۲۲۳ کی تحقیق کر لیتے ہیں:
نِسَاؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْ‌ثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِينَ
روایتی غیر عقلی ترجمہ جو اسلام کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے :-
"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اُس سے ملنا ہے اور اے نبی جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مزدہ سنا دو"۔ [مودودی]
عورتوں کو ذلیل کرنے کی سازش کا اندازہ لگائیں کہ کھیتی یعنی زمین سے تشبیہ دے کر عورت ذات کو اپنے اختیار کی رعایت سے مجہولِ محض بنا کر پیروں کے نیچے کچل دینے اور ان کے جسموں میں جیسے چاہے" ہل چلانے "کے حقوق مردوں کے لیے محفوظ کرا لیے گئے۔ اور قرآنی ارشاداتِ عالیہ کو، اپنی مرضی کے تابع تفسیر کرتے ہوئے، صنف نازک کے لیے انتہائی گھٹیا اور ذو معنی فقروں سے لیس کر دیا گیا۔ ہمارے مقدس اماموں نے اس آیت سے کیا کیا استنباط کیا اور اپنی ہوس رانی کے لیے کس کس جنسی کج روی کو جائز قرار دیا اس کا بیان بھی شرمناک ہے۔
جدید قرینِ عقل ترجمہ جہاں "نساء" کے معنی پر غور مطلوب ہے :-
تمہارے معاشرے کے پسماندہ کمزور طبقات [نِسَاؤُكُمْ]تمہارا اپناسرمایہ اور اثاثہ [حَرْ‌ثٌ] ہیں ۔ پس اپنے اس اثاثے کے ساتھ جیسے بھی تم چاہو قربت کا تعلق رکھو۔ اورا ن اپنے لوگوں کو مضبوط اور باعزت بنیادیں فراہم کرو/زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھاو [وَقَدِّمُوا]۔اور اس طرح اللہ کے قانون کی پرہیزگاری کرو اور یہ یاد رکھو کہ تم سب کو اس کے سامنے پیش ہوکر جوابدہی کرنا ہے۔اور ایسا کرنے والے امن و ایمان کے ذمہ داروں کو خوشیوں کی نوید دو۔
Ha-Ra-Thaa = To till and sow, cultivate, cut a thing, acquire (goods), to collect wealth, seek sustenance, work or labour, plough, study a thing thoroughly, to examine/look into/scrutinize/investigate, call a thing to mind.
Harth has the meanings; Gain, acquisition, reward (gain), recompense (gain), seed-produce, what is grown/raised by means of seed/date-stones/planting. A wife or road that is much trodden.
Alif-Taa-Waw (e.g. of "atawoo") = to come, to bring, come to pass, come upon, do, commit, arrive, pursue, put forth, show, increase, produce, pay, reach, happen, overtake, draw near, go, hit, meet, join, be engaged or occupied, perpetrate (e.g. crime), undertake.

آیت ۲/۱۸۷ :-
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّ‌فَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُ‌وهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‌ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَ‌بُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾
اب روایتی تراجم میں دیکھیں کہ کس طرح زبردستی عورت اور سیکس کا بھرپور انجکشن لگا کر قرآن کی صحت کو داغدار کیا گیا ہے اور دین اللہ کی رسوائیوں کا کتنا شدید سامان کیا گیا ہے :-
"تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگذر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے اُسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپید ہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے ۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے۔ توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے۔ " [مودودی]
دیکھیے کیسے کہیں عورت بےچاری کو کھیتی بنا دیا اور کہیں لباس ،،،اور بالآخر ایک "لطف " حاصل کرنے والی تابع مہمل بنا کر ہی چھوڑا، جسے مرد جیسے جی چاہے اور جب چاہےاستعمال کریں ۔ لغویت کی انتہاء یہ ہے کہ "جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو"،،،،،،، گویا بیویوں کو مسجدوں میں بھی قریب ہی رکھا ہوا ہے تاکہ اعتکاف میں بھی جی چاہنے پر مباشرت کی جا سکے؟؟؟ یہ کسی مفسر و مترجم نے نہ سوچا کہ اگر ایک بناوٹی یا ملاوٹی تعبیر کرنے کا مشن پورا کیا جا رہا ہے تو کم از کم اس میں طفلانہ حماقتوں کا عنصر تو پیدا نہ ہونے دیا جائے ۔ ویسے بھی ملا کے ملوکیتی اسلام میں یہ اِن "مومنوں" ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ دن بھر فاقہ کشی کرنے کے بعد بھی راتوں کو جنسی ہوس تازہ رہے ، یعنی دن کو ایک "فریضہ" ادا کیا جائے اور رات کو "دوسرا فریضہ" بھی ادا کیا جاتا رہے۔نیز اعتکاف کے دوران بھی جنسی حظ کی خواہش غالب رہے۔
اور اب دیکھیے لفظ "نسا ء" کا قرآن کے حقیقی علم و حکمت کے تناظر میں وہ ترجمہ جسے اہلِ علم و دانش کی کسی بھی جماعت یا قوم کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے اور دینِ اسلام کی سرفرازی کا موجب ہے :-
"جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں[لَيْلَةَ الصِّيَامِ] تو تمہارے لیے یہ جائز کر دیا گیا تھا کہ اپنے کمزور طبقات کی جانب [إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ] بدزبانی اور توہین کا انداز اختیار کرو [الرَّ‌فَثُ]، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم ان اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو [تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ] یعنی ان کے حقوق غصب کرتے آئے ہو۔ اُس نے بہر حال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا۔ اس لیے اب اُن سے راست تعلق رکھو [بَاشِرُ‌وهُنَّ] اور اُن کی مشقتوں کے ماحصل سے اتنا ہی حاصل کرنے کی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز طور پر مقرر کر دیا ہے ۔ سابقہ صورتِ حال کے پیش نظر تمہارے لیے ضروری ہے کہ علم حاصل کرو [وَكُلُوا] اور اس کے مطابق وہ طور طریقہ/مشرب اختیار کرو [وَاشْرَ‌بُوا] جو تمہیں اس قابل کر دے کہ دین کی روشن صبح [الْفَجْرِ] میں تم سیاہ اور سفید، یعنی خیر اور شر، یعنی نیکی اور بدی [الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ] میں امتیاز کر سکو۔ پھر اپنا پرہیز اور تربیت کا نظام [الصِّيَامَ] ظلم و استحصال کے تمام اندھیروں تک [إِلَى اللَّيْلِ ] پھیلا دو۔ مزید برآں، جب کہ ابھی تم خود احکاماتِ الٰہی [الْمَسَاجِد]کے بارے میں غور و فکر کرنے اور نظم و ضبط مرتب کرنے [عَاكِفُونَ ]کے مراحل میں منہمک ہو تو ابھی اپنے کمزور طبقات میں خوش گمانیاں پھیلانے سے گریز کرو۔ یہ جو تمہیں بتائی گئیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان حدود کی خلاف ورزی کے قریب بھی مت جاو۔ اللہ واضح انداز میں اس لیےتم پر اپنی ہدایات بیان فرماتا ہے تاکہ تم ایسا طریقِ کار اختیار کرو کہ وہ سب لوگ بھی قانون کی نگہداشت کرنے والے بن جائیں۔"
"عورتوں کے ساتھ چار شادیاں"
اب آئیے "چار شادیوں" والی آیت کا بھی علمی تجزیہ و تحلیل کر لیتے ہیں تاکہ دینِ اسلام پر زبردستی لگوایا گیا تعدد ازواج [Polygamy] کا سیاہ داغ دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔آیت ۳/۴ پیشِ خدمت ہے۔
4/3 : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
روایتی مسخ شدہ ترجمہ:
"اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔ " [مودودی]
اسی ترجمے سے چار شادیوں کا جواز گھڑا جاتا ہے جو علم و عقل و دانش کی صریح توہین ہے۔ غور فرمائیے کہ بات یتیموں کے ساتھ انصاف کے سلوک کی ضرورت کی ہو رہی ہے۔ اور یتیم وہ چھوٹے نابالغ بچے ہوتے ہیں جن کا باپ، جو ولی اور سرپرست ہوتا ہے، مر گیا ہو۔ اور ان یتیموں میں مذکر اور مونث دونوں اصناف شامل ہوتی ہیں ۔ لیکن یہاں ان سب حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے، اچانک کہیں سے جوان بالغ عورتیں پیدا کر لی گئیں اور ان کے ساتھ چار چار تک شادیاں بھی جائز قرار دے دی گئیں۔ کیا آپ اس منطق کا کوئی سر یا پیر تلاش کر سکیں گے؟ کیا جوان بالغ عورتیں یتیموں میں شامل ہوتی ہیں؟ اگر یتیم بچیوں کو جوان سمجھتے ہوئے ان سے شادیاں کر کے انہیں سرپرستی میں بھی لے لیا گیا، تو پھر آخر چھوٹے مذکر بچوں کا کیا حل نکالا گیا ؟ آسمانی دانش کی کتاب قرآن حکیم کو یہ کن فضولیات کا نشانہ بنا دیا گیا؟ اور ہم کیسی اندھی مقلد قوم ہیں کہ چودہ سو سال میں کسی نے اس دھوکے اور فریب پر اعتراض کی ایک انگلی بھی نہ اُٹھائی ۔
جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ :
"اور جب تمہیں یہ خوف دامن گیر ہو جائے کہ تمہارے معاشرے میں یتیموں کے معاملے میں انصاف کا سلوک نہیں ہو رہا تو پھر تم ایسا کرو کہ اس کمزور طبقے [مِّنَ النِّسَاءِ] میں سے جو بھی تمہیں اپنے لیے مناسب معلوم ہوں ان کو اپنی کفالت/سرپرستی میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ ایسا تم ان میں سے دو یا تین یا چار کے ساتھ بھی کر سکتے ہو۔ لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ ان سب کے ساتھ برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک ہی کو کفالت میں لو ۔ یا پھر انہی کی سرپرستی کرتے رہو جو ما قبل سے ہی تمہاری زیر ِکفالت/ماتحتی/سرپرستی میں ہوں۔اس طریقے میں زیادہ قریب تر امکان ہے کہ تم عیال داری میں زیرِ بار نہ ہو جاو۔ "
"مرد عورتوں پر حاکم یا داروغہ"
آئیے ایک اور انتہائی متنازع ترجمے کا شکار ہونے والی آیت پر بھی علمی اور عقلی روشنی ڈال لیتے ہیں تاکہ مردوں کی عورتوں پر فوقیت کا دیرینہ سوال حل کر لیا جائے اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے سرخرو ہونے کا موقع مل سکے۔
4/34 : الرِّ‌جَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرً‌ا ﴿٣٤﴾
روایتی سازشی ترجمہ:
"مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاو، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو،،،، پھر اگر توہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔ " [مودودی]
اس روایتی ترجمے کا مطلوب و مقصود یہ جتلانا ہے کہ مرد اس لیے عورت سے بالاتر ہیں کہ وہ معاش کما کر لاتے ہیں اور عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ فلہذا عورت کو مرد کا فرمانبردار ہونا چاہیئے۔ اور اس مقصد کے لیے مرد اگر عورت کے ساتھ مار پیٹ بھی کرے تو وہ جائز ہے۔ یعنی عورت کیونکہ مرد کی دستِ نگر ہے اس لیے مرد سے کمتر ہے ۔ ملوکیتی اسلام کے تحت اسی ذہنیت کو ترقی دی گئی اور آج تمام مسلم امت اسی ذلالت کا شکار ہے۔
جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ
"""طاقتور/با اختیار لوگ ، یعنی معاشرے کے سربرآواردہ اور اقتدار کے حامل لوگ [الرِّ‌جَالُ]، معاشرے کی کمزورجماعتوں یعنی عوام [عَلَى النِّسَاءِ]کو استحکام دینے کے پابند ہیں اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون نے انسانی معاشروں میں بعض لوگوں کو بعض پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اپنے ذاتی اور قومی اموال میں سے انفاق کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ پس معاشرے کی صالح جماعتیں [فَالصَّالِحَاتُ]، وفادار و اطاعت شعارجماعتیں، اس پیش پا افتادہ قومی مقصدکی حفاظت کرتی ہیں جسکو اللہ کے قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ البتہ ان میں سے وہ طبقات جن کی سرکشی کا اندیشہ ہوانہیں نصیحت کرو، انہیں ان کی مجالس میں[الْمَضَاجِعِ] سوچنے کے لیے چھوڑ دو اور انہیں وضاحت سے معاملات کی تشریح کر دو [اضْرِ‌بُوهُنَّ]۔ پھر اگر تمہاری اطاعت اختیار کر لیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ بیشک اللہ کا قانون بلند و بالا اثرات کا حامل ہے۔ """

اور آخر میں ادائیگی فرائض یعنی پیرویِ احکامِ الہی کے ضمن میں لفظ "نسا" کا استعمال بھی دیکھ لیتے ہیں :-
4/43 : : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَ‌بُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَ‌ىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِ‌ي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورً‌ا ﴿٤٣﴾ أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُ‌ونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِ‌يدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴿٤٤﴾
""اےاہلِ امن و ایمان، جب تمہاری عقل ناپختہ اور ابہام [confusion] کا شکا ر ہو تو اپنے فرائض کی ادائیگی کے نزدیک مت جاو جب تک کہ اس قابل نہ ہو جاو کہ جو کچھ کہو اس کا شعور و ادراک رکھ سکو۔ اور اگر احکاماتِ الہی کے علم سے بالکل دُور اور اس ضمن میں بالکل اجنبی ہوتو بھی ان فرائض کے نزدیک اس وقت تک نہ جاو جب تک کہ تم اپنے ذہنوں کو سابقہ خیالات سے پاک صاف نہ کر لو ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو اس راستے/مرحلے کو عبور کرچکے ہوں۔ نیز اگر تم ایمان و ایقان کے معاملے میں کسی بھی پیچیدگی کا شکار ہو [ مَّرْ‌ضَىٰ] یا ابھی تربیتی سفر کے درمیانی مرحلے میں ہو[عَلَىٰ سَفَرٍ‌]، یا اگر تم میں سے کوئی بھی بہت پست شعوری سطح سے اُٹھ کر اوپر آیا ہو [مِّنَ الْغَائِطِ]، یا کسی خاص شعوری/نفسیاتی کمزوری یا بھول نے تمہیں متاثر کیا ہوا ہو [لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ] اور اس ضمن میں تمہیں وحیِ الٰہی کی ہدایت میسر نہ آئی ہو [فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً]، تو پھر بھی تم اپنا مطلوب و مقصود [فَتَيَمَّمُوا] بلند اور پاک رکھو [صَعِيدًا طَيِّبًا]۔ پھر اس کی روشنی میں از سرِ نو اپنے افکار اور اپنے وسائل کا جائزہ لو / یااحاطہ کرو(فَامْسَحُوا )""۔

ختم شد ۔