اورنگزیب یوسفزئی اگست۲۰۱۳

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۱

 

ازواج النبی اور بیوت النبی[ص] نیز ظہار اور نکاح و طعام کے اہم موضوعات

سورۃ احزاب سے

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔

ہماری مذہبی پیشوائیت کو قرآن کے ہر لفظ اور اصطلاح کا ایک ہی معنی معلوم ہے، وہ ہے لفظی اور عامیانہ معنی ۔ تشبیہ، استعارہ، ضرب المثال اور محاورہ وہ نہ قرآن کے کلام عالی میں دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کے مجازی معانی پر وہ تحقیق کرنے کی کوشش فرماتے ہیں ۔ آیات زیر نظر میں بھی ہمارے فاضل مترجمین کو ازواج کا صرف ایک ہی معنی سکھایا گیا ہے ،،،،،یعنی،،،، بیویاں۔ اسی کی مانند بیوت اور طعام کے بھی فقط لفظی اور عامیانہ معانی ان کے علم میں ہیں،،،،،،یعنی گھر [بیت] کی جمع اور کھانا ۔ اب، جدید ترین تحقیقی کوششوں کے بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے کلامِ عالی میں بیویوں، گھروں اورکھانوں کی بجائے نسلِ انسانی کے شعوری ارتقاء کے لیے کس قدر بلند کرداری کے اصول و قواعد بیان فرماتا ہے اور ہر عبارت کس طرح اپنے سیاق و سباق میں موتیوں کی طرح فٹ بیٹھتی ہے۔ ابتدا ہے اللہ کے بابرکت نام سے ۔ ۔ ۔ ۔
آیات ۱ سے ۶ تک
یَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾
اے نبی، اللہ کے احکام کی نگہداشت کرتے رہو اور حق کوچھپانے والوں اور دو رخی/ دوغلی پالیسیوں پر کاربند لوگوں کےمشوروں اور تجاویز کی پیروی ہرگز نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان سب امور کا علم رکھتا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت بھی۔
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿٢﴾ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا[۳]
اور ان حالات میں تم صرف اُسی کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب وحی کیا جاتا ہے کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ پس پورا انحصار اللہ کی ذاتِ عالی پر رکھو کیونکہ اللہ تمہاری پشت پناہی کے لیے کافی ہے۔
مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَ‌جُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾
دراصل ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے انسانی ذات کے باطن میں دو ذہن ودیعت کر دیے ہوں، اور وہ اس سبب سے دو رخی پالیسیوں پر چلنے پر مجبور ہوں۔ اور نہ ہی اس نے تمہارےاُن لوگوں کو [أَزْوَاجَكُمُ] جن پر تم غلبہ پا لیتےہو [اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ] تمہاری اصل و بنیاد [أُمَّهَاتِكُمْ ] قرار دیا ہے۔ اور نہ ہی اس نے ان کو جنہیں تم نے اپنے لوگوں میں شامل کیا ہے اور جو خود کو غیر قوم کی طرف منسوب کرتے ہیں[أَدْعِيَاءَكُمْ] ، تمہارے قوم کے اصل سپوت [أَبْنَاءَكُمْ ] قرار دیا ہے۔یہ تو محض وہ الفاظ یا القاب [قَوْلُكُم] ہیں جو تم اپنی زبانوں سے اُن کے حق میں یونہی بول دیتے ہو [بِأَفْوَاهِكُمْ ]، جب کہ اس کے برعکس اللہ ہمیشہ سچائی پر مبنی حقیقت بیان فرماتا ہے اور وہی ہے جو خطاءوں سے بچا کر اپنے مخصوص راستے کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے۔
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥﴾
مذکورہ لوگوں کو اُن کے آباء ہی کی نسبت سے پکارو کیونکہ اللہ کے نزدیک یہی زیادہ قرینِ انصاف ہے۔ البتہ اگر تم اُن کے بڑوں سے متعلق نہ جان پاءو تو اس صورت میں انہیں اپنے دینی بھائی کا اور اپنے دوستوں کا درجہ دے دو ۔ ان معاملات میں کوئی خطاء ہو جانے پر کوئی مضائقہ نہیں ہے جب تک کہ دلوں کے ارادے سے کوئی غلط قدم نہ اُٹھایا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسے معاملات میں تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُ‌وفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورً‌ا ﴿٦﴾
نبی کی حیثیت مومنین کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی بڑھ کر دوست اور سرپرست کی ہے اور نبی کی جماعت یا نبی کے اپنے ساتھی [أَزْوَاجُه] مومنین کے لیے اُن کی اصل و بنیاد یا ان کی اپنی امت کی حیثیت یا درجہ [أُمَّهَاتُهُمْ] رکھتے ہیں۔ نیز مومنین و مہاجرین میں سے جو آپس میں نسبی رشتہ دار ہیں [وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ ] ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کے ضمن میں ایک دوسرے کے لیے بہتر دوست اور معاون ہیں۔ یہ سب درست ہے مگر یہ خیال رہے کہ تم سب اپنے ان دوستوں و معاونین کے لیے جو کچھ بھی کرو وہ عمومی طور پر جائز تسلیم کی جانے والی حدود کے اندر ہو اس لیے کہ یہ ہدایت اللہ کی کتاب میں سطروں میں لکھی یعنی بالکل واضح طور پر موجود ہے۔
آیات ۵۰ سے ۵۴ تک
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَ‌هُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْ‌نَ مَعَكَ وَامْرَ‌أَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَ‌ادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَ‌ضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَ‌جٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥٠﴾
اے سربراہ مملکت الٰہیہ [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ] ہم نے آپ کی ان جماعتوں [أَزْوَاجَكَ] کو جن کے معاوضے /اجرتیں [أُجُورَ‌هُنَّ ] آپ نے مقرر کردیے ہیں، آپ کے مشن پر کام کرنےکے لیے [لَكَ ] دیگر پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد قرار دے دیا ہے [أَحْلَلْنَا] اور انہیں بھی جنہیں اللہ نے مالِ غنیمت کے توسط سے آپ کی ذمہ داری بنایا ہے [أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] اور وہ آپ کی زیرِ سرپرستی ونگرانی ہیں [مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ نیز وہ خواتین جو آپ کی چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد ہیں جنہوں نے آپ کی معیت میں ہجرت اختیار کی ہے ، اور ہر وہ مومن خاتون جو نبی کے مشن کے لیے رضاکارانہ خود کو پیش کرتی ہو، تو اگر نبی بطورِ سربراہِ مملکت ارادہ فرمائے تو انہیں قاعدے/قانون کے مطابق فرائض ادا کرنے کے لیے طلب کر سکتا ہے [أَن يَسْتَنكِحَهَا ]۔ اس معاملے میں اختیار و فیصلہ کا حق صرف آپ کا ہے دیگر ذمہ داروں [الْمُؤْمِنِينَ] کا نہیں۔ جہاں تک دیگر ذمہ داران کا تعلق ہے تو اُن کی جماعتوں/ساتھیوں کے ضمن میں اُن پر جو بھی فرائض ہم نے عائد کیے ہیں وہ بتا دیے گئے ہیں تاکہ تمامتر معاملات کی ذمہ داری کا بار آپ پر ہی نہ آ جائے۔ اللہ کا قانون سب کو تحفظ اور نشوو نمائے ذات کے اسباب مہیا کرتا ہے۔
تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ‌ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْ‌ضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ﴿٥١﴾
ان جماعتوں میں سے آپ جسے چاہیں انتظار و التوا میں رکھیں [تُرْ‌جِي] اور جسے مناسب سمجھیں طلب فرما کر [وَتُؤْوِي إِلَيْكَ ] فرائض سونپ دیں ۔ پھر جسے بھی انتظار میں رکھا ہو اسے فعال کرنا چاہیں تو اس میں بھی آپ کے لیے کوئی مضائقہ یا رکاوٹ نہیں ۔ بلکہ اس طریقِ کار کی رُو سے اُن سب کو سکون اور تسلی ملے گی، وہ غمگین نہ ہونگے اور جو کچھ انہیں آپ سے ملے گا اس پر راضی اور خوش رہینگے۔ یاد رہے کہ تم سب کے ذہنوں میں جو کچھ بھی سوچ یا خیال آتا ہے اللہ اسے جان لیتا ہے کیونکہ وہ علم سے بھرپور اور بردبار ہے۔

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّ‌قِيبًا ﴿٥٢﴾
بعدازاں یا علاوہ ازیں خواتین [النِّسَاءُ ] آپ کے مشن کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کی جاسکتیں [لَّا يَحِلُّ ]۔ نہ ہی آپ ان کے موجودہ گروپس کو نئے لوگوں [أَزْوَاجٍ ]سے تبدیل کریں خواہ ان کی خوبیاں آپ کوپسند ہی کیوں نہ آئیں ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو ما قبل سے آپ کے زیر سرپرستی و نگرانی میں آ چکی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ اللہ کا قانون ہر شے کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُ‌وا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ‌ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَ‌سُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا ﴿٥٣﴾
اے اہلِ ایمان اپنے تحصیل علم کے مقصود کی جانب بڑھنے کی خاطر [إِلَىٰ طَعَامٍ ] مناسب موقع و محل کا انتظار کیے بغیر [غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ ] نبی یعنی اپنے سربراہِ مملکت اور ان کی قریبی اشرافیہ کی غور و فکر اور فیصلہ سازی [بُيُوتَ النَّبِيِّ] میں دخل انداز نہ ہوا کرو [لَا تَدْخُلُوا ] جب تک کہ تمہیں ان کے ہاں باریابی کی اجازت [إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ] نہ مل جائے۔ لہذا تم ان کی مصرفیات میں تب ہی مخل ہوا کرو [فَادْخُلُوا ] جب مدعو کیے جاو [إِذَا دُعِيتُمْ ] اور جوں ہی مقصود حاصل ہو جائے [فَإِذَا طَعِمْتُمْ ] غیر ضروری گفتگو کی خواہش کیے بغیر [وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ] منتشر ہو جاو۔ تمہارا سابقہ رویہ نبی کے لیے زحمت کا باعث ہے مگر تمہیں اس سے روکنے میں ان کی حیا مانع ہوتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ حق بات کی تاکید سے نہیں جھجھکتا۔ نیز اگر تمہیں ان سے کسی دنیاوی ضرورت یا مفاد [مَتَاعًا] کا سوال کرنا ہو تو یہ تمہارے اور ان کی پاکیزگیءِ قلب یا ارتقائے ذات کے لیے بہتر ہوگا کہ ایسا سوال پردے میں رہ کر، غیر متعلق نگاہوں سے بچ کر کیا جائے [مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ]۔ تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ ایسے رویے اختیار کرو جس سے اللہ کے رسول کو زحمت پہنچے۔ اور نہ ہی کبھی بھی ان کے پسِ پُشت [مِن بَعْدِهِ] ان کے ساتھی اکابرین [أَزْوَاجَهُ] پر طاقت کے ذریعے اثرانداز [تَنكِحُوا ] ہونے کی کوشش کرو۔ بلاشبہ ایسا رویہ اللہ کے نزدیک ایک بڑی جسارت ہے۔

إِن تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٥٤﴾
ہمیشہ یاد رہے کہ تم کوئی خفیہ عزائم رکھو یا علانیہ کچھ بھی کرو تو اللہ کے تخلیق کردہ نظام میں تمہارا ہر عمل اور سوچ بہر حال اس کے احاطہِ علم میں داخل ہو کر ریکارڈ میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔
- - -
بریکٹ شدہ الفاظ کے ذیل میں دیے گئے مستند معانی ضرور ملاحظہ فرمائیں :
[أَزْوَاجَكُمُ] : تمہارے ساتھی، لوگ، جماعتیں
[اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ] : ظھر: غلبہ پانا؛ نمایاں ہونا؛ برتری تسلط حاصل کر لینا ۔ جن پر تم غلبہ حاصل کرتے ہو۔
[أُمَّهَاتِكُمْ ] : اُم : قوم، عوام، نسل، جڑ، اصل، جماعت ؛ تمہاری بنیادیں؛ تمہاری مائیں؛ تمہاری قومیں,، لیڈر، مثال، سمت، ماخذ، دادی، معدنیات ڈھالنے کا سانچہ۔
[أَدْعِيَاءَكُمْ]:تم میں سے وہ جنہیں تم نے اپنی جماعت میں شامل کیا ہے؛ جو غیر اقوام سے آئے ہیں اور انہی سے خود کو منسوب کرتے ہیں ۔ those whom you seek, desire, ask, demand, summon, call upon; those you invite & include in your people; خود کو غیر باپ یا غیر قوم کی طرف منسوب کرنے والا؛ جس کے نسب میں شبہ ہو۔
[أَبْنَاءَكُمْ ] : قوم کے سپوت؛ مردِ میدان؛ ہیرو؛ قوم کے قابلِ فخر بیٹے، تمہارے بیٹے۔
[قَوْلُكُم]: تمہاری بات؛ تمہارے الفاظ
[بِأَفْوَاهِكُمْ ] ؛ تمہاری زبانوں سے نکلی ہوئی بات
[أَزْوَاجُه] : اس کے ساتھی، جماعت، لوگ
[أُمَّهَاتُهُمْ] : ان کی قوم، ان کی جڑ بنیاد، ۔۔۔۔
[وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ ] : نسبی رشتہ داری رکھنے والے؛ قریب ترین تعلق کے حامل
[يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ]: اے سربراہی اور راہنمائی کے مقام پر فائز؛ اے نبی
[أَزْوَاجَكَ] : تیرے ساتھی، لوگ، جماعتیں
[أُجُورَ‌هُنَّ ] : ان کے معاوضے، اجرتیں، تنخواہیں، انعامات، مزدوریاں، ثواب، حقوق
[لَكَ ] ' تمہارے لیے، تمہارے فائدے، مقصد، منافع کے لیے۔
[أَحْلَلْنَا]: حلل: جائز کرنا، پابندیوں، ذمہ داریوں سے آزاد کرنا، کھول دینا، مسائل حل کر دینا، کنٹرول سے آزاد کر دینا، settle, stop, descend, sojourn, lodging, taking abode, make lawful or free or allowable, free from obligation, responsibility, untying, unfastening, solution, unraveling, dissolution, disbandment, decontrol.
[أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] : جو اللہ نے تم کو لوٹایا ۔ مالِ فئے، مالِ غنیمت، پورا کرنا، لوٹانا۔
[مَلَكَتْ يَمِينُكَ ] : سیدھے ہاتھ کی ملکیت، یا حلف، عہد، کنٹریکٹ کی رُو سے ملازم/ماتحت، یعنی وہ جو تمہارے تسلط، ماتحتی، قبضے، اختیار ، سرپرستی، تحویل میں ہوں کسی عہد، ایگریمنٹ یا کنٹریکٹ کی رُو سے ۔
[أَن يَسْتَنكِحَهَا ] استنکاح: بابِ استفعال جس کی سب سے بڑی خصوصیت طلبِ ماخذ ہوتا ہے ۔ کسی تقرری کے لیے طلب کرنا، فرائض سونپنے کے لیے طلب کرنا ۔ کسی معاہدے، ایگریمنٹ کے لیے بلانا ۔ شادی کے معاہدے کے لیے طلب کرنا۔ اپنی ماتحتی میں لینے کے لیے طلب کرنا۔
[الْمُؤْمِنِينَ] : ضابطِ امن؛ نظام کی تنفیذ کے ذمہ دار؛ اللہ کی حکومت کے با اختیار آفیسر ؛ ایمان لائے ہوئے ذمہ دار لوگ۔
[تُرْ‌جِي]: ارجا: انتظار کرانا، ملتوی کرنا، موخر کرنا، کاروائی کو ختم کر دینا؛ to cause to wait, to delay, postpone, put off, adjourn.
[وَتُؤْوِي إِلَيْكَ ] : اٰوٰی : کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہو جانا، ٹھکانا دینا – ماویٰ – کسی کی طرف لوٹنا، پناہ دینا، رجوع کرنا؛ to receive hospitably, to take to yourself, to shelter & to strengthen, to return
[لَّا يَحِلُّ ] : اجازت نہ ہونا، جائز نہ کرنا، پابندیوں، ذمہ داریوں سے آزاد نہ کرنا، آباد نہ کرنا، مسئلہ حل نہ کرنا۔
[أَزْوَاجٍ ] : ساتھی، لوگ، جماعتیں، اقسام۔
[إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ]: سوائے وہ جو تمہاری تحویل، نگرانی، ماتحتی میں ہوں معاہدے یا حلف کی رُو سے ۔
[إِلَىٰ طَعَامٍ ] : سیکھنے، حاصل کرنے کی خاطر ، کھانے کی طرف ۔ to acquire, an appropriate quality in a man, to take to education, to have power or ability to do it, to be vaccinated, inoculated.
[غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ ]: اس کے لیے انتظار کیے بغیر۔
[بُيُوتَ النَّبِيِّ]: نبی کا خفیہ سوچ بچار، خفیہ فیصلے، فیصلے کرنا، نبی کے قریبی اعلیٰ خاندان/اشراف / اکابرین؛ جمع: بیوتات
respectable house, noble person of his people/
[قاموس الوحید، المنجد، ہانز وہر ] Nabi’s noble persons
[لَا تَدْخُلُوا ] : دخل : مداخلت، آمدنی، وصولی، کسی پر واقع ہونا، ظاہر ہونا، امور میں دخل، مکس ہونا، کنفیوز ہونا، دخل اندازی، مخل ہونا
[إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ] : سوائے اس صورت میں اگر وہ تمہیں اجازت دیں۔
[إِذَا دُعِيتُمْ ] : اگر تم مدعو کیے جاو۔ [فَإِذَا طَعِمْتُمْ ] : جب تم نےسیکھ لیا، حاصل کر لیا، کھا لیا۔
[وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ] : فالتو گفتگو کی خواہش کرنے والے۔
[مَتَاعًا] : زندگی کی ضروریات/لطف/ مفاد/خوشی/مال/جائیداد-
[مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ]۔ : پرائیویٹ طریقے سے، تنہائی میں، پردہ میں رکھ کر، چھپا کر، حفاظت سے، نظروں سے بچا کر۔
[النِّسَاءُ]: مصدر: تنسئۃ ۔ نسیء۔ نساء ۔ نسُوء۔ منساۃ ۔ ن س ی/ن س و : lowly people/rubble/a forlorn thing/ insignificant/ completely forgotten/womanly/effeminate/to render ignominious/render backward/postponement/delay – نچلے طبقے کے لوگ/بے حیثیت/نظرانداز کیے جانے والے/پسماندہ/ اس فعل میں دونوں مادوں میں اشتراکِ معنی ہے یعنی overlap پایا جاتا ہے۔
--------------