اورنگزیب یوسفزئی جولائی 2014
۱] دین القیم کیسےبارہ مہینوں کی گنتی ہے ؟ اور
۲] یوم الحج الاکبر کیا ہے؟ کے جوابات
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۱۷
آیاتِ مبارکہ 9/36 اور9/3، 4 کا مستند لغوی ترجمہ:
۱] کیا دین القیم بارہ مہینوں کی گنتی ہے ؟
روایتی ترجمہ میں "دین القیم" کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ "۱۲ مہینوں کی گنتی" دین القیم ہے ، جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں؟؟؟
ظاہر ہے کہ دین القیم کی یہ تعریف انتہائی لغو اور مضحکہ خیز ہے ۔ دین ایک ضابطہِ حیات کو کہتے ہیں ، صرف ۱۲ مہینوں کی گنتی کو نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس اہم آیت کے علمی اور شعوری ترجمے کی ضرورت محسوس کی گئی جو قرآن کے حقیقی پیغام و نظریے کے مطابق ہو اور جدید تعلیم یافتہ ذہن میں آسانی سے داخل ہو جائے ۔ درخواست ہے کہ اس ترجمہ کو قدیمی روایتی ترجمے کے تقابل و موازنے کے ساتھ مطالعہ کریں ۔
تو اللہ کے پاک نام سے شروع کرتے ہیں ۔
سورۃ التوبۃ: ۳۶
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ-۔
درحقیقت، کائنات کی تخلیق کی ابتدا ہی سے [يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ] اللہ تعالیٰ نے یہ قانون [فِي كِتَابِ اللَّهِ ] بنا دیا تھا کہ اس کی پسندیدہ [عِندَ اللَّهِ ]انسانی زندگی کی مجوزہ اور قابلِ لحاظ صورتِ حالات [عِدَّةَ الشُّهُورِ] وہ ہوگی جو کہ ایک نہایت قابلِ تعریف اور قابلِ رشک [اثْنَا ] مربوط انسانی معاشرے کی صورت یا کیفیت [عَشَرَ شَهْرًا] ہوتی ہے۔ اور اس معاشرے میں جو(مِنْهَا) سب سے زیادہ شفقت اور رحم دلی رکھنے والے [اَرْبَعَةٌ]ہوں گے وہ سب سے محترم [حُرُمٌ ۚ]سمجھے جائیں گے ۔ یہی واحد پائدار اور مستحکم [الْقَيِّمُ ۚ]طرزِ زندگی یا ضابطہِ حیات [الدِّينُ ]ہے ۔
پس، اس تناظر میں تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے معاشرے میں اپنے لوگوں کی حق تلفی نہ کرو۔ بلکہ اپنی پوری توجہ غیر قرآنی نظریات رکھنے والوں [الْمُشْرِكِينَ] کا مقابلہ کرنے کی جانب مرکوز کر دو بالکل ایسے جیسے کہ وہ تمہارے ساتھ اپنی پوری قوت کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر ہیں ۔ تاہم، یہ امر ہمیشہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ کی مدد انہی کے شاملِ حال رہتی ہے جو اس کے احکامات کی پوری نگہداشت کر تے ہیں ۔
اب یہی ترجمہ رواں انداز میں:-
درحقیقت، کائنات کی تخلیق کی ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا تھا کہ اس کی پسندیدہ انسانی زندگی کی مجوزہ اور قابلِ لحاظ صورتِ حالات وہ ہوگی جو کہ ایک نہایت قابلِ تعریف اور قابلِ رشک مربوط انسانی معاشرے کی صورت یا کیفیت ہوتی ہے۔ اور اس معاشرے میں جو سب سے زیادہ شفقت اور رحم دلی رکھنے والے ہوں گے وہ سب سے محترم سمجھے جائیں گے ۔ یہی واحد پائدار اور مستحکم طرزِ زندگی یا ضابطہِ حیات ہے ۔
پس، اس تناظر میں تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے معاشرے میں اپنے لوگوں کی حق تلفی نہ کرو۔ بلکہ اپنی پوری توجہ غیر قرآنی نظریات رکھنے والوں کا مقابلہ کرنے کی جانب مرکوز کر دو ، بالکل ایسے جیسے کہ وہ تمہارے ساتھ اپنی پوری قوت کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر ہیں ۔ تاہم، یہ امر ہمیشہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ کی مدد انہی کے شاملِ حال رہتی ہے جو اس کے احکامات کی پوری نگہداشت کر تے ہیں ۔
اب بریکٹوں میں دیے گئے مشکل الفاظ کا مستند عربی لغات سے ترجمہ :-
[يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ] : تخلیقِ کائنات کی ابتدا؛ وہ وقت جب اللہ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا۔
[فِي كِتَابِ اللَّهِ ] : اللہ کا قانون؛ اللہ کی مرضی کی رُو سے ؛ اللہ کا مقرر کردہ۔
[عِندَ اللَّهِ ]: اللہ کے ہاں؛ اللہ کا پسندیدہ؛ اللہ کا منظور کردہ۔
[عِدَّةَ الشُّهُورِ] : وہ صورتِ حالات[شھور] جو تجویز کردہ ہو، قابلِ ترجیح، قابلِ شمار ہو۔
[اثْنَا ] : انتہائی قابلِ تعریف، قابلِ ستائش ؛ ثنا = تعریف ۔
[عَشَرَ شَهْرًا]: عشر: ایک مربوط معاشرے کی [شَهْرًا]: کیفیت ، صورت، حالت۔
[ا َرْبَعَةٌ]: ر ب ع : وسیع المعانی مادہ ہے ۔ اچھی حالت، خوشحالی، اوپر اٹھانا، شفقت، محبت، رحم ، شریفانہ سلوک کرنا، چوتھا حصہ، مڈل کلاس، درمیانہ سائز، تیزی سے بھر دینا، فراوانی پیدا کر دینا، وغیرہ ، وغیرہ۔
[حُرُمٌ ۚ]: ممنوع، پابند، محترم، معزز
[الْقَيِّمُ ۚ]: مستحکم، پائیدار
[الدِّينُ ] : طرزِ حیات، ضابطہِ حیات
[الْمُشْرِكِينَ] : غیر اللہ کے نظریات پر چلنے والے، اللہ کے احکام کے ساتھ شرک کرنے والے۔
اور اب انگلش زبان میں آیتِ مبارکہ کا ترجمہ:-
Indeed, since the hour He unfolded the process of creation of the Universe, Allah had made it mandatory (fi kitaab Allah) that the prescribed and reckonable (iddata) living conditions (shuhoor) as approved by him (‘indallah) will be the state of a highly praiseworthy and Admirable (athnaa’), intimate human community (‘ashara); and in its composition (min-ha) the segment possessing the attributes of deeper affection and utmost compassion (arba’atun) will be regarded as the respected ones (hurumun). That alone is prescribed as the most sustainable, ideal (qayyam) discipline of life (Deen).
Hence in such circumstances, you are ordained not to be cruel by violating your own people’s rights in the community. Instead, concentrate fully in fighting the polytheists just like they are intent on fighting against you with their full might. However, keep always in mind that in a confrontation Allah sides with those taking full cognizance of His commandments.
۲] حج الاکبر کیا ہے ؟
آپ نے حج الاکبر کے متعلق سوال پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ سوال کے پیچھے چھپی ہوئی آپ کی اصل الجھن میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حج کے نئے تحقیقی معانی کے بارے میں اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں ۔ اسی لیے آپ نے یا دیگر غیر مطمئن یا غیر متفق ساتھیوں نے یہ سوال اُٹھایا ہے ۔ بہر حال میرا فرضِ منصبی نکتہ چینی نہیں بلکہ ایک سیر حاصل جواب دینا ہے، اور میں اپنا یہ فرض بحسن و خوبی ادا کروں گا۔
جواب: یہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴ کا معاملہ ہے، جو یہاں مندرج کر دی جاتی ہیں :
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّـهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
اس کا سیر حاصل ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں سیاق و سباق کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے جو مشرکین کے ساتھ عہد ناموں سے متعلق ہے ،اور الفاظ کے حقیقی معانی کا بھی:-
اللہ اور رسول کی جانب سے [مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ]تمام انسانیت کے لیے(إِلَى النَّاسِ)، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت [الْحَجِّ ]کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع [يَوْمَ الْأَكْبَرِ] پر یہ اعلان عام [أَذَانٌ] کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو [تُبْتُمْ ] تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوانین کی پاسداری و نگہداشت کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔