اورنگزیب یوسفزئی جنوری 2016
قرآن کے سلسلہ وار"موضوعاتی" تراجم کی قسط نمبر(26 )
Thematic Translation Series, Installment No.26
اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ کس انداز میں ابلاغ کرتے ہیں
Allah’s Mode of Communication with Man
ایک اور غلط العام
کیونکہ اس خاص موضوع پر آج تک ہر خاص و عام اسی مغالطے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ہدایت عطا کرنے کے لیے تین مختلف طریقے استعمال فرماتا ہے، اور کیونکہ تمام تراجم اور تفاسیر میں ان تین طریقوں ہی کا بیان ہے، اور اس انداز میں ہے کہ عام انسان کے سَر کے اوپر سے گذر جاتا ہے،اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس موضوع کو بھی تحقیقی معیار پر پرکھا جائے اور بات کو سیدھا اور صاف کر کے پیش کر دیا جائے تاکہ یہ قدیمی الجھن بھی عقل، دانش اور منطق کی رُو سے ہمیشہ کے لیے حل ہو کر قرآن کی ایک اصولی اور دانشمند تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دے ۔ زیرِ تحقیق آیت یہ ہے :-
آیتِ مبارکہ 42/51:
َومَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾
عمومی تراجم:
مودودی: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برُو بات کرے ، اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے، وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے۔
احمد رضا خان: اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر ، یا یوں کہ وہ بشر "پردہِ عظمت کے اُدھر ہو" ، یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے، بیشک وہ بلندی و حکمت والا ہے۔
جالندہری: اور کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القا کرے۔ بے شک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے۔
علامہ اسد: اور یہ موقع نہیں دیا گیا فانی انسان کو کہ اللہ اس سے بات کرے سوائے اس کے کہ اچانک وجدان کے ذریعے،،،، یا (ایک آواز کے ذریعے جو کسی بھی قسم کی ہو) پردے کے پیچھے سے،،،، یا ایک پیغامبر کے ذریعے جو وحی کرے، اس کی اجازت سے، جو کچھ کہ اُس کی مرضی ہو؛ درحقیقت وہ نہایت بلند اور حکمت والا ہے۔
علامہ پرویز: قانونِ فطرت جو کائنات پر لاگو ہے انسانی معاشرے کو وحی کے ذریعے بھیجا جاتا ہے ، جو کہ انبیاء پر نازل ہوتی ہے، ہر فرد پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ تین (3) طریقوں سے ابلاغ فرماتا ہے۔ ان میں سے دو طریقے انبیاء کے لیے مخصوص ہیں، اور تیسرا طریقہ عام انسان کے لیے۔ وہ انبیاء سے رابطہ اس طرح کرتا ہے کہ یا تو وحی کا متن ان کے دلوں میں اُتار دیتا ہے؛ یا کچھ مرتبہ اسے ان کے کانوں میں ڈال دیتا ہے، پردے کے پیچھے سے (جیسے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا – 2/253، 4/164) ۔یہ دونوں طریقے نبیوں تک محدود ہیں۔ جہاں تک عام انسانوں کا تعلق ہے، ان تک ایک رسول بھیجا جاتا ہے۔ یہ رسول انہیں وہ الہامی وحی پہنچاتا ہے جو اسے اللہ کے حکم سے پہنچتی ہے۔ (ایک نبی کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی اللہ سے راست رابطہ نہیں رکھ سکتا )۔ یہ انتظام اللہ نے کیا ہے جو نہایت عالیٰ مرتبت ہے اور جو تمام فیصلے دانش کی بنیاد پر کرتا ہے۔
۔ ۔ ۔
دیکھ لیجیے کہ تمام فرسودہ ،،،،اور ترقی یافتہ ،،،، تراجم تین ہی طریقوں پر زور دیتے ہیں، اور پھر یہ تین طریقے عام انسان پر واضح بھی نہیں ہو پاتے ۔ لے دے کر حضرت موسیٰ کی جانب اشارہ دے دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے "پردے کے پیچھے" سے کلام فرمایا کرتا تھا ؟؟؟؟؟؟۔ اور اسی طریقے کو وحی کے علاوہ ایک اور طریقہ فرض کر لیا جاتا ہے۔
فرسودہ روایتی تراجم تو تیسرے طریقے کو اُسی دیو مالائی انداز میں لیتے ہیں جو کہ اُسی قسم کے تمام تراجم کی خصوصیت ہے۔ یعنی وہ تیسرے طریقے میں ایک دیومالائی شخصیت ۔ ۔ ۔ ۔یعنی فرشتے۔ ۔ ۔ ۔کا بھیجا جانا ظاہر کرتے ہیں، جو اللہ کے ایک پیغام بر کی حیثیت سے پیغام کو پہنچانے کے لیے آیا کرتا تھا۔ یعنی ان کے مطابق خالقِ کائنات جیسی عظیم و برتر ہستی کو جو ہمہ وقت انسان کی رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے، انسان تک پیغام پہنچانے کے لیے ایک ہرکارے کی ضرورت محسوس ہوا کرتی تھی۔ یعنی وہی قدیم تصور کہ اللہ تعالیٰ "بلندیوں" پر کہیں اپنے دربار میں رونق افروز ہے جہاں ہر قسم کا شاہی سٹاف اس کے رُو برُو حاضر ہے اور اس کے احکام بجا لاتا ہے۔ وہیں سے کچھ ہرکارے یا قاصد اس کے پیغامات انسانوں تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ جنہیں فرشتے کہا جاتا ہے۔ پھر ان فرشتے نامی مخلوق کی ہیئت کذائی بیان کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں ۔ اور عقلی تجزیے، علمی تحلیل، سائنسی علوم اور عملِ تخلیق کے ثابت شدہ طریقِ کار سب کا مذاق اُ ڑایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ خود اپنی ذات کا مذاق بنا دیا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
البتہ ترقی یافتہ تراجم جن میں استادِ محترم علامہ پرویز کا ترجمہ شامل ہے، پہلے دو طریقوں کو انبیاء سے روابط رکھنے کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔ اور تیسرے طریقے کو عام انسانوں کے لیے مختص کرتے ہیں۔ انہی پہلے دو طریقوں میں سے دوسرا طریقہ "پردے کے پیچھے سے" ،،،خود بزبانِ خالقِ کائنات،،، وہ "کلام" ۔۔۔ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے مخاطب ہو کر کرتا ہے۔ پہلا طریقہ انبیاء کو وحی کرنے کا ہے۔ ۔۔۔ اور تیسرا طریقہ بھی انبیاء کو وحی کر کے اُن کے ذریعے عام انسانوں کو ہدایت بھیجنے کا ہے ۔ ۔۔۔ یعنی یہاں دو طریقے وحی کے ہی ہیں، بلا واسطہ اور بالواسطہ ،،،،البتہ ایک علیحدہ طریقہ، یعنی تیسرا طریقہ، "پردے کے پیچھے سے کلام" کا باور کیا گیا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ یہاں اس امر پر یقین کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ۔۔ ۔ ۔ ۔گویا اللہ تعالیٰ کوئی انسان ہے اور انسان ہی کی مانند زبان ، یعنی جسم، بھی رکھتا ہے!!! (فرقہِ تجسیمیہ کے عقیدے کی مانند)، اور پھر اسی زبان سے کسی مخصوص انسان سے بات، یعنی کلامِ بھی فرماتا ہے! ۔۔۔۔یعنی اُس ذاتِ پاک کی کوئی آواز بھی ہے!۔۔۔۔۔۔ اور پھر یہ مخصوص طریقہ صرف پوری نسلِ انسانی میں صرف ایک ہی انسان کے ساتھ مخصوص ہے --- ایک خاص پیغمبر کے ساتھ۔۔۔۔جن کا نامِ نامی، حضرت موسیٰ ہے ؟؟؟ ۔۔۔یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ استثناء صرف حضرت موسیٰ کے ساتھ ہی کیوں ؟ ؟؟ ۔۔۔۔ کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی ، یا اس میں کوئی راز پنہاں تھا؟؟؟ ۔۔۔کیا اس استثناء کا کوئی جواز،،، یا ،،،ہمارے اس سوال کا کسی بھی علامہ کے پاس کوئی جواب ہے ؟ ۔۔۔۔۔ غالبا" نہیں ۔
واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نہ جسم رکھتا ہے، نہ زبان، نہ مادی وجود اور نہ ہی کسی مقام میں موجودگی سے مخصوص ہے ۔ اس لیے نہ تو کلام کرتا ہے اور نہ ہی کہیں قیام پذیر ہے جہاں سے کسی مقام پر موجود انسان سے بات کرے۔وہ تو ایک غیر مرئی، غیر مادی، پوری کائنات میں سرایت کیا ہوا، ایک شعورِ مطلق ہے جس نے یہ کارخانہِ تخلیق ایک خاص مقصد اور پلان کے تحت تخلیق کر دیا ہے ، اور جس کا ہر مرحلہ خود کار انداز میں عمل کی منزلوں سے گذرتا، اپنی معراج کی جانب سفر پر رواں دواں ہے۔ اور وہ ذاتِ باری تعالیٰ تمام مخلوقات، بالخصوص تمام نسلِ انسانی کے ہادی کے منصبِ عظیم پر فائز ہے۔
ہمارا پہلا اور بہت ہی آسان جواب کا مستحق سوال یہ ہے،،،،کہ ،،،،، کیا بذاتِ خود "وحی" کی واردات۔۔۔۔"پردے کے پیچھے" سے ہی واقع نہیں ہوتی؟ ؟؟ ۔۔۔یعنی کیا اللہ تعالیٰ وحی کرتے وقت "من وراء حجاب" نہیں ہوتا؟ ؟؟ اگر اس کا آپ کے ذہن میں وہی آسان سا جواب ہے، جو اس ناچیز کے ذہن میں بھی ہے، تو پھر تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے میں ہی حل ہو جانا چاہیئے ! ۔۔۔۔۔جی ہاں ! وحی کا عمل خود ہی پردے کے پیچھے سے ہو رہا ہے۔
پیارے دوستو، کیا یہ سمجھنا کچھ مشکل ہے کہ "وحی" تو بذاتِ خود ۔۔۔"پردے کے پیچھے سے" ہونے والے رابطے کو کہا گیا ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ اسی ذریعے سے اللہ تعالیٰ سامنے آئے بغیر،،،،، اور کلام کیے بغیر،،،، اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے؟؟؟ دراصل "وحی کے ذریعے رابطہ" ،،، اور ،،، "پردے کے پیچھے سے بولنا"،،،دو الگ الگ طریقے نہیں ہو سکتے!!!
اس طرح آپ سمجھ گئے ہوں گے، کہ اللہ تعالیٰ کا واحد انسانی رابطے کا طریقہ "وحی" ہی ہے ، خواہ براہ راست کسی ایک کے ذہن پر نازل ہو یا مجموعی طور پر انسانوں کے لیے پیغام اس کے مبعوث کیے ہوئےرسول کو وحی کے ذریعے ارسال کیا جائے۔
۔ پس آیت کا حسبِ حال ترجمہ اس طرح ہے :-
َومَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾
"اور کسی بشرکے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے سوائے وحی کے انداز میں،،،، یا ،،،یوں سمجھو،،،، کہ پردے کے پیچھے رہتے ہوئے،،،، یا پھر وہ انسانوں کے درمیان اپنے رسول بھیج دیتا ہے اور پھر انہیں بھی اپنے اُن احکامات کی وحی کر دیتا ہے جو اُس کی مشیت ہوتی ہے۔ بیشک وہ بلند مقام اورحکمت والا ہے ۔ ""
ہمارے اساتذہ نے اس سادے سے واحد طریقہ رکھنے والے کلیے کو ، ،،،خواہ مخواہ مشکل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،،،، انوکھے تراجم کی موشگافیوں سے تین (3) عدد مختلف النوع طریقوں میں پھیلا دیا ہے اور ہمارے لیے ورثے میں الجھنیں اور تفہیم کی بحثیں چھوڑ دی ہیں ۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ ایک عقلی و منطقی ترجمے نے، جو قرآن کے دیگر مواقع کے مندرجات سے تصدیق شدہ ہے، مسئلے کو کس آسانی سے حل کر دیا ہے ۔
۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے "کلام" کرنے کے ضمن میں ہمیں یہ آیت حوالے میں پیش کی جاتی ہے اور اصرار کیا جاتا ہے کہ نہیں صاحب،،،اللہ تعالیٰ تو "کلام" کرتا ہے:-
آیت 4/164: وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا۔
حالانکہ قرآن ہمیں واضح طور پر مطلع فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو بھی اللہ تعالیٰ وحی ہی فرماتا تھا، جس کا ثبوت متعدد آیات میں اس طرح مندرج ہے ۔۔۔۔" و اوحینا الی موسیٰ"۔۔۔۔ دیکھیے آیات 7/11، 7/16، 10/87، 20/77، 26/52، 26/6 2، 28/ 7 ۔ بات بالکل صاف ہو جائیگی۔ ان تمام آیات کی روشنی میں ہمیں تو " کلیم اللہ " والی تھیوری من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ ان تمام آیات کے بعد کون علامہ یہ اتھارٹی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بجائے خود ایسا فیصلہ کرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ سے "اپنی زبان" کے ساتھ "کلام" فرماتا تھا؟؟؟؟۔۔۔۔ اس لیے درج بالا آیت کا اِن بہت سے حوالوں کی روشنی میں قرینِ عقل ترجمہ کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کمزور دلیل کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ۔۔"ڈبل سٹینڈرڈ"۔۔ نہیں رکھتا :-
ترجمہ : "اور اللہ نے موسیٰ کو بھی اپنی بات کہنے کے لیے مخاطب کیا"۔ اللہ کا کلام کرنا زبان سے بول کر کہنا نہیں ہوتا۔ وحی بھی کلام کرنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ نیز "پردے کے پیچھے سے" کلام کرنا بھی دراصل وحی ہی کے ذریعے اپنی بات کہنا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی مراد ہے۔ وحی دراصل اللہ کا "کلام" ہی ہوتا ہے اور یہ کلام بول کر نہیں بلکہ قلب پر ، یا کہ لیں کہ ذہن پر وارد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن بھی تو اللہ کا کلام ہی ہے، لیکن اللہ کے زبان سے بولے بغیر رسول پر نازل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح " لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ" سے مراد یہ نہیں کہ "اللہ کی زبان سے بولا ہوا تبدیل نہیں ہوتا"،،،،بلکہ یہ ہے کہ اللہ کا " وحی کیا ہوا کلام" تبدیل نہیں ہوتا۔۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کے انسانوں یا انبیاء سے مخاطب ہونے کے ضمن میں لفظ ،،،،"کلام"،،، یا ،،،"یکلم"،،، یا کلمات اللہ، "زبان سے بولے ہوئے الفاظ" نہیں ہو سکتے۔
نیز آیت: 2/ 253 میں جو کہا گیا کہ "مِنھُم مَن کلم اللہ" تو اس سے "تبعیض" مراد لینا ، یا چند نبیوں کے لیے "استثناء" لینا،،،ا وپر دیے ہوئے ہمارے متعدد حوالوں کی روشنی میں ایک غلطی ہوگی۔ یہاں "مِن تبعیضیہ" نہیں بلکہ۔۔۔ "مِن بیانیہ ہے"۔ معنی یہ نہیں کہ ان میں سے کچھ سے اللہ نے کلام کیا،،،، بلکہ یہ ہے کہ ان سب سے اللہ تعالیٰ مخاطب ہوئے۔ یعنی کہا جا رہا ہے کہ "یہ سب وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا"۔ یہ نہیں کہ ان میں سے کچھ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا ۔ اوپر کے متعدد حوالوں سے (اوحینا الیٰ موسیٰ) یہ آخری استنباط غلط ثابت ہوتا ہے۔
امیدِ واثق ہے کہ یہ ناچیز بات کو سمجھانے میں کامیاب رہا ہے ۔ رفقاء کی رائے کا منتظر ہوں۔