اورنگزیب یوسسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر ۳۰
Thematic Translation Series Installment No.30
حجاب [جلباب]

کیا قرآن میں عورتوں کے پردے کا اور نبی کریم کی بہت سی بیویوں اور بیٹیوں کا ذکر کیا گیا ہے،،،، یا یہ بھی سابقہ تفاسیر و تراجم میں کیا گیا ایک سوچا سمجھا انحراف ہے؟
Does Quran speak of Hijaab (Veil) for women and of the Holy Messenger’s multiple wives and his daughters, or is that another deliberate distortion by early Translators and Interpretors?:

پردے [حجاب]کے بارے میں آیت مبارکہ ۳۳/۵۹ :
اس ضمن میں سوال یہ کیا گیا کہ اگر کسی بھائی کے پاس اس آیت کا ترجمہ ہے تو مہربانی کر کے ہمارے علم میں لائے ؟؟؟؟
آیت مبارکہ ۳۳/۵۹:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥٩﴾
ظاہر ہے کہ سوالی بھائی کو مروجہ تراجم قرین عقل معلوم نہیں ہوئے، اس لیے وہ کوئی دیگر اور بہتر ترجمہ دیکھنا چاہتے ہیں جو عقل و علم و عمومی فہم سے مطابقت کا حامل ہو ۔ ایسا ترجمہ ضرور پیش کر دیا جائیگا جو مطلوبہ کسوٹی پر پورا اُترتا ہو .......لیکن اس سے قبل روایتی ترجمہ درج ذیل کر دیا جاتا ہے اور اُس کے نقائص اور لایعنیت پر ایک مختصر بحث بھی کر لی جاتی ہے تاکہ جدید ترین عقلی ترجمہ کی قبولیت کے لیے راہ ہموار ہو جائے ۔ تو پیش ہے روایتی ملوکیتی ترجمہ :-
"اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ [باہر نکلا کریں تو] اپنے [مونہوں] پر چادر لٹکا [گھونگھٹ نکال] لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت [و امتیاز] ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے"۔[جالندھری]
اس روایتی ترجمے کا لغو پن ظاہر ہے کہ بات کو سمجھانے کے لیے اپنی جانب سے بریکٹوں میں کئی اضافے کیے گئے ہیں تو تب فقروں میں ربط و ضبط پیدا ہو سکا ہے، ورنہ ترجمے سے تو ایک مہمل اور لایعنی عبارت وجود میں آتی ہے۔ ۔۔مثلا اضافے یہ ہیں : ۔۔ "باہر نکلا کریں تو"۔۔۔ کا اضافہ ۔ "مونہوں"۔۔ کا اضافہ،،، اور ۔۔ "گھونگھٹ نکالنے"۔۔ کا اضافہ ، وغیرہ۔ ان اضافوں یعنی تحریف کو باہر نکال دیں تو ایک نامکمل اور لایعنی روایتی ترجمہ یوں سامنے آتا ہے :
۔۔"اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ اپنے پر چادر لٹکا لیا کریں"۔۔۔۔؟؟؟
ظاہر ہے کہ اس لاحاصل ترجمے میں نہ زمان و مکان کا ذکر ہے اور نہ موقع محل کا ۔ نہ ہی جسم کے چھپانے و الے حصوں کا،،،، ۔ یہ موقع محل اور دیگر تفصیل خود اپنی جانب سے اضافے کرتے ہوئے شرمناک انداز میں گھڑے گئے ہیں جس کا واضح مقصد عورت پر شٹل کاک برقعہ یا اسی قسم کی کوئی اور پردے کی شکل لاگو کر نا تھا تاکہ وہ معاشرے میں خود کو ایک مجرم کی صورت محسوس کرے ۔ نہ ہی آیت کا سیاق و سباق اس لایعنی فقرے سے مطابقت رکھتا ہے جسے انسانی عقل و دانش کی موت قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔ بدقسمتی سے ہمیں ورثے میں یہی لغویات ملی ہیں اور ہماری غالب اکثریت اسی لاحاصل منطق کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتی ہے کیونکہ مسلمان کہلانے والی قوم چند طاقتور اور سرمایہ دار حکمران خاندانوں کی بدترین استحصالی ذہنیت کے باعث ارتقائی سطح پر باقی دنیا سے بہت پیچھے کردی گئی ہے۔ اور ایک منصوبہ بندی کے تحت شدید ذہنی درماندگی اور معاشی و معاشرتی پسماندگی کا شکار بنا دی گئی ہے۔ نیز اس کے نتیجے میں پیدا ہو جانے والے احساس کمتری نے ضد، تعصب اور تشدد کے رحجانات پیدا کرتے ہوئے مسلم معاشرے کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔
اور اگر یہاں پردے ہی کا ذکر مراد ہے جیسا کہ قدیمی تفاسیر و تراجم ہمیں باور کراتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی اور بھی صھیفے میں انسانوں کی کسی بھی اور قوم کو اللہ تعالی نے عورتوں کو پردہ کرانے کا حکم دیا ہے؟؟؟؟ اگر یہ پردہ ہی ہے تو اللہ کا قانون تو کسی بھی قوم یا انسان کے لیے استثناء نہیں رکھتا ، اور پردے کے احکامات ہر نبی کو تمام صحائف میں دیے جانے ضروری تھے ۔ ۔۔۔آپ خود ہی تحقیق کریں گے تو ثابت ہو جائے گا کہ اس قماش کی کوئی بندش کسی بھی آسمانی صحیفے میں عورت ذات پر لاگو نہیں کی گئی کیونکہ یہ آزادی اور احترامِ انسانیت کی خلاف ورزی ہے۔ ہندو، سکھ، بودھ، مشرق بعید کی اقوام، افریقی اور قدیمی امریکی اقوام، عیسائی، پارسی اور یہودی، غرضیکہ کے مسلمان کہلانے والوں کے سوا کسی بھی قوم کےصحیفوں میں ایسی کسی پابندی کا کوئی ذکر نہیں ۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کہ صبح سے شام تک ایک ماہ کے صوم [روزے] کا قانون بھی کسی قوم کے صحیفے میں موجود نہیں ہے، سوائے اس مظلوم مسلمان قوم کے صحیفے کے، جہاں یہ بدمعاش حکمرانوں اور مذہبی پیشوائیت [مولوی] کی ملی بھگت سے ملاوٹ کے ذریعے داخل کیا گیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ قدیم غیر قرآنی عربی معاشرت بھی رہی ہو جہاں تعدد ازواج اور عورت کو مستور رکھنے کا رواج غا لب تھا، کیونکہ مرد عورت پر حاکم تھا۔ اسلام تو دونوں اصناف کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔
پھر یہ بھی غور کریں مونہوں پر" گھونگھٹ" لگا دیکھ کر تعارف و شناخت کیسے ممکن ہوگی کہ یہ کون عورتیں ہیں کیونکہ اس حلیے میں تو ہر قوم و نسل و مذہب کی عورت مستور ہو سکتی ہے، مخصوص مقاصد کے لیے بھی ۔ شناخت کے لیے تو شکل و صورت ہی ایک قطعی معیار ہے ورنہ لباس کے ذریعےبہروپ بھر لینا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ۔ پھر یہ کہ مدینے کی مملکت الہیہ میں کس کی جرات تھی کہ پیغمبر کی بیویوں، بیٹیوں اور مسلم خواتین کو تنگ کرے؟؟؟ غالب اکثریت انصار کی تھی جنہوں نے اپنی فیملیاں اور گھر بار اخوت اور جذبہ ایمانی کی اساس پر مہاجرین کے ساتھ شیئر کیے تھے ۔نیز عربوں میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی کہ دشمنی کے باعث راہ چلتی عورتوں کا پیچھا کیا جائے یا ان کو تنگ کیا جائے۔ یہ حرکت تو ہمیشہ مردانگی سے بعید خیال کی جاتی رہی ہے۔ کھلے عام مبارزت کی دعوت دے کر مردوں کی مانند زندگی یا موت کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد آیت کا سیاق و سباق آتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں ہیئت اجتماعیہ اور نظم و نسق کے پس منظر میں ہدایات دی جا رہی ہیں۔ آیت نمبر ۵۷ اور ۵۸ میں اللہ و رسول کا مشترکہ ذکر دراصل حکومت الِہیہ ہی کا ذکر ہے، جیسا کہ ہر دیگرجگہ بھی اسی معنی میں لیا گیا ہے ۔ آئیے دیکھ لیتے ہیں :-
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿٥٧﴾ وَالَّذِينَ
يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ‌ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾
یہاں کہا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔"درحقیقت جو لوگ حکومت الِہیہ کو مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں دھتکار ڈال دی ہوتی ہے اور ان کے لیے ذلت و پستی کا عذاب تیار کر دیا ہوتا ہے۔ یعنی ۔۔جو لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر امن و ایمان کے نفاذ کے ذمہ دار لوگوں اور جماعتوں کی راہ میں مشکلات پیدا کرتے ہیں، جب کہ وہ اس کے مستحق بھی نہیں ہوتے، تو دراصل ایسے لوگوں نے ایک دھوکے/فریب کا اور ایک واضح اور کھلی برائی کا بار اُٹھا لیا ہوتا ہے ۔ "
تو ثابت ہوا کہ حکومتی نظم و نسق اور دین کی سر بلندی کے اقدامات اور متعلقہ میکانزم کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے اور ہماری متعلقہ آیت مبارکہ بھی، جس کا قرین عقل ترجمہ مطلوب ہے، اسی موضوع سے مطابقت رکھتی ہے نہ کہ نبی کی بیویوں اور بیٹیوں سے اور اُن کے پردے سے ۔۔۔۔۔ استغفراللہ؟ یہ امر ہرگز فراموش مت کریں کہ اگر ہم نبی پاک کی بہت سی نام نہاد بیویوں کے بارے میں دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائیوں کو تسلیم کر لیتے ہیں، تو دنیا و آخرت میں خود ہی اللہ کی لعنت کے مستحق ہو جاتے ہیں، کیونکہ مردوں کا تعدد ازواج [Polygamy] ایک جرم ہے، ممنوع ہے، عورت پر ایک ظلم عظیم ہے۔ انسانوں کا جوڑ ا [Pair] بھی دیگر زندہ اور جامد حیات کی مانند ، اللہ تعالیِ کے قانون تخلیق کے مطابق، ایک جمع ایک سے ہی بنتا ہے،،، اور باہم مل کر حیات کے یونٹ کی تکمیل کرتا ہے،،،،، ایک جمع چار سے نہیں۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جمع دو سے ہی زندگی کا حسن و توازن بگڑ جایا کرتا ہے۔ نبی کریم پر تعدد ازواج کا الزام لگانا نہ صرف ایک بہتان عظیم ہے بلکہ اللہ کے مقرر کردہ فلسفہ حیات کی ضد اور خلاف ورزی ہے۔ نبی کریم پر یہ تہمت تھوپنا روایات گھڑنے والے یہودی علماء کا کام تھا اور اموی ملوکیت اپنی عیاشیاں برقرار رکھنے کے لیے اس فعل شنیع کی اجازت دینے کی مجرم تھی۔ اور ہم سب عقل کو خیر باد کہتے ہوئے اس پر اندھا اعتقاد رکھنے کے مجرم ہیں۔ حالانکہ قرآن کے دیگر حوالوں سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ازواج کا معنی ساتھی، ساتھی جماعتیں، مختلف اقسام کے لوگ وغیرہ بھی ہوتا ہے، جیسا کہ "کنتم ازواجا ثلاثۃ" [۵۶/۷] میں واضح کر دیا گیا ہے۔
"بناتک" کا مرکب اضافی بھی یہاں استعارہ ہے اور استعاراتی معنی کا طالب۔ اگر یہاں نبی کی حقیقی بیٹیوں ہی کا ذکر ہوتا تو کم از کم بھی یہ تو بتایا جاتا کہ کتنی عمر کو پہنچ کر ان بیٹیوں کو اپنے اوپر چادر ڈال لینی چاہیئے؟ یہاں عمومی لفظی معنی میں تو ایک سال، د و سال، چار سال کی عمر کی بیٹی بھی چادر اوڑھ لینے اور گھونگٹ ڈال لینے کی مکلف نظر آتی ہے اور انسانی بصارت و بصیرت کے لیے ایک مضحکہ خیز منظر پیدا کرنے کا سامان کیا جاتا ہے۔ کیا یہ قرین عقل ہے؟؟؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنات یہاں ابنائے قوم کی جماعتوں کو کہا گیا ہے اس لیے کہ جماعت کے لیے قرآن میں ہمیشہ مونث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ پھر بھی اگراس کے علاوہ کوئی اور مناسب تر صورت نکلتی ہو تو قارئین ضرور توجہ دلائیں۔
اور اب اس بحث کے نتیجے میں ملاحظہ فرمائیں سیاق و سباق کے مطابق ایک قرین عقل ترجمہ جو آج کی جدلیاتی عقلیت، علوم اور مثالی اسلامی معاشرت کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے :-
ایک انتہائی قرین عقل [Most Rational] ترجمہ
"""اے نبی تاکید کر دو اپنے ساتھیوں کے لیے [لِّأَزْوَاجِكَ]، ، اپنی جانشین جماعتوں کے لیے [بَنَاتِكَ] اور امن و ایمان کے ذمہ دار عوامی نمائندوں کے لیے [نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ] کہ وہ سب اپنے اپنے حلقہ اختیار و اقتدار میں [جَلَابِيبِهِنَّ] خود کو عاجزی اور انکساری کا استعمال کرتے ہوئے اتنا کمتر کر لیں کہ بآسانی رسائی کے قابل ہو جائیں [يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ] ۔ یہ اس مقصد کے پیش نظر زیادہ مناسب رویہ یہ ہے[أَدْنَىٰ] کہ وہ عمومی سطح پر اپنی اصل حیثیت و کردار میں متعارف ہو جائیں [يُعْرَ‌فْنَ] تاکہ ان کی راہ میں پریشانیاں اور سختیاں نہ پیدا کی جائیں [فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ]۔ اللہ کا قانون انہیں تحفظ دینے والا اور اسباب نشوونما عطا کرنے والا ہے۔"""
اب سیاق و سباق کی شرط پوری کرنے کے لیے آگے آنے والی آیت بھی دیکھ لیتے ہیں ۔

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ وَالْمُرْ‌جِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِ‌يَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُ‌ونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾

"اگر پھر بھی منافق لوگ اور وہ جن کے ذہنوں میں پراگندگی کا مرض ہےاور وہ جو شہر میں فتنہ پروری کرنا چاہتے ہیں، اپنی حرکات بند نہیں کرتے تو ہم ضرور آپ کو ان کے خلاف اُٹھا دیں گے اور پھر وہ آپ کے قرب و جوار میں زیادہ دیر نہ ٹہر سکیں گے۔ "
اس ما بعد آنیوالی آیت سے بھی قرآن کا زیر بحث موضوع بالکل واضح ہے۔ یہاں حکومتی نظم و نسق میں رخنہ اندازی کرنے والوں کا عمومی ذکر اور ان کی اجتماعی تنذیر کی گئی ہے ۔محض خواتین کے خلاف کسی بداخلاقی یا توہین آمیز رویے کو یہاں داخل کرنا صرف بدنیتی پر مبنی ہوگا۔ مزید برآں خواتین کے اسلام کے دشمنوں سے کسی ممکنہ تحفظ کے لیے صرف چادر اوڑھ لینا یا کوئی پردے کی شکل استعمال کر لینا ایک انتہائی احمقانہ اقدام ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
البتہ یہ پوری کوشش کی گئی ہے کہ پردے سے متعلق قرار دی جانیوالی آیت ۳۳/۵۹ کا یہ جدید ترین ترجمہ سیاق و سباق میں فٹ بیٹھ جائے کیونکہ زیر بحث قرآنی موضوع میں کسی پہلو سے بھی عورتوں، بیویوں اور بیٹیوں کے من گھڑت ذکر کی،،، اور شٹل کاک برقعے کی قسم کے کسی پردے کی،،،،،، کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔۔۔۔۔۔ اوریہ ترجمہ کسی ایک لفظ کے بیرون سے اضافے کے بغیر اپنے معانی میں خود مکتفی اورمکمل ہے ۔ نیز یہ قرآن کے الفاظ کا وہ خالص اور حقیقی ترجمہ ہے جسےبغیر کسی تشریح اور بلا کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے دانش مند دنیا کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہی اللہ کے کلام کے ترجمے کے عمل کا واحد معیارہونا چاہیئے۔ اسی معیار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ خود بھی کوشش کریں تو شاید اس سے بھی بہتر اور ادبی لحاظ سے زیادہ خوبصورت ترجمہ کر سکیں۔
والسلام،،،،،
فوری حوالے کی سہولت کے لیےمستند لغات سے متعلقہ الفاظ کے معانی:

Dal-Nun-Waw (Dal-Nun-Alif) د ن و = To be near, come near or low, let down, be akin to. قریب ہونا، قریب آنا یا نیچے آجانا، کمتر عاجز ہو جانا کر دینا، جھک جانا، وغیرہ
Danaa (prf. 3rd. p.m. sing.): He drew near.
Yudniina (imp. 3rd. p.f. plu.): They should let down, draw lower.
Daanin (act. pic. m. sing.): Near at hand; bending (so) low (as to be within easy reach to pluck).
Adnaa (elative.): Nearest; worse; lower; best; more fit; more proper; more likely; more probable; nearer; near; less; fewer.
Dunyaa: This world.
Jiim-Lam-Ba-Ba ج ل ب ب = Woman's outer wrapping garment, that which envelopes the whole body, wide garment for a woman; Dominion or Sovereignty or Rule with which a person is invested. وہ حلقہ اقتدار و اختیار یا حکومت جو کسی کو تفویض کیا جاتا ہے ۔
jalabib (pl. of jilbab) 33:59 ## http://ejtaal.net/aa/#q=JLBB
بنت: daughter or any female descendent; بیٹی یا کوئی بھی مونث جانشین یا اگلی نسل؛ وارث جماعت ۔