Aurangzaib Yousufzai – February 2017

 

Thematic Quranic Translation Series - Installment 39

(In English & Urdu)
The “Abbreviation” Alif–Laam-Meem آلمّ

 

Rebuttal of the Entire Assortment of

Speculative & Conjectural Interpretations

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 39

حروفِ مقطّعات – آلمّ – ا ل م
تمام ترمروجہ من گھڑت قیاسی تفاسیر کا بطلان


اُردو متن انگلش کے بعد

(Urdu Text follows the English one)

 

 

PRELUDE

 

As a matter of fact, Allah’s narrative in Quran starts from Chapter 2, Al-Baqarah, with the words “a l m” in the Verse 2/1. Contrary to its old commonplace and popular definition, Al-Baqarah in deeper Quranic literary sense, signifies the split, divide, discord and dissension in human ranks.

 

It is already known and understood by the text and the style of its narration that the earlier Chapter 1 (Al Faateha) portrays the human craving to their Creator beseeching His mercy and benevolence for showing them the right path by which they may live protecting themselves from going astray and earning His wrath.

 

In His subsequent response Allah swt starts, adhering to the context, with an affirmation of human sufferings, by proclaiming thus :-(2/1) Aa lum ma.

 

Now this affirmation by Allah swt is erroneously read, with a common and absolutely collective level of distortion, as Alif laam meem, by chanting all the three letters separately ( ا ل م ). And then in utter disregard of the diacritical signs clearly visible thereon, it is mischievously called an “abbreviation”, or “huroof muqata’aat”. And thus its true meanings are wiped off from the face of the Scripture in a crooked way. And then every “learned scholar of Quran” followed his own route of speculation and conjecture to interpret this “abbreviation”.

 

The first and foremost thing to know is that “IT IS NOT ALIF, LAAM, MEEM” as we all are led to believe and are accustomed to read. It is a big deception.

 

It in reality is “AA-LUM-MA”, A WHOLE SENTENCE, with the verb “الم” (alama – he pained/suffered) if read in the proper way according to its vowel sounds.

 

Arabic has only two kinds of sentences broadly. This here is a verbal sentence with no irrabs but with certain other marks. 

The first Alif (Hamza) has “medda” on it; and Meem has “Shadda” on it.
As we are well aware of these signs, so we must know that this word is االمم (a-alam-ma). It is root word is الم. The reason it appears like االمم is that it is at the measure of 9th form of verb, افعلّ (af’alla).

 

Please, replace Faa-Ayn-Lam-Lam with Hemza-Lam-Miim and Miim. When another Hemza is added at the start, like it is in this measure, Hemza of root becomes silent. In script when two hemzas are combined together a “Medda” is placed over these. When other alphabets are combined a “shadda” is placed to indicate duplication of consonant letters. Hence, we get آلمّ.

 

This is a verbal sentence. Root meaning of Alif-Lam-Miim, from Lane’s Lexicon is “He/man suffered, was in pain”. Now 9th form of verb is used to denote intensification of the verbal action.

 

Once we add this verbal form’s meaning to the root, it becomes “Man (mankind), has intensely suffered/pained”.

 

In Urdu language, “Insaan ne shadeed dukh/takaleef bardasht ki hain”.

 

With the next Verse 2/2, the continuity and coherence of this divine affirmation is beautifully preserved and superbly maintained as is evident from the coming text,,,,, “therefore, here is the collection of laws/rules, standing beyond any doubt or ambiguity, embodying a Timeless Mode of Conduct for those human beings who wish to live a life free from the fear of pain, suffering, going astray and earning Allah’s wrath….”.

 

It is worth mentioning here that this Alif Laam Meem has hitherto been mispronounced by the entire multitude of Muslim scholars as well as Western Orientalists and thus all of them have been committing a distortion or interpolation in Quranic text, whereas the word has been written with necessary vowel sounds easily visualized in almost all old and new Quranic editions. Along with that, this word has been excessively subjected to personal manipulation and conjectures with respect to presenting its different and contradictory definitions. Even recently some more new and novel definitions by modern Quranic researchers have come to light. All of these are based on hypothesis due to sheer lack of linguistic or lexical backing. It is however noted that the majority of hypotheses define it in the form of attributes ascribed to our holy Messenger when he is addressed. Here too every contender has invented his own attributes from these Arabic letters. In our opinion the ones who sidetracked the issue by maintaining that only Allah knows this word’s real meaning, they succeeded at least in safeguarding themselves from the sin of misinterpretation or interpolation. It is always a cautious policy to sidetrack an issue where one’s knowledge and intellect fails to find a solution.

 

In the end, any friend who wishes to amend, alter or update the aforementioned analysis and conclusion on the basis of intellectual, linguistic and lexical justification, he is most welcome to share his knowledge.

 

Research on “Ya Seen”, “Ha Meem”, “Ta-ha” and “Qaf” would follow in due course.

 

God bless you all.

 

فی الحقیقت، قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا بیانیہ سورۃ دوئم، "البقرۃ" سے اپنا آغاز کرتا ہے، اور یہ آغاز آیت نمبر ۲/۱ کے الفاظ ا ل م سے ہوتا ہے۔ "البقرۃ" کا قرآن کے گہرے معنوی اسلوب میں حقیقی معنی ، تمام قدیمی مروجہ، فرسودہ اور عامیانہ تعبیرات کے برعکس ، ،،،،،،،، "انسانی معاشروں میں درجہ بندی سے پیدا ہو جانے والی تفریق، تقسیم، انتشار اور ہم آہنگی کا فقدان" ہے۔
یہ حقیقت تو ما قبل ہی سے معروف اور تسلیم شدہ ہے کہ اپنے اسلوب میں قرآن کی پہلی سورۃ [الفاتحہ] دراصل شدید انسانی خواہش کی ایک ایسی تصویر پیش کرتی ہے جہاں وہ اپنے خالق سے اس کے رحم اور عنایات کے اقرار کے ساتھ ایک ایسی راہ دکھانے کی التجا کر رہا ہے جس کے مطابق زندگی گذارتے ہوئے وہ بھٹکنے اور خالق کے غضب سے محفوظ رہنے کی سبیل کر سکے۔
پس پہلی سورۃ کی اس انسانی اپیل کے جواب میں ، سیاق و سباق سے مکمل ربط قائم رکھتے ہوئے، اللہ تعالیِ اپنی بات کی ابتدا انسانی آلام و مصائب کے اقرار کے ساتھ شروع فرماتے ہیں اور کہتے ہیں : [۲/۱] آ لمّ ۔ Aa-Lum-Ma ۔
اب یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اقرار، ایک نہایت فاش غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے، الف لام میم کےطور پر پڑھا جاتا ہے، اور شرارتا اسے ایک اختصاریے یا "حروفِ مقطعات" کہ کر پکارا جاتا ہے۔ اور اس طرح اس کی حقیقی تعبیر قرطاس سے غائب کر دی جاتی ہے۔
ہمارے جاننے کے لیے یہاں اولین نکتہ یہ ہے کہ یہ لفظ ایک اختصاریہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک مکمل فقرہ ہے۔جو اپنی حرکات کے مطابق آلمّ،،،Aa-Lum-Ma ،،،،پڑھا جانا چاہیئے۔ یہ ایک ایسا فقرہ ہے جس کا فعل "الم" ،،،،alama،،،، ہے [اُسے درد/تکلیف ہوئی ۔ اس نے تکالیف/مصائب سہے، برداشت کیے]۔
یہ ایک فعلیہ جملہ ہے جس پر اعراب نہیں بلکہ کچھ دیگر علامات موجود ہیں۔
پہلے الف پر مدّ موجود ہے۔ اور میم کے اوپر شدّ پائی جاتی ہے۔
جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ان علامات کے مطابق یہ لفظ "ا ا لمم" ،،، a-alam-ma ،،،،کی شکل میں ہونا چاہیئے ۔ اس کا مادہ " ا ل م" ہے۔ یہ "ا ا لمم" کی شکل میں اس لیے سامنے آتا ہے کہ یہ فعل کے باب [ ۹ ] کے مطابق "افعلّ " ،،،،af’alla،،،، کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
اب ف-ع- ل- ل کو ہمزہ- لام- میم اور میم سے تبدیل کر دیں۔ جب آپ شروع میں ایک اور ہمزہ کا اضافہ کریں گے جیسا کہ اس باب میں اصول ہے، تو اصل مادے کا ہمزہ ساکن ہو جائیگا۔ جب عبارت میں دو ہمزہ ساتھ آ جائیں گے تو ایک پر مدّ ڈال دی جائیگی۔ جب دوسرے دو حروف اکٹھے ہوں گے تو ان پر شد ّ ڈال دی جائیگی جو ان کی تکرار ظاہر کرے گی۔ پس کلیے کے مطابق ہم اسے " آلمّ " کی شکل میں دیکھتے ہیں۔
یہ ایک جملہ فعلیہ ہے۔ لین کی لغت کے مطابق مادے "" ا ل م"" سے مراد ہے : اس [آدمی] نے دکھ/تکلیف برداشت کی۔ اب فعل کے باب نمبر ۹ کے مطابق یہاں فعل میں شدت کا عنصر داخل ہو جائیگا۔ جب یہ عنصر داخل کریں گے تو مادے کے معنی بدل کر " آدمی/انسان نے شدید دکھ/ تکالیف برداشت کی ہیں"۔
آگے آنیوالی آیت نمبر ۲/۲ سے اس اقرار کا تسلسل اور قرآنی متن کی ہم آہنگی خوبصورت انداز میں اور بدرجہ اتم قائم رہتی ہے۔ کیونکہ آگے فرمایا جا رہا ہے،،،،،"اس لیے یہ ہے وہ قوانین کا مجموعہ جس میں کوئی ابہام نہیں اور جو ایک کردار سازی کا دائمی ضابطہ ہے ،،،،اُن انسانوں کے لیے جو دکھ، تکلیف، گمراہی اور اللہ کے غیض و غضب سے محفوظ ہو کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

یہاں یہ حقیقت بتا دی جائے تو کچھ ہرج نہیں کہ اس " ا ل م" کو آج تک جمہورِ علمائے اسلام بمعہ مغربی مستشرقین غلط تلفّظ کے ساتھ پڑھ کر قرآن میں تحریف کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ حالانکہ لفظ پر ضروری علامتیں موجود ہیں اور قرآن کے نسخوں میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس لفظ کے خالص ذاتی جوڑ توڑ اور قیاس آرائیوں سے کام لیتے ہوئے نہایت مختلف اور متضاد معانی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ حال ہی میں جدید قرآنی ریسرچرز کے کام کے مطالعے میں بھی کچھ اور نئی تعبیرات سامنے آئی ہیں جو سب کی سب قیاس پر مبنی ہیں کیونکہ کوئی لسانی اور لغوی بنیاد نہیں رکھتیں۔ قیاس آرائیوں کی اکثریت اس لفظ کی تعبیر رسول کے القابات کی صورت میں کرتی ہے جو رسول کو مخاطب کرتے ہوئے بولے گئے ہیں۔ یہاں بھی سب نے الگ الگ القابات اپنی اپنی سوچ کے مطابق ایجاد کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ البتہ یہ رائے ضرور دی جا سکتی ہے کہ جن علماء نے یہ کہ کر معاملے کوالتوا میں ڈالے رکھا کہ ان کا معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ کم از کم تحریف یا ایک خطاکار تشریح کے گناہ سے تو محفوظ رہے، کیونکہ جہاں انسان کا علم و عقل جواب دے جائے وہاں قدم بڑھانے سے پہلوتہی اختیار کر لینا ہی ایک محتاط روی کی پالیسی کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ علمی اور لغوی بنیاد پر کوئی دوست اوپر دیے ہوئے تحلیل و تجزیے کو تبدیل کرنا چاہے تو خوش آمدید۔
"یٰس"، "حٰمیم"، "طہ" اور "قاف" وغیرہ پر ریسرچ کچھ عرصہ بعد انشاءاللہ۔

اللہ آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔