اورنگزیب یوسفزئی نومبر 2015
قرآن کے سلسلہ وار "موضوعاتی"تراجم کی قسط نمبر (25)
Thematic Translation Series Installment No.25
AL-ZINA AND FOHOSH
حصہ اول FIRST PART- : "الزنا" -AL-ZINA
قرآنی لفظ "الزّنا" کا قدیمی روایتی ترجمہ اور تشریح غلط ہے
ERRONEOUS TRANSLATION/INTERPRETATION OF THE QURANIC TERM “AL-ZINA”
اس قرآنی موضوع پر کلیدی آیتِ مبارکہ کچھ اس طرح بیان فرمائی گئی ہے:-
24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ۔
اس آیت کا حسبِ روایت ،عقل و دانش کی توہین پر مبنی ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے :-
"زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ،،،اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک، اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔"
A fornicator does not/may not marry except a fornicatoress or a female polytheist,,,,and nobody marries/may marry a fornicatoress except a fornicator or a polytheist. And it is forbidden for the Believers.
آیت 24/3 کےاس غیر منطقی اور بے ربط قدیمی ترجمے پرانتہائی غور و خوض اور علمی تحقیق کے بعد یہ نئی حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں"الزانی اورالزانیہ" کی اصطلاحات در حقیقت قرآن کے ایک اہم "نظریاتی " موضوع کو ، اور "نظریے سے انحراف "،،،، یا ،،،،،"نظریہ میں ملاوٹ اور بگاڑ" کرنے کے عمل کو بیان کرتی ہیں،،،، بدکاری یا جنسی اختلاط نام کے کسی ایسےانسانی عمل کو نہیں، جسے خطا یا معصیت سمجھا جاتا ہے،،، یا جسے انتہا پسندی سے کام لیتے ہوئے ایک "گناہِ کبیرہ" یا ایک "گالی" بنا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔! لیکن اُسی غارت گر ملوکیتی دست بُرد کی وجہ سے ، جس نے قرآن کی شکل کومکمل طور پر بگاڑ دیا تھا، اِ ن اصطلاحات کو بالعموم صرف بطور ایک،،،،، "اخلاقی جرم اور ایک گناہِ کبیرہ" ،،،،،، کے طور پر لےلیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر مستزاد یہ کہ،،،، پھر عقل کو خیر باد کہتے ہوئے اٗسی اخلاقی جرم و گناہ کو شرک جیسے سنگین نظریاتی انحراف کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اُس کے مساوی لے آیا جاتا ہے اور اُس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے! ۔۔۔۔۔خود ہی سوچیے کہ کیا ایک خطا یا گناہ یا معصیت کا ارتکاب ایک اللہ کے ماننے والے بندے کو ایک مکمل غیر الٰہی ضابطہِ حیات کی پیروی (شرک) کا مجرم بنا سکتا ہے؟؟؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا،،،کیونکہ شرک سے مراد اپنی زندگی میں اپنے خالق کی بلا شرکتِ غیرے بالا دستی و حکمرانی کو ترک کرتے ہوئے کسی بھی انسانی فلسفے یا نظریہِ حیات کو اختیار کر لینا ہوتا ہے۔ فلہذا صرف ایک وقتی جرم و گناہ کیسے انسان کو مشرک کی ذیل میں لا سکتا ہے ؟؟؟؟۔۔۔ ہم تو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں،،،، کیونکہ ہم سب ہی کسی نہ کسی وقتی تقاضے کے تحت کوئی نہ کوئی جرم و گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک انتہائی کرپٹ اور خود غرضانہ اور خالص مادّی نقطہ نظر رکھنے والے معاشرے میں زندہ ہیں ۔ انسان ویسے بھی خطا کا پُتلا ہے۔ ۔ ۔انسان فرشتہ نہیں ہے! کیونکہ اُس کے مادی حیوانی وجود کے جبلّی تقاضے بے انتہا طاقتور ہیں، جنہیں پورا کیے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ ا ور ہم سب پھر بھی اپنی خطاؤں اور کمزوریوں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی کو دل کی گہرائیوں سے سپریم اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ نظریاتی طور پر مشرک نہیں ہیں۔
تحقیق کی منزلوں کی جانب آگے بڑھتے ہوئے یہاں یہ بات واضح کر دی جائے تو بہتر ہوگا کہ ہمیں درجِ بالا الفاظ کے ترجمے پر قطعا" کوئی اختلاف نہ ہوگا بشرطیکہ اس قدیمی ترجمے کو پورے فقرے کے سیاق و سباق پر عقلی بنیاد پر منطبق کیا جا سکے، اور بات بے وقوفانہ ابہامات کے مرحلے سے نکل کر کچھ سمجھ میں آ جائے۔ لیکن موجودہ بحث کے ذریعے آپ دیکھیں گے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ہم اس ترجمے کو مسترد کرنے پر مجبور ہیں۔قرآن ِ حکیم ایک ابہامات اور تشکیک سے پاک کتاب ہے ۔ اور ہمیں یہ حقیقت ایک جدید اور دانشمند بیرونی دنیا کے سامنے لانا اور ثابت کرنا ہے۔
پس ہمیں یہاں دو اہم نکات کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ "زنا" کا حقیقی مادہ کیا ہے، اور تمام متعلقہ آیاتِ مبارکہ میں اُس کا حقیقی معنی "جنسی اختلاط" کی بجائے دراصل کیا لینا چاہیئے کہ اُس کا شرک کے ساتھ کیا گیا موازنہ منطقی بن جائے۔۔۔ یہ اس کے مادے کو یکسر بدل دینے سے ہی ممکن ہو سکے گا!!!۔۔۔۔۔ دوسرے یہ کہ موجودہ روایتی معنی تو شرک کے مساوی اور ہمسر قرار ہی نہیں دیا جا سکتا، ،،،،اس لیے دونوں مساوی قرار دیے گئے الفاظ کے معانی پر بحث کی جانی چاہیئے تاکہ درست صورتِ احوال سامنے آ جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور، یعنی تیسرا بڑا دھوکا جس کا ہماری امت کو اذل سے سامنا ہے، یہ بھی ہے کہ الزانیہ سے عورت مراد لے کر صنفِ نازک کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ تانیث کی "ۃ" عربی زبان میں صرف مونث کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتی، بلکہ ہر "جماعت" کا ذکر کرتے ہوئے بھی اسے اکثر تانیث کی "ۃ" کے ساتھ مونث کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات بخوبی جانتے ہوئے بھی کہ "الزانیۃ" زانی جماعت یا گروپ کو بھی کہا جاسکتا ہے، عورت ذات کو حقیر اور مطعون کرنے کے شیطانی رحجان کے باعث اس لفظ کو جماعت کی بجائے صنفِ نازک کی جانب موڑ دیا گیا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر مقام پر "ازواج" کو بیویاں،،،،اور "النساء" کو عورتیں بنا دیا گیا ۔ خواہ اس کی وجہ سے رسولِ پاک کی سیرت و کردار پر اور تمام تر انسانی مساوات کے قرآنی فلسفے پر قیامت گذر گئی۔
"الزانی اورالزانیہ" وہ اصطلاحات ہیں جن کے قرآنی استعمال پر ، خالص سیاق و سباق کی روشنی میں، جدید علمی تحقیق کے ذریعے غور کیا گیا تو نتیجے میں ان کے ایک قطعی نئے اور چونکا دینے والے غیر روایتی معنی کا انکشاف ہوا۔ اور اِس جدید انکشاف کے باعث یہ قرآنی اصطلاح ایک کافی متنازعہ موضوع کی شکل اختیار کر گئی ۔ زیرِ نظر تحریر میں ، میرے ہمسفر علمی ساتھیوں کے اصرار پر، اسی انکشاف کو زیرِ بحث لایا گیا ہے تاکہ اس قرآنی موضوع کو بھی راست انداز میں علم و عقل و دانش کی بنیاد پر سب کے سامنے پیش کر دیا جائے ، جو کہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔ مقصد پیشِ نظر یہی ہے کہ قدیم زمانے سے چلی آرہی غلط فہمیاں دور ہوں، تاکہ قرآنِ حکیم کا حقیقی اور منزّہ چہرہ دنیا کے سامنے لائے جانے کا ہمارا دیرینہ مشن ،مختصر اور آسانی سے قابلِ مطالعہ اقساط میں، بروئے کار لایا جاتا رہے ۔
اس اصطلاح کا روایتی یا قدیمی معانی تو آج تک ،،،،"بدکاری" یا " ناجائز جنسی اختلاط"،،،، ہی سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اور یہی وہ معنی ہے جو آپ کو بلا استثناء ہر ترجمے، تفسیر یا تشریح میں نظر آئیگا ۔۔۔۔ نیز تمام لغات بھی اس کے معنی میں یہی ، یا اس سے ملتا جلتا معانی پیش کرتی نظر آتی ہیں ۔ لیکن کیونکہ یہ قدیمی معنی قرآن کی نصوص کی بامعنی اور قرینِ عقل ترجمانی کرنے میں ناکام رہا ہے، اور سیاق و سباق کے ساتھ مطلوبہ ربط، تسلسل، تناسب اور ہم آہنگی پیش نہیں کر سکا ہے،،،، اس لیے یہ جائزہ لینے کے لیے تحقیق کی گئی کہ کیا واقعی اس اصطلاح کے اصل مادے کا یہاں "زنٰی" کی شکل میں درست تعین کیا گیا ہے یا یہ ایک غلط اور سازشی اقدام تھا؟۔ ۔ ۔ ۔۔ اور کیا واقعی اس مادے سے مشتق کیے جانے والے الفاظ اور اُ ن کے معانی اللہ تعالیٰ کے کلام کے بیانی تسلسل اور باہمی ربط کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر ہم آہنگ ہوتے بھی ہیں یا نہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر یہ کہ یہ مادہ اور اس کا معنی قرآنی عبارتوں کے حقیقی پیغام کو ایک غیر عقلی اور غیر منطقی بہروپ دینے کے لیے جان بوجھ کر استعمال تو نہیں کیا گیا ہے ؟۔ ۔ ۔۔ اور کیا یہ بھی اُسی ملوکیتی سازش کا حصہ تو نہیں ہے جس کے مقاصد میں قرآن کے تمام معانی کو بگاڑ کر غیر منطقی بنا دینا شامل تھا؟؟؟
اگرچہ ذیل میں وہ تمام آیات بمعہ ترجمہ دے دی گئی ہیں جن میں یہ اصطلاح اپنے مختلف مشتقات کے ہمراہ استعمال میں لائی گئی ہے، ۔ لیکن سب سے قبل آپ کے سامنے وہ آیت ِ مبارکہ پیش کر دی گئی ہے جو اس اصطلاح کے قدیمی روایتی معانی کو ، اُس کے من گھڑت مادے(زنٰی) کے ہمراہ، بکمال و اطمینان، نہایت قطعیت کے ساتھ مسترد کر دیتی ہے ۔ اور یہی استرداد آپ کی تحقیق کی سمت کو بدل کر آپ کو ایک عدد نئے مادے کی جانب توجہ دینے پر مجبور کرتاہے ۔ یہاں آپ کو بتا بھی دیا جاتا ہے کہ یہ نیا دریافت شدہ مادہ دراصل "زان" ہے ("زنٰی " نہیں) ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی وثاقت کا ثبوت خود قرآنِ حکیم کی آیات کے ذہن میں اُتر جانے والے جدیدہم آہنگ اور مربوط ترجمے سے ہم پر پوری طرح آشکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ قرآنی عبارت کے ربط اور تسلسل کو واضح کرتا اور قدیمی روایتی تراجم کو قطعی بے ربط اور لا یعنی ثابت کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ کیسے ؟؟؟ ۔۔۔۔یہ آپ ذیل کی علمی بحث کے ذریعےسے آسانی کے ساتھ جان لیں گے اور اس کو تسلیم کرنے میں آپ کو کوئی مشکل درپیش نہ ہوگی، انشاءاللہ۔
یہاں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ نیا انکشاف شدہ مادہ ، ،،یعنی "زان" ،،،، کہیں باہر سے لا کر قرآن پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، بلکہ زیرِ نظر آیت میں یہ لفظ موجود ہے، جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اور اس جرم کے ارتکاب کے لیے اسے ایک دیگر مادہ ،،،"زنٰی"،،،، کے ساتھ بڑی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے خلط ملط کر دیا گیا ہے،،، اور دونوں کو کچھ اس طرح باہم منسلک اور ضم کر دیا گیا ہے ، کہ معانی کو ایک غیر متعلق عامیانہ معنی اورجھوٹا رنگ دے دیا جائے ۔ حالانکہ "زان" اپنے آپ میں ایک الگ مادہ ہے ، اور زنا سے متعلق آیات میں دراصل یہی مادہ اپنے محاوراتی اسلوب میں استعمال ہوا ہے ۔نیز تمام استعمال شدہ مشتقات اسی سے مشتق ہوئے معلوم ہوتے ہیں، مادے "زنٰی" سے نہیں۔۔۔۔۔اور یہ بات ان دونوں مادوں کے بنیادی معانی کا فرق دیکھنےسے آ پ پر پوری طرح واضح ہو جائیگی ۔ ملاحظہ فرمائیں :-
زان : ایک زہریلا نقصان دہ پودا جو گندم کے ساتھ اُگ جاتا ہے؛ ایک ایسا دانہ، تلخ ذائقہ رکھنے والا، جو گندم کے ساتھ مکس ہو کر یا ملاوٹ پیدا کر کے اسکا ذائقہ/کوالٹی بگاڑ دیتا ہے۔ اسی سے ،،،،الزانی (معرف باللام) : ایک مخصوص ملاوٹ اور بگاڑ پیدا کرنے والا؛ قرآنی نظریے میں ملاوٹ کر کے اس کی اصل و اساس کو بگاڑ دینے والا۔
Z a n : A noxious weed, that grows among wheat; (app. Darnel-grass; the “lolium temulentum of Linn.; so in the present day;) a certain grain, the bitter grain, that mingles with wheat, and gives a bad quality to it.
لینز لکسیکن، صفحہ 1213
لسان العرب صفحہ 1801
یہی وہ مادہ ہے جس کا با محاورہ استعمال (یعنی معرف باللام – "الزنا") آپ کو نظریے میں ملاوٹ کر کے اس کا اصل بگاڑ دینے کا ادبی و علمی معنی دیتا ہے۔اور "زنا" کے سیاق و سباق میں اسی مادے کا استعمال کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ "زنٰی " کا نہیں۔
زنٰی : کسی چیز پر چڑھنا/سوار ہو جانا؛ ناجائزجنسی اختلاط یعنی بدکاری
Zay-Nun-Ya = to mount, the mounting upon a thing, to commit fornication/adultery, fornicator/adulterer.
اب آئیے پہلے دیکھتے ہیں تین من گھڑت روایتی تراجم بمعہ دو عدد ترقی یافتہ تراجم:-
24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
روایتی تراجم
1) ابوالاعلیٰ مودودی: زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ،،،اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک، اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔
2) جالندہری: بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا، اور یہ (یعنی بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے۔
3) احمد رضا خان: بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے، اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام ہے۔
ترقی یافتہ تراجم
1) علامہ اسد : بدکار مردصرف بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کرتا ہے، جو کہ ایسی عورت ہوتی ہے جو (اپنی جنسی شہوت کو) اللہ کے احکام کے برابر جگہ دیتی ہے۔ اور ایک بدکار عورت کے ساتھ بدکاری صرف ایک بدکار مرد ہی کرتا ہے ، جو کہ ایک ایسا مرد ہے جو اپنی شہوت کو اللہ کے برابر جگہ دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے یہ حرام قرار دیا گیا ہے۔
2) علامہ پرویز : زنا (ناجائز جنسی اختلاط) ایک عام جرم نہیں ہے۔ اگر آپ اس کا غور سے تجزیہ کریں، تو صرف وہی عورت جو ایسے جنسی اختلاط پر راضی ہوگی وہ ایسی عورت ہوگی جو اپنے جنسی تقدس کو ایک مستقل قدر نہیں سمجھتی، یا وہ جو (اللہ کے قانون کی بجائے) اپنے جنسی جذبات کے تقاضے کی غلام ہو جاتی ہے اور ایسے ہر تقاضے پر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ اسی کی مانند صرف وہ مرد جو ایسے جنسی اختلاط پر راضی ہوگا وہ ہوگا جو اپنے جذبات کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور انسانی اور حیوانی زندگیوں کے فرق کو نہیں سمجھتا (اس طرح زنا کا جبھی ارتکاب ہوتا ہے جب مرد اور عورت ایک جیسی خواہشات کے دباؤ میں آ جائیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی پاک رہنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ایسا عمل وقوع پذیر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کی سزا دونوں کے لیے ایک ہے ۔ مومنوں کے لیے ایسا تعلق ممنوع ہے۔ (Exposition of Holy Quran by G.A. Pervaiz, published by Tolu-e-Islam)
بحث :
پہلے تین روایتی تراجم میں "الزنا" کو بدکاری کے معنی میں لیا گیا اور "نکاح" کو شادی کے معنوں میں ۔
کہا گیا کہ،،،،،،،"بدکار" مرد یا "زانی" کسی کے ساتھ شادی نہیں کرتا سوائے بدکار عورت یا زانیہ کے ۔ یا پھر مشرک کے ۔ اور یہی بات بدکار عورت یا زانیہ کے بارے میں کہی گئی ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ بیان کسی بھی انسانی تجربے یا عقل کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔غالبا" بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں نارمل زندگی میں ایسا کوئی قانون یا عملی دستور نظر نہیں آتا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے؟ ؟؟؟ آئیے دیکھتے ہیں :-
1) ایسے بے شمار بدکار مرد آپ کو مختلف طبقاتی گروہوں میں مشاہدے کی بنا پر مل جائیں گے جن کے گھروں میں نہایت عفت مآب خواتین بطور بیویاں موجود ہیں۔ بلکہ اکثریت تو آج ایسے ہی مردوں پر مشتمل ہے، جو گھر سے باہر اسی شغل میں یا اس کے مواقع کی تلاش میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔
2) ایسی کئی جنسی ایڈونچر کی شوقین عورتیں بھی موجود ہیں جن کے شوہر پاکباز ہیں اور اپنی بیوی کے علاوہ کسی بھی اور عورت کی طرف منہ اُٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ ۔جب کہ بیویوں نے کوئی نہ کوئی مستقل دوست رکھا ہوا ہوتاہے ۔ اگرچہ ہمارےمعاشرے میں عورت کی محکوم اور پابند حیثیت کی وجہ سے ایسی مثالیں مقابلتا" کافی کم ہیں۔
3) بدکار ترین مرد بھی اپنی بیوی بنانے کے لیے کبھی بدکار عورت کو منتخب نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ نیک اور عفت مآب عورت ہی تلاش کرتا ہے۔
4) کوئی عورت، خواہ کیسا بھی مزاج رکھتی ہو، کبھی اپنا شوہر کسی دیگر عورت کے ساتھ شیئر کرنے پر بخوشی آمادہ نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ عورت کی نفسیات ہی کے خلاف ہے ۔ اس لیے کوئی عورت کبھی جانتے بوجھتے کسی بدکار مرد سے شادی نہیں کرتی۔
تو روایتی ترجمے کی رُو سے یہاں اللہ تعالیٰ کا بیان غلط ثابت ہو جاتا ہے ، نعوذ باللہ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بیان غلط نہیں بلکہ روایتی ترجمہ لغو اور لایعنی ہے۔ حقائق پر پورا نہیں اُترتا ۔ ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق ہے ۔ نہ یہاں "الزانی" اور "الزانیہ" کا ترجمہ درست ہے، نہ ہی " زان" کا۔۔۔۔۔ اور نہ ہی "نکاح" کا۔
اور پھر دیکھیں کہ :-
5) بھلا زانی اور مشرک میں ایسی کیا قدرِ مشترک ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے باہم مرادف قرار دیا ہے؟؟؟ کیونکہ
6) ایک زانی، یعنی جس نے ناجائزجنسی اختلاط کیا ہو، نظریاتی طور پر موحد بھی ہو سکتا ہے ،،،،،، اور ایک مشرک انسان جنسی معاملے میں بالکل پاک باز بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ زانی ضرور ہی مشرک ہو،،،،،،، اور مشرک بھی بالکل ضروری نہیں کہ لازمی اور ہمیشہ، ہر حال میں زانی بھی ہو ۔
کیونکہ :-
زنا ، یا جنسی فعل، ایک انسان کے حیوانی وجود کا ایک جبلی تقاضا ہے،،،،،،، جب کہ موحد یا مشرک ہونا،،،،اس کے شعوری وجود کا ایک نظریاتی تقاضہ ہے ۔ دونوں افعال میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے ۔ دونوں کا میدانِ عمل ہی علیحدہ علیحدہ ہے ۔ یعنی ایک تو انسان کا حیوانی عمل ہے جس کا مرادف یا مساوی اس کا کوئی اور حیوانی عمل ہی ہو سکتا ہے ۔ ۔۔۔اور دوسرا انسان کا نظریاتی تقاضا اور سوچ ہے جو اُس کے شعوری وجود سے متعلق ہے ۔اور اُس کا موازنہ کسی اور ایسے ہی تقاضے سے کیا جا سکتا ہے جو اس کی نظریاتی "سوچ" ہی سے تعلق رکھتا ہو،،،،کسی جسمانی جبلی تقاضے سے نہیں کیا جا سکتا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس یہاں سے بھی مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مادہ "زنٰی" کا یہاں اطلاق ہی نہیں ہونا چاہیئے،،،،،، کیونکہ اس سے جو فعل مراد لیا جاتا ہے اس کا شرک یا مشرک پر اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔کیونکہ شرک ایک جبلی عمل نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی سوچ اور تصور ہے۔ ۔۔۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ موحد اور مشرک دونوں ہی اپنی حیوانی سطح پر جبلی تقاضے کے دباؤ کے باعث جنسی اختلاط کا ارتکاب کر بھی سکتے ہیں اورایسا کوئی موقع دستیاب ہونے پر اِس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے زنا سے بالکل پاک بھی رہ سکتے ہیں ۔
تو ثابت ہوا کہ مادے" زنٰی" کا، اور اس کے معنی یعنی جنسی اختلاط کا یہاں بھی شرک کے مرادف میں اطلاق قرینِ عقل نہیں ہے۔
دیگر دو عدد ترقی یافتہ تراجم (علامہ اسد) اور (علامہ پرویز) میں زنا کو تو بدکاری ہی کے معانی میں لیا گیا، لیکن "نکاح" کو شادی نہیں بلکہ "جنسی فعل" ہی کے معنی میں لے لیا گیا ۔ یعنی یہاں ایک ہی معنی رکھنے والے دو الفاظ فرض کر لیے گئے، یعنی زنا بھی جنسی فعل اور نکاح بھی جنسی فعل ،،،،،،اور دونوں ہی کا مطلب جنسی فعل لے لینے سے ایک غیر مناسب اور بلا جواز تکرار پیدا کر دی گئی۔ الہامی تحریر کا بلند درجہ اور اسلوب ہی بگاڑ دیا گیا؟؟؟؟ ۔۔۔۔یعنی کہا گیا کہ،،،،زانی یا زانیہ "نکاح" بمعنی "شادی" نہیں کرتے بلکہ "نکاح بمعنی جنسی اختلاط" کرتے ہیں؟؟؟ پَس یہ کہنا کہ "زانی" جنسی اختلاط کرتے ہیں، ایک بے معنی بات ہو گئی، کیونکہ خود لفظ "زانی" جنسی اختلاط ہی کو بیان کر رہا ہے۔ ان دونوں تراجم میں ایسا کیوں کیا گیا،،،،،،،یہ تو ہمیں پتہ نہیں!!!! البتہ نکاح سے مراد "جنسی اختلاط" کہاں سے اور کس ماخذ سے لیا گیا؟؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نکاح کا معنی "coitus"(جنسی عمل) تو لغات کی رُو سے ثابت ہی نہیں ہے۔ ۔۔۔۔نکاح کے معنی تو "لین" کی لغت میں اس طرح دیے گئے ہیں:-
ن ک ح : باندھنا، گرہ باندھنا، منسلک ہونا، تعلق بنا لینا، معاہدہ کرنا، شادی کا معاہدہ کرنا، شادی؛ کسی کو اپنی تحویل/قبضے/سرپرستی میں لینا۔بارش کے پانی کا زمین میں جذب ہو جانا۔ (یہاں ، یا کہیں اور، جنسی اختلاط کے عمل کا کوئی ذکر نہیں)
پس یہاں بھی ابہام ہی پایا جاتا ہے! نیز ان دونوں محترم حضرات نے بھی یہاں مشرک اور زانی کے درمیان قدرِ مشترک والا معاملہ کلیر نہیں کیا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو مساوی یا مرادف قرار دیا؟؟؟؟ ۔۔۔۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں میں کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں پائی جاتی ۔ جیسا کہ اوپر دلائل پیش کئے گئے، ،،،،موحد اور مشرک میں سے کسی ایک کو بھی نہ تو لازمی طور پر زنا سے ہمیشہ کے لیے پاک قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس کے برعکس لازمی طور پر زنا کا ارتکاب کرنے والا فرض کیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔دونوں میں سے کوئی بھی کبھی بھی حیوانی جبلی تقاضے کے آگے شکست کھا سکتا ہے۔ اور اس طرح ضروری نہیں کہ زانی ہمیشہ صرف مشرک ہی ہو ۔ "زانی" موحد بھی ہو سکتا ہے اور مشرک بھی ۔
"جنسی شہوت کو اللہ کے برابر درجہ دینا" (علامہ اسد)، یا ،،،،"اللہ کے قانون کی بجائے اپنے جنسی تقاضے کا غلام ہو جانا " (علامہ پرویز) کی قسم کے مبالغہ انگیز اور انتہا پسند انہ بیانات میں یہ بات بالکل بھلا دی گئی ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا قانون ہی تو جنسی تقاضے کا پیدا کرنے والا بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود ہی دونوں اصناف میں اس قدر باہمی روحانی کشش رکھ دی ہے کہ ایک کی ذات کی تکمیل دوسرے کی قربت سے مشروط ہے ۔ یہی روحانی کشش بعد ازاں ، عمر کے ایک خاص دور میں، جسمانی جنسی قربت کی شکل میں منتج ہوتی ہے ۔کیونکہ انسانی کی حیوانی جبلتوں کا تقاضا جنسی عمل کے ذریعے تولید کرنابھی ہے۔۔۔ جو پھراللہ ہی کا قانون ہے ۔۔۔۔۔ ایک کلّی انسانی ذات کے دونوں جزء ، جو ایک "بڑی خاص حکمت" کے تحت مصنوعی طور پر ایک دوسرے سے الگ کیے گئے ہیں،،،،ایک دوسرے سے جسمانی طور پر مل جانے سے ایک نئی انسانی زندگی وجود میں آتی ہے اور اِسی عمل کے نتیجے میں حیات کے اِس تسلسل سے نسلِ انسانی کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لیے کسی ایک وقت میں جنسی تقاضے سے مغلوب ہوجانے والا مرد اور عورت اُسی اللہ کے قانون ہی کو پورا کر رہا ہے اور اُس کی غلطی یہ تو ہو سکتی ہے کہ،،،،،، وہ اسے اخلاقی اور سماجی حدود و قیود کو توڑتے ہوئے پورا کرے۔لیکن یہ غلطی شرک کے مساوی نہیں کہلا سکتی، ،،،، کیونکہ شرک ایسا غیر الہامی نظریہ ہوتاہے جو تسلسل کے ساتھ پوری زندگی کو محیط ہو ۔ زنا کا ارتکاب کرنے والا اس حرکت سے صرف ایک غلطی، یا حدود فراموشی کر رہا ہے۔ اپنا الہامی نظریہ حیات کسی دوسرے انسانی نظریے کے ساتھ تبدیل کر کے شرک جیسے نظریاتی جرم کا ارتکاب نہیں کر رہا۔ لہٰذا، اس انداز کی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے سے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ ہم اللہ کی دی ہوئی ہر اخلاقی قدر و قانون کو توڑنے والے کو مشرک کہنے لگیں گے اور فتوے بازی شروع کر دیں گے۔ پھر تو ہر جھوٹا، چور، کاہل، بے ادب، ظالم، بد زبان، قسمیں کھانے والا، وغیرہ،،،،،، غلطی، گناہ یا جرم کرنے والا نہیں کہلائے گا،،،،، بلکہ سیدھا سیدھا اسلام سے خارج ہو کر مشرک کہلانے لگے گا ۔ جو کہ ایک مضحکہ خیز اور متشدد رحجان کہلائے گا۔ انسانی نفسیات کا علم تو آج نہایت وسیع ہو چکا ہے ۔ اس کا سیر حاصل اور ترقی یافتہ مطالعہ کیے بغیر آپ "کتابِ ہستی " کو کیسے مکمل طور پرجان سکتے ہیں ،،،، اور کیسے انسان کے ایک روحانی اور جبلی تقاضے کو ایک "گالی" کا درجہ دیتے ہوئے، اس پر شرک جیسے بڑے انحراف کا فتویٰ لگا سکتے ہیں؟؟؟ صاف گوئی پر معذرت چاہتا ہوں۔
تو آئیے، اس انتہائی عقلی اور منطقی بحث کے بعد، جس کی رُو سے تمام قدیمی تراجم غیر منطقی ٹھہرتے ہیں ، اب اسی آیتِ مبارکہ کا جدید ترین قرین عقل ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے ۔
آیت 24/3: الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿٣﴾
"دین یا نظریے میں ملاوٹ کا ارتکاب کرنے والا (الزانی) کسی کے ساتھ اپنا قریبی تعلق نہیں جوڑے گا ، یا وابستہ نہیں ہوگا (لَا يَنكِحُ ) سوائے ایسے گروہ یا جماعت کے ساتھ جو یہی کام کررہی ہو (الزانیہ)، یا پھرکسی مشرک جماعت (أَوْ مُشْرِكَةً) کے ساتھ ۔ اور اسی طرح ملاوٹ کرتے ہوئے نظریہ کو بگاڑنے والی جماعت (والزانیہ) یا ایک مشرک جماعت کے ساتھ کوئی بھی انسان قریبی تعلق یا وابستگی قائم نہیں کرے گا (لَا يَنكِحُهَا) سوائے نظریے کو خراب کرنے والا یا ایک شرک کرنے والا ۔ جب کہ ایسا کرنا امن وایمان کے ذمہ داروں کے لیے ممنوع قراردے دیا گیا ہے۔ "
اور اب مادے "زان" کے اسی انتہائی ربط پیدا کرنے والے، ابہامات کو دُور کرنے والے، اور سیاق و سباق کے ساتھ تسلسل قائم کرنے والے معانی کو دیگر متعلقہ آیات کے ساتھ بھی منطبق کر لیتے ہیں تاکہ سارا موضوع ہی شفاف شیشے کی مانند واضح ہوکر سامنے آ جائے۔ آپ اتفاق کریں گے کہ درجِ بالا بحث کے بعد اب ان بقایا آیات کے قدیمی کالعدم تراجم کو دہرانے کی،،،،، اور ان کے کالعدم ہوجانے کی بحث کی،،،، ضرورت باقی نہیں رہی ۔
قرآنِ کریم کی "زنا" سے متعلقہ دیگر آیات کا جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ جس میں آپ کو سیاق و سباق سے ربط، مکمل ہم آہنگی اور عقلی اور منطقی جواز کی فراوانی نظر آئیگی :
آیت 24/2: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۔
"نظریاتی ملاوٹ اور بگاڑ کا باعث بننے والی جماعت کو (الزانیۃ) اور ایسے فرد کو(الزانی)، دونوں میں ہر ایک کو سَو (100)یا سینکڑوں بندشوں (مائۃ جلدۃ) میں جکڑ دیا جائے(فاجلدوا) ۔ اگر تم اللہ پر اور حیاتِ آخرت کے نظریہ پر یقین و ایمان رکھتے ہو تو ان کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رعایت نہ پیدا ہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظریہِ حیات (فی دین اللہ) کا معاملہ ہے، ۔ مزید برآں اُن کی اس سزا پر امن کے ذمہ داران کا ایک گروہ بطور شاہد موجود ہو۔"
آیت 25/68: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾
"اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسری طاقت یا اتھارٹی کو نہیں پکارتے، نہ ہی کسی ایسی جان کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں (يَقْتُلُونَ النَّفْسَ) جو اللہ تعالی نے ممنوع/محترم قرار دی ہے، سوائے اس کے کہ جہاں وہ ایسا کرنے میں حق پر ہوں، اور نہ ہی دین اللہ میں ملاوٹ کرکے اس کی اصل و اساس کو بگاڑتے ہیں(وَلَا يَزْنُونَ ۚ ) ۔ البتہ جو بھی ایسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے وہ سزا کے طور پر اپنے ارتقائے نفس کی راہ مسدود دیکھے گا(يَلْقَ أَثَامًا )۔ "
آیت 60/12 : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ۔
"اے نبی، اگر/جب آپ کے پاس ایسی مومن جماعتیں حاضر ہوں جو آپ کی بیعت ان شرائط پر کرنا چاہیں کہ وہ
۔ اللہ کی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کریں گی (لَّا يُشْرِكْنَ)
۔ سرقہ/چوری کا ارتکاب نہ کریں گی
۔ دین/نظریے میں بگاڑ/ملاوٹ پیدا نہیں کریں گی (وَلَا يَزْنِينَ)
۔ اپنی اولادوں کو پست و ذلیل نہیں چھوڑیں گی (وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ)
۔ کسی پر سامنے یا پیٹھ پیچھے بہتان نہیں دھریں گی
۔ اور عمومی معاملات میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی
تو آپ انہیں بیعت کر لیا کریں اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے امان و تحفظ طلب کیا کریں۔ "
آیت 17/32: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ
"اور دین/نظریے میں ملاوٹ/بگاڑ پیدا کرنے کے قریب بھی مت جاؤ (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى )، کیونکہ یہ ایک صریح زیادتی/ حدود فراموشی (فاحشۃ)ہے اور بدی کا راستہ ہے (وَسَاءَ سَبِيلًا )۔ اور نہ ہی کسی ایسی جان کی تحقیر و تذلیل کرو (تَقْتُلُوا النَّفْسَ )جسے اللہ تعالیٰ نے محترم/ممنوع قرار دیا ہے، سوائے اس کے جو حق اور جواز کے ساتھ کیا جائے۔"
حصہ دوم: - SECOND PART
فحش
FOHOSH – OBSCENITY
قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ "فحش" سامنے آتا ہے، ہمارے نام نہاد "پاک باز علماء"نے اسے صرف ایک ہی معنی میں لیا ہے،،،یعنی جنسی فعل کا ارتکاب ۔ سیکس SEX !!! جب کہ اس کے معانی کافی وسعت رکھتے ہیں جیسے کہ آپ نیچے دیکھ لیں گے۔ اور جیسے کہ آپ نے درج بالا متن سے بھی معلوم کیا، لفظ "زنا" کو بھی ، اس کا مادہ تبدیل کرتے ہوئے ، وہی سیکس SEX سے عبارت کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ دین اسلام کے اجارہ داروں نے دین کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی اصل و اساس ہی سیکس SEX پر رکھ دی ہے۔ دنیا میں بھی 11 بیویاں ، جمع مالِ غنیمت میں لونڈیاں، جمع نکاحِ متع اور نکاحِ مسیار، اور طلاقیں دے دے کر مزید نئی شادیاں بھی،،،،،، اور آخرت میں بھی انعامات کی نوعیت میں سیکس ورکرز Sex Workers کی شکل میں لا تعداد حوریں ۔ پھر ہر ایک نفس کو 100 مردوں کے مساوی قوتِ رجولیت !!! اللہ، اللہ ۔
تو آئیے دیکھیں کہ ان شیطانی اجارہ داروں کی تعبیرات کے برعکس، ہمارے پیارے خالقِ کائنات کے انتہائی پاک اور مہذب کلام کی حقیقی تعبیر کیا ہے :-
فحش، فواحش، فاحشہ: حد سے بڑھ جانا، زیادتی کرنا، غیر مہذب، بھاری زیادتی، بدکرداری، بے حد وحساب جس کی پیمائش نہ کی جا سکے، ناگوار، بُرا، بد، نفرت انگیز، فحش ، بدنما، ممنوعہ حد کراس کرنا، بے حیائی، بے شرمی، جنسی شہوت کا میلان، جنسی اختلاط، وغیرہ۔
Fa-Ha-Shin = became excesssive/immoderate/enormous/ exorbitant/overmuch/beyond measure, foul/bad/evil/unseemly/ indecency/abominable, lewd/gross/obscene, committing excess which is forbidden, transgress the bounds/limits, avaricious, adultery/fornication.
اس موضوع پر بھی ہمارے پاس ایک کلیدی آیتِ مبارکہ موجود ہے جس کا جدید ترین قرینِ عقل ترجمہ Rational Translation تمام قدیمی دھوکے اور فریب کو صاف کرتا ہوا، قرآنِ حکیم کی ایک پاک اور منزّہ صورت ہمارے سامنے لے آئیگا۔ نیز یہ ترجمہ اس موضوع کی تمام متعلقہ آیات کے درست تراجم کی راہ بھی ہموار کر دے گا ۔
یہ آیت اس لیے چنی گئی ہے کہ ہمارے مرکزی موضوع "زنا" سے جوڑی جاتی ہے اور انتہائی احمقانہ "دانش" کے ساتھ یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ " زنا" کی سزا کے لیے چار عدد گواہان ضروری ہیں،،،،،جب کہ اس لفظ کا یہاں "زنا" سے کوئی تعلق ثابت ہی نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک احمق ترین انسان بھی یہ ادراک و شعور رکھتا ہے کہ جنسی اختلاط کا عمل انتہائی خلوت میں سر انجام پاتا ہے اور اس پر چار شاہدین کا موجود ہونا بھی تقریبا" ناممکنات میں سے ہوتا ہے ۔ دراصل فاحشۃ کا لفظ صرف زنا کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ کھلی بے حیائی کی باتوں یا حرکتوں کو یا ایک بدکردار، غیر مہذب اور لچر عمومی رویے کا وسیع معنی رکھتا ہے۔ یہ ایسا عمومی رویہ ہوتا ہے جس پر مرتکب کے ملنے جلنے والوں یا اسے دیکھنے والوں میں سے چار شہادتیں آسانی سے بہم پہنچائی جا سکتی ہیں ۔ مثلا" صنفِ مخالف سے اشارہ بازی کرنا،،،پبلک میں دعوتِ گناہ دینا،،،، جسم کے پوشیدہ حصوں کی نمائش کرنا،،،،لوگوں کی موجودگی میں فحش کلامی کرنا جس سے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں، اور ان سب حرکات سے بڑھ کر،،،،، دین کے کسی بھی معاملے میں زیادتی اور حدود فراموشی سے کام لینا،،، وغیرہ، وغیرہ۔
فحش کو زنا کی ذیل میں لانا اور اس جرم پر چار شہادتوں کی شرط لاگو کرنے کا عمومی مقصد ہمارے ان "پاکباز اور متقی" علماء کے نزدیک کیا تھا؟؟؟ ہماری ناقص عقل میں تو یہی آ سکتا ہے کہ یہ حضرات چاہتے تھے کہ وہ خود اور ان کے مربی بادشاہانِ وقت ،جتنا چاہیں فعلِ زنا کا ارتکاب کرتے رہیں اور ان پر گرفت کرنا اس لیے ناممکن رہے کہ چار گواہ کہاں سے لائے جائیں گے !!!! بعد ازاں اس قرآنی تحریف اور فقہی تاویل کا فائدہ دیگر بدکرداروں کو بھی مل گیا !!! پس مقام عبرت ہے عقل و شعور رکھنے والوں کے لیے! دیکھیے پہلے اِن مذہب کے ٹھیکیداروں کا لغو ترجمہ:-
آیت 4/15: وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿١٥﴾ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔
مودودی : تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
جالندھری : مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دےیا خدا ان کے لیے کوئی اور سبیل پیدا کرے۔ اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نیکو کار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
احمد رضا خان : اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا لے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔ اور تم میں جو مرد عورت ایسا کریں ان کو ایذا دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نیک ہو جائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
(غور فرمائیں اس کھلے تضاد پر کہ حصہ اول میں دی گئی آیت 24/2 میں زانی اور زانیہ کی سزا سو (100) جلدہ مقرر کی جا رہی ہے، اور یہاں موت تک گھروں میں بند کر دینا ۔۔۔ نیز وہاں کسی گواہی کا ذکر بھی نہیں، اور یہاں چار افراد کی گواہی بھی ہے۔ یہ تضاد کسی بھی مترجم و مفسر کو نظر ہی نہیں آیا۔ )
اور اب دو ترقی یافتہ تراجم :
علامہ اسد : اور تمہاری اُن عورتوں کے لیے جو غیر اخلاقی روش کا گناہ کریں، اُن پر اپنے میں سے چار ایسے لاؤ جنہوں نے ان کا گناہ دیکھا ہو،،،اور اگر وہ شہادت دیں تو محدود کر دو گناہ گار عورتوں کو ان کے گھروں میں یہاں تک کہ موت انہیں لے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے (توبہ کے ذریعے)۔ اور سزا دو دونوں پارٹیوں کو۔ لیکن اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں، تو انہیں چھوڑ دو، کیونکہ، اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحمت نچھاور کرنے والا ہے۔
علامہ پرویز : اگر تمہاری عورتوں میں سے کسی سے ایسی بے حیائی کی حرکت سرزد ہو(جو زنا کی طرف لے جانے کا موجب ہو سکتی ہے) تو ان کے خلاف اپنے میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ اس کی شہادت دیں (اور جرم ثابت ہو جائے) تو ان عورتوں کو باہر آنے جانے سے روک دو تا آنکہ انہیں موت آ جائے یا خدا کا قانون اُن کے لیے ایسی صورت پیدا کردے جس سے وہ اس قسم کی حرکات سے رک جائیں۔ مثلا" اگر وہ شادی شدہ نہیں تو ان کی شادی ہو جائے (زنا کی سزا کا ذکر 24/2 میں ہے اور تہمت لگانے کا 24/4 میں) ۔ اور اگر دو مرد اس قسم کی حرکت کے مرتکب ہوں توانہیں (مناسب) سزا دو۔ لیکن اگر وہ اپنے کئے پر نادم ہو کر اس سے باز آجائیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کرو۔ اللہ کے قانون میں معافی کی گنجائش بھی ہے (جو اکثر حالات میں جرم کی روک تھام کا موجب بن کر باعث) رحمت بن جاتی ہے۔ (مفہوم القرآن)۔
بحث :
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پہلے تین روایتی تراجم میں تو فحش حرکات کو سیدھا سیدھا "زنا" ہی فرض کر لیا گیا، ،،،،،،حالانکہ وہاں ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا، کیونکہ کسی مرد کا ذکر ہی نہیں تھا ۔ کہا یہ گیا تھا کہ " تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ مرد کے بغیر جنسی فعل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، اس لیے اگر یہ جنسی فعل ہوتا تو صرف عورتوں کا ذکر نہ ہوتا، بلکہ عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکرِ خیر ہونا لازمی تھا ۔ اور دونوں کو سزا دی جاتی ۔۔۔۔،،،،، اور پھر وہی دیرینہ سوال؟؟؟ کہ اس انتہائی پرائیویٹ عمل کی شہادت میں چار گواہ کہاں سے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟ ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب کسی بھی "بزرجمہر" یا "الہامی دانش" کے حامل علامہ کے پاس نہیں ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ یہ کوئی اور ہی عمل ہے۔ اور پھر یہ کہ "اللذان" کو کوئی مرد و عورت کہ رہا ہے، کوئی دو مرد اور کوئی مجموعی انداز میں مرد کی پوری صنف!
دیگر دو ترقی یافتہ تراجم میں البتہ فحش حرکات کو فحش حرکات تک ہی محدود رکھا گیا ۔ بہت بڑی "پیش رفت" کی گئی !۔۔۔۔۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی انتہا پسندی کا وہی عالم ہے کہ صرف فحش حرکات کی بنا پر "موت تک قیدِ تنہائی" جیسی سنگین ترین سزا بآسانی لاگو کر دی گئی ؟؟؟؟ کیا کوئی بھی قرینِ عقل انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اِس جرم کی سزا اس قدر وحشیانہ اور ظالمانہ بھی ہو سکتی ہے؟؟؟ اور پھر یکدم اس انتہائی سزا سے واپس نیچے آتے ہوئے، متبادل میں یہ بھی کہ دیا گیا کہ،،،،،، شاید اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل نکال دے،،،،،جیسے کہ "اگر وہ شادی شدہ نہیں، تو ان کی شادی کر ا دی جائے"(اُستاد علامہ پرویز)۔ ۔۔۔۔۔؟ خدا کے واسطے! آخر کیا وجہ تھی کہ یہ "نرم" سزا پہلے ہی مرحلے میں کیوں نہ تجویز کر دی گئی؟؟؟ ۔۔۔۔پہلے تو آپ نے انہیں تنہائی میں مر جانے کی "انتہائی سزا" دے ڈالی!!! ۔ ۔ ۔تو اس کے بعد آپ کی یہ فرضی نرم "سبیل" کیسے نکلے گی اور کیسے لاگو ہوگی؟؟؟ ۔۔۔۔۔اور کون جیالا "مردِ مومن" ایک موت تک قید کی سزا یافتہ مجرمہ عورت سے جو "زنا" کی جانب دعوت دینے کی مجرم ہے، شادی کرنے کی قربانی دے گا؟؟،،،،،، اور پھر ساری زندگی دونوں معاشرے کی طعن و تشنیع بخوشی سنتے اور برداشت کرتے رہینگے؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا یہاں ایک بات بھی قرینِ عقل ثابت ہوتی ہے؟ قارئین خود ہی فیصلہ فرمائیں۔
حالانکہ معاملہ بہت ہی آسان اور سادہ تھا، اور ہمارے عظیم خالق نے اپنے انتہائی اعلیٰ ادبی اسلوب میں اسے یوں سلجھا دیا تھا :-
آیت 4/15: وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿١٥﴾ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔
"تمہاری خواتین میں سے جو بے حیائی پر یا حدود فراموشی پر مبنی حرکات (الْفَاحِشَةَ )کرتی ہوئی سامنے آئیں (يَأْتِينَ) تو ان پر اپنے لوگوں میں سے چار عدد کی گواہی حاصل کرو ۔ اگر وہ شہادت دے دیں تو انہیں اس جرم کے سدباب سے متعلقہ اداروں میں محبوس کر دو (امسکوھن فی "البیوت") تاکہ یہ مخصوص ذلت آمیز زندگی(الْمَوْتُ) ان کی کمیاں اور کمزوریاں دور کر کے ان کا کردار مضبوط کر دے (يَتَوَفَّاهُنَّ )، یا حکومتِ الٰہیہ اُن کی بہتری کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے ۔ اور تم میں سے ایسے دو مرد (الّلذان) جو باہم بے حیائی کی حرکتیں کرتے سامنے آئیں (یاتیٰنہا) تو انہیں تکلیف دہ سزا دو۔ پھر اگر اپنی روش سے واپس آ جائیں اور اصلاح پکڑ لیں تو ان سے اعراض برتو، کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی جانب واپس رجوع کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے۔ "
اہم الفاظ کے معانی :
بیت ؛ البیت : بلند اور قابلِ احترام فیملی/خاندان Nobility ؛ محترم ادارہ؛ جیسے البیت المال ۔ وہ ادارہ جو مالیات پر اتھارٹی رکھتا ہے۔وغیرہ ، وغیرہ۔ گھر؛ وہ جگہ جہاں رات گذاری جائے؛ رات کی سوچ بچار۔
موت؛ الموت : مرنا، گذر جانا، ایک برباد اور محروم زندگی؛ حسیات سے محرومی؛ دانش سے محرومی؛ ساکت، خاموش، بے حرکت ہو جانا؛ سونا، بے روح ہونا، تکلیف کے احساس میں کمی ہو جانا، زمین کا خشک ہو جانا، رُک جانا، تھک کر ختم ہو جانا؛ غریب ہونا؛ ذلیل ، کمین، قابلِ نفرت، واہیات ہو جانا؛ غیر تابعدار اور سرکش ہو جانا؛ نیچ، حقیر، مؤدب ہو جانا؛ لچکدار، نرم، ڈھیلا، آرام دہ ہو جانا، جذبے یا زندگی سےخالی ہو جانا۔
Miim-Waw-Ta = To die, to pass away from the earthly life, to be destitute or deprived of life, deprived of sensation, deprived of the intellectual faculty, to be still/quiet/motionless, to be calm/still, to sleep, lifeless, to be assuaged, dried up by the earth, to cease, wear out/be worn out, to be poor/reduced to poverty, abject/base/despicable/vile, disobedient or rebellious, lowly/humble/submissive, to be soft/loose/flabby/relaxed, lack spirit or life.
وفیٰ؛ توفیٰ : آخر تک پہنچ جانا؛ کسی کے وعدے کا پورا کرنا؛ کسی بھی مصروفیت کی تکمیل کر دینا؛ قرض ادا کر دینا؛ وعدے کی تکمیل کرنا؛ مرنا؛ مکمل ادائیگی، یا ادائیگی کی تکمیل کرنا؛ کسی کو بھر دینا، کمی کمزوری، محرومی کو پورا کر دینا۔
Waw-Fa-Ya = to reach the end, keep ones promise, fulfil ones engagement, pay a debt, perform a promise. tawaffa - to die. wafaat - death. To pay in full, to fulfill.
آخر میں ایک ضروری وضاحتی نوٹ:
درج بالا تحقیق میں ایک خاص موضوع پر قرآنِ حکیم کی ایک حقیقی اور منزّہ صورت دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس سلسلے میں استعمال شدہ الفاظ اور ان کا متعین کردہ مادہ زیرِ بحث لا کر درحقیقت ماضی کے سازشی التباس کے پردے چاک کرنے کی مخلصانہ سعی کی گئی ہے۔ اس کاوش سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ خدا نخواستہ فعل زنا کے نہایت سنجیدہ تخریبی پہلو کی اہمیت کوکم کرنے کی کوئی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔۔۔۔ فعلِ زنا دراصل اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ "جوڑے – pair" کے تخلیقی اصول سے انحراف ہے۔ ایک ذرے سے لے کر انسانی حیات تک ہر تخلیق جوڑوں یعنی Pairs میں ہی پیدا کی گئی ہے اور جوڑے سے مراد ہمیشہ دو اصناف کا ایک ایک واحد یونٹ ہی ہوتا ہے۔ یعنی ایک جمع ایک مل کر ہی ایک جوڑا کہلاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک جمع دو،،،،یا پھر ایک جمع تین یا چار ،،،،کو ایک جوڑا کہا جا سکے۔ حیاتِ انسانی میں بھی عورت اور مرد کی ایک جمع ایک اکائی مل کر ہی جوڑا بنتا ہے اور اس طرح انسانی ذات اپنی تکمیل کا حصول کر لیتی ہے۔ یہ رفاقت ایک اہم اور سنجیدہ ، پوری عمر پر محیط، باہم جڑی ہوئی زندگی گذارنے کے لیے ایک قانونی معاہدے کے تحت ہی عمل میں آنی چاہیئے۔جسمانی لذت کا حصول اس کا ہدف نہیں بلکہ اس کا انعام ہے، اور انسانی نسل کا تسلسل اس کا مطلوب و مقصود ہے ۔ بصورت دیگر، آزاد سیکس، اور متعدد پارٹنرز، جس کا ہدف جسمانی لذت ہو، زندگی کا توازن بگاڑ کر انسانی ذات کے انحطاط کا باعث بھی بنتا ہے اور انسان معاشرے کی حدود کو توڑ کر دنیا میں بھی مجرم بنتا ہے، اپنے ضمیر کے سامنے بھی، اور اپنے خالق کی عدالت میں بھی۔ استادِ محترم علامہ پرویز نے آزاد جنسی فعل کے مہلک اثرات پر بڑی بصیرت افروز تحریریں سپردِ قلم کی ہیں جن کا مطالعہ آپ کو بلا حدود و قیود جنسی ملاپ کے قوموں اور تہذیبوں پر مرتب ہونے والے خوفناک نتائج و عواقب سے پوری طرح آگاہ کر دے گا۔ اس ناچیز کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ وہاں اگر کوئی پہلو تشنہ رہ گیا تھا، تو وہ کمی اس ناچیز نے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ ما حصل یہی ہے کہ جس طرح دیگر گناہ و معصیت اور حدود فراموشی "اثم" یعنی انسانی ذات کے "انحطاط" کا باعث ہوتی ہے، وہاں زنا کی حدود فراموشی بھی انسانی ذات کے توازن کو بگاڑ کر اسے ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار کر دیتی ہے۔البتہ قرآن کے متن میں جہاں اس لفظ کو دانستہ زان کی اصطلاح پر مسلط - "Super-impose" کر دیا گیا تھا، جس سے متعلقہ ترجمہ غیر عقلی اور غیر منطقی شکل اختیار کر چکا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُس بگاڑ کو دور کر دیا گیا ہے۔ فاضل دوستوں کی رائے کا منتظر رہوں گا۔