اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2015
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر24
Thematic Translation Series Installment No.24
اقم الصلوٰۃ کے مجوزہ اوقات
THE PRESCRIBED TIMINGS TO ESTABLISH THE DIVINE DISCIPLINE
قرآنِ حکیم کی جدید تحقیق میں دلچسپی لینے والے اذہان کے لیےاقامت الصلاۃ کے اوقات سے متعلق
چند نہایت اہم آیات کے روایتی تراجم پر بحث و دلائل اور انکا جدید ترین عقلی /شعوری ترجمہ :
حصہ اول
آیت 17/78 -79:
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿٧٨﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾
پہلے ملاحظہ فرمائیں روایتی ترجمہ ۔
ابو الاعلیٰ مودودی :
"نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو، کیونکہ قرآن ِ فجر مشہود ہوتا ہے۔"
علامہ اسد :
Be constant in (thy)prayer from the time when the sun has passed its zenith till the darkness of night, and (be ever mindful of its ) recitation at dawn; for, behold, the recitation (of prayer) at dawn is indeed witnessed (by all that is holy).
بحث:
یہاں ناقابلِ تاویل و تردید انداز میں اقمِ الصلوٰۃ کا مقصد،،،،، "لِدلوک الشمس" ،،،،،قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی "دلوک الشمس کے لیے" ۔ فرمایا ہے کہ دلوک الشمس "کے لیے" اقم الصلوٰۃ کا عمل کرو۔۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ "دلوک الشمس" کوئی بڑا مقصد ہے جس کے لیے "اقم الصلوٰۃ" کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کے احکامات کی پیروی کا ضابطہ یا نظام قائم کرو ،،،اس لیے کہ،،،،دلوک الشمس ،،،، کے مقصد کا حصول کیا جائے۔ پس واضح ہے کہ یہاں دلوک الشمس کوئی بھی وقت یا زمانہ نہیں ہو سکتا بلکہ ایک مقصد ہے۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ ایک مقصد ہے، تو یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں "شمس" سورج کے لیے نہیں بلکہ استعارے کے طور پر "شان یا عروج"(glory) کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ "سورج" کا حصول تو کوئی منطقی مقصد نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی یہاں صلوٰۃ کا معنی "نماز" ہو سکتا ہے، کہ نماز "پڑھنے" سے سورج کا حصول تو ہمیشہ سے ہی سیدھا سیدھا"وہم و خیال و قیاس و گمان است" والا معاملہ ثابت ہو چکا ہے۔ دلوک الشمس ایک مرکبِ اضافی ہے، یعنی "شمس کا دلوک" ۔ شمس یعنی شان یا عروج کا "دلک یا دلوک" سے مراد ،،،،،شان یا عروج کے حصول کے مقصد کا سختی سے تقاضا کرنا یا اس پر سختی سے زور دینا ہے۔
"الٰی غسق اللیل" سے مراد ہے کہ درجِ بالا مقصد وہاں تک حاصل کرنا ہے جہاں تک اندھیرا معدوم ہو جائے کیونکہ غسق "معدوم کر دینے" کا مستند معانی بھی رکھتا ہے ،،،،،اور،،،،
"قرآن الفجر" یعنی صبح کی روشنی کو،،، "قرآن" ،،،یعنی کھینچ کر سامنے لے آیا جائے ۔ قرآن کا معنی ،،،،سامنے لے آنا، نمودار کرنا بھی ہے۔(to bring forth, to draw forth, to cast forth)۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام روایتی و جدید مفسرین و مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت یہی زور دیا ہے کہ یہاں یا تو۔ ۔ ۔ ۔ "سورج کے زوال کے وقت" نماز پڑھو کہا گیا ہے،،،،،یا یہ کہ ،،،،،الصلوٰۃ کا نظام سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ ، یعنی پورے دن کے دوران، قائم کرو ۔ "لِ دلوک الشمس" کا ابتدائی "ل" سب نے ہی نہایت مجرمانہ طور پر نظر انداز کیا، جس سے مراد۔ ۔ ۔ "کے لیے" ، "کی خاطر" ۔ ۔ ۔وغیرہ ہوتا ہے۔ پس یہاں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ "نماز سورج کے زوال کےوقت" پڑھو،،،،، یا "نظامِ صلوٰۃ سورج کے زوال یا حرکت کے ساتھ" قائم کرو۔ ۔ ۔ ۔کیونکہ اس طرح "لِ" کو صریحا" نظر انداز کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ "نماز سورج کے زوال کے لیے" پڑھو،،،،یا ،،،،"نظام صلوٰۃ سورج کے زوال کے لیے، یا سورج کی چال یا حرکت کے لیے" قائم کرو۔۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ بے ربط اور بے معنی ہو کر قرین عقل ہی نہیں رہتا۔ پس لازم ہے کہ "الشمس" کا لفظی نہیں بلکہ استعاراتی معنی لیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس کام کو "ابتدائے شب " کے دوران بھی کرو ۔ حالانکہ یہاں لفظ "الیٰ" غسق اللیل ہے۔۔۔۔ "غسق اللیل واقع ہو جانے تک"۔ یعنی یہاں بھی اپنی ذاتی فہم یا مرضی ، یا پھر اندھی تقلید، استعمال کی گئی اور زبان دانی کے اصولوں کو خاک میں ملایا گیا۔
پھر یہ بھی لکھا گیا کہ "قرآن" کو "فجر" کے وقت پڑھا کرو (قرآن الفجر)،،،،، کیونکہ زیادہ سمجھ میں آتا ہے ۔ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ جسے صبح کے وقت پڑھنے کی فرصت ہی حاصل نہیں، اسے قرآن سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا، ،،، یا کم سمجھ میں آئیگا ؟؟؟ یعنی قرآن کا صرف "صبح " کے ساتھ ہی ایک احمقانہ تال میل بنا دیا گیا ۔ یوں قرآنِ حکیم کا دن یا رات کے بقایا اوقات میں پڑھنا بے کار و لا حاصل بنا دیا گیا، اور عقل کی فاتحہ پڑھ لی گئی۔ حالانکہ یہاں پھر ایک عدد مرکبِ اضافی ہے ۔ یعنی "الفجر کا قرآن"۔۔۔۔پو پھٹنے کی روشنی کا، ،،یا،،،دن کی روشنی کا ،،،کھینچ کر سامنے لے آنا۔ یہاں "دن یا صبح کے طلوع کا پڑھنا یا مطالعہ" ،،،،،یا "دن یا صبح کا قرآن"،،،، کیسے قرین عقل ہو سکتا ہے؟؟؟؟ قرآن نہ تو دن کا ہوتا ہے نہ ہی صبح کا ! یہ تو ایک ہمہ وقتی استفادے کا ضابطہِ کردار یا ہدایت نامہ ہے۔
پھر یہ بھی کہ "فتھجد بہ" سے نمازِ تہجد خواہ مخواہ اخذ کر لی گئی اور ایک توہم پرست امت پر بالجبرمنڈھ دی گئی۔ جبکہ یہاں سابقہ جملے کی مطابقت میں جہالت کے اندھیروں (اللیل) ہی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اِن کے ہوتے ہوئے نہایت ہوشیار اور خبردار رہو، جاگتے رہو۔ بھلا سارے دن کی انقلابی مہمات کے بعد تھکے ہوئے انسان کو ، جو نہ جانے کتنی رات گئے سویا ہے، اگر آدھی رات کے بعد پھر ایک بار کسی نماز کے لیے اُٹھا لیا جائے، تو اگلے دن وہ بے چارہ کس محنت یا نئی مہم کے قابل رہ سکتا ہے؟ رات کی نیند لینا تو انسانی زندگی کا فطری تقاضا ہے، اور خرچ کی گئی توانائیوں کو بحال کرتا ہے۔ اور پھر ، خدا کےلیے، یہاں وہ کون سا لفظ ہے جو کسی نماز یا عبادت پر محمول کیا جا سکے؟
تو آئیے عہدِ ملوکیت کی ان طفلانہ ،،،یا،،،، خواہش پرستانہ لغویات کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے ، اب خالص علمی تحقیق کے ذریعے ایک ایسا قرینِ عقل ترجمہ کر لیا جائے جو کسی بھی اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہوئے قرآن کے حقیقی مقصد سے مطابقت بھی رکھے، اور اس کی سچی اور پاک صورت بھی دنیا کے سامنے لے آئے۔
جدید تحقیقی اور قرین عقل ترجمہ – اردو
اللہ کے احکامات کی پیروی کے ڈسپلن کو (أَقِمِ الصَّلَاةَ ) مضبوطی کے ساتھ قائم کرو ، اس لیے کہ عروج و شان کے حصول کا مقصد حاصل کرسکو (لِدُلُوكِ الشَّمْسِ) یہاں تک کہ جہالت کے اندھیرے مکمل طور پر معدوم ہو جائیں(إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ )، اور صبحِ صادق کی روشنی کو کھینچ کر سامنے لے آیا جائے(وَقُرْآنَ الْفَجْر)۔ بے شک اندھیروں کے تسلط میں صبح کی روشنی کا سامنے لے آنا ایک بڑا نمایاں کارنامہ ہوتا ہے(كَانَ مَشْهُودًا )۔ اور جب تک جہالت کا یہ اندھیرا موجود ہے، تو اس کے معاملے میں لگاتار ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے (فَتَهَجَّدْ بِهِ) ۔ یہ تمہارے لیے ایک اضافی ذمہ داری ہے (نَافِلَةً لَّكَ )۔ تاکہ ایسا ممکن ہو جائے کہ تمہارا رب تمہیں عروج عطا کر کے ایک بلند اور قابلِ تعریف منصب (مَقَامًا مَّحْمُودًا) پر فائز فرمادے ۔
ترجمہ – انگلش
Establish firmly the submission to Divine Commandments (الصلوٰۃ) for the pursuit (لدلوک) of Glory (عروج ۔ الشمس) up to the point of total disappearance (obscuring) of darkness (غسق اللیل) and up to the drawing forth (قرآن) of the light of Dawn (الفجر). Indeed the bringing forth of the Dawn(قرآن الفجر) is always a prominently manifest phenomenon (مشھودا). And while the darkness of ignorance persists (وَمِنَ اللَّيْلِ), you must,in its midst, always remain awake and vigilant (فَتَهَجَّدْ بِهِ); it’s an additional obligation for you; so that your Lord may glorify and raise you to a highly praised status/position (مَقَامًا مَّحْمُودًا).
خاص الفاظ کے مستند معانی
دلک: دلوک: Pressing hard, urging, to discipine, try, to prove, to render, teach, to familiarize, to habituate, the act of rubbing, pressing or squeezing, eat, consume, decline, decline after midday, of the sun, the sun becomes high.، کسی مقصد کے لیے سختی سے عمل کرنا/تقاضا کرنا/منضبط کرنا/کوشش/ثابت کرنا/چھوڑ دینا/سکھانا، تعلیم دینا، مانوس کرنا، عادت ڈال دینا، رگڑنے، مَلنے کا عمل، دبانا یا بھینچنا، کھانا، استعمال/خرچ کر دینا/زوال، دوپہر کے بعد زوال، سورج کا، (سورج کا) بلند ہو جانا۔
الشمس:روشن اور با صلاحیت ہو جانا، عروج اور شان والا ہونا۔ دھوپ میں بیٹھ جانا، سورج، سونا، ماخذ، چشمہ۔ to be bright, be glorious, be sunny. shams – sun, gold, source, spring.
غسق: Ice cold darkness, watery, thick purulent matter that flows or drips, dark/murky/cold fluid; sunset and nightfall, darkness/shed tears/to become obscure.، سورج کا غروب ہونا/رات کا آ جانا، اندھیرا/آنسو بہانا/معدوم ہو جانا
اللیل: رات؛ اندھیرا / night, darkness of night, darkness.
قرآن الفجر: قرآن: to recite, to read, to compile, to collect, study, explanation, investigation, collected together, draw it, to draw forth, to bring forth; to cast forth.، پڑھنا، تکمیل کرنا، مطالعہ کرنا، بیان، واضح کرنا، تفتیش کرنا، جمع کر کے اکٹھا کرنا، کھینچ کر حاصل کر لینا، سامنے لے آنا، کھینچ کر سامنے لانا، سامنے رکھ دینا۔
الفجر: break open/cut/divide lengthwise/dawn, sunrise, daybreak.، پھاڑ کر کھول دینا/کاٹ دینا/ لمبائی میں تقسیم کر دینا/صبحِ صادق/سورج کا طلوع ہونا/دن کا نمودار ہونا
تھجد: ھجد؛ ھ ج د : to sleep watch, to remain awake
نفل : give spoil, gift, voluntary gift, a deed beyond what is obligatory.اضافی ذمہ داری،
اقم الصلاۃ - حصہ دوم
اقم الصلوٰۃ ہی کے بارے ایک اور نہایت اہم آیت ہے جسے قرآنی ساتھیوں کے مطالبے پرزیر تحقیق لایا گیا ہے۔ تمام زندہ شعور کے مالک محترم بھائیوں کے لیے اس کے پرانے معنی پر بحث اور اس کا حقیقی قرآنی پیغام کے شایانِ شان اور انتہائی قرینِ عقل ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
آیت: 11/114:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ ﴿١١٤﴾
پہلے روایتی تراجم :
ابوالاعلیٰ مودودی
"اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، در حقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔
علامہ اسد
And be constant in praying at the begining and the end of the day, as well as during the early watches of the night: for, verily, good deeds drive away evil deeds: this is a reminder to all who bear (God) in mind.
ایک مروجہ قرآنی ترجمہ:
علامہ پرویز
اپنے پروگرام کی تکمیل کے لیے تمہیں چاہیئے کہ صلاۃ کے اجتماعات کا انتظام دن کے پھوٹنے پر اور دن کے اختتام پر کرو اور رات کے ابتدائی حصے میں۔تمہارے اچھے کاموں سے پیدا ہونے والے نتائج تمہاری خطا کاریوں کے غلط اثرات کو مٹا دیں گے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ (From: Exposition of the Holy Quran by Tulu-e-Islam Trust)
بحث : (یہاں یہ یاد رہے کہ بحث صرف مروجہ تراجم کو غلط ثابت کرنے کا مقصد رکھتی ہے۔ جدید عقلی ترجمہ جو اواخر میں پیش کیا جا رہا ہے، اپنی تفہیم خود ہی کرتا ہے، کسی بھی بحث کی ضرورت کے بغیر – یہی کلامِ الٰہی کا سب سے بڑا وصف ہے، بشرطیکہ ترجمہ علم اور بصیرت کی روشنی میں کیا گیا ہو)
یہاں فرمایا گیا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو "طرفی النھار"،،،،، یعنی ،،،،"النھار کی دونوں اطراف" ،،،،،۔ اب یہاں یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ "النھار" کیا معنی دیتا ہے،،،،اور "طرف" کس قدر وسیع المعانی جہات رکھتا ہے ! نہایت ہی عامیانہ، بلکہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ "بازاری" اور "گھٹیا" ترجمہ ،،،،"دن کے دونوں سِرے" ،،، کر کے معاملہ نبٹا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ خوفِ خدا اور نہ ہی قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی اسلوب کی جانب ذرہ برابر بھی توجہ دی گئی ، نہ ہی عقل و شعور کا استعمال کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔آفرین ہے امت کے اماموں کی اس ذہنی پسماندگی پر ! آخر "دن" کے دو" اطراف " ہی کیوں؟ ۔ ۔ ۔ سارے دن کے لیےاس قیام کا آرڈر کیوں نہ دیا گیا؟۔ ۔ ۔کوئی معقول وجہ؟؟؟ ۔ ۔ ۔کوئی نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسے ایک پوجا کی رسم مان لیا گیا۔ تو پھر آخر منطقی اور قابلِ فہم طریقے سے "دن کے ابتدا اور انتہاء" کا ذکر کرنے کی بجائے دن کے"اطراف" ہی کیوں کہا گیا؟ بلکہ علامہ پرویز نے ہی کچھ پیش رفت کی اور اپنے ترجمے میں "طرفی" کے معانی میں "دن کے ابتدا اور انتہاء" کا ذکر کیا ۔ کیونکہ بات کہنے کا یہی ایک معقول طریقہ تھا۔ لیکن بات پھر بھی بن نہ سکی کیوں کہ "طرف" کا عربی لفظ ۔ ۔"ابتدا اور انتہاء" ۔ ۔ کا معانی نہیں دیتا ۔
نیزیہ مسئلہ پھر بھی موجود رہا کہ دن کے صرف دونوں اطراف ہی میں، یا دونوں حصوں میں، آخر کیا خاص بات تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔اور پھر یہ دونوں اطراف، وقت کی چند گھڑیوں میں ہی گذر کر تمام ہو جاتے ہیں ۔ کوئی بھی کوشش وقت کی ان چند مختصر گھڑیوں میں کی جائے ، یا کوئی بھی بڑی مہم چلائی جائے،،،، تو کیا نتائج پید ا کرے گی؟ ۔ ۔ ۔یہ تو ایک چھوٹا سا پارٹ ٹائم جاب ہو گیا؟۔ ۔ ۔ چند منٹ کے لیے۔ ۔ ۔ یعنی دن کی ابتدا بھی چند منٹ تک رہتی ہے،،،،اور انتہاء بھی چند منٹ بعد رات کی تاریکی بن جاتی ہے۔!!! صرف اتنی سی دیر کے لیے ہی "اقم الصلوٰۃ " کا عمل کیا جائے ؟؟؟ اور عقل و شعور کو گھاس چرنے چھوڑ دیا جائے!!!!
اور پھر "صلوٰۃ کے قیام" کو تو "طرف" کے اس ترجمے کے باعث وہی قدیمی فرسودہ ۔ ۔ ۔ "نماز کا پڑھنا " ۔ ۔ ۔ قرار دینا ہی پڑا ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام انسانی فلاح و شعوری ارتقاء کا عظیم فلسفہ ، نماز کے "پڑھنے"،،، اور پڑھنا بھی کہا ں کا ،،،،،،،،صرف اُٹھک بیٹھک پر ہی ٹرخا دیا گیا ہے،،،،، کیونکہ اکثریت کہاں جانتی ہے کہ نماز میں کیا پڑھا ، یا کیا کہا جا رہا ہے ،،،،،،،، اور یہ سب کچھ اِس حقیقتِ ثابتہ کے باوجود کہ یہ بے سُود و بے نتیجہ نماز لگ بھگ چودہ سو سال سے پڑھی جارہی ہے، اور 35 ہجری میں ملوکیت کے آغاز سے آج کے دن تک مسلم دنیا میں وہی کشت و خون، وہی طبقاتی امتیاز، وہی فرعونیت اور استحصالی سیاست، اور وہی غربت، افلاس ، جہالت، تنگ نظری، اور انسانوں پر ہمیشہ سے اپنوں اور غیروں کی غلامی مسلط ہے۔ جب کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ " اقامت الصلوٰۃ" تو وہ عظیم الشان الہامی ڈسپلن ہے جو خلافتِ راشدہ (حضرت عثمان تک) کے بعد کبھی آج کے دن تک نافذ ہی نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس کے کچھ خوشگوار اور مثبت اثرات ملّت کے منجمد اور دقیانوسی ذہنوں پر کہیں نہ کہیں تو ضرور ظاہر ہوتے !!!
اور سوچیں کہ دن میں "دو نمازیں" ۔ ۔ ۔ ایک صبح یعنی فجر اور ایک شام، یعنی مغرب۔۔۔ اگر بالفرضِ محال مان بھی لیا جائے، تو پھر صرف دو ہی نمازوں کا ایک جزوی آرڈر کیوں دیا گیا ؟۔ ۔ ۔ ۔ اگر نمازیں پانچ تھیں، تو ان کے لیے ایک جامع ، مربوط اور مکمل آرڈر کیوں صادر نہ فرمایا گیا؟۔ ۔ ۔ اور پھر آخر نمازوں کا آرڈر توڑ توڑ کر کیوں دیا جا رہا ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔کیوں کہ دوسری جگہ سے پھر ایک بار "فجر کی نماز" اور رات میں ایک اور بھی نماز ، یعنی "عشاء کی نماز " کا بھی استنباط کیا جا رہا ہے؟ (قبلِ صلاۃ الفجر،،،،،بعدصلاۃ العشاء)۔ ۔ ۔ ۔اور پھر ایک اور جگہ ایک مزید"صلاۃ الوسطیٰ" یعنی وسطی نماز۔ یا ،،،، "ظہر (اور کبھی عصر) کی نماز"،،،، مراد لی جا رہی ہے ۔ اگر یہ نماز ہی ہے، اور توڑ توڑ کر پانچ نمازوں کی جانب اشارہ ہے، تو پھر بھی آخر کیا امر مانع تھا کہ وضاحت سے اور صراحت کے ساتھ ایک بار ، اور متعدد بار بھی، پانچوں نمازوں کو انتہائی حتمی شکل میں روشنی میں لایا جاتا ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابہام اور کنفیوزن پیدا کرنے میں کیا حکمت پنہاں تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پَس صاف ظاہر ہے کہ ابہامات کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں، نہ ہی اُس ذاتِ پاک کا کلام ہے، بلکہ ہمارے ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے وہ امام ہیں جو ملوکیت کے دو نمبری اسلام کو دوام بخشنے کے لیے عقل اور منطق سے عاری تراجم اور گھٹیا تاویلات کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم رکھنے پر مجبور ہیں !!! اللہ ہی سمجھے۔
"النھار" ملامت، استرداد اور سختیوں کے تسلط کو کہا جاتا ہے ۔ بیشک نہار دن بھی ہوتا ہے، لیکن یہ لفظ اپنے محاوراتی اور استعاراتی معانی بھی رکھتا ہے جو ایک ادبِ عالی پر مبنی تحریر کے لازمی اوصاف ہوتے ہیں۔ "طرف" کو علمی اور ادبی اسلوب میں "دشمن کی صفوں کی انتہائی حدود" کو، اور ان پر " حملے" کو ، نیز سائڈ اور پہلو کو بھی کہا جاتا ہے۔
پھر "زلفا من اللیل" کا ۔ ۔ ۔" کچھ رات گذرنے پر"۔ ۔ ۔ ۔"یا ابتدائے شب" ۔ ۔ ۔کی شکل میں نہایت آسانی سے ترجمہ کر دیا گیا۔ یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی گئی کہ "زلفا" قریب آنے ، قربت، نزدیک ، اور نزدیکی اپروچ کرنے کو کہا گیا ہے اور کئی آیات اس معنی پر شاہد ہیں جن کا حوالہ نیچے مستند تراجم میں دے دیا گیا ہے۔ اور ویسے بھی "ابتدائے شب" تو ا ِن کے اپنے کیے ہوئے "طرفی النہار" کے ترجمے میں بھی، "انتہائے دن" کی رُو سے پہلے ہی سے موجود ہے ۔ کیونکہ انتہائے دن خود بخود" ابتدائے شب " ہوجاتا ہے - گو چند منٹ بعد ہی سہی۔ ۔ تو پھر کیوں ایک ہی فقرے میں دوبارہ وہی "ابتدائے شب"؟ ۔ ۔ ۔ اور رہ گئی "اللیل"، تو خواہ لیل ہو یا اللیل، ان کوتاہ نظروں کو صرف ایک ہی معنی سکھایا گیا ہے۔ ۔۔ ۔ وہی نہایت عامیانہ اور بازاری ۔۔۔۔۔ یعنی "رات" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔محاورے، استعارے، تشبیہ، یا ضرب المثل سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ۔ قرآن کے ایک ادبِ عالی کا شہ پارہ ہونے سے انہیں کوئی مطلب یا تعلق نہیں ! خدا غارت کرے ان قرآن کو غارت کرنےوالوں کو،،،،، یا پھر اپنا جذبہِ رحم حرکت میں لے آئے۔
حالیہ زمانے میں آنے والے قرآنی علماء نے، جن میں محترم استاد جناب علامہ پرویز شامل ہیں، اگرچہ اہم پیش رفت کرتے ہوئے لفظ صلوٰۃ کی تعبیر تو درست انداز میں کر دی۔ لیکن درست سمت میں تحقیق مکمل نہ کرتے ہوئے، بقایا کام کافی ادھورا چھوڑ دیا ۔ لیکن شاید یہ وقت کا تقاضا بھی تھا ۔ تکمیل اور بہتری ارتقاء کے سفر کے ساتھ ساتھ ہی اپنی انتہاء تک پہنچتی ہے، اور اس سے قبل ہر نسل کے ساتھ ساتھ بتدریج آگے بڑھتی رہتی ہے۔ کیونکہ ہم اُن کے شاگرد ہیں اور انہی کی عطا کردہ لائن کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس لیے ، بہر حال، اِس ارتقائی کاروائی کو جاری رکھنا ہمارا اور آنے والی نسلوں میں سے دانشوروں کا اور محققین کا فرضِ منصبی ہے۔کیونکہ بگاڑنے والے اتنی زیادہ ابتری اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں، اور اصلاح کا کام اتنی تاخیر سے شروع ہوا ہے، کہ ایک دو نسلوں کے لیے اس کی تکمیل ممکن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس کے لیے وقت تو درکار ہے،،،،بہت سا وقت،،،،، شاید آنیوالی ان گنت نسلیں !!!
تو پھر اس عہدِ ملوکیت کی دھوکے بازی اور لغویات کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے، آئیے اس آیتِ مبارکہ کا اس کائنات کے عظیم و برتر خالق کے شایانِ شان، جو خود اس شاندار عبارت کا متکلم ہے، ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جدید ترین تحقیقی اردو ترجمہ:
ملامت ، تردید اور سختیوں کےاِس بہتے ہوئے دھارے کے دونوں کناروں یا اطراف پر پیش قدمی کرتے ہوئے (طرفیِ النھار) اللہ کے احکامات کی اطاعت کے ضابطے کو مضبوطی سے قائم کردو (اقم الصلوٰۃ) اور اسےجہا لت کے اندھیروں کی تمام حدود کے قریب تر لے جاؤ (زلفا" من اللیل)، کیونکہ یہی وہ خوبصورت اور منفعت بخش اصول واحکامات ہیں (الحسنات) جو تمام انسانی کمزوریوں اور برائیوں (السیئات) کو رفع کر دیتے ہیں۔ یہی زندہ شعور رکھنے والے ذمہ داران کے لیے ہدایت/نصیحت/یاد دہانی ہے۔
انگلش ترجمہ:
While attacking both edges/sides of the current rapidly flowing stream of repulsion, reproach and chiding , establish firmly the Discipline embodying the pursuit of Divine Commandments, and take this mission up to close proximity of the darkness of ignorance; because this is the handsome and benificient Discipline which alleviates all human evils and weaknesses of character. For the mindful responsible people, it is but an advice and admonition.
متعلقہ الفاظ کے مستند معانی
ط ر ف = Tay-Ra-Fa = attack the extremity of the enemy's lines, chose a thing, extremity, edge, lateral/adjacent/outward part, side, border, end, newly acquired, proximity, fringes.
leaders/thinkers/scholars, best of the fruits.
Look from outer angle of eye, twinkle in eye, putting eyelids in motion, looking, glance, blinking, raise/open eyes, hurt the eye and make it water.
descend from an ancient family, noble man in respect of ancestry. دشمن کی آخری لائنوں پر حملہ کرنا، کسی چیز کو چننا، انتہاء،کنارہ، ملحقہ/کسی چیز کی اطراف/بیرونی حصہ، بارڈر، آخری سرا، کسی چیز کا نیا حصول، قربت، آخری حصے۔ قائدین/مفکرین/علماء، بیترین فروٹ/نتائج۔ آنکھ کے خارجی زاویے سے دیکھنا، آنکھ کا جگمگانہ، پلکوں کو حرکت میں لانا، نظر، نظر جھپکنا، اُٹھانا/آنکھیں کھولنا، آنکھ کو نقصان پہنچا لینا جس سے پانی رسنے لگے۔ کسی قدیمی فیملی کے وارث ہونا، نسلی طور پر اعلیٰ خاندان سے تعلق۔
ن ه ر = Nuun-ha-Ra = to cause stream to flow, repulse, reproach, flow abundantly, drive back, brow beat, chide, do in the day time, day, daytime, daylight hours (from dawn to dusk).ملامت، استرداد، ندی کا بہاؤ جاری کرنا، فراوانی سے بہنا، واپس مڑنا، تنگ کرنا، دن کے وقت کرنا، دن، دن کا وقت، دن کی روشنی کا وقت ۔
ز ل ف = Zay-Lam-Fa = draw near/close, advance, nearness/closeness/proximity.قربت، قریب لے آنا، پیش قدمی کرنا، نزدیک ہو جانا، نزدیکی ۔
Azlafnaa (prf. 3rd. p. f. plu. IV): We brought near, caused to draw near
Uzlifat (pp. 3rd p.f. sing. IV): It is brought near
Zulafan (n. acc.): Early hours
Zulfatan (n. acc.): Night
Zulfaa (v.n.): Approach; near
zalafa vb. (1)
zulfa n.f. (pl. zulaf) - 11:114, 34:37, 38:25, 38:40, 39:3
zulfah n.f. (adv.) - 67:27
اقم الصلاۃ – حصہ سوم -
یہاں اُسی اقم الصلاۃ کے مشن کو " وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ" کی اصطلاح سے بیان کیا گیا ہے۔
لیجیئے، وہی ہوا جس کا اندیشہ ہم قرآنیوں کو ہمیشہ درپیش رہتا ہے ۔
اقم الصلاۃ کا انتہائی قرین عقل ترجمہ ہمارے "خیر خواہوں" میں سے چند ایک کو پسند نہیں آیا ۔ ۔ ۔ ۔ اُسے کالعدم تو قرار نہ دے سکے، نہ ہی انشاءاللہ دے سکیں گے ۔ مگر بھرمار کر دی دیگر ہم معنی آیات کی،،،، اِس چیلنج کے ساتھ کہ ان کا بھی ترجمہ جدید علمی و ادبی انداز میں کر کے دکھائیے تو آپ کو صحیح مانیں گے ۔ (راز کی بات یہ ہے کہ صحیح تو یہ پھر بھی نہ مانیں گے)
کچھ آیات درج ذیل ہیں ۔ حسب ِ توفیق، قرآن کے بلند و بالا علمی و ادبی اسلوب کی مکمل ترجمانی کرتے ہوئے ترجمے کی کوشش کی ہے، اس لیے کہ ،،،،،،" شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات" ۔
سمجھنے کی بات یہاں دراصل یہ ہے کہ یہاں " مذہبیت" (religiosity) اور "نظریے"(Ideology/Idealism) کا نزاع ہے ۔ وہی تاریخی نزاع جسے حکیم الامت ، علامہ اقبال نے اسلامی فقہ کی تشکیل پر روشنی ڈالتے ہوئے ثقیل الفاظ میں استخراج (Deduction) اور استقراء (Induction) کے نام سے نشان زد کیا تھا۔ ہم یہاں ایک الہامی نظریہِ حیات کو اس کی عظیم آفاقی و انسانی اقدار کے ہمراہ پیش کر رہے ہیں ۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارے "کرم فرما" اُسی الہامی نظریے کو مسخ کرتے ہوئے، یعنی اُسکا لفظی، عامیانہ اور بازاری ترجمہ کرتے ہوئے، اُسے ایک محدود مذہبی قالب میں ڈھال رہے ہیں ۔ وہ قالب جو صرف پرستش ، زبانی حمد و ثناء ، زبانی عقائد و ایمان ،اور لا یعنی رسومات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور جہاں آپ کا عمومی سیرت و کردار اور معاشرے میں آپ کی عملی کارکردگی ایک غیر اہم یا ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
تو آئیے پہلے روایتی تراجم پر بحث کر لیتے ہیں، پھر چیلنج کو قبول کرتے ہوئے علمی و ادبی نظریاتی ترجمے پیش کر دیتے ہیں، جو "مذہبی" تراجم کے بالکل برعکس ہیں ۔ درج ذیل آیات پیش کی گئی ہیں۔
50/39-40 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿٤٠﴾ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ :
ابو الاعلیٰ مودودی:
پس اے نبی، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے۔ اور رات کے وقت پھر اُس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔ اور سنو جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے) قریب ہی سے پکارے گا۔
علامہ اسد :
“Hence, bear thou with patience whatever they
may say, and extol thy Sustainer’s limitless glory and praise before the rising of the sun and before its setting; and in the night, too, extol His glory, and at every prayer’s end. And (always) listen for the day when He who issues the call (of death) shall call (thee) from close-by.”
علامہ پرویز :
"بہر حال جو کچھ وہ تمہارے خلاف بولتے ہیں، تمہیں اس سے ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیئے۔ اپنے پروگرام پر مضبوطی سے قائم رہو۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تمہارے رب کا نظامِ ربوبیت تمام تعریفوں کے قابل ہے، تمہیں ہمیشہ سخت محنت سے کام لینا ہے (تاکہ اسے عملی طور پر قائم کیا جائے) صبح سے شام تک، رات کی تاریکی میں اور صبح ِ کاذب کے گھنٹوں کے دوران۔ (اس کے بعد دشمنوں سے ٹکراؤ ہوگا)۔ وہ دن آ جائے گا جب ایک قریبی مقام سے منادی کرنے والا جنگ کے لیے اعلان کرے گا (یعنی دشمن حملے کے لیے شہرِ مدینہ کے نواح میں پہنچ جائے گا)۔
بحث :
پہلے دونوں تراجم کہتے ہیں کہ رب کی تعریف کی تسبیح پھیرو ۔ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے ؟؟؟؟ اور پھر تیسرے ٹائم، یعنی رات کے وقت پھر تسبیح پھیرو۔ اور پھر بار بار، جب بھی سجدوں کی حرکات سے فارغ ہو جاؤ تو تسبیح پھیرنے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔ خواہ گھر میں فاقے پڑ رہے ہوں، خواہ دشمن کی فوجیں چڑھ دوڑی ہوں، اور خواہ اپنے شہروں اور گلی کوچوں میں دہشت گردی اور جرائم کا راج ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا کوئی بھی گھریلو یا قومی معاشرتی، سیاسی یا اقتصادی مسئلہ درپیش ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔بس تسبیح پھیرتے رہو ۔اور سجدے کرتے رہو۔۔۔۔ اور اس "خاص آسمانی عمل " کا دورانیہ ہر مرتبہ کتنے منٹ یا کتنے گھنٹے پر محیط ہونا چاہیئے، یہ امر ہمارے ان عدیم المثال مدبرین نے، جنہیں ہم ملتِ بیضا کے بزرگ اور اکابرین کہتے ہیں، پوشیدہ رکھا ہے،،،،،کسی خاص مصلحت کے تحت!!!
گویا کہ تسبیح میں کوئی ایسا منتر پوشیدہ ہے کہ ساری ترقی اور مرفع الحالی، اور تمام مسائل کا حل بس باری باری سجدے اور تسبیح پھیرنے سے خود کار طریقے سے سامنے آ جائیگا۔ خدا کے اِن حیوان نما بندوں (کا لانعام)کو ، جن میں ایسے ایسے عالی مرتبت نام شامل ہیں کہ نکتہ چینی کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، علم و ادراک ہی نہیں کہ بیٹھ بیٹھ کر ان کا جوڑ جوڑ کام کرنے سے فارغ ہو جائیگا ۔ کھانا ہضم ہونے سے انکار کر دے گا ۔ ٹانگیں چلنے سے رہ جائیں گی ۔ کسی کام کے نہیں رہ جائیں گے۔ معذوروں والی زندگی ہو گی جو خیرات اور صدقات پر کاٹنی پڑے گی۔ یعنی وہی جو آج مسلمان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ غیروں کی غلامی، اور اُن کےقرضوں،خیراتوں ،،، اور اُنہی کی محنت سے پیدا کی گئی ایجادات اور پروڈکٹس پر گذارا ۔
خدا کے واسطے،،،،،،،، تسبیح کا مادہ ۔ ۔ ۔س ب ح۔ ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے۔ کبھی عربی لغات اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ اس کے معانی کیا ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو گونگا، بہرا، اندھا پیدا کیا ہوتا، تو چلو کچھ رعایت بھی ہوتی ۔ عقل و شعور کی دولت تو اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز عطا کی ہے ۔ آخر آپ نے اپنی حصے کی یہ گراں بہا متاع کہاں، کس کے ہاتھ اور کن سستے داموں بیچ ڈالی ؟؟ یا اپنے سابقہ اور موجودہ ملوکیتی حکمرانوں کے پاس گروی رکھ دی تاکہ تسبیح کرنے کے وظیفے ملتے رہیں؟ ؟؟۔ ۔۔۔۔۔۔ کسی مشن کے لیے۔۔ "تمام تر قوت و وسائل کے ساتھ بر سرِ کار یا مصروف رہنے "۔۔ کے معنی کو آپ نے ایک انتہائی سُستی، کاہلی اور نا اہلی پر مبنی کام سے تعبیر کر ڈالا ؟؟؟ کبھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ،،،، کیا نبی پاک نے اپنا عظیم انسانی مشن تسبیحیں پڑھ پڑھ کر اور سجدے کر کر کے کامیابیوں سے ہمکنار کیا تھا ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیسرے ترجمے میں البتہ، اللہ کا شکر ہے کہ استادِ محترم پرویز صاحب نے اس "تسبیح" کی علّت کا خانہ خراب کیا اور کم از کم اس کا درست علمی ترجمہ "سخت محنت" کر کے اسلامی دنیا کو ایک نئی روشنی دکھائی۔ البتہ دن اور رات وغیرہ کے "اوقات کا تعین" کرنے والے معاملے میں وہ پھر اُسی پرستش و پوجا کے معاملات کی طرف اشارہ دے گئے کہ جن کے ضمن میں ہی مخصوص اوقات کا تعین کرنے کی حاجت محسوس ہوا کرتی ہے۔ اس لیے کہ کسی آفاقی آئیڈیولوجی کا پھیلاؤ اور نفاذ تو ایک ہمہ وقتی فریضہ ہوتا ہے نہ کہ مخصوص اوقات کا پابند!۔۔۔۔ یعنی یہاں اوقات کا تعین کسی صورت میں بھی لاگو ہوتا ہی نہیں،،،،،جب تک کہ کچھ پوجا پاٹ یا حمد و ثنا کی ۔ ۔ ۔ ۔ تسبیح پھیرنے یا پھر نماز پڑھنے کی مانند ۔ ۔ ۔ ۔رسومات نہ ادا کی جا رہی ہوں ! ۔۔۔۔۔۔۔تو اب آئیے ایک ترقی یافتہ علمی اور ادبی ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔"گر قبولِ افتد۔۔۔۔۔۔"۔
جدید ترین علمی و ادبی ترجمہ:
50/39-40 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿٤٠﴾ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ :
"پس جو کچھ کہ وہ لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں تم اُس پر استقامت سے کام لو اور اپنے پروردگار کی عظمت و شان کو پھیلا دینے کے مقصود کو ساتھ لیے(بِحَمْدِ رَبِّكَ) اپنے اقتدار کا سورج طلوع ہونے سے قبل (قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ) بھی پورے وسائل کے ساتھ مصروفِ کار رہو(وَسَبِّحْ )،،، اور اس سےقبل بھی کہ اُس مقصد کے دورہو جانے کا اندیشہ پیدا ہوتا نظر آئے(الغروب)۔ اور جہالت و سرکشی کی تاریکیوں کے دوران(وَمِنَ اللَّيْلِ) اسی مقصد کے لیے مصروفِ کار رہو اور مکمل اطاعت حاصل کر لینے کے بعد کے زمانے میں بھی۔ اور تم اپنی سماعتیں اُس آنے والے دور پر لگائے رکھو جب ایک منادی کرنے والاکسی قریبی مقام سے ایک خاص اعلان کرے گا۔"
ایک اور آیتِ مبارکہ بھی بھیجی گئی ہے، جو اسی سے مماثلت رکھتی ہے ۔ اسے بھی زیادہ رد و قدح کیے بغیر اُسی علمی و ادبی انداز میں ترجمہ کر دیتے ہیں جو قرآنِ عالی شان کا خاصہ ہے ۔
20/130 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ:
"پس جو کچھ کہ وہ لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں تم اُس پر استقامت سے کام لو اور جب تک تمہارے اقتدار کا سورج بلند نہ ہوجائے (قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ)اورقبل اس کے کہ وہ پھر سے رخصت ہونے یا ڈوبنےلگے ،اپنے پروردگار کی عظمت و شان کو پھیلادینےکے مقصد کو ساتھ لیے(بحمدِ ربک)مصروفِ کار (سبّح) ہو جاؤ۔ نیز جہالت کےاندھیروں کو روکنے کے لیے بھی(آناءِ اللیل) مصروفِ کار رہو(سبّح) اور ملامت ، تردید اور سختیوں کےاِس بہتے ہوئے دھارے کے انتہائی کناروں یا اطراف پر حملہ کرو (طرفیِ النھار) تاکہ تمہارے مقاصد کی تکمیل تمہیں اطمینان کی دولت عطا کردے۔"
الفاظ کے مستند تراجم
Siin-Ba-Ha =س ب ح : سبح: : to swim, roll onwards, perform a daily course, float, the act of swimming, occupy oneself in: the accomplishment of his needful affairs or seeking the means of subsistence, business/occupation, those who are floating, went/travel far, being quick/swift. To praise/glorify/hallow/magnify, sing/celebrate praise, holy, declaring God to be far removed or free for every imperfection/impurity
Ghayn-Ra-Ba : غ ر ب: غرب: = went/passed away, depart/retire/remove/disappear, become remote/distant/absent/hidden/black, withdraw, western, foreign/strange, exceed, abundance, sharpness, (maghrib = sunset), black, raven-black, setting place of the sun, the west.
Qaf-Ba-Lam = ق ب ل : قبل: to accept/admit/receive/agree, meet anyone, to face/encounter someone/something, advance/approach, before, correspond, counteract/compare/requite/compensate, the front part (12:26), accept with approval, show favour.