اورنگزیب یوسفزئی مارچ 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر27
Thematic Translation Series Installment No.27
قصہ حضرت نوح اور اُنکی کشتی کا، طوفانِ نوح کے تناظر میں
The Myth of Noah’s Ark and The Great Deluge
حضرت یونس علیہ السلام کی مِشنری ( Missionary) جدوجہد کی کہانی،،،، حضرت ِ موسیٰ کے تربیتی سفروں کی سرگذشت، ،،،ذی القرنین نامی بادشاہ (The Two Horned One) کے احوال ،،،، یاجوج و ماجوج (Gog and Magog) کے بیانیے ،،،،اور غار میں سونے والے اصحابِ کہف و الرقیم (The Seven Sleepers) کی تاریخ کے تناظر میں خالص کردار سازی کے سبق پر مبنی قرآنی حقائق کو ملوکیتی سازش کے تحت جس طرح توڑ مروڑ کر دیومالائی انداز (Mythology) میں پیش کیا گیا ہے، اُ سی قسم کی ایک اور قدیمی تمثیل ۔۔۔ حضرت نوح کا معجزاتی قصہ ۔۔۔ بھی ہے, جسے ہماری بد دیانت و بے ضمیر مذہبی پیشوائیت ،عوام کی معصوم اکثریت کو گمراہ اور ذہنی پسماندگی میں مبتلا رکھنے کے لیے اُسی قدیمی طلسماتی انداز میں قائم و دائم رکھتی چلی آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ مذہبی پیشوائیت نے دنیا میں اذل سے قائم استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے ایک اہم کل پرزے (یعنی tool, instrument) کا رول ادا کرنا اپنے ذمہ لے رکھا ہے جس کے ذریعے عوام کے اذہان پر اُن کا اختیار و اقتدار مسلط رہتا ہے۔
اِس قصہ میں بھی ایک مفروضہ طوفانِ عظیم کی تحیر خیز داستان گھڑ کر بیان کی گئی ہے جس کی زد میں لا کر پوری نسلِ انسانی کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نسلِ انسانی اس قدر بدکردار اورگمراہ ہو گئی تھی، اور خالق کے قبضہِ قدرت سے اس قدر باہر نکل چکی تھی، کہ خالق نے اس کا فنا کیا جانا ضروری سمجھا ۔ حیاتِ ارضی کی تخلیق کا عمل از سرِ نو شروع کرنے کے لیے حضرت نوح کے خاندان اور ان کے مومن ساتھیوں کی ایک مختصر سی جماعت، اور زمین پر موجود تمام چرند ، پرند اور وحشی جانوروں کی نسلوں سے "دو دو جوڑے" ، ایک بڑی کشتی پر محفوظ کر لیے گئے تھے جو حضرت نوح نے طوفان کےآنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تحت خود اپنے ہاتھوں بنائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔! معاذ اللہ !!! گویا کہ اللہ کا یہ جلیل القدر نبی ایک انتہائی شعور یافتہ نظریاتی دانشور، عظیم مصلح اور انسانوں کا لیڈر اور جرنیل نہیں، بلکہ ایک لکڑی کا کام کرنے والا کشتی ساز تھا ؟؟؟ ۔۔۔۔ اور گویا کہ اللہ کے رسول/نبی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تحت سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں سے نبرد آزما ہو کر ایک مثالی انسانی معاشرہ تشکیل نہیں دیتے تھے، بلکہ اُس کے برعکس کشتیاں یا بحری جہاز بنا کر راہِ فرار اختیار کرتے تھے اور دنیا بھر سے جانوروں اور چرند پرند کی تمام نسلوں کے سیمپل (specimen) اکٹھے کرتے پھرتے تھے، کیونکہ اللہ نے اُن کو فنا کے گھاٹ اُتار دینا تھا؟؟؟۔۔۔۔ اور عقل و دانش نے اپنی موت آپ مر جانا تھا !!!
اور پھر اِس متوارث چلی آ رہی غیر منطقی کہانی میں یہ امر بھی قابلِ غور تھا کہ اگر تمام بنی نوع انسان کو بدکرداری اور گمراہی کی بنا پر فنا کے گھاٹ اُتارنا ہی مقصود تھا،،،، تو ، ذرا سوچیں ، کہ بے چارے غریب جانوروں اور چرند پرند کی معصوم نسلوں کا کیا قصور تھا کہ اُن کا فنا کیا جانا بھی ضروری سمجھا گیا ؟؟؟؟ کیا عقل و خرد کو فارغ کرتے ہوئے، انسانوں کے ساتھ ساتھ اُن سب حیوانات کو بھی ، ، "گمراہ ، نا فرمان اور بدکردار" ٹھہرا دیا گیا تھا؟؟؟ ۔۔۔یا پھر ہمارے مفسرین کسی گھمبیر ذہنی یا نفسیاتی خلل کا شکار تھے ؟؟؟۔۔۔۔قصہ مختصر ، ،،،،پسماندہ اسلامی معاشرے کو یہ باور کرایا گیا کہ سیلابِ عظیم کے اُتر جانے کے بعد کشتی کے ذریعے بچ جانے والے حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے کرّہ ارض پر انسانی اور حیوانی حیاتِ نو کا عمل ایک بار پھر سےجاری کیا گیا!!!! یا کم از کم بھی،،،، یہ وادیِ دجلہ و فرات میں برپا ہونے والا ایک بڑا سیلابِ ضرور تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُس علاقے میں آباد قوموں کو صفحہِ ہستی سے نابود کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ سائنس، تواریخ ، بشریات (Anthropology) اور آثاریات (Archaeology) کے علوم میں بھرپور تحقیقات کے بعد بھی اس واقعہ کی کوئی توجیہ ، توثیق، ثبوت، آثار، نشانی سامنے نہیں آ سکی۔پَس یہ سارا افسانہ (Myth) من گھڑت اختراع ثابت ہو چکا ہے۔
ہمارے مذہبی ورثے میں ہمیں حاصل ہونے والی تمام قدیم و جدید تفاسیر میں یہی، یا اس سے ملتا جُلتا ،منطق سے عاری بیانیہ (narration)آپ کو نظر آئیگا ، جو ایک نہایت قرینِ عقل اسلای ڈاکٹرائن (Doctrine) کے خلاف ایک ہمہ گیر ، ہمہ جہت اور مربوط منصوبہ بندی کی کھلی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ "مقدس کتابوں" میں آپ کو اس سے بھی آگے بڑھ کر اُن جانوروں کی ""تفاصیل " بھی ملیں گی جو حضرت نوح کی کشتی میں پناہ گزین کر لیے گئے تھے ۔ نہایت باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ہمارے "قابل متقدمین" نے اُس مفروضہ غیر موجود کشتی کا طول و عرض اور گہرائی تک ماپنے کی "انتہائی محققانہ" کاوشیں کی ہیں، جن کی تفاصیل مختلف تفاسیر، روایات اور قصص میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے اِن قابل سابقین کی تمام "گپ بازیاں" اُسی سرکاری سطح کی منصوبہ بندی کے تحت، ہمیشہ اِسی قسم کی احمقانہ قیاس آرائیوں پر محمول رہی ہیں،،، مثلا" جیسے کہ جنت میں حوضِ کوثر کا مفروضہ، جس کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی پر تخیل کی بے تُکی پرواز سے کام لیتے ہوئے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔اور جیسے جبرئیل نامی مفروضہ فرشتے کے وجود کا طول و عرض اور اُس کے پروں کا سائز نہایت شرح و بسط کے ساتھ ماپا گیا، گویا کہ وہ ایک ماڈل کی مانند سامنے کھڑا ہو۔ ۔ ۔ اور جیسے کہ پہاڑ سے اچانک نکل آنے والی تخیلاتی اونٹنی کے اعضاء کی پیمائش تک پیش کر دی گئی۔۔۔۔ حد اور بَس یہ کہ جانوروں کے فُضلے کو نبٹانے کے لیے اُس بڑی کشتی میں کہاں کہاں کھڑکیاں فٹ کی گئی تھیں، اور اُس کے کتنے طبق بنائے گئے تھے، اور کس کس طبق میں کون کون سی نوع کو رکھا گیا تھا،،،،یہ تمام قیاس آرائیاں گھر بیٹھ کر اور عقل کو بالائے طاق رکھ کر ، تخیل کی اُسی بے تُکی پرواز کے ذریعے تفصیل کے ساتھ گھڑی گئیں جو ہمارے اِن سابقہ اماموں (مولویوں) اور ان کی مذہبی تحریروں کا تخصّص اور طُرہِ امتیازہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ ان تمام دیومالائی کہانیوں کا ماخذ وہ عیسائی اور یہودی مذہبی لٹریچر ہے جسے ہمارے یہی مسلمان سکالرز نہایت شدت سے محرف یا کرپٹ قرار دے کر مسترد کرتے آئے ہیں ۔ قدیم اور جدید بائبل کی یہ وہی بظاہر مسترد کی گئی ، ناقابلِ توجہ قرار دی گئی، تفاسیر ہیں جو من و عن مستعار لے کر، یا سرقہ بالجبر کرتے ہوئے، قرآن کی تفاسیر میں مندرج کر دی گئی ہیں اور اس ضمن میں علم و دانش، ادبی اصول و اخلاقیات اور ضمیر کی خلش کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں انہی تفاسیر اور تشریحات کی اندھی تقلید میں جو بھی اُردو یا انگریزی تراجم آج تک منظرِ عام پر لائے گئے ہیں ان میں بھی عقل و علم و فطری قوانین کی توہین کرتے ہوئے، تحقیقی عمل سے جان بچاتے ہوئے، مکّھی پر مکّھی مارنے کا محاورہ سچا ثابت کر دیا گیا ہے۔ اور یہی گھسی پٹی احمقانہ تفصیلات کسی بھی وثاقت یا سند یا علمی تحقیق کے بغیر من و عن درج کر دی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں آپ انگلش تراجم میں دیکھ سکتے ہیں :- ------ علامہ اسد، اے جے آربری، پکتھال، احمد علی، شاکر، یوسف علی، وحیدالدین خان، صحیح انٹرنیشنل، وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز اردو تراجم میں بھی ایک نظر ضرور ان مترجمین کی کاوشوں پر ڈال لیں تو بہتر ہوگا :- ---- مثلا"،،،،ابو الاعلیٰ مودودی، احمد رضا خان، جالندہری، طاہر القادری، محمد جونا گڑھی، محمد حسین نجفی، اور خود ہمارے اپنے قرآنی سوچ رکھنے والےاساتذہِ کرام ، وغیرہ ، وغیرہ۔
ان سب ہی سکالروں نے ایک مفروضہ سیلابِ عظیم کا نظریہ گھڑا، یا سابقین کی اندھی تقلید کی،،، اور عقل استعمال کیے بغیر ایک عدد عظیم الجثہ کشتی حضرت نوح کے ہاتھوں تعمیر کروائی، اور تمام ارضی جانوروں اور پرندوں کے دو دو جوڑے اُس کشتی میں جمع کروا دیے۔ کسی بھی محترم مترجم نے یہ سوچنے کی زحمت ہرگز گوارا نہ کی کہ ڈھائی ہزار سے تین ہزار پانچ سو قبل مسیح کی تہذیب میں تمام کرّہ ارض سے ہر نسل کا جانور پکڑ کر لانا کیسے ممکن ہوا ؟؟؟ ۔۔کیونکہ جانوروں کی نسلوں کی تعداد تو دسیوں لاکھ(Millions) میں ہے ۔اور وہ تمام بر اعظموں کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے بقول، حضرت نوح کے مومن ساتھیوں کی تعداد ہی قلیل تھی ۔ پَس وہ پوری دنیا میں پھیل کر جانور کیسے جمع کر سکتے تھے؟؟؟؟۔۔۔۔ وہ کیسی کشتی تھی جس میں اتنی بڑی تعداد کو رکھ لیا گیا ؟؟؟۔۔۔ پھر ان کی خوراک کے مختلف النوع ذخائر بھی اِسی کشتی میں بھرے گئے۔ ۔۔۔جو خدا معلوم کیسےحاصل کیے گئے؟ ۔۔۔۔۔ کیا واقعی یہ کوئی کشتی تھی،،،،یا دراصل یہ بڑی کشتی یا بحری جہاز کسی بڑی آبادی، بستی یا معاشرے کا استعارہ تھا اور اُسے اسی ضمن میں "فُلک"سے تعبیر کیا گیا تھا ؟ ۔۔۔۔ کیا متعلقہ قرآنی نصوص میں کہیں بھی اشارتاّ" یا کنایتا" کسی ۔۔ " جانور"۔۔۔ کا، یا "دو دوکے جوڑے" کا ۔۔۔ذکر کیا گیا ؟؟؟ ۔۔۔ یقینا" ہرگز نہیں۔۔۔ دو جوڑوں کا اگر ذکر کیا گیا ہوتا ، تو کم از کم اُس کے لیے الفاظ "زوجان"، "اثنان" یا "اثنتان" کا استعمال کیا جاتا !!! اثنین نہیں !!!۔۔۔اور۔۔۔۔کیا کوہِ جودی پر، جہاں یہ کشتی مبینہ طور پر سیلابِ عظیم میں جا کر ٹھہری ، طوفان سے قبل ہی پا پیادہ سفر کر کے پناہ لے لینا ممکن نہ تھا ؟؟؟ ، بغیر کشتی تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس کیے؟ ۔۔۔آخر کشتی ہی کیوں؟؟؟۔۔۔ جبکہ یہ واضح ہے کہ یہ مفروضہ کوہِ جودی ، جہاں کشتی کا لنگر انداز ہونا بیان کیا جاتا ہے، اُسی خطے میں واقع بتایا جاتا ہے جہاں حضرت نوح کی قوم سکونت پذیر تھی اور اُس کی بلندیوں پر یوں ہی چڑھ جانا کوئی لاحاصل مہم نہ تھی !!!! ۔۔ پھر اِس غیر منطقی کہانی میں ہمارے سامنے مسئلہ یہ بھی ہے کہ قرآن تو کسی "کوہ" یا "جبلِ جودی" کا ذکر ہی نہیں کرتا ؟؟؟ وہ تو صرف "الجودی" کہتا ہے جس کا معنی کوئی پہاڑ نہیں بلکہ کچھ اور ہے؟ ۔۔۔۔ اور پھر آخر قرآن کے کس لفظ سے ایک سیلابِ عظیم کا معنی گھڑا گیا ؟؟؟،،،،،، کیونکہ وہاں تو ہمیں صرف ایک ترکیب، یعنی ۔۔۔۔"فار التنّور"۔۔۔ مندرج نظر آتی ہے ؟؟؟ اور جس کا معنی کسی بھی پیرایے میں "سیلابِ عظیم" نہیں لیا جا سکتا ؟؟؟ نیز آیت 29/14 میں ایک لفظ "طوفان" ضرور استعمال کیا گیا ہے،،،،جس سے آیت کے سیاق و سباق میں ایک گھیر لینے والی، شدّت رکھنے والی ابتلاء یا زوال کی صورتِ حال مراد لی گئی ہے ! لفظ طوفان کا مادہ ۔۔۔ط و ف ۔۔۔ہے جس سے طافَ، طائف، طواف، وغیرہ مشتق ہوتے ہیں جن سے مراد، چلنا، گھومنا، گھیراؤ کرنا، گول چکر لگانا، احاطہ کرنا، نگرانی کرنا وغیرہ لیے جاتے ہیں۔
البتہ کیونکہ آیات کے تناظر میں ماء ،،، الماء ،،،، مائکِ ،،،جیسے الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں سے "پانی" کا استنباط کر لینا نہایت آسان کام ہے ( کیونکہ ہمارے مذہبی سکالروں یعنی ا ماموں اور مولویوں کے پاس ہر قرآنی لفظ کا ایک ہی آسان اور عامیانہ معنی ہوا کرتا ہے)،،،،، اس لیے یہاں " ماء " کے معنی کی پوری وسعت قارئین کے گوش گذار کر دی جاتی ہے تاکہ ذہن کشادگی پائے اور آگے آنیوالا علمی و عقلی ترجمہ بآسانی سندِ ِ قبولیت حاصل کر لے:-؎
ماء۔۔۔الماء
"""" مادہ م و ہ ۔ pl. میاہ؛ ma ماء , water; liquid, fluid; juice کالماء الجاری: fluently, smoothly, like clockwork; ماء الشباب: freshness of youth, prime of youth; ماء عذب: fresh water, potable water, ماء الوجہ: alwajh: honor, decency, modesty, self-respect; اراق ماء وجحہ:: to sacrifice one’s honor, abase; to dishonor, disgrace ۔ سیال شے، جوس، پانی، مائع؛ موہ الحق: حق پر باطل کا پردہ ڈالنا ۔ حقائق پر پردہ ڈالنا۔ تموّہ: ملمع ہو جانا ، خوش نما بن جانا۔ ماء الوجہ: چہرہ کی رونق، آب و تاب۔عزت، وقار، شائستگی، ماءُ الشباب: جوانی کی بہار، تروتازگی، رونق؛ (قاموس الوحید وغیرہ)۔۔۔۔۔۔ نیز وحیِ الٰہی کو یا احکاماتِ الٰہیہ کو بھی استعاراتی انداز میں بھی "ماء یا الماء" کہا گیا ہے جیسے کہ آیت 8/11 میں جہاں یہی "آسمان سے نازل ہونے والا ماء" کردار کی پاکیزگی، شیطان کے خوف سے نجات، دلوں میں ربط اور ثابت قدمی پیدا کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: "وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾ پَس یاد رہے کہ ماء کا ایک مستند معنی بلندیوں سے اُترنے والی وحی یا احکاماتِ الٰہیہ بھی ہیں۔ نیز یہ کہ ہر جگہ لفظی یا استعاراتی یا محاوراتی معنی سیاق و سباق کی مطابقت اور معانی کی موزونیت کی رُو سے استعمال ہوتا ہے۔ """"
کیونکہ اِس کہانی کا جھوٹ تمام جدید متعلقہ علوم سے ثابت ہے، اس لیے آئیے اب قرآن کی نصوصِ صحیحہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ دیو مالائی کہانی بھی ملوکیت کے بانیوں کی بدنیتی اور سازشی سوچ کے بطن سے اُبھری ،اور قرآن کی تفاسیر اور تراجم میں اُس کی حقیقی تعبیرات کو مسخ کرنے کے مقصد کے تحت شامل کروائی گئی تھی ۔ قرآنی متن کی حقیقت تو ہمیشہ بہت گہری اور دُور رسَ ہوا کرتی ہے کیونکہ یہ اِس پوری کائنات کے خالق و مالک۔۔۔ یعنی ایک انتہائے شعور، یا، شعورِ مطلق کی مالک ذات۔۔۔ کا اعلیٰ ترین شعوری اقدار پر مبنی کلام ہے۔جس میں طفلانہ کہانیوں، توہم پرستیوں اور مبہم قیاس آرائیوں کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ حقیقت کیا تھی؟؟؟۔۔۔ وہ ایک علمی ، عقلی ، اور جدید ترین ، مستندشعوری ترجمے سے آپ کے سامنے آشکار کر دی جائیگی۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے حضرت نوح سے متعلقہ آیات سے صرف وہی جزئیات حوالہ زد کی گئی ہیں جہاں معانی میں کرپشن کر تے ہوئےواقعات کو دیومالائی رنگ دے دیا گیا ہے ۔
آیات 7/59 سے لے کر 7/64 تک :-
ان تمام آیات میں حضرت نوح کے مشن کا ذکر ہے ۔ لیکن ہمارے زیرِ نظر صرف آیت 7/ 64 ہے جو ہمارے زیرِ نظر موضوع سے متعلق ہے :-
فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ ﴿٦٤﴾
"پس انہوں نے نوح کے پیغام کو جھٹلا دیا۔ اس لیے ہم نے اُسے اور جو اس کی قائم کردہ جماعت یامعاشرے میں (فِي الْفُلْكِ) اس کے ہمراہی تھے، انہیں بچا لیا /کامیاب کر دیا۔ اور جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا انہیں ذلت کی پستیوں میں غرق کر دیا(وَأَغْرَقْنَا)۔ بیشک وہ عقل کی اندھی قوم تھی "۔
(یاد رہے کہ "فُلک" اور "سفینہ" ایک متحرک ، گامزن، زندگی سے بھرپور – Vibrant-- اور ایک مرکز کے گرد حرکت کرتا ہوا۔۔۔ revolving around a center۔۔۔۔ آبادی یا معاشرے کا استعارہ ہے ۔حضرت یونس کے ضمن میں بھی فُلک اور فلک المشحون کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ ان کا عامیانہ معنی جہاز یا کشتی ہے اور ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں کو صرف عامیانہ اور بازاری زبان سے ہی غرض ہوتی ہے)
آیات 11/25 سے لے کر 11/48 :-
ان تمام آیات میں بھی حضرت نوح کی مشن کی تفصیلات مندرج ہیں۔ لیکن ہمارے زیر نظر کشتی اور طوفان کا معاملہ ہے ۔ اس لیے ہم آیات 11/36 سے اپنا تحقیقی ترجمہ شروع کرتے ہیں۔
وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿٣٨﴾ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٣٩﴾
""اور نوح کو وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔ اس لیے تم ان کے طرزِ عمل پر مایوس نہ ہو۔ بلکہ ہماری ہدایات کے مطابق(وَوَحْيِنَا) ہمارے مقاصد کی تکمیل کا ساتھ دینے والا(بِأَعْيُنِنَا) ایک خاص معاشرہ /جماعت تشکیل دو (وَاصْنَعِ الْفُلْكَ) اور حق کا ساتھ نہ دینے والوں کے بارے میں اب ہم سے کوئی بات نہ کرو۔ وہ لازمی طور پر پستیوں میں غرق ہو جائیں گے (مُّغْرَقُونَ)۔ اور وہ خاص معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہو گئے، اور اس دوران ان کی قوم کے بڑوں میں سے جس نے بھی اُن کی کوششوں کو دیکھا، اس نے اُن کا تمسخر اُڑایا ۔ اس پر حضرت نوح کہتے تھے کہ اگر تم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہو تو جواب میں ہم بھی اُسی طرح تمہارا تمسخر اُڑائیں گے جس طرح آج تم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہو۔ اور تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و خوار کر دے، ،،،ایسا عذاب جو اُس پر ہمیشہ قائم رہنے والا ہو۔ "
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠﴾ وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٤١﴾ وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ
" یہ سلسلہ جاری رہا، یہانتک کہ ہمارا حکم صادر ہو گیا (جَاءَ أَمْرُنَا) اور بھٹی اُبلنی شروع ہو گئی (وَفَارَ التَّنُّورُ) ۔ یعنی فیصلے کا وقت آ گیا ۔ ہم نے ہدایت دی کہ اس منفرد کمیونٹی میں اپنے تمام قابلِ تعریف ساتھیوں (كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ) کو شامل کرو، اور اپنی قوم کے اُن لوگوں کو چھوڑ کر جن پر تباہی کا حکم آ چکا ہے ، باقی سب کو بھی شامل کرو جو ایمان لا چکے ہیں۔ اگرچہ کہ اُس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ قلیل تعداد میں تھے۔ پس اُس نے سب سے کہا کہ اللہ کی اُن صفات کو ساتھ لیتے ہوئے(بِسْمِ اللَّـهِ) اِس معاشرے/جماعت میں داخل ہو جاؤ(ارْكَبُوا فِيهَا) جن کی اساس پر یہ چل رہا ہے اور مضبوطی سے قائم ہے(مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا )۔بیشک میرا رب تحفظ دینے اور سامان پرورش عطا کرنے والا ہے۔ پس وہ معاشرہ/جماعت اُن لوگوں کے ساتھ ایسے ہنگامہ خیز تصادم کی کیفیت میں (فِي مَوْجٍ )چلتی رہی (تَجْرِي)جیسے پہاڑوں کا سامنا کیا جاتا ہے(كَالْجِبَالِ)۔"
وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾ قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ ﴿٤٣﴾ وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٤٤﴾
" دریں اثنا، نوح نے اپنےاُس بیٹے کو پکارا جو اُن سے علیحدگی کی کیفیت میں تھا (فِي مَعْزِلٍ) اور کہا اے میرے بیٹے ہماری جماعت کے ساتھ آ جاؤ اور انکار کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔ اُس نے کہا میں کسی بڑے طاقتور کی(جَبَلٍ) پناہ میں چلا جاؤں گا (سَآوِي) جو مجھے احکاماتِ الٰہیہ کی حدود یا زَد میں آنے سے (من الماء) بچا لے گا(يَعْصِمُنِي)۔ نوح نے کہا کہ اب اللہ کی منشاء سے کوئی بچانے والا نہیں ہے سوائے اُس کے جس پر اللہ خود ہی رحم فرمائے۔ پھر وہ پریشان کُن تصادم کی صورت حال(الْمَوْجُ) اُن کے درمیان رکاوٹ بن گئی (حَالَ بَيْنَهُمَا)، جس کے نتیجے میں وہ بھی پستی میں غرق ہو جانے والوں میں شامل ہو گیا۔ پھر حکم دیا گیا کہ اے زمین تو اپنی تروتازگی اور رونقیں (مَاءَكِ)ختم کر دے (ابْلَعِي) اور اے آسمان تو اپنی نعمتیں چھین لے (أَقْلِعِي) اور اس طرح وہاں بہاروں اور رونقوں کا قحط پڑ گیا (وَغِيضَ الْمَاءُ)۔ اور حکمِ الٰہی صادر کر دیا گیا۔ نوح کی جماعت/معاشرہ ایک شاندار سطح پر (عَلَى الْجُودِيِّ) مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گیا (وَاسْتَوَتْ)۔ اور ظلم و زیادتیاں کرنے والی قوم پر ایک محروم کرنے والا فیصلہ نافذ کر دیا گیا (وَقِيلَ بُعْدًا)۔ "
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ(48)
"پھر نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کے اے رب میرا بیٹا تو میری قوم میں سے تھا، اور تیرا وعدہ تو سچا ئی پر مبنی ہوتا ہے، اور تو سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اے نوح ، درحقیقت تیرا بیٹا تیری قوم میں سے نہیں تھا۔ بیشک ا ُس کی روش غیر صالح تھی۔ پس تو مجھ سے وہ سوال نہ کر جس کے بارے میں تُو علم نہیں رکھتا۔ میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ تو لا علموں میں خود کو شامل نہ کر۔نوح نہ کہا کہ اے میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں تاکہ تجھ سے ایسا سوال نہ کروں جس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔اور اگر تُو مجھے تحفظ نہ دے گا اور مجھ پر رحم نہ کرے گا تو میں خسارے میں رہوں گا۔ کہا کہ اے نوح ہمارے جانب سے سلامتی کے ساتھ آگے بڑھ (اهْبِطْ) اور ہماری برکات ہیں تیرے لیے اور جو اُس قوم میں سے تیرے ساتھ ہیں اُن کے لیے ۔ اور اُس قوم کو بھی ہم سامانِ زندگی دیں گے (سَنُمَتِّعُهُمْ) لیکن بعد ازاں وہ ہماری جانب سے اپنی کرتوت کے نتیجے میں درد ناک سزا بھی جھیلے گی (يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ)۔"
"""" نوٹ فرمائیے کہ یہاں آیت 11/48 سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نوح کی نافرمان قوم کسی پانی کے طوفان میں ڈوب کر ناپید نہیں ہو گئی تھی ۔ بلکہ زندہ تھی لیکن پستیوں اور ذلتوں کا عذاب جھیلنے کے لیے بھٹّی تیار ہو چکی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اِسی معاشی و معاشرتی زوال کی شکل میں آیا کرتا ہے ۔ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی صورت میں نہیں۔""""
آیات 23/23 سے لے کر 23/31 :-
یہ تمام آیات بھی حضرت نوح سے متعلق ہیں۔ لیکن ہمارا موضوعِ بحث آیت 27 سے اپنا آغاز کرتا ہے ۔
فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ ﴿٣٠﴾
"پس ہم نے اس کی جانب وحی کے ذریعے ہدایت بھیجی کہ وہ ہمارے منشور کے مطابق اور ہماری ہدایت کے ساتھ ایک مخصوص جماعت/معاشرے کی تشکیل کرے (اصْنَعِ الْفُلْكَ)۔ پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا یعنی بھٹی اُبلنے لگی (وَفَارَ التَّنُّورُ)، تو ہم نے کہا کہ تمام قابلِ تعریف ساتھیوں کو اُس معاشرے میں باہم منسلک کر دے (فَاسْلُكْ)، اور اپنی قوم سے بھی اُن کے سوا باقی سب کو جن کے خلاف فیصلہ صادر ہو چکا (سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ)۔ اور یہ کہ جنہوں نے ناانصافیوں کا ارتکاب کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے کوئی التجا یا خواہش نہ کر (وَلَا تُخَاطِبْنِي)۔ اور پھر جب تم اور تمہارے ساتھی اُس مخصوص معاشرے میں مضبوطی سے قائم ہو جائیں (اسْتَوَيْتَ)، تو انہیں بتاؤکہ وہ اللہ تمام حمد و ثنا کے لائق ہے جس نےہمیں ظالموں کی قوم سے بچا لیا۔ اور کہو کہ اے پروردگار ہم پر برکات کا نزول فرما کہ تُو سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے۔ بیشک اس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں کیونکہ ہم انسان کو ضرور ابتلاؤں سے گذارا کرتے ہیں (لَمُبْتَلِينَ)"۔
آیات 26/105 سے لے کر 26/121 :-
یہ سب آیات بھی حضرت نوح کے مشن سے ہی متعلق ہیں۔ البتہ ہمارا موضوع آیت 116 سے شروع ہوتا ہے۔
قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ ﴿١١٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ ﴿١١٧﴾ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿١١٩﴾ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ ﴿١٢٠﴾ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٢١﴾
"وہ کہنے لگے کہ اے نوح اگر تم اپنے مشن کا خاتمہ نہیں کرتے تو تمہیں رجم کر دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا اے رب میری قوم تکذیب کرنے والوں کی قوم ہے۔ پس اب تُو میرے اور ان کے درمیان ہماری فتح کے دروازے کھول دے اور مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لے/کامیاب کر دے۔ پس ہم نے اسے اور ساتھیوں کو ایک بھرپور آباد معاشرے کی شکل میں (فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ) کامیاب کر دیا۔ پھر اس کے بعد ہم نے باقی بچنے والوں کو پستیوں اور ذلتوں میں غرق کر دیا۔ بے شک اس واقعے میں بڑی نشانی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثریت امن و سلامتی پھیلانے والوں میں سے نہیں تھی"۔
آیات 29/14-15 :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ﴿١٤﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٥﴾
یہ آیت دوستوں کے توجہ دلانے پر شاملِ تحقیق کی گئی ہے تاکہ حضرت نوح کی عمر کے تعین کا مسئلہ بھی حل کر دیا جائے۔ کیونکہ سائنسی اور طبیعیاتی حقائق کے مطابق تین ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ انسانوں کی عمر ہرگز ہزاروں سال پر محیط نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے اس ضمن میں متعلقہ الفاظ کے متبادل لیکن مستند معانی تلاش کرنے کی جدو جہد کی گئی ہے تاکہ ایک قرین عقل اور قابلِ قبول حقیقت سامنے آ سکے۔ اور قدیمی دیومالائی تفاسیر و تراجم کا بطلان کیا جا سکے ۔ تو آئیے آیاتِ مذکورہ کا جدید ترین تحقیقی ترجمہ دیکھ لیتے ہیں :-
"اور ہم نےنوح کو اُس کی قوم میں رسول متعین کر دیا تھا ۔ پَس وہ کسی جھوٹ یا دھوکے بازی کا راستہ اختیار کیے بغیر(إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا)ایک معلوم و متعین سالوں کے دورانیے تک (أَلْفَ سَنَةٍ) اُن کے درمیان مقیم رہا (فَلَبِثَ فِيهِمْ) ۔ پھر ایک گھیرلینے والی اور شدید زوال کی کیفیت (الطُّوفَانُ)نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا (فَأَخَذَهُمُ)کیونکہ وہ انسانوں کی حق تلفیوں کے جرم کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر ہم نے حضرت نوح اور اُن کی ہم سفر جماعت (وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ) کو بچا لیا اور اُس جماعت/کمیونٹی کو اقوام کے لیے ایک سبق آموز نشانی بنا دیا۔"
آیت 29/14 میں استعمال کیے گئے مخصوص الفاظ کے مستند معانی جو اس ترجمے کے لیے استعمال کیے گئے، ڈبل چیک کے لیے ذیل میں ساتھ ہی دیے جا رہے ہیں:-
الف : A certain rounded number that is well known.؛ ایک مخصوص عددی تعداد جو معلوم و متعین ہو ۔ ایک ہزار، مانوس ہونا، عادی ہونا، سوشل ہونا، پسند/منظور کرنا/ دوستی، انسیت، وابستگی، وغیرہ،،،،،،(Lane’s Lexican)۔
خمس؛ خ م س : خمسین؛ پانچ گنا کر دینا؛ پانچ سے ضرب دینا؛ پانچ حصوں میں تقسیم کر نا۔ پلاٹ کرنا؛ سازش کرنا؛ ہوائی قلعے بنانا؛ دن میں خواب دیکھنا؛ جھوٹے دعوے کرنا۔ عقل کو ماؤف کرنا۔ اندازوں سے بھی بلند؛ مکر و فریب۔ ;to use deceit; to make a false pretense;(Hava, p.177; Qamoos al-Waheed, p.373; Hans to make a deceit, to make a false pretense; Hans Wehr;
عام : عاماّ: ع و م : تیرنا؛ وہ راستہ جو تیرتے ہوئے اختیار کیا جائے؛ کوئی راستہ/طریقہ/روش اختیار کرنا۔ ایک سال یا سال کا گذرنا۔ عام کو سنہ یعنی سال کے معنی میں بھی اس لیے لیتے ہیں کیونکہ سورج سال کے دوران اپنے لیے ایک مخصوص راستے کو اختیار کرتے ہوئے گذرتا ہے۔
طوف: طاف؛ طائف؛ مطاف؛ طواف؛ طوفان؛ to go about, walk about, ride about, travel about, move about, wander about, run around, circumambulate, to make rounds, circle, compass, to familiarize, acquaint//////////////طاف علیہ طائف : tragedy befell him ؛ کسی جانب جانا، چلنا، سواری کرنا، سفر کرنا، تلاش کرنا، ارد گرد بھاگنا، گرد گھومنا، گول چکر لگانا، احاطہ کرنا، واقفیت پیدا کرنا، طوفان: ایک گھیر لینے والی، شدت رکھنے والی آفت ۔۔ سیلاب یا پانی کے طوفان کے لیے ترکیب استعمال کرنی ہوگی: طوفان الماء: وہ پانی جو ہر چیز پر پھیل جائے، گھیر لے، احاطہ کر لے، غرق کر دے ۔ طوفان الظلام: رات کے اندھیرے کی شدت۔
اور اب پورے مضمون میں بریکٹوں میں دیے ہوئے مشکل الفاظ کے مستند معانی:
Fa-Lam-Kaf = become round, anything circular, persist/persevere, ship, Ark, the place of the revolving of the stars, the celestial sphere, vault of heaven, firmament, surrounding spheres, sky, revolvement, circling, circuit, going to and fro, in a state of commotion, whirl of a spindle, one who goes round. AND Pieces of Land, or of sand, having a circular form, and elevated above what is around them, with ruggedness and evenness;
[الْفُلْكِ] : زمین کا وسیع قطعہ یا میدان، زمین کے قطعے جو دائرے میں ہوں اور بلند سطح کے حامل ہوں؛ کشتی ، بحری جہاز۔
Gh-Ra-Qaf غ ر ق := sank, drowned, went downwards and disappeared, became without need, drew the bow to the full, outstripped, engrossed, a man overwhelmed by trials, single draught, ornamented, obligatory, suddenly/violently, to come near to any one.ڈوب گیا، زوال کا شکار ہو گیا، غائب ہو گیا، ضرورتوں سے بے نیاز ہوگیا، پیچھے رہ گیا، محویت کا عالم، مشکلات کا غالب آ جانا، قحط پڑ جانا، مرصع چیز، مجبوری، اجانک سے یا شدت سے کچھ ہو جانا، کسی کے نزدیک آ جانا ۔
Ra-Kaf-Ba : ر ک ب := to ride, embark, mount, be carried, go on board of a ship, voyage on (the sea), walk on (a road), commit (a fault). rakbun - caravan. rukban (pl. of rakib) - one who rides, mounted. rikab - camels. rakub - use of a beast for riding. mutarakibun - laying in heaps, ridden on one another, close growing, cluster over clustered, layer upon layer. tarkabunna - to pass on, rise, ascend. سوار ہو جانا، چڑھ جانا، لے جانا، جہاز پر چڑھنا، سمندر کا سفر، سڑک پر چلنا، غلطی کا ارتکاب کرنا، کاروان، اونٹ، جانور کا سواری کے لیے استعمال، تہہ در تہہ آگے گذار دینا، بلند ہو جانا۔
Fa-Waw-Ra ف ا ر ؛ ف و ر: = to boil, boil over, gush forth, run, do in haste, rush, come in a headlong manner, be raised, be in a fit of passion, be in a hurry, come instantly, come immediately, fall of a sudden, make a sudden rush. ابل کر باہر گر جانا، باہر پھوٹ پڑنا، دوڑنا، جلد بازی کرنا، سیدھے رُخ پر اندر داخل ہونا۔اوپر اُٹھایا جانا، جذبات کا شکار ہو جانا، فوری آ جانا، اچانک گر جانا، وغیرہ۔
= Ta-Nun-Ra (tannur) ت ن ر := Spring; ground; face of the earth. Highest part of the earth; place where the water of a valley collects; a circular earthen oven, furnace, fire-place. Shining of dawn. چشمہ، زمین، زمین کی سطح، زمین کا بلند ترین حصہ، وادی کا وہ حصہ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہو؛ ایک گول شکل کا تندور، بھٹی، انگیٹھی، آگ جلانے کی جگہ ۔
Ba-Lam-Ayn ب ل ع : ابلع: =swallow (without chewing), gulp, voracious or great eater
Grayness. Hole of perforation in the midst of a house, into which rainwater or just water descends۔ A well cased with stones or baked bricks.
Qaf-Lam-Ayn ق ل ع : اقلع = to remove, extract, abate, pluck, snatch of, drive away, dismiss, take off, swallow, cease, wrap, collect, refrain, withdraw, abandon, leave off. aqla'a (vb. 4) - to abate and stop, have no trace.
Gh-Ya-Dad غ ی ض : = became scanty or little in quantity, decreased, diminished, became deficient, fell short; sank into the earth, disappeared in the earth, went away into the earth or enters or collects, place where water sinks [applied to water]; an abortive fetus (not completely formed, less than seven months old)
Jiim-Waw-Dal ج و د : جودی: = To be good or goodly, approvable or excellent, to be egregious, to be liberal/bountiful/munificent/generous, affected or overcome with longing desire, to be feetful/swift (said of a horse). اچھائی پر ہونا، قابلِ تعریف ہونا، شاندار ہونا، کھلے دماغ والا، با افراط، سخی، خواہشات کا غلبہ ہو جانا، وغیرہ۔
Nun-Jiim-Waw ن ج و : = to be saved, delivered, rescued, escape, go free. najaa/najwan - to whisper (a secret), confide.
Shiin-Ha-Nun ش ح ن : = to fill/load/furnish. [الْمَشْحُونِ] : لوڈ کیا ہوا، چارج کیا ہوا، بھرا ہوا ۔ ایک بھری ہوئِ آبادی یا شہر، بھرا ہوا جہاز یا گھر، یا کمرہ، وغیرہ۔
ha-Ba-Tay ہ ب ط: ہبط:= to go forth, descend, cause to come down, descend from a high state to a low one, move from one place to another, enter into, change in condition, come forth from, become low, degraded. آگے بڑھنا، نیچے اُترنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا، داخل ہونا، حالت کا تبدیل ہونا۔ وغیرہ
Siin-Waw-Ya س و ی : استویٰ : = to be worth, equivalent to. sawwa - to level, complete, arrange, make uniform, even, congruous, consistent in parts, fashion in a suitable manner, make adapted to the exigencies or requirements, perfect a thing, put a thing into a right or good state. istawa - to establish, become firm or firmly settled, turn to a thing, to direct one's attention to a thing, mount. ala sawain - on terms of equality, i.e. in such a manner that each party should know that it is free of its obligations, at par. sawiyyun -even, right, sound in mind and body. sawiyyan - being in sound health.
sawwa (vb. 2) to proportion, fashion, perfect, level, equal, fill the space. sawa - midst. مضبوطی سے قائم، آباد ہو جانا، ایک سطح پر آ جانا، مکمل ہو جانا، باقاعدگی اختیار کر لینا، حالات کے مطابق تبدیل ہو جانا/کر لینا۔ کسی چیز کو درست حالت میں لے آنا۔
Miim-Waw-Jiim م و ج: موج: = To be in a state of commotion, to be agitated, tumultuous, conflict or dash, to be in a confused and disturbed state, perplexed or amazed, move backwards and forwards, move from side to side. افرا تفری، جوش و خروش، تصادم، اور الجھے ہوئے پریشان کُن حالات = Ba-Ayn-Dal ب ع د : بعد : = becoming distant, remote, far off, aloof or far away, removed, retired, withdrew to a distance, alienated, estranged, wide separation, great distance. Possessing judgment and prudence, penetrating, effective judgment, depth or far reaching judgment. Go or going a great length or far in hostility.