اورنگزیب یوسفزئی فروری 2016
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
Thematic Translation Series Installment No.29
کیا "ربا" اور "الربا" سُود کا ایک معتبر ہم معنی لفظ ہے، جیسا کہ تفاسیر اور تراجم میں ظاہر کیا گیا ہے،،،،
یا قرآن کے حقیقی معانی کی ایک اور کھلی تحریف؟؟؟
IS THE QURANIC TERM “RIBA” OR “AL-RIBA” AUTHENTICALLY SYNONYMOUS WITH INTEREST/USURY AS STIPULATED IN OUR TAFASEER AND TRANSLATIONS - - - OR IS THAT ANOTHER MANIFEST DISTORTION OF GENUINE QURANIC ASSERTIONS?
قرآن حکیم کے ابہام و التباس سے پُر قدیمی تراجم کی درستگی کے جاری مشن کی یہ ایک اور کوشش ہے۔ پیشِ نظرمقصد قرآنی احکامات کی ایک منزّہ اور قرینِ عقل منطقی (Rational and Logical) صورت دنیا کے سامنے لے آنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی بدعنوان اموی اور عباسی ڈکٹیٹروں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قرآن کی بوگس تفاسیر سرکاری طور پر تیار کرائی گئیں اور ان کے ذریعے قرآن کے متن کو منظّم انداز میں سوچی سمجھی شکل میں تبدیل کر کے اس کے مفاہیم کو ابہام اور فضولیات سے بھر دیا گیا۔ یہ عظیم سازش جلد ہی اسلامی فلسفے (Islamic Doctrine) کو انتہائی طاقتور اور تباہ کن اثرات کا نشانہ بنانے والی تھی۔ کیونکہ انہی وضع کردہ تفاسیر کے بطن سے دھوکے پر مبنی غیر معیاری تعبیرات و تراجم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جس نے اسلام کی ایک سراسرجھوٹی اور غیر منطقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔ اس طرح ایک قیامت برپا کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو نفرت، جنونیت پسندی، تشدد اور تمسخر کا استعارہ بنا دیا گیا۔ عظیم فلاسفر علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کا نوحہ پڑھتے ہوئے اپنی تحقیق کی اِن الفاظ میں عکاسی کی :-
جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآن نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہِ مومن کا دین
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
اقبال کے سنہری الفاظ میں اُس سرمایہ داری نظام کے واپس لوٹ آنے کی خبر بھی دے دی گئی جس کے خلاف "الربا" کے عنوان سے اللہ تعالیٰ کی تنبیہات ہمارے اس مضمون میں زیرِ بحث لائی گئی ہیں،،، اور پیرانِ حرم کی اصطلاح کے ذریعے عرب بادشاہت کی پوری نشاندہی بھی کر دی گئی جو اس قیامت کے برپا کرنےکے ذمہ دار تھے۔
کیونکہ آج بھی بے شمار ایسے تراجم ہمارے سامنے موجود ہیں جن کے مبہم انداز کی وجہ سے متکلم کے مافی الضمیر کا ہمیں کوئی ادراک نہیں ہو پاتا، فلھٰذا ِس تحریر کے ذریعے اِن صفحات پر یہ تحقیق شدہ دریافت ایک کھلے اعلان کے ذریعے پیش کی جا رہی ہے کہ ۔ ۔ ۔۔"سُود"۔ ۔ ۔ ایک علیحدہ سے زیرِ بحث لایا گیا قرآنی موضوع ہی نہیں ہے!!!۔بلکہ قدیمی فنکاروں نے یہاں بھی اپنی ہنرمندی سے کام لیتے ہوئے ایک وسیع المعانی قرآنی لفظ "ربا" کو ایک محدود معنی دے کر اس کی وسعت کو صرف سُود کے ایک چھوٹے سے شعبے کے ساتھ جوڑ دینے کی فنکاری دکھائی ہے۔ جبکہ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ "سُود" سے متعلق مانی جانے والی آیات میں ہمارا مالک و خالق دراصل ہمیں دولت کے بڑے ارتکاز اور اس سے پیدا ہونے والے سرمایہ داری نظام کے عظیم فساد سے محفوظ رکھنے کے لیے احکامات عطا فرما تا ہے،،،،اور وہاں کہیں بھی سُود کا ذکر ہی نہیں کرتا۔
مختصرا"،،،،،،، ، ، قرآنِ حکیم میں "ربا" ۔۔۔۔۔اپنے مکمل سیاق و سباق میں، سرمایے یا اموال میں حاصل ہونے والا عمومی یا تجارتی منافع، بڑھوتری، یا اضافے کو کہا گیا ہے ۔ ۔۔۔۔۔یہی اس کے مادے کا بنیادی معنی ہے ۔۔۔ نیز جہاں یہی لفظ معرف باللام کے ساتھ "الربا" کی شکل میں آتا ہے وہاں اس کی تعریف "وہ خاص ممنوعہ شرحِ منافع، بڑھوتری، یا اضافہ ہے جس سے سرمایے میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے، وہ دوگنا چوگنا ہو جائے"۔ اوریہی امر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اس فرمان کے ذریعہ حتمی طور پر واضح بھی کر دیا ہے :- "لا تاکلوا "الربا" اضعافا مضاعفۃ" (3/130)۔ وہ ناجائز منافع مت لو جس سے سرمایے میں دوگنا، چوگنا اضافہ ہوتا ہو،،،،،،،، یعنی جو کہ دولت کے ارتکاز کا موجب بن جائے۔۔۔۔۔۔ پس، خود اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے مطابق، الربا کی تعریف میں "سُود" نہیں آتا ۔ یہاں بھی ملوکیتی تفاسیر کے زیرِ اثر قرآن کے معانی میں کھلی تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔۔۔ جب کہ،،،،،،یہ قرآنی موضوع نہ قرض سے ڈیل کرتا ہے اور نہ سُود سے، جیسا کہ آپ متعلقہ آیات کے مستند عقلی اور منطقی تراجم کے ذریعے دیکھ ہی لیں گے!
"قرآنی سود" کے اہم موضوع پر ایک جدید ترین، خالص عقلی اور علمی تحقیق اصحابِ علم کی خدمت میں پیش ہے۔ کیونکہ یہ عاجز اپنے موضوعاتی تراجم کے ذریعے ایک قطعی نیا اور ازحد ترقی یافتہ قرآنی دور متعارف کرانے کے لیے ایک مشنری جدوجہد میں برسرِکار ہے، اس لیے اس موضوع پر بھی آپ ایک انقلابی پیش رفت اپنے سامنے پائیں گے،،،،، جو قرآن کو اس کے خالص اور پاک معانی میں پیش کرتی ہوئی عقل و دانش اور الہامی حکمت کے کئی نئے دریچے آپ کے سامنے کھول دے گی ۔ معانی کی وہ گہرائی اور وسعت جو آپ کو چونکا دے گی اور مجبور کرے گی کہ آپ خود بھی ایک تحقیقی عمل سے گذریں اور اِس ترجمے کو تفتیش و تدقیق کے مراحل سے گذاریں اور اس کی حقانیت کے بارے میں جہاں کہیں بھی سقم پایا جائے، سوالات کریں۔ مقصد ایک باہمی اتفاق رائے کے ذریعے اللہ رب العزت کے فرمان کی ایک نہایت مستند اور معتبر شکل دنیا کے سامنے لانا ہے ، جو ایک داغدار ماضی کی تمام آلائشوں سے پاک ہو،،، اور صدقِ بسیط کی روشنی سے اس دانشمند دنیا کی آنکھیں منو ر کر دے۔ آخری الہامی صحیفے قرآن کی لازوال حکمت ایک جگمگاتےسورج کی مانند ظاہر ہو اور دنیا کو اپنی تسلیم و اطاعت پر مجبور کر دے۔
آئیے متعلقہ آیات کے تحقیقی معانی سے قبل ہم ۔ربا ۔ کے مادے کا مستند معانی ملاحظہ کر لیتے ہیں جو یہ ثابت کر دیتا ہے کہ یہاں سے "سُود " مشتق کیا ہی نہیں جا سکتا :-
1) پہلے مادے کو دیکھ لیں : ر ب و ؛ ربوٰ : وہ بڑھ گیا/اس میں اضافہ کر دیا گیا ؛ زیادتی، بڑھوتری؛ ایک اضافہ جو حق سےزیادہ وصول کیا گیا؛ جو بڑھ کر لمبا ہو گیا/نشوونما پا کر بڑھ گیا/ بڑا / پھولا ہوا / سطح میں بڑھا ہوا،،، بلندی پر چڑھنا،،، پھیلنا/پھولنا، سانس کا پھول جانا،،، ہانپنا۔ : ربیۃ Rabiyatun : ہمیشہ بڑھنے والا، سخت /سنجیدہ کیفیت والا؛،،،، اربا : زیادہ کثرت والا؛ زیادہ بڑھا ہوا ۔
2) پھر اس کے مصدر کو دیکھ لیں : اس کا مصدر (infinitive) ،،، "تربیت"،،، ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تربیت کے معانی میں پڑھانا، لکھانا، سکھانا، کھلانا، نشوونما دینا، عقل و خرد میں بڑھانا/اضافہ کرنا، پرورش کرنا وغیرہ تو آتا ہے،،،، رَبِیّتہ: Rabiyyata-hu: میں نے اسے پالا، پرورش کی، بڑا کیا،،،،جیسے کہ ایک بچے کو؛ ،،،، میں نے کھلایا، نشوونما دی ؛ یا کسی بھی چیز کو جو بڑھتی پھیلتی ہو، یا جس میں اضافہ ہوتا ہو، جیسے کہ انسانی بچہ : ربّیتُ : Rabbayitu: میں نے پالا، بیج بویا، پودے یا درخت۔ اور ربَی : زمین کے متعلق کہا جاتا ہے، معنی وہی ہے کہ اس نے پودے اور جڑی بوٹیاں پروان چڑھائیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈال کر سوچیے کہ یہاں ،،، سُود لینا یا سُود دینا،،، کہاں سے آ سکتا ہے؟؟؟
3) انگلش لفظ INTEREST (سُود) کے اصل عربی مرادف کی بھی تلاش کی گئی۔ یہ بھی دیکھ لیں :
کیمبرج انگلش-عربک ڈکشنری : “ = Interest (noun)فائدہ"
; the extra money that you must pay to a bank if you borrow money, or that you receive from the bank if you keep your money there: - فائدة . ۔۔۔۔ ذرا دیکھیں کیا یہاں کہیں بھی ربا کا ذکر ہے؟؟؟
4) بہت سی مستند عربی لغات میں بھی دیکھیں:
بشمول المنجد اور لسان العرب۔ آپ وہاں Interest یعنی "سود" کا عربی مرادف لفظ ،،،"فائدہ"،،، پائیں گے۔
5) ربا کے فعل کے صیغے کا استعمال بھی دیکھیں :
قرآن میں اس صیغے میں الفاظ یربو اور یربی آئے ہیں۔ اور یہ جہاں بھی استعمال کیے گئے ہیں، "سود" کے معنی میں استعمال نہیں کیے گئے۔۔۔۔ نہ ہی کیے جا سکتے تھے۔۔۔۔ذیل میں آنے والے تراجم میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں ملاحظہ فرمائیں۔
یعنی اس کا معنی کہیں سے بھی "سود" نہیں لیا جا سکتا ،،،،،البتہ اسے سود لینے کا عمل ایک ذیلی معنی کے طور پر ، اور وہ بھی صرف ہماری تفاسیر میں کی گئی جعلسازی کے سبب، ناجائز طور پر بروئے کار لے آیا جاتا ہے ۔ کیونکہ،،، جیسا آپ نے ملاحظہ فرما لیا، ،،، سُود اس کے مادے سے قطعا" مشتق نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس لفظ کا فعل کے صیغے میں تمام تر استعمال کسی نہ کسی جہت سے تو "سود" کا معنی ضرور دیتا!!!!!۔۔۔۔لیکن ابھی تمام متعلقہ تراجم میں آپ دیکھیں گے کہ ایسا کسی بھی متعلقہ سیاق و سباق میں وقوع پذیر نہیں ہوتا ۔
مثال کے طور پر دیکھیں کہ درجِ ذیل ایک ہی آیتِ مبارکہ کا مستند عقلی ترجمہ " ربا" کا مطلب سُود لینے کے تصور کو جڑ بنیاد ہی سے ختم کر دیتا ہے :
٭ آیت : 30/39 : وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
لیکن اس آیت کا عقلی ترجمہ دیکھنے سے قبل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ تجزیہ کریں کہ اس مخصوص آیت کے معنی کے ساتھ ماضی کے تراجم میں کیا لایعنی کھلواڑ کی گئی ہے۔ اس لیے آئیے ہم اس سابقہ ریکارڈپر عمومی آگاہی حاصل کرنے کے لیے ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
قدیمی تراجم: (آیت 30/39)
1) مشہور لغت کے سکالر امام راغب تو بالکل ہی مبہم ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :- ،،،،،،،، " اور تم جو چیز (عطیہ) زیادہ لینے کے لیے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی۔"
2) علامہ اسد : "اور (یاد رکھو) جو کچھ تم "سود" میں دے دیتے ہو تاکہ یہ (دوسرے) لوگوں کے اموال کے ذریعے بڑھ جائے، یہ (تمہیں) کوئی بڑھوتی اللہ کی نگاہ میں نہ دے گا؛ جب کہ وہ سب جو تم خیرات میں دے دیتے ہو، اللہ کی رضا جوئی کے لیے، (وہ تمہاری بخشش کر دے گا)؛ کیونکہ یہ وہی ہیں (جو اس کی رضا چاہتے ہیں) جن کا اجر کئی گنا بڑھ جائیگا"۔
3) قرآن کے نہایت قابلِ احترام جدید سکالر ، علامہ پرویز لغات القرآن میں آیت 30/ 39 کا ایک قدرے ترقی یافتہ ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :-
"جو کچھ تم لوگوں کو ان کے واجبات سے زیادہ دو اور اس سے غرض یہ ہو کہ اس میں بڑھوتی ہو تو نظامِ خداوندی میں اس میں بڑھوتی نہیں ہو سکتی۔ اس کی تفسیر (74/6) میں یہ کہ کرکر دی کہ "لا تمنن تستکثر" کسی پر اس مقصد کے لیے احسان نہ کر کہ تجھے اُس سے زیادہ واپس ملے۔ "
تبصرہ :-
ملاحظہ فرمائیے کہ ،،،،،نمبر 1) میں "ربا" کو،،،،،"عطیہ زیادہ وصول کرنے کے لیے دینا" کہا گیا۔۔۔۔۔۔نمبر 2) میں "ربا" کا ترجمہ "سود" (Usury) کیا گیا،،،،،اور نمبر 3) میں ،،،،،"واجبات سے زیادہ" ،،،، کہا گیا۔ ۔۔۔ ۔ ۔اور یہ ربط اور یکسانیت کا فقدان واضح انداز میں ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی درج بالا مترجم ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتا، اور نہ ہی اس لفظ کا کوئی متفقہ اور باوثوق ترجمہ سامنے لا سکا ہے۔ اگر واقعی "ربا" کا معنی "سود" ہی تھا تو کیوں یہ وسیع طور پر قبول کیا جانے والا معنی دو مشہور و معروف سکالرز آیت کے متعلقہ سیاق و سباق میں فٹ نہیں کر سکے؟؟؟ ۔۔ دونوں جگہ "ربا" کو ،،،سُود ،،، نہیں کہا جا سکا۔۔ ۔ ۔ ۔اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ مضمون آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ہمیں تو اس سوال کا جواب کسی سکالر کے ہاں نظر نہیں آتا!
البتہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کر ہی لیا، آیت کا معنی ان تینوں ہی تراجم میں قرین عقل نہیں پایا گیا ، کیونکہ اس آیت کا پیغام اور دیا جانے والا تصور سب کے ہاں جدا جدا اور بالکل ہی وضاحت اور فہم سے خالی پایا گیا،،اور اس طرح سَر کے اوپر سے ہی گذر گیا!!!۔۔۔ پڑھنے والے کو یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ،،،،،،، آخر۔۔یہاں خطاب کس سے ہے؟۔۔۔کن لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے؟۔۔۔۔"عطیات" سے امام راغب کی کیا مراد ہے؟؟؟ ۔۔۔۔کون سُود کس کو دے رہا ہے؟؟؟ (علامہ اسد)۔۔۔۔۔۔ کِن لوگوں کے۔۔ کون سے۔۔" واجبات " کا ذکر کیا جا رہا ہے؟،،،،،آخر" واجبات سے زیادہ" سے کیا مراد ہے؟،،،،، اور،،،،،"نظامِ خداوندی میں بڑھوتی" سے کیا مراد ہے؟ (علامہ پرویز) ۔
دوسرے یہ کہ۔۔۔ "اور تم جو چیز (عطیہ) زیادہ لینے کے لیے دو تاکہ۔؟؟؟۔۔" (امام راغب)،،،،یہ سراسر ایک مبہم فقرہ ہے، جس کے سر پیر کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ یعنی کون سی چیز؟،،، کتنی؟،،، کس کو دو؟،،دینے والا کون ہے؟ ،،،،،اور کیا زیادہ لینے کے لیے دو؟؟؟۔۔۔۔ کچھ بھی واضح نہیں ہے!البتہ یہاں ایک بات بالکل واضح ہے کہ ربا ۔۔اور۔۔اضعاف۔۔ہم معنی الفاظ ہیں۔ دونوں کا معنی بڑھوتری، افزائش، وغیرہ ہے۔
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔۔(3)
اور اب جدید ترین عقلی اور منطقی ترجمہ: (جہاں سے آپ کو مکمل آگاہی حاصل ہوگی کہ خطاب کس سے ہے، اموال الناس کیا ہے، کون سی افزائش زیرِ بحث لائی گئی ہے اور قرآن کا نہایت واضح اور روشن بیان کیا پیغام دے رہا ہے)۔
"اور جو کچھ بھی اضافی رقوم (ربا) تم اس مقصد کے لیے لگا دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے اموال، یعنی سرکاری خزانے(أَمْوَالِ النَّاسِ ۔ public exchequer) میں اضافے/بڑھوتری کا باعث بنیں (لِّيَرْبُوَ )، تو جان لو کہ اللہ کے نزدیک وہ بالکل اضافہ/ بڑھوتری نہیں پاتا (فَلَا يَرْبُو )۔ لیکن جو کچھ بھی رقوم کی مدیں تم اُس "اموال الناس" میں سے اللہ کے احکام کی بجا آوری کے لیے (تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ) سامانِ پرورش و نشوو نما کی مد میں (مِّن زَكَاةٍ) عام کر دیتے ہو، تو بس وہی سب کچھ ہے جو خزانوں میں اضافے اور بڑھوتری کا ماخذ و منبع و ذریعہ ہے (الْمُضْعِفُونَ )۔ "
جیسا کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں، یہاں انتہائی وضاحت سے اور راست انداز میں اہلِ حکومت و اتھارٹی کو سرزنش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بجائے اضافی آمدنیاں خزانے میں اضافہ کی جانب لگا دینے کے، یہی رقوم انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کر دی جائیں تو اللہ کے نزدیک تب ہی خزانے میں افزائش ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہاں ایک بہت ہی خاص امر نوٹ فرمائیں کہ اصطلاح "اموال الناس" کا ترجمہ کسی بھی مترجم نے آج تک درست نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ آیت ہمیشہ سمجھ سے بالا، اور وضاحت اور تفہیم کی محتاج رہی ہے ۔ بات بالکل سیدھی ہے ۔ کیونکہ:-
- زکاۃ کا بھی یہاں ساتھ ہی حکم دیا جا رہا ہے،،،جو صرف حکومتِ وقت ہی کا فریضہ بنتا ہے، اس لیے یہاں خطاب ہی حکومتِ وقت سے ہے ،
- اور اموال الناس یہاں سرکاری خزانہ ہی ہو سکتا ہے، کچھ بھی اور نہیں ، کیونکہ ہر مہربان اور خیر خواہ حکومت میں سرکاری خزانہ ہی عوامی خزانہ ، یعنی "اموال الناس" ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
اور یہی معنی اس آیت کا قرین عقل ترجمہ کر سکتا ہے۔ کوئی بھی اور معنی لینا آپ کو عقلی اور با معنی ترجمے سے بہت دُور لے جاتا ہے، جیسا کہ آپ تراجم کے تمام قدیمی انبار کھنگال کر دیکھ سکتے ہیں!!!۔اور یہی حقیقت درجِ بالا تین پیش کردہ تراجم آپ کے سامنے لاتے ہیں،،،، جہاں آیت کا مافی الضمیر قطعی طور پر واضح نہیں ہو پاتا۔
اب دیکھ لیں کہ لفظ "ربا" اور لفظ "یربو" کہیں سے بھی سود کا معنی نہیں دیتے !!! غالبا" اس ضمن میں ا ب کسی بھی مزید سند کی ضرورت درپیش نہیں ہے. لیکن آئیے، اتمامِ حجت کے لیے اس کے بعداب "سود" سے متعلق سمجھی جانے والی تمام آیات کا قدیمی ترجمہ،،،اور اس کے ساتھ ساتھ،،،، جدید ترین عقلی ترجمہ،،،، دونوں چیک کر لیتے ہیں تاکہ موازنے سے یہ امر حتمی طور پر ثابت ہو جائے کہ "ربا"۔۔ یا ۔۔ "الربا" کا ترجمہ "سُود" کی حیثیت سے لینا کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ قرآن کو مسخ کر نے کی ملوکیتی سازش کا ہی ایک حصہ ہے ۔
تمام متعلقہ آیات : قدیمی تراجم:
٭ آیت: 2/276: یمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ
قدیمی ترجمہ:
اس ضمن میں امام راغب لکھتے ہیں : ( یمحق اللہ الربا و یربی الصدقات 2/276) ۔۔۔" اللہ سود کو بے برکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔"ََ؟؟؟؟۔۔۔۔۔
تبصرہ :- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امام راغب آیت 30/39 میں "ربا" کو "زیادہ عطیہ" کہ رہے ہیں تو یہاں کیسے اسے ہی "سُود" کہ سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔نیز جب آپ ،،یہاں ربا کو "سود" کہ رہے ہیں،،، تو اُسی کے فعل"یربی" سے مراد آپ ،،،وہ بڑھاتا ہے ،،،، کیسے لے سکتے ہیں ؟ ۔۔۔جب کہ آپ کے ہی استعمال کیے گئے ربا کے معنی کے مطابق اسےفعل واحد، غائب، مضارع کے صیغے کے مطابق "وہ سُود لیتا ہے" کہنا چاہیئے !!! ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوستو، دیکھ لیا آپ نے ؟؟؟۔ ایک جگہ تو "ربا" اُسی ایک فقرے میں سُود ہے اور چند ہی الفاظ کے بعد "بڑھوتری" ہے۔۔۔۔۔۔۔اسے کہتے ہیں ڈبل سٹینڈرڈ ۔ ۔ ۔ وہ بھی ایک ہی چھوٹے سے فقرے میں ؟؟۔ ۔ ۔ ۔ امام راغب کے موقف کے مطابق تو یہاں ترجمہ ، عقل پر "قل ہو اللہ" پڑھتے ہوئے، ،،، کچھ اس طرح ہونا چاہیئے تھا:- -- "اللہ سود کو بے برکت کرتا ہے اور خیرات پر سُود لیتا ہے"؟؟؟۔ ۔ ۔ تو ثابت ہوا کہ جہاں آپ کے خود اختیار کردہ غلط معنی سے ایک "پاگل خانہ" کھلتا نظر آئے، وہاں آپ اُسی معنی کو فورا" ہی بغیر کسی خلش کے یکسر تبدیل بھی کر لیتے ہیں ؟- - - واہ جناب، واہ !!!
بہر حال ، اب دیکھیے اس فقرے کا قرینِ عقل ترجمہ کچھ یوں سامنے آتا ہے :-
"اللہ تعالیٰ اموال میں ناجائزاور بے تحاشا اضافوں(الربا) کو ختم کرنے(یمحق) کا حکم دیتا ہے اور اس کے برعکس محصولات کی آمدنی (الصدقات) میں اضافہ کرنے (یربی) کی تدبیر کرتا ہے"۔۔۔۔۔۔ ۔ (یاد رہے کہ صدقات ، تمام عمومی تصورات کے برعکس، دراصل حکومت کو حاصل ہونے والے ٹیکس/محاصل کی آمدنی کو کہا جاتا ہے) ۔
جاری ہے،،،،،،(4)
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔(4)
٭ آیت 3/130 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :- - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً !!!
ما قبل کے تراجم:
اُستادِ محترم علامہ پرویز: "سود مت کھاؤ ۔ تم سمجھتے ہو کہ اس سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس سے قومی سرمایہ میں کمی ہوتی ہے (دیکھیے عنوان ض-ع-ف)"۔
جالندہری : "اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ " ۔
تبصرہ :- یہاں آپ دیکھیں گے کہ جہاں تک کہ اصطلاح ۔۔" أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً " کی تعبیر کی گئی ہے درج بالا دونوں تراجم باہم متضاد و متخالف ہیں ۔ کس کو درست مانا جائے؟۔۔ یہ ایک ا لگ سوال ہے ۔۔۔ البتہ "الربا" کو دونوں حضرات نے "سود" کہا جو متعلقہ مادے کے بنیادی معانی کی رُو سے مستند تعبیر نہیں ہے ۔اس لیے کہ یہ نہ تو اس کا مستند معنی ہے اور نہ ہی یہاں کسی قرض کے لینے/دینے کا پسِ منظر بیان کیا گیا جس کے تناظر میں اسے سُود کہا جا سکے !!!
جبکہ اس آیت کا قرینِ عقل ، اور تمام اقسام کی تجارتوں پر محیط، ترجمہ کچھ اس طرح باور ہوتا ہے : -
"اے ایمان والو، تم ایسا ناحق اضافہ/منافع (الربا) مت حاصل کیا کرو جو مالوں میں دوگنا، چوگنا اضافہ کرتا ہو ۔" - - - - یاد رہے کہ "اضعافا" مضاعفۃ" کی اصطلاح متعلقہ سیاق و سباق میں ضعف، یعنی کمزوری یا کمی کا معنی نہیں دیتی۔ یہ امر آیت 30/39 کے ترجمے میں لفظ "مضعفون" کے تحت ملاحظہ فرما لیں، جہاں سے ثابت ہے کہ اسکا معنی بڑھنا ہے۔ نیز مزید ثبوت کے لیے دیکھیے آیت 2/261 : وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ ۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے کئی گنا اضافہ عطا کرتا ہے ۔
یعنی "الربا" وہ خاص بڑھوتری/اضافہ/منافع ہے جو اموال کو ملٹی پلائی کر دے ۔ یعنی ان میں بے حد و حساب اضافہ کر کے دولت کا ارتکاز پیدا کر دے، جسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔یہاں کسی قرضے کا ،،، یا اس پر لاگو ہونے والے کسی "سود" کا،،،، ذکر ہی نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یا قانون معیشت اور تجارت کے ہر شعبے کا احاطہ کر رہا ہے۔
٭ آیت مبارکہ 2/275 : الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ
قدیمی ترجمہ:
جالندہری : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اُٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کےلحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سَودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔
تبصرہ: انتہائی محرف شدہ ، غیر معیاری اور عامیانہ ترجمہ ہے ۔ جگہ جگہ اپنی جانب سے بریکٹوں میں الفاظ اس لیے بڑھا دیے گئے ہیں کہ ترجمہ کی بے ربطی کو بہتر کیا جا سکے،،، جب کہ اللہ کے کلام میں تحریف یا اضافہ ایک جرم ہے ۔ یہاں بھی "سُود" کو بے جا اور بغیر جواز داخل کر دیا گیا ہے، تاکہ ایک غلط العام کو مستقل حیثیت دے کر قرآن کو مسخ کرنے کی کوشش جاری رکھی جا سکے ۔ یعنی وہی الربا، ،،،یعنی بلا حدود منافع،،،صرف سُود ہی کھانے والے کے لیے مخصوص کر لیا گیا ہے ،،،اور سارا نزلہ اُسی پر گرا دیا گیا ہے۔ اور اس طرح عمومی ناجائز منافع کو صرف سُود کی شکل دے کر، اور جزوی طور پر صرف ایک سُودی کاروبار پر لاگو کر کے،،،، باقی تمام تجارتوں میں لیا جانے والا ناجائز اور بلا حدود منافع نظر انداز کر دیا گیا ہے!!!۔۔ نیز ترجمہ کا بازاری پن دیکھیں کہ ہر جگہ "یاکلون" کو لینے اور حاصل کرنے کے حقیقی معانی کی بجائے "کھانا" کہا جا رہا ہے، گویا کہ سُود یا منافع مال یا روپیہ نہیں جو کمایا یا "حاصل کیا" جا رہا ہے،،،بلکہ کھانے کی کوئی ڈش ہے جسے "کھایا" جا رہا ہے !!!
قرینِ عقل ، مستند علمی ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :-
"جو لوگ ناجائز/بلا حدود، دگنا چوگنا منافع (الربا) حاصل کرتے ہیں اُن کامقام اُس شخص کی مانند ہو جاتا ہے جس کی عقل کو اللہ کے احکامات سے سرکشی (الشَّيْطَانُ )کے اثرات نے (من المس) خبط کر لیا ہو۔ یہ خبط اس طرح سامنے آ جاتا ہے(ذلک) کہ ایسے اشخاص یہ کہنے لگ جاتے ہیں (بانھم قالوا) کہ تجارت (البیع) بھی بلا حدود منافع (الربا) کمانے ہی کی مثل یا اس ہی کی دوسری شکل ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی تجارت (البیع) کو تو جائز قرار دیتا ہے لیکن اُس کے ذریعے ناجائز یا بلا حدود منافع حاصل کرنے (الربا) کو حرام قرار دیتا ہے"۔
امیدِ واثق ہے کہ بات بالکل واضح ہو گئی ہوگی۔
جاری ہے،،،،،،،،(5)
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔( اختتامیہ)
٭ آیت 2/278: یا ایہا الذین آمنو اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾
قدیمی تراجم:
جالندہری: مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔اگر ایسا نہ کروگے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کر لوگے (اور سود چھوڑ دوگے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمیارا نقصان۔
علامہ پرویز: اے جماعتِ مومنین اللہ کے قانون کی نگہداشت کرو اور جو کچھ حصہ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اس سے ثابت ہوگا کہ تم سچے ایمان والے ہو۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو حکومتِ الٰہیہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار رہو۔ اگر تم سود چھوڑ دو اور صرف اپنے اصل سرمایے پر دعویٰ رکھو تو یہ خود تمہارے لیے اور تمہارے قرض دار کے لیے بہتر ہوگا۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہوگی ۔ (ایکسپوزیشن آف دی ہولی قرآن)
تبصرہ :- اگرچہ استادِ محترم کا ترجمہ دیگر کی نسبت ترقی یافتہ ہے لیکن یہاں بھی آپ ۔۔الربا۔۔ کا معنی سود ہی نوٹ فرمائیں گے جو بنیادی طور پر قدیم سے چلی آرہی ملاوٹ پر مبنی ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ سود کے معنی کا جواز دینے کے لیے یہاں مترجم نے خودکو مجبور پایا ہے کہ اپنے ہاں سے "قرض داری" کی اختراع پیدا کرے ۔ حالانکہ آیتِ مبارکہ میں کہیں بھی کسی قرض یا قرض داری کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ کیا ہم اسے بھی ملاوٹ یا تحریف کہنے پر مجبور نہیں ہیں؟؟؟
قرین عقل، مستند ترجمہ:-
"اے اہلِ امن و ایمان ،تم سب اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرو اور اگر تم مومنین ہو تو " وہ ناجائز منافع خوری" جو مال کو دگنا چوگنا کر دے (الرِّبَا) اگر اب بھی جاری ہو (مَا بَقِيَ ) تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکو (ذَرُوا )۔ بہر حال اگر تم ایسا نہ کروگے تو پھر حکومتِ الٰہیہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دو۔ لیکن اگر تم اس روش سے باز آ جاؤ تو تمہارا حق صرف تمہاری سرمایہ کاری کی زیادہ سے زیادہ مروجہ قیمت /ویلیو/قدر (رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ) پر ہے ۔ اس طرح نہ تو تم ظلم کا ارتکاب کرتے ہو، اور نہ ہی تم پر کوئی ظلم کرتا ہے"۔ ( کیونکہ اصطلاح راس المال کے معنی سے بہت سے قارئین ناواقف ہوں گے اس لیے یہاں وضاحت کے لیے عرض کر دیا جائے،،،،،،، کہ راس المال آپ کے روپے کی وہ قیمت ہوتی ہے جس سے کوئی بھی جنس، جسے تبادلے کا ایک بنیادی معیار مقرر کر دیا جائے، زیادہ سے زیادہ خریدی جا سکتی ہو ۔ ایسا تبادلے کا معیار سونا بھی مقرر کیا جا سکتا ہے، پٹرول بھی، اور گندم وغیرہ بھی)
٭ آیت 4/161 : وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ
قدیمی تراجم :-
جالندہری: اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے۔
علامہ اسد:- اور وہ سُود لیتے تھے جب کہ یہ ان پر منع کیا گیا تھا، اور وہ لوگوں کے اموال ناجائز کھا جاتے تھے۔
علامہ پرویز: ان کی غلط روش میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سود لیتے تھے جو کہ منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے اموال ناجائز حربے استعمال کرتے ہوئے کھا جاتے تھے۔
قرینِ عقل اور مستند ترجمہ:- (جو تمام اقسام کی تجارت اور خدمات کا احاطہ کرتاہے)
۔۔۔اور وہ ناجائز منافع خوری کے ذریعے بھی اپنی دولت دوگنا چوگنا (الربا) کر لیا کرتے تھے جبکہ انہیں اس سے روکا گیا تھا،،،، اور اس طرح وہ باطل حربےاستعمال کر کے لوگوں کےمال بٹور لیا کرتے تھے۔
قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر29
قرآنی سود (ربا)۔۔۔۔۔ اختتامیہ
قارئینِ کرام، یہاں تک ہم نے زیادہ تر متعلقہ آیات کا احاطہ کر لیا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ بات دراصل بالکل صاف ہے۔ عہدِ ملوکیت میں زمام کار کیونکہ مطلق العنان سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں آ چکی تھی اور اپنے ناجائز قبضے کا جواز دینے کے لیے قرآن کے معانی کو بڑے پیمانے پر کرپٹ کیا جا رہا تھا، اسی لیے قرآن کے اس خاص تھیم کو بھی گستاخ ہاتھوں کے ذریعے دست بُرد کا نشانہ بنایا گیا۔ معیشت کے میدان میں ناجائز لُوٹ مار کرنے والوں کو بچانے کے لیے کرپٹ تجارتی طریق کار کی تمام شاخوں کو تحفظ دیتے ہوئے، قرآنی احکام کا رُخ صرف ایک شعبے، یعنی سودی تجارت کی جانب بلا جواز موڑ دیا گیا۔ حالانکہ سُود کا سوال تو وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں کسی قرض کے لین دین کا ذکر یا سیاق و سباق ہو۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ ربا کے تمام احکامات کسی بھی قرض کے لین دین سے متعلق نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تمام تجارتی کاروائیوں میں ناجائز طریق ہائے کار استعمال کر کے دولت میں بے تحاشا اضافے کو منع کیا جا رہا ہے۔
ضمنی طور پر یہ بھی ریکارڈ میں لے آیا جائے کہ قرض کے موضوع کو البتہ اللہ تعالیٰ نے، نظر انداز نہ کرتے ہوئے، آیت 2/282 میں ایک سُود سے بالکل علیحدہ عنوان کے طور پر "دَین" کہ کر واضح فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کے معنی کا ایک گہرا مطالعہ یہ ثابت کر دے گا کہ یہاں صرف قرض کے لین دین کو ایک ضابطے یا قاعدے کے تحت لایا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ قرض کے معاملے کو خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اُس کی تمام مقرر کردہ شرائط کے ساتھ تحریر کی قید میں لازمی طور پر لے آیا جائے اور دو معتبرشہادتیں بھی شامل کر لی جائیں۔ نوٹ کرنے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں خاص قرض کے موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی کسی سُود کا ذکر نہیں کیا گیا۔
دنیا اپنی معلوم تاریخ کے دورانیے میں تقریبا" اذل سے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہی ہے، جو ہر قسم کے ظالمانہ استحصال اور سلب و نہب سے عبارت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اُس ذاتِ پاک کے رسول ہمیشہ اسی ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے خلاف بھیجے جاتے رہے ہیں۔ سود بذاتِ خود بھی اُسی ظالمانہ سرمایہ داری نظام کا صرف ایک کَل پُرزہ (Tool) ہوا کرتا ہے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جہاں بھی بڑی بڑی رقوم کا ارتکاز ہو گا وہاں سے ہی ہمیشہ ہر قسم کا مالیاتی استحصال کیا جائے گا۔ قرضے بھی جاری ہوں گے اور سوُد کے ذریعےبھی پیسہ کمایا جائیگا۔ قرآن اپنی دُور رَس حکمت کے ذریعے ان بڑی رقوم کے ارتکاز کے بنیادی سبب کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تاکہ سرمایہ داری کا قیام ہی ممکن نہ ہو سکے،،،،،، اور روپیہ اتنا طاقتور ہونے ہی نہ پائے کہ مارکیٹوں کو اور انسانوں کو اپنی حریصانہ دَست برد کی زد میں لے آئے۔ یہ بھی ذکر کر دیا جائے کہ اِسی ظالمانہ نظام کے تحت بڑی رقوم کا ارتکاز بے شمار دیگر کل پرزے پیدا کرتا ہے جن میں بنکنگ کا نظام، بڑی صنعتی کارپوریشنیں ، بڑی اجارہ دارانہ تجارتیں، سٹاک مارکیٹیں، کرنسی ، اجناس اور دھاتوں کی قیمتوں پر سٹہ بازیوں (Speculation) کی مارکیٹیں ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اللہ کے ربا کے حوالے سے احکامات سرمایہ داری نظام کو بحیثیت مجموعی زد میں لاتے ہیں اور اس نظام کے فروغ کی حوصلہ شکنی کرنے کا مقصد رکھتے ہیں ۔اور اسی لیے وسیع پیمانے پر ظالمانہ سرمایہ داری نظام کو اس کے تمام شعبوں اور شکلوں کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں۔یہاں اسی لیے دولت کے ارتکاز کو حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ سرمایہ دار استحصالی قوت حاصل نہ کرنے پائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے برعکس مسلمان کی تنگ نظری کے باعث ہمارے سکالرز کی فرسودہ سوچ یہ رہی ہے،،،کہ صرف ایک سُود کو پکڑ لیا ہے اور سرمایہ داری نظام کے دیگر تمام کَل پُرزوں کو حلال و جائز قرار دے کر مطمئن ہو گئے ہیں کہ اللہ کے احکامات کی فرماں برداری کی جارہی ہے۔
پس قرآن میں لفظ "ربا " یا " الربا" سے مراد سود (Interest or Usury) لینا کوئی لغوی اور شعوری جواز نہیں رکھتا۔ تفاسیر اور تفاسیری تراجم کے ذریعے ہمیں اور دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک مذموم کو شش کی گئی ہے۔ قرآن تو اس موضوع پر دراصل انسانیت کی فلاح کے ضمن میں ہمیں ہماری مجموعی تجارتی لین دین میں ہر قسم کی بدعنوانی اور دولت کی پاگلانہ حرص و طمع سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ہے، تاکہ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز عوام کے لیے سلب و نہب کا باعث نہ بنے۔اس ضمن میں آیت 9/34-35 میں باری تعالیٰ کا فرمان بڑا واضح، حتمی اور عبرت آموز ہے :- وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ -----"جو لوگ سونا اور چاندی، یعنی مال و دولت کے خزانےذخیرہ کرتے رہتے ہیں (اکتناز-ارتکاز) اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر تے انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔ اُس دن کی بشارت دے دو جب یہی ذخیرہ کی ہوئی دولت جہنم کی آگ میں گرم کی جائیگی اور ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پُشتیں اس سے داغی جائیں گی۔ اور کہا جائیگا کہ یہ ہیں وہ خزانے جو تم اپنی ذات کے لیے ذخیرہ کرتے تھے، اب ان کا ذائقہ چکھو"۔(علامہ اسد)۔
والسلام۔